Kotla musa khan ka shahezada

Kotla musa khan ka shahezada This page is video content viral

اندھیرے کا دوستپرانے جنگل کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی بستی تھی — داروز۔ اس بستی کے لوگ ہمیشہ جنگل سے ڈرتے تھے، خاص طور ...
17/04/2025

اندھیرے کا دوست

پرانے جنگل کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی بستی تھی — داروز۔ اس بستی کے لوگ ہمیشہ جنگل سے ڈرتے تھے، خاص طور پر اُس اندھیری گھاٹی سے جو بستی کے قریب تھی۔ لوگوں کا ماننا تھا کہ وہاں ایک بھیڑیا رہتا ہے… لیکن عام نہیں — ایک آسیبی بھیڑیا جو راتوں میں انسانی آواز میں بولتا ہے، اور کبھی کبھی شکل بھی بدل لیتا ہے۔

بچوں کو منع کیا جاتا کہ اندھیری گھاٹی کی طرف نہ جائیں۔ مگر ایک دن، بستی کا ایک چودہ سالہ لڑکا رفیق، جنگل میں لکڑیاں کاٹتے ہوئے گھاٹی کے اندر جا پہنچا۔ سورج ڈھل گیا، رفیق واپس نہ آیا۔ سب نے سمجھا، وہ بھیڑیا اسے لے گیا۔

مگر اگلی صبح، رفیق واپس آیا — نہ صرف زندہ، بلکہ بالکل ٹھیک۔ مگر اُس کی آنکھوں میں کچھ عجیب تھا۔ وہ خاموش تھا، اور رات کی باتوں پر کچھ نہ بولا۔ اُس نے بس اتنا کہا:

"مجھے ایک دوست ملا ہے… اندھیرے میں۔"

گاؤں والوں نے بات کو مذاق سمجھا، مگر رفیق روز شام کو غائب ہونے لگا۔ کبھی کسی نے دیکھا کہ وہ گھاٹی کی طرف جا رہا ہے۔ جب ایک دن اُس کے چھوٹے بھائی بلال نے اُس کا پیچھا کیا، تو جو منظر دیکھا، وہ ناقابلِ یقین تھا۔

رفیق ایک بڑے سیاہ بھیڑیے کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ نہ صرف کھیل، بلکہ وہ بھیڑیا رفیق کے اشاروں پر چلتا تھا، جیسے اُس کا پالتو ہو۔ بلال ڈر گیا، مگر رفیق نے کہا:

"یہ میرا دوست ہے، اور میرے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔"

لیکن پھر گاؤں میں عجیب و غریب واقعات ہونے لگے — مویشی غائب، درختوں پر خون کے دھبے، اور لوگوں کے خوابوں میں ایک بولتا ہوا بھیڑیا۔ کچھ لوگ بیمار ہونے لگے، اور راتوں کو چیخیں سنائی دیتیں۔

پھر ایک رات، رفیق کے چچا، جو گاؤں کے مولوی بھی تھے، نے سب کو جمع کیا اور کہا:

"یہ بھیڑیا شیطان ہے۔ جو اس کی دوستی میں گیا، وہ خود بھی بدل جائے گا۔"

لوگوں نے فیصلہ کیا کہ گھاٹی پر جا کر اُس بھیڑیے کو مار دیں۔ مگر رفیق نے اُن کے راستے میں آ کر کہا:

"اگر تم نے اُسے کچھ کہا، تو وہ سب کو ختم کر دے گا!"

سب لوگ چونک گئے۔ وہی معصوم رفیق اب آنکھوں میں ایسی روشنی لیے کھڑا تھا جیسے… جیسے وہ خود بھی انسان نہیں رہا۔

اس رات گاؤں والوں نے دعائیں پڑھیں، قرآن پاک کی تلاوت کی، اور گھاٹی کو روشنیوں سے بھر دیا۔ جیسے ہی اذان کی آواز آئی، ایک بھیانک چیخ گونجی — بھیڑیا نظر آیا، مگر اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ وہ بھاگ گیا، اور اس کے ساتھ ہی رفیق بھی بے ہوش ہو کر گر پڑا۔

