Just Human Being

Just Human Being Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Just Human Being, Islamabad.

بابا کی جرات ہمت کو سلام اور دینے والے کو بھی وعلیکم اسلام ۔🥳
09/06/2025

بابا کی جرات ہمت کو سلام اور دینے والے کو بھی وعلیکم اسلام ۔🥳

Shah not prefer to wear undergarment waistcoated .
09/06/2025

Shah not prefer to wear undergarment waistcoated .

Pakistani TikToker Areeka Haq claims some content creators leak their own private videos for quick fame. In a recent int...
08/06/2025

Pakistani TikToker Areeka Haq claims some content creators leak their own private videos for quick fame. In a recent interview, she said a few intentionally use such tactics to gain viral attention. Areeka emphasized this isn't a common trend but noted a rise in such disturbing behavior. She urged creators to be mindful of their character and online presence.

Disclaimer: This post shares a public statement and does not endorse or target individuals.

بات تلخ ہے اور بہت سارے لوگوں کو چبھے گی مگر سچ یہی ہے کہ ٹک ٹاک پر ڈیجیٹل کری ایشن کے نام پر جو دھندہ چل رہا ہے وہ بڑا ...
08/06/2025

بات تلخ ہے اور بہت سارے لوگوں کو چبھے گی مگر سچ یہی ہے کہ ٹک ٹاک پر ڈیجیٹل کری ایشن کے نام پر جو دھندہ چل رہا ہے وہ بڑا ہی گندہ ہے۔
راتوں رات وائرل ہونے اور پھر ڈالروں میں کھیلنے والی یہ لڑکیاں بدقسمتی سے نئی نسل کے لیے رول ماڈل بن چکی ہیں۔کیونکہ اس میں ٹیلنٹ اور محنت کے بجائے صرف خوبصورت ہونا کافی ہوتا ہے۔
اور ان ٹک ٹاکرز کا لائف سٹائل اور عیاشی ہمارے ملک کا بہت بڑا طبقہ اپنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ راتوں رات پیسہ اور شہرت اور اتنا پیسہ کہ پورا خاندان بیٹیوں کی اس کمائی پر پلنے لگے۔حلال کا محنت سے کمایا ہوا رزق کمانا بہت مشکل ہے ۔اتنا مشکل کہ اس ملک کے نوجوان مرد ڈیجیٹل کریئیٹرز کو دیکھ لیں جو گرافک ڈیزائننگ ، ویب ڈیولپمنٹ ،تھری ڈی اینیمیشن ،وی لاگنگ ، ویڈیو ایڈیٹنگ یا اس جیسی کسی مشکل اور محنت طلب فیلڈ سے وابستہ ہیں۔یہ نوجوان اپنی فیلڈ میں سالوں لگا کر بھی وہ حاصل نہیں کر سکتے جو یہ ٹک ٹاکر لڑکیاں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا گورا چہرہ اور سرخ ہونٹ دکھا کر دو مہینے میں حاصل کر کے دبئی چھٹیاں منانے بھی پہنچ جاتی ہیں ۔۔ساتھ ہی خاندان بھر کی چاندی ہو جاتی ہے سب ایک غریب بدبودار محلے سے اٹھ کر مہنگے مہنگے پر تعیش بنگلوں میں پہنچ جاتے ہیں یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے ۔
اور سب سے بڑی سہولت جو ان لڑکیوں کے پاس ہر وقت دستیاب ہوتی ہے کہ جب بھی ڈالرز کی آمد میں کمی ہونے لگے تو اپنی ایک نا زیبا ویڈیو خود ہی ریکارڈ کر کے مارکیٹ میں پھینک دو اور پھر سے ہن برسنا شروع۔
ایسی لڑکیوں کے خاندان والے چونکہ عادی ہو جاتے ہیں اس لیے کون غیرت کھا کر ایسی لگژری لائف کو ٹھوکر مارتا ہے۔کبھی کسی ایک آدھ کیس میں کوئی غیرت کر لے تو کر لے ورنہ ایک دو دن کی تھوتھو کے بعد سب اپنے دھندے پر لگ جاتے ہیں۔بیٹھ کر بلکہ پاؤں پسار کر کھانا کسے پسند نہیں ۔اس کے لیے عزت اور غیرت جیسی فرسودہ چیزوں کی پرواہ کون کرتا ہے؟
ایمان داری سے بتائیں کہ آپ کے نزدیک ڈیجیٹل کریئیٹر کی تعریف کیا ہے؟
وہی جو جنت مرزا ، علیزے سحر ، مناہل ملک اور امشا رحمن کر رہی ہیں کیا وہی ڈیجیٹل کری ایشن ہے؟
وہی سج سنور کر آئینے کے سامنے جسم اور ادائیں دکھانا ، ڈانس کرنا ، ذو معنی گفتگو اور اشارے کرنا اور چوبیس گھنٹے فضول کی بک بک کو آپ بھی ڈیجیٹل کری ایشن سمجھتے ہیں تو مبارک ہو آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں ۔
اب تازہ ترین واقعہ ایک اور ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا ہے۔
بقول لوگوں کے وہ تو بہت ہی سادہ اور شریفانہ کونٹنٹ بناتی تھی۔میں نے اس کی موت کے بعد چند ویڈیوز دیکھیں جن میں وہ کہہ رہی تھی کہ لڑکو شادی کسی پٹھانی یا چترالی لڑکی سے کرنا ۔کیوں؟
کیونکہ وہ میری طرح گوری اور خوبصورت ہوتی ہیں۔
محض سترہ سال کی عمر کی بچی اور ایسی سوچ؟
مٹھائی کی پلیٹ کھلی رکھ دی جائے تو اس پر مکھیاں بیٹھ کر اسے آلودہ کر دیتی ہیں۔تو ایسی خوبصورت اور بھولی بھالی بیٹیوں کو والدین دوسروں کے سامنے شوپیس یا ان کا جذباتی کھلونا (جذباتی کی جگہ ایک اور لفظ مناسب تھا) بننے کی اجازت اور آزادی کیوں دیتے ہیں کیا وہ عمر کے اس حصے میں بھی ہمارے ہاں کے مردوں کی عمومی گھٹیا سوچ سے واقف نہیں ہوتے؟
چلیں مان لیا کہ وہ سترہ سالہ بچی صاف ستھرا کونٹنٹ بناتی تھی تو کیا دیکھنے والے اسے صرف بچی سمجھتے تھے؟
کیا وہ اس کے سارے مرد فولورز اسے اپنی بہن کی طرح نظریں جھکا کر دیکھتے تھے؟
کیا اس کے فولورز نے اس پر کبھی بری نظر نہیں ڈالی ہوگی؟
اس کی ویڈیوز کے نیچے اس کے فولورز گھٹیا کمنٹس نہیں کرتے تھے؟
سیانے کہتے ہیں۔
not every follower is your fan.

