
30/09/2025
ناولٹ اندھیروں کا سفر
از : سیدہ جویریہ شبیر
چوتھی قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گاڑی ہموار رفتار سے مین شاہراہ سے نکل کر گاؤں کے کچے پکے راستوں پر چل نکلی۔
ونڈ اسکرین کے اُس پار نظر دوڑائیں تو جہاں تک نگاہ جاتی، سبز کھیتوں کی چادر زمین کو ڈھانپے ہوئے تھی۔ کسانوں کی محنت رنگ لا چکی تھی۔ تازہ پکی گندم کی خوشبو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آ کر نتھنوں سے ٹکرائی تو نویرہ جیسے لمحہ بھر میں بچپن کی دنیا میں لوٹ گئی۔
یہی کچے راستے۔۔۔ یہی کھیت۔۔۔ یہی پگڈنڈیاں۔۔۔ جن پر وہ بے فکری کے دنوں میں سیر کیا کرتی تھی۔
پھل توڑنا، پھول چننا اور پھر مالی بابا کو ضد کر کے تنگ کرنا۔۔۔ یہ سب یادیں آنکھوں میں نمی بھر گئیں۔
وہ ان راستوں پر طویل عرصے بعد سفر کررہی تھی۔۔۔۔
بابل کا آنگن کیا چھوٹا، وہ حویلی میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔
خاموشی سے ڈرائیو کرتے چوہدری اظہر نے گردن ترچھی کرکے گم سم بیٹھی نویرہ کو دیکھا:
کندھے پر ڈلی براؤن چادر، سر پہ جما، سوٹ کے ہمر رنگ ڈوپٹہ، وہ بے حد سادہ دیکھائی دی۔۔۔۔
مجھے کچھ کہنا تھا آپ سے۔۔۔؟؟
گاڑی میں چھائی خاموشی کو نویرہ کی جھجھکتی آواز نے یک لخت توڑ ڈالا۔۔۔
"ہمم۔۔۔ سن رہا ہوں۔۔۔"
وہ مصروف سا بے نیاز انداز میں گویا ہوا۔۔۔۔۔
رات کو کون آیا تھا زمینوں پر۔۔۔۔۔؟؟
اس نے ذرا کی ذرا نگاہ اٹھا کر چوہدری اظہر کے چہرے پر نگاہیں ڈالیں۔۔۔۔
اظہر کا چہرہ سپاٹ اور سنجیدہ تھا، گویا کوئی تاثر ہی نہ رکھتا ہو۔ لمحہ بھر رکنے کے بعد وہ بولا:
"سہانا شاہ۔۔۔"
یہ نام سنتے ہی نویرہ کا دل جیسے دھک سے رہ گیا۔ وہ گھبراہٹ میں اس کی طرف دیکھنے لگی۔
"دیکھئے وہ نا سمجھ، کم عمر لڑکی ہے۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ یقیناً سیر و تفریح کی غرض سے ہی وہاں آئی ہوگی اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوگا اس کا۔۔۔۔۔۔"
نویرہ نے جلدی جلدی بات مکمل کی۔۔۔۔
جیسے اسے کسی بات کا خدشہ ہو۔۔۔۔
"وہ بہت بہادر اور سمجھ دار ہے تم نے اسے جج کرنے میں غلطی کی ہے۔۔۔۔"
چوہدری اظہر کی بات پر نویرہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑھ گئے۔۔۔۔
"نہیں۔۔ نہیں۔۔، اس کا دونوں خاندانوں کے آپسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ تو کچھ ہی سال پہلے شہر سے پڑھ کر آئی ہے۔۔۔ آپ اسے غلط مت سمجھیں۔۔۔۔۔"
اظہر نے متعجب انداز میں گردن گھمائی۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ مگر میں نے کب کہا کہ وہ غلط نیت سے آئی تھی؟
تو پھر آپ وہاں کیوں جارہے ہیں۔۔۔۔؟؟
نویرہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔۔
"ابا کے حکم کی تعمیل کررہا ہوں انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو شاہوں کی کوٹھی لے جاوں۔۔۔"
نویرہ نے لب بھینچ لئے۔۔۔۔
گاڑی کوٹھی کے احاطے میں داخل ہوئی۔ بڑے بڑے درختوں کی اوٹ میں حویلی اور بھی پرشکوہ دکھائی دے رہی تھی۔ دروازے پر نوکر کھڑے تھے۔۔۔
اس نے کوٹھی کی اونچی اونچی دیواروں کو حسرت سے دیکھا، جو دکھنے میں اونچیں مگر کتنے آزاد در و دیوار تھے باپ کے گھر کے۔۔۔۔!!!
