Sadia Khan

Sadia Khan Welcome to Sadia Khan's Page. Our mission is to provide you with valuable information.

Copyright Disclaimer

Thank you for visiting our website, which is dedicated to providing movie updates and news. We respect the intellectual property rights of others, and we are committed to complying with all applicable copyright laws. Content

All content on this website, including articles, images, and videos, is either original content created by our team or used with permission or under fai

r use principles. We make every effort to ensure that we have the necessary rights to use all content on our website. If you believe that any content on our website infringes your copyright, please contact us immediately with the following information:

Your name and contact information

A description of the copyrighted work that you claim has been infringed

A description of the content on our website that you claim infringes your copyright

A statement that you have a good faith belief that the use of the content is not authorized by the copyright owner, its agent, or the law

A statement that the information in your notice is accurate and that you are the copyright owner or authorized to act on behalf of the copyright owner

Once we receive a notice of claimed infringement, we will review it and take appropriate action, which may include removing the content or disabling access to it. Links

We may link to third-party websites that contain copyrighted material. We make every effort to ensure that we link only to websites that have obtained the necessary permissions to use such material. However, we are not responsible for the content of these websites or any copyright infringement that may occur on them. If you believe that we have linked to a website that infringes your copyright, please contact us immediately with the following information:

Your name and contact information

A description of the copyrighted work that you claim has been infringed

A description of the website that you claim infringes your copyright

A statement that you have a good faith belief that the use of the content is not authorized by the copyright owner, its agent, or the law

A statement that the information in your notice is accurate and that you are the copyright owner or authorized to act on behalf of the copyright owner

Once we receive a notice of claimed infringement, we will review it and take appropriate action, which may include removing the link or disabling access to it. Contact Us

If you have any questions or concerns about our copyright policy, please contact us at [email protected].

سکردو جانے والے سیاحوں کے لیے  معلوماتی تحریر..... سکردو گلگت بلتستان کے ایک شہر کا نام ہے لیکن مقامی سیاحتی انڈسٹری میں...
03/04/2025

سکردو جانے والے سیاحوں کے لیے معلوماتی تحریر.....
سکردو گلگت بلتستان کے ایک شہر کا نام ہے لیکن مقامی سیاحتی انڈسٹری میں سکردو سے مراد بلتستان کے چار ضلعے اور ضلع استور کو شامل کیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان جانے والے سیاح یا تو ہنزہ کا رخ کرتے ہیں یا سکردو کا۔
اسی لئے گلگت بلتستان ٹور کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے :
1: سکردو ٹور
2: ہنزہ ٹور
ہنزہ ٹور جگلوٹ سے شروع ہو کر خنجراب ٹاپ پر ختم ہو جاتا ہے جبکہ سکردو ٹور جگلوٹ سے شروع ہو کر ایک طرف کے ٹو دوسری طرف سیاچن اور تیسری طرف دیوسائی سے ہوتا ہوا منی مرگ پر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر جہاز کے ذریعے سکردو کا سفر کریں تو سکردو شہر سے تمام سیاحتی مقامات تک جانے کے لیئے ہر قسم کی گاڑیاں مل جاتی یے۔ بائی روڈ سکردو کا سفر شاہراہ بابوسر اور قراقرم ہائی کے بعد جگلوٹ سے شروع ہوتا ہے۔ جگلوٹ سے سکردو تک بہترین سڑک بن گئی ہے نئے شاہراہ کا نام جگلوٹ سکردو روڈ سے بدل کر شاہراہ بلتستان رکھ دیا ہے۔۔
استور، گانچھے(وادی خپلو)، کھرمنگ اور شگر جانے کیلے بھی سکردو سے روٹ لے سکتے ہیں۔
سکردو ٹور میں درج ذیل سیاحتی مقامات شامل ہیں۔

1: ضلع سکردو
ضلع سکردو روندو وادی سے شروع ہوتا ہے اور سرمک کے مقام پر ختم ہوجاتا ہے۔
سکردو شہر گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے اس شہر میں گلگت بلتستان کے ہر ضلعے سے بغرض روزگار لوگ آباد ہیں۔ اس شہر میں شیعہ ، نوربخشی ،سنی، اسماعلیلی، اہل حدیث ہر فرقے کے لوگ پر امن زندگی بسر کرتے ہیں۔ سکردو اس پورے علاقے کا تجارتی مرکز بھی ہے۔سکردو میں گلگت بلتستان کا واحد انٹرنیشنل ائیرپورٹ بھی موجود ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن روزانہ پروازیں اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے چلاتی ہے ۔ پچھلے سال سے سیالکوٹ فیصل آباد اور ملتان سے بھی پروازوں کا آغآز ہوچکا ہے۔

