Syeda Jaweria Shabbir Offical

Syeda Jaweria Shabbir Offical Novels, Novelet, Afsana , Mukalma, and etc.......

اندھیروں کا سفر از قلم سیدہ جویریہ شبیر ناولٹ آٹھویں قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆شام ڈھلنے کو تھی — سورج جیسے تھکن سے نڈھال آسمان ک...
27/10/2025

اندھیروں کا سفر از قلم سیدہ جویریہ شبیر
ناولٹ آٹھویں قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام ڈھلنے کو تھی — سورج جیسے تھکن سے نڈھال آسمان کے کنارے جا ٹکا تھا۔
حویلی کے صحن میں سنّاٹا تھا، بس کبھی کبھار درختوں سے گرتے پتوں کی سرسراہٹ حزن سا پیدا کردیتی،
کمال الدین شاہ برآمدے میں کرسی ڈالے بیٹھے تھے، مگر ان کی آنکھیں کہیں دور خالی خلا میں گم تھیں۔
دادو نے ایک آہ بھری اور دھیرے نم پلکیں ہتھیلی سے رگڑ کر گویا ہوئیں۔۔۔
"شجاعت... اگر میری سہانا کسی مصیبت میں ہے تو خدا کا واسطہ، پہلے اسے ڈھونڈ لاؤ، باقی سب بعد میں دیکھ لینا..."
کمال الدین نے ان کی بے بسی پر سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں۔

بارہ گھنٹے، بیت چکے تھے ان دونوں کو غائب ہوئے، مگر ابھی تک ان کوئی سراغ نا مل سکا تھا۔۔

"اماں !، عزت ایک بار جاتی ہے تو لوٹ کر نہیں آتی… سہانا اگر غلطی کی ہے تو اس کا انجام اسے خود بھگتنا ہوگا۔"
دادو کے ہونٹ کپکپا اٹھے، مگر انہوں نے کچھ نہ کہا۔
ان کی نگاہیں سندس کے کمرے کی جانب اٹھیں جو ہنگامہ برپا کرکے اب دوائیوں کے زیر اثر بے ہوش پڑی تھی—

"بڑے چاچو مجھے حویلی جانا ہے۔۔۔۔"

جس چادر کو وجود سے لپیٹے وہ یہاں آئی تھی اسی چادر کو دوبارہ تن پہ اوڑھے وہ فیصلہ کن انداز میں بولی۔۔۔۔۔

بارہ گھنٹے سوچنے کیلئے بہت ہوتے ہیں۔۔۔وہ جانتی یہ مسئلہ بڑے چاچو کی دسترس سے کوسوں دور چلا گیا ہے۔۔۔ مگر اس کے پاس ایک امید تھی اظہر کی شکل میں ، اسے یقین تھا وہ اس کی سہانا کو ضرور ڈھونڈ لائے گا۔۔۔۔۔۔

تم جانتی ہو حویلی سے تمھیں کوئی لے جانے نہیں آیا۔۔۔!!

"ہاں اس بات کو تو میں نے گھنٹوں سوچا، مگر مجھے پتا ہے سہانا کی کھوج کون کرسکتا ہے، کون ہے جو اس معاملے میں ابو کی بھی نہیں سنے گا۔۔۔۔۔"

"ہاں نویرہ کا فیصلہ ٹھیک ہے میری بچی بے حد سمجھدار ہے میں شجاعت یہ وقت ناک اونچی کرنے کی نہیں ہے۔۔۔ میرا اکرام اور سہانا کہاں ہوں گے یہ شجاعت سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔۔۔۔"

دادو کی بات پر نویرہ کے چہرے پر اطمینان پھیلا۔۔۔۔۔

"جاؤ تم۔۔۔اللہ کی امان میں۔۔۔"

کمال الدین نے نویرہ کے سر پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔

وہ دادی سے دعائیں لیتی، پورچ میں کھڑی گاڑی کی جانب بڑھی۔۔۔۔ ڈرائیور اسے دیکھ کر تندہی سے بھاگا آیا۔۔۔
چوہدریوں کی حویلی لے چلو۔۔۔۔۔!!!
ڈرائیور سے کہتی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔
جی بی بی۔۔۔!!!

گاڑی تیزی سے سنسان سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔ شام اب رات میں بدل چکی تھی، آسمان پر بادلوں نے چاند کی کرنوں کو چھپا رکھا تھا۔ حویلی تک کا راستہ جیسے صدیوں پر محیط لگ رہا تھا۔ نویرہ کی نظریں مسلسل شیشے سے باہر ٹکی تھیں، مگر دل کے اندر ایک طوفان برپا تھا۔
"سہانا... تُو کہاں ہے؟"
وہ بےاختیار بڑبڑائی۔

کچھ ہی دیر میں گاڑی پورچ میں آکر رکی تو اتر کر اندر بڑھی۔۔۔۔

شومئی قسمت کے کوئی نا تھا اس پر طنز کے تیز چلانے کو۔۔۔ نجانے سب کہاں تھے، اچھا بھی تھا ویسے۔۔۔، ورنہ وہ اس پر اکیلے آنے کا جواز پوچھتیں اور جواب اس کے پاس نہیں تھا۔۔۔۔

چوہدری اظہر کو خبر دو مجھے ان سے ملاقات کرنی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟

اس نے پاس کھڑی ملازمہ کو حکم دیا تو وہ چلی گئی جبکہ وہ قطار در قطار بنے کمروں کو دیکھتی
انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔

ملازمہ کے قدموں کی چاپ مدھم ہوتی چلی گئی۔
نویرہ نے نگاہ بھر کر برآمدے کی طرف دیکھا — دیواروں پر لٹکے چراغ دھیرے دھیرے مدھم پڑنے لگے تھے، جیسے وہ بھی کسی اندیشے میں ہوں۔
ملازمہ کی مثبت واپسی پر وہ ہممت مجتمع کرتی اظہر کے کمرے کی طرف روانہ ہوئی۔۔۔۔

ہلکی سی دستک پر اجازت لیکر کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔

نسواری رنگ کے کرتے میں ملبوس سگریٹ سلگائے موبائل میں محو تھا اس کے اندر آتے ہی سر اونچا کرکے دیکھنے لگا۔۔۔

"نویرہ؟ تم یہاں؟"
آواز میں حیرت کے ساتھ ایک سرد سا اطمینان بھی تھا۔
نویرہ کے قدم غیر ارادی طور پر آگے بڑھے۔۔، در حقیقت اس کے نرم لہجے نے اسے آگے بات جاری رکھنے کی ہممت دی۔۔۔۔

