Syeda Jaweria Shabbir Offical

Syeda Jaweria Shabbir Offical Novels, Novelet, Afsana , Mukalma, and etc.......

ناولٹ اندھیروں کا سفر از : سیدہ جویریہ شبیر  چوتھی  قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆گاڑی ہموار رفتار سے مین شاہراہ سے نکل کر گاؤں کے کچ...
30/09/2025

ناولٹ اندھیروں کا سفر
از : سیدہ جویریہ شبیر
چوتھی قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

گاڑی ہموار رفتار سے مین شاہراہ سے نکل کر گاؤں کے کچے پکے راستوں پر چل نکلی۔
ونڈ اسکرین کے اُس پار نظر دوڑائیں تو جہاں تک نگاہ جاتی، سبز کھیتوں کی چادر زمین کو ڈھانپے ہوئے تھی۔ کسانوں کی محنت رنگ لا چکی تھی۔ تازہ پکی گندم کی خوشبو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آ کر نتھنوں سے ٹکرائی تو نویرہ جیسے لمحہ بھر میں بچپن کی دنیا میں لوٹ گئی۔

یہی کچے راستے۔۔۔ یہی کھیت۔۔۔ یہی پگڈنڈیاں۔۔۔ جن پر وہ بے فکری کے دنوں میں سیر کیا کرتی تھی۔
پھل توڑنا، پھول چننا اور پھر مالی بابا کو ضد کر کے تنگ کرنا۔۔۔ یہ سب یادیں آنکھوں میں نمی بھر گئیں۔
وہ ان راستوں پر طویل عرصے بعد سفر کررہی تھی۔۔۔۔
بابل کا آنگن کیا چھوٹا، وہ حویلی میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔۔۔۔۔

خاموشی سے ڈرائیو کرتے چوہدری اظہر نے گردن ترچھی کرکے گم سم بیٹھی نویرہ کو دیکھا:
کندھے پر ڈلی براؤن چادر، سر پہ جما، سوٹ کے ہمر رنگ ڈوپٹہ، وہ بے حد سادہ دیکھائی دی۔۔۔۔

مجھے کچھ کہنا تھا آپ سے۔۔۔؟؟
گاڑی میں چھائی خاموشی کو نویرہ کی جھجھکتی آواز نے یک لخت توڑ ڈالا۔۔۔
"ہمم۔۔۔ سن رہا ہوں۔۔۔"

وہ مصروف سا بے نیاز انداز میں گویا ہوا۔۔۔۔۔

رات کو کون آیا تھا زمینوں پر۔۔۔۔۔؟؟
اس نے ذرا کی ذرا نگاہ اٹھا کر چوہدری اظہر کے چہرے پر نگاہیں ڈالیں۔۔۔۔

اظہر کا چہرہ سپاٹ اور سنجیدہ تھا، گویا کوئی تاثر ہی نہ رکھتا ہو۔ لمحہ بھر رکنے کے بعد وہ بولا:
"سہانا شاہ۔۔۔"

یہ نام سنتے ہی نویرہ کا دل جیسے دھک سے رہ گیا۔ وہ گھبراہٹ میں اس کی طرف دیکھنے لگی۔

"دیکھئے وہ نا سمجھ، کم عمر لڑکی ہے۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ یقیناً سیر و تفریح کی غرض سے ہی وہاں آئی ہوگی اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوگا اس کا۔۔۔۔۔۔"

نویرہ نے جلدی جلدی بات مکمل کی۔۔۔۔
جیسے اسے کسی بات کا خدشہ ہو۔۔۔۔
"وہ بہت بہادر اور سمجھ دار ہے تم نے اسے جج کرنے میں غلطی کی ہے۔۔۔۔"

چوہدری اظہر کی بات پر نویرہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑھ گئے۔۔۔۔

"نہیں۔۔ نہیں۔۔، اس کا دونوں خاندانوں کے آپسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ تو کچھ ہی سال پہلے شہر سے پڑھ کر آئی ہے۔۔۔ آپ اسے غلط مت سمجھیں۔۔۔۔۔"

اظہر نے متعجب انداز میں گردن گھمائی۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ مگر میں نے کب کہا کہ وہ غلط نیت سے آئی تھی؟

تو پھر آپ وہاں کیوں جارہے ہیں۔۔۔۔؟؟
نویرہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔۔

"ابا کے حکم کی تعمیل کررہا ہوں انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو شاہوں کی کوٹھی لے جاوں۔۔۔"

نویرہ نے لب بھینچ لئے۔۔۔۔

گاڑی کوٹھی کے احاطے میں داخل ہوئی۔ بڑے بڑے درختوں کی اوٹ میں حویلی اور بھی پرشکوہ دکھائی دے رہی تھی۔ دروازے پر نوکر کھڑے تھے۔۔۔

اس نے کوٹھی کی اونچی اونچی دیواروں کو حسرت سے دیکھا، جو دکھنے میں اونچیں مگر کتنے آزاد در و دیوار تھے باپ کے گھر کے۔۔۔۔!!!