آج کل کے بھولے والدین یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ آپ کی بھولی بھالی بیٹی کو ہوس کے پجاری معصوم نظروں سے نہیں دیکھتے ۔وہ اسے انہی نظروں سے دیکھتے اور تولتے ہیں جن نظروں سے ایک ہوس پرست مرد کسی بھی نا محرم لڑکی یا عورت کو دیکھتا ہے۔اور اس کے ساتھ وہی کچھ کرنا چاہتا ہے جو ایسا مرد کسی بھی عمر کی عورت کے ساتھ کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ بچی سترہ کی ہے یا چھ سال کی ۔
اور یہ سب غلاظت وہ اپنے کمنٹس کی صورت میں ایسی بھولی بھالی لڑکیوں کی ویڈیوز پر سب کے سامنے کمنٹس کے ذریعے پھیلاتے رہتے ہیں۔
خدارا اپنی بھولی بھالی بیٹیوں کو ٹک ٹاک نامی ہوس کی اس ڈیجیٹل منڈی کی جنس نہ بننے دیں۔اپنی بیٹیوں کی خود حفاظت کریں ۔بے شک ان کی ہر خواہش پوری کریں مگر گھر کی چار دیواری کے اندر انہیں محفوظ رکھیں۔
دنیا بڑی ظالم ہے یقین نہیں آتا تو ثناء یوسف کا مردہ چہرہ دیکھ لیں۔اللہ پاک اس کی مغفرت فرمائے۔ آمین ثم آمین
اور اس کے قاتل کو سخت ترین سزا دے کر مثال عبرت بنایا جائے۔
یقین مانیں میں اس ڈیجیٹل کری ایشن کے خلاف نہیں ہوں۔ہماری آج کی نسل کے پاس پہلے سے کہیں بڑھ کر مواقع ہیں ۔اپنی بات کہنے کے ، آگے بڑھنے کے ، اپنا آپ منوانے کے، اپنے حالات بدلنے کے اور ترقی کرنے کے مگر اس کے لیے جسم کی نمائش جیسا شارٹ کٹ اپنانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔یہ ہماری اقدار نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ہماری تہذیب ہے۔ ہماری بیٹیاں ہمارا فخر ہیں باپ کے سر پر رکھی پگڑی ہیں ،بھائیوں کے کاندھے کی چادر ہیں۔ان کی حیا اور خوبصورتی اتنی سستی نہیں کہ ٹک ٹاک پر ٹکے ٹکے کے مردوں کے سامنے بطور تفریح پیش کی جائے۔
اور اگر والدین نے اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں اور ان واقعات سے عبرت نہ پکڑی تو آنے والے وقت میں ایسے واقعات سے ہونے والی تباہی بہت بھیانک ہوگی۔

