Mufti Bilal

Mufti Bilal Like And Share This Page

مولانا نے آج تک اسلام کیلئے کیا کیا ہے؟مولانا اسلام نہیں اسلام اباد کیلئے سیاست کررہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہقائد جمعیت مولانا ...
06/08/2023

مولانا نے آج تک اسلام کیلئے کیا کیا ہے؟

مولانا اسلام نہیں اسلام اباد کیلئے سیاست کررہے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب کی اسمبلی میں اسلام کے لئے چند قابل قدر خدمات

1)۔۔ جب مشرف دور میں آئین سے اسلامی دفعات ختم کرنے کی کوشش کی گئ تو مولانا فضل الرحمن صاحب نے ان دفعات کے تحفظ کی جنگ لڑی

2)۔۔ "سربراہ مملکت مسلمان ہوگا"
جب اس شق کو ختم کرنے کی کوشش کی گئ تو مولانا فضل الرحمن صاحب میدان میں آئے اور اس کی حفاظت کی

3)۔۔ "اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا"
جب اس شق کو آئین سے نکالنے کی کوشش کی گئ اس وقت بھی مولانا فضل الرحمن صاحب نے اس شق کی حفاظت کی تھی

4)۔۔ "وزیر اعظم مسلمان ہوگاـ"
جب اس شق کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس شق کا دفاع بھی مولانا فضل الرحمن صاحب نے کیا

5)۔۔ جب قرار داد مقاصد کو ختم کرنے کی بات آئی تو مولانا فضل الرحمن صاحب میدان میں آئے اور ان کو تحفظ فراہم کیا

6)۔۔ امتناع سود کے نام سے 2006 میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل علی حقانی صاحب نے قانون سازی کی تھی

7)۔۔ جب پارلمنٹ میں توہینِ ناموس رسالت کی سزا ختم کرنے کی بات آئی تو جمعیت علماء اسلام نے صف اول کا کردار ادا کیا

8)۔۔ جب فوج کے ذریعے مدارس کے نصاب تعلیم کو بدلنے کی کوشش کی گئی اور عصری تعلیم کو لازم کیا جانے لگا
تو مولانا فضل الرحمن صاحب نے فوج کی أنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔!
کہ تم سکولوں میں ہمارا نصاب شامل کرو ہم عصری تعلیم کو داخل کردیں گے جب وہ نہیں تو یہ کیوں

9)۔۔ جب جامعہ حقانیہ کو مجاہدین کی امداد کی آڑ میں ختم کرنے کے ناپاک عزائم سامنے آئے تو مولانا فضل الرحمن صاحب نے ان کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا
کہ اگر ایسی جسارت کسی نے کی تو سب سے آگے مجھے پاؤ گے

10)۔۔جب مشرف نے میراتھن ریس کی کوشش کی کہ نیم برہنہ لڑکیاں اور لڑکے روڈوں پر سر عام ریس لگائیں گے
اس کو بھی جمعیت علما اسلام نے جان پر کھیل کر روکا

11)۔۔ جب پارلمنٹ میں ہم جنس پرستی کو قانونی جواز دینے کے لیے بل پیش کیا گیا تو اس کو باہر پھنک دینے والے مولانا فضل الرحمن صاحب تھے

12)۔۔ایم ایم اے دور میں شہادۃ عالمیہ کو M-A
اور شہادۃ عالیہ کو B-A کی ڈگری کے برابر قرار دیا گیا تھا

13)۔۔ ایم ایم اے ہی کے دور میں قاری حضرات کے سکیل کو 7 سے بڑھا کر 14 کر دیا گیا تھا

14)۔۔ ایم ایم اے دور میں عربی ٹیچر کی بنیادی سکیل کو 9 سے بڑھا کر 15 کر دیا گیا تھا

15)۔۔مشرف دور میں جب تحفظ حقوق نسواں کے نام سے فحاشی اور عریانی کو فروغ دینے والا بل پارلمنٹ میں پیش کیا گیا تو مولانا فضل الرحمن صاحب نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پاؤں تلے روندا تھا