ڈسٹرکٹ سکردو کے سیاحتی مقامات

#دیوساٸی نیشنل پارک
(تاریخی قلعہ)
#شنگریلا ریزورٹ
#ژھوق ویلی
#کچورا جھیل
#سدپارہ ڈیم
#چندا
#ستک ویلی روندو
#بلامک
#کتپناہ لیک

2: ضلع گانچھے (وادی خپلو)
ضلع گانچھے کریس سے شروع ہوتا ہے اور سیاچن گلیشئر پر ختم ہوتا ہے ۔ ضلع گانچھے کو وادی خپلو بھی کہا جاتا ہے ۔ ضلع گانچھے بلند ترین پہاڑوں اور گلیشیئرز کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ دنیا کی بلند ترین مہاز جنگ سیاچن اسی ضلع میں واقع ہے اس کے علاوہ قراقرم کے بلند ترین پہاڑوں جیسے کے ٹو، گشہ بروم ، براڈپیک۔ اور مشہ بروم سے کوہ پیما واپسی پر اسی ضلع کی وادی ہوشے کا روٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہ ڈسٹرکٹ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
اس ڈسٹرکٹ کی چند تاریخی اور سیاحتی مقامات درجہ ذیل ہے_
#خپلو فورٹ_
#چقچن مسجد(7 سو سال پرانی مسجد)
#تھوقسی کھر
#ہلدی کونز ویو پوائنٹ
#وادی ہوشے ، کے سکس، کے سیون، مشہ بروم جیسے قراقرم کے اونچے پہاڑوں کی وادی
#سلنگ ریزورٹ
#وادی کندوس گرم چشمہ
#گیاری سیاچن وادی سلترو
#وادی تھلے، تھلے لا
#ننگما وادی کاندے
#کھرفق جھیل
#خانقاہ معلٰی خپلو (ایشیا کی سب سے بڑی خانقاہ)
#کےٹو ویو پوائنٹ مچلو بروق

3_ضلع شگر
شگر ایک ذرخیز وادی ہے یہ وادی تاریخی مقامات اور بلند ترین پہاڑوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی k2 بھی اس ڈسٹرکٹ میں واقع ہے اور دنیا میں 8000 اونچاٸی سے اوپر والی 5 پہاڑ بھی اس خطہ میں موجود ہیں_یہ ڈسٹرکٹ سکردو سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے
شگر کے سیاحتی مقامات
#شگر فوڑٹ_
# دنیا کی بلند ترین اور سرد ریگستان سرفہ رنگا
#کےٹو پہاڑ_k2
#ہشوپی باغ
#خانقاہ معلیٰ 600 سال پرانی مسجد ہیں_
#وادی ارندو
#کنکورڈیا
# وسط قراقرم کے بلند ترین پہاڑ گشہ بروم، براڈ پیک، ٹرنگو ٹاور وغیرہ

4: ضلع کھرمنک
آبشاروں اور صاف و شفاف ندی نالوں کی سرزمین۔
سیاحتی مقامات
#منٹھوکھا واٹر فال
#خموش آبشار
# وادی شیلا
# غندوس لیک
# کارگل بارڈر

5: استور
ضلع استور انتطامی طور پر دیامر ڈویژن میں واقع ہے لیکن استور تک رسائی سکردو سے ہوتا ہے خصوصا جو سیاح بذریعہ جہاز سکردو آتے ہیں ان کے لئیے استور تک رسائی سکردو دیوسائی سے ہوتا ہے ۔ وادی استور کے سیاحتی مقامات درج ذیل ہیں۔
# روپال فیس ننگا پربت
# راما میڈوز
# پرشنگ
# منی مرگ
# ڈومیل جھیل
# راتو
# شونٹر
اس کے علاوہ بے شمار سیاحتی مقامات موجود ہیں جہاں تک عام سیاحوں کی رسائی ممکن نہیں ہے۔

ایک گاؤں میں بندر بہت زیادہ تھے.اچانک ایک شخص گاؤں میں ایا اور کہنے لگا میں ایک بندر 500 میں خریدوں گا, لوگوں نے بندر پک...
27/03/2025

ایک گاؤں میں بندر بہت زیادہ تھے.
اچانک ایک شخص گاؤں میں ایا اور کہنے لگا میں ایک بندر 500 میں خریدوں گا, لوگوں نے بندر پکڑ کر دینا شروع کیے اور گاؤں میں بندروں کی تعداد کم ہونا شروع ہوگئی , اس شخص نے بندر کا ریٹ 500 سے 1000 کر دیا یہاں تک کہ بندر کا ریٹ 50000 روپے تک پہنچ گیا لیکن اب ڈھونڈنے سے بھی گاؤں میں بندر نہیں ملتا تھا.

