27/10/2025
اندھیروں کا سفر از قلم سیدہ جویریہ شبیر
ناولٹ آٹھویں قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام ڈھلنے کو تھی — سورج جیسے تھکن سے نڈھال آسمان کے کنارے جا ٹکا تھا۔
حویلی کے صحن میں سنّاٹا تھا، بس کبھی کبھار درختوں سے گرتے پتوں کی سرسراہٹ حزن سا پیدا کردیتی،
کمال الدین شاہ برآمدے میں کرسی ڈالے بیٹھے تھے، مگر ان کی آنکھیں کہیں دور خالی خلا میں گم تھیں۔
دادو نے ایک آہ بھری اور دھیرے نم پلکیں ہتھیلی سے رگڑ کر گویا ہوئیں۔۔۔
"شجاعت... اگر میری سہانا کسی مصیبت میں ہے تو خدا کا واسطہ، پہلے اسے ڈھونڈ لاؤ، باقی سب بعد میں دیکھ لینا..."
کمال الدین نے ان کی بے بسی پر سختی سے مٹھیاں بھینچ لیں۔
بارہ گھنٹے، بیت چکے تھے ان دونوں کو غائب ہوئے، مگر ابھی تک ان کوئی سراغ نا مل سکا تھا۔۔
"اماں !، عزت ایک بار جاتی ہے تو لوٹ کر نہیں آتی… سہانا اگر غلطی کی ہے تو اس کا انجام اسے خود بھگتنا ہوگا۔"
دادو کے ہونٹ کپکپا اٹھے، مگر انہوں نے کچھ نہ کہا۔
ان کی نگاہیں سندس کے کمرے کی جانب اٹھیں جو ہنگامہ برپا کرکے اب دوائیوں کے زیر اثر بے ہوش پڑی تھی—
"بڑے چاچو مجھے حویلی جانا ہے۔۔۔۔"
جس چادر کو وجود سے لپیٹے وہ یہاں آئی تھی اسی چادر کو دوبارہ تن پہ اوڑھے وہ فیصلہ کن انداز میں بولی۔۔۔۔۔
بارہ گھنٹے سوچنے کیلئے بہت ہوتے ہیں۔۔۔وہ جانتی یہ مسئلہ بڑے چاچو کی دسترس سے کوسوں دور چلا گیا ہے۔۔۔ مگر اس کے پاس ایک امید تھی اظہر کی شکل میں ، اسے یقین تھا وہ اس کی سہانا کو ضرور ڈھونڈ لائے گا۔۔۔۔۔۔
تم جانتی ہو حویلی سے تمھیں کوئی لے جانے نہیں آیا۔۔۔!!
"ہاں اس بات کو تو میں نے گھنٹوں سوچا، مگر مجھے پتا ہے سہانا کی کھوج کون کرسکتا ہے، کون ہے جو اس معاملے میں ابو کی بھی نہیں سنے گا۔۔۔۔۔"
"ہاں نویرہ کا فیصلہ ٹھیک ہے میری بچی بے حد سمجھدار ہے میں شجاعت یہ وقت ناک اونچی کرنے کی نہیں ہے۔۔۔ میرا اکرام اور سہانا کہاں ہوں گے یہ شجاعت سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔۔۔۔"
دادو کی بات پر نویرہ کے چہرے پر اطمینان پھیلا۔۔۔۔۔
"جاؤ تم۔۔۔اللہ کی امان میں۔۔۔"
کمال الدین نے نویرہ کے سر پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔
وہ دادی سے دعائیں لیتی، پورچ میں کھڑی گاڑی کی جانب بڑھی۔۔۔۔ ڈرائیور اسے دیکھ کر تندہی سے بھاگا آیا۔۔۔
چوہدریوں کی حویلی لے چلو۔۔۔۔۔!!!
ڈرائیور سے کہتی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔
جی بی بی۔۔۔!!!