16)۔۔موجودہ قانون ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی شقیں ختم کرنے کیلئے این جی اوز خفیہ طریقے سے ختم کرنا چاہتی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن صاحب کی کوششوں سے اس قانون کو 24 گھنٹے کے اندر اندر بحال کر دیا گیا

من_قول

*حقیقت تو یہی ہے مضبوط چوکھٹ یہی شوہر ہیں**ایک پرانے اور بوسیده مکان میں ایک غریب مزدور رہتا تھا،**مکان کیا تھا، بس آثار...
08/05/2023

*حقیقت تو یہی ہے مضبوط چوکھٹ یہی شوہر ہیں*

*ایک پرانے اور بوسیده مکان میں ایک غریب مزدور رہتا تھا،*

*مکان کیا تھا، بس آثار قدیمہ کا کھنڈر ہی تھا.*

*غریب مزدور جب سرشام گھر لوٹتا اس کی بیوی معصومیت سے کہتی: اب تو گھر کا دروازه لگوادیں، کب تک اس لٹکے پردے کے پیچھے رہنا پڑے گا،*

*اور ہاں! اب تو پرده بھی پرانا ہو کر پھٹ گیا ہے. مجھے خوف ہے کہیں چور ہی گھر میں نہ گھس جائے"*
*شوهر مسکراتے ہوئے جواب دیتا :*

*میرے ہوتے ہوئے بھلا تمہیں کیا خوف؟ فکر نہ کرو میں ہوں نا تمہاری چوکھٹ*
*غرض کئی سال اس طرح کے بحث و مباحثے میں گزر گئے،*

*ایک دن بیوی نے انتہائی اصرار کیا کہ گھر کا دروازه لگوادو.*

*بالآخر شوہر کو ہار ماننا پڑی اور اس نے ایک اچھا سا دروازه لگوا دیا. اب بیوی کا خوف کم ہوا اور شوہر کے مزدوری پر جانے کے بعد گھر میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگی.*

*ابھی کچھ سال گزرے تھے کہ اچانک شوہر کا انتقال ہوگیا. اور گھر کا چراغ بجھ گیا، عورت گھر کا دروازه بند کئے پورا دن کمرے میں بیٹھی رہتی،*

*ایک رات اچانک چور دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوگیا، اس کے کودنے کی آواز پر عورت کی آنکھ کھل گئی، اس نے شور مچایا. محلے کے لوگ آگئے، اور چور کو پکڑلیا. جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ وه چور پڑوسی ہے.*

*اس وقت عورت کو احساس ہوا کہ چور کے آنے میں اصل رکاوٹ دروازه نہیں میرا شوہر تھا.*

*اس چوکھٹ سے زیاده مضبوط وه چوکھٹ (شوهر) تھی.*

*شوہر میں لاکھ عیب ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ مضبوط چوکھٹ یہی شوہر ہیں،*

*دعا ہے اللہ رب العزت ہماری تمام مسلمان عورتوں کو شوہر کی قدر و منزلت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں
*آمین یارب العالمین🤲🤲....*

*پہلے انسان یا مسلمان؟ : عقیدے کا ایک بنیادی سبق*۔"ہم پہلے انسان (ھیومن) ہیں اور پھر مسلمان، ھندو یا عیسائی وغیرہ"۔ یہ س...
08/05/2023