دربانوں نے رکتی گاڑی کو پلٹ کر دیکھا تو حیران رہ گئے۔۔۔۔
نویرہ نے سیٹ بیلٹ کھولی اور اترنے ہی لگی تھی کہ اظہر کی بات پر گردن گھمائی۔۔۔۔۔

واپسی پر کسی کے بھی ساتھ آجانا میں نہیں آوں گا۔۔۔۔"
اظہر کی بے اعتنائی پر وہ لب بھینچے گاڑی سے اتر گئی۔۔۔۔

ہوا کے نرم جھونکوں نے اس کا آنچل چھوا تو جیسے بچپن کی صدائیں اس کے کانوں میں گونج اٹھیں۔ کوٹھی کے دروازے پر قدم رکھتے ہی نویرہ نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں۔۔۔
یہیں کبھی وہ ہنسی خوشی کھیلا کرتی تھی، مگر آج۔۔۔ آج وہ مہمان نہیں بلکہ قیدی کی طرح قدم رکھ رہی تھی۔

اندر سے سہانا شاہ کی بلند قہقہوں کی آواز ابھری۔
نویرہ کا دل لرز گیا۔۔۔

لڑکھڑاتے قدم کوٹھی کے اندر بڑھے تو تخت پر بیٹھیں اماں جی کی نظر اٹھی اور پلٹنا بھول گئی۔۔۔۔

دادو کو اپنی جانب دیکھتا پاکر وہ رک گئی۔۔۔۔
اے سہانا وہ دیکھ نویرہ جیسی لگتی ہے نا۔۔۔۔؟؟؟
اماں جی نے چشمے کو مزید آنکھوں سے چپکا کر کہا:

کیا دادو کہاں۔۔۔؟؟
وہ جو موبائل پر گیم کھیل رہی تھی، گردن اٹھا کر بولی۔۔
وہ وہاں دروازے کی جانب دیکھ نا۔۔۔۔؟؟؟

نویرہ کے قدم سست روی سے بڑھنے لگا۔۔۔
دادو وہ نویرہ اپو ہیں۔۔۔ وہ نویرہ اپو ہیں۔۔۔۔"

اسے خود بھی بے یقینی سی ہوئی۔۔۔
وہ موبائل چھوڑ کر اٹھی اور نویرہ کی جانب لپکی۔۔۔۔
نویرہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ، ٹپ برس رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔

اپو آپ۔۔۔۔!!
مارے خوشی و حیرت کے اس سے فقرہ مکمل ہی نا کیا گیا۔۔۔۔

اوہ مائے ڈئیر اپو۔۔۔۔"
وہ ایک دم اس کے گلے سے لگی۔۔۔۔۔

چاچو، چچی، یہاں آئیں دیکھیں کون کون آیا ہے۔۔۔۔؟؟
وہ خوشی سے چیخی۔۔۔۔۔
میں بڑی چاچی کو بتاتی ہوں۔۔۔۔"
سہانا جوش سے کہتی سیڑھیاں چڑھ گئی۔۔۔۔
دادو۔۔۔!!
نویرہ فرط جذبات سے آگے بڑھی۔۔۔۔
کتنے عرصے بعد نویرہ۔۔۔!!!
تجھے ہم نے بیاہیا تھا بیچا تو نہیں تھا۔۔۔۔۔"

نویرہ لب سئے ان کے سینے سے لگی روتی رہی۔۔۔۔۔!!!

دادو میری دادو۔۔۔!!!
"چل اجا چل کر بیٹھتے ہیں۔۔۔۔"
بڑی چچی۔۔۔۔!!

وہ پکارتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر بڑھی۔۔۔۔

چچی جائے نماز پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہیں تھیں اسے یوں آتے دیکھ استفسار یہ لہجے میں بولیں۔۔۔
آرام سے بچے گر جاؤ گی۔۔۔۔"

بڑی چچی، وہ آئیں ہیں۔۔۔ آپ نیچے چلیں۔۔۔"۔

کون آیا ہے۔۔۔؟؟
اپو ، اپو آئیں ہیں۔۔۔۔ چچی۔۔۔ چلیں جلدی سے۔۔۔"
وہ کہتے ساتھ ان کا ہاتھ تھام کر اٹھاتی انھیں ساتھ لے جانے لگی۔۔۔۔۔

تو آج کیسے چلی آئی۔۔۔ ؟؟؟
دادو کے سوال پر وہ بس انھیں دیکھے گئی۔۔۔
یہ تو مجھے بھی نہیں پتا دادو،!!
لاعلمی سے کہنے پر دادو چونک اٹھیں۔۔۔

جھگڑا ہوا ہے تیرا اظہر سے۔۔۔۔؟؟؟
دادو نے رازداری برتی۔۔۔
کیسا جھگڑا دادو۔۔۔ بات برائے نام ہوتی ہے، جھگڑے کی تو نوبت ہی نہیں آتی۔۔۔۔"

وہ اداسی سے بولی۔۔۔۔
اتنے میں سیڑھیاں اترتیں ہوئیں، امی، اور سہانا دیکھائی دیں۔۔۔۔۔

جذباتی سیشن پانچ منٹ تک جاری رہا۔۔۔۔
دادو کی گہری نگاہوں نے نویرہ کے چہرے کا احاطہ کیا ہوا تھا۔۔۔

◇◇◇◇◇◇◇

تم اتنی رات گئے زمینوں پر کیوں گئیں تھیں سہانا؟؟؟؟
سہانا دھک سے رہ گئی۔۔۔
تو کیا بڑے چچا کا غصہ بے سبب نہیں تھا۔۔۔۔۔
چوہدریوں تک بات پہنچ گئی کیا۔۔۔۔؟؟؟
وہ اچھنبے سے پوچھنے لگی۔۔۔۔

ہاں اظہر نے دیکھ لیا تھا تمھیں۔۔ مگر ابا کو یہ بات سرداران سے پتا چلی صرف ابا نے ہی نہیں بلکہ مالی بابا نے بھی دیکھ لیا تھا۔۔۔"

تو کیا آپ اسی بات کے سبب یہاں بھیجی گئی ہیں اپو۔۔۔۔؟؟
مجھے نہیں پتا۔۔۔ مجھے ان سب باتوں سے لاعلم رکھا جارہا ہے۔۔۔۔"
نویرہ سر پکڑے بولی۔۔۔

آپ پریشان ہورہیں ہیں خوامخوہ، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ اور اگر ہوگی بھی تو مجھے ہینڈل کرنا آتا ہے۔۔۔۔"

