Syeda Jaweria Shabbir Offical

Syeda Jaweria Shabbir Offical Novels, Novelet, Afsana , Mukalma, and etc.......

تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر قسط نمبر چوہدویں--------------------------------کس سے پوچھ کر جوان ، جہان لڑکے ک...
06/08/2025

تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر قسط نمبر چوہدویں
--------------------------------
کس سے پوچھ کر جوان ، جہان لڑکے کو کرائے پر رکھا ہے تم نے۔۔۔؟ؕ
فائقہ نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا شوہر کی غصیلی آواز نے ان کے قدم روک دئے۔۔۔۔
لو بھلا اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے ، اس بارے میں ہماری بات تو ہوئی تھی نا۔۔۔۔"
ہاں ہوئی تھی میں کب انکار کررہا ہوں، مگر یہ نہیں کہا تھا کہ تم ایک نوجوان کو کرائے پر دے دو۔۔۔۔"
وہ ان کی بات پر خاصے اکھڑے لہجے میں بولے۔۔۔۔
بڑے سادہ بچےہیں ایسے ہی کسی کو نہیں رکھ لیا میں نے خوب چھان پھٹک کر ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔۔'
وہ جھوٹ ، سچ کی امیزش ملا کر انھیں قائل کرنے والے لہجے میں پرزور بولیں۔۔۔۔
کیوں یہ تم
اتنے یقین سےکیسے کہہ سکتی ہو؟؟؟
بس ہے مجھے یقین ایک نظر میں انسان کو پہچان لیتی ہوں ؕ۔۔۔ "
وہ اپنے سامنے یوں بھی کسی کی چلنے نہیں دیتیں تھیں۔۔۔
مجھے کچھ نہیں سننا ، تم ابھی کے ابھی انھیں جانے کا کہو گی۔۔۔"
اس بار وہ بھی بات پر اڑھ گئے۔۔"
اے ہے،، ایسے کیسے کہہ دوں میں ایڈوانس رقم لے چکی ہوں اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔"
وہ ہاتھ اٹھا کر بات ختم کرتے ہوئے بولیں۔۔۔
کتنی رقم لی ہے؟؟
پورے پانچ ہزار۔۔"
چہرے کی کھلکھلا ہٹ حد سے سوا تھی۔۔
یہ لو دے کر آؤ، اور جانے کا بھی کہہ دینا۔۔۔"
وہ ان کے ہتھیلی پر نیلے، نیلے نوٹ رکھ کر چلے گئے۔۔۔۔جبکہ وہ انھیں جاتا دیکھتی رہیں۔۔۔۔
دو پیسے آرہے ہیں وہ بھی برداشت نہیں ہیں اس آدمی کو،
وہ تنفر سے بڑبڑانے لگیں۔۔۔
پھپھو ، پھپھا صحیح کہہ رہے ہیں آپ انھیں جانے کا کہہ دیں۔۔"
وہ ان کو چاۓ کا کپ دیتے ہوۓ نرمی سے کہنے لگی۔۔۔
کیوں ملکہ عالیہ اب آپ کو ان سے کیا پرخاش ہے؟؟
وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر ہتھے سے اکھڑتے ہوۓ بولیں۔۔
نہ نہیں پھپھا ناراض ہورہے ہیں نا اس لیے۔۔"
نور العین ان کے خطرناک تیور دیکھ کر گڑبڑا بولی۔۔۔
تو ہونے دے ، مجھے پرواہ نہیں، تو مجھے دعوت کی چیزیں بتا بازار سے لیکر آؤں گی۔۔۔"
وہ ہاتھ جھلا کر بے پرواہی سے بولیں۔۔۔۔
کون سی دعوت۔۔۔؟؟
تیرے تایا تائی آرہے ہیں اس جمعے۔۔"
وہ کیوں۔۔'
ارے کیوں کا کیا مطلب ہے مجھ سے ملنے آرہے ہیں ، اور مجھے لگتا ہے لگے ہاتھوں رانی کے رشتے کی بات کرنا ہوگی۔۔۔"
یہ تو اچھی بات ہے پھپھو پھر ہم کھانے میں روایتی دشوں کے علاوہ چائینز وغیرہ کا انتطام بھی کرلیں گے۔۔۔۔"
نور خوش ہوتے ہوۓ بولی۔۔۔
ہاں تو کھانا بنانا جانتی ہے ، اس لیے یہ ذمہ داری تیری ہے۔۔۔"
ٹھیک ہے پھپھو۔۔"
میں دیکھ کر بتاتی ہوں کیا کیا چیزیں آئیں گی بازار سے۔۔۔"
وہ واپس کچن میں جا گھسی۔۔۔۔
ہاتھوں میں روانی در آئی تھی۔۔۔۔

بحریہ ٹاؤن میں سیاحوں کا رش لگا ہوا تھا۔۔۔۔
دل بھر تھکے ہارے لوگ یہاں آکر اپنی تھکن اتارتے تھے۔۔۔،کچھ دوری پر بنے بنگلے کے مکینوں میں سرد سی جنگ چھڑی محسوس ہوئی۔۔

زین کو سو فیصد یقین تھا کہ کوئی اس کا ساتھ دے نا دے ، مگر ابو ضرور دیں گے۔۔۔،
قسمت کا لکھا تھا کہ وہ یہاں بیوی کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔۔۔۔۔

زین ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔۔۔ اس نے اپنے اور نور کے سنگ کئی خوابو۔ کے گھر سجا ڈالے تھے۔۔۔، وہ اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی ہلنے کو تیار نا تھا ۔۔۔

مگر یہ بات ان دونوں میاں بیوی کو سمجھانا انتہائی مشکل کام ثابت ہورہا تھا۔۔۔۔۔

دیکھو نور العین میری بھتیجی ہے ، میرے عزیز ترین بھائی کی اکلوتی نشانی ہے۔۔۔، مجھ سے بہتر کون چاہے گا کہ وہ ہمیشہ یہاں میرے پاس آکر رہنے لگ جائے۔۔۔ مگر تمہارے ساتھ منسوب کرنے کا میں ہر گزنہیں سوچوں گا۔۔۔"

وجہ تم اچھی طرح جانتے ہو وہ پڑھی لکھی نہیں ہے۔۔۔"

نادر صاحب نے نرمی سے بات شروع کی۔۔۔۔
ان کے پہلو میں بیٹھی بیگم قدرے پرسکون دکھائی دیں۔۔۔۔

مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا ابو۔۔۔۔"
زین نے جرح کی۔۔۔
ابھی نہیں پڑتا بعد میں پڑے گا۔۔۔۔"
بعد میں بھی نہیں پڑے گا مجھے یقین ہے۔۔۔"
ان کی بات پر وہ پختہ لہجے میں بولا۔۔۔

اک بوجھل سانس خارج کرکے انھوں نے زین کو دیکھا۔۔۔
تم جلد بازی میں غلط قدم اٹھانے جارہے،۔ہو محبت ساری زندگی کا درد سر نہیں ہے، انڈر اسٹینڈنگ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔۔"

میں مینیج کرلوں گا ابو۔۔۔۔۔"
زین کی ضد بھری دھونس پر افسوس سے نفی میں سر ہلاتے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔

زین نے ماں کو دیکھا جن کے چہرے پر ناراضی واضح جھلک رہی تھی۔۔۔۔۔

ایک بار شادی ہوجائے میں آپ دونوں کی امیدوں پر پورا اتروں گا، بس نور العین میرے نام سے منسوب ہوجائے، تمام خواب حقیقت کا روپ دھار لیں۔۔۔۔۔ بس!!!