ایک اور بندر کا بیوپاری گاؤں میں داخل ہوا اور کہنے لگا میں اپ کو بندر 25 ہزار روپے کا دوں گا لوگوں نے دھڑا دھڑ 25 ہزار کا بندر خرید کر دوسرے بیوپاری کو 50 ہزار میں بیچنا شروع کر دیے, 50 ہزار کے حساب سے تمام بندر گاؤں والوں کو واپس بیج دیے گئے اور دونوں بیوپاری گاؤں سے غائب ہو گئے.

فرق صرف اتنا تھا پہلے یہ بندر گاؤں میں ازاد پھر رہے تھے اب ہر بندر کا ایک مالک تھا جس کی قیمت 50 ہزار تھی.

یہ بابا میری ہر فیس بک پوسٹ پہ ری ایکٹ کرتا تھا نتیجہ پھر اپ لوگوں کے سامنے ہے
26/03/2025

یہ بابا میری ہر فیس بک پوسٹ پہ ری ایکٹ کرتا تھا نتیجہ پھر اپ لوگوں کے سامنے ہے

پہلا ویلوگر جو شروعات ہی درود پاک پڑھ کر کرتا ہے اُس پر ناموسِ رسالت کا الزام لگا کر اسلام  کے نام نہاد ٹھیکیدار اِس ملک...
25/03/2025

پہلا ویلوگر جو شروعات ہی درود پاک پڑھ کر کرتا ہے اُس پر ناموسِ رسالت کا الزام لگا کر اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار اِس ملک میں اُسکا جینا دوبھر کررہے ہیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کو بھی 295c کا مطلب پتہ نہیں ہوگا۔

میں کوئی رجب بٹ کا فین نہیں ہوں ہم سمیت دیگر لوگوں کو اس کی فیملی وی لاگنگ سے اختلاف ہو گا اس کی شخصیت کے پہلووں سے اختلاف ہوگا لیکن جو چیز اس نے کی نہیں اس کے ساتھ اس کو منسوب کر کے اس کی زِندگی کو نام نہاد مذہبی جبونیوں کے حوالے کرنا کہاں کا دین اور انصاف ہے.

المیہ یہ ہے کہ جنہیں خود دین کا بنیادی شعور نہیں، وہی سب سے زیادہ مذہب کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں—انسانیت، اخلاقیات، رحم دلی اور علم سے بے بہرہ! ایک افواہ، ایک جھوٹا الزام، اور پورا ہجوم دیوانہ وار ظلم پر اتر آتا ہے۔ نہ تحقیق، نہ دلیل، نہ انصاف... بس ایک سازش، جس کے پیچھے ہر کم عقل اندھا دھند دوڑتا ہے۔ کب تک یہ وحشی کھیل جاری رہے گا ؟ کب تک بے گناہوں کو مارتا رہے گا ؟


6.6 ملین فالورز کے ساتھ آپ پاکستانی عوام کی ذہنی پسماندگی، ویلا پن اور شعور کی یتیمی کا اندازہ لگا لیں کہ ایک ایسا بندہ ...
24/03/2025

6.6 ملین فالورز کے ساتھ آپ پاکستانی عوام کی ذہنی پسماندگی، ویلا پن اور شعور کی یتیمی کا اندازہ لگا لیں کہ ایک ایسا بندہ کہ جس کی ویڈیوز میں سوائے فضولیات کے اور کچھ بھی نہیں اس کے چاہنے والے اتنے زیادہ ہیں۔۔۔
مطلب یہ کہ یسی گھٹیا حرکتیں کرنے والا بندہ 66 لاکھ لوگوں کے لیے رول ماڈل ہے ۔۔
اب فتوے لگانے والے بھی آجائیں گے کہ بھائی تمہیں کیا مسئلہ ہے تو مسئلہ آئندہ آنے والی نسلوں کا ہو گا جو کے یہ بزرگ رول ماڈل ہوں گے

اکثر فوڈ ویلاگز میں دیکھا ہے کہ چپل کباب وغیرہ بناتے وقت باورچی نے چھت سے لٹک رہی ایک رسی کو تھام رکھا ہوتا ہے۔۔۔ اس رسی...
22/03/2025

اکثر فوڈ ویلاگز میں دیکھا ہے کہ چپل کباب وغیرہ بناتے وقت باورچی نے چھت سے لٹک رہی ایک رسی کو تھام رکھا ہوتا ہے۔۔۔ اس رسی کو لٹکانے کا کیا مقصد ہے اور کباب تلتے وقت اسے کیوں تھاما جاتا ہے؟

