Urdu Poetry and Urdu Literature

Urdu Poetry and Urdu Literature Welcome to Urdu Literature & Urdu Poetry, We are starting our journey with you all people.

**Short Introduction of Urdu Literature and Poetry**

Urdu literature and poetry hold a rich legacy that blends deep emotion, cultural diversity, and linguistic elegance. Originating from the Indo-Persian tradition, Urdu literature flourished during the Mughal era and evolved through iconic writers like Mir Taqi Mir, Ghalib, Allama Iqbal, and Faiz Ahmed Faiz. Urdu poetry, known for its *ghazals*,

*nazms*, and *marsiyas*, explores themes of love, loss, spirituality, and resistance. It remains a powerful voice of the subcontinent, celebrated for its rhythm, metaphors, and philosophical depth. Urdu continues to influence modern art, music, and popular culture.

** **

10/03/2025

ایک ٹویوٹا کرولا کے دروازے پہ ڈینٹ تھا۔ اس کے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا. کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔
سننے والا اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا؛
-سرگوشی سنو گے یا اینٹ سے بات سنو گے !
ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی برانڈ نیو ٹویوٹا کرولا میں دفتر سے ڈی ایچ اے میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا. اچانک اس نے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی. مگر پھر بھی اس نے بچے کو کوئی چیز اچھالتے دیکھا۔ ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی گاڑی کے دروازے پر لگی تھی. اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا ڈینٹ پڑ چکا تھا.
اس نے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر اینٹ مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا. "اندھے ہوگئے ہو، پاگل کی اولاد؟ تمہارا باپ اس کے پیسے بھرے گا؟" وہ زرو سے دھاڑا
میلی کچیلی قمیض پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے.
"سائیں، مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟
میں ہاتھ اٹھا کر بھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی." اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا. اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے اور سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی جانب اشارہ کیا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے. بہت وزنی ہے. مجھ سے اُٹھ نہیں رہا تھا، میں کیا کرتا سائیں؟"۔
بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر ایک حیرانی آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا تو دیکھا ایک معذور شخص اوندھے منہ مٹی میں پڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ شائد وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں گئی اور نیچے آگری اور ساتھ ہی پکے ہوئے چاول بھی گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے۔
"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو اٹھوا کر کرسی پر بٹھا دو." اب میلی شرٹ والا بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا۔
نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے پھندا سا لگ گیا۔ اسے معاملہ سمجھ آگیا اور اپنے غصے پر بہت ندامت محسوس ہورہی تھی۔ اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چیئر پر بٹھا دیا۔ بچے کے باپ کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا۔
وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں سے پچاس ہزار نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے۔ پھر ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا۔ بچہ ممنونیت کے آنسوؤں سے اسے دیکھتا رہا اور پھر باپ کو لیکر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا۔ اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا۔
نوجوان نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں رہنے والوں کے لیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا۔
وہ ٹویوٹا کرولا اس کے پاس مزید پانچ سال رہی، تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا. کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔
اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے. جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے طرف اینٹ بھی اچھال دیتا ہے۔
پھر وہ بات ہمیں سننا پڑتی ہے۔
ہم جہاں ملازمت، بزنس، خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کے لیے بھاگے جارہے ہیں، وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخیں اور سرگوشیاں بکھری پڑی ہیں۔ اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آئے۔😔😔😔

10/03/2025

نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی

08/03/2025

ایک 90 سالہ بزرگ خاتون کی طرف سے لکھا گیا! ❤️
زندگی نے مجھے 42 سبق سکھائے ۔
یہ ایسی چیز ہے جسے ہم سب کو ہفتے میں کم از کم ایک بار پڑھنا چاہیے! یقینی بنائیں کہ آپ آخر تک پڑھیں!
سادہ ڈیلر، کلیولینڈ، اوہائیو کی 90 سالہ ریجینا بریٹ کی طرف سے لکھا گیا۔
"بوڑھے ہونے کا جشن منانے کے لیے، میں نے زندگی کے 42 سبق لکھے ہیں۔" یہ سب سے زیادہ مانگا جانے والا کالم ہے جو میں نے کبھی لکھا ہے۔ اگست میں میری عمر 90 سال ہوگئی، لہٰذا یہ کالم ایک بار پھر پیش ہے:

