20/07/2025
میں بھی مقتل میں تھا ۔۔۔۔
میں ثناء اللہ زرک تھا… اب صرف ایک لاش، جو بلوچستان کے چٹیل اور تپتے ویرانے میں کہیں مٹی کے نیچے دفن ہو چکی ہوگی ۔۔میں بھی اپنی ہی جنس کی غیرت کی بھینٹ چڑھا ، میرا جرم وہی تھا جو میری منکوحہ کا تھا ، میں نے اونچی پگڑہوں ستک زئی قبیلے کی ایک لڑکی شیتل سے نکاح کیا۔۔ میں دھوکے سے بلا کر مارا گیا
قبیلے والے کہتے ہیں میں نے جرم کیا۔
جرم؟
کیا میں نے کسی کی عزت پامال کی؟
کسی کا گھر اجاڑا؟
کسی عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے؟
نہیں... میں نے تو نکاح کیا تھا۔
قرآن پاک میں میرے رب نے فرمایا ہے ،
" جو عورتیں تمہیں پسند آئیں، ان سے نکاح کر لو"
میں نے اسی حکمِ ربی پر لبیک کہاتھا
جو عورت مجھے پسند آئی ،میں نے اسے ایک جائز ، شرعی اور باعزت رشتہ دیا …وہ میری منکوحہ تھی ، مگر معاشرے میں رب کی رضا سے بڑا رشتہ قبیلہ، غیرت اور جھوٹی انا کا ہے۔ مجھے کہا گیا میں نے خاندانی عزت پر دھبہ لگایا، مجھے اور میری بیوی کو غیرت کے نام پر دو درجن نامحرموں کے درمیان قتل کردیا گیا ۔۔
صرف ایک سوال ! کیسی غیرت؟ جو دو بالغ انسانوں کے نکاح کو جرم کہے؟ کیسا وقار؟ جو اس عورت کو گولیاں مارے جو ان کی پسند سے نہیں ذہنی پسند سے نکاح کرلے اور مقتل میں بھی سینہ تان کر اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی ہو؟
شیتل کو نو گولیاں ماری گئیں، اور مجھے انیس۔۔۔ مجھے اور میری بیوی کو اس لیے مارا گیا کہ ہم نے گناہ سے بچنے کا فیصلہ کہا تھا ، میں چیخنا چاہتا ہوں… لیکن اب میری آواز مٹی تلے دفن ہے۔
.''شیتل نے کہا تھا ,, صرف گولی مارنے کی اجازت ہے
کوئی ہے اس ریاست میں ۔۔۔ جو ہمارا مدعی بن کر ہمارا مقدمہ لڑے اور ان غیرت مندوں کا گریبان پکڑ کر کہے ,, گولی مارنے کی اجازت نہیں تھی ۔۔۔۔ نہ قانون میں ، نہ شریعت میں !!
🥀🥀
🥀