عرصہء ہجر میں آیا ہے جنم دن اُس کا
اور میں ہوں کہ بہت دور پڑا ہوں اُس سے
ہائے پسماندگیء کارِ محبت ہائے
کس طرح نذر کروں تحفہء جاں اُس کے حضور
تیرے پسماندہ کو اک لمحہء اظہار کی خیر
کاش اس وقت کے کیسے سے عطاء ہوجاتی
وہ سیہ آنکھیں در خستہ سے لپٹی ہوں گی
اور آہٹ کی تمنا سے مچلتے ہوئے کان
اُس کی قندیل کے گرتے ہوئے موٹے آنسو
کہہ رہے ہوں گے ہمیں پھونک سے روکا جائے
اُس کے ہونٹوں پہ تبسم تو نہیں ہے امشب
اور گلو خشک ہے گالوں پہ نمی ہے شاید
اُس کی دنیا میں ہمیشہ کی طرح آج کی رات
مجھ سے ہجرت زدہ شاعر کی کمی ہے شاید
میری دوشیزہء نوخیز مبارک ہو تجھے
23ویں سال کی اِس پہلی شبِ ہجر کا ہار
میں نے دینی تھی اُسے عمر درازی کی دعا
وہ محبت کے اسیروں میں کھڑی ہے آصف
اجنبی شہر کی بوسیدگی کہتی ہے مجھے
ایسی رخصت سے ہزیمت ہی بھلی ہے آصف
آصف محمود
14/11/2022
تجھ کو بھی چھوڑ کے جائے ترا اپنا کوئی
تو بھی اک روز مکافات کا مطلب سمجھے
کومل جوئیہ
09/10/2022
موت اس بار دُعا دے کے گئ ہے مجھ کو
نعت کہنے کی تمنا میں جیو جیتے رہو
سلیم کوثر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سُناتا ہوں تمہیں نعت سنو، جیتے رہو
اورسب مل کے مرے ساتھ پڑھو جیتے رہو
سا حلِ سیّدِ کو نین کی جا نب آؤ
سیلِ گردابِ زمانہ سے بچو جیتے رہو
حشر کی دھوپ کا اندازہ نہیں ہو سکتا
سایہء گُنبدِ خضریٰ میں رہو جیتے رہو
موج دَر موج درودوں کی مہک آنے لگے
قلزمِ دل میں کچھ اسطرح بہو، جیتے رہو
ہم سےکہتی ہے اذاں نیند سے بہتر ہے نماز
نیند کے جاگتے خیموں سے اُٹھو جیتے رہو
موت اس بار دُعا دے کے گئ ہے مجھ کو
نعت کہنے کی تمنا میں جیو جیتے رہو
ایک آواز مسلسل مجھے آتی ہے سلیم
حمد پڑھتے رہو اور نعت لکھو جیتے رہو
21/05/2022
اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا
مگر یہ دل تری جانب سے صاف بھی نہ ہوا
تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا
عجب تھا جرم محبت کہ جس پہ دل نے مرے
سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا
ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ
کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا
عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا
ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے
ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا
پروین شاکر
Parveen Shakir - پروین شاکر
03/05/2022
کوئی مجبوری تھی اس کی یا کوئی اور وجہ
عید کے دن بھی مجھے کال نہیں کی اس نے
Sajjad Katib
03/05/2022
اسے یہ عید مبارک کہ جس کی آنکھوں میں
کسی وصال کی خوشبو کسی ملن کی چمک
اسے یہ عید مبارک کہ جس کے چہرے پر
کسی کے قرب کی حدت کسی نظر کی لپک
اسے یہ عید مبارک کہ جس کے ہاتھوں میں
کسی کے نام کی مہندی کسی دعا کی شفق
اسے یہ عید مبارک کہ جس کے آنگن میں
خوشی کا رقص،تمنا کا راگ،سکھ کی للک
ہمیں نہ دو یہ مبارک کہ ہم اسیرِ وفا
ہمیں نہ دو یہ مبارک کہ ہم قتیلِ انا
ہمیں نہ دو یہ مبارک کہ ہم امینِ عزا
ہمیں نہ دو یہ مبارک کہ ہم رہینِ جفا
خوشی سے درد کا صدقہ اتار لیتے ہیں
یہ دن بھی سوگ مناتے گزار لیتے ہیں۔
احمد فرہاد
03/05/2022
ہم تو بس یونہی یہ بیکار سا دن کاٹتے ہیں
عید اُس شخص کی ہے جس کو میسر تُو ہے
میثم علی آغا
02/05/2022
خود کو بازو کے سہارے سے سنبھالا ہو گا
ایک ’’ بے بس ‘‘ کی قسم یاد دلائی ہو گی
عقل بولی کہ نہیں عید صنم کی ایسے
دل بضد ہے کہ نہیں ایسے ہی آئی ہو گی
شہزاد قیس
02/05/2022
’’ کس کی یاد عید پہ رکھتی ہے اداس اتنا تمہیں‘‘ ؟
امی کا کہہ کے وہیں بات گھمائی ہو گی
قبر احساس کی دل میں کوئی ٹُوٹی ہو گی
سُرخ ، اُداس آندھی خیالات پہ چھائی ہو گی