وہ مسلسل مسکراتا خود کو منزل کے قریب سمجھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

ریحان انگشت شہادت پر بائیک کی چابی گھماتا اندر داخل ہوا پہلا سامنا رانی سے ہوا۔۔۔
اسے دیکھ کر غیر ارادی طور پر قدموں کو بریک لگایا۔ ۔
رانی ارد گرد کتابیں پھیلا رجسٹر چہرے کے اگے کئے رٹہ لگانے میں مصروف تھی۔۔۔

جیسے ہی منہ کے اگے سے رجسٹر ہٹایا تو رانی چونکی۔۔۔
کیا چاہیئے۔۔ ؟؟؟
اسے دیکھ کر خوامخواہ ہے تپتے ہوئے لہجے میں بولی۔۔۔
نجانے رانی کو اسے دیکھ کر پارہ ہائی کیوں ہونے لگتا تھا۔۔۔۔۔۔۔

جواب۔۔۔؟؟؟
وہ بھی ڈھیٹوں کا سردار بنے جم کر کھڑا سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔
کس سوال کا۔۔۔؟؟؟
آپ کے خفا اور اکھڑے انداز کی وجہ کا؟؟
رانی نے اس کے سوال پر لب بھینچے۔۔۔۔
بالوں کا جوڑا بنائے، پین درمیان میں اڑسایا ہوا، کندھے پر پرنٹڈ جارجٹ ڈوپٹہ پھیلا ہوا تھا۔۔۔۔

آپ کو کسی اور سے سوالات پوچھنے چاہئیے مجھ میں اتنا انٹریسٹ کیوں لے رہے ہیں میری مرضی میں چاہے جیسے بات کروں۔۔۔ "
حد ہی ہوگئی تھی نکاح کسی اور سے، اور فلٹرنگ کسی سے۔۔۔۔
ہنوں۔۔۔!!!
وہ سوچ کر نحوت سے جھٹک گئی۔۔۔
کسی اور سے کس سے پوچھنے چاہیئے۔۔ ۔؟؟۔ریحان کے براہ راست پوچھنے پر رانی لب دانتوں میں دبا گئی۔۔۔۔۔
بولیں۔۔۔؟؟؟
وہ اسے کے چہرے پر نظریں گڑائے کھڑا تھا، جب اماں صحن میں نکل آئیں۔۔۔

اسلام و علیکم آنٹی۔۔۔؟؟
انھیں دیکھ کر الف کی طرح سیدھا ہوا۔۔۔
رانی نے بے ساختہ امڈتی ہنسی کو دبایا۔۔۔
وسلام۔۔۔۔ کتنے دنوں بعد آئے ہو کہاں ہوتے ہو؟؟؟
اماں کو تو عادت تھی بات پہ بات نکالنے کی۔۔۔ وہ اپنا تخت پر بکھرا سامان سمیٹنے لگی۔۔۔

میں یہاں کم ہی ہوتا ہوں میری ڈیوٹی چھاؤنی کے علاقے کے قریب لگتی ہے اس لئے ہفتے ، ہفتے میں ہی آتا جاتا ہوں۔۔۔۔"
وہ تفصیلاً بتانے لگا۔۔۔ رانی نے خاموشی سے اپنا سامان اٹھائے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔۔۔

قریباً دس منٹ بعد وہ مرتسم کے پاس بالائی کمرے میں چلا آیا۔۔۔۔۔

کیپٹن آپ کی والدہ نے آپ کو گھر آنے کا کہا ہے۔۔۔۔۔"
سعد سے ملے تھے۔۔۔۔؟؟
ریحان نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
سعد نے بتادیا۔۔۔۔؟؟
نہیں وہ کیوں بتائے گا۔۔۔۔"
مگر وہ زیادہ دیر تک چھپا بھی سکے گا۔۔۔۔۔"
تو اس کا مطلب ہے آپ نے بھابھی کو منا لیا۔۔۔۔؟؟؟
بات نہیں ہوسکی۔۔۔۔"
مرتسم نگاہیں چرا کر بولا۔۔۔۔۔۔
واٹ۔۔۔۔؟؟
ایک ہفتہ۔۔۔۔، ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے کیپٹن آپ کی کوئی بھی بات نہیں ہوئی۔۔۔۔؟؟
وہ متحیر سا بولا۔۔۔۔
مرتسم کی خاموشی پر ریحان سنبھلا۔۔۔

ریحان پرسوچ انداز میں چہل قدمی میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔۔

وہ سیڑھیوں کی ریلنگ سے جھانکتے ہوئے نیچے کا جائزہ لینے لگا۔۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد فائقہ اپنے شوہر کے ہمراہ گیٹ سے باہر نکلی، انہوں نے نور کو چٹخنی چڑھاتے دیکھا۔۔

کچن میں کھڑی رانی کی نگاہ ریحان کی جانب پڑی۔۔۔
ریحان کے اشارے پر اس کا ماتھا ٹھنکا۔۔۔
واہیات انسان مجھے اشارے کررہا ہے کیسا ذلیل کیپٹن ہے ابھی دماغ درست کرتی ہوں۔۔۔"
وہ لمحوں میں غصے میں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اس کے پاس پہنچی۔۔۔
یہ کن اوچھی حرکتوں پر اتر آئے ہو تم کیپٹن ہوکر اشارے بازی تمھیں زیب نہیں دیتی۔۔۔۔"
رانی کے کھری، کھری سنانے پر ریحان سکتے میں آگیا۔۔۔

محترمہ اپنی زبان کو ذرا بریک لگائیں۔۔۔، نورالعین نے بات کرنی ہے اسے چھت پر بھیجیں۔۔۔۔"
وہ ماتھے پر بل ڈالے کرختگی سے بولا۔۔۔

وہ رانی کا جواب سنے بغیر اوپری جانب چلا گیا۔۔۔۔
جبکہ وہ اسے گھور کر ذریعے اترتی کمرے میں چلی آئی ۔۔۔ جہاں نور صفائی کرتی ہوئی ف
دِکھائی دی۔۔۔
چلو۔۔۔؟؟
کہاں۔۔۔"
وہ مرتسم تم سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔"
رانی کا موڈ ہنوز خراب تھا۔۔۔
میں مل کر کیا کہوں گی۔۔ ؟؟
آزادی مانگو گی، وہ ہر گز بھی تمہارے لائق نہیں ہے ، لفنگا کہیں کا،"۔

لفنگا کیوں کہہ رہی ہو۔۔۔۔؟؟
نور العین اس کے لب و لہجے پر آہستگی سے بولی۔۔۔۔
چلو ابھی بتاتی ہوں۔۔۔۔"
وہ اس کا بازو پکڑ کر کھینچتی ہوئی اپنے ساتھ لے گئی۔۔۔۔
____________________
جاری ہے :-

تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر تیرہویں قسط:-_______________________میں چلتے, چلتے تھک بھی گئیاور منزل ہاتھ نہیں...
04/08/2025

تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر تیرہویں قسط:-

_______________________

میں چلتے, چلتے تھک بھی گئی
اور منزل ہاتھ نہیں آئی
خود اپنے سپنے توڑ لئے
اور سکھ کی رات نہیں آئی
اب آکے ہوا مجھے اندازہ
میرا ساتھ وہ زندگی بھر دے گا
کیوں حد سے گزری وحشت میں
اسے دھیرے دھیرے کیوں نہ چھوا
کیوں سارے ناطے توڑ لئے
بڑی بھول ہوئی , احساس ہوا
جب ٹوٹے لمحے جوڑوں گی
مجھے جینے کی وہ خبر دے گا
میرا چھوٹا سا اک سپنا ہے
جسے پل میں پورا کردے گا
ان آتی جاتی سانسوں میں
وہ خوشبو کوئی بھر دے گا

