
24/02/2022
صرف کے پے کے میں نہیں پورے پاکستان میں پڑھے جانے والے اخباری صفحے کے ٹاپ پر ہماری قلم کے ٹوٹے الفاظ
#شبِ_غم_سے_لیکر_امیدِ_سحر_تک
""
""
""
بلدیاتی الیکشن اور عوامی زمداریاں
تحریر : محمد اسحاق خٹک
بلدیاتی ادارے دنیا میں جمہوریت کی پہلی منزل بلکہ بنیاد کہلاتے ہیں مگر ہمارے ہاں جس جمہوریت کی خاطر قربانیاں دی جاتی ہیں اس میں انکی ضرورت ہی نہیں محسوس کی جاتی رہی ہے اب ماضی قریب میں اور عدالت عظمیٰ کے دباؤ کے بعد اس کارخیر کو سرانجام دیاجانا شروع ہوا ہے ہاں یاد رہے ہمارے آئین میں بھی اسکو بڑی مشکل سے جگہ دی گئی ہے ذرا غور کیجئے
آرٹیکل 140کا ٹائٹل ہے "Advocate General for a Province"
اور اسی کے نیچے آرٹیکل 140-A کو
Local Government
کی سرخی دی گئی ہے یعنی جزو کا آرٹیکل کے اصل ٹائٹل سے کوئی تعلق نہ ہونے کے برابر ہے بہر حال آئین کی اس شق کے مطابق لازم ہے کہ ’’ہر صوبہ قانون کے تحت لوکل گورنمنٹ سسٹم قائم کریگا اور عوام کے منتخب نمائندوں کو سیاسی ، انتظامی ،مالی ذمہ داریاںاور اتھارٹی تفویض کریگا‘‘اسکی رو سے عوام کی حکومت میں شمولیت اور ایک مربوط سوسائٹی کی تشکیل کا راستہ تو نظر آتا ہے مگر کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کا مزہ خراب ہو جاتا ہے انہیں ہر روز کام لیکر دروازے پر آنیوالوں کی قطاریں بکھرتی اور مُٹھی سے فنڈز سرکتے نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اول تو یہ ادارے بننے ہی نہیں دیئے جاتے اور اگربنانے پڑ جائیں تو اختیارات اسقدر محدود کر دیئے جاتے ہیں کہ عملی طور پر وہ ممبر ان اسمبلی اور صوبائی حکومت کے دست نگر ہی رہتے تھے اس بار بھی کچھ مختلف ہوتا نظر نہیں آرہا ہےکم ازکم اتنا ضرور ہوا ہے کہ اب کچھ عرصہ پہلے موجودہ وفاقی حکومت نے بلدیاتی نمائندوں کے اختيارات کے داٸرے کو وسیع ضرور کیا تھا لیکن بدقسمتی سے جب حکومتی جماعت کو کے پی کے میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کا نتیجا پہنچا گھبراہٹ کے مارے ایک بار دوبارہ سے بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات کو محدود کردٸے جانے کی خبریں زیرے گردش ہیں اب پہلے مرحلے کے نو منتخب کونسلر اور دوسرے مرحلے امیدواروں کی طرف سے اس موضوع پر کافی بحث مباحثہ جاری ہے بظاہر تو یہ بحث جائز ہے مگر کیا اوپر اور نچلی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کے درمیان اسطرح کی رسہ کشی عوام کو کچھ دے سکے گی؟
کیا آج کے حالات میں یہ نمائندے کوئی اور بہتر رول ادا نہیں کرسکتے؟
ضرور کر سکتے ہیں گلیوں تک پہنچنے والا یہ واحد کمپروماٸزڈ ہے جو قوم کودرپیش چیلنجز میں وہ کچھ دے سکتا ہے جس کی شدت سے ضرورت ہے اور جو عمومی کاموں سے فی الوقت کہیں زیادہ اہم ہے
وطنِ عزیز حالت جنگ میں ہے فورسز بڑی بے جگری سے برسرپیکار ہیں مگر سوسائٹی جوکہ ایک قلعہ ہوتی ہے کچھ منتشر کمپرومائزڈ اور اجتماعی طور پر ہر شہری وطنِ عزیز کی آزادی اور وقار پر مرمٹنے کو تیار ہے تو پھر بحیثیت سوسائٹی کمزوری کیوں ہے؟ گذشتہ وحالیہ حالات کا تجزیہ کیا جائے تو اسکی نشاندہی ربط و اعتماد ِباہمی کے فقدان میں ہوتی ہے۔ میرے نظریے کے مطابق ’’پاکستان کے تمام مسائل کا حل ایک مربوط سوسائٹی کے قیام ہے جسے حاصل کرنے کیلئے بلدیاتی انفراسٹرکچر کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے‘‘۔ آئیں کچھ پہلوؤں پر غور کریں