گاڑی تیزی سے سنسان سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔ شام اب رات میں بدل چکی تھی، آسمان پر بادلوں نے چاند کی کرنوں کو چھپا رکھا تھا۔ حویلی تک کا راستہ جیسے صدیوں پر محیط لگ رہا تھا۔ نویرہ کی نظریں مسلسل شیشے سے باہر ٹکی تھیں، مگر دل کے اندر ایک طوفان برپا تھا۔
"سہانا... تُو کہاں ہے؟"
وہ بےاختیار بڑبڑائی۔
کچھ ہی دیر میں گاڑی پورچ میں آکر رکی تو اتر کر اندر بڑھی۔۔۔۔
شومئی قسمت کے کوئی نا تھا اس پر طنز کے تیز چلانے کو۔۔۔ نجانے سب کہاں تھے، اچھا بھی تھا ویسے۔۔۔، ورنہ وہ اس پر اکیلے آنے کا جواز پوچھتیں اور جواب اس کے پاس نہیں تھا۔۔۔۔
چوہدری اظہر کو خبر دو مجھے ان سے ملاقات کرنی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
اس نے پاس کھڑی ملازمہ کو حکم دیا تو وہ چلی گئی جبکہ وہ قطار در قطار بنے کمروں کو دیکھتی
انتظار کرنے لگی۔۔۔۔۔
ملازمہ کے قدموں کی چاپ مدھم ہوتی چلی گئی۔
نویرہ نے نگاہ بھر کر برآمدے کی طرف دیکھا — دیواروں پر لٹکے چراغ دھیرے دھیرے مدھم پڑنے لگے تھے، جیسے وہ بھی کسی اندیشے میں ہوں۔
ملازمہ کی مثبت واپسی پر وہ ہممت مجتمع کرتی اظہر کے کمرے کی طرف روانہ ہوئی۔۔۔۔
ہلکی سی دستک پر اجازت لیکر کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔
نسواری رنگ کے کرتے میں ملبوس سگریٹ سلگائے موبائل میں محو تھا اس کے اندر آتے ہی سر اونچا کرکے دیکھنے لگا۔۔۔
"نویرہ؟ تم یہاں؟"
آواز میں حیرت کے ساتھ ایک سرد سا اطمینان بھی تھا۔
نویرہ کے قدم غیر ارادی طور پر آگے بڑھے۔۔، در حقیقت اس کے نرم لہجے نے اسے آگے بات جاری رکھنے کی ہممت دی۔۔۔۔
وہ دو قدم آکر گھٹنوں کے بل بیٹھی۔ تو اظہر چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
اس کا یہ انداز اظہر کو ناگوار گزرا۔۔۔۔۔
یہ کیا حماقت ہے نویرہ۔۔۔۔!!
انتہائی درشتی سے کہا گیا۔۔۔
وہ خود بھی ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ مگر بات ہی اتنی حساس تھی کہ اسے ہر حال میں اظہر کو منانا تھا۔۔۔۔
"مجھے سہانا کو ڈھونڈنا ہے... اور آپ کے سوا کوئی نہیں جو یہ کرسکے۔"
وہ اس کے لہجے پر ہاتھ جوڑ کر بولی۔۔۔۔
اظہر کی صبیح پیشانی پر ان گنت بلوں کا اضافہ ہوا۔۔۔۔
کیا کہہ رہی ہو؟؟
سہانا کو ڈھونڈ کر لے آئیں، وہ اور اکرام چاچو فجر کے وقت سے لاپتہ ہیں، بڑے چاچو کا کہنا ہے وہ حویلی سے کوٹھی جانے کیلئے نکلے تھے مگر وہ نہیں آئے۔۔۔۔۔"
وہ رودی۔۔۔۔
اظہر کے سامنے اس کا ضبط جواب دے گیا۔۔۔۔۔
اظہر نے اسے بازووں سے تھام کر اٹھایا۔۔۔
سگریٹ ایش ٹرے میں رگڑ ڈالی۔۔۔
سہانا فجر سے لاپتہ ہے اور ابھی تک نہیں ملی۔۔۔!!
وہ پریشانی سے ماتھا مسلتے ہوئے بولا۔۔۔
اکرام چاچو بھی لاپتہ ہیں۔۔۔"
اس نے ٹکرا جوڑا۔۔۔۔
"تم اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔ دیکھتا ہوں میں مگر اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کرنا۔۔۔۔"
وہ گھمبیر انداز میں بولا۔۔۔۔
نویرہ وہاں سے اٹھی تو غیر مطمئن تھی۔۔۔۔ کیوں کہ تسلی بخش جواب اسے نہیں ملا تھا۔۔۔۔۔
نویرہ کے جاتے ہی وہ جلے پیر کی بلی بنے چکر کاٹنے لگا۔۔۔
پھر کچھ سوچ کر موبائل پر نمبر ڈائل کیا۔۔۔
کرم دین۔۔۔!!
جی مالک حکم۔۔؟
منشی کو اٹھوالو۔۔۔"
جی۔۔۔؟؟
دوسری طرف غیر یقینی سے کہا گیا۔۔۔
بہرے ہو، ؟
اظہر نے کرختگی سے کہا:
"نا مالک مگر منشی کو بڑے مالک کا خاص مشیر ہے۔۔۔۔"
ہاں اگلے گھنٹے میں تمھیں سرنگ خانے میں ملوں گا۔۔۔۔"
وہ اسے کہہ کر کال کاٹ گیا۔۔۔۔۔
اگلا قدم بغاوت سے معمور تھا۔۔۔
نجانے سہانا کو لیکر اس کا دل بے تاب کیوں تھا۔۔۔ وہ جلد سے جلد سہانا کو بازیاب کروانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
سہانا کیلئے اس کا دل الگ لے پر کیوں ڈھڑک رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔
وہ اپنی پستول لئے کمرے سے نکلا
۔۔۔۔
فلحال اسے سہانا کو ڈھونڈنا تھا۔۔۔۔
________________________
:-جاری ہے