وہ دو قدم آکر گھٹنوں کے بل بیٹھی۔ تو اظہر چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
اس کا یہ انداز اظہر کو ناگوار گزرا۔۔۔۔۔
یہ کیا حماقت ہے نویرہ۔۔۔۔!!
انتہائی درشتی سے کہا گیا۔۔۔
وہ خود بھی ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ مگر بات ہی اتنی حساس تھی کہ اسے ہر حال میں اظہر کو منانا تھا۔۔۔۔

"مجھے سہانا کو ڈھونڈنا ہے... اور آپ کے سوا کوئی نہیں جو یہ کرسکے۔"

وہ اس کے لہجے پر ہاتھ جوڑ کر بولی۔۔۔۔
اظہر کی صبیح پیشانی پر ان گنت بلوں کا اضافہ ہوا۔۔۔۔

کیا کہہ رہی ہو؟؟
سہانا کو ڈھونڈ کر لے آئیں، وہ اور اکرام چاچو فجر کے وقت سے لاپتہ ہیں، بڑے چاچو کا کہنا ہے وہ حویلی سے کوٹھی جانے کیلئے نکلے تھے مگر وہ نہیں آئے۔۔۔۔۔"

وہ رودی۔۔۔۔
اظہر کے سامنے اس کا ضبط جواب دے گیا۔۔۔۔۔
اظہر نے اسے بازووں سے تھام کر اٹھایا۔۔۔
سگریٹ ایش ٹرے میں رگڑ ڈالی۔۔۔

سہانا فجر سے لاپتہ ہے اور ابھی تک نہیں ملی۔۔۔!!
وہ پریشانی سے ماتھا مسلتے ہوئے بولا۔۔۔

اکرام چاچو بھی لاپتہ ہیں۔۔۔"
اس نے ٹکرا جوڑا۔۔۔۔

"تم اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔ دیکھتا ہوں میں مگر اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کرنا۔۔۔۔"

وہ گھمبیر انداز میں بولا۔۔۔۔
نویرہ وہاں سے اٹھی تو غیر مطمئن تھی۔۔۔۔ کیوں کہ تسلی بخش جواب اسے نہیں ملا تھا۔۔۔۔۔

نویرہ کے جاتے ہی وہ جلے پیر کی بلی بنے چکر کاٹنے لگا۔۔۔
پھر کچھ سوچ کر موبائل پر نمبر ڈائل کیا۔۔۔

کرم دین۔۔۔!!
جی مالک حکم۔۔؟
منشی کو اٹھوالو۔۔۔"
جی۔۔۔؟؟
دوسری طرف غیر یقینی سے کہا گیا۔۔۔
بہرے ہو، ؟
اظہر نے کرختگی سے کہا:
"نا مالک مگر منشی کو بڑے مالک کا خاص مشیر ہے۔۔۔۔"
ہاں اگلے گھنٹے میں تمھیں سرنگ خانے میں ملوں گا۔۔۔۔"

وہ اسے کہہ کر کال کاٹ گیا۔۔۔۔۔

اگلا قدم بغاوت سے معمور تھا۔۔۔

نجانے سہانا کو لیکر اس کا دل بے تاب کیوں تھا۔۔۔ وہ جلد سے جلد سہانا کو بازیاب کروانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

سہانا کیلئے اس کا دل الگ لے پر کیوں ڈھڑک رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔
وہ اپنی پستول لئے کمرے سے نکلا
۔۔۔۔

فلحال اسے سہانا کو ڈھونڈنا تھا۔۔۔۔
________________________

:-جاری ہے

ناولٹ اندھیروں کا سفر از قلم سیدہ جویریہ شبیر ساتویں قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆تنے ہوئے نقوش، اور  پیوستہ لب ان کے غم و گئے کا غم...
23/10/2025

ناولٹ اندھیروں کا سفر از قلم سیدہ جویریہ شبیر
ساتویں قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

تنے ہوئے نقوش، اور پیوستہ لب ان کے غم و گئے کا غماز تھے۔۔۔۔
اس نے خائف سی نگاہ چوہدری شجاعت پر ڈالی گویا ان کی اندرونی کیفیت جانچنا چاہ رہا ہو۔۔۔۔۔
چوہدری اظہر سے میں یہ ہی توقع رکھتا تھا، اس سمے، آنے کا مقصد بھی یہ ہی تھا۔۔۔۔
چلو لڑکی۔۔۔۔!!
وہ اپنے پیچھے کھڑے چادر میں چھپے سسکتے وجود سے بولے۔۔۔

وہ دونوں مردان خانے سے باہر نکلے ہی تھے کہ چوہدری شجاعت بپھرے انداز میں آگے بڑھے اور طمانچہ اظہر کے منہ پہ دے مارا۔۔۔
ہقہ بقہ اظہر گال پہ ہاتھ رکھے انھیں دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔
تھپڑ کی گونج اس قدر بلند تھی کہ مردان خانے کی چار دیواری سے باہر سنائی دی گئی۔۔۔۔۔

میں تمہاری یہ نافرمانی ہمیشہ یاد رکھوں گا۔۔۔۔"
شعلہ اگلتی آنکھیں بے یقین آنکھوں سے ٹکرائیں۔۔۔ یہ تصادم ہر گز بھی نظر انداز کرنے والا نا تھا۔۔۔۔۔
چوہدری شجاعت کے قدموں کی چاپ دور تک سنائی دے رہی تھی…
مگر اس چاپ میں اب ایک طوفان پنہاں تھا — ایسا طوفان جو نہ صرف دیواروں کو لرزا رہا تھا بلکہ دلوں کی بنیادیں بھی ہلا چکا تھا۔
اظہر کی آنکھوں میں چنگاریاں بجھنے سے انکاری تھیں، مگر زبان جیسے کسی انجانے خوف نے سی دی تھی۔
ہاتھ ابھی تک گال پر جمے تھے، جہاں تھپڑ کی گرمی اب بھی جل رہی تھی — شاید اس حرارت سے زیادہ دل کی تپش تیز تھی۔

اظہر اپنے کمرے میں بند، دیوار سے ٹیک لگائے، خود سے الجھ رہا تھا۔
“نافرمان…”
یہ لفظ بار بار کانوں میں گونجتا، جیسے ہر سانس کے ساتھ کوئی زنجیر جکڑ رہی ہو۔
مگر کہیں اندر، ایک ہلکی سی چنگاری تھی۔۔۔۔

نوخیز صبح کی سفیدی کوٹھی کی در و دیوار پر اتری ہوئی تھی۔۔۔۔
کمال الدین شاہ لڑکی کے ہمراہ اندر داخل ہوئے تو دادو کی
نظر پڑتے ہی وہ بے تابی سے بولیں۔۔۔۔