کئی دن بعد، رفیق کو ہوش آیا۔ اب وہ خاموش نہیں تھا۔ اُس نے بتایا:

"وہ بھیڑیا ایک سایہ تھا… ایک جنّ۔ وہ میرا دوست نہیں تھا، وہ مجھ سے طاقت لیتا تھا… میری روح سے۔"
---
اندھیرے کا دوست (آخری حصہ)

رفیق نے سب کچھ کھل کر بتایا۔ وہ جنّ، جو بھیڑیا بن کر آیا تھا، اُس نے رفیق کو ایک دن جنگل میں بچایا نہیں تھا… بلکہ ایک سودا کیا تھا — "دوستی کے بدلے طاقت"۔

شروع میں رفیق کو محسوس ہوا کہ وہ واقعی اس کا خیرخواہ ہے۔ بھیڑیا اُس کی بات سنتا، اُس کی مدد کرتا، اُسے خطرناک جانوروں سے بچاتا… لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، اُس نے رفیق سے مانگنا شروع کر دیا — غصہ، تنہائی، اور سب سے بڑھ کر… اُس کی روشنی۔

"وہ میری روح سے روشنی چوستا تھا… اور میں دھیرے دھیرے اندھیرے کا حصہ بنتا جا رہا تھا۔"

مولوی صاحب نے فیصلہ کیا کہ رفیق کو بچانے کے لیے ایک خاص عمل کیا جائے۔ ایک پاک رات کو، جب چاند آدھا ہو، سب لوگ جنگل کے کنارے جمع ہوئے۔ رفیق کے گرد قرآن کی آیات پڑھتے ہوئے دائرہ بنایا گیا۔ اور جیسے ہی عمل شروع ہوا… گھاٹی میں ہلچل مچ گئی۔

درخت ہلنے لگے، ہوائیں چلنے لگیں، اور دور سے وہی سیاہ بھیڑیا غرایا۔ وہ آیا، جیسے روشنی میں جلتا ہوا سایہ ہو — اُس نے رفیق پر حملہ کرنا چاہا، مگر دائرے سے ٹکرا کر پیچھے گر گیا۔

پھر اُس نے انسانی آواز میں کہا:

"رفیق میرا ہے! میں نے اسے اندھیرے سے نکالا تھا!"

رفیق نے دھیرے سے کہا:

"نہیں… تُو نے مجھے اندھیرے میں دھکیلا تھا۔ اب میں واپس روشنی میں جانا چاہتا ہوں۔"

یہ کہتے ہی رفیق نے ہاتھ جوڑ کر دعا کی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہے، اور سب نے دیکھا — بھیڑیے کی شکل بدلنے لگی، جیسے وہ جل رہا ہو… یا تحلیل ہو رہا ہو۔

آخرکار، ایک تیز چیخ کے ساتھ وہ سایہ ہوا میں بکھر گیا۔

رفیق بے ہوش ہو کر گرا، مگر اس بار، جب وہ جاگا — اُس کی آنکھوں میں روشنی تھی۔ وہی روشنی جو پہلے کھو چکی تھی۔

---

مہینوں بعد…

گھاٹی کے پاس اب کوئی نہیں جاتا۔ رفیق معمول کی زندگی میں واپس آ گیا، مگر اُس کی طبیعت میں اب ایک گہری سنجیدگی تھی۔ وہ دوسروں کو سمجھاتا:

"ہر طاقت اچھی نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ جو چیز ہماری حفاظت کرتی دکھتی ہے، وہ اصل میں ہمیں کھا رہی ہوتی ہے۔"

رفیق اب بچوں کو کہانیاں سناتا ہے — اندھیرے کی، دوستی کی… اور اُس لمحے کی، جب اُس نے سچی بہادری دکھائی — اندھیرے سے نہیں، بلکہ خود سے لڑ کر۔

---

اختتام
















ایک گاؤں میں ایک بوڑھا کسان رہتا تھا۔ اس کے پاس ایک خوبصورت گھوڑا تھا جس سے وہ کھیتوں میں کام لیتا تھا۔ ایک دن اس کا گھو...
13/04/2025

