30/01/2025
فرمائشی اور پلانٹڈ ! ویڈیو سب بیان کر رہی ہے ۔۔ افسوس ، صَد افسوس ! سینئر صحافی سجاد ترین صاحب نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ “ دن کی روشنی میں آزادی صحافت کے نعرے لگانے والے قائدین رات کی تاریکی میں ان لوگوں کے ساتھ ڈنر کر رہے تھے جنہوں نے پیکا ایکٹ بنایا ہے “
پولیس جب روکتی ہے تو ہاتھوں میں یہ دید لحاظ نہیں ہوتا اور پھر DSP اور SP اکیلا ؟؟ باقی فورس گھاس چَرنے گئی ہے ؟
صاحب فرینڈلی ہیں اور باقی فورس ڈرامے کی شُوٹنگ دیکھ رہی ہے ۔۔
کالم نویس عبدالقادر حسن نے ایک بڑے لیڈر کے بارے میں 1966/67 کا ایک واقعہ لکھا تھا کہ وہ مشہور وکیل مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے والد جیلانی صاحب سے ملنے گئے اور اُن سے کہا کہ کل میں مُلتان جا رہا ہوُں وہاں ہم احتجاج کریں گے تو جیلانی صاحب نے پوچھا پھر میرا کیا تعلق ؟
بڑے لیڈر بولے کہ “ وہاں کے ڈپنی کمشنر آپ کے brother in Law ہیں اُن کو فون کر دیں “
جیلانی صاحب نے کہا کہ مَیں اُن سے request کر دیتا ہُوں کہ آپ کے ساتھ سختی نہ کریں تو بڑے لیڈر فورا بولے “ نہیں نہیں ! بلکہ اُن سے بولیں کہ وہ لاٹھی چارج کر دیں ، دو چار کارکنوں کے سَر پھٹ جائیں دھکم پیل ہو جائے چند ایک گرفتاریاں کر لیں “
جیلانی صاحب ہَکّا بَکّا دیکھ رہے تھے تو بڑے لیڈر بولے کہ “ یار ! اس سے ہمارا احتجاجی مظاہرہ کامیاب ہو جائیگا اور اخبارات کو بھی لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کی وجہ سے اُچھالنے کا موقع مل جائیگا “”
حیرت یہ ہے کہ آج 56/57 سال بعد بھی لیڈران کا یہی وطیرہ ہے حالانکہ دور بدل چُکا ہے ویڈیو کیمرے آ چُکے ہیں ایک ایک اینگل کور ہوتا ہے اور سوشل میڈیا کا دور ہے کُچھ نہیں چُھپتا، باقی ڈھٹائی کا تو کوئی علاج نہیں ۔۔