سہانا کہاں ہے کمال الدین۔۔۔۔؟؟؟
اور کمال الدین کو لگا کہ جیسے ان کے کان میں سائیں سائیں سی گونجی ہو۔۔۔
نویرہ بھاگ کر کمال الدین کے پاس گئی۔۔۔۔۔

بڑے چاچو سہانا آپ لوگوں کے پیچھے چوہدریوں کی حویلی تک گئی تھی آپ لوٹ آئے وہ کیوں نا آئی۔۔۔۔۔

منیزہ کے والدہ اسے لپٹ کر زارو قطار رونے لگیں۔۔۔۔
پہلو میں کھڑے اس کے بابا کی آنکھیں بھی نم تھیں۔۔۔

کمال الدین نے تسلی آمیز ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا۔۔۔
"آپ جائیے اس سے پہلے بات سارے علاقے میں پھیل جائے ، اور کسی سے اس بارے میں ذکر نا کریں۔۔۔۔"

منیزہ کے باپ نے عاجزی سے دونوں ہاتھ جوڑے اور شکریہ ادا کرتا بیٹی اور بیوی کو لئے چلا گیا۔۔۔۔۔

دادو کا پریشان کن چہرہ دیکھ کر کمال الدین نے نگاہیں پھیر لیں۔۔۔

دادو کا ہاتھ بے اختیار ہی سینے پر پڑا۔۔۔۔

اکرام کے ساتھ بھیجا تھا اسے میں نے۔۔۔!!
انھیں اپنی ہی آواز کھائی سے آتی ہوئی سنائی دی۔۔۔
دل جیسے ڈوب رہا تھا۔۔۔

سینے میں درد کی لہر اٹھی جسے وہ بے حد ضبط سے سہہ گئے۔۔۔۔۔۔

_________________

جاری ہے

سوزِ دل از قلم سیدہ جویریہ شبیرای بوک اسپیشل"مجھے نہیں لگتا کسی کو پہچاننے  کیلئے دو سال کا عرصہ کم ہے۔۔۔"وہ مسکرا دی۔۔گ...
15/10/2025

سوزِ دل
از قلم سیدہ جویریہ شبیر
ای بوک اسپیشل
"مجھے نہیں لگتا کسی کو پہچاننے کیلئے دو سال کا عرصہ کم ہے۔۔۔"
وہ مسکرا دی۔۔
گال کے نیچلے حصہ پر ڈمپل نمودار ہوا۔۔
مدثر ا س کے مسکرانے پر مسکرایا۔۔۔۔
بعض و اوقات کسی کو پہچاننے میں ساری زندگی بھی کم پڑجاتی ہے۔۔ آپ میرے بارے میں جانتے ہی کیا ہیں مسٹرمدثر۔۔؟؟
"اور مجھے لگتا ہے جتنا میں تمہیں جانتا ہوں یہ ساری زندگی کیلئے کافی ہے۔۔۔"
مدثر کے لہجے میں ہی نہیں بلکہ آنکھوں میں ظاہر ہوتا اعتماد محسوس کر کےریشم کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔۔
ضروری نہیں جو بظاہر دکھ رہا ہو وہ سچ بھی ہو، سب، دکھاوا، سب جھوٹ ہے مسٹر مدثر اور آپ میری نگاہ میں ایک بے وقوف انسان ہیں ۔۔۔"
مدثر کے لب سمٹے، آنکھوں میں دکھ کی تحیر سی واضح ہوئی۔۔۔۔
"بے قوقف اس لئے ہیں کہ عارضی حسن کے سحر میں مبتلا ہو کر اپنی پوری زندگی برباد کرنے پر تلے ہیں۔۔۔"
کیا مطلب۔۔۔؟؟
وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔
مطلب بتانا ہوتا تو بہت پہلے ہی بتادیتی، اتنی لمبی تمہید نا باندھتی۔۔۔"
ہماری دنیا ، آپ کی دنیا سے مختلف تلخ اور دلدل نما ہے، آپ کیلئے بہتر یہ ہی ہے کہ آپ اس سے جتنا دور چلے جائیں گے سکون میں رہیں گے۔۔۔"
"بعض حقیقیتیں جب آشکار ہوتی ہیں تو انسان پھر کہیں کا نہیں رہتا نا زمین پر اپنے قدم جما سکتا ہے اور نا آسمان کی وسعتوں تک پہنچ سکتا ہے۔۔۔ وہ اپنے اصل میں ہی کھو جاتاہے۔۔۔"
اس کی گہری بات پر مدثرکے لب سل گئے۔۔
وہ پلٹ کر یونی ورسٹی کے احاطے میں رکی وین میں سوار ہوگئی۔۔ وہ یونی کے پوائنٹ سے کبھی نہیں گئی۔۔۔
اس نے پوچھا تھا مگر وہ اس کے جواب سے مطمئن نا ہوسکا تھا۔۔۔
یہ بس ہمیں ہماری منزل کی حدود تک جانے سے قاصر ہے۔۔۔!!!
***********************************************





OFFER

ناولٹ اندھیروں کا سفر از قلم سیدہ جویریہ شبیر چھٹی قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆شاہ صاحب آپ نے خوامخواہ تکلیف کی۔۔۔، یہ بات تو ہم کا...
13/10/2025

ناولٹ اندھیروں کا سفر از قلم سیدہ جویریہ شبیر
چھٹی قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شاہ صاحب آپ نے خوامخواہ تکلیف کی۔۔۔، یہ بات تو ہم کال پر بھی کرسکتے تھے۔۔۔"
چوہدری شجاعت کی بات پر کمال الدین کا چہرہ سرخ ہو اٹھا۔۔۔۔
انہوں نے ضبط سے مٹھی بھینچی۔۔۔

اظہر خاموشی کو طاری کئے بیٹھا رہا۔۔۔۔
آپ کے لوگ ایک جوان لڑکی کو آدھی رات گئے اس کے گھر سے اٹھا کر لے آئے، اور آپ کہہ رہے ہیں یہ چھوٹی بات ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
کمال الدین کی بات پر وہ چونک گئے۔۔۔۔۔
کون لڑکی، شاہ صاحب۔۔۔؟؟
اکرام کو ان کا یہ انداز ایک آنکھ نا بھایا۔۔۔۔۔
وہ ہی جو آپ کی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئی۔۔۔۔!!!
دیکھئے شاہ صاحب۔۔۔!!
"ہم یہ چاہتے ہیں وہ لڑکی آپ ہمارے حوالے کردیں تو بات دو خاندانوں کے درمیان رہ کر ختم ہوجائے گی۔۔۔ نہیں تو سورج کے نکلتے ہی جرگہ بٹھایا جائے گا۔۔۔ جس میں آپ سردار کے طور پر نہیں بلکہ ملزم کے طور پر پیش کئے جائیں گے۔۔۔۔۔"
کمال الدین ہاتھ اٹھا کر انھیں درمیان میں ٹوکتے
ہوئے بے حد کرختگی سے بولے۔۔۔۔