رانی ہاتھ میں ٹرے لئے کمرے سے ذرا فاصلے پہ اکھڑی ہوئی۔۔۔
اندر جھانک کر صورتحال کا جائزہ لینا چاہا۔۔۔۔
مگر درمیان میں فاصلے کے باعث یہ ناممکن تھا۔۔۔۔
وہ لفظوں کے تانے بانے بنتی طویل سانس کھینچ کر دستک دیتی اندر بڑھی۔۔۔۔
ریحان اپنی دھن میں کوئی بات کررہا تھا اسے آتے دیکھ یک دم خاموش ہوکر پلٹا۔۔۔۔
وہ ان دونوں کو اپنی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھ کر بولی۔۔۔
یہ چائے اماں نے بھجوائی ہے۔۔۔۔"
اس کے سنبھل کر بات کرنے پر ریحان نے آگے بڑھ کر اس سے ٹرے لی۔۔۔
رانی ان دونوں میں کون سا کیپٹن مرتسم تھا اندازہ نا کر سکی۔۔۔۔۔۔

اسے سمجھ نہیں آرہی تھی بات کیسے کی جائے۔۔۔ جب کہ اب اس کا وہاں کوئی کام نہیں رہ گیا تو جانے کیلئے پلٹ گئی۔۔۔

سنئیے میڈم۔؟
ریحان کی پکار پر وہ جھٹکے سے مڑی۔۔۔
کیا آپ مس نورالعین سے ملاقات کرواسکتیں ہیں۔۔۔۔"
ریحان بنا لگی لپٹے رکھے مدعا بیان کرتا ہوا بولا۔۔۔
رانی کے ماتھے پر بل پڑے۔۔۔۔۔
اس نے سر تا پیر اس کا جائزہ لے ڈالا۔۔۔
کیجیول سے شرٹ ،پینٹ پہنے، بالوں کو پیچھے کی جانب بنائے ہوئے تھے، گندمی رنگت اور نین نقوش بھی ٹھیک ہی تھے۔۔۔۔۔۔

نور کسی بھی ملاقات کی خواہشمند نہیں ہے، اس کا کہنا ہے آپ جس بھی مقصد سے آئیں ہیں واپس چلے جائیں، کسی سے بھی ذکر کئے بنا۔۔۔۔۔۔"

رانی ریحان کو مرتسم سمجھ کر خاصے اکھڑے لہجے میں کہہ کر گھورتے ہوئے بولی اور سنے بغیر واپس چلی گئی۔۔۔۔۔۔

اس کے جاتے ہی وہ وہ مرتسم کی جانب مڑا۔۔۔
یہ محترمہ مجھ سے اس انداز میں بات کیوں کرکے گئیں ہیں۔۔۔۔؟؟؟
ریحان کو رانی کا ترش رویہ ایک آنکھ نا بھایا۔۔۔۔۔
مرتسم نے اس کے شکایتی لہجے پر تاسف سے اسے دیکھا:
چائے پی لو ریحان یہ بات اتنی اہم نہیں ہے۔۔۔۔۔"
وہ اسے مقصد یاد دلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

ریحان نے مرتسم کو دیکھا اپنا کپ اٹھا کر چھت کے کھلے نیلے فلک تلے صحن میں نکل آیا۔۔۔
رانی کا اکھڑا رویہ محض پہلی ملاقات میں اتنا سرد تھا تو کیوں۔۔۔؟؟
نا میں اسے پہلے سے جانتا ہوں اور ایم شیور اس نے بھی پہلے ہی دیکھا ہوگا۔۔۔۔"
وہ ان ہی سوچوں میں الجھا منڈیر سے نیچے جھانکنے لگا جہاں سے کچن اور آمدہ صاف دکھائی دیتا۔۔۔
ایک طرف کیاری بنا کر گھاس اور مختلف پھول پودے اگائے ہوئے تھے۔۔۔۔
ہوا کے ساتھ اٹھتی تازہ کھلی ہوئی گلاب کے پھول کی خوشبو اس کے ذہن کو ترو تازہ کرگئی۔۔۔۔۔
کمرے میں موجود مرتسم نے ایک ساتھ رکھی اپنی بے ساکھی کو دیکھا۔۔۔
کیا وہ اس سہارے کو دیکھ چکی ہوگی۔۔۔
شاید جبھی اس نے ملنا بھی گوارہ نا کیا۔۔۔۔۔۔"
منفی خیالوں کا حملہ اس قدر پرزور تھا کہ وہ ان سے نکل ہی نا سکا۔۔۔۔۔۔
چائے ٹرے میں رکھی ، رکھی ٹھنڈی ہوگئی۔۔۔
وہ یہ بھی بھول چکی ہے کہ میں چائے نہیں کافی پیتا ہوں۔۔۔۔۔"
وہ خود ترسی کا شکار چائے کے کپ کو دھندلی نگاہوں سے دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔

یوں اچانک مامی خود آنے کا کہہ رہیں ہیں تعجب کی بات ہے۔۔۔۔"

رانی کافی دیر سے ماں کے ساتھ ہی بیٹھی ان کی کال پر گفتگو سن رہی تھی۔۔۔ کال ختم ہونے کہ بعد طنزیہ انداز میں بولی تو اماں نے اسے بے دریغ گھورا۔۔۔۔۔

کیوں کیا وہ آتی جاتیں نہیں ہیں جو تو یوں بول رہی ہے۔۔۔۔۔؟

آئیں تھیں نا ایک سال پہلے ، آپ سے ہامے سانچے کروانے۔۔۔۔"
زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہاتھ دھو کر اپنے باپ کو کھانا دے۔۔۔ زیادہ پڑھ لکھ گئی ہے تو اب آئے دن مجھے سبق پڑھانے بیٹھ جاتی ہے۔۔۔۔۔"

جارہی ہوں۔۔۔۔"
وہ منہ بسورے وہیں لیٹ گئی اور آنکھوں پر بازو رکھ لئے۔۔۔۔۔

نور اے نور۔۔۔۔!!!
جی پھپھو۔۔۔؟؟
بیٹا دیکھ تیرے پھپھا آگئے انھیں کھانا دے دے۔۔۔۔"
جی پھپھو دے دیا آپ بھی کھالیں۔۔۔۔"
اچھا چل آرہی ہوں۔۔۔۔"

وہ سر ہلا کر چلی گئی۔۔۔۔
چل اجا ٹھوس لے رات کو کچھ منگوانے نہیں دوں گی تجھے میں۔۔۔۔"
وہ رانی کو کہتی گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئیں۔۔۔۔۔

سلیم صاحب ایک طرف کھڑے خاموشی سے بیوی کو دیکھ رہے تھے جو ان سے خفا بیٹھی ہوئیں تھیں اور کچھ سننے کو تیار نہیں تھیں۔۔۔
جب کہ وہ صفائیاں دے دے کر اب ہار مان چکے تھے۔۔۔، مگر بیگم صاحبہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھیں کہ ان کا لاڈلا بغیر کسی کو بنا بتائے کل سے غائب ہے۔۔۔۔۔۔۔

ایک طرف رکھے کاوچ پر سعد موجود تھا۔۔۔ اور منہ پہ قفل چڑھائے ہوئے وعدہ وفا کرتا دکھائی دیا۔۔۔۔
میں کچھ نہیں جانتی آپ میرے بیٹے کو صحیح سلامت گھر لے آئیں بس۔۔۔۔"

وہ ہاتھ اٹھا کر کہتیں کمرے سے نکل گئیں تو سعد نے باپ کی جانب دیکھا جنہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔۔۔۔۔

تمہارے ماں یہ جانتی ہے مرتسم جو بھی کرتا ہے اپنی مرضی سے کرتا ہے ، اس سے پہلے اس نے مجھے اپنے معاملات میں شریک نہیں کیا تو اب بھی کیوں بتا کر جائے گا۔۔۔۔۔"