*پہلے انسان یا مسلمان؟ : عقیدے کا ایک بنیادی سبق*
۔
"ہم پہلے انسان (ھیومن) ہیں اور پھر مسلمان، ھندو یا عیسائی وغیرہ"۔ یہ سیکولروں کی عوام الناس کو پھانسنے کی ایک دیرینہ خوشنما و اہم دلیل ہے۔ اس دلیل کی اہمیت یہ ہے کہ سیکولرزم اس بات پر نہایت شدومد سے زور دیتی ہے کہ ایک عادلانہ معاشرتی تشکیل کے لئے ہمیں انسانیت کی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی خاص مذہب، رنگ یا نسل وغیرہ کی بنیاد پر، یعنی معاشروں کی بنیاد ایسی قدر پر استوار ہونی چاہئے جو ہم سب میں مشترک ہے اور وہ اعلی ترین اور بنیادی قدر مشترک شے اس کے نزدیک ’انسانیت ‘ کے سواء کچھ نہیں ہوسکتی۔ اپنے اس دعوے ہی کی معقولیت ثابت کرنے کے لئے یہ لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’آیا پہلے اور اصلاً ہم انسان ہیں یا مسلمان؟‘ اس کے جواب میں ایک مرتبہ جب یہ مان لیا کہ سب کی بنیادی و اصلی شناخت مسلمان وغیرہ ہونا نہیں بلکہ یہ تو ثانوی شناختیں ہیں تو یہی وہ تصور ہے جسکے ذریعے سیکولرزم مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ بنا ڈالتی ہے کیونکہ انسانیت کو اصل قرار دینے کے بعد زیادہ معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ اجتماعی نظام کی بنیاد ایسی شے پر قائم کی جائے جو سب کی اصل اور سب میں مشترک ہو تاکہ زیادہ وسیع النظر معاشرہ وجود میں آسکےوغیرہ۔ اسی فکر کے تحت ہم اس قسم کے جملے سنتے ہیں کہ ’ ہمیں انسانیت کے پیمانے پر سوچنے کی ضرورت ہے‘، ’سب کے نظریات و خیالات کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے کیونکہ سب لوگ انسان ہیں‘، فلاں برا عمل مذہب تو بعد کی بات انسانیت کی سطح پر بھی برا ہے'، 'فلاں چیز انسانی اخلاقیات کی سطح کی ہے اور فلاں مذھبی اخلاقیات کا معاملہ ہے' وغیرہ ۔ حیرت انگیز اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مفکرین جب سیکولرحضرات سے گفتگو فرماتے ہیں تو انسانیت کی بنیاد پر اپنے دلائل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسکی وجہ سے یا تو انہیں دوران گفتگو پے درپے شکست ہوتی چلی جاتی ہے اور یا وہ کمزور دلائل اور تاویلات کا سہارا لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ در حقیقت انسانیت پرستی (ہیومن ازم) کو رد کئے بغیر مذہب کو اجتماعی زندگی میں شامل کرنے کی کوئی معقول علمی دلیل فراہم کرنا ممکن ہے ہی نہیں۔