ایک گاؤں میں ایک بوڑھا کسان رہتا تھا۔ اس کے پاس ایک خوبصورت گھوڑا تھا جس سے وہ کھیتوں میں کام لیتا تھا۔ ایک دن اس کا گھوڑا بھاگ گیا۔ گاؤں والے آئے اور کہنے لگے:
"کتنی بدقسمتی ہے تمھاری!"
بوڑھے کسان نے مسکرا کر کہا:
"کیا معلوم یہ بدقسمتی ہے یا خوش قسمتی؟"
چند دن بعد، وہی گھوڑا واپس آیا، اور ساتھ میں تین جنگلی گھوڑے بھی لے آیا۔
گاؤں والے حیران ہو کر کہنے لگے:
"کتنی خوش نصیبی ہے تمھاری!"
بوڑھا کسان پھر مسکرایا:
"کیا معلوم یہ خوش نصیبی ہے یا بدقسمتی؟"
اگلے دن کسان کا بیٹا ان میں سے ایک جنگلی گھوڑے کو سدھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ گر کر اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
گاؤں والے پھر آئے:
"کتنی بدقسمتی ہے!"
کسان نے پھر وہی جواب دیا:
"کیا معلوم؟"
کچھ ہفتے بعد بادشاہ نے جنگ چھیڑ دی اور گاؤں کے تمام نوجوانوں کو فوج میں لے جایا گیا۔ مگر کسان کا بیٹا چونکہ زخمی تھا، اس لیے بچ گیا۔
اب گاؤں والے بولے:
"واقعی! تمھاری قسمت تو بہت اچھی نکلی!"
بوڑھا کسان صرف مسکرا دیا۔
🌟 سبق:
زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ فوراً اچھا یا برا نظر آ سکتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ پتہ چلتا ہے کہ ہر واقعہ کسی بڑی حکمت کا حصہ ہوتا ہے۔ صبر، شکر اور امید کو کبھی نہ چھوڑیں

11/04/2025
ہندوستان کی تقسیم کے پیچھے برطانیہ کا وہی مقصد تھا جو سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد عربوں کو کئی الگ الگ ریاستوں میں تقس...
10/04/2025

ہندوستان کی تقسیم کے پیچھے برطانیہ کا وہی مقصد تھا جو سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد عربوں کو کئی الگ الگ ریاستوں میں تقسیم کا تھا یعنی مسلمانوں کی بڑی تعداد کسی ایک ملک یا سلطنت میں اکٹھی نہ ہو جائے بلکہ ان کو جتنا ہو سکے تقسیم رکھا جائے ۔
(یہ تصویر 1947ء ہجرت کی ہے)

10/04/2025

یہ وہ پتھروں کا حجم ہے جو مصر کے عظیم اہرام کی تعمیر میں استعمال ہوا تھا۔ کل 25 لاکھ پتھر کے بلاکس استعمال کیے گئے تھے، ...
09/04/2025

یہ وہ پتھروں کا حجم ہے جو مصر کے عظیم اہرام کی تعمیر میں استعمال ہوا تھا۔ کل 25 لاکھ پتھر کے بلاکس استعمال کیے گئے تھے، یعنی 20 سال کے عرصے میں ہر 9 سیکنڈ کے اندر ایک بلاک کو نکالنا، سینکڑوں کلومیٹر تک منتقل کرنا، ایک دریا عبور کرنا، اور پھر اسے اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھنا پڑتا تھا، وہ بھی دن رات بغیر کسی وقفے کے!

اہرام کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے 150 میٹر کی بلندی تک پہنچنے کے لیے تقریباً 3 کلومیٹر طویل ڈھلوان بنانی پڑتی تاکہ تعمیر میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔

کچھ موجودہ انجینئرز کا کہنا ہے کہ یہ کام جدید بھاری مشینری اور طریقوں کے ساتھ بھی ممکن نہیں ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قدیم دور میں ایک زبردست اور ترقی یافتہ انجینئرنگ کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ یہ ڈھانچہ تقریباً 5000 سال پرانا ہے اور آج بھی اپنی عظمت کا گواہ ہے۔

سقراط نے ایک بار کہا تھا۔"اگر کوئی گدھا مجھے لات مارتا ہے تو کیا میں اس پر مقدمہ کروں گا، شکایت کروں گا یا اسے واپس لات ...
09/04/2025