سعد نے باپ کے جھکے سر کو دیکھا :
ایسی بات نہیں ہے بابا ، مرتسم بھائی اپنے ذاتی کسی کام گئے ہوئے ہیں کچھ دنوں میں آجائیں گے۔۔۔۔۔"
ڈھارس دیتے ہوئے کہا تو وہ اچھنبے سے اسے دیکھنے لگے۔۔۔
مرتسم کے مقابلے میں سعد کی طبیعیت نیچرل تھی جس کی اس کی ماں سے بنتی تھی اتنا ہی باپ کے بھی قریب تھا۔۔۔۔
مگر سلیم صاحب کو ہمیشہ مرتسم کی فکر لگی رہتی تھی وہ مزاج کا سیلف فش بھی واقع ہوا تھا۔۔۔ اور اپنے تعلقات کو جلد خراب کرلیتا تھا۔۔۔۔
جبکہ سعد سمجھدار اور مصلحت پسند تھا۔۔۔۔۔

کتنے دنوں بعد۔۔ ؟؟
ان کے سوال پر سعد نے لب بھینچ لئے اتنی معلومات تو خود اسے بھی نہیں دی گئی تھی۔۔۔۔۔
وہ خاموش رہا تو سلیم صاحب نے اس کے کندھے پر پاتھ رکھ کر تسلی دی۔۔۔۔

تمہاری ماں بتارہی تھی، کہ وہ اپنے کچھ کپڑے بھی لیکر گیا ہے۔۔۔۔؟؟؟
ہاں بابا ایسا ہی ہے۔۔۔۔"

سعد تمھیں پتا ہے نا وہ کہاں گیا ہے۔۔۔؟؟؟
سلیم صاحب کے درست نشانے پر وہ انھیں دیکھ کر رہ گیا۔۔
بابا میں آتا ہوں مجھے ایک کام یاد اگیا۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ سلیم صاحب اس پر زور دیتے وہ دامن بچا کر چلا آیا۔۔۔
نالائق ہیں دونوں کے دونوں ان کی ماں میرا جینا حرام کئے رکھتی ہے۔۔۔"
اب کہ وہ غصے سے بڑبڑاتے ہوئے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے روز کا سورج فلک پر چمکنے لگا، تو وہ کالج جانے کی تیاریوں میں مصروف یہاں سے وہاں بھاگنے لگی۔۔۔
ریحان تو سویرے ہی گھر روانہ ہوچکا تھا۔۔۔۔

مرتسم نماز فجر کے بعد سونے کیلئے لیٹ گیا تھا۔ ۔۔۔۔
اب اس کی آنکھ کمرے میں ہوتی دستک سے کھلی۔۔۔۔۔۔

دروازہ کھولا تو ادھیڑ عمر شخص کو دیکھ کر مرتسم نے جھٹ سلام کیا۔۔۔۔

وعلیکم سلام۔۔۔!!
سنجیدگی سے جواب دیتے بنا کوئی دوسری بات کئے وہ نیچے چلے گئے۔۔۔

نور۔۔۔۔؟؟
پھپھا کی آواز پر پودوں کو پانی دیتی رکی ، اور پائپ چھوڑ کر آواز کی جانب لپکی۔۔۔۔۔

جی جی پھپھا۔۔۔۔؟؟
تیری پھپھو کہاں ہے بیٹا۔۔۔؟؟
نور نے ان کی غصیلی آواز پر خائف نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔

وہ رانی کالج جارہی تھی تو اس کے ساتھ ہی سبزی لینے چلی گئیں۔۔۔۔"

وہ ماتھے پر بل سجائے کمرے میں گھم ہوگئے۔۔۔۔

مرتسم ناشتے کے بعد صحن میں نکل آیا بے ارادہ ہے لمبی منڈیر کے ساتھ لگ کر کھڑا ارد گرد دیکھنے لگا۔۔۔

پھپھو کچھ ہی دیر میں دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی نور کو آوازیں دینے لگی تو اس نے سر جھکا کر آواز کی سمت دیکھا۔۔۔
پسینے میں شرابور دونوں ہاتھوں میں سبزیوں کی شاپر پکڑے وہ تخت پر ہی بیٹھ گئیں۔۔۔۔
پھپھو آپ پانی پی لیں۔۔ "
اس کی آواز پر مرتسم کی آنکھوں میں چمک در آئی۔۔۔
سر پہ ڈوپٹہ جمائے ہاتھ میں پکڑا گلاس، دودھیا رنگت کچھ ، کچھ سرخی مائل سی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔

آج ایسا کر دال پالک بنا لے۔۔۔۔"
وہ پانی کا گلاس پکڑ کر دوپہر کے کھانے کا بتانے لگیں۔۔۔
پھپھو پھپھا آپ کا پوچھ رہے تھے۔۔۔؟؟؟
کیوں انھیں کیوں یاد آگئی میری۔۔۔"
پتا نہیں پھپھو۔۔۔"
اس کے چہرے سے جھلکتی معصومیت پر مرتسم کتنے ہی پل اسے یوں ہی دیکھتا رہا۔۔۔۔
وہ ایک مرلہ کے فاصلے پر تھی مگر اسے کوسوں دور محسوس ہوئی۔۔۔۔۔

چل میں دیکھتی ہوں۔۔۔"
وہ اٹھ کر اندر گئیں ، نور شاپر سمیٹنے لگی تو یوں ہی بے ارادہ نگاہ اوپر اٹھی۔۔۔
اک لمحہ تھا نگاہوں کے تصادم کا وہ چہرہ جھکا کر سرعت سے کچن میں غائب ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔
___________________
جاری ہے:_

کیسی لگی قسط؟؟؟

تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر بارہویں قسط:-_______________________ایک نیا اور انوکھا احساس ، اس کے رگ و پے میں...
31/07/2025

تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر بارہویں قسط:-

_______________________

ایک نیا اور انوکھا احساس ، اس کے رگ و پے میں سرائیت کرنے لگا تھا۔۔۔،
اس نے ذرا کی ذرا نگاہیں ترچھی کرکے شریک سفر کو دیکھا:
گریڈ بڑھ جانے کی خوشی ہر شئہ سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی اس کے لئے۔۔۔،
ہمارے مابین جو رشتہ طے پایا تھا اس کی بنیادی وجہ بھی تو ہی تھی۔۔۔

تم جانتی نہیں ہو نور العین میرے لئے یہ پوزیشن کیا معنی رکھتی ہے، مجھے اب کسی میجر کے اگے جواب دہی کرنا نہیں پڑے گی وہ فیصلے جو ایک کرنل لیتا ہے وہ میں لیا کروں گا بنا کسی کی اجازت لئے بغیر۔۔۔۔۔"

نور العین نے دیکھا وہ خوش تھا بہت خوش۔۔۔۔"
اچھا۔۔۔!!
وہ محض اتنا ہی کہہ سکی۔۔۔۔
مجھے چاروں طرف سے ستائشیں ملیں گی۔۔۔، اور میں یہ ڈیزرو کرتا ہوں۔۔۔"
اس کی بات پر نور نے گردن موڑ کر اس کا چہرہ بغور دیکھا۔۔۔۔

آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ سب آپ کو سرآنکھوں پر رکھیں، آپ کو جھک کر سلام کریں۔۔۔۔؟؟
اس کے سوال پر وہ اسے یوں دیکھنے لگا جیسے اس نے کوئی عجیب اور انوکھا سوال کیا ہو۔۔۔

کیا تم نہیں چاہتیں کہ لوگ تمہاری تعریفوں میں رطب لسان زمین و آسمان کے قلابے ملائیں۔۔۔۔۔؟؟؟
نہیں۔۔۔۔"
وہ جھٹ بولی تو اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔۔۔

کیوں تم اپنے آپ کو تعریف کے لائق نہیں سمجھتیں۔۔۔؟؟
وہ مضائقہ خیز انداز میں ہنستے ہوئے بولا۔۔۔۔
نہیں۔۔۔"
اس کے دو ٹوک اور سنجیدگی سے کہنے پر اس کی ہنسی تھمی۔۔۔۔۔