1. زندگی منصفانہ نہیں ہے، لیکن یہ پھر بھی اچھی ہے۔
2. جب شک ہو تو، صرف اگلا چھوٹا قدم اٹھائیں۔
3. زندگی بہت مختصر ہے، اس سے لطف اٹھائیں۔
4. جب آپ بیمار ہوں گے تو آپ کا کام آپ کا خیال نہیں رکھے گا، بلکہ آپ کے دوست اور خاندان رکھیں گے۔
5. ہر ماہ اپنے کریڈٹ کارڈز کی ادائیگی کریں۔
6. آپ کو ہر بحث جیتنے کی ضرورت نہیں ہے، اپنے آپ سے مخلص رہیں۔
7. کسی کے ساتھ رونا اکیلے رونے سے زیادہ شفا بخش ہوتا ہے۔
8. اپنے پہلے پے چیک سے ہی ریٹائرمنٹ کے لیے بچت شروع کردیں۔
9. جب بات چاکلیٹ کی ہو تو مزاحمت بے کار ہے۔
10. اپنے ماضی کے ساتھ صلح کرلیں تاکہ یہ آپ کے حال کو خراب نہ کرے۔
11. یہ ٹھیک ہے کہ آپ کے بچے آپ کو روتے ہوئے دیکھیں۔
12. اپنی زندگی کا دوسروں سے موازنہ نہ کریں، آپ نہیں جانتے کہ ان کا سفر کیا ہے۔
13. اگر کسی تعلق کو راز رکھنا پڑے تو اس میں رہنا ہی نہیں چاہیے۔
14. ایک گہری سانس لینا دماغ کو سکون دیتا ہے۔
15. کسی بھی ایسی چیز سے چھٹکارا پالیں جو مفید نہ ہو، بے کار سامان آپ کو کئی طرح سے بوجھل کرتا ہے۔
16. جو چیز آپ کو مار نہیں دیتی، وہ آپ کو مضبوط بناتی ہے۔
17. خوش رہنے میں کبھی دیر نہیں ہوتی، لیکن یہ سب آپ پر منحصر ہے، کسی اور پر نہیں۔
18. جب زندگی میں اپنی پسند کی چیز کے پیچھے جانے کی بات ہو تو، کسی کے "نہ" کو جواب نہ دیں۔
19. موم بتیاں جلائیں، اچھی چادریں استعمال کریں، فینسی لنگری پہنیں۔ کسی خاص موقع کا انتظار نہ کریں، آج ہی کا دن خاص ہے۔
20. زیادہ سے زیادہ تیاری کریں، پھر حالات کے مطابق چلیں۔
21. ابھی سے سنسنی خیز ہوجائیں، جامنی رنگ پہننے کے لیے بڑھاپے کا انتظار نہ کریں۔
22. سب سے اہم جنسی عضو دماغ ہے۔
23. آپ کے علاوہ کوئی آپ کی خوشیوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔
24. ہر نام نہاد مصیبت کو ان الفاظ میں دیکھیں: "پانچ سال بعد کیا یہ معاملہ اہم ہوگا؟"
25. ہمیشہ زندگی کو ترجیح دیں۔
26. معاف کردیں مگر بھولنا نہیں۔
27. دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، وہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔
28. وقت تقریباً ہر چیز کو ٹھیک کردیتا ہے، وقت دیں۔
29. حالات چاہے جتنے بھی اچھے یا برے ہوں، بدل جاتے ہیں۔
30. خود کو اتنی سنجیدگی سے مت لیں، کوئی اور نہیں لیتا۔
31. معجزات پر یقین رکھیں۔
32. زندگی کا حساب کتاب نہ کریں، اسے جئیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
33. بڑھاپا جوان مرنے سے بہتر ہے۔
34. آپ کے بچوں کو صرف ایک بچپن ملتا ہے۔
35. آخر میں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نے محبت کی ہے۔
36. ہر روز باہر نکلیں، معجزے ہر جگہ انتظار کر رہے ہیں۔
37. اگر ہم سب اپنی پریشانیوں کو اکٹھا کرکے دیکھیں تو ہم اپنی اپنی پریشانیاں واپس لے لیں گے۔
38. حسد وقت کا ضیاع ہے، جو آپ کے پاس ہے اسے قبول کریں، جو نہیں ہے اس کی تلاش نہ کریں۔
39. بہترین ابھی آنا باقی ہے۔
40. اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں، اٹھیں، تیار ہوں اور دکھائیں۔
41. پیداواری رہیں۔
42. زندگی ہمیشہ آسان نہیں ہوتی، لیکن یہ پھر بھی ایک تحفہ ہے۔

08/03/2025

ایک خاموش قاتل
تصور کریں، آپ ایک ایسی مخلوق کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو خاموشی سے آپ کی قیمتی اشیاء کو تباہ کر رہی ہے، اور جب آپ کو اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے تو سب کچھ برباد ہو چکا ہوتا ہے۔ آپ کے ذہن میں کیا آئے گا؟ یقیناً، دیمک۔

یہ چھوٹے مگر خطرناک حشرات کبھی سوتے نہیں۔ ان کی کالونیاں لاکھوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جہاں ہر دیمک کو کام تفویض کیا جاتا ہے۔ ان کے درمیان ایک ملکہ ہوتی ہے، جس کے حکم پر سب بے چون و چرا عمل کرتے ہیں۔ دیمک کی یہ سلطنت بظاہر نظر نہیں آتی، لیکن جب نقصان کا احساس ہوتا ہے، تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

لیکن اگر میں کہوں کہ انسانوں کی زندگی میں بھی ایک ایسی ہی "دیمک" موجود ہے، تو کیا آپ یقین کریں گے؟ جی ہاں، وہ ہے مفروضے۔