لندن سے کچھ  زیادہ دور نہیں،  ایک شہر ہے جسے بہت سے لوگ دنیا کا سب سے خوبصورت قصبہ تصور کرتے ہیں - Bibury۔ کاؤنٹی گلوسٹر...
21/03/2025

لندن سے کچھ زیادہ دور نہیں، ایک شہر ہے جسے بہت سے لوگ دنیا کا سب سے خوبصورت قصبہ تصور کرتے ہیں - Bibury۔ کاؤنٹی گلوسٹر شائر میں واقع، یہ پرفتن جواہر ایسا لگتا ہے جیسے یہ سیدھا پریوں کی کہانی ہے۔ لندن سے مختصر فاصلے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ انگریزی دارالحکومت کے ہنگاموں سے بہت دور کسی اور دور میں غوطے لگا رہے ہیں۔ Bibury Cotswolds Hills کے دلکش علاقے میں دریائے کولن کے کنارے واقع ہے، جسے 1966 میں "قابل قدر قدرتی خوبصورتی کے علاقے" سے نوازا گیا تھا

کیاآپ نے سناہے کہ سہہ / سیغ کو پاکستان کے مختلف حصوں میں شوق سے کھایا جارہا ہے؟ اک سوال ہے جو میں شاید ہر پاکستانی سے پو...
16/03/2025

کیاآپ نے سناہے کہ سہہ / سیغ کو پاکستان کے مختلف حصوں میں شوق سے کھایا جارہا ہے؟

اک سوال ہے جو میں شاید ہر پاکستانی سے پوچھنا چاہتا ہوں
اک جانور ہے جسے پنجابی لوگ کنڈو والی سہ کہہ کے بُلاتے ہیں،
جسے اُردو میں خارپشت بھی کہتے ہیں اور پہاڑی میں سیغ تلو والی سیغ
اور مختلف علاقوں میں اس کے مختلف نام ہیں ، جیسے سیہ، سہہ، سیہی اور قنفذ ،
کچھ لوگوں کو تو یہی تجسس ہو رہا ہو گا کے میں اس جانور کا ذکر کر ہی کیوں رہا ہوں،
لیکن مجھے لگتا ہے کے اب وقت آ گیا ہے کے ہرپاکستانی اس کے بارے میں جان لے،
ورنہ ایسا نا ہو کے آپ گھر آئیں تو آپ کی بیوی نے سیہ بریانی بنائی ہو،
یا آپ کی بیٹی کے سسرال والے اُسے سیہ کورما بنانے کو بولیں
پچھلے کچھ مہینوں سے میں اک گروپ اور ایک اکیلے آدمی سے مل چکا ہوں جو خار پشت کا گوشت کھاتے ہیں
بلکہ مانسہرہ کے لڑکوں کو تو میں نے خود کھاتے دیکھا،
اورفیض آباد بس سٹینڈ (راولپنڈی) پے گوجرانوالا کےایک لڑکے نے بھی مجھے بتایا کے ہم لوگ بہت شوق سے خارپشت کھاتے ہیں
یہ سب جاننے کے بعد انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کے اس جانور کا تعلق چوہوں کی فیملی سے ہے
حلال تو کیا اس کے مقروع ہونے کے بھی دور دور تک کوئی شواہد نہیں ملے
مطلب بلکل حرام
تو پوچھنا یہ تھا کے کیا آپ میں سے بھی کوئی اِسے کھاتا ہےُ
یا میری طرح کسی ایسے کو جانتے ہیں جو خار پشت کو بطورِ خوراک تناول کرتا ہو
کرپشن کا پیسہ اس سے بھی زیادہ حرام ہے

By: Ghazanfar Khan Jaffari

تھائی لینڈ میں ایک شخص اُس وقت حیران رہ گیا جب اُس نے سڑک کنارے سے خریدا گیا آئس کریم کا پیکٹ کھولا۔ پیکٹ کھولتے ہی اُس ...
13/03/2025

تھائی لینڈ میں ایک شخص اُس وقت حیران رہ گیا جب اُس نے سڑک کنارے سے خریدا گیا آئس کریم کا پیکٹ کھولا۔ پیکٹ کھولتے ہی اُس نے جو دیکھا وہ اُس کے تصور سے بھی باہر تھا۔ آئس کریم کے اندر ایک زہریلا سانپ منجمد تھا۔ یہ واقعہ دیکھتے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ہے۔

