
19/09/2025
1995 میں، میک آرتھر وھیلر نامی ایک شخص نے پِٹسبرگ (Pittsburgh) کے دو بینک لوٹنے کی کوشش کی۔ وھیلر کو پختہ یقین تھا کہ اگر وہ اپنے چہرے پر لیموں کا رس لگائے گا تو یہ اُسے سیکیورٹی کیمروں کے لیے غیر مرئی (invisible) کر دے گا۔ اُس کے ذہن میں یہ خیال اس لیے آیا کیونکہ بچپن میں اسے یہ بات معلوم ہوئی تھی کہ لیموں کے رس کو کاغذ پر لگانے سے وہ ایک طرح کی غیر مرئی سیاہی (invisible ink) کا کام کرتا ہے، جو بعد میں روشنی یا حرارت کے ذریعے ظاہر ہو جاتی ہے۔
وھیلر نے اپنے اس غیر منطقی نظریے کو پرکھنے کے لیے چہرے پر لیموں کا رس لگایا اور پھر اپنی تصویر کھینچی۔ بدقسمتی سے پولرائیڈ کیمرے میں ایک تکنیکی خرابی کی وجہ سے اُس کا چہرہ تصویر میں صاف نظر نہیں آیا۔ اس سے اُس نے یہ نتیجہ نکالا کہ اُس کا “فارمولہ” درست ہے۔ یقین میں آ کر وہ بینک میں بغیر کسی ماسک یا نقاب کے داخل ہوا، براہِ راست کیمروں کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرایا اور ڈاکہ ڈالا۔ لیکن چند گھنٹوں کے اندر ہی پولیس نے اُسے شناخت کر کے گرفتار کر لیا۔
اس واقعے نے ماہرینِ نفسیات ڈیوڈ ڈننگ (David Dunning) اور جسٹن کروگر (Justin Kruger) کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ انہوں نے سوچا کہ آخر ایک شخص اتنی کمزور دلیل پر اتنا مضبوط یقین کیسے کر سکتا ہے؟ اس کے نتیجے میں انہوں نے ایک مفصل تحقیق کی جس سے یہ ثابت ہوا کہ اکثر وہ لوگ جو کسی میدان میں مہارت نہیں رکھتے، اپنی قابلیت کو ضرورت سے زیادہ سمجھتے ہیں اور دوسروں کو کمتر جانتے ہیں۔
اس تحقیق کی بنیاد پر جو تصور سامنے آیا، وہ دنیا بھر میں “ڈننگ-کروگر ایفیکٹ” (Dunning-Kruger Effect) کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ایک ادراکی تعصب (cognitive bias) ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کم جاننے والا شخص اپنی کم علمی سے واقف نہیں ہوتا بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ زیادہ جانتا ہے۔ نتیجتاً وہ غلط فیصلے کرتا ہے، اپنی ناکامیوں کو نہیں پہچان پاتا اور دوسروں کو کمتر سمجھتا ہے۔
آج ڈننگ-کروگر ایفیکٹ پر نفسیات، تعلیم، قیادت اور کاروبار کے شعبوں میں دنیا بھر میں تحقیق جاری ہے۔ یہ تصور اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کیوں بعض لوگ بلاوجہ پراعتماد ہوتے ہیں جبکہ اصل ماہرین اکثر زیادہ محتاط اور شکی رویہ اپناتے ہیں۔