دربانوں نے رکتی گاڑی کو پلٹ کر دیکھا تو حیران رہ گئے۔۔۔۔
نویرہ نے سیٹ بیلٹ کھولی اور اترنے ہی لگی تھی کہ اظہر کی بات پر گردن گھمائی۔۔۔۔۔
واپسی پر کسی کے بھی ساتھ آجانا میں نہیں آوں گا۔۔۔۔"
اظہر کی بے اعتنائی پر وہ لب بھینچے گاڑی سے اتر گئی۔۔۔۔
ہوا کے نرم جھونکوں نے اس کا آنچل چھوا تو جیسے بچپن کی صدائیں اس کے کانوں میں گونج اٹھیں۔ کوٹھی کے دروازے پر قدم رکھتے ہی نویرہ نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں۔۔۔
یہیں کبھی وہ ہنسی خوشی کھیلا کرتی تھی، مگر آج۔۔۔ آج وہ مہمان نہیں بلکہ قیدی کی طرح قدم رکھ رہی تھی۔
اندر سے سہانا شاہ کی بلند قہقہوں کی آواز ابھری۔
نویرہ کا دل لرز گیا۔۔۔
لڑکھڑاتے قدم کوٹھی کے اندر بڑھے تو تخت پر بیٹھیں اماں جی کی نظر اٹھی اور پلٹنا بھول گئی۔۔۔۔
دادو کو اپنی جانب دیکھتا پاکر وہ رک گئی۔۔۔۔
اے سہانا وہ دیکھ نویرہ جیسی لگتی ہے نا۔۔۔۔؟؟؟
اماں جی نے چشمے کو مزید آنکھوں سے چپکا کر کہا:
کیا دادو کہاں۔۔۔؟؟
وہ جو موبائل پر گیم کھیل رہی تھی، گردن اٹھا کر بولی۔۔
وہ وہاں دروازے کی جانب دیکھ نا۔۔۔۔؟؟؟
نویرہ کے قدم سست روی سے بڑھنے لگا۔۔۔
دادو وہ نویرہ اپو ہیں۔۔۔ وہ نویرہ اپو ہیں۔۔۔۔"
اسے خود بھی بے یقینی سی ہوئی۔۔۔
وہ موبائل چھوڑ کر اٹھی اور نویرہ کی جانب لپکی۔۔۔۔
نویرہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ، ٹپ برس رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
اپو آپ۔۔۔۔!!
مارے خوشی و حیرت کے اس سے فقرہ مکمل ہی نا کیا گیا۔۔۔۔
اوہ مائے ڈئیر اپو۔۔۔۔"
وہ ایک دم اس کے گلے سے لگی۔۔۔۔۔
چاچو، چچی، یہاں آئیں دیکھیں کون کون آیا ہے۔۔۔۔؟؟
وہ خوشی سے چیخی۔۔۔۔۔
میں بڑی چاچی کو بتاتی ہوں۔۔۔۔"
سہانا جوش سے کہتی سیڑھیاں چڑھ گئی۔۔۔۔
دادو۔۔۔!!
نویرہ فرط جذبات سے آگے بڑھی۔۔۔۔
کتنے عرصے بعد نویرہ۔۔۔!!!
تجھے ہم نے بیاہیا تھا بیچا تو نہیں تھا۔۔۔۔۔"
نویرہ لب سئے ان کے سینے سے لگی روتی رہی۔۔۔۔۔!!!