دعا زہرا کیس$1,15,921.80 امریکی ڈالرز کا صرف ایک دھندہ؟دعا زہرا کیس میں روایتی دھونس دھمکیوں کے بعد اجرتی قاتلوں کو رقم ...
13/03/2025

دعا زہرا کیس
$1,15,921.80 امریکی ڈالرز کا صرف ایک دھندہ؟

دعا زہرا کیس میں روایتی دھونس دھمکیوں کے بعد اجرتی قاتلوں کو رقم دینے کے اعلانات اگرچہ شعیہ شدت پسندوں کی جانب سے تھے مگر چند ایک سنی بدکردار صحافی یوٹیوبرز بھی ریکی اور ذاتی معلومات دینے میں مصروف رہے تو یوں کہہ لیجیے کہ میری زندگی کا خاتمہ مذہبی جنونیت اور سنی مفاد پرستوں کا مشترکہ محاذ تھا۔ وجہ جرم دعا ظہیر کیس میں شدت پسند "نوبل کاز" اور ڈالرز کی برسات کو عیاں کرنا رہا تھا

خیر، یقینا آپ اس شدت پسند "نوبل کاز" اور ڈالرز کی برسات سے متعلق ثبوت مانگنا چاہیں گے۔ اس تحریر میں اس پورے اسکینڈل کے صرف ایک کردار کو آپ کے سامنے رکھنے رہا ہوں۔ یوں کہیں، یہ دیگ کا صرف ایک چاول ہے۔ جو پوری دیگ کی حقیقت عیاں کرنے کے لیے کافی ہوگا۔

یہ کہانی ملتان سے امریکی ریاست پینسلونیا میں سکونت اختیار کرنے والے متشدد شعیہ ذہن رکھنے والے ڈاکٹر شجاعت کی ہے۔ جیسے مہدی فیملی اپنا سب سے بڑا محسن تصور کرتی رہی۔ خیر ڈاکٹر صاحب کی کیس میں انٹری اور مبینہ 1 لاکھ 15 ہزار 921 امریکی ڈالرز کی رقم جمع کرنے کی کہانی اکشے کمار کی مووی تیس مارخاں سے ملتی جلتی سی ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ پپ جی سے ہونے والی دوستی عشق میں بدلی، لڑکی نے ماں کو حقیقت بتائی مگر سماجی طور پر مڈل کلاس، لوئر کلاس کے فرق اور شعیہ سنی کی تفریق کے باعث والدین نے سختی کے ساتھ انکار کردیا نتیجتا لڑکی نے انتہائی اقدام اٹھا لیا۔

پھر ظفر عباس کی مدد سے نیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا پر کہانی ہی بدل دی گئی اور ایک ایسا خوف ناک بیانیہ پیش کیا گیا کہ ہر ماں، باپ اور بھائی کو اپنی کم عمر بہن بیٹی کی فکر ہونے لگا اور سوشل میڈیا پر لوگ اسی خوف کے باعث اس بیانیہ سے جڑ گئے۔

حالانکہ اصل وجہ ایک ہی وقت میں دو سنی لڑکوں یعنی ظہیر اور شاہ رخ کے ساتھ دو شعیہ لڑکیوں دعا اور نمرہ کا الگ الگ بھاگنا تھا۔ اور یوں یہ نوبل کاز شروع ہوا جس کا ظاہری مقصد اغوا شدہ لڑکیوں کی بازیابی مگر پس پردہ شعیہ لڑکیوں کو سنی لڑکوں سے شادیاں کرنے سے باز رکھنا تھا پھر مذہبی شدت پسند شہلا ر کا کردار آپ سبھی کے سامنے تھا جس نے شیلٹر ہوم جا کر نمرہ کے منہ پر تھپیڑ برسے اور نمرہ نے یہ کہانی سندھ ہائی کورٹ کے ججوں کو بتا دی ( شہلا اور ججوں کے غلیظ کردار کی کہانی پھر سہی)۔

"نوبل کاز" شروع ہوتے ہی عدالتی نظام پر وسائل پوری قوت سے لگانے کے لیے اووسیز پاکستانیوں سے رجوع کیا گیا اور یوں پینسلونیا سے ڈاکٹر شجاعت کی انٹری ہوئی جنہیں یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں ایک منظم گروہ شعیہ لڑکیوں کو اغوا کر رہا ہے اور پھر آل رسول یعنی سید گھرانے کی دعا کا اغوا وہ بھی کمتر ڈرائیور کے بیٹے کے ہاتھوں ظلم عظیم ہے۔

