
17/04/2025
اندھیرے کا دوست
پرانے جنگل کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی بستی تھی — داروز۔ اس بستی کے لوگ ہمیشہ جنگل سے ڈرتے تھے، خاص طور پر اُس اندھیری گھاٹی سے جو بستی کے قریب تھی۔ لوگوں کا ماننا تھا کہ وہاں ایک بھیڑیا رہتا ہے… لیکن عام نہیں — ایک آسیبی بھیڑیا جو راتوں میں انسانی آواز میں بولتا ہے، اور کبھی کبھی شکل بھی بدل لیتا ہے۔
بچوں کو منع کیا جاتا کہ اندھیری گھاٹی کی طرف نہ جائیں۔ مگر ایک دن، بستی کا ایک چودہ سالہ لڑکا رفیق، جنگل میں لکڑیاں کاٹتے ہوئے گھاٹی کے اندر جا پہنچا۔ سورج ڈھل گیا، رفیق واپس نہ آیا۔ سب نے سمجھا، وہ بھیڑیا اسے لے گیا۔
مگر اگلی صبح، رفیق واپس آیا — نہ صرف زندہ، بلکہ بالکل ٹھیک۔ مگر اُس کی آنکھوں میں کچھ عجیب تھا۔ وہ خاموش تھا، اور رات کی باتوں پر کچھ نہ بولا۔ اُس نے بس اتنا کہا:
"مجھے ایک دوست ملا ہے… اندھیرے میں۔"
گاؤں والوں نے بات کو مذاق سمجھا، مگر رفیق روز شام کو غائب ہونے لگا۔ کبھی کسی نے دیکھا کہ وہ گھاٹی کی طرف جا رہا ہے۔ جب ایک دن اُس کے چھوٹے بھائی بلال نے اُس کا پیچھا کیا، تو جو منظر دیکھا، وہ ناقابلِ یقین تھا۔
رفیق ایک بڑے سیاہ بھیڑیے کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ نہ صرف کھیل، بلکہ وہ بھیڑیا رفیق کے اشاروں پر چلتا تھا، جیسے اُس کا پالتو ہو۔ بلال ڈر گیا، مگر رفیق نے کہا:
"یہ میرا دوست ہے، اور میرے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔"
لیکن پھر گاؤں میں عجیب و غریب واقعات ہونے لگے — مویشی غائب، درختوں پر خون کے دھبے، اور لوگوں کے خوابوں میں ایک بولتا ہوا بھیڑیا۔ کچھ لوگ بیمار ہونے لگے، اور راتوں کو چیخیں سنائی دیتیں۔
پھر ایک رات، رفیق کے چچا، جو گاؤں کے مولوی بھی تھے، نے سب کو جمع کیا اور کہا:
"یہ بھیڑیا شیطان ہے۔ جو اس کی دوستی میں گیا، وہ خود بھی بدل جائے گا۔"
لوگوں نے فیصلہ کیا کہ گھاٹی پر جا کر اُس بھیڑیے کو مار دیں۔ مگر رفیق نے اُن کے راستے میں آ کر کہا:
"اگر تم نے اُسے کچھ کہا، تو وہ سب کو ختم کر دے گا!"
سب لوگ چونک گئے۔ وہی معصوم رفیق اب آنکھوں میں ایسی روشنی لیے کھڑا تھا جیسے… جیسے وہ خود بھی انسان نہیں رہا۔
اس رات گاؤں والوں نے دعائیں پڑھیں، قرآن پاک کی تلاوت کی، اور گھاٹی کو روشنیوں سے بھر دیا۔ جیسے ہی اذان کی آواز آئی، ایک بھیانک چیخ گونجی — بھیڑیا نظر آیا، مگر اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ وہ بھاگ گیا، اور اس کے ساتھ ہی رفیق بھی بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
کئی دن بعد، رفیق کو ہوش آیا۔ اب وہ خاموش نہیں تھا۔ اُس نے بتایا:
"وہ بھیڑیا ایک سایہ تھا… ایک جنّ۔ وہ میرا دوست نہیں تھا، وہ مجھ سے طاقت لیتا تھا… میری روح سے۔"
---
اندھیرے کا دوست (آخری حصہ)
رفیق نے سب کچھ کھل کر بتایا۔ وہ جنّ، جو بھیڑیا بن کر آیا تھا، اُس نے رفیق کو ایک دن جنگل میں بچایا نہیں تھا… بلکہ ایک سودا کیا تھا — "دوستی کے بدلے طاقت"۔
شروع میں رفیق کو محسوس ہوا کہ وہ واقعی اس کا خیرخواہ ہے۔ بھیڑیا اُس کی بات سنتا، اُس کی مدد کرتا، اُسے خطرناک جانوروں سے بچاتا… لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، اُس نے رفیق سے مانگنا شروع کر دیا — غصہ، تنہائی، اور سب سے بڑھ کر… اُس کی روشنی۔
"وہ میری روح سے روشنی چوستا تھا… اور میں دھیