Digital Nomad

Digital Nomad You can post videos, travel news, comedy videos

سال 2004 میں دنیش کارتک نامی نوجوان وکٹ کیپر نے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے لیے اپنا ڈیبیو کیا۔ اور 2007 میں اک نیشنل پلئیر فی...
01/07/2024

سال 2004 میں دنیش کارتک نامی نوجوان وکٹ کیپر نے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے لیے اپنا ڈیبیو کیا۔ اور 2007 میں اک نیشنل پلئیر فیم ہوتے ہوئے بھی گلیمر کی دنیا اپنانے کی بجائے اپنی بچپن کی دوست نکیتا ونجارا سے شادی کر لی۔

دنیش اور نکیتا اپنی شادی شدہ زندگی میں بہت خوش تھے۔ دنیش رنجی ٹرافی میں تامل ناڈو کی ٹیم کے کپتان بھی تھے۔ تامل ناڈو ٹیم میں ان کے قریبی دوست تھے مرلی وجے جو بعد میں ہندوستانی ٹیم کی طرف سے بھی کھیلے

ایک دن نکیتا کی مرلی وجے سے ملاقات ہوئی۔ نکیتا مرلی وجے کی طرف متوجہ ہو گئی۔ دنیش کارتک کو اس کا احساس تک نہیں تھا۔ نکیتا اور مرلی کی قربتیں بڑھیں اور ان کا افیئر شروع ہوگیا۔

سال 2012 میں نکیتا نے دینش کارتک سے طلاق لے لی اور طلاق کے اگلے ہی دن نکیتا نے مرلی وجے سے شادی کر لی۔

طلاق کی وجہ سے دنیش کارتک بہت صدمے کی کیفیت اور ڈپریشن میں چلا گیا۔ اس کی زندگی یکسر بدل گئی تھی وہ اپنی لاڈلی بیوی اور دوست مرلی وجے کی دھوکہ دہی کو نہیں بھول پا رہا تھا۔ وہ صبح سے شام تک شراب پیتا رہتا۔ وہ بلکل تنہا سا ہو گیا۔ اسے ہندوستانی ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ وہ رنجی ٹرافی میں بھی ناکام رہا۔

اس سے تامل ناڈو ٹیم کی کپتانی چھین لی گئی۔ اور مرلی وجے کو نیا کپتان بنا دیا گیا۔ ناکامی نے یہیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
اسے آئی پی ایل میں بھی نہیں کھلایا گیا،
لیکن اب وہ ان چیزوں سے بے نیاز ہو گیا تھا
اس نے جم جانا چھوڑ دیا۔ دنیش زندگی اتنا نا امید ہو گیا کہ اس نے خودکشی کرنے کی باتیں شروع کر دی۔

اس طرح کی باتیں سن کر ایک دن، جم سے اس کا ٹرینر جو اس کا کسی حد تک دوست بھی رہ چکا تھا اس کے گھر آیا۔ اس نے دنیش کارتک کو بری حالت میں پایا۔ وہ دنیش کو سیدھا جم لے گیا۔ دنیش نے بہت انکار کیا، لیکن اس کے ٹرینر نے اس کی بات نہیں سنی۔

اسی جم میں ہندوستانی اسکواش چیمپئن دپیکا پالیکل آیا کرتی تھی۔ جب اس نے دنیش کارتک کی حالت دیکھی تو اس نے بھی ٹرینر کے ساتھ اس کی کونسلنگ شروع کردی۔

ٹرینر اور دپیکا کی محنت کے نتائج سامنے آنے لگے۔ دنیش کارتک بہتری کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ اس دوران مرلی وجے کی خراب پرفارمینس کی وجہ سے اس کو بھارتی ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ بعد میں ان کی مسلسل ناقص کارکردگی دیکھ کر چنئی سپر کنگز نے بھی انہیں آئی پی ایل سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔

دوسری جانب دپیکا پالیکل کے اصرار پر دنیش کارتک نے نیٹ پر بھرپور پریکٹس شروع کردی۔ اور پھر اس کے نتائج آنا شروع ہوئے، اور دنیش کارتک نے ڈومیسٹک کرکٹ میں بڑا اسکور کرنا شروع کیا۔ جلد ہی، وہ آئی پی ایل میں بھی منتخب ہو گیا اور کولکتہ نائٹ رائیڈرز کا کپتان بن گیا۔ اس نے دپیکا سے شادی کر لی۔

اپنی عمر کے حساب سے دنیش کرکٹ میں بوڑھے ہو چکا تھا۔ کارتک نے محسوس کیا کہ اس کا کیریئر تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ لیکن وہ سخت محنت اور جدّوجہد کر رہا تھا۔ دوسری جانب ان کی اہلیہ دپیکا پالیکل حاملہ ہوگئیں اور اس نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔ دپیکا کا اسکواش کیریئر بھی رک گیا تھا۔

دپیکا اور دنیش کارتک چنئی کے پوش علاقے پوئیس گارڈن میں ایک بنگلہ خریدنا چاہتے تھے۔ 2021 میں، چنئی کے اسی علاقے میں ایک حویلی خریدنے کی پیشکش آئی۔ دنیش نے اسے خریدنے کا فیصلہ کیا۔ سب حیران تھے کہ جب دپیکا اور دنیش دونوں کھیلوں کی دنیا سے تقریباً ریٹائر ہو چکے تھے تو وہ اتنا مہنگا سودا کیسے پورا کریں گے؟

پھر دنیش کو یہ اطلاع ملی کہ چنئی سپر کنگز کے مہندر سنگھ دھونی انہیں ایک وکٹ کیپر کے طور پر ٹیم میں واپس دیکھنا چاہتے ہیں۔ آئی پی ایل 2022 کی نیلامی شروع ہو گئی۔ لیکن اس بار چنئی کے بجائے رائل چیلنجرز بنگلور نے انہیں خرید لیا۔ دنیش کی اہلیہ دپیکا نے بھی کھیلنا شروع کیا اور ان کے جڑواں بچوں کی پیدائش کے صرف 6 ماہ بعد ہی انہوں نے گلاسگو میں ہونے والی عالمی چیمپئن شپ میں جوشنا چنپا کے ساتھ خواتین کے ڈبلز کا خطاب جیتا۔

دنیش کارتک کی کامیابی کی کہانی ان سب کے لئیے جنہیں زندگی ٹھوکر مارتی ہے تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ زندگی ختم ہوئی آگے کوئی رستہ نہیں بچا۔ گرنا اور گر کر دوبارہ اٹھنے کی کوشش انسان کو کامیاب بناتی ہے۔

مشکل حالات میں جینا کارتک کی زندگی اس کی زندہ مثال ہے۔ مشکلات کے خلاف لڑ کر ہی آپ اپنی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔

18/03/2024

اصلی اور نسلی تاجر
***************

کہتا ہے: چالیس سال گزر گئے ہیں اس بات کو، لیکن مجھے آج بھی اس دکاندار اور اس دکاندار کے بیٹے کی شکل ہر زاویئے سے یاد ہے۔

جیسے ہی میرا مڈل سکول کا نتیجہ اخباروں میں چھپا، میرے تو پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ حالانکہ میں نے کوئی معرکہ بھی نہیں مارا تھا۔ بس آٹھویں جماعت کو فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا تھا۔ لیکن مجھے کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا کہ اپنی خوشی کا کیسے اظہار کروں۔

دوسرے دن میں نے منصوبہ بنایا کہ اپنے قصبے "سویداء" سے "دمشق" جا کر سیر کر کے آتا ہوں۔ میرے لیئے امتحان میں پاس ہونے کا اس سے بڑا جشن نہیں ہو سکتا تھا۔ میری جیب میں ایک "لیرے" کا سکہ تھا اور پانچ لیرے کا کڑکتا نوٹ۔ میں نے سیدھا بس کے اڈے پر جا کر دم لیا۔ بس والے نےسکے والا ایک لیرا کرایہ لے لیا، باقی کے پانچ لیرے میرے جیب میں موجود تھے۔ میں نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ ان پیسوں سے دمشقی مٹھائی گھر لے کر جاؤنگا اور مزے کرونگا۔ میرا شامی کیک خریدنے کا تو پکا ارادہ تھا۔

دمشق کے بازار ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت۔ الصالحیہ بازار اور الحمیدیہ بازار کی تو کیا ہی بات تھی۔ وہیں جابی گیٹ کے پاس مجھے مٹھائی کی ایک بڑی دکان نظر آئی۔ میں نے اندر جا کر دکاندار سے، جس کے پہلو میں اس کا ایک بیٹا بھی بیٹھا ہوا تھا، کلو کیک، کلو برازق اور ایک کلو غُرائیبہ مانگا۔ لیکن جیسے ہی پیسے دینے کیلیئے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب خالی تھی، میرے پانچ لیرے جیب میں نہیں تھے۔

میری حالت دیدنی تھی اور شاید میرے چہرے سے یاسیت بھی نظر آ رہی ہو گی۔ میں نے دکاندار سے معذرت کرتے ہوئے کہا: جناب، میں کچھ دیر بعد آوںگا اپنا سامان اٹھانے کیلیئے۔

دکاندار نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا

پیسے گھر بھول آئے ہو؟

میں نے کہا:

نہیں پیسے تو میری جیب میں ہی تھے۔ پورے پانچ لیرے کا ایک ہی نوٹ تھا،

کدھر رہتے ہو؟ دکاندار نے پوچھا۔

سویداء میں رہتا ہوں۔ میں نے جواب دیا۔

اچھا، ادھر آؤ، پہلے ذرا بیٹھ لو، تھوڑا آرام کرو۔

پھر اس نے چائے کا ایک کپ مجھے بھر کر پکڑاتے ہوئے کہا؛ میرے بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیو۔

اتنی دیر میں دکاندار نے جو میرا سامان تول کر رکھا تھا، لفافوں میں پیک کر کے مجھے دیتے ہوئے کہا: یہ لو تمہارا سامان، جب کبھی دوبارہ دمشق آنا تو پیسے دے جانا۔

میں نے انکار کرتے ہوئے کہا: سیدی ، میں نے اتنی جلدی دوبارہ دمشق نہیں آنا۔ اور پھر یہ چیزیں کوئی ضروری بھی نہیں ہیں۔ معذرت کے ساتھ، میں اب یہ نہیں خریدنا چاہتا، آپ رہنے دیجیئے۔ آپ کا شکریہ۔

دکاندار نے کہا: بیٹے، تم دمشق ضرور آؤ گے۔ اور مجھے یہ بھی پورا یقین ہے کہ تم میرے پیسے بھی ضرور واپس کروگے۔

اور اس کے ساتھ ہی دکاندار نے اصرار کر کے مجھے سامان اٹھوا دیا۔

میں سامان لیکر شرمندہ شرمندہ دکاندار اور اس کے بیٹے کو سلام کر کے باہر نکلا۔ ابھی چند قدم ہی دور گیا ہونگا کہ دکاندار کا بیٹا مجھے پیچھے سے آوازیں دیتا ہوا دکھائی دیا۔

میں رک گیا، دکاندار کے بیٹے نے مجھۓ آ کر بتایا کہ ابو کو تمہارے پانچ لیرے دکان میں گرے ہوئے مل گئے تھے۔ لگتا ہے تم نے جب جیب میں ہاتھ ڈالا ہوگا تو نیچے گر پڑے ہونگے۔

ابو نے اپنی مٹھائیوں کے پیسے کاٹ لیئے ہیں اور یہ رہے تمہارے باقی کے پیسے۔

میری خوشی دیدنی تھی۔ کہاں میں ادھار کے بوجھ تلے دبا یہ سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ چلو سامان تو ٹھیک ہے مگر سویداء جانے کا کرایہ کس سے مانگوں گا۔ اور کہاں اب یہ ادھار چکتا ہو گیا تھا، کسی کے آگئے ہاتھ پھیلائے بغیر کرائے کے پیسے نکل آئے تھے اور میں ہلکا پھلکا ہو چکا تھا۔

میں نے دکاندار کے بیٹے کا شکریہ ادا کیا۔ اسے اپنے ابو کو جا کر میری طرف سے شکریہ ادا کرنے کا کہا، باقی کے پیسے جیب میں ڈالے اور اڈے کی طرف چل پڑا۔

گھر جا کر کپڑے تبدیل کرنے کیلیئے میں نے جیسے ہی اپنی پرانی والی پتلون پہنی تو مجھے اپنے پانچ لیرے کا نوٹ اسی کی جییب میں مل گیا۔

ابا جی کو ساری قصہ کہہ سنایا۔ سن کر مسکرا دیئے اور کہنے لگے۔

پُتر، یہ لوگ شام کے تاجر ہیں۔ جدی پشتی تجارت پیشہ لوگ۔ ان کو انسانیت کے سارے معانی اور مطلب آتے ہیں۔ بہر حال پانچ لیرہ تیرے اوپر قرض ہے۔ اپنی امی سے کہہ، کل پرسوں تجھے میٹھے ڈھوڈھے بنا دے، ہماری طرف سے ھدیہ لیتا جا، پانچ لیرہ قرض بھی اتارنا، ہماری طرف سے شکریہ ادا کرنا اور ہماری طرف سے سلام بھی کہنا۔

اگلے ہفتے میں نے امی سے میٹھی روٹیاں پکوا کر، اور پانچ لیرہ قرضہ چکانے کیلیئے لیکر دمشق کی راہ لی۔

دکاندار نے جیسے ہی مجھے دیکھا، ہنس دیا اور کہنے لگا: میں نہیں کہتا تھا کہ تو جلد ہی دمشق واپس آئیگا۔ یہ ایک کلو ھریسہ میری طرف سے واپس لیتے جانا اور سویداء کے لوگوں کو میرا سلام کہہ دینا۔

کہتا ہے: آج بھی جب میں کسی تاجر کو دیکھتا ہوں تو دل فوراً ہی نسلی تاجر اور فصلی تاجر کا موازنہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔

****
انتخاب و ترجمہ : Muhammad Saleem

Social media newsfeed algorithms are designed to show you content aligned with your interests, likes and beliefs. This e...
06/02/2024

Social media newsfeed algorithms are designed to show you content aligned with your interests, likes and beliefs. This enables these platforms to increase the time spent by their users on their apps and to sell them products aligned with their taste.

This naturally leads to echo chambers — where a social media user lives in a bubble where all they see is content aligned with their interests.

This particularly applies to politics. If you support a political party and generally like its content, the social media platforms naturally show the content that supports your political view. Users in an echo chamber rarely see content from users in another echo chamber.

So a user in such an echo chamber believes that everyone supports their political view. This is particularly true for smaller platforms such as Twitter with a limited user base in a country like Pakistan. Only a few thousand users (and trolls) can easily create and exist in an echo chamber.

Enjoy your echo chambers, but reach out and engage with users with diverse opinions. That’s the real strength of social media — it provides a platform to connect and learn from people with diverse and enriching opinions.

Via Umar Saif

21/12/2023

کھیرا اور پیاز کاٹنے کا شرعی طریقہ بتانے والے اور جنت کے حوروں کی خوبصورتی بتانے والے علماء متوجہ ھون
کمال اتاترک نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ملک کے بڑے ملاؤں کو میرے پاس لے آئیں، جب ملاں آئے تو اس نے ان سے کہا:
کسان حکومت کے لیے گندم، چاول وغیرہ اگاتے ہیں، گوشت، ڈیری فارمرز، درزی اور دیگر چیزیں بنانے والے اپنے لوگوں اور اپنی حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوہی کار آمد کام کرتے ہیں۔...
آپ اپنی حکومت اور اپنی قوم کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
ملاؤں نے کہا: ہم آپ کے اور اپنے لوگوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
کمال اتاترک نے پھر انہیں سمندری سفر کی دعوت دی اور ایک ملاح کو حکم دیا کہ وہ جہاز کو بیچ سمندر میں چھید کر دے ۔

سمندر کے بیچوں بیچ ملاؤں نے جب جہاز میں سوراخ دیکھا اور جہاز میں پانی بھرتا دیکھا تو وہ سب چیخنے لگے

کشتی کے نگہبانوں نے ملاؤں سے کہا کہ وہ دعا کریں تاکہ جہاز میں وہ سوراخ بند ہو جائے،
ملاؤں نے غصے میں آکر بلند آواز سے جواب دیا کہ کبھی دعا سے بھی سوراخ بند ہوا،

تو ملاحوں نے کہا اس پانی کو ہمیں جہاز سے نکالنا ہو گا ورنہ ہم سب مارے جاہیں گے۔
کشتی کے ملاحوں نے کچھ بالٹیاں ملاؤں کے ہاتھوں میں تھما دیں اور کہا کہ وہ لگاتار پانی نکالتے رہیں۔ملاوں نے بغیر رکے جہاز سے پانی نکالنا شروع کر دیا۔۔
ملاحوں نے جہاز کو واپس موڑا اور تیز رفتاری سے ساحل پر واپس پہنچا دیا۔۔
سب ملاں تھکن سے ایک کونے میں گر گئے۔
کمال اتاترک ان سے پھر ملنے آیا ان کی طرف متوجہ ہوا کہا:
اب آپ لوگ سمجھ گئے ہونگے کہ ہمیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت نہیں، آپ کو ملک و قوم کے لیے کچھ کام بھی کرنا ہوگا۔۔ تاکہ آپ کے فائدے عوام اور حکومت تک پہنچیں، کام کے سوا کوئی ملک دعاؤں سے ترقی نہیں کرتا اور آپ ملاؤں نے ہمیشہ مذہب کو اپنے ذاتی فائدوں کے لیے استعمال کیا ہے۔۔

ترک ادب سے ماخوذ

Address

Gulshan E Iqbal
Islamabad

Telephone

+923007999986

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Digital Nomad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Digital Nomad:

Share

Category