"آپ تحمل اختیار کریں، اکثر غصہ بنے، بنائے کام خراب کردیتا ہے۔۔۔ آپ ٹھنڈے دماغ سوچیں کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں۔۔۔؟؟؟

"جی ہاں آپ ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔۔۔۔"
نسوانی آواز کے گونجتے ہی وہاں سناٹہ چھا گیا۔۔۔
اکرام الدین اور کمال الدین شاہ کرنٹ کھا کر کھڑے ہوئے۔۔۔۔
چوہدری شجاعت نے اچھبے سے سیاہ چادر میں چھپے وجود کو دیکھا۔۔۔
اور حیرت زدہ تو خاموش بیٹھا اظہر بھی رہ گیا تھا، نازک اندام جسم ، سیاہ گھنا چمکتی آنکھوں میں ڈورتے شرارے، اظہر کو واضح محسوس ہوا۔۔۔

کمال الدین صدمے سے سہانا کو دیکھنے لگے۔۔۔۔
اظہر کی نگاہیں ان آنکھوں پہ ٹک گئیں۔۔۔۔
وہ پلک جھپکائے بنا اسے دیکھے گیا۔۔۔
محترمہ آپ ہیں کون اور اندر کیسے آئیں۔۔۔؟؟
چوہدری شجاعت سختی سے بولا۔۔۔
یہ سہانا شاہ ہے۔۔۔ اس کی سہیلی ہے منیزہ میں معذرت کرتا ہوں۔۔۔"

اکرام الدین نے تندہی سے کہا اور سہانا کا بازو دبوچے اسے وہاں سے لے گیا۔۔۔
کمال الدین کی آنکھوں میں شرمندہ اور خوف بھرا تاثر ابھرا۔۔۔
جبکہ شجاعت کی آنکھیں کسی احساس کے تحت چمک اٹھیں۔۔۔۔۔

انہوں نے معنی خیزی سے اظہر کو دیکھا جس کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے۔۔۔۔۔

"ماء شاءالله بہت دلیر ہیں سہانا شاہ،۔۔"
کمال الدین نے ترچھی نگاہوں سے شجاعت کو دیکھا۔۔
"جس مسئلے کیلئے میں آپ کے پاس آیا ہوں بہتر ہوگا اسے زیر بحث لایا جائے۔۔۔۔۔۔۔"
دو ٹوک کہنے پر کمال الدین مسکراتے ہوئے انھیں دیکھنےگا
۔۔
"اطمینان ہو کر جائیں شاہ صاحب میں آپ کی عرض پر عمل کرتے ہوئے آدمیوں کو کام پر لگادوں گا کچھ نا کچھ پتا چلا جائے گا۔۔۔۔"

اکرام اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا حویلی کے مردان خانے سے باہر لایا۔۔۔
"دماغ خراب ہے تمہارا چلو گھر فوراً..."

وہ دبی آواز میں غرایا۔۔۔۔
"میں نہیں جاوں گی چاچو وہ "جھوٹ بول رہا ہے وہ وہیں تھا اس نے دیکھا تھا ہمیں۔۔۔ یہ کام اس کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔۔۔۔"

سہانا ہاتھ چھڑانے کی سعی کرتے ہوئے بولی۔۔

"سہانا بہت بڑی غلطی کی ہے تم نے یہاں اکر اللہ نہ کرے کہ تمھیں اس کا بھگتان بھگتنا پڑے۔۔۔۔"

اکرام کے تشویش ناک لہجے میں ایسا کچھ تھا کہ سہانا نے پلٹ کر اس کا چہرہ دیکھا۔۔۔۔
آنکھیں بے تحاشہ سرخ ہورہیں تھیں۔۔۔
وہ اب کہ کچھ نہ بولی،اور خاموشی سے چلنے لگی۔۔۔۔

مجھے وہ لڑکی ابھی چاہیئے چوہدری صاحب۔۔۔۔۔"
بلند بالا آواز پر اظہر کی پرسوچ نگاہیں ان کی جانب اٹھیں۔۔۔

ابو مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔؟؟
بیٹے کے پہلی دفعہ درمیان میں بولنے پر وہ کچھ کہتے، کہتے رکے۔۔۔۔

"ہم بعد میں بات کریں گے۔۔۔۔"
شجاعت نے کینہ توز نگاہوں سے دیکھ کر کہا:
شاہ صاحب میں نے کہا نا وہ لڑکی۔۔۔

وہ لڑکی ہمارے قید خانے میں ہے، وہ ابھی آپ کے ساتھ جائے گی۔۔۔۔"

اظہر کی بات پر شجاعت کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔۔۔
وہ فق چہرے سے بیٹے کو دیکھنے لگے۔۔۔
انھیں یہ قطعی علم نہیں تھا کندھے تک آتا ان کا وفادار، فرمانبردار بیٹا غیر کے سامنے انھیں جھٹلا دے گا۔۔۔
چوہدری اظہر کی بات پر کمال الدین دو قدم ان کی طرف بڑھے۔۔۔
"ہم سے دشمنی ہے آپ کی، وہ میری بھتجی کی سہیلی ہے اس لڑکی کی عزت کا مسئلہ ہے اس کا کوئی قصور نہیں بہتر یہ ہی ہے کہ اسے میرے ساتھ بھیج دیا جائے۔۔۔۔۔"
___________________
جاری ہے

ناولٹ اندھیروں کا سفر از : سیدہ جویریہ شبیر  پانچویں  قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆ابا ایک معمولی بات کو اتنی ہوا دے رہے ہیں یقیناً ...
09/10/2025

ناولٹ اندھیروں کا سفر
از : سیدہ جویریہ شبیر
پانچویں قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

ابا ایک معمولی بات کو اتنی ہوا دے رہے ہیں یقیناً ماجرا کچھ اور ہے۔۔!!!!