ہر انسان میں کوئی نا کوئی خوبی تو ہوتی ہے نور العین یقیناً تم میں بھی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔"
مجھ میں خامی ہے بس۔۔۔ اور میری یہ خامی تمام خوبیوں پر گرہن کی مانند ہے۔۔"
اس کا لہجہ اداس اور سوگوار سا تھا اس نے رخ موڑ لیا۔۔۔۔۔
جبکہ مرتسم گاہے بگاہے پورے راستے اسے دیکھتا رہا تھا۔۔۔۔۔
ان سڑکوں پر اس کا ان مہینوں میں روز کا آنا جانا تھا۔۔۔۔

کیا خامی ہے تم میں۔۔۔؟؟
وہ دونوں اب گاڑی سے نکل کر ایک پارک میں داخل ہوئے، یہ مقامی لوگوں کیلئے سیر و تفریح کی غرض سے بنایا گیا تھا جو حد نگاہ تک وسیع و عریض بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔

میں تعلیم جیسے زیور سے محروم ہوں۔۔۔"
اس کی بات پر مرتسم کو دھچکا لگا تھا ، وہ چلتے ، چلتے رکا۔۔۔۔

ڈونٹ ٹیل می نور سیریسلی۔۔۔۔!!
وہ اس کے انگریزی بولنے پر نا سمجھی اور بے پناہ حسرت کے ملے جلے تاثرات لئے اسے دیکھے گئی۔۔۔۔

میٹرک تو کیا ہی ہوگا تم نے۔۔۔۔؟؟؟
وہ حیرت زدہ لہجے میں استفسار کرنے لگا۔۔۔۔۔
میں نے اسکول کی بھی شکل نہیں دیکھی۔۔۔۔"
نور نے شرمندگی سے سر جھکا کر ممناتے ہوئے کہا:

اگر میرا کیرئیر داؤ پر نہیں لگا ہوتا تو میں کبھی تم سے نکاح نہیں کرتا۔۔۔۔، میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں پی ایچ ڈی ، ایم فل بندہ ایک ان پڑھ لڑکی سے شادی کرے نو نیور۔۔۔۔"
وہ کہہ رہا تھا مگر اسے اس بات کا قطعی احساس نہیں تھا کہ نور العین کو یہ بات برچھی کی طرح لگی تھی۔۔۔

چلو اچھا ہے کل تو ویسے بھی میں نے اس بندھن سے آزاد ہی ہوجانا ہے۔۔۔"
کچھ دیر کی خاموشی پر نورالعین نے اس کی تشکر بھری آواز سنی تھی۔۔۔۔۔۔۔

یہ بات اس کے ذہن سے چمٹ گئی تھی آکٹوپس کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نور کیا بہری ہوگئی ہو۔۔۔۔؟؟؟؟
رانی نے اس کا بازو پکڑے ہلایا تو وہ ہوش میں آئی۔۔۔۔
رانی کو نا سمجھی سے دیکھنے لگی۔۔۔
کیا ؟؟
کیا!! کیا؟؟ کب سے آوازیں دے رہی ہوں تمھیں کہاں کھوئی ہوئی ہو؟؟؟؟

میں نے سنا نہیں۔۔۔۔۔"
اچھا ہی ہوا نہیں سنا تو۔۔۔۔"
رانی بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں چلی گئی جب کہ نور وہیں کھڑی ہاتھوں کو مسلتے ہوئے مسلسل چھت کی جانب دیکھنے لگئ۔۔۔۔۔

نور کمرے میں اجا اماں نے یہاں دیکھ لیا تو صلواتیں شروع کردے گی۔۔۔۔۔"۔
وہ نور کو لئے کمرے میں گھس گئی۔۔۔۔

رانی یہ یہاں کیوں آئے ہیں۔۔۔؟؟؟
مجھے کیا پتا اماں بھی ہر ایرے غیرے کو کرائے پر رکھ لیتی ہے۔۔۔۔"
رانی کا اپنا ہی ایک الگ قصہ تھا۔۔۔

اگر انہوں نے پھپھو کو بتا دیا تو وہ مجھے گھر سے نکال دیں گی۔۔۔؟؟؟
نور العین کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہورہا تھا،رانی ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔
کون بتائے گا۔۔۔؟؟؟

کیپٹن۔۔۔۔"
کون کیپٹن ؟؟
کیپٹن مرتسم جو میرے نکاح میں ہییں۔۔۔"
وہ چڑچڑے سے انداز میں بولی تو رانی کا منہ کھلا رہ گیا۔۔۔ آنکھیں ابل کر باہر گرنے کو تھیں۔۔۔

ان میں سے کوئی ایک کیپٹن ہے۔۔ ؟؟؟
رانی حیرت اور شاکڈ کے مارے گنگ سی پوچھنے لگی۔۔۔
ہاں نا،اب کیا کروں میں۔۔۔۔؟؟؟

اگر اماں کو پتا چل گیا تو نور وہ تجھے ایک منٹ بھی برداشت نہیں کرے گیں۔۔۔۔۔"
رانی کی بات پر نور روہانسے چہرے سے دیکھنے لگی۔۔۔
اچھا رونا مت میں کچھ کرتی ہوں۔۔۔"۔
اس سے پہلے کہ نور کی آنکھوں سے سیلاب بہتا رانی نے تندہی سے بندھ باندھا ورنہ بن موسم برسات میں سب کچھ جل تھل ہوجاتا، اور جس کو نہیں پتا تھا اس کو بھی پتا چل جاتا۔۔۔۔۔

تم دونوں رہ لوگے نا اس کمرے میں۔۔۔۔؟؟
وہ ریحان اور مرتسم کو دیکھ کر پوچھنے لگیں۔۔۔
جی آنٹی۔ ۔ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔"
ریحان نے خوشگوار لہجے میں کہا:

کرایا ایڈوانس پانچ ہزار ریحان نے ان کی ہتھیلی پر رکھا تو پھپھو کی بانچھیں کھل اٹھیں۔۔۔۔
انہوں نے تین ہزار تک کا کرایہ سوچا ہوا تھا مگر یہاں تو ریحان نے جھٹ پانچ ہزار ان کے حوالے کردیا۔۔۔۔

بیٹا یہاں تم دونوں کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔۔۔۔"
آنٹی دراصل یہاں پر میں نہیں صرف یہ ہی رہے گے انھیں گھر کا مسئلہ در پیش تھا جو اب آپ نے ختم کردیا۔۔۔۔"

ریحان نے مرتسم کی جانب اشارہ کیا تو مرتسم ہقہ بقہ ان دا اسپوٹ اس کے بدلتے فیصلے پر دیکھنے لگا۔۔۔

اچھا اچھا۔۔۔۔!!
میں چائے پانی بھجواتی ہوں۔۔۔"
پھپھو ہزار، کے نوٹ مٹھی میں دبوچے کمرے سے نکل گئیں۔۔۔۔

یہ کیا بکواس ہے۔۔۔۔؟؟؟
مرتسم نے ایک نظر کمرے سے باہر ڈالی اور اسے آڑھے ہاتھوں لیا۔۔

سر آپ یہاں آرام سے رہیں جو بھی بات ہو کال کردیئے گا اور بھابھی کو منا کر لے آئیں گھر اور یاد سے اپنے گھر اطلاع دے دیجئے گا۔۔۔۔"

وہ اس کے سوال کا جواب دیتا رخصت ہوگیا۔

رانی اری اور رانی اپنے ابا کو بول بچوں کو یہ چائے تو دے آئیں ذرا۔۔۔۔!!
اماں وہیں سے ہانک لگانے لگی تو رانی جلدی جلدی کچن میں بھاگی آئی۔۔
لاؤ اماں میں دے کر آوں۔۔۔۔"
اماں نے سر تا پیر اس کا جائزہ لیا۔۔۔
نیلے قمیض ، شلوار میں ڈوپٹہ سر پہ اوڑھے وہ آج انھیں تمیز کے حلیے میں نظر آئی۔۔

ابا کہاں ہے تیرے تو مت جا۔۔۔۔!!۔!