• اصلا مسلمان ہونے کا مطلب
آئیے ایک مرتبہ پھر اس سوال پر غور کریں کہ ’آیا پہلے اور اصلاً میں انسان ہوں یا مسلمان؟‘۔ اس سوال کا واضح اور قطعی جواب یہ ہے کہ "میری حقیقت اور اصل مسلمان (بمعنی عبد ) ہونا ہے جبکہ انسان ہونا محض ایک اتفاق اور میری مسلمانیت (عبدیت) کے اظہار کا ذریعہ ہے" ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ میری اصل عبد یعنی اللہ تعالی کی مخلوق ہونا ہے جبکہ میری انسانیت ایک حادثہ اور اتفاقی امر ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے یہ سوال اٹھائیں کہ اگر میں انسان نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ ایک صورت یہ ہے کہ میں جن یا فرشتہ ہوتا، دوسری صورت یہ ہے کہ میں حیوانات، جمادات یا نباتات کی اجناس سے تعلق رکھتا۔ مگر میں کچھ بھی ہوتا ہر حال میں مخلوق ہوتا، یعنی اپنے وجود کی ہر ممکنہ صورت میں میری اصل مخلوق (عبد) ہونا ہی ہوتی ، یہ اور بات ہے کہ میری عبدیت کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا۔ مثلاً اگر میں پودا ہوتا تو میری عبدیت کا اظہار پودا ہونے میں ہوتی ، اگر میں فرشتہ ہوتا تو یہ ملکوتیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ بنتی اور جب میں انسان ہوں تو میری انسانیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ اس کائنات میں میرے وجود کا ایسا کوئی امکان نہیں جہاں میں اصلا خدا کے بندے کے ماسواء بھی کچھ اور ہوتا، میرا حال تو تبدیل ہو سکتا ہے لیکن میرا مقام بہر حال مخلوق (عبد) ہونا ہی رہیگا اور یہ بہر صورت ناقابل تبدیل ہے۔ پھر میرے وجود کی ہر حالت میرے لئے ان معنوں میں اتفاقی (contingent) ہے کہ میں اپنی کسی حالت کا خود خالق نہیں بلکہ اللہ تعالی نے جس حالت میں چا ہا مجھے میری مرضی کے بغیر تخلیق کر دیا نیزوہ اس بات پر مجبور نہ تھا کہ مجھے انسان ہی بناتا، یہ محض اس کا فضل ہے۔
پس یہ سوال کہ "اصلا مسلمان ہو یا انسان"، تو اس کا بالکل واضح جواب یہ ہے کہ میری اصل مسلمانیت (بمعنی عبدیت) ہے اور انسان اتفاقی طور پر ہوں نیز انسانیت میری مسلمانیت کے اظہار کا ذریعہ ہے، اسکے علاوہ میری انسانیت اور کچھ بھی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں میں لازما being with God ہوں، نہ کہ اس سے ماوراء کوئی ہستی۔ اپنے انسان ہونے کو ڈیفائن کرنے کا میرے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا حوالہ موجود نہیں، سوائے اس کے کہ میں خود مختاریت کا دعوی کروں۔ "میں کون ہوں"، اس سوال کا جواب میں جونہی خدا کے حوالے کے بغیر دینے کی کوشش کرتا ہوں میں لازما خود کو خدا سے ماوراء و ماقبل وجود (being without God) فرض کرلیتا ہوں، اور یہی الحاد کی بنیاد ہے۔ خدا کا وجود میرے شعور انسانیت سے ماقبل ہے، لا الہ الا اللہ اسی بات کا اقرار ہے۔