وہ سوچ کے تانے بانے بنتا، الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے کیلئے بات کو ہر پہلو سے جانچ رہا تھا۔۔۔۔۔
یہ بات اس کے دماغ سے مخفی ہوچکی تھی کہ نویرہ ابھی تک شاہ کوٹھی میں رکی ہوئی ہے، نویرہ کی ذات اس کیلئے کبھی اتنی اہم نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔

__________________
مسلسل دھڑ دھڑارتے دروازے کی آواز اس کی نیند میں شدید مخل ہوئی۔۔۔۔
وہ آنکھیں مسلتی ہوئی دروازے تک آئی۔۔۔

کیا قیامت آگئی ہے جو آدھی رات کو دروازہ توڑ دینے کے در پر ہو۔۔۔؟؟؟
وہ ملازمہ پر بھڑکی تو ملازمہ ممنائی۔۔۔
وہ چھوٹی شاہ جی بڑے شاہ جی نے نیچے بلایا ہے۔۔۔۔"

وہ ہاتھوں کو باہم مسلتی خائف سے لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔
سہانا نے میکانکی انداز میں گردن موڑ کر دیوار گیر گھڑی کی جانب دیکھا:
تہجد کا وقت شروع ہوچکا تھا۔۔۔۔۔
اس وقت سب خیریت ہے نا۔۔۔۔؟؟

بالوں میں ہاتھ پھیرتی فکر مندی سے بولی، نیند یک دم ہی ہوا ہوگئی۔۔۔۔۔
اور ساتھ ہی ڈوپٹہ اٹھائے اس سے آگے چلنے لگی۔۔۔

کوٹھی کے لاؤنج میں گھر کے تمام افراد کو دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نا رہی۔۔۔

سب سے پہلی نگاہ کمال الدین پر پڑی،
ہاتھوں کو پیچھے باندھے، ماتھے پر لاتعداد بل لئے لاؤنج کے اس کونے سے اس کونے تک چکر کاٹتے نظر آئے۔۔
اور دوسری نگاہ جس شخص پر پڑی وہ الجھن کا شکار ہو اٹھی۔۔۔۔

نویرہ دادو کے تخت پر بیٹھیں آنسو بہا رہی تھی جبکہ اس کے برابر میں حمیرا بیٹھی پریشانی کا شکار نظر آئی۔۔۔۔

اس وقت تم یہاں؟؟؟
سہانا تخت کی جانب بڑھی۔۔۔۔

"وہیں رک جاؤ سہانا۔۔۔۔"
کمال الدین کی سخت گیر آواز پر ڈر کر رکی۔۔۔ عین اسی وقت اکرام الدین بھی آنکھیں مسلتا وہاں آیا۔۔۔۔۔

اور خاموشی سے حالات کا تجزیہ کرنے لگا۔۔۔۔

کیا ہوا بڑے چاچو۔۔۔؟؟
"تمہاری دوست منیرہ جاوید کو چوہدریوں نے اغوا کرلیا ہے۔۔۔۔۔"

کمال الدین کے منہ سے نکلنے والی بات پر دھک سے رہ گئی۔۔۔۔
کیوں مگر۔۔۔۔ ؟؟؟

اسے سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہے۔۔۔
اس نے کمال الدین کے برابر میں کھڑے منیرہ کے ماں باپ کو دیکھا۔۔۔
منیرہ کی ماں مسلسل سہانا کو گھور رہیں تھیں۔۔۔۔۔
بڑے شاہ جی خدارا اپنی آپسی دشمنی میں میری بچی کو بخش دیجئے۔۔۔ وہ تو سہانا بٹیا کی سہیلی ہے اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔۔۔"

منیزہ کا باپ ہاتھ جوڑ کر گڑ گڑایا۔۔۔۔

وہ راتوں رات ہماری جوان بچی کو گھر سے اٹھا کر لے گئے ہیں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔۔۔۔صدیوں پرانی عزت کا جنازہ نکال دیا۔۔۔۔ اب کیا بچا ہے میرے پاس۔۔۔۔"

اس کی حالت زار پر دادو نے سانس بھری۔۔۔۔۔
سہانا منہ پہ ہاتھ رکھے شاکڈ سی معاملات سمجھنے تگ و دود میں رہی۔۔۔۔
حواس باختہ سی ایک ایک کرکے سب کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

"آپ تحمل رکھیں یقینا اس سب کے پیچھے کوئی اور ہے چوہدری اتنی گھٹیا حرکتیں نہیں کرسکتے، ہماری رشتہ داری ہے ان سے ہمارے ساتھ وہ یہ سب نہیں کرسکتے، آپ ہم پر بھروسہ رکھیں۔۔۔۔۔"

کمال الدین نے نرمی سے کہا:
جو بھی ہے شاہ صاحب بچی تو ہماری ہے نا، یہ سب باتیں عزت تو واپس نہیں لاسکتیں نا۔۔۔۔۔"
منیزہ کی ماں روتے ہوئے بولی۔۔۔

چپ کر جا نیک بخت،!!
جاوید نے بیوی کو ڈانٹا۔۔۔

"اکرام چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔"
وہ سہانا کو گھورتے ہوئے خاموش کھڑے اکرام سے بولے۔۔۔۔

جی بھائی۔۔۔۔"
"بیٹھ جاو تم دونوں ابھی آجائے گی بچی۔۔۔"
دادو کے کہنے پر وہ لا محلہ بیٹھ گئے۔۔۔۔

نویرہ سہانا کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے آئی۔۔۔۔۔
اپو مجھے پتا ہے یہ چوہدری اظہر کی حرکت ہے میں ابھی جاکر بڑے چاچو کو بتاتی ہوں۔۔۔۔"

سہانا کہہ کر الٹے قدموں پلٹی ہی تھی کہ نویرہ نے اس کا بازو پکڑ کر روکا۔۔۔۔
تم ایسا کچھ نہیں کرو گی سہانا۔۔ "

نویرہ کا لہجہ سخت تھا، سہانا حیرانگی سے دیکھنے لگی۔۔۔۔
ہاں تم کسی سے کچھ نہیں کہو گی۔۔۔۔"
کیوں۔۔؟؟
کیوں کہ یہ کام اظہر کا نہیں ہے۔۔۔"
سہانا نے ابرو اچکائی۔۔۔
آپ اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتیں ہیں، جبکہ آپ ہی نے کہ تھا کہ اس رات اظہر وہیں موجود تھا۔۔۔۔۔۔؟؟؟
ہاں مگر انہوں نے یہ کام نہیں کروایا، وہ اس طرح کے معاملات میں کبھی انولو نہیں رہے ہیں۔۔۔۔"
نویرہ کے یقین پر سہانا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔۔۔

مگر مجھے یقین ہے یہ کام آپ کے شوہر کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا۔۔۔۔" منیزہ میری دوست ہے میں اسے ہر حال میں یہاں لاوں گی چاہے اس کیلئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔۔۔۔۔"

سہانا ایک ایک لفظ چبا کر ادا کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔
آنٹی منیزہ میری دوست ہے ، آپ مطمئن رہیں۔۔۔"

سہانا کو سیاہ چادر پہنے دیکھ کر دادو سکتے میں رہ گئیں۔۔۔۔
کہاں جارہی ہو تم۔۔۔؟؟؟
دادو کی کڑک دار آواز پر سہانا ایک لمحے کو سہمی۔۔۔

"چوہدری اظہر کے گھر، میں وہ جانتی ہوں جو بڑے چاچو نہیں جانتے۔۔۔۔۔"
وہ اعتماد بحال کرکے مظبوط لہجے میں بولی۔۔

خاموشی سے بیٹھ جاو فضول کی حرکتیں کرنے کی ضرورت نہیں گیا ہے نا کمال لے آئے گا تمہاری دوست کو۔۔۔۔۔"
نہیں دادو ۔۔۔ انھیں اس فحاش غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔"

سہانا روکو۔۔۔۔"
رک جاؤ سہانا۔۔۔۔!!
نویرہ، صنوبر، عدیلہ، ارے کوئی تو روکو اس اڑیل لڑکی کو۔۔۔۔۔!!