ابا ابھی تک نہیں آئے ہیں میں دے آتی ہوں ٹھنڈی ہوجائے گی۔۔۔۔۔"
رانی نے کہہ کر ٹرے اٹھائی اور سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔۔
نور نے کمرے کی چوکھٹ سے رانی کو اوپر جاتے دیکھ ڈھیر ساری دعائیں دے ڈالیں۔۔۔۔۔۔
نور۔۔۔۔!!
پھپھو نے اسے دیکھتے ہی ہانک لگائی۔۔۔
جی جی پھپھو۔۔۔!!
وہ گڑبڑا کر ان کے پاس پہنچی۔۔۔
تو روٹیاں بنادے ۔۔۔۔ آج چار روٹیاں زیادہ بنالینا۔۔۔۔"
پھپھو اسے ہدایت دے کر چلی گئیں۔۔۔
وہ سر ہلا کر فریج سے آٹا نکالنے لگی۔۔۔۔۔

زین کے اٹل لہجے پر ماں حیرت زدہ رہ گئی۔۔۔

وہ کسی طور تیرے لائق کہاں ہے بیٹا۔۔۔۔؟؟
زین کی ماں نے نرم انداز میں سمجھانے کی سعی کی۔۔۔۔۔
لائق ، فائق کیا ہوتا ہے امی۔۔۔!! مجھے وہ پسند ہے آج سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے مجھے وہ پسند ہے میں جانتا ہوں ابو تو راضی ہوجائیں گے۔۔۔۔"
انہوں نے بیٹے کو گھورا۔۔۔۔

پسندیدگی ہمیشہ قائم نہیں رہتی زین، تیرے ساتھ سلجھی ہوئی تعلیم یافتہ لڑکی ہی جچے گی۔۔۔۔۔"
امی کی کوششیں ناکام ٹہریں ۔۔۔۔
وہ خفا ہو کر ان کے پاس سے اٹھ گیا۔۔۔۔۔

ناراض ہو کر مت سو ماں سے زین تو میرے لاڈ کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اب۔۔۔۔"
میری پہلی خواہش ہے جو میں آپ سے کررہا ہوں اس سے پہلے میں نے ضد کی ہے کبھی۔۔۔۔؟؟؟

اچھا میں تیرے ابو سے بات کروں گی ہم کل فائقہ کے یہاں رشتہ پکا کرنے چلے جائیں گے۔۔۔۔"۔
وہ بے دلی سے بولیں تو زین کے چہرے پر چمک اتر آئی۔۔۔۔۔

____________________

جاری ہے :-
قسط پڑھ کر کمنٹس ضرور کریئے گا۔۔۔

تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر گیارہویں قسط:-_______________________کیپٹن آپ ایک بار پھر سوچ لیں۔۔۔۔"ریحان کی م...
29/07/2025

تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر گیارہویں قسط:-

_______________________

کیپٹن آپ ایک بار پھر سوچ لیں۔۔۔۔"
ریحان کی مدہم آواز پر اس نے چونک کر دیکھا۔۔۔۔
کیا سوچوں۔۔۔؟؟
یہ ہی کہ یہ قدم آپ جذبات میں آکر اٹھا رہے ہیں۔۔، اس کا نتیجہ کیا ہوگا سوچا ہے آپ نے۔۔۔۔؟؟؟
ریحان کی بات پر مرتسم کی کشادہ پیشانی پر کئی بل نمودار ہوئے۔۔۔۔
قاضی صاحب نور العین سے اس کے سرپرست کے نام پوچھ رہے تھے جب کیپٹن نہایت برہمی سے ریحان سے گویا ہوا۔۔۔۔۔
میں فلحال اپنی پوسٹ بچانے کیلئے یہ اقدام کررہا ہوں۔۔۔اس کے سوا کوئی سوچ نہیں ہے میرے ذہن میں۔۔۔۔"
وہ بے حد رکھائی سے بولا۔۔۔۔۔۔ تو ریحان نے خاموشی اختیار کرلی۔۔۔۔
اب تک کہ کیرئیر میں وہ کیپٹن کی خودغرض طبیعیت سے خوب واقف تھا۔۔۔۔
اس نے ایک افسوس بھری نگاہ سامنے صوفے پہ موجود سر جھکائے بیٹھی لڑکی پر ڈالی۔۔، جو قاضی صاحب کی بات بغور سن رہی تھی۔۔۔۔۔

تھوڑی ہی دیر بعد نکاح شروع ہوا۔۔۔
حق مہر پہلے ہی مرتسم لکھوا چکا تھا پچاس ہزار پر نور العین نے تو کچھ نہیں کہا البتہ یہاں بھی ریحان ہی نے اعتراض اٹھایا تھا۔۔۔۔۔
مگر اس کی نا سنی گئی۔۔۔۔
اسے حیرت ہوئی تھی اس لڑکی پر ۔۔۔ کیسی بندی تھی جو اپنے حق میں ایک لفظ نہیں بول رہی تھی۔۔۔۔۔

ایجاب و قبول کے بعد ریحان قاضی صاحب کے ساتھ ہی چلا گیا تھا۔۔۔۔،
مرتسم نے سفید کرتا پہنا ہوا تھا۔۔۔۔
جبکہ نورالعین کا سلوٹ زدہ مرجنڈہ رنگ کا سوٹ تھا، چہرہ میک اپ سے پاک تھا۔۔۔۔۔۔
مرتسم نکاح نامہ دیکھنے لگا جبکہ وہ شش و پنج میں مبتلا یہاں سے بھاگ جانے کے در پہ تھی۔۔۔۔
اپنے سوچ پر عمل کرتے اٹھی ہی تھی کہ اس کی پکار پر اس کے قدم منجمد ہوئے۔۔۔۔
نورالعین روکو۔۔۔۔۔؟؟
اس نے پہلی دفعہ اس کا نام لیا تھا۔۔۔۔
مردانہ گھمبیر آواز پر اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔۔۔۔
جی۔۔۔!!
گلے میں پھنسی ہوئی آواز بمشکل نکالے استفسار کرنے لگی۔۔۔۔۔
کیا کھاؤ گی۔۔۔؟؟؟
حیرت کی انتہا نا رہی جب مرتسم کا سوال اس کے کانوں سے ٹکرایا، اس نے حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھا، اور غور سے شاید پہلی بار ہی دیکھا تھا۔۔۔
چمکتی کشادہ پیشانی، مقناطیسی سیاہ آنکھیں۔۔، چہرے پر ایک اطمینان سا جھلکا۔۔۔
جیسے سب کچھ اس کے ہاتھ میں آگیا ہو۔۔۔۔
نگاہیں ملتے ہی سرعت سے پلٹ کرگئیں۔۔۔
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔۔"
اس نے صاف انکار کیا۔۔۔۔

نور العین بیٹھ جاو مجھے بات کرنی ہے۔۔۔؟؟؟
اس کی بات پر سابقہ جگہ ٹک گئی۔۔۔۔

"میں اس رشتے کو کسی کے سامنے عیاں نہیں کروں گا،
پہلی وجہ کہ ہمارے سرپرستوں کی بے خبری میں یہ نکاح ہوا ہے۔۔۔،
دوسری اور بڑی وجہ یہ ہے کہ میں اسے طول نہیں دوں گا تمہارے ددیال ڈراپ کرتے ہی میں تمھیں آزاد کردوں گا۔۔۔ تم بھی کوشش کرنا اس رشتے کے بارے میں کسی کو پتا نا چلے۔۔۔۔۔"

وہ خود غرضی کے آخری درجے پر پہنچ چکا تھا مگر افسوس کا مقام یہ تھا کہ نور العین کو بھی رشتے کی نوعیت کا اندازہ نا تھا۔۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔ تو مرتسم پرسکون ہوگیا۔۔۔