لولی وڈ میں بھی ہم جنس اب عام سی بات لگنے لگی ہے ۔
08/06/2025

لولی وڈ میں بھی ہم جنس اب عام سی بات لگنے لگی ہے ۔

کائنات کی سب سے مکمل تخلیق: عورتنرمی اس کی آغوش میں ہے، پاکیزگی اس کی سوچ میں، حسن اس کے چہرے کی تابانی میں، نور اس کی آ...
29/05/2025

کائنات کی سب سے مکمل تخلیق:
عورت

نرمی اس کی آغوش میں ہے، پاکیزگی اس کی سوچ میں، حسن اس کے چہرے کی تابانی میں، نور اس کی آنکھوں کی چمک میں، نزاکت اس کی چال میں، شرافت اس کی گفتار میں، اور ملاحت اس کی مسکراہٹ میں گھلی ہوئی ہے۔

شہد کی مٹھاس ہو یا گلاب کی مہک، ماہ تاب کی چمک ہو یا بادلوں کی گھٹائیں—
ہر رنگ، ہر خوشبو، ہر لذت، ہر کیفیت ایک عورت کے وجود سے جُڑی ہوئی ہے۔
وہ ساز بھی ہے، نغمہ بھی، رقص بھی ہے اور موسیقی بھی۔
اس کی آنکھوں کی چتون میں بانکپن ہے، اور انداز میں ایسا ڈھنگ جو ہر دل کو چھو جائے۔

وہ صراحی بھی ہے اور ساغر بھی؛ لذت بھی ہے اور خنکی بھی؛
محبت بھی ہے اور شدت بھی۔ وہ کبھی ماں بن کر جنت قدموں تلے بچھا دیتی ہے، کبھی بہن بن کر سائے کی طرح ساتھ چلتی ہے، کبھی بیوی بن کر دل کا سکون بنتی ہے اور کبھی بیٹی بن کر رحمتوں کی بارش۔

عورت صرف جسم نہیں، جذبہ ہے؛ صرف رنگ نہیں، روشنی ہے؛ صرف چہرہ نہیں، چمک ہے؛ صرف صدا نہیں، ساز ہے۔
اس کی خاموشی میں بھی شعاعیں ہیں، اور اس کے لفظوں میں بھی مہک۔ وہ خوشبو ہے جو روح کو معطر کر دیتی ہے۔

غرورِ شباب ہو یا شوخیٔ رنگ، وہ ہر روپ میں مکمل ہے۔ وہ صرف ایک فرد نہیں، پوری کائنات ہے۔
یقیناً، تخلیقِ کائنات کا سب سے حسین، مکمل اور معنی خیز شاہکار: عورت۔

آج سے 24 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ، وجیہہ عروج، نے یونیورسٹی پر ایک بہت دلچسپ کیس کیا۔ انہیں ایک پرچے میں غیر...
29/05/2025

آج سے 24 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ، وجیہہ عروج، نے یونیورسٹی پر ایک بہت دلچسپ کیس کیا۔ انہیں ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن پرچہ دے کر آئیں تھیں۔ یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی۔