وہ دادو کی پکار رد کرتی ہوئی کوٹھی سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔
____________________________
جاری ہے :-

06/10/2025
ناولٹ اندھیروں کا سفر از : سیدہ جویریہ شبیر  چوتھی  قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆گاڑی ہموار رفتار سے مین شاہراہ سے نکل کر گاؤں کے کچ...
30/09/2025

ناولٹ اندھیروں کا سفر
از : سیدہ جویریہ شبیر
چوتھی قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

گاڑی ہموار رفتار سے مین شاہراہ سے نکل کر گاؤں کے کچے پکے راستوں پر چل نکلی۔
ونڈ اسکرین کے اُس پار نظر دوڑائیں تو جہاں تک نگاہ جاتی، سبز کھیتوں کی چادر زمین کو ڈھانپے ہوئے تھی۔ کسانوں کی محنت رنگ لا چکی تھی۔ تازہ پکی گندم کی خوشبو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آ کر نتھنوں سے ٹکرائی تو نویرہ جیسے لمحہ بھر میں بچپن کی دنیا میں لوٹ گئی۔

یہی کچے راستے۔۔۔ یہی کھیت۔۔۔ یہی پگڈنڈیاں۔۔۔ جن پر وہ بے فکری کے دنوں میں سیر کیا کرتی تھی۔
پھل توڑنا، پھول چننا اور پھر مالی بابا کو ضد کر کے تنگ کرنا۔۔۔ یہ سب یادیں آنکھوں میں نمی بھر گئیں۔
وہ ان راستوں پر طویل عرصے بعد سفر کررہی تھی۔۔۔۔
بابل کا آنگن کیا چھوٹا، وہ حویلی میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔

خاموشی سے ڈرائیو کرتے چوہدری اظہر نے گردن ترچھی کرکے گم سم بیٹھی نویرہ کو دیکھا:
کندھے پر ڈلی براؤن چادر، سر پہ جما، سوٹ کے ہمر رنگ ڈوپٹہ، وہ بے حد سادہ دیکھائی دی۔۔۔۔

مجھے کچھ کہنا تھا آپ سے۔۔۔؟؟
گاڑی میں چھائی خاموشی کو نویرہ کی جھجھکتی آواز نے یک لخت توڑ ڈالا۔۔۔
"ہمم۔۔۔ سن رہا ہوں۔۔۔"

وہ مصروف سا بے نیاز انداز میں گویا ہوا۔۔۔۔۔

رات کو کون آیا تھا زمینوں پر۔۔۔۔۔؟؟
اس نے ذرا کی ذرا نگاہ اٹھا کر چوہدری اظہر کے چہرے پر نگاہیں ڈالیں۔۔۔۔

اظہر کا چہرہ سپاٹ اور سنجیدہ تھا، گویا کوئی تاثر ہی نہ رکھتا ہو۔ لمحہ بھر رکنے کے بعد وہ بولا:
"سہانا شاہ۔۔۔"

یہ نام سنتے ہی نویرہ کا دل جیسے دھک سے رہ گیا۔ وہ گھبراہٹ میں اس کی طرف دیکھنے لگی۔

"دیکھئے وہ نا سمجھ، کم عمر لڑکی ہے۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ یقیناً سیر و تفریح کی غرض سے ہی وہاں آئی ہوگی اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوگا اس کا۔۔۔۔۔۔"

نویرہ نے جلدی جلدی بات مکمل کی۔۔۔۔
جیسے اسے کسی بات کا خدشہ ہو۔۔۔۔
"وہ بہت بہادر اور سمجھ دار ہے تم نے اسے جج کرنے میں غلطی کی ہے۔۔۔۔"

چوہدری اظہر کی بات پر نویرہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑھ گئے۔۔۔۔

"نہیں۔۔ نہیں۔۔، اس کا دونوں خاندانوں کے آپسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ تو کچھ ہی سال پہلے شہر سے پڑھ کر آئی ہے۔۔۔ آپ اسے غلط مت سمجھیں۔۔۔۔۔"

اظہر نے متعجب انداز میں گردن گھمائی۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ مگر میں نے کب کہا کہ وہ غلط نیت سے آئی تھی؟

تو پھر آپ وہاں کیوں جارہے ہیں۔۔۔۔؟؟
نویرہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔۔

"ابا کے حکم کی تعمیل کررہا ہوں انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو شاہوں کی کوٹھی لے جاوں۔۔۔"

نویرہ نے لب بھینچ لئے۔۔۔۔

گاڑی کوٹھی کے احاطے میں داخل ہوئی۔ بڑے بڑے درختوں کی اوٹ میں حویلی اور بھی پرشکوہ دکھائی دے رہی تھی۔ دروازے پر نوکر کھڑے تھے۔۔۔

اس نے کوٹھی کی اونچی اونچی دیواروں کو حسرت سے دیکھا، جو دکھنے میں اونچیں مگر کتنے آزاد در و دیوار تھے باپ کے گھر کے۔۔۔۔!!!