اس کی بے نیازی پر نویرہ نے آنکھیں دکھائیں۔۔۔
"کوٹھی سے باہر کسی بھی مرد کو لئے بغیر نہیں جانا چاہیئے تھا تمھیں، تم کچھ نہیں کرسکتیں، عورت آخر کر ہی کیا سکتی ہے۔۔۔ یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔۔۔۔"

"ہمارا اپنا مقام اور حیثیت ہے، کم مائیگی، اور دباؤ کا شکار وہی عورت ہوتی ہے جو یہ سب برداشت کرکے سہتی رہتی ہے۔۔۔ صبر کرنا اچھی بات ہے، مگر ظلم پر صبر کرنا، غلط ہے۔۔۔ ظلم کے خلاف تو آواز اٹھانی چاہیئے۔۔۔۔۔"

"تم ایک عرصہ شہر کی فضاؤں میں سانس لیتی رہی ہو، اسی لئے تم جانتی نہیں ہو، ہر رشتہ کوئی نا کوئی قربانی مانگتا ہے، اگر آپ کے اندر رشتہ نبھانے کی اہلیت نہیں ہے، تو آپ تنہا رہ جائیں گے۔۔۔"

نویرہ کی بات پر سہانا نے سر جھٹکا۔۔۔۔

"رشتہ نبھانا خوبصورتی کی علامت ہے اپو مگر جو رشتے آپ کے خلوص اور عزت نفس کو دبا کر بنائے جائیں۔۔۔ تو کھوکھلے وجود کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔۔۔۔!!

نویرہ یک دم ہی مسکرا دی۔۔۔
"میری دعا ہے جب تم اپنی نئی دنیا میں قدم رکھو تو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں پڑے۔۔۔۔۔"

اپو آپ نے تو بحث ہی ختم کردی۔۔۔۔!!
وہ ہنس دی۔۔۔
ایک بات کا مجھے اندازہ ہوگیا ہے، آپ کا رشتہ جس سے جڑا ہے، وہ بلکل آپ کے قابل نہیں ہے۔۔۔۔۔"

نویرہ کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔۔۔!!

اظہر لاؤنج سے گزر کر اپنے کمرے میں جانے لگا تو چوہدری شجاعت نے اسے پکارا۔۔۔۔

چھوڑ آئے نویرہ کو۔۔۔۔؟؟؟
جی ابا۔۔۔۔"
بیٹھو یہاں اکر۔۔۔۔"
انہوں نے اسے وہیں کھڑے دیکھا تو بولے۔۔۔۔
نویرہ سے کچھ کہا تو نہیں تم نے۔۔۔؟؟
کیا کہنا تھا ابا۔۔۔؟؟
وہ موبائل استعمال کرتے ہوئے مصروف سا کہنے لگا۔۔۔۔۔
شاہوں کی جانب سے ہونے والی اس حرکت کو میں ہر گز بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔۔۔۔"

کیسی حرکت۔۔۔؟؟

اوہ وہ کوئی حرکت نہیں تھی ابا، اس بات کو مزید ہوا میں دیں۔۔۔"

شجاعت کے یوں دیکھنے پر وہ غیر سنجیدگی سے بولا۔۔۔

شجاعت کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، لیکن آنکھوں میں غصہ اور بے چینی چھپی ہوئی تھی۔
" اظہر۔۔۔ یہ جھگڑا برسوں پرانا ہے، اور اب پھر کوئی ہوا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ سہانا کی حرکت کو ہلکا مت لو۔۔۔ وہ شاہوں کی بیٹی ہے، ان کے خون میں سرکشی اور ضد شامل ہے۔"

اظہر کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا۔۔۔
سہانا" انھیں نام کس نے بتا دیا۔۔۔۔!
تم کیا سمجھتے ہو تم نہیں بولو گے تو مجھے پتا نہیں چلے گا۔۔۔!!
وہ تیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔

مجھے ایسا کچھ نہیں لگتا ابا آپ زیادہ سوچ رہے ہیں۔۔۔۔"
وہ ان کی بات کو خاطر میں لائے بغیر ان کے پاس سے اٹھ گیا۔۔۔۔!!

ذہن میں دھکڑ، پکڑ چلتی رہی۔۔۔ مالی بابا اس قدر نزدیک نہیں تھے، یہ کوئی اور ہی تھا جو خبری بنا ہوا تھا۔۔۔۔!!

وہ جس بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا تھا وہ بات واضح ہوئی تو اس کی سوچوں کے در وا ہوتے چلے گئے۔۔۔۔

کوٹ کی جیب میں رکھا لائٹر اور سگریٹ نکال کر وہ دیوار کھڑکی میں اکھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے:_

25/09/2025

تم اتنی رات گئے زمینوں پر کیوں گئیں تھیں سہانا؟؟؟؟
سہانا دھک سے رہ گئی۔۔۔
تو کیا بڑے چچا کا غصہ بے سبب نہیں تھا۔۔۔۔۔
چوہدریوں تک بات پہنچ گئی کیا۔۔۔۔؟؟؟
وہ اچھنبے سے پوچھنے لگی۔۔۔۔

ہاں اظہر نے دیکھ لیا تھا تمھیں۔۔ مگر ابا کو یہ بات سرداران سے پتا چلی صرف ابا نے ہی نہیں بلکہ مالی بابا نے بھی دیکھ لیا تھا۔۔۔"

تو کیا آپ اسی بات کے سبب یہاں بھیجی گئی ہیں اپو۔۔۔۔؟؟
مجھے نہیں پتا۔۔۔ مجھے ان سب باتوں سے لاعلم رکھا جارہا ہے۔۔۔۔"
نویرہ سر پکڑے بولی۔۔۔