وجیہہ اپنے والد کے ہمراہ ڈپارٹمنٹ پہنچیں تاکہ معاملہ حل کر سکیں۔ وہاں موجود ایک کلرک نے ان کے والد سے کہا’آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ہے۔‘ یہ جملہ وجیہہ پر پہاڑ بن کر گرا۔ وہ کبھی کلرک کی شکل دیکھتیں تو کبھی اپنے والد کی۔ انہیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کریں۔ وہ اپنے ہی گھر والوں کے سامنے چور بن گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ بھی انہیں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئیں تھیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ کلرک صرف اپنے کام سے کام رکھتا۔ وجیہہ کے بارے میں اپنی رائے دینے کی بجائے وہ حاضری رجسٹر چیک کرتا یا اس دن کے پرچوں میں ان کا پرچہ ڈھونڈتا۔ لیکن اس نے اپنے کام کی بجائے وجیہہ کے بارے میں رائے دینا زیادہ ضروری سمجھا، یہ سوچے بغیر کہ اس کا یہ جملہ وجیہہ کی زندگی کس قدر متاثر کر سکتا ہے۔

وجیہہ نے یونیورسٹی پر کیس کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیس میں ان کا ساتھ ان کے والد نے دیا۔ کیس درج ہونے کے چار ماہ بعد یونیورسٹی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے عدالت میں ان کا حل شدہ پرچہ پیش کر دیا لیکن معاملہ اب ایک ڈگری سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وجیہہ نے یونیورسٹی سے اپنے کردار پر لگے دھبے کا جواب مانگا۔ یہ قانونی جنگ 17 سال چلتی رہی۔ گذشتہ سال عدالت نے وجیہہ کے حق میں فیصلہ سنایا اور یونیورسٹی کو آٹھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

وجیہہ نے اس ایک جملے کا بھار17 سال تک اٹھایا۔ وہ تو جی دار تھیں، معاملہ عدالت تک لے گئیں۔ ہر لڑکی ایسا نہیں کر سکتی۔ خاندان کی عزت ان کے بڑھتے قدم تھام لیتی ہے ورنہ یقین مانیں ہم میں سے ہر کوئی عدالت کے چکر کاٹتا پھرے اور اپنے منہ سے کسی لڑکی کے بارے میں نکلے ایک ایک جملے کی وضاحت دیتا پھرے۔

وجیہہ کے والدین نے ان کی ڈگری مکمل ہوتے ہی ان کی شادی کر دی۔ انہیں ڈر تھا کہ بات مزید پھیلی تو کہیں وجیہہ کے رشتے آنا ہی بند نہ ہو جائیں۔ وجیہہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں لیکن اس ایک جملے کی وجہ سے انہیں وہ سب نہیں کرنے دیا گیا۔ وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں لیکن ان کے دل میں کچھ نہ کر پانے کی کسک بھی موجود ہے۔

آج کے جدید دور میں جہاں صحت، فٹنس اور جسمانی تندرستی کے رجحانات عام ہو چکے ہیں، وہیں جم جانا مرد و خواتین دونوں کے لیے م...
28/05/2025

آج کے جدید دور میں جہاں صحت، فٹنس اور جسمانی تندرستی کے رجحانات عام ہو چکے ہیں، وہیں جم جانا مرد و خواتین دونوں کے لیے معمول بن چکا ہے۔ خواتین کا جم جانا دراصل اپنے جسم کو فِٹ، صحت مند اور متحرک رکھنے کی ایک مثبت کوشش ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس مثبت رجحان کے ساتھ ساتھ کچھ پہلو ایسے بھی سامنے آتے ہیں جو سماجی اور اخلاقی طور پر تشویشناک بن جاتے ہیں۔

مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کچھ خواتین جم میں ایسے لباس زیب تن کرتی ہیں جو نہ صرف ہمارے معاشرتی اور دینی اقدار سے متصادم ہوتے ہیں بلکہ ان سے جسم کی نمائش بھی ہوتی ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف دوسروں کے لیے شرمندگی اور توجہ کی غیر ضروری کشش پیدا کرتا ہے بلکہ خود ان خواتین کی شخصیت اور ذہنی سوچ پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔

اس قسم کے لباس کے انتخاب کے پیچھے اکثر احساسِ کمتری، توجہ حاصل کرنے کی خواہش، یا مغربی طرزِ زندگی کی اندھی تقلید کا رجحان ہوتا ہے۔ کچھ خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ خود کو "جدید" اور "پرکشش" انداز میں پیش نہیں کریں گی تو معاشرہ انہیں اہمیت نہیں دے گا۔ یہ سوچ ایک گہری نفسیاتی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے جو خود اعتمادی کی کمی، معاشرتی قبولیت کی خواہش اور جذباتی خلا کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔

جم جیسے مقامات جہاں لوگ اپنی صحت بہتر بنانے کے لیے آتے ہیں، وہاں اس قسم کے رویے دیگر افراد خصوصاً نوجوانوں پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ غیر مناسب لباس اور آزاد رویہ نہ صرف خود خواتین کے وقار کو متاثر کرتا ہے بلکہ مرد و خواتین کے درمیان غیر اخلاقی تعلقات کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔ بعض اوقات جم کی دوستی آگے بڑھ کر غیر سنجیدہ رشتوں یا معاشرتی بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اسلام اور مشرقی معاشرہ دونوں شرم و حیا، حلال و حرام اور مرد و زن کے تعلقات میں حدود کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ ایک مہذب معاشرے میں ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات، نظریات اور حدود کا احترام کرے۔ خواتین اگر اپنے لباس کا انتخاب اسلامی تعلیمات اور معاشرتی آداب کے مطابق کریں، تو نہ صرف وہ خود باوقار نظر آئیں گی بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثبت مثال قائم کریں گی۔

آخر میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ خواتین کا جم جانا خود کوئی برائی نہیں بلکہ یہ ایک مثبت عمل ہے، بشرطیکہ اس کا مقصد صحت ہو، نمائش نہیں۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جو عزت، وقار اور شرم و حیا کی نمائندگی کرے، نہ کہ شہوت، دکھاوے اور بے راہ روی کی۔ معاشرے کی اصلاح کا آغاز فرد سے ہوتا ہے، اور جب ہر فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھے گا تو ایک باوقار، بااخلاق اور تندرست معاشرہ جنم لے گا۔

فحاشی مردوں کے خلاف ایک ایسی خاموش جنگ ہے ، جو ان کی روح ، عزتِ نفس اور کردار کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہے ... بدقس...
18/05/2025

فحاشی مردوں کے خلاف ایک ایسی خاموش جنگ ہے ، جو ان کی روح ، عزتِ نفس اور کردار کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہے ... بدقسمتی سے ، ہزاروں مرد یہ جنگ ہار رہے ہیں ... بغیر اس کے کہ انہیں اس ہار کا ادراک ہو ...*
*جب فحاشی غالب آتی ہے ، تو مرد صرف اپنی آنکھوں سے نہیں ہارتا ، بلکہ اپنی اصل شناخت ، عزم ، اور وقار سے بھی محروم ہو جاتا ہے ...

آج فحش مواد ایک عام اور آسانی سے دستیاب لعنت بن چکا ہے ... یہ یوں پیش کیا جاتا ہے گویا یہ کچھ نارمل ، بے ضرر یا حتیٰ کہ صحت بخش ہو ، لیکن درحقیقت یہ ایک غیر فطری ، ذہنی و روحانی زہر ہے ...

فحاشی مرد کو اس کی اصل ذمہ داریوں سے غافل کر دیتی ہے ... یہ صرف عورتوں یا بچوں کے استحصال پر مبنی نہیں ، بلکہ مرد کے شعور پر بھی حملہ کرتی ہے ...

ایسا مرد جو اپنی خواہشات کا غلام ہو ، وہ نہ لیڈر بن سکتا ہے ، نہ شوہر ، نہ باپ ، اور نہ معمارِ قوم ...
اصل مردانگی اپنے نفس پر قابو پانے میں ہے ...

ذہنی غلامی اور خوش فہمی کا جال ...
فحش مواد ایک مصنوعی خوشی اور جھوٹی تسکین دیتا ہے ، جس سے انسان کو لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے ... جبکہ اندر ہی اندر وہ اپنی حرارتِ فکر ، ارادوں کی توانائی اور مقصدیت کھو دیتا ہے ...

ایسا مرد زندگی میں محض ایک تماشائی بن جاتا ہے ...