جب یہ واضح ہوچکا کہ "میری اصل انسان ہونا نہیں بلکہ خدا کا بندہ (مسلمان) ہونا ہے" تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب ایمان اور کفر کی حقیقت بھی واضح کردی جائے نیز یہ بھی کہ خدا کا بندہ ہونا کیوں کر مسلمان ہونے کے ہم معنی ہے۔ عبدیت کو مسلمانیت سے اس لئے تعبیر کیا گیا کیونکہ اصلاً و حقیقتا ہر انسان خدا کا بندہ ہی ہے، چاہے وہ اس کا اقرار کرے یا انکار، کسی انسان کا اس حقیقت سے انکار کرنا کائنات میں اس کے حقیقی مقام کو بدل نہیں سکتا۔ اگر وہ زبان و دل سے اس حقیقت کا اقرار کرلے تو مؤمن و مسلم (اپنی حقیقت اور اصل کا اقرار کرنے والا اور تابعدار ) کہلاتا ہے اور اگر انکار کرے تو کافر ۔ یعنی کافر کفر کرکے کسی نئی حقیقت کو دریافت نہیں کرتا بلکہ اپنی حقیقت کا انکار کرتا ہے، اسی لئے تو "کافر" (حقیقت کو چھپانے و جھٹلانے والا) کہلاتا ہے۔
جب یہ واضح ہوا کہ اصلا میں خدا کا بندہ ہوں تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بطور انسان میں بندہ کیسے بنوں؟ تو اس کا جواب ہے "ان الدین عند االلہ الاسلام" (یعنی اظہار بندگی کا واحد اور معتبر طریقہ تمہارے رب کے نزدیک صرف اسلام ہے)، نیز "من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ" (یعنی جس کسی نے اپنی انسانیت کے اظہار کے لئے اسلام کے علاوہ کوئی طریقہ اختیار کیا تو ایسے طریقے سے ظاہر کی گئی انسانیت رب کے یہاں مقبول نہ ہوگی)۔ چنانچہ میری انسانیت معتبر (authentic) تب ہوگی جب میں اسے بندگی کے اظہار کا ذریعہ بناؤں، اور بندگی کے اظہار کا طریقہ جاننے کا معتبر طریقہ صرف وہ پیغام ہے جسے خدا نے اپنے آخری رسولﷺ پر نازل کیا۔ اس ایک طریقے کے سواء اظہار بندگی کے سب طریقے مردود ہیں۔
پھر جب یہ واضح ہوا کہ میں خدا کا بندہ ہوں، تو خدا کا یہ بندہ میں تنہائی (پرائیویٹ لائف) میں بھی ہوں اور لوگوں سے تعلقات قائم کرنے کے بعد (پبلک لائف میں) بھی۔ یہ عقلی مخمصہ کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ تنہائی میں بطور انسان تو میں اور میری بیوی خدا کے بندے ہیں لیکن جونہی ہم تعلق قائم کرلیتے ہیں تو ہم خدا کے بندے اور اس کے حکم کی اطاعت کے پابند نہیں رہتے۔ ایسی بات صرف ایسا ہی انسان قبول کرسکتا ہے جو عقلی طور پر قلاش ہوچکا ہو۔ میں اگر واقعی خدا کا بندہ ہوں تو اپنی زندگی کی ہر حیثیت میں ہوں۔ اپنے سے باہر کسی غیر کو مخاطب کرنے کی میرے پاس اس کے سواء کوئی بنیاد و حوالہ ہی نہیں نیز نہ ہی خدا کے نازل کردہ پیغام سے باہر میرے پاس حقوق کے تعین کا کوئی ایسا دائرہ ہے کہ جس میں خود کو رکھ کر میں کسی سے ہم کلام ہوسکوں۔ میں جب بھی کسی کو خطاب کرتا ہوں تو اس بنیاد پر کرتا ہوں کہ اس بابت خدا کا حکم مجھ سے کیا تقاضا کرتا ہے، میں جب بھی کسی غیر مسلم کو خطاب کرتا ہوں تو اسی حق کی طرف دعوت دیتا ہوں نہ کہ اس سے ماوراء حقوق کی کسی تفصیلات کے فریم ورک میں ان سے مکالمہ کرتا ہوں۔ چنانچہ میں کسی غیر مسلم کا حق زندگی اس لئے نہیں مانتا کہ "ہر انسان کو بطور مجرد انسان" کچھ ایسے فطری حقوق حاصل ہیں جن کی پابندی مجھ پر لازم ہے۔ ہرگز بھی نہیں، بلکہ ایسا اس لئے مانتا ہوں کیونکہ یہ خدا کا حکم ہے اور جس کی پاسداری مجھ پر لازم ہے۔ حق کے تعین کا حق نہ تو میں اپنی ذاتی زندگی میں رکھتا ہوں اور نہ اجتماعی زندگی میں۔ "محمد رسول اللہ" کے اقرار کا یہی مطلب ہے۔

