17/04/2020
سیاسی دکان اور کرونا
ایم اے شجاع
17 اپریل 2020
اتنا بڑا چاند تو نظر آتا نہیں ہے کرونا کہاں سے نظر آئے گا.
سانڈوں کی لڑائی میں مینڈک کا نقصان. دل تو کر رہا ہے کہ اٹھوں اور یہ شعر زور زور سے پڑھوں کہ
عقل کے اندھوں کو سب الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
مگر پھر سوچا کہیں خود پر اسکا اطلاق نا کر بیٹھوں. دنیا بھر میں کرونا وائرس کی دھوم ہے اور ہر ایک شخص اس میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے مگر کچھ کردار تھوڑے حیران کن اور سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ آخر یہ کرنا کیا چاہ رہے ہیں اور کہنا کیا؟
پاکستان الحمداللہ ابھی کرونا وبا سے اُس طرح متاثر نہیں ہوا جیسے باقی یورپین ممالک. مگر پاکستان میں محسوس ہو رہا ہے کہ کورونا وائرس نے جو تباہی مچانی تھی وہ اٹلی, چائنہ, امریکہ جیسے ممالک میں مچا چکا ہے.
پوری دنیا اسے وبا مان چکی ہے مگر ہم اسے ابھی افواء ہی مان رہے ہیں اور اپنے حصے کی غلطی کرنے کو بالکل تیار ہیں. کرونا کا ابھی پاکستان کو زیادہ متاثر نا کرنا شاید اسے سنجیدہ نا لینے کی ایک وجہ ہے. اسی لیے شاید لاک ڈاؤن میں ہلکی سی نرمی کر دی گئی ہے.
مگر حکومت کی اس نرمی کو کچھ احباب نے شاید اپنی من مرضی کرنے کی نوید سمجھ لیا ہے. ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے ایک دھڑے نے پاکستان کو متاثرہ اور بے حال ممالک کی صف میں شامل کرنے کی جانب اپنی توجہ مرکوز کر لی ہے.
وزیر اعظم پاکستان کی یکِ بعد دیگر میٹنگز, حفاظتی اعلانات, سفید پوش افراد کی فکر اور امدادی کاروائی میں شفافیت کی کوشش تو قابل تعریف ہے مگر دوسری جانب وہ مخصوص دھڑا کرونا وائرس کو شیعہ و سنی یا زائر و تبلیغی وائرس کی صف سے نکال کر ایک نئے اور خطرناک مذہبی رنگ میں رنگنے کی واضح کوشش کر رہے ہیں.
جس کی عملی شکل پچھلے دنوں لگاتار دو دن چلنے والی قومی سلامتی کونسل کی میٹنگ کے لاک ڈاؤن بڑھانے کے اعلامیہ کو دھچکہ کی صورت میں دکھی, جب مفتی منیب الرحمنٰ نے بڑے جارحانہ انداز میں ماہ رمضان کے اجتماعات کے لیے مساجد پر لاک ڈاؤن کے اطلاق کی مخالفت کر دی. جس کا مطلب یہ ہوا کہ کرونا وائرس کو کھلی دعوت لذیز کھانوں کے ہمراہ ایک ہی ٹیبل پر پیش کرنے کا ارادہ کر لیا گیا ہے. مفتی موصوف کو لگتا ہے کہ عوام الناس کو مسجد آنے کی اجازت دی جائے گی جہاں کورونا کے تمام حفاظتی اقدامات کیے گئے ہوں گے. سوچنے کا مقام ہے کہ جہاں حکومتی مشینری لاک ڈاؤن اور دفعہ 144 پر 100 فیصد عمل کروانے کی کوشش میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی وہاں وہ عوام کو کیسے اجازت دے دے کہ وہ جمعہ, مناجات, تراویح اوردیگر رمضان المبارک اجتماعات میں شرکت کریں اور پاکستان کو چائینہ اور اٹلی جیسے ممالک کی صف میں کھڑا کر دے. ایک دن کے لاک ڈاؤن کی نرمی کے بعد 536 نئے کیسز کا ظاہر ہو جانا ان ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے کی پہلی نوید ہے.
دوسری جانب مفتی منیب الرحمنٰ کی اصلاح کرنے کی بجائے حکومتی مشینری میں موجود جونک نے ایسا ٹویٹ کیا جس نے آگ پر تیل کا کام کر دیا. پوری دنیا میں جہاں تمام ممالک اور اقوام متحد ہو کر اس وبا کا سامنا کر رہے ہیں وہی ایک تنگ نظر اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے کوشش کرنے والے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جناب فواد چوہدری کبھی رجعت پسند طبقے کے الفاظ استعمال کر کے اپنی سیاست کو چمکا رہے ہیں تو کہیں بنا کسی واسطے کے مشیر اطلاعات کی جگہ خود کو پرانے قلمدان کا اصلی وارث سمجھتے ہوئے ٹویٹر پر ایک نیا محاذ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں.
مفتی صاحب کی پریس کانفرنس کی منطق تو سمجھ سے بالا تر تھی کہ جہاں نماز کے لیے 5 افراد کو اکٹھا کرنے کا سوچ کر حکومتی مشینری تھر تھر کانپ رہی ہے وہ کیسے رمضان المبارک میں اجتماعات کی اجازت دے دے. جبکہ دوسری طرف آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے. وفاقی وزیر کی منطق کا تو اللہ ہی حافظ ہے. ٹویٹر پر جگتیں کرنے اور آگ پر تیل ڈالنے کا کام آخر کب ختم ہو گا. اپنی سیاسی محرومیوں کا حل ٹویٹر سے نکل کر میدان میں ڈھونڈیں تو قدرِ زیادہ بہتر ہو گا.
اس کے بعد سے دوطرفہ جنگ کا آغاز سوشل میڈیا پر تو چل ہی رہا ہے جبکہ مفتی صاحب نے بھی وہ کلمات یاد کروا دیے کہ "جسمانی وائرس (کورونا) کے ہوتے ہوئے اس اخلاقی وائرس (فواد چوہدری) سے لڑنا یا منہ لگانے کی ہمت ہم میں نہیں"
حکومتی ذمہ داران کی اس آپسی لفظی جنگ میں ایک طرف لاک ڈاؤن کے ڈسے, سہمے اور غمگین 20 کروڑ پاکستانی تو دوسری طرف جمعہ و رمضان کے اجتماعات اور اٹلی امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی حالت سے خوف ذدہ مسلمان نیوز چینلز کے بٹن دبا دبا کر پریشان ہیں کہ یہ اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا. انتظار تو اب 18 اپریل کی وزارت مذہبی امور کی میٹنگ کا ہے اور 23 اپریل کی ٹویٹر لڑائی کا ہے جب ایک دفعہ پھر پوری دنیا کے سامنے سب سے الگ, نئی اور انوکھی منطق پیش کی جائے گی اور واضح ہو گا کہ یہ ذاتی انا ہے یا عوام کے لیے حقیقی دردِ دل.