06/08/2025
تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر قسط نمبر چوہدویں
--------------------------------
کس سے پوچھ کر جوان ، جہان لڑکے کو کرائے پر رکھا ہے تم نے۔۔۔؟ؕ
فائقہ نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا شوہر کی غصیلی آواز نے ان کے قدم روک دئے۔۔۔۔
لو بھلا اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے ، اس بارے میں ہماری بات تو ہوئی تھی نا۔۔۔۔"
ہاں ہوئی تھی میں کب انکار کررہا ہوں، مگر یہ نہیں کہا تھا کہ تم ایک نوجوان کو کرائے پر دے دو۔۔۔۔"
وہ ان کی بات پر خاصے اکھڑے لہجے میں بولے۔۔۔۔
بڑے سادہ بچےہیں ایسے ہی کسی کو نہیں رکھ لیا میں نے خوب چھان پھٹک کر ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔۔'
وہ جھوٹ ، سچ کی امیزش ملا کر انھیں قائل کرنے والے لہجے میں پرزور بولیں۔۔۔۔
کیوں یہ تم
اتنے یقین سےکیسے کہہ سکتی ہو؟؟؟
بس ہے مجھے یقین ایک نظر میں انسان کو پہچان لیتی ہوں ؕ۔۔۔ "
وہ اپنے سامنے یوں بھی کسی کی چلنے نہیں دیتیں تھیں۔۔۔
مجھے کچھ نہیں سننا ، تم ابھی کے ابھی انھیں جانے کا کہو گی۔۔۔"
اس بار وہ بھی بات پر اڑھ گئے۔۔"
اے ہے،، ایسے کیسے کہہ دوں میں ایڈوانس رقم لے چکی ہوں اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔"
وہ ہاتھ اٹھا کر بات ختم کرتے ہوئے بولیں۔۔۔
کتنی رقم لی ہے؟؟
پورے پانچ ہزار۔۔"
چہرے کی کھلکھلا ہٹ حد سے سوا تھی۔۔
یہ لو دے کر آؤ، اور جانے کا بھی کہہ دینا۔۔۔"
وہ ان کے ہتھیلی پر نیلے، نیلے نوٹ رکھ کر چلے گئے۔۔۔۔جبکہ وہ انھیں جاتا دیکھتی رہیں۔۔۔۔
دو پیسے آرہے ہیں وہ بھی برداشت نہیں ہیں اس آدمی کو،
وہ تنفر سے بڑبڑانے لگیں۔۔۔
پھپھو ، پھپھا صحیح کہہ رہے ہیں آپ انھیں جانے کا کہہ دیں۔۔"
وہ ان کو چاۓ کا کپ دیتے ہوۓ نرمی سے کہنے لگی۔۔۔
کیوں ملکہ عالیہ اب آپ کو ان سے کیا پرخاش ہے؟؟
وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر ہتھے سے اکھڑتے ہوۓ بولیں۔۔
نہ نہیں پھپھا ناراض ہورہے ہیں نا اس لیے۔۔"
نور العین ان کے خطرناک تیور دیکھ کر گڑبڑا بولی۔۔۔
تو ہونے دے ، مجھے پرواہ نہیں، تو مجھے دعوت کی چیزیں بتا بازار سے لیکر آؤں گی۔۔۔"
وہ ہاتھ جھلا کر بے پرواہی سے بولیں۔۔۔۔
کون سی دعوت۔۔۔؟؟
تیرے تایا تائی آرہے ہیں اس جمعے۔۔"
وہ کیوں۔۔'
ارے کیوں کا کیا مطلب ہے مجھ سے ملنے آرہے ہیں ، اور مجھے لگتا ہے لگے ہاتھوں رانی کے رشتے کی بات کرنا ہوگی۔۔۔"
یہ تو اچھی بات ہے پھپھو پھر ہم کھانے میں روایتی دشوں کے علاوہ چائینز وغیرہ کا انتطام بھی کرلیں گے۔۔۔۔"
نور خوش ہوتے ہوۓ بولی۔۔۔
ہاں تو کھانا بنانا جانتی ہے ، اس لیے یہ ذمہ داری تیری ہے۔۔۔"
ٹھیک ہے پھپھو۔۔"
میں دیکھ کر بتاتی ہوں کیا کیا چیزیں آئیں گی بازار سے۔۔۔"
وہ واپس کچن میں جا گھسی۔۔۔۔
ہاتھوں میں روانی در آئی تھی۔۔۔۔
بحریہ ٹاؤن میں سیاحوں کا رش لگا ہوا تھا۔۔۔۔
دل بھر تھکے ہارے لوگ یہاں آکر اپنی تھکن اتارتے تھے۔۔۔،کچھ دوری پر بنے بنگلے کے مکینوں میں سرد سی جنگ چھڑی محسوس ہوئی۔۔