دادو میری دادو۔۔۔!!!
"چل اجا چل کر بیٹھتے ہیں۔۔۔۔"
بڑی چچی۔۔۔۔!!
وہ پکارتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر بڑھی۔۔۔۔
چچی جائے نماز پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہیں تھیں اسے یوں آتے دیکھ استفسار یہ لہجے میں بولیں۔۔۔
آرام سے بچے گر جاؤ گی۔۔۔۔"
بڑی چچی، وہ آئیں ہیں۔۔۔ آپ نیچے چلیں۔۔۔"۔
کون آیا ہے۔۔۔؟؟
اپو ، اپو آئیں ہیں۔۔۔۔ چچی۔۔۔ چلیں جلدی سے۔۔۔"
وہ کہتے ساتھ ان کا ہاتھ تھام کر اٹھاتی انھیں ساتھ لے جانے لگی۔۔۔۔۔
تو آج کیسے چلی آئی۔۔۔ ؟؟؟
دادو کے سوال پر وہ بس انھیں دیکھے گئی۔۔۔
یہ تو مجھے بھی نہیں پتا دادو،!!
لاعلمی سے کہنے پر دادو چونک اٹھیں۔۔۔
جھگڑا ہوا ہے تیرا اظہر سے۔۔۔۔؟؟؟
دادو نے رازداری برتی۔۔۔
کیسا جھگڑا دادو۔۔۔ بات برائے نام ہوتی ہے، جھگڑے کی تو نوبت ہی نہیں آتی۔۔۔۔"
وہ اداسی سے بولی۔۔۔۔
اتنے میں سیڑھیاں اترتیں ہوئیں، امی، اور سہانا دیکھائی دیں۔۔۔۔۔
جذباتی سیشن پانچ منٹ تک جاری رہا۔۔۔۔
دادو کی گہری نگاہوں نے نویرہ کے چہرے کا احاطہ کیا ہوا تھا۔۔۔
◇◇◇◇◇◇◇
تم اتنی رات گئے زمینوں پر کیوں گئیں تھیں سہانا؟؟؟؟
سہانا دھک سے رہ گئی۔۔۔
تو کیا بڑے چچا کا غصہ بے سبب نہیں تھا۔۔۔۔۔
چوہدریوں تک بات پہنچ گئی کیا۔۔۔۔؟؟؟
وہ اچھنبے سے پوچھنے لگی۔۔۔۔
ہاں اظہر نے دیکھ لیا تھا تمھیں۔۔ مگر ابا کو یہ بات سرداران سے پتا چلی صرف ابا نے ہی نہیں بلکہ مالی بابا نے بھی دیکھ لیا تھا۔۔۔"
تو کیا آپ اسی بات کے سبب یہاں بھیجی گئی ہیں اپو۔۔۔۔؟؟
مجھے نہیں پتا۔۔۔ مجھے ان سب باتوں سے لاعلم رکھا جارہا ہے۔۔۔۔"
نویرہ سر پکڑے بولی۔۔۔
آپ پریشان ہورہیں ہیں خوامخوہ، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ اور اگر ہوگی بھی تو مجھے ہینڈل کرنا آتا ہے۔۔۔۔"
اس کی بے نیازی پر نویرہ نے آنکھیں دکھائیں۔۔۔
"کوٹھی سے باہر کسی بھی مرد کو لئے بغیر نہیں جانا چاہیئے تھا تمھیں، تم کچھ نہیں کرسکتیں، عورت آخر کر ہی کیا سکتی ہے۔۔۔ یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔۔۔۔"
"ہمارا اپنا مقام اور حیثیت ہے، کم مائیگی، اور دباؤ کا شکار وہی عورت ہوتی ہے جو یہ سب برداشت کرکے سہتی رہتی ہے۔۔۔ صبر کرنا اچھی بات ہے، مگر ظلم پر صبر کرنا، غلط ہے۔۔۔ ظلم کے خلاف تو آواز اٹھانی چاہیئے۔۔۔۔۔"
"تم ایک عرصہ شہر کی فضاؤں میں سانس لیتی رہی ہو، اسی لئے تم جانتی نہیں ہو، ہر رشتہ کوئی نا کوئی قربانی مانگتا ہے، اگر آپ کے اندر رشتہ نبھانے کی اہلیت نہیں ہے، تو آپ تنہا رہ جائیں گے۔۔۔"
نویرہ کی بات پر سہانا نے سر جھٹکا۔۔۔۔
"رشتہ نبھانا خوبصورتی کی علامت ہے اپو مگر جو رشتے آپ کے خلوص اور عزت نفس کو دبا کر بنائے جائیں۔۔۔ تو کھوکھلے وجود کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔۔۔۔!!