22/09/2025

NOVELS READERS KA LIYA ZABARDAST PLATFORM HAI, APNAY PASANDEEDA WUTHOR KAY NOVEL SEARCH KAR KAY PDF DOWNLOAD KARSAKTAY HAIN OR ONLINE READING BHI ASANI SE KARSAKTAY HAIN....

https://syedaofficialwriter.blogspot.com/

Send a message to learn more

اندھیروں کا سفر از : سیدہ جویریہ شبیر تیسری  قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆سگریٹ کا دھواں ہر سو پھیلا ہوا،وہ ذہنی انتشار کے دباؤ  میں...
18/09/2025

اندھیروں کا سفر
از : سیدہ جویریہ شبیر
تیسری قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سگریٹ کا دھواں ہر سو پھیلا ہوا،
وہ ذہنی انتشار کے دباؤ میں الجھا، نگاہیں نادیدہ چیز پر رکی ہوئیں تھیں۔۔۔
ابا اسے جس چیز کیلئے فورس کررہے تھے ویسے جذبات اور احساسات وہ اپنے دل میں نہیں پاتا تھا خاص کر کہ نویرہ کیلئے،
نویرہ اس کی بیوی تھی پچھلے پانچ سال قبل یہ رشتہ طے پایا تھا۔۔۔ زور، زبردستی سے، وہ تو بھاگ رہا تھا مگر فرار کی تمام راہیں مسدود کرکے اس کی گردن میں طوق ڈال دیا گیا تھا۔۔۔۔۔

COMPLETE EPISODE LINK AVAILABE
https://novelisticeraweb.wordpress.com/2025/09/18/andheron-ka-safar-episode-03/

HOW WAS IT EPI READERS

اندھیروں کا سفر از : سیدہ جویریہ شبیر دوسری قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆اتنی رات کو کون ہماری چوکیداری کررہا ہے یار سونی تم مت جانا...
16/09/2025

اندھیروں کا سفر
از : سیدہ جویریہ شبیر
دوسری قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اتنی رات کو کون ہماری چوکیداری کررہا ہے یار سونی تم مت جانا ہم جائیں گے اور ایک چکر لگا کر آجائیں گے ویسے بھی دس بج رہے ہیں رات کے ۔۔ سب سوگئے ہوں گے۔۔۔۔۔"
چل ہنی اور مانی ہم ہو کر آتے ہیں تم یہاں سے ہماری تصویریں بنانا۔۔۔۔۔"
وہ سہانا کی بات سنے بغیر بھاگتی چلی گئیں۔۔۔۔
میری بات تو سنو یار۔۔۔۔!!
سہانا روکتی رہ گئی۔۔۔۔

اچھا جلدی آجانا رکنا مت وہاں۔۔۔۔"
آخر میں وہ بات آواز بلند بولی۔۔۔۔۔۔
میں مگر درمیان میں فاصلے کے باعث آواز اس تک نا پہنچ سکی۔۔۔۔۔۔

رات کی خاموشی میں باغ کے اونچے پیڑ، جھاڑیوں کی سرسراہٹ اور جھینگروں کی آواز سب کچھ ایک انجانی سنسنی پیدا کر رہے تھے۔۔۔۔۔

وہ اکثر وہاں رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کرنے آیا کرتا تھا، آج ابا سے بات کرنے کہ چکر میں ٹائم زیادہ ہوگیا تھا۔۔۔۔
کچھ ذہن پر نا معلوم سا بوجھ بھی تھا جسے وہ سگریٹ کے دھویں میں اڑا رہا تھا۔۔۔
تبھی نسوانی آوازوں نے اس کی توجہ کھینچ لی۔۔۔۔۔۔۔
سیاہ اندھیرے میں اس نے موبائل کی ٹارچ جلائی۔۔۔۔
......................
COMPLETE EPISODE PDF LINK....
https://novelisticeraweb.wordpress.com/2025/09/16/andheron-ka-safar/

اندھیروں کا سفر از : سیدہ جویریہ شبیر پہلی قسط☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆کہ نا رہے وہ دوسرا،ابھی جو مل نہیں سکا۔۔ہے روح میں کوئی خلا،...
14/09/2025

اندھیروں کا سفر
از : سیدہ جویریہ شبیر
پہلی قسط
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

کہ نا رہے وہ دوسرا،
ابھی جو مل نہیں سکا۔۔
ہے روح میں کوئی خلا،
نشاں نہیں وجود کا،
کیا ہو میں، یہ پتا ،
کبھی جلا ، کبھی بجھا،
تلاش میں ہے دل میرا،
نشاں نہیں وجود کا ،
رکوں نا میں ، کہ راستہ،
ابھی تو ہے امید کا۔۔۔!!!!

شاہ کوٹھی کے در و دیوار پر اداسی نے اپنے پر پھیلائے ہوئے تھے، جگمگاتی برقی قمقموں سے ڈھکی دیورایں کرلاتی، محسوس ہوئیں۔۔۔۔
جیسے ان میں عجب سا روگ پیوست ہوگیا ہو۔۔۔
اور یہ سجے، سنورے در و بام، سجتا گارڈن محض دکھاوا ہو۔۔۔۔۔
سوگواریت میں ڈوبی دلہن کی طرح۔۔۔!!!