رشتوں میں زہر گھولنا ...

جو مرد فحاشی کا عادی ہو ، وہ محبت کو صرف جسمانی تعلق تک محدود سمجھتا ہے ...

اس کے دل میں خلوص ، احترام اور وفا کی جگہ ہوس ، خودغرضی اور بے صبری لے لیتی ہے ...

ایسے لوگ سچے رشتے نبھا نہیں سکتے ، گھر بسا نہیں سکتے ، اور محبت کو پا نہیں سکتے ...

دماغی و جذباتی بگاڑ ...

فحاشی دماغ میں ایسے کیمیکل تبدیلیاں پیدا کرتی ہے جو جذبات کو بے قابو ، سوچ کو الجھا اور انسان کو تنہا کر دیتی ہیں ...
پھر وہ بار بار اسی دلدل میں گرتا ہے ، اور یہ سوچ لیتا ہے کہ "میں کبھی نہیں بدل سکتا" ...
یہ ایک خودساختہ قید ہے ، جس کی چابیاں اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہیں ...

تماشائی زندگی ...
فحاشی مرد کو بے عمل اور بیکار بنا دیتی ہے ...
وہ دوسروں کی زندگیوں کو دیکھنے میں لگا رہتا ہے اور اپنی زندگی کا مقصد کھو دیتا ہے ... یونہی وقت گزرتا جاتا ہے ، اور وہ اپنی ہی زندگی کا ایک تماشائی بن کر رہ جاتا ہے ... بےبس ، بیزار ، اور خالی ...
حقیقی شکست وہ ہوتی ہے جب انسان ہار مان لے ...

اور فحاشی وہ لعنت ہے جو انسان کو خود سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ، یہی وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی ہار کو قبول کر لیتا ہے ...
کیا آپ واقعی آزاد ہیں ۔۔۔؟

کیا آپ وہ مرد ہیں جو اپنے نفس کے غلام نہیں ۔۔۔؟

اگر آپ اس سوال کا جواب "ہاں" دینا چاہتے ہیں ، تو خود پر قابو پائیے ...
اپنی آنکھوں ، دل ، اور نیت کو پاک رکھئے ...
یہی حقیقی آزادی ، یہی اصل مردانگی ہے ...
نیکی کی دعوت دیجیے ...*
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پیغام کسی کی زندگی کو بدل سکتا ہے تو اسے آگے پہنچائیے ... کیونکہ جو کسی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے ، اسے وہی اجر ملتا ہے جو عمل کرنے والے کو ملتا ہے ...

*"جو شخص اپنی نظروں کی حفاظت کر لیتا ہے ، وہ دل کی پاکیزگی پا لیتا ہے" ...*
*(امام ابن القیم)*
*"خواہشات کا غلام ہونا ، سب سے بڑی غلامی ہے" ...*
*(امام غزالی)*
*"اپنے نفس کو قابو میں رکھو ، ورنہ یہ تمہیں قابو کر لے گا" ... Copy

" عصمت چغتائی اپنے مشہور افسانے ’’لحاف‘‘ میں لکھ چکی ہیں کہ ایک عورت کے خاوند کو اغلام بازی کی عادت تھی اس کا ردِ عمل یہ...
18/05/2025

" عصمت چغتائی اپنے مشہور افسانے ’’لحاف‘‘ میں لکھ چکی ہیں کہ ایک عورت کے خاوند کو اغلام بازی کی عادت تھی اس کا ردِ عمل یہ ہوا کہ اس عورت نے دوسری عورتوں سے ہم جنسی شروع کردی “۔
()

اوٹ پٹانگ فحش حرکات کے بعد مشہور ہونے کے لیے شوشا چلا دیا گیا ۔
02/05/2025

اوٹ پٹانگ فحش حرکات کے بعد مشہور ہونے کے لیے شوشا چلا دیا گیا ۔

ایسے لوگ کہا ملتے ہیں جن کو بس مشہور ہونے اور پیسوں سے غرض ہو ، ان کے لیے عزت ذلت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
02/05/2025

ایسے لوگ کہا ملتے ہیں جن کو بس مشہور ہونے اور پیسوں سے غرض ہو ، ان کے لیے عزت ذلت کوئی معنی نہیں رکھتی۔

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Just Human Being posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share