میں ریحان سے کہتا ہوں وہ کھانے کا انتظام کرلے گا۔۔"
مرتسم کے چہرے پر چمک دیدنی تھی اس نے نکاح نامے کو قیمتی شئہ کی طرح پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانے کے دوران وہ خاموش رہی اور جلد ہی اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔
اسے اپنا آپ بہت خالی خالی لگ رہا تھا۔۔۔،
وہ ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتی رہی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔
فجر کی نماز سنتے ہی وضو کیلئے اٹھ گئی۔۔۔
فلک پر سفیدی پھیلنے لگی تھی۔۔۔۔
کمرے سے نکلی تو پتا چلا مرتسم نجانے کس وقت ڈیوٹی کیلئے نکل چکا تھا۔۔۔۔۔

جو اسے صحیح معنوں میں دھچکا لگا وہ تھا بنا ہوا ناشتہ۔۔۔
اس نے ڈھکی ہوئی ٹرے اٹھائی تو آملیٹ، بریڈ، کافی کا مگ دکھائی دیا۔۔۔
اس نے مگ پر ہاتھ رکھا تو وہ ٹھنڈی پھک ہوچکی تھی۔۔۔
جس کا مطلب تھا وہ کئی گھنٹے پہلے گھر سے نکلا تھا۔۔۔
ناشتہ گرم کرکے وہیں بیٹھ کر کھانے لگی۔۔۔
اس بات میں کوئی گنجائش نا تھی کہ اسے کھانا ذائقہ دار بنانا آتا تھا۔۔۔۔

اس نے دوپہر کا کھانا بنانے کا سوچتے ہوئے جلدی جلدی ناشتہ کیا ۔۔۔۔۔
دو بجے کے قریب دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ پلٹ کر دیکھنے لگی۔۔۔۔
مرتسم نے اندر آتے ہوئے دروازہ اپنے پیچھے بند کیا۔۔۔
گڈ آفٹر نون نورالعین۔۔۔۔"
دلفریب مسکراہٹ اچھال کر کہا تو اس نے محض سر ہلایا۔۔۔۔
اس نے محسوس کیا تھا وہ نکاح کے بعد سے پورے استحاق سے اسے پکارتا تھا۔۔۔۔۔
بریانی کو دم دے کر سلاد کیلئے کاٹے گئے کھیرے ، اور ٹماٹر پلیٹ میں رکھنے لگی۔۔۔۔

آپ یہ کیا کررہی ہیں۔۔۔؟؟
وہ حیرت سے اسے کچن میں کھڑا دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔
کھانا بنا رہی ہوں دوپہر کا۔۔۔"
کھانا ؟؟
اسے تعجب ہوا،
ہاں بریانی۔۔۔"۔نور کے سادگی سے کہنے پر وہ سر ہلا کر ایک نگاہ چولھے پر چڑھی دیگچی پر ڈالے چینج کرنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔
وہ پھر سے اپنے کام میں لگ گئی۔۔۔۔پھر
نماز ظہر ادا کرنے چلی گئی واپس آکر دیکھا تو وہ صوفے پہ بیٹھا مزے سے بریانی کھاتا پورا ، پورا انصاف کرنے لگا۔۔۔۔
نور نے دکھ سے اس کا خود غرض انداز دیکھا۔۔۔ نجانے کیوں اس کے انداز شدت سے اثر کرنے لگے تھے۔۔۔۔
وہ خاموشی سے اپنی پلیٹ میں بریانی نکالے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔

وہ ابھی آکر بیٹھی ہی تھی کہ مرتسم کمرے میں چلا آیا۔۔۔
نور اسے دیکھ کر کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

نور العین میرا گریڈ بڑھ گیا۔۔۔۔"
چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔۔۔۔
مبارک ہو۔۔۔"
نور العین نے مسکرا کر کہا تو وہ دو قدم چل کر اس کے قریب آیا۔۔۔۔
چلو آج میں تمھیں آؤٹنگ پر لے جاؤں گا۔۔۔۔۔۔"
وہ کہتے ساتھ ہی اس کی کلائی پکڑتے ہوئے بولا تو نورالعین فق چہرے سے اسے دیکھے چلی گئی۔۔۔۔۔
اس کے ہاتھ کا لمس اسے ساکن کرگیا۔۔۔
"میں ۔۔۔ میں یہیں ٹھیک ہوں۔۔۔"
وہ کپکپاتی آواز میں بولی اور اپنی کلائی کو دیکھنے لگی۔۔۔
مرتسم اس کی سنے بغیر اسے کھینچتا ہوا اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔
وہ کسی کٹی پتنگ کی طرح اس کے ساتھ کھنچی چلی گئی۔۔۔۔۔۔
______________________
جاری ہے:-
پڑھ کر کمنٹس ضرور کیا کریں۔۔۔

ناول تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر دسویں قسط  _____________________ملی جلی مد غم آوازیں اس کے کان کے پردے سے ...
27/07/2025

ناول تم سا ہوتا کوئی از قلم سیدہ جویریہ شبیر دسویں قسط _____________________
ملی جلی مد غم آوازیں اس کے کان کے پردے سے ٹکرائیں تو مارے تجسس وہ دروازہ کھول کر باہر آئی۔۔،
جلد ہی مرتسم کی شاکڈ اور کینہ توز نگاہوں سے احساس ہوا کہ اس نے کمرے سے باہر آکر بہت بڑی غلطی کردی۔۔۔
مگر مزید برا ہونا تھا اس لئے عین اسی لمحے اجنبی ادھیڑ عمر شخص اسے دیکھ کر کھڑا ہوا۔۔۔
سفید کلمے۔۔، وردی پہنے، یقیناً وہ ان ڈیوٹی تھے۔۔، مگر وہ یہاں ،مرتسم کے گھر کیا کررہے ہیں یہ بات اس کی عقل سے ماورا تھی۔۔۔۔
انہوں نے طنزیہ مسکراہٹ اچھال کر کیپٹن مرتسم کو دیکھا:
ان کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کیپٹن مرتسم کی چوری پکڑ چکے ہیں۔۔۔
مرتسم کے اس اچانک در آنے والی صورتحال پر چودہ طبق روشن ہوگئے۔۔، ماتھے پر پسینہ پھوٹ پڑا۔۔۔۔
اسے سمجھ نہیں آیا کن الفاظوں کا چناؤ کرکے وہ اپنی پوزیشن کلیئیر کرے۔۔
لفظوں نے اس کی زبان کا ساتھ تو چھوڑا ساتھ دماغ نے بھی نو رسپونڈنگ کا سگنل دے ڈالا۔۔۔۔
ترقی کچھ دن کی دوری پر تھی اس کا گریڈ بڑھنے والا تھا۔۔، تبادلہ ہوتا اور اس اجاڑ گاؤں سے اس کی جان چھٹتی۔۔ جہاں وہ پچھلے پانچ ماہ سے خواری کررہا تھا۔۔۔۔
مگر اب سب کچھ جیسے کھٹائی میں پڑتا نظر آیا۔۔۔۔
یہ کون ہیں یہ کیپٹن مرتسم۔؟؟
ان کے چہرے پر مسلسل مسکان رقصاں تھی۔۔۔۔ مگر آواز انتہائی پتھریلی سی کانوں کو چھبتی محسوس ہوئی۔۔۔،
نور العین کے وجود میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔۔۔
اس نے ہقہ بقہ نگاہوں سے مرتسم کو دیکھا جس کی توجہ کرنل کی جانب تھی۔۔۔۔
وہ اس کی ٹیم کے سئینر کرنلوں میں سے ایک تھے۔۔۔۔
جواب دو کیپٹن مرتسم کون ہے یہ لڑکی , تمہارے سرکاری گھر میں کیا کررہی ہے....؟؟