کمال الدین شاہ۔۔۔۔"
جی ماں جی ؟؟
پریشان لگتے ہو؟؟
ہاں متفکر سا ہوں۔۔۔"
تمہیں ہمارے فیصلے پر شبہ ہے کمال الدین۔۔۔؟؟
پان چباتے ہوئے انہوں نے سنجیدگی سے دریافت کیا۔۔۔۔۔
چکن کاری کا سفید سوٹ پہنے، رعب و دبدبہ شخصیت سے جھلک رہا تھا۔۔۔


نہیں ماں جی۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔"
انہوں نے فوراً تردید کی۔۔۔۔

تو بس پھر تمام باتیں بھول جاؤ بیٹی کی بارات بس آنے ہی والی ہے ہماری چوکھٹ پر، خوشی خوشی رخصت کرو اسے۔۔۔۔"

ماں کی بات پر وہ تاسف سے مسکرا دئیے۔۔۔۔
یہ صلح ہمارے بچوں کے مستقبل کی جانی دشمنی سے نجات دلائے گی یقین کرو میرا۔۔۔۔"
وہ تسلی آمیز لہجے میں بولیں۔۔۔۔
میں اس صلح کی بہت بڑی قیمت ادا کررہا ہوں۔۔۔۔"
ان کے لہجے میں قیمتی شئے کھوجانے کا زیاں تھا۔۔۔۔۔

صرف تم ادا کررہے ہو نویرہ میری کچھ نہیں لگتی۔۔۔؟؟؟؟
ماں جی شکوہ کناں ہوئی۔۔۔۔
آپ جانتی ہیں نا، نویرہ کی ماں کس قدر شکستہ دل بیٹھی ہے۔۔"
تمھیں اس کی ماں کا اترا چہرہ دیکھائی دیتا ہے ہم نظر نہیں آتے تمھیں، ہمارا خون جو تیس سال سے ان کی قید میں ہے، میرا جوان بھائی، جسے ایک جھوٹے بیان پر نظر بند کردیا گیا تھا۔۔۔!!

وہ بے قصور تھا کمال ، مگر تمہارے باپ نے میری ایک نا سنی۔۔۔۔!!!

بوڑھی آنکھوں میں جیسے خون ماضی لہو بن کر رس رہا ہو۔۔۔۔
کمال الدین نے بے اختیار ماں کا ہاتھ چوم لیا۔۔۔۔۔۔
مجھے معاف کریں ماں جی، اولاد کی محبت کمزور کردیتی ہے۔۔"
ٹھیک کہتے ہو اولاد کی دوری جینے بھی نہیں دیتی۔۔ اور جب اولاد بے قصور ہو۔۔۔۔۔"

ماں ،بیٹا برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
اندرونی جانب قیامت خیز خاموشی کا راج رائج تھا۔۔۔۔
چہرے اترے ہوئے، لگتا ہی نہیں تھا بیٹی کی شادی کا گھر ہے۔۔۔۔!!!

چلو آٹھو صنوبر بیٹی سے مل لو۔۔۔۔۔؟؟؟
صنوبر رخ موڑے بیڈ پر دراز تھیں۔۔۔۔!!!

آپ جائیں بھابھو ہم سونا چاہتے ہیں۔۔۔"
انہوں نے بے دردی سے آنکھیں مسلیں۔۔
بیٹی کی بارات دہلیز پر اکھڑی ہے، صنوبر۔۔ سوتی رہنا رخصتی کے بعد۔۔۔"

چوہدریوں کی آمد شاہوں کی دہلیز پہ آکر کیا رکی سارا علاقہ ڈھول پٹاخوں سے گونج آٹھا۔۔۔۔!!!

حالانکہ وہ بھی جانتے تھے یہ سب پنچائیت میں ہونے والے فیصلے کا احترام ہے۔۔۔۔۔
دلوں میں ان کے بھی خنس بھرا ہوا ہے۔۔۔۔

کیا کروں میں بھی ہونٹوں پر قفل چڑھائے اپنی بیٹی کو موت کے گھاٹ اترتا دیکھوں،
وہ چیخ اٹھیں۔۔۔۔
بھابھو نے تاسف سے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا:
تم ماں ہو، میں سمجھتی ہوں۔۔۔ بیوی کے دکھ سے زیادہ ماں کا دکھ بڑا ہوتا ہے،
مجھے تو صبر آگیا، صنوبر۔۔۔!!

انہوں نے خالی نگاہوں سے بھابھو کی جانب دیکھا، اور منہ چھپا کر رودیں۔۔۔

میری نویرہ۔۔۔!!!
وہ سسک رہیں تھیں۔۔۔
وہ کچھ بھی روکنے کی طاقت نہیں رکھتیں تھیں۔۔۔۔۔!!!
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇

پانچ سال بعد
چوہدری شجاعت کی حویلی پر طلوع ہوتے سورج کی پہلی کرن پڑی۔۔
تو تمام ہی عورتوں نے بستر کو خیر آباد کہا، اور کچن کی راہ لی۔۔۔۔۔!!!
وہ کسی ربورٹ کی طرح ماہرانہ انداز میں اپنے اپنے حصے کے کام کرتیں نظر آئیں۔۔۔۔۔۔"
گرے اور وائٹ امتزاج کا سوٹ زیب تن کئے، سر پہ ڈوپٹہ جمائے، وہ طائرانہ نگاہ ارد گرد ڈالتی آگے بڑھنے لگی۔۔۔۔۔

وہ اگلے ہی پل بند کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتی۔۔۔ کہ۔۔۔۔!!

آواز کی کرختگی نے اسے پتھر کردیا۔۔۔۔۔

نویرہ بی بی اپنی اوقات میں رہو۔۔۔۔، تمہیں لالہ کی خدمت پر مامور کیلئے چوہدریوں کی حویلی میں لایا گیا تھا۔۔۔ اور تم سپنے دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔"

صائمہ کی چنگھاڑتی آواز پر وہ رک گئی، اور سر جھکا لیا۔۔۔۔۔
اس کے ہاتھ میں یکے دیگرے، مختلف رنگ کے پریس شدہ کُرتے تھے جو وہ چوہدری اظہر کے کمرے میں لے جارہی تھی۔۔۔۔ مگر عین اسی وقت پر صائمہ نے اسے روک دیا۔۔۔

اس نے نگاہیں اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کی وہ کہہ سکتی تھی کہ جس لالہ کی تم بڑے تفاخر سے بات کررہی ہو، وہ میرا شوہر ہے، خدا نے حق دیا ہے مجھے اس کے کام کرنے کا، اس کے کمرے میں جانے کا' بنا خوف و خطر اس سے بات کرنے کا مگر۔۔۔۔۔!!!