پھر کیا تھا شدت پسند رجحات کے باعث ڈاکٹر شجاعت نے کمر کستے ہوئے فنڈز مہم کا آغاز کیا۔ بقول ڈاکٹر شجاعت کے، وہ ایک خطیر رقم لے کر امریکہ ( کچھ مزید شدت پسندوں ساتھیوں کے ہمراہ) کراچی آیا۔ مہدی کے گھر کا مہمان بنا، ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور یوں ڈاکٹر صاحب مہدی فیملی کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔

ڈاکٹر شجاعت پہلے سے پرجوش ہو کر امریکہ پلٹا، نوبل کاز کے حصول کے لیے دن رات کرتے ہوئے نہ صرف لائیو ٹرانسمیشن کی بلکہ فنڈز جمع کرنے کے ساتھ ساتھ لائیو ٹرانسمیشن میں اعلان کیا کہ اقرار الحسن سمیت بڑے پاکستانی یوٹیوبرز اگر دعا کو ریسکیو کرنے کا بیڑا اٹھائیں تو تمام مالی اخراجات اس کی جانب سے ہوں گے اور پھر یکدم اقرار اور بعض بڑے اینکرز کی اس کیس میں انٹری ہوئی۔

بقول ڈاکٹر شجاعت کے، مہدی فیملی ممبرز نے اسے بتایا کہ عدالتی نظام پر بھاری اخراجات آرہے ہیں جن کا بندوبست کرنا لازم ہے ورنہ یہ منظم گینگ ہماری مزید بچیوں کو اغوا کرلے گا۔ ڈاکٹر صاحب مزید جذباتی ہوئے دن رات ایک کیا۔ لوگوں کو "نوبل کاز" سے آگاہی دیتے ہوئے فنڈز جمع کیا ( ذرائع کے مطابق 25 ہزار امریکی ڈالرز ذاتی) کل ملا کر 1 لاکھ 15 ہزار 921 امریکی ڈالرز رقم مہدی کے سگے بھائیوں اور کزن جن میں سید زین، عاصم عرف طاہر، عزادار و دیگر کے اکاوئنٹس، ویسٹرن یونین، ایکسوم و دیگر ذریعے سے منتقل ہوئی۔(ایک سے زائد اکاونٹس اور ذرائع استعمال کرنے کا مقصد قانونی پیچیدگیوں سے بچنا تھا)۔

وقت گزرتا گیا اور کچھ عرصے بعد ہم نے جب یہ انکشاف کیا کہ مہدی کا اپنا سگا بھائی عاصم عرف طاہر راولپنڈی کی درجن بھر ایف آئی آرز میں اشتہاری ہے جس پر کاروبار کی غرض سے امیر لوگوں کو گھیرنے اور کروڑوں روپے فراڈ کا الزام ہے تو امریکہ میں بیٹھے ڈاکٹر کو اپنی رقم کا خیال آیا لیکن تب تک پیسے ہضم ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اخراجات کی رسیدیں مانگی تو پہلے ٹال مٹول اور پھر صاف انکار کردیا گیا کہ آپ نے ہمیں کوئی پائی پیسہ نہیں دیا اور وہ امریکی ڈاکٹر جو مہدی کی پوری فیملی کو امریکہ لے جانے کی کوشیشوں میں تھا اس نے مہدی فیملی پر دولت لوٹنے کے لیے اپنی بچیاں استعمال کرنے جیسے سنگین الزامات عائد کر دے۔

ڈاکٹر شجاعت نے نوبل کاز میں ہراول دستہ کا کردار ادا کرنے والی شہلا ر سمیت تمام دروازے کھٹکٹائے مگر مایوسی ہوئی تب ڈاکٹر کے پاس دوبارہ پاکستان آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

ذیل میں، میرے الزامات نہیں بلکہ ڈاکٹر شجاعت کی جانب سے لاہور کی عدالت میں مہدی فیملی کے خلاف دائر مقدمہ کی تصدیق شدہ عدالتی دستاویزات ہیں۔ جیسے آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی دولت تو گئی مگر ساتھ ہی انہیں امریکی اسپتال ایڈمنسٹریشن کی وارننگ، شٹ اپ کال کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ڈاکٹر کی کہانی تو ختم۔ نہیں جناب،،،،ابھی بہت کچھ باقی ہے۔۔۔۔۔

ایک اور کردار کی کہانی اگلی تحریر میں۔

بلال احمد

ہائپر لوپ کیا ہے؟ہائپر لوپ ایک جدید ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجی ہے جس کا تصور سب سے پہلے ایلون مسک نے 2013 میں پیش کیا تھا۔ ی...
13/03/2025