نویرہ یک دم ہی مسکرا دی۔۔۔
"میری دعا ہے جب تم اپنی نئی دنیا میں قدم رکھو تو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں پڑے۔۔۔۔۔"
اپو آپ نے تو بحث ہی ختم کردی۔۔۔۔!!
وہ ہنس دی۔۔۔
ایک بات کا مجھے اندازہ ہوگیا ہے، آپ کا رشتہ جس سے جڑا ہے، وہ بلکل آپ کے قابل نہیں ہے۔۔۔۔۔"
نویرہ کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔۔۔!!
اظہر لاؤنج سے گزر کر اپنے کمرے میں جانے لگا تو چوہدری شجاعت نے اسے پکارا۔۔۔۔
چھوڑ آئے نویرہ کو۔۔۔۔؟؟؟
جی ابا۔۔۔۔"
بیٹھو یہاں اکر۔۔۔۔"
انہوں نے اسے وہیں کھڑے دیکھا تو بولے۔۔۔۔
نویرہ سے کچھ کہا تو نہیں تم نے۔۔۔؟؟
کیا کہنا تھا ابا۔۔۔؟؟
وہ موبائل استعمال کرتے ہوئے مصروف سا کہنے لگا۔۔۔۔۔
شاہوں کی جانب سے ہونے والی اس حرکت کو میں ہر گز بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔۔۔۔"
کیسی حرکت۔۔۔؟؟
اوہ وہ کوئی حرکت نہیں تھی ابا، اس بات کو مزید ہوا میں دیں۔۔۔"
شجاعت کے یوں دیکھنے پر وہ غیر سنجیدگی سے بولا۔۔۔
شجاعت کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، لیکن آنکھوں میں غصہ اور بے چینی چھپی ہوئی تھی۔
" اظہر۔۔۔ یہ جھگڑا برسوں پرانا ہے، اور اب پھر کوئی ہوا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ سہانا کی حرکت کو ہلکا مت لو۔۔۔ وہ شاہوں کی بیٹی ہے، ان کے خون میں سرکشی اور ضد شامل ہے۔"
اظہر کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا۔۔۔
سہانا" انھیں نام کس نے بتا دیا۔۔۔۔!
تم کیا سمجھتے ہو تم نہیں بولو گے تو مجھے پتا نہیں چلے گا۔۔۔!!
وہ تیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔
مجھے ایسا کچھ نہیں لگتا ابا آپ زیادہ سوچ رہے ہیں۔۔۔۔"
وہ ان کی بات کو خاطر میں لائے بغیر ان کے پاس سے اٹھ گیا۔۔۔۔!!
ذہن میں دھکڑ، پکڑ چلتی رہی۔۔۔ مالی بابا اس قدر نزدیک نہیں تھے، یہ کوئی اور ہی تھا جو خبری بنا ہوا تھا۔۔۔۔!!
وہ جس بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا تھا وہ بات واضح ہوئی تو اس کی سوچوں کے در وا ہوتے چلے گئے۔۔۔۔
کوٹ کی جیب میں رکھا لائٹر اور سگریٹ نکال کر وہ دیوار کھڑکی میں اکھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے:_