نمبرایک دہشت گردی کی جنگ اس جنگ میں بہت بڑی کمزوری یہ نظر آئی ہے کہ دہشت گرد واردات سے پہلے اور واردات کے بعد ہماری گلیوں میں ہی چھپے پائے گئے ہیں اگر مقامی کونسلراپنی گلیوں میں لوگوں کو قدرے منظم کرلیں تو یہ کمین گاہیں ان پر بند کی جاسکتی ہیں پھر دہشت گردی اور جرائم کیخلاف حکومت کے انفارمیشن نیٹ ورک سے منسلک ہو کر اپنی فورسز کو سپورٹ کرسکتے ہیں ہماری پولیس اسوقت پبلک کی شمولیت سے بیٹ سسٹم رائج کرناچاہ رہی ہے جس کی عوام میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ہو رہی اس کارخیر میں ہمارے عوامی نمائندے حصّہ ڈال کر اپنے بچوں کو امن کا تحفہ دلانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں
نمبر دو شہریوں کا وقار
اس وقت ہمارے شہری اس وقار سے محروم ہیں جسکے وہ حقدار ہیں اسکی ایک وجہ لوگوں کی اپنے معاشرتی ہجوم کے اندر رہتے ہوئے تنہائی ہے کوئی بچہ ظلم کا شکار ہو جائے تو یہی کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ فلاں محنت کش کا بچہ ظلم کا شکار ہوا وہ محنت کش چند گھنٹوں کی ہمدردی کے بعد ہی تنہا رہ جاتا ہے اسی طرح کسی شریف شہری کے خلاف کوئی جھوٹی رپورٹ بھی درج ہو جائے تو اسی وقت اسکی تذلیل شروع ہو جاتی ہے اور وہ تنہا رہ جا تا ہے جنھوں نے ووٹ لئے ہیں ان کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ دیگر لوگوں کو ساتھ لیکر کسی کو بھی مشکل لمحات میں تنہا نہ چھوڑیں اسطرح کے کاموں سے شہریوں میں اعتماد اور وقار کا احساس پیدا ہوگاجوآگے چل کر صاف ستھری قوم بنانے کا موجب بن سکتا ہے
نمبرتین معاشرتی قدریں
قومیں اپنی معاشرتی قدروں کے احترام سے عظیم کہلاتی ہیں
ہماری قدریں کچھ اس طرح سے مسخ ہوئی ہیں کہ کئی بار انہیں پہچاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے اسکی بڑی وجہ بھی معاشرے میں انفرادیت کا غالب آجانا ہے اب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گھروں میں مل بیٹھنا،کھانے پر ایک دوسرے کا انتظار کرنا اور محلے داروں کو اپنا سمجھنا بھی ختم ہوتا جارہا ہے گھر کے اندر کے معاملات تو خیرگھر والے ہی سلجھا سکتے ہیں البتہ گلی محلے ،گاؤں یا یونین کونسل وغیرہ کی سطح پر ہم Public Interaction بڑھا کر معاشرے کو سہارا دے سکتے ہیں اسطرح کے ماحول میں لوگ محتاط بھی ہو جاتے ہیں اور الرٹ بھی جسکا نتیجہ معاشرے میں سچائی،بین المذاہب وفرقہ ہم آہنگی، باہمی احترام،بچوں و خواتین کا تحفظ اور انتخابات میں درست ووٹ ڈالنے کے شعور کی صورت میں نکلتا ہے
نمبر چار ناداروں سے رابط
ہمارے معاشرے میں کتنے مخیر حضرات موجود ہیں پھر بھی بہت سارے نادار،یتیم ،بیمار،کس مپرسی کی تلخ زندگی گذاررہے ہیں اسکے علاوہ پچھلے سالوں میں کورونا کے وبا وغیرہ میں معاشی حالات کمزور ہو جانیوالے بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں اگر گلیوں محلوں سے ڈائریکٹ رابطہ رکھنے والے نمائندگان ایسے لوگوں کو معاشرتی اور حکومتی اداروں سے یا مخیر لوگوں سے متعارف کروادیں تو اس سے نہ صرف معاشرہ مضبوط ہوگا بلکہ ربّ العزت کی رحمت بھی شاملِ حال ہوجائیگی اور حکومتی اور غیر حکومتی تمام فلاحی پروگراموں کے استعمال میں بھی یہ لوگ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں
ہمارے ہاں ساری اجتماعی کمزوریاں حکومت سے منسوب کر کے بری الذمہ ہو جانا اک روایت سی بن گئی ہے جبکہ اپنے انفرادی حقوق کی جنگ ہم لڑتے رہتے ہیں یاد رکھیں حقوق کی تگودو درست ہے مگر اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے نہ تو افراد بری ہو سکتے ہیں نہ انکے چنے گئے نمائندے اگر ہم اسطرح کی سوچ کو اپنا لیں تو ہماری کمپرومائزڈ سوسائٹی مربوط اور مضبوط ہو کرمن حیث القوم تمام معاملات کو سلجھانے میں کامیاب ہو سکتی ہے
وسلام