شہزاد قیس
02/05/2022
ہاتھ پر نام مرا ہلکی حنا سے لکھ کر
اس پہ حسرت میں گندھی منہدی چڑھائی ہوگی
اپنے پلّو سے مری یاد کو پونچھا ہو گا
جھوٹے غازے کی ہنسی رُخ پہ سجائی ہو گی
شہزاد قیس
02/05/2022
آخری روزہ بھی اشکوں سے ہی کھولا ہو گا
چاند نے غم کی جھڑی دل میں لگائی ہو گی
عید کے روز پریشاں نے اذاں سنتے ہی
مشرقی کونے میں اک شمع جلائی ہو گی
شہزاد قیس
02/05/2022
عید اِس بار جو پردیس میں آئی ہو گی
یار نے ہچکیاں لے لے کے منائی ہو گی
چاند بھی بام پہ ماتم کناں آیا ہو گا
بزمِ غم قطبی ستارے نے سجائی ہوگی
شہزاد قیس
02/05/2022
جس طرح بھیک میں دیتا ہے محبت وہ شخص
سوچتا ہوں کہ مرے ہاتھ میں کاسہ تو نہیں
کیوں مری پیاس پہ حیرت ہے زمانے بھر کو
میں بھی انسان ہوں دریا کا نواسہ تو نہیں
اسامہ خالد
13/04/2022
کاغذ پہ ایک نام اتارا تھا، اور بس
پھر ہم تھے اور قبیلہ ہمارا تھا،اور بس
ماتھے پہ اس کا لمس تھاھاتھوں میں اک گلاب
دشوار زندگی کا اشارہ تھا اور بس
منظر تھا ڈوبتے ہوۓ سورج کا،اور میں
دریا میں ایک عکس تمہارا تھا اور بس
ہم تھے کہ پاگلوں کی طرح بھاگتے رہے
اس کی طرح کسی نے پکارا تھا اور بس
دل میں تمہاری یاد ،اماوس کی رات تھی
ہمراہ میرے ایک ستارہ تھا اور بس
پھر اس کے بعد راستہ خوشبو میں کٹ گیا
کچھ وقت اس کے ساتھ گزارا تھا اور بس
وہ مضطرب کہ عشق میں نقصان ہی نہ ہو
ہم مطمئن کہ جاں کا خسارہ تھا اور بس
ہر خواب محو خواب رہا عمر بھر حرا
نیندوں پہ رتجگوں کا اجارہ تھا اور بس
حرا رانا
25/02/2022
آخری بار وہ اس شان سے بچھڑا تھا کہ پھر
اٌس سے ملنے کو کبھی دل نہیں مانا اپنا
رام ریاض
15/01/2022
تمہاری سالگرہ پر
یہ چاند اور یہ ابرِ رواں گذرتا رہے
جمالِ شام تہہ آسماں گزرتا رہے
بھرا رہے تری خوشبو سے تیرا صحنِ چمن
بس ایک موسمِ عنبر فشاں گزرتا رہے
سماعتیں ترے لہجے سے پھول چنتی رہی
ںدلوں کے ساز پہ تو نغمہ خواں گزرتا رہے
خدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
دیارِ وقت سے تو شادماں گزرتا رہے
میں تجھ کو دیکھ نہ پاؤں تو کچھ ملال نہیں
کہیں بھی ہو' تو ستارہ نشاں گزرتا رہے
میں مانگتی ہوں تری زندگی قیامت تک
ہوا کی طرح سے تو جاوداں گزرتا رہے
مرا ستارہ کہیں ٹوٹ کر بکھر جائے
فلک سے تیرا خطِ کہکشاں گزرتا رہے
میں تیری چھاؤں میں کچھ دیر بیٹھ لوں
اور پھرتمام راستہ بے سائباں گزرتا رہے
یہ آگ مجھ کو ہمیشہ کئے رہے روشن
مرے وجود سے تو شعلہ ساں گزرتا رہے
میں تجھ کو دیکھ سکوں آخری بصارت تک
نظر کے سامنے بس اک سماں گزرتا رہے
ہمارا نام کہیں تو لکھا ہوا ہوگا
مہ ونجوم سے یہ خاکداں گزرتا رہے
میں تیرا ساتھ نہ دے پاؤں پھر بھی تیرا سفر
گلاب و خواب کے ہی درمیاں گزرتا رہے
میں تیرے سینے پہ سر رکھ کے وقت بھول گئی
خیالِ تیزئ عمرِ رواں گزرتا رہے
شاعرہ : پروین شاکر
14/01/2022
ہر گھڑی اک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
28/12/2021
اِک موجہٓ صہباےٓ جُنوں تیز بہت ہے
اِک سانس کا شیشہ ہے کہ لبریز بہت ہے
کُچھ دِل کا لہو پی کے بھی فصلیں ہُوئیں شاداب
کُچھ یوں بھی زمیں گاوٓں کی زرخیز بہت ہے
پلکوں پہ چراغوں کو سنبھالے ہوئے رکھنا
اِس ہِجر کے موسم کی ہوا تیز بہت ہے
بولے تو سہی ، جھوٹ ہی بولے وہ بَلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دل آویز بہت ہے
کیا اُس کے خدوخال کُھلیں اپنی غزل میں
وہ شہر کے لوگوں میں کم آمیز بہت ہے
محسؔن اُسے ملنا ہے تو دُکھنے دو یہ آنکھیں
کچھ اور بھی جاگو کہ وہ ’’شب خیز‘‘ بہت ہے.
Be the first to know and let us send you an email when دشتِ تنہائیِ ہجراں posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.