وہ بول نا سکی۔۔ کیوں زبان پر قفل تھے،
دادو نے کہا تھا کہ بیٹا صبر سے کام لینا پتھر میں شگاف ضرور ڈلے لگا۔۔
رب سوہنا ہے نا۔۔۔۔"
اور دادو کی کہی جانے والی بات اس نے پلو سے باندھ لی تھی۔۔۔۔۔۔

ادھر دو یہ کپڑے اؤر جا کر کھانا بناؤ، ڈیرے سے آتے ہونگے سارے مرد۔۔۔۔"
وہ اسے سارے استری شدہ کپڑے جھنپٹ کر خونخوار انداز میں بولی۔۔۔۔
اور کمرے میں غائب ہوگئی۔۔۔۔۔
نویرہ خالی ہاتھ، تہی دامان چوکھٹ پر کھڑی رہئ۔۔۔
راہ میں رکے نصیب کی طرح۔!!!

کھانے کی میز پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔ تمام مرد اپنے اپنے کام سے آچکے تھے، اور دوپہر کا کھانا تناؤل کرتے دیکھائی دئیے۔۔۔
جبکہ چوہدری شجاعت کے پہلو میں بیٹھیں، نادرا خاتون ان کی اہلیہ، بھنویں اچکائے، ایک خائف نگاہ قدرے کونے میں کھڑی نویرہ پر ڈال کر کھانا اپنی پلیٹ میں نکالنے لگیں۔۔۔۔

بھابیاں ساری اپنے شوہروں کی کرسیوں کی پشت پر کھڑیں دکھائیں دیں۔۔۔۔

اس حویلی کے در و دیوار کے درمیان میں رہتے نفوسوں میں تعلیم کی کمی نہیں تھی ، بس شعور نا پید تھا۔۔۔۔
اور جس کے پاس یہ دونوں تھا اسے آواز نکالنے کی ہممت پہلے دن سے ہی نہیں ملی۔۔۔۔۔
اظہر کیا سوچا ہے تم نے ۔۔۔۔۔؟؟؟؟

چوہدری شجاعت کی آواز پر اس نے گردن اٹھا کر باپ کو اور پھر ماں کو دیکھا:
اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا۔۔۔

کھانے کے وقت یہ بات نہ کریں۔۔۔۔"
بیگم کے ٹوکنے پر چوہدری شجاعت کی پیشانی پر ان گنت بلوں کا اضافہ ہوا۔۔۔

انہوں نے پلیٹ میں چمچہ زور سے پٹخا۔۔۔۔
وہ ڈر کر پیچھے ہوئیں۔۔۔
جب پوچھا جائے تب زبان کھولا کرو نادرا خاتون ، بیچ میں پخ پخ کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔"
وہ جس قدر جارحیت سے بولے نادرا خاتون کا چہرہ شرمندگی سے سرخ پڑگیا۔۔۔

اظہر اور باقی چاروں بھائیوں نے ناگواری سے باپ کو دیکھا ضرور، مگر کہا کچھ نہیں۔۔۔۔۔"

"میں آپ کو یہ تب ہی بتا چکا تھا، جب آپ نے میری گردن میں ایک طوق ڈالا تھا۔۔۔
میرا اب بھی وہی فیصلہ ہے،"

نویرہ نے سر اٹھا کر اپنے نام نہاد شوہر کو دیکھا، جس نے ان ماہ و سال میں کبھی اس کا چہرہ غور سے دیکھا تک نا تھا۔۔۔۔۔
میں شادی کروں گا اپنی پسند سے، اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے۔۔۔۔۔۔"
نویرہ کا سر جھک گیا۔۔۔

چوہدری اظہر کی آواز اسے پاتال میں کھینچ لائی۔۔۔۔
جہاں آنکھوں سے سامنے صرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، سیاہ گھنا ڈراؤنا، اندھیرا۔۔۔۔۔۔!!!!
◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇
جاری ہے:-

پڑھنے والوں سے گزارش ہے کمنٹس کرنا نا بھولئے گا۔۔۔۔"

دشمن کی دشمنی سے نہیں بلکہ اس کی صلح سے ڈرنا چاہیئے،تم سمجھتے ہو صلح ہوگئی تو سب ٹھیک ہوگیا۔۔ ٹھیک تو تب تھا جب ہم دشمن ...
08/09/2025

دشمن کی دشمنی سے نہیں بلکہ اس کی صلح سے ڈرنا چاہیئے،
تم سمجھتے ہو صلح ہوگئی تو سب ٹھیک ہوگیا۔۔ ٹھیک تو تب تھا جب ہم دشمن تھے، اب دشمنی نہیں رہی سرد جنگ شروع ہوگئی ہے۔۔ اس لئے تم وہاں نہیں جاو گے، چوہدری اظہر۔۔۔۔!!!

اظہر نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے سانس بھرا۔۔۔ جیسے وہ انھیں سمجھانے کیلئے الفاظ تلاش رہا ہو۔۔۔۔

آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں وہاں جاوں گا اور کچھ ہوجائے گا۔۔۔۔"
آپ شاید بھول رہے ہیں ان کے گھر کی عورت میرے نکاح میں ہے۔۔۔۔!!!