مفروضوں کا خوفناک کھیل
ہمیں ہمارے ہی مفروضے ڈراتے ہیں۔ سوچیں، اگر آپ کسی گھنے جنگل میں تنہا سفر کر رہے ہوں اور ہر جھاڑی کے پیچھے کسی بلا کے چھپے ہونے کا خدشہ ہو۔ وہاں شاید کچھ بھی نہ ہو، لیکن آپ کا دماغ کہانیاں بناتا رہے گا۔ ہر سایہ، ہر ہلتی ہوئی جھاڑی، ہر سرسراہٹ آپ کے دل کی دھڑکن تیز کر دے گی، حالانکہ حقیقت میں وہاں کچھ بھی نہیں ہوگا۔

یہی مفروضے ہمیں یا تو احساسِ برتری دے کر مغرور کر دیتے ہیں یا احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے ہماری خودی کو کچل دیتے ہیں۔

مفروضے اور حقیقت کا فرق
انسان نے صدیوں میں بے شمار علوم حاصل کیے، لیکن ریاضی (Maths) واحد علم ہے جو انہی مفروضوں کو قابو میں لا کر حقائق تک پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ الجبرا میں بھی تو یہی ہوتا ہے، ہم فرض کرتے ہیں کہ 'الف' یہ ہوگا اور 'ب' وہ، اور پھر انہی مفروضات کے سہارے پیچیدہ مسائل کا حل نکال لیتے ہیں۔

ہمارا دماغ بھی مفروضے بنانے سے باز نہیں رہ سکتا۔ یہ اس کا بقا کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب مفروضے حقیقت پر غالب آ جاتے ہیں اور ہماری زندگی میں دیمک کی طرح سرایت کر جاتے ہیں۔

مفروضے: رشتوں کے دشمن
جب مفروضے ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں، تب یہ سب سے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ یہ رشتوں میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں، اعتماد کو شک میں بدل دیتے ہیں، اعتبار کو خوف بنا دیتے ہیں۔

ایک لمحے کے لیے سوچیں، کیا آپ کی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا؟
کبھی کسی دوست کے دیر سے جواب دینے پر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہ بدلے گئے ہیں۔
کبھی کسی عزیز کے رویے کو غلط سمجھ کر اس سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔
کبھی اپنی صلاحیتوں کو کمتر سمجھ کر آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کرتے۔

لیکن اگر ہم حقیقت کی روشنی میں دیکھیں، تو ان میں سے زیادہ تر مفروضے ہوتے ہیں، حقیقت نہیں۔

اختتامیہ
یاد رکھیں! ہر شخصیت کے اندر ایک کمزوری کا بادشاہ یا ملکہ ہوتی ہے، اور وہ ایک مفروضہ ہی ہوتا ہے۔ اگر ہم ان بے بنیاد خیالات کو قابو نہ کریں، تو یہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیں گے، بالکل دیمک کی طرح۔

تو کیوں نہ ہم اپنے دماغ کو تربیت دیں کہ صرف ان ہی مفروضوں کو قبول کرے جو حقیقت سے جُڑے ہوں؟ کیوں نہ شک کو اعتماد میں، اور خوف کو یقین میں بدل دیں؟

کیا آپ اپنے مفروضوں سے آزاد ہونے کے لیے تیار ہیں؟ 😊

07/03/2025

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرا ر نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں تو کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدا ر نظر آتے ہیں

06/03/2025

تم ترک تعلق کا کبھی کہیں کسی سے ذکر نا کرنا
میں لوگوں سے کہہ دوں گا کہ فرصت نہیں ملتی

06/03/2025

عمر جلووں میں بسر ہو یہ یہ ضروری تو نہیں
ہر شب غم کی سحر یہ ضروری تو نہیں
نیند تو درد کے بستر پے بھی آسکتی ہے
تیری آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں
آگ کو کھیل پتنگوں نے سمجھ رکھا ہے
سب کو انجام کا ڈر ہو یہ ضروری تو نہیں
شیخ کرتا ہے جو مسجد میں خدا کو سجدے
اس کے سجدوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں
سب کی ساقی پہ نظر ہو یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں
ساغر صدیقی

06/03/2025

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو
اُس جھیل کنارے پل دو پل
اِک خواب کا نیلا پھول کھلے
وہ پھول بہا دیں لہروں میں
اِک روز کبھی ہم شام ڈھلے
اس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اس وقت کہیں اُن آنکھوں میں اس بسرے پل کی یاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو
پھر چاہے عمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہو جائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر درد نمایاں ہو جائے
اس جھیل کنارے پل دو پل وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آزاد تو ہو
اِن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو

04/03/2025
Say Alhumdulilah and recite Darood e Pak
27/05/2023

Say Alhumdulilah and recite Darood e Pak

20/05/2023

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے ہمیں مسلمان بھائی بنایا اور ایک دوسرے کی مدد کرنے پر سبقت لے جانے والوں کو پسند کیا۔

03/05/2022

Eid mubarak to all

Address

Urdu Literature & Urdu Poetry
Islamabad
44000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Poetry and Urdu Literature posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share