دربانوں نے رکتی گاڑی کو پلٹ کر دیکھا تو حیران رہ گئے۔۔۔۔
نویرہ نے سیٹ بیلٹ کھولی اور اترنے ہی لگی تھی کہ اظہر کی بات پر گردن گھمائی۔۔۔۔۔

واپسی پر کسی کے بھی ساتھ آجانا میں نہیں آوں گا۔۔۔۔"
اظہر کی بے اعتنائی پر وہ لب بھینچے گاڑی سے اتر گئی۔۔۔۔

ہوا کے نرم جھونکوں نے اس کا آنچل چھوا تو جیسے بچپن کی صدائیں اس کے کانوں میں گونج اٹھیں۔ کوٹھی کے دروازے پر قدم رکھتے ہی نویرہ نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں۔۔۔
یہیں کبھی وہ ہنسی خوشی کھیلا کرتی تھی، مگر آج۔۔۔ آج وہ مہمان نہیں بلکہ قیدی کی طرح قدم رکھ رہی تھی۔

اندر سے سہانا شاہ کی بلند قہقہوں کی آواز ابھری۔
نویرہ کا دل لرز گیا۔۔۔

لڑکھڑاتے قدم کوٹھی کے اندر بڑھے تو تخت پر بیٹھیں اماں جی کی نظر اٹھی اور پلٹنا بھول گئی۔۔۔۔

دادو کو اپنی جانب دیکھتا پاکر وہ رک گئی۔۔۔۔
اے سہانا وہ دیکھ نویرہ جیسی لگتی ہے نا۔۔۔۔؟؟؟
اماں جی نے چشمے کو مزید آنکھوں سے چپکا کر کہا:

کیا دادو کہاں۔۔۔؟؟
وہ جو موبائل پر گیم کھیل رہی تھی، گردن اٹھا کر بولی۔۔
وہ وہاں دروازے کی جانب دیکھ نا۔۔۔۔؟؟؟

نویرہ کے قدم سست روی سے بڑھنے لگا۔۔۔
دادو وہ نویرہ اپو ہیں۔۔۔ وہ نویرہ اپو ہیں۔۔۔۔"

اسے خود بھی بے یقینی سی ہوئی۔۔۔
وہ موبائل چھوڑ کر اٹھی اور نویرہ کی جانب لپکی۔۔۔۔
نویرہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ، ٹپ برس رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔

اپو آپ۔۔۔۔!!
مارے خوشی و حیرت کے اس سے فقرہ مکمل ہی نا کیا گیا۔۔۔۔

اوہ مائے ڈئیر اپو۔۔۔۔"
وہ ایک دم اس کے گلے سے لگی۔۔۔۔۔

چاچو، چچی، یہاں آئیں دیکھیں کون کون آیا ہے۔۔۔۔؟؟
وہ خوشی سے چیخی۔۔۔۔۔
میں بڑی چاچی کو بتاتی ہوں۔۔۔۔"
سہانا جوش سے کہتی سیڑھیاں چڑھ گئی۔۔۔۔
دادو۔۔۔!!
نویرہ فرط جذبات سے آگے بڑھی۔۔۔۔
کتنے عرصے بعد نویرہ۔۔۔!!!
تجھے ہم نے بیاہیا تھا بیچا تو نہیں تھا۔۔۔۔۔"

نویرہ لب سئے ان کے سینے سے لگی روتی رہی۔۔۔۔۔!!!

دادو میری دادو۔۔۔!!!
"چل اجا چل کر بیٹھتے ہیں۔۔۔۔"
بڑی چچی۔۔۔۔!!

وہ پکارتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر بڑھی۔۔۔۔

چچی جائے نماز پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہیں تھیں اسے یوں آتے دیکھ استفسار یہ لہجے میں بولیں۔۔۔
آرام سے بچے گر جاؤ گی۔۔۔۔"

بڑی چچی، وہ آئیں ہیں۔۔۔ آپ نیچے چلیں۔۔۔"۔

کون آیا ہے۔۔۔؟؟
اپو ، اپو آئیں ہیں۔۔۔۔ چچی۔۔۔ چلیں جلدی سے۔۔۔"
وہ کہتے ساتھ ان کا ہاتھ تھام کر اٹھاتی انھیں ساتھ لے جانے لگی۔۔۔۔۔

تو آج کیسے چلی آئی۔۔۔ ؟؟؟
دادو کے سوال پر وہ بس انھیں دیکھے گئی۔۔۔
یہ تو مجھے بھی نہیں پتا دادو،!!
لاعلمی سے کہنے پر دادو چونک اٹھیں۔۔۔

جھگڑا ہوا ہے تیرا اظہر سے۔۔۔۔؟؟؟
دادو نے رازداری برتی۔۔۔
کیسا جھگڑا دادو۔۔۔ بات برائے نام ہوتی ہے، جھگڑے کی تو نوبت ہی نہیں آتی۔۔۔۔"

وہ اداسی سے بولی۔۔۔۔
اتنے میں سیڑھیاں اترتیں ہوئیں، امی، اور سہانا دیکھائی دیں۔۔۔۔۔

جذباتی سیشن پانچ منٹ تک جاری رہا۔۔۔۔
دادو کی گہری نگاہوں نے نویرہ کے چہرے کا احاطہ کیا ہوا تھا۔۔۔

◇◇◇◇◇◇◇

تم اتنی رات گئے زمینوں پر کیوں گئیں تھیں سہانا؟؟؟؟
سہانا دھک سے رہ گئی۔۔۔
تو کیا بڑے چچا کا غصہ بے سبب نہیں تھا۔۔۔۔۔
چوہدریوں تک بات پہنچ گئی کیا۔۔۔۔؟؟؟
وہ اچھنبے سے پوچھنے لگی۔۔۔۔

ہاں اظہر نے دیکھ لیا تھا تمھیں۔۔ مگر ابا کو یہ بات سرداران سے پتا چلی صرف ابا نے ہی نہیں بلکہ مالی بابا نے بھی دیکھ لیا تھا۔۔۔"

تو کیا آپ اسی بات کے سبب یہاں بھیجی گئی ہیں اپو۔۔۔۔؟؟
مجھے نہیں پتا۔۔۔ مجھے ان سب باتوں سے لاعلم رکھا جارہا ہے۔۔۔۔"
نویرہ سر پکڑے بولی۔۔۔

آپ پریشان ہورہیں ہیں خوامخوہ، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ اور اگر ہوگی بھی تو مجھے ہینڈل کرنا آتا ہے۔۔۔۔"

اس کی بے نیازی پر نویرہ نے آنکھیں دکھائیں۔۔۔
"کوٹھی سے باہر کسی بھی مرد کو لئے بغیر نہیں جانا چاہیئے تھا تمھیں، تم کچھ نہیں کرسکتیں، عورت آخر کر ہی کیا سکتی ہے۔۔۔ یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔۔۔۔"

"ہمارا اپنا مقام اور حیثیت ہے، کم مائیگی، اور دباؤ کا شکار وہی عورت ہوتی ہے جو یہ سب برداشت کرکے سہتی رہتی ہے۔۔۔ صبر کرنا اچھی بات ہے، مگر ظلم پر صبر کرنا، غلط ہے۔۔۔ ظلم کے خلاف تو آواز اٹھانی چاہیئے۔۔۔۔۔"

"تم ایک عرصہ شہر کی فضاؤں میں سانس لیتی رہی ہو، اسی لئے تم جانتی نہیں ہو، ہر رشتہ کوئی نا کوئی قربانی مانگتا ہے، اگر آپ کے اندر رشتہ نبھانے کی اہلیت نہیں ہے، تو آپ تنہا رہ جائیں گے۔۔۔"

نویرہ کی بات پر سہانا نے سر جھٹکا۔۔۔۔

"رشتہ نبھانا خوبصورتی کی علامت ہے اپو مگر جو رشتے آپ کے خلوص اور عزت نفس کو دبا کر بنائے جائیں۔۔۔ تو کھوکھلے وجود کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔۔۔۔!!