چوہدری فرقان صاحب نے بیٹے کی بات پر پہلو بدلا۔۔۔۔۔
ماتھے پر سوچ کی لکیر واضح ہوئی۔۔۔۔

ٹھیک ہے پھر تم بہو کو اس کے میکے لے جاو۔۔۔۔"
اس نے حیرت سے انھیں دیکھا۔۔

ایسے کیا دیکھ رہے ہو انوکھی بات کہی ہے میں نے۔۔۔۔؟؟؟
ہاں نا ابا انوکھی ہی ہے اس سے پہلے کبھی آپ نے اس کے فیور میں مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔"
تو اب کہہ رہا ہوں اپنے وہہٹی کے ساتھ جاؤ گے تو مجھے پرواہ نہ رہے گی۔۔۔!!

ٹھیک ہے پھر آپ اسے اطلاع بھجوایں۔
"
اس نے جیسے احسان کرتے ہوئے کہا تو انہوں نے بھی شکر کا سانس لیا۔۔۔!!
_______________________

"ناول "اندھیروں کا سفر
بقلم سیدہ جویریہ۔۔۔۔

06/09/2025
Kia ap parhna chahtayn hain Ak aisi kahani jo Zameen ka tanazay pr honay wali Dushmani per mabni hai, jis khandan ki bah...
05/09/2025

Kia ap parhna chahtayn hain Ak aisi kahani jo Zameen ka tanazay pr honay wali Dushmani per mabni hai, jis khandan ki bahuhayn isi lia bhi biyahi jatin hain kay Dushmano kay darmiyan sulah ki raah niklay.....

Ap ka vote ka mutabik hi novel ko start kia jayga.......
___________________
چوہدری اظہر گوندل کی نگاہیں بے ارادہ ہی اس طرف اٹھیں اور پھر پلٹنا بھول گئیں۔۔۔۔
دو تین لڑکیوں کے درمیان درخت میں لگے پھل کو توڑنے کیلئے تگ و دود کرتی نظر آئی۔۔۔۔

کاسنی ڈوپٹہ ہوا کے دوش پر سر سے پھسل کر کندھے پہ آٹہرا۔۔۔۔۔
بھوری آنکھوں میں شرارت ہی شرارت پہناں تھی۔۔۔

میں نے کہا نا سہانا یہ تمہاری دسترس سے باہر ہے تم ہزار جتن بھی کرلو ، اسے پھل کو توڑ نہیں سکو گی۔۔۔۔۔"
اس کے ساتھ کھڑی لڑکیوں میں سے ایک نے کہا جس پر وہ پلٹ کر خفگی سے دیکھنے لگی۔۔۔۔
سہانا شاہ نام ہے میرا شاہوں کے آنگن میں کھلنے والا اکلوتا پھول۔۔۔!!
ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کی میں نے چاہ کی ہو وہ مجھے نا ملے۔۔۔۔"
بڑے ناز سے کہتے ہوئے اس نے گردن آٹہلائی۔۔۔۔۔
دور کھڑے چوہدری اظہر پلکیں جھپکانا بھول گیا۔۔۔۔۔

اوئے اظہر کیا دیکھ رہا ہے وہاں۔۔۔۔۔؟؟
حارث نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا۔۔۔
یار یہ شاہوں کی کڑیاں کتنی سوہنی ہوتی ہیں۔۔۔۔!!!
وہ گھنی پوچھوں پر ہاتھ پھیر کر بولا۔۔۔
وہ صرف شاہوں کی نہیں بلکہ دشمنوں کے آنگن کا پھول ہے۔۔۔۔"
اور تم شادی شدہ ہو چوہدری اظہر گوندل۔۔۔۔"

حارث نے جتاتے ہوئے کہا تو اظہر کی پیشانی پر بل نمودار ہوئے۔۔۔۔۔۔
وہ شادی نہیں تھی صلح کا ایک ذریعہ تھی۔۔ بس اب اس بات کا ذکر نا کرنا دوبارہ ورنہ بات بگڑ جائے گی حارث۔۔۔۔!!!!

وہ اسے دھمکاتے ہوئے بولا تو حارث خاموش ہوگیا۔۔۔۔
وہ اس سے الجھنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔!!!

ایک ہی چھلانگ میں وہ پھول توڑ چکی تھی جو اس کے سر کے اوپر لہراتی ٹہنی پر لگا ہوا تھا۔۔۔۔
دیکھ لو ثریا میں کامیاب ہوئی۔۔۔"
وہ فاتحانہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔

وہ تو تمھیں ہونا تھا سہانا تم اپنے ارادوں میں اٹل ہو۔۔ اور یہ تمہاری ذات کا خاصہ ہے۔۔۔۔۔"
ثریا کے برابر میں کھڑی نازو نے کہا تو اس نے تائیدانہ انداز میں ابرو اچکائی۔۔۔۔۔
________________




ناول تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر، بیسویں قسط۔۔۔۔آخری قسط___________________رانی اور فائقہ ناشتے کی میز پر بی...
04/09/2025

ناول تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر، بیسویں قسط۔۔۔۔
آخری قسط
___________________
رانی اور فائقہ ناشتے کی میز پر بیٹھے ہوئے تھے، جبکہ سلیم صاحب کے ساتھ بیٹھے مرتسم کی غیر معمولی خاموشی نور نے بخوبی محسوس کی۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں اس کیلئے ناشتہ لیکر آئیں تھیں۔۔۔،
تمام لوگ خاموشی سے ناشتہ کررہے تھے جب فائقہ نے طائرانہ نگاہ نور پر ڈالی۔۔۔

"کمال ظرف کے لوگ ہیں پہلی ملاقات میں ، میں تو قائل ہوگئی،
آج کے دور میں کون ایسی لڑکی کو خاندان کی بہو کے روپ میں قبول کرتا ہے جو چھپ کر نکاح کرلے۔۔۔
بھئی اس معاملے میں نور قسمت کی دھنی ہے۔۔۔۔"
نور فق چہرہ سے ٹکر، ٹکر پھپھو کی شکل دیکھتی رہ جاتی ہے، مرتسم کے چہرے سے ناگواری جھلکی۔۔۔اس نے کانٹہ پلیٹ میں پٹخا۔۔۔
نور کی زیرک نگاہوں سے مرتسم کی یہ حرکت مخفی نا رہ سکی۔۔۔۔۔