وہ کرنل کے یوں اچانک اجانے پر بوکھلا گیا؛
کس کو پتا چلا تھا , کس نے ملٹری سسٹم آفس میں رپورٹ کی تھی۔۔۔
وہ دماغ پر زور ڈالتے ہوئے بھی گھتی نا سلجھا سکا۔۔۔ اس نے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا تھا پھر کہاں چونک ہوگئی تھی بات افسروں تک پہنچ گئی۔۔۔۔

سر میں جاننا چاہتا ہوں کس نے رپورٹ کی ہے....؟؟کیپٹن چہرے سے اڑتی ہوئی ہوائیوں پر کسی حد تک قابو پاسکا تھا۔۔۔
جب کہ عقب میں کھڑی منہ چھپائے نور کا وہ حال تھا کاٹو تو بدن نہیں۔۔۔۔۔

خاتوں آپ یہاں تک کیسے پہنچیں , اور کس رشتے سے آپ کیپٹن کے گھر میں رہ رہی ہیں... جواب جلد ہی اور درست چاہیئے دوسری صورت میں آپ کو حراست میں لیا جائے گا۔۔۔"
کرنل سخت گیر لہجے میں بولا۔۔۔؛
کیپٹن کا ماتھا ٹھنکا۔۔۔
اسے اندازہ نہیں تھا بات یہاں تک پہنچ جائے گی۔۔۔۔

وہ نور کو کڑی نگاہوں سے دیکھنے لگے , نور خاموش کھڑی رہی جیسے اب وہ یہاں سے نہیں ہلے گی نا ہی کچھ بولے گی۔۔۔۔
گارڈز....؟؟؟؟
کرنل اس کی خاموشی پر بلند آواز بولے۔۔۔۔.
ایک منٹ سر آپ میری بیوی کو حراست میں نہیں لے سکتے یہ میری توہین ہے۔۔"
کیپٹن کی بات پر کرنل چونک پڑے جب کہ نور کے چودہ طبق روشن ہوگئے اس نے نگاہیں اٹھا کر حیرت اور شاکڈ سے اسے دیکھا جس کا چہرہ بے تاثر اور پتھریلہ تھا... دونوں ہاتھ ادب سے پیچھے بندھے ہوئے جسم اکڑ کر سیدھا اور سر اونچا جیسے گردن میں سلاخ پھنس گئی ہو جب کہ نگاہیں نیچی تھیں۔۔۔
نور العین نے کرنٹ کھا کر اسے دیکھا۔۔

تمھیں یہاں کہ رولز آف ریگولیشن معلوم ہیں پھر تم بنا بتائے کیسے اپنی وائف کو یہاں لائے ہو....؟؟
تمھیں اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیپٹن مرتسم۔۔۔"

کل تم ملٹری آفس آجانا اپنا نکاح نامہ لیکر..... اب تمہارا فیصلہ وہیں ہوگا۔۔"

وہ کڑک دار آواز میں کہہ کر مڑ کر چلے گئے۔۔۔۔
ان کے قدموں کی دھمک نور کو اپنے دل پر پڑتی محسوس ہوئی۔۔
جب کے ان کے جاتے ہی کیپٹن سر پکڑے کرسی پر بے دم سا بیٹھ گیا؛
اس کے سامنے تمام در بند ہوچکے تھے۔۔۔

وہ اس وقت خود غرضی کی انتہا پر تھا اسے اپنی پوزیشن بچانی تھی اور نکاح سے بہتر جھوٹ اسے کوئی نہیں ملا اس نے صرف اپنے بارے میں سوچا تھا مگر افسوس اس سب میں وہ بنا قصور کےآفت کی زد میں آگئی۔۔۔
آپ نے جھوٹ کیوں کہا میں آپ کی بیوی نہیں ہوں۔۔۔"
نور العین نے اس کے جھکے سر کو دیکھ کر ڈرتے ہوئے کہا:
اس نے سر اٹھا کر سرخ نگاہوں سے دیکھا:
نور اس کی لال انگارہ آنکھوں کو دیکھ کر سہم گئی۔۔۔
کیا ضرورت تھی تمھیں کمرے سے باہر نکلنے کی۔۔؟؟
وہ اس پر چڑھ دوڑا۔۔
نور اسکی آواز کی درشتگی پر ڈر کر پیچھے ہٹی۔۔۔
سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔۔، کاش اس رات تم مجھ سے نا ٹکراتیں۔۔۔تو یہ مصیبت میرے سر پر نازل نا ہوتی۔۔۔"
وہ اس پر چلانے لگا۔۔۔
میرا کیا قصور ہے اس میں۔۔۔؟؟؟
میرے باہر آنے سے کون سی آفت آگئی جو تمام لحاظ بلائے طاق رکھ بیٹھا۔۔۔
سب کی ذمہ دار ہو تم ۔۔۔ اور اس سب کا بھگتان تم میرے ساتھ برابر بھروگی۔۔"
وہ اس کی ہرنی سی سہمی آنکھوں میں اپنی نگاہیں گاڑھ کر کہتا کمرے میں بند ہوگیا۔۔۔
اس کے جاتے ہی آنسو گھلل گھلل اس کی پلکوں سے ٹوٹ کر بہتے چلے گئے۔۔۔

کچھ ہی منٹ بعد وہ کمرے سے نکلا اور اس کی جانب دیکھے بنا گھر سے نکل گیا۔۔۔۔۔
رش ڈرائیونگ کرتا ہوا وہ ریحان کی کیمپ پہنچا۔۔۔
وہ معمول کے مطابق اپنی ڈیوٹی پر معمور تھا۔۔۔
کیپٹن کی گاڑی دیکھ کر اس کے قریب چلا آیا۔۔۔
سلام سر۔۔!!
وسلام ریحان تم کسی قاضی کو جانتے ہو جو ایمرجنسی نکاح پڑھا دے ۔۔۔۔۔؟؟
اس نے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا؛
ریحان کو پہلے پہل کچھ پلے ہی نا پڑھا۔۔۔،
جانتے ہو؟؟؟
مرتسم نے اس کے حیرت سے دیکھنے پر چٹکی بجائی۔۔۔۔
جی سر جانتا ہوں ، جانتا ہوں۔۔"
وہ ہڑبڑا کر بولا۔۔۔
ٹھیک ہے چلو تم میرے ساتھ میرے نکاح کے گواہ تم بنو گے۔۔"
وہ چلتے ہوئے راز داری سے اسے سمجھانے لگا۔۔۔۔
اسے یہ کام جلد از جلد کرنا چاہتا تھا۔۔۔ بے حد راز داری سے!!!
دوسرا گواہان بھی انھیں قاضی صاحب کی جانب سے مل گیا تھا۔۔۔
اگلے گھنٹےمیں وہ اس کے گھر میں موجود تھے۔۔۔
نور العین جانتی تھی اس کے انکار کو اہمیت نہیں دی جائے گی۔۔۔۔ وہ قسمت کے دھارے پرخود کو چھوڑ چکی تھی۔۔۔۔
میں اپنی نور کا ویاہ بڑے دھوم دھام سے کروں گی نکاح کے ابا۔۔۔"
ہاں ، ہاں نیک بخت تیرا جیسا من ہو کرنا۔۔"
ابا ، اماں کی یاد آتے ہی کے ہاتھ کانپ گئے۔۔ جس جوڑے میں وہ ملبوس تھی اسی میں اس کا نکاح پڑھایا جارہا اتھا۔۔۔۔
-------------------------------
جاری ہے؛-

Address

GHOSIA QUATER HOUSE NO 121 BLOCK C/2 UNIT #O8 LATIFABAD HYDREABAD
Hyderabad
71800

Website

https://digitallibraryreadingbook.blogspot.com/?m=1, https://novelisticeraweb

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Syeda Jaweria Shabbir Offical posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Syeda Jaweria Shabbir Offical:

Share

Category