• اصلا انسان ہونے کا مطلب
اب یہ جو "مسلمانیت" کے بجائے "انسانیت" کا حوالہ دیتے ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ انکی اصل بات، جس کا خود ان میں سے بہت سوں کو بھی ادراک نہیں، آپ کے سامنے رکھ دی جائے۔ آپ ان سے پوچھئے کہ "اچھا بتاؤ مسلمان ہونے سے قبل انسان ہونے کا کیا مطلب ہے؟" دیکھئے مسلمان ہونے کا مطلب یہی ہے نا کہ "میں اصلا و حقیقتا خدا کا بندہ ہوں۔" بتائیے کیا میری اس حقیقت سے ماوراء اور ماقبل بھی میری کوئی ایسی حقیقت ہے جس کا آپ مجھ سے اقرار کروانا چاہتے ہیں؟ دراصل یہ بات کہنے والوں کی عظیم ترین اکثریت کو اس بات کا مطلب ہی معلوم نہیں ہوتا۔ "میں کون ہوں"، فی زمانہ اس کے دو غالب جواب ہیں۔ ایک یہ کہ میں خدا کا بندہ (مسلمان) ہوں، دوسرا یہ کہ میں آزاد و قائم بالذات ہوں۔ مسلمان ہونے سے قبل انسان ہونے کی دعوت کا اصل مطلب اسی بات کا اقرار کروانا ہے کہ "میں اصلا آزاد ہوں"۔ پھر یہ جو خود کو مسلمان وغیرہ سمجھا جاتا ہے تو یہ اس آزاد ھستی کے اپنے ارادے کے تحت اختیار کردہ اپنی ذات کے بارے میں کچھ تصورات ہیں جو اصل حقیقت نہیں، اصل حقیقت میرا وہ ارادہ ہے جو حقیقت تخلیق کرتا ہے ۔ میں اپنے انسان ہونے کے بارے میں مختلف بنیادی حوالے رکھ سکتا ہوں، مثلا ایک یہ کہ میں اصلا و سب سے پہلے مغل ہوں، یا یہ کہ میں اصلا پنجابی ہوں، یا یہ کہ میں اصلا پاکستانی ہوں، یا یہ کہ میں اصلا مزدور یا سرمایہ دار طبقے کا نمائندہ ہوں، یا یہ کہ میں اصلا خدا کا بندہ ہوں۔ اپنی ذات کے ادراک کے لئے میں جو بھی حوالہ اختیار کرتا ہوں، اسی کی بقا و غلبے کے لئے جدوجہد کرنے کا سب سے مقدم اخلاقی جواز رکھتا ہوں۔
اس کے جواب میں یہ آپ سے کہیں گے کہ تم اصلا یہ سب نہیں ہو، بلکہ یہ سب تو تمہاری اصل کا اظہار ہیں۔ اب آپ ان سے پوچھئے کہ بتاؤ پھر اصل میں میں کیا ہوں؟ تو یہ آپ سے کہیں گے کہ اصل میں تم ایک آزاد و خود مختار (قائم بالذات) ھستی ہو جسے یہ حق ہے کہ وہ اپنے ارادے سے خیر کو متعین کرے۔ پس مسلمان ہونا یہ اصل نہیں بلکہ صرف اپنے ارادے کے تحت ایک خیر کو ڈیفائن کرلینا ہے۔ یہ واحد خیر نہیں بلکہ خیر کے لاتعداد تصورات میں سے بس ایک ہے۔ یعنی خدا کا حوالہ چھوڑ دو، زمین پر اپنے ارادے سے بنائے ہوئے خیر کے حوالوں کو اپناؤ، اسی کے لئے جدوجہد کرو۔ یہ ہے ان کے نزدیک انسان ہونے کا اصلی معنی، جس کا یہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اقرار کروانا چاہتے ہیں۔
پس عقیدے کےجس سبق کا یہاں ذکر کیا گیا اسے خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کیونکہ جدید الحاد نے عقیدوں میں جو اجاڑ پیدا کیا ہے اس کا سبب اسی قسم کے خوشنما دعوے و اصطلاحات ہیں۔
#منقول

22/02/2023

تاسو چی سہ غواڑئ،ھغہ ہر یو سیز روپئ غواڑی
ما سرہ بچیانو نازولو! روپئ چرتہ دی؟
ربہ! دہ کعبی نا تاویدو ھم ہسی نہ کیگی
جیب کی می ستا لوئ کور لہ دہ تللو روپئ چرتہ دی.
منیر

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mufti Bilal posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share