نور العین کو حلق میں نوالہ پھنستا محسوس ہوا۔۔۔۔۔
پھپھو کی باتوں پر میز پر سناٹا چھا گیا ، ساتھ بیٹھی رانی نے ماں کو خفا انداز میں دیکھا:
اس کے کان جیسے شعلوں میں جلنے لگے، دل چاہا زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔

مرتسم نے آدھے اٹھے ہاتھ کو پھر سے کپ پر جما دیا، اس کی نگاہ ایک پل کو نور پر پڑی، وہ نگاہ سخت بھی تھی اور خاصی برہم بھی۔۔۔

NOVEL: TUM SA HOTA KOI,

AUTHOR : SYEDA JAWERIA SHABBIR,

CATEGORY ; EMERGENCY NIKAH, MILITARY ROMANCE BASED......
LAST EPISODE....

https://syedaofficialwriter.blogspot.com/2025/09/novel-tum-sa-hota-koi-written-by-syeda.html

https://novelisticeraweb.wordpress.com/2025/09/04/tum-sa-hota-koi-3/

NOVEL KA IKHTITAM PR AP SB SE REQUEST HAI KAY COMMENTS KARNA NA BHOLIYAGA.....

Sneak peak For Last Episode....صبح کی بات کو سمجھو گی تو گلہ نہیں کرو گی، سخت انداز پر نا جاؤ بات کی تہہ کو سمجھو۔۔۔۔"گل...
27/08/2025

Sneak peak For Last Episode....

صبح کی بات کو سمجھو گی تو گلہ نہیں کرو گی، سخت انداز پر نا جاؤ بات کی تہہ کو سمجھو۔۔۔۔"

گلہ مجھے انداز پر نہیں آپ کے مزاج پر ہے، وہ ہی اکھڑ اور بے حس جو پہلی ملاقات میں تھا۔۔۔۔"
تو میں تمھیں بے حس نظر آتا ہوں۔۔۔۔؟؟

مرتسم کا چہرہ سرخ ہوا۔۔
نور العین نے جواب دینے کی بجائے خاموشی سے دیکھا:

میرا تمھیں تمہاری پھپھو کے گھر جانے سے روکنا مجھے بے حس قرار دیتا ہے؟؟

میں کبھی ایک بات سے اندازہ نہیں لگاتی اور میری اماں کہتی تھی انسان کی عادات و فطرت کبھی نہیں بدلتی۔۔۔۔!!!

تو اس لئے تم مجھ سے طلاق چاہتیں تھیں۔۔۔۔؟؟؟
مرتسم نجانے کیا اخذ کرکے بیٹھا تھا کہ دونوں کو ہی اندازہ نہیں ہوا اور بات خطرناک موڑ پر جا پہنچی۔۔۔۔

نور العین نے چونک کر اسے دیکھا۔

وہ ایک لمحے کو گنگ رہ گئی جیسے الفاظ نے اس کے دل میں تیر سا پیوست کر دیا ہو۔

مرتسم نے نگاہیں چُرا لیں مگر لہجہ وہی سخت رکھا:
"ہاں، تمہاری نظروں میں میں وہی بے حس اور اکھڑ انسان ہوں نا۔۔۔ تو پھر کسی بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔

نور کی آنکھوں میں نمی اتر آئی،
مگر اس نے ہونٹ بھینچ کر ضبط کیا۔
"آپ ہر بات کو انجام تک کیوں پہنچا دیتے ہیں؟
کبھی یہ سوچا ہے کہ آپ کے لفظ کسی کے دل پر کیا اثر ڈالتے ہیں؟"

مرتسم کا ضبط بھی ڈگمگانے لگا،
وہ اٹھ کر قریب آیا اور بھاری آواز میں بولا:
"اور تم نے کبھی یہ سوچا کہ جب تم مجھے غیر سمجھ کر نظر انداز کرتی ہو تو میرا دل کیسا جلتا ہے؟"

نور نے پہلی بار اس کی آنکھوں میں براہ راست جھانکا۔۔۔
وہاں غصہ بھی تھا اور کہیں اندر ایک عجیب سا دکھ بھی۔

"میں نے کبھی غیر نہیں سمجھا۔۔۔
بس آپ کے لہجے نے ہمیشہ مجھے پرایا کر دیا۔"
یہ کہہ کر اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

مرتسم کے چہرے کی سختی یک دم ڈھیلی پڑ گئی۔
وہ لمحہ بھر ساکت کھڑا رہا جیسے دل اور دماغ کی جنگ لڑ رہا ہو۔

میں جانتا ہوں مجھے فیصلے سنانے کی عادت ہے جو کہ مجھے ٹھیک لگتے ہیں۔۔۔۔
اس بات کی گواہ تم خود ہو۔۔۔۔"
اور اگر یہ فیصلہ میں تمہارے اوپر چھوڑ کر تماشائی بن کر دیکھتا رہتا تو ذلت میرے نصیب میں لکھ دی جاتی ، میں ایک بار غلطی کرتا ہوں اس کے بعد میں راستہ بدل لیتا ہوں۔۔۔
مگر تمہیں میرا مزاج سمجھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔۔۔۔۔"

Address

GHOSIA QUATER HOUSE NO 121 BLOCK C/2 UNIT #O8 LATIFABAD HYDREABAD
Hyderabad
71800

Website

https://digitallibraryreadingbook.blogspot.com/?m=1, https://novelisticeraweb

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Syeda Jaweria Shabbir Offical posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Syeda Jaweria Shabbir Offical:

Share

Category