زین کو سو فیصد یقین تھا کہ کوئی اس کا ساتھ دے نا دے ، مگر ابو ضرور دیں گے۔۔۔،
قسمت کا لکھا تھا کہ وہ یہاں بیوی کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔۔۔۔۔
زین ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔۔۔ اس نے اپنے اور نور کے سنگ کئی خوابو۔ کے گھر سجا ڈالے تھے۔۔۔، وہ اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی ہلنے کو تیار نا تھا ۔۔۔
مگر یہ بات ان دونوں میاں بیوی کو سمجھانا انتہائی مشکل کام ثابت ہورہا تھا۔۔۔۔۔
دیکھو نور العین میری بھتیجی ہے ، میرے عزیز ترین بھائی کی اکلوتی نشانی ہے۔۔۔، مجھ سے بہتر کون چاہے گا کہ وہ ہمیشہ یہاں میرے پاس آکر رہنے لگ جائے۔۔۔ مگر تمہارے ساتھ منسوب کرنے کا میں ہر گزنہیں سوچوں گا۔۔۔"
وجہ تم اچھی طرح جانتے ہو وہ پڑھی لکھی نہیں ہے۔۔۔"
نادر صاحب نے نرمی سے بات شروع کی۔۔۔۔
ان کے پہلو میں بیٹھی بیگم قدرے پرسکون دکھائی دیں۔۔۔۔
مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا ابو۔۔۔۔"
زین نے جرح کی۔۔۔
ابھی نہیں پڑتا بعد میں پڑے گا۔۔۔۔"
بعد میں بھی نہیں پڑے گا مجھے یقین ہے۔۔۔"
ان کی بات پر وہ پختہ لہجے میں بولا۔۔۔
اک بوجھل سانس خارج کرکے انھوں نے زین کو دیکھا۔۔۔
تم جلد بازی میں غلط قدم اٹھانے جارہے،۔ہو محبت ساری زندگی کا درد سر نہیں ہے، انڈر اسٹینڈنگ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔۔"
میں مینیج کرلوں گا ابو۔۔۔۔۔"
زین کی ضد بھری دھونس پر افسوس سے نفی میں سر ہلاتے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔
زین نے ماں کو دیکھا جن کے چہرے پر ناراضی واضح جھلک رہی تھی۔۔۔۔۔
ایک بار شادی ہوجائے میں آپ دونوں کی امیدوں پر پورا اتروں گا، بس نور العین میرے نام سے منسوب ہوجائے، تمام خواب حقیقت کا روپ دھار لیں۔۔۔۔۔ بس!!!
وہ مسلسل مسکراتا خود کو منزل کے قریب سمجھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ریحان انگشت شہادت پر بائیک کی چابی گھماتا اندر داخل ہوا پہلا سامنا رانی سے ہوا۔۔۔
اسے دیکھ کر غیر ارادی طور پر قدموں کو بریک لگایا۔ ۔
رانی ارد گرد کتابیں پھیلا رجسٹر چہرے کے اگے کئے رٹہ لگانے میں مصروف تھی۔۔۔
جیسے ہی منہ کے اگے سے رجسٹر ہٹایا تو رانی چونکی۔۔۔
کیا چاہیئے۔۔ ؟؟؟
اسے دیکھ کر خوامخواہ ہے تپتے ہوئے لہجے میں بولی۔۔۔
نجانے رانی کو اسے دیکھ کر پارہ ہائی کیوں ہونے لگتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
جواب۔۔۔؟؟؟
وہ بھی ڈھیٹوں کا سردار بنے جم کر کھڑا سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔
کس سوال کا۔۔۔؟؟؟
آپ کے خفا اور اکھڑے انداز کی وجہ کا؟؟
رانی نے اس کے سوال پر لب بھینچے۔۔۔۔
بالوں کا جوڑا بنائے، پین درمیان میں اڑسایا ہوا، کندھے پر پرنٹڈ جارجٹ ڈوپٹہ پھیلا ہوا تھا۔۔۔۔
آپ کو کسی اور سے سوالات پوچھنے چاہئیے مجھ میں اتنا انٹریسٹ کیوں لے رہے ہیں میری مرضی میں چاہے جیسے بات کروں۔۔۔ "
حد ہی ہوگئی تھی نکاح کسی اور سے، اور فلٹرنگ کسی سے۔۔۔۔
ہنوں۔۔۔!!!