ہائپر لوپ کیا ہے؟
ہائپر لوپ ایک جدید ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجی ہے جس کا تصور سب سے پہلے ایلون مسک نے 2013 میں پیش کیا تھا۔ یہ ایک ایسی تیز رفتار نظام ہے جو مسافروں یا سامان کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک تقریباً 1200 کلومیٹر فی گھنٹہ (تقریباً 760 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے منتقل کر سکتا ہے۔ یہ روایتی ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں اور حتیٰ کہ تیز رفتار بلٹ ٹرینوں سے بھی کئی گنا تیز ہے۔ ہائپر لوپ کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ایک کم دباؤ والی ٹیوب کے اندر کیپسول نما گاڑیوں (پوڈز) کو بجلی یا مقناطیسی قوت سے چلایا جائے، جہاں ہوا کا دباؤ اور رگڑ (friction) انتہائی کم ہو۔
سائنسی بنیاد
ہائپر لوپ کی سائنسی بنیاد کئی بنیادی طبیعیاتی اصولوں پر استوار ہے، جن میں خلا (vacuum)، مقناطیسیت (magnetism)، ایئرودائنامکس (aerodynamics)، اور توانائی کی منتقلی (energy transfer) شامل ہیں۔ آئیے ان اصولوں کو تفصیل سے دیکھتے ہیں:
1. کم دباؤ والی ٹیوب (Near-Vacuum Tube)
ہائپر لوپ کا سب سے اہم جزو اس کی ٹیوب ہے، جو تقریباً خلا کے قریب حالات پیدا کرتی ہے۔ زمین پر عام حالات میں ہوا کا دباؤ 101 کلو پاسکل (kPa) ہوتا ہے، لیکن ہائپر لوپ کی ٹیوب میں یہ دباؤ 100 پاسکل یا اس سے بھی کم تک لایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹیوب کے اندر ہوا کی مقدار زمین کے ماحول کے مقابلے میں 1000 گنا کم ہوتی ہے۔
سائنسی طور پر، جب ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے تو ہوا کی رگڑ (air resistance) تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔ عام ٹرانسپورٹ سسٹمز، جیسے کہ ہوائی جہاز یا ٹرینیں، اپنی زیادہ تر توانائی ہوا کے دباؤ کے خلاف لڑنے میں صرف کرتی ہیں۔ ہائپر لوپ اس رگڑ کو ختم کر کے توانائی کے ضیاع کو کم کرتا ہے اور انتہائی تیز رفتاری کو ممکن بناتا ہے۔
2. مقناطیسی لیویٹیشن (Magnetic Levitation)
ہائپر لوپ کیپسول زمین سے کچھ بلند ہو کر چلتے ہیں تاکہ زمین کے ساتھ رگڑ بھی ختم ہو جائے۔ یہ مقناطیسی لیویٹیشن (MagLev) کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں برقی مقناطیس (electromagnets) استعمال کیے جاتے ہیں جو کیپسول کو ٹیوب کے اندر معلق رکھتے ہیں۔
سائنسی اصول یہ ہے کہ جب دو مقناطیس کے متضاد قطب (opposite poles) ایک دوسرے کے سامنے ہوں تو وہ ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔ ہائپر لوپ میں کیپسول کے نیچے اور ٹیوب کی دیواروں میں مقناطیس لگائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں، جس سے کیپسول ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، برقی مقناطیس کو کنٹرول کر کے کیپسول کو آگے بڑھانے کے لیے بھی قوت پیدا کی جاتی ہے۔ یہ نظام توانائی کے استعمال میں بہت موثر ہوتا ہے کیونکہ رگڑ نہ ہونے کی وجہ سے کم توانائی ضائع ہوتی ہے۔
3. لکیری انڈکشن موٹر (Linear Induction Motor)
ہائپر لوپ کیپسول کو آگے بڑھانے کے لیے لکیری انڈکشن موٹر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ایک خاص قسم کی برقی موٹر ہے جو روایتی گھومنے والی موٹر کے بجائے سیدھی لائن میں حرکت پیدا کرتی ہے۔ اس میں برقی مقناطیسی میدان (electromagnetic field) پیدا کیا جاتا ہے جو کیپسول کو آگے دھکیلتا ہے۔
سائنسی طور پر، یہ فاراڈے کے برقی مقناطیسی انڈکشن کے قانون (Faraday’s Law of Electromagnetic Induction) پر کام کرتا ہے۔ جب ٹیوب کے اندر برقی رو بہائی جاتی ہے تو ایک تبدیل ہوتا ہوا مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے، جو کیپسول میں دھاتی حصوں کے ساتھ تعامل کرتا ہے اور اسے تیز رفتاری سے آگے بڑھاتا ہے۔ یہ نظام روایتی انجنوں کے مقابلے میں زیادہ موثر اور کم مکینیکل حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
4. ایئر کمپریشن اور ایئر بیرنگز (Air Compression and Air Bearings)
کچھ ہائپر لوپ ڈیزائن میں کیپسول کے سامنے ایک کمپریسر لگایا جاتا ہے جو باقی ماندہ ہوا کو دباتا ہے اور اسے کیپسول کے نیچے منتقل کرتا ہے۔ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں: پہلا، یہ ہوا کی مزاحمت کو مزید کم کرتا ہے، اور دوسرا، یہ ہوا کیپسول کے نیچے ایک تہہ (air cushion) بناتی ہے جو اسے مزید بلند رکھتی ہے۔ اسے ایئر بیرنگز کہتے ہیں۔
یہ سائنسی اصول نیوٹن کے تیسرے قانون (action-reaction) پر مبنی ہے۔ جب کمپریسر ہوا کو پیچھے دھکیلتا ہے، تو کیپسول آگے کی طرف حرکت کرتا ہے۔ اس سے رفتار اور استحکام دونوں بڑھتے ہیں۔
توانائی اور ماحولیاتی فوائد
ہائپر لوپ کو سائنسی طور پر پائیدار بنانے کے لیے اسے شمسی توانائی (solar power) یا دیگر قابل تجدید ذرائع سے چلانے کا منصوبہ ہے۔ ٹیوب کے اوپر شمسی پینلز لگائے جا سکتے ہیں جو دن کے وقت توانائی پیدا کریں گے، اور یہ توانائی بیٹریوں میں محفوظ کی جا سکتی ہے۔ چونکہ ہائپر لوپ میں رگڑ اور ہوا کی مزاحمت کم ہوتی ہے، اسے چلانے کے لیے روایتی ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت کم توانائی درکار ہوتی ہے۔
ماحولیاتی اعتبار سے، یہ ٹیکنالوجی کاربن کے اخراج (carbon emissions) کو کم کر سکتی ہے کیونکہ یہ ایندھن جلانے کے بجائے بجلی پر چلتی ہے۔ اگر بجلی قابل تجدید ذرائع سے آئے تو یہ صفر اخراج (zero-emission) نظام بن سکتا ہے۔
چیلنجز اور سائنسی مسائل
ہائپر لوپ کے تصور کو عملی شکل دینے میں کئی سائنسی اور تکنیکی چیلنجز ہیں:
خلا کو برقرار رکھنا: ایک لمبی ٹیوب میں کم دباؤ کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔ اگر ٹیوب میں کوئی رساؤ (leak) ہو جائے تو پورا نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے جدید پمپنگ سسٹم اور مضبوط مواد کی ضرورت ہے۔