نویرہ یک دم ہی مسکرا دی۔۔۔
"میری دعا ہے جب تم اپنی نئی دنیا میں قدم رکھو تو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں پڑے۔۔۔۔۔"

اپو آپ نے تو بحث ہی ختم کردی۔۔۔۔!!
وہ ہنس دی۔۔۔
ایک بات کا مجھے اندازہ ہوگیا ہے، آپ کا رشتہ جس سے جڑا ہے، وہ بلکل آپ کے قابل نہیں ہے۔۔۔۔۔"

نویرہ کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔۔۔!!

اظہر لاؤنج سے گزر کر اپنے کمرے میں جانے لگا تو چوہدری شجاعت نے اسے پکارا۔۔۔۔

چھوڑ آئے نویرہ کو۔۔۔۔؟؟؟
جی ابا۔۔۔۔"
بیٹھو یہاں اکر۔۔۔۔"
انہوں نے اسے وہیں کھڑے دیکھا تو بولے۔۔۔۔
نویرہ سے کچھ کہا تو نہیں تم نے۔۔۔؟؟
کیا کہنا تھا ابا۔۔۔؟؟
وہ موبائل استعمال کرتے ہوئے مصروف سا کہنے لگا۔۔۔۔۔
شاہوں کی جانب سے ہونے والی اس حرکت کو میں ہر گز بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔۔۔۔"

کیسی حرکت۔۔۔؟؟

اوہ وہ کوئی حرکت نہیں تھی ابا، اس بات کو مزید ہوا میں دیں۔۔۔"

شجاعت کے یوں دیکھنے پر وہ غیر سنجیدگی سے بولا۔۔۔

شجاعت کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، لیکن آنکھوں میں غصہ اور بے چینی چھپی ہوئی تھی۔
" اظہر۔۔۔ یہ جھگڑا برسوں پرانا ہے، اور اب پھر کوئی ہوا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ سہانا کی حرکت کو ہلکا مت لو۔۔۔ وہ شاہوں کی بیٹی ہے، ان کے خون میں سرکشی اور ضد شامل ہے۔"

اظہر کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا۔۔۔
سہانا" انھیں نام کس نے بتا دیا۔۔۔۔!
تم کیا سمجھتے ہو تم نہیں بولو گے تو مجھے پتا نہیں چلے گا۔۔۔!!
وہ تیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔

مجھے ایسا کچھ نہیں لگتا ابا آپ زیادہ سوچ رہے ہیں۔۔۔۔"
وہ ان کی بات کو خاطر میں لائے بغیر ان کے پاس سے اٹھ گیا۔۔۔۔!!

ذہن میں دھکڑ، پکڑ چلتی رہی۔۔۔ مالی بابا اس قدر نزدیک نہیں تھے، یہ کوئی اور ہی تھا جو خبری بنا ہوا تھا۔۔۔۔!!

وہ جس بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا تھا وہ بات واضح ہوئی تو اس کی سوچوں کے در وا ہوتے چلے گئے۔۔۔۔

کوٹ کی جیب میں رکھا لائٹر اور سگریٹ نکال کر وہ دیوار کھڑکی میں اکھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے:_

25/09/2025

تم اتنی رات گئے زمینوں پر کیوں گئیں تھیں سہانا؟؟؟؟
سہانا دھک سے رہ گئی۔۔۔
تو کیا بڑے چچا کا غصہ بے سبب نہیں تھا۔۔۔۔۔
چوہدریوں تک بات پہنچ گئی کیا۔۔۔۔؟؟؟
وہ اچھنبے سے پوچھنے لگی۔۔۔۔

ہاں اظہر نے دیکھ لیا تھا تمھیں۔۔ مگر ابا کو یہ بات سرداران سے پتا چلی صرف ابا نے ہی نہیں بلکہ مالی بابا نے بھی دیکھ لیا تھا۔۔۔"

تو کیا آپ اسی بات کے سبب یہاں بھیجی گئی ہیں اپو۔۔۔۔؟؟
مجھے نہیں پتا۔۔۔ مجھے ان سب باتوں سے لاعلم رکھا جارہا ہے۔۔۔۔"
نویرہ سر پکڑے بولی۔۔۔

22/09/2025

NOVELS READERS KA LIYA ZABARDAST PLATFORM HAI, APNAY PASANDEEDA WUTHOR KAY NOVEL SEARCH KAR KAY PDF DOWNLOAD KARSAKTAY HAIN OR ONLINE READING BHI ASANI SE KARSAKTAY HAIN....

https://syedaofficialwriter.blogspot.com/

Send a message to learn more

اندھیروں کا سفر از : سیدہ جویریہ شبیر تیسری  قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆سگریٹ کا دھواں ہر سو پھیلا ہوا،وہ ذہنی انتشار کے دباؤ  میں...
18/09/2025

اندھیروں کا سفر
از : سیدہ جویریہ شبیر
تیسری قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سگریٹ کا دھواں ہر سو پھیلا ہوا،
وہ ذہنی انتشار کے دباؤ میں الجھا، نگاہیں نادیدہ چیز پر رکی ہوئیں تھیں۔۔۔
ابا اسے جس چیز کیلئے فورس کررہے تھے ویسے جذبات اور احساسات وہ اپنے دل میں نہیں پاتا تھا خاص کر کہ نویرہ کیلئے،
نویرہ اس کی بیوی تھی پچھلے پانچ سال قبل یہ رشتہ طے پایا تھا۔۔۔ زور، زبردستی سے، وہ تو بھاگ رہا تھا مگر فرار کی تمام راہیں مسدود کرکے اس کی گردن میں طوق ڈال دیا گیا تھا۔۔۔۔۔

COMPLETE EPISODE LINK AVAILABE
https://novelisticeraweb.wordpress.com/2025/09/18/andheron-ka-safar-episode-03/

HOW WAS IT EPI READERS

Address

GHOSIA QUATER HOUSE NO 121 BLOCK C/2 UNIT #O8 LATIFABAD HYDREABAD
Hyderabad
71800

Website

https://digitallibraryreadingbook.blogspot.com/?m=1, https://novelisticeraweb

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Syeda Jaweria Shabbir Offical posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Syeda Jaweria Shabbir Offical:

Share

Category