سقراط نے ایک بار کہا تھا۔
"اگر کوئی گدھا مجھے لات مارتا ہے تو کیا میں اس پر مقدمہ کروں گا، شکایت کروں گا یا اسے واپس لات ماروں گا؟"

بات یہ نہیں کہ ہر مباحثہ جیتا جائے یا ہر دلیل میں کامیابی حاصل کی جائے، بلکہ یہ ہے کہ اپنی توانائی ان لوگوں پر صرف کی جائے جو اس کے مستحق ہوں۔
جہالت چیختی ہے، جبکہ عقل خاموش رہتی ہے۔ جب کسی کے پاس دینے کے لیے توہین اور شور شرابے کے سوا کچھ نہ ہو، تو سب سے طاقتور جواب خاموشی ہے۔

کسی ایسے شخص کی سطح پر مت گریں جو محض تنازعات کے لیے کوشاں ہو۔
سچی ذہانت کو خود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ اپنی روشنی سے خود بخود نمایاں ہو جاتی ہے۔

ایک عرب قبیلے کے شیخ کو جب معلوم ہوا کہ اس کے جانوروں میں سے ایک مرغا غائب ہے تو اس نے فوری طور پر اپنے ملازم گمشدہ مرغے...
08/04/2025

ایک عرب قبیلے کے شیخ کو جب معلوم ہوا کہ اس کے جانوروں میں سے ایک مرغا غائب ہے تو اس نے فوری طور پر اپنے ملازم گمشدہ مرغے کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑائے‘ خود بھی ٹیلوں پر چڑھ کر دیکھا لیکن مرغا نہ ملا۔ رات گئے تک جاری رہنے والی یہ تلاش ختم ہوگئی ‘ کسی ملازم نے کہا‘ کوئی بھیڑیا مرغے کو لے گیا ہوگا۔ اس پر شیخ نے مرغے کے پروں کا مطالبہ کرڈالا تو ملازم اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ اگلے روز شیخ نے اونٹ ذبح کروائے اور تمام قبیلے والوں کو کھانے سے پہلے مرغے کی تلاش میں مدد کی درخواست کی۔ سب لوگ حیرت زدہ تھے کہ اتنا امیر آدمی اور ایک مرغے کے لیے بے چین۔ قبیلے والوں نے شیخ کی درخواست سنی اَن سنی کی اور کھانا کھا کر چلے گئے۔ چند دن بعد قبیلے میں سے کسی کی بکری گم ہوئی تو شیخ نے ایک بار پھر اونٹ ذبح کیا‘ قبیلے والوں کو بلایا اور مرغے کی تلاش میں مدد کی درخواست کی۔ اس بار قبیلے والوں میں سے چند ایک نے تو اسے پاگل پن سے تعبیر کیا کہ معاملہ بکری کا ہے اوربات مرغا تلاش کرنے کی ہو رہی ہے۔ خود شیخ کے بیٹوں نے گھر آئے مہمانوں سے والد کے طرزِعمل کی معذرت کی اور بات رفع دفع ہوگئی۔ کچھ عرصہ گزرا کہ ایک اونٹ غائب ہوگیا۔ شیخ نے پھر وہی کیا‘ اونٹ ذبح ہوا‘ دعوت ہوئی اوراور گمشدہ مرغے کو ڈھونڈنے کی ترغیب دی۔ اب کی بار تو لوگوں نے دھمکی ہی دے ڈالی کہ اگر شیخ نے پاگل پن کی یہ باتیں جاری رکھیں تو سرداری سے معزول کردیاجائے گا۔ شیخ نے یہ ماحول دیکھا تو چپ سادھ لی۔ مہینہ بھر گزرا ہوگا کہ قبیلے کی ایک نوجوان لڑکی غائب ہوگئی۔لڑکی کا غائب ہونا قبیلے والوں کی غیرت پر تازیانہ تھا۔ اب کی بار شیخ نے پھر وہی کیا۔ لوگ اکٹھے ہوئے تو انہیں اپنے مرغے کی تلاش پر قائل کرنے لگا۔یہ سن کر لوگوں نے اسے خوب برا بھلا کہا اور لڑکی کی تلاش میں نکل گئے۔ کھوجیوں کی خدمات حاصل کی گئیں‘ کنوؤں میں جھانکا گیا‘ نوجوانوں کی ٹولیاں دور دور تک نکل گئیں ۔ آخرکار کسی نے خبر دی کہ فلاں پہاڑ کے ایک غار میں کچھ لوگ پوشیدہ طور پر رہ رہے ہیں۔ قبیلے والوں نے اس غار پر چھاپہ مارا تومعلوم ہوا کہ یہ ڈاکوؤں کا بسیرا ہے اور انہی نے لڑکی اغوا کی تھی۔ اس غار کے قریب سے ہی گمشدہ اونٹ‘ بکری اور شیخ کے مرغے کی باقیات بھی مل گئیں۔ لڑکی مل جانے کے بعد لوگوں کو خیال آیا کہ دراصل شیخ اپنے مرغے کی بازیابی کے لیے نہیں بلکہ انہیں کسی بڑے نقصان سے بچانے کے لیے ان سے مدد مانگ رہا تھا۔

اس حکایت کا پس منظر تو یقینا عرب ہے لیکن اس کا سبق عالمگیر ہے‘ جو اسی طرح کی سینکڑوں کہانیوں اور ضرب الامثال میں لپیٹ کرپچھلی نسل نے اگلی نسل تک پہنچا دیا ہے‘ یعنی جب تک پہلی غلطی کو درست نہیں کیا جاتا‘ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ تباہی کسی ایک غلطی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ اپنی غلطی کو حکمت عملی سمجھ لینے سے ہوتی ہے ۔

ایک بار پھر طیبہ سے فلسطین میں آ کہ راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا🥹😭
07/04/2025

ایک بار پھر طیبہ سے فلسطین میں آ
کہ راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا🥹😭

ابن سینانے ایک تجربہ کیا۔اور دو میمنوں کو پنجرے میں رکھا۔میمنے ایک ہی عمر ، وزن ، ایک ہی نسل کے تھے اور دونوں کوایک ہی ق...
23/03/2025

ابن سینانے ایک تجربہ کیا۔اور دو میمنوں کو پنجرے میں رکھا۔
میمنے ایک ہی عمر ، وزن ، ایک ہی نسل کے تھے اور دونوں کوایک ہی قسم کا چارہ کھلایا گیا۔تمام حالات برابر رکھے۔
ابن سینانے میمنوں کے پنجروں کی ایک طرف ایک اور پنجرارکھا اور اس پنجرے میں ایک بھیڑیا رکھا اور میمنوں میں سے صرف ایک میمنااُس بھیڑیے کو دیکھ سکتا تھا۔
کئی مہینوں بعد ، میمنا جو بھیڑیا کو دیکھتا ہے مر جاتا ہے کیونکہ وہ بے چین ، خوفزدہ اور کمزور ہوتا ہے۔ اگرچہ بھیڑئے نے میمنے کو کچھ نہیں کیا ، لیکن میمنہ اس خوف اور دباؤ کی وجہ سے مر گیا جو اس نے محسوس کیا۔
جبکہ دوسرا میمنا ، جو بھیڑیا و نہیں دیکھ سکتا تھا ، اچھی طرح سے کھاتا تھا اور اُسکا وزن بھی بڑھا گیا کیونکہ وہ کافی پرامن رہا۔
اس تجربے میں ابن سینا نے صحت اور جسم پر ذہنی اثرات کے مثبت اور منفی اثرات کا مشاہدہ کیا۔ غیر ضروری خوف ، فکر ، اضطراب اور تناؤ انسانی جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اگر آپ کو زندگی کی مشکلات کاسامنا کرکے آگے بڑھنا ہے تو اپنی راہ میں آنے والے ہر خوف کو نظر انداز کر نا سیکھیں پھر ہی آپ کامیابی کی سیڑھیوں پہ چڑھ سکیں گے۔

❣️S 💕
🫀🌹❣️🌹🩸❣️🌹🫀💕

Address

Islamabad

Telephone

+923016875662

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kotla musa khan ka shahezada posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Kotla musa khan ka shahezada:

Share