حرارت کا انتظام: تیز رفتار سے حرکت کرتے ہوئے کیپسول اور ٹیوب کے درمیان حرارت پیدا ہو سکتی ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے کولنگ سسٹم ضروری ہیں۔

حفاظت: اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو مسافروں کو کم دباؤ والی ٹیوب سے باہر نکالنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے لیے ہنگامی نظام تیار کرنا پڑے گا۔

لاگت: اس ٹیکنالوجی کو بنانے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے، کیونکہ اس میں جدید مواد، مقناطیس، اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے۔
مستقبل کے امکانات
ہائپر لوپ کے کامیاب ہونے سے دنیا بھر میں سفر کا وقت ڈرامائی طور پر کم ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، لاہور سے کراچی کا سفر جو اب 12 سے 15 گھنٹے لیتا ہے، ہائپر لوپ سے صرف ایک گھنٹے میں ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف وقت بچے گا بلکہ معاشی سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔
سائنسی تحقیق کے اعتبار سے، ہائپر لوپ نئے مواد، مقناطیسی نظاموں، اور توانائی کے استعمال کے طریقوں کو ترقی دے سکتا ہے جو دیگر شعبوں میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔
ہائپر لوپ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو طبیعیات کے بنیادی اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل کی نقل و حمل کو تبدیل کر سکتی ہے۔ کم دباؤ والی ٹیوب، مقناطیسی لیویٹیشن، اور لکیری انڈکشن موٹر جیسے سائنسی عناصر اسے ممکن بناتے ہیں۔ اگرچہ اس کے سامنے کئی چیلنجز ہیں، لیکن اس کی کامیابی سے انسانیت کو تیز، سستا، اور ماحول دوست سفر میسر ہو سکتا ہے۔ یہ ایلون مسک کا ایک انقلابی تصور ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے امتزاج سے حقیقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

Address

Islamabad
44000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sadia Khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Sadia Khan:

Share