وہ سوچ کر نحوت سے جھٹک گئی۔۔۔
کسی اور سے کس سے پوچھنے چاہیئے۔۔ ۔؟؟۔ریحان کے براہ راست پوچھنے پر رانی لب دانتوں میں دبا گئی۔۔۔۔۔
بولیں۔۔۔؟؟؟
وہ اسے کے چہرے پر نظریں گڑائے کھڑا تھا، جب اماں صحن میں نکل آئیں۔۔۔
اسلام و علیکم آنٹی۔۔۔؟؟
انھیں دیکھ کر الف کی طرح سیدھا ہوا۔۔۔
رانی نے بے ساختہ امڈتی ہنسی کو دبایا۔۔۔
وسلام۔۔۔۔ کتنے دنوں بعد آئے ہو کہاں ہوتے ہو؟؟؟
اماں کو تو عادت تھی بات پہ بات نکالنے کی۔۔۔ وہ اپنا تخت پر بکھرا سامان سمیٹنے لگی۔۔۔
میں یہاں کم ہی ہوتا ہوں میری ڈیوٹی چھاؤنی کے علاقے کے قریب لگتی ہے اس لئے ہفتے ، ہفتے میں ہی آتا جاتا ہوں۔۔۔۔"
وہ تفصیلاً بتانے لگا۔۔۔ رانی نے خاموشی سے اپنا سامان اٹھائے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔۔۔
قریباً دس منٹ بعد وہ مرتسم کے پاس بالائی کمرے میں چلا آیا۔۔۔۔۔
کیپٹن آپ کی والدہ نے آپ کو گھر آنے کا کہا ہے۔۔۔۔۔"
سعد سے ملے تھے۔۔۔۔؟؟
ریحان نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
سعد نے بتادیا۔۔۔۔؟؟
نہیں وہ کیوں بتائے گا۔۔۔۔"
مگر وہ زیادہ دیر تک چھپا بھی سکے گا۔۔۔۔۔"
تو اس کا مطلب ہے آپ نے بھابھی کو منا لیا۔۔۔۔؟؟؟
بات نہیں ہوسکی۔۔۔۔"
مرتسم نگاہیں چرا کر بولا۔۔۔۔۔۔
واٹ۔۔۔۔؟؟
ایک ہفتہ۔۔۔۔، ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے کیپٹن آپ کی کوئی بھی بات نہیں ہوئی۔۔۔۔؟؟
وہ متحیر سا بولا۔۔۔۔
مرتسم کی خاموشی پر ریحان سنبھلا۔۔۔
ریحان پرسوچ انداز میں چہل قدمی میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔۔
وہ سیڑھیوں کی ریلنگ سے جھانکتے ہوئے نیچے کا جائزہ لینے لگا۔۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد فائقہ اپنے شوہر کے ہمراہ گیٹ سے باہر نکلی، انہوں نے نور کو چٹخنی چڑھاتے دیکھا۔۔
کچن میں کھڑی رانی کی نگاہ ریحان کی جانب پڑی۔۔۔
ریحان کے اشارے پر اس کا ماتھا ٹھنکا۔۔۔
واہیات انسان مجھے اشارے کررہا ہے کیسا ذلیل کیپٹن ہے ابھی دماغ درست کرتی ہوں۔۔۔"
وہ لمحوں میں غصے میں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اس کے پاس پہنچی۔۔۔
یہ کن اوچھی حرکتوں پر اتر آئے ہو تم کیپٹن ہوکر اشارے بازی تمھیں زیب نہیں دیتی۔۔۔۔"
رانی کے کھری، کھری سنانے پر ریحان سکتے میں آگیا۔۔۔
محترمہ اپنی زبان کو ذرا بریک لگائیں۔۔۔، نورالعین نے بات کرنی ہے اسے چھت پر بھیجیں۔۔۔۔"
وہ ماتھے پر بل ڈالے کرختگی سے بولا۔۔۔
وہ رانی کا جواب سنے بغیر اوپری جانب چلا گیا۔۔۔۔
جبکہ وہ اسے گھور کر ذریعے اترتی کمرے میں چلی آئی ۔۔۔ جہاں نور صفائی کرتی ہوئی ف
دِکھائی دی۔۔۔
چلو۔۔۔؟؟
کہاں۔۔۔"
وہ مرتسم تم سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔"
رانی کا موڈ ہنوز خراب تھا۔۔۔
میں مل کر کیا کہوں گی۔۔ ؟؟
آزادی مانگو گی، وہ ہر گز بھی تمہارے لائق نہیں ہے ، لفنگا کہیں کا،"۔
لفنگا کیوں کہہ رہی ہو۔۔۔۔؟؟
نور العین اس کے لب و لہجے پر آہستگی سے بولی۔۔۔۔
چلو ابھی بتاتی ہوں۔۔۔۔"
وہ اس کا بازو پکڑ کر کھینچتی ہوئی اپنے ساتھ لے گئی۔۔۔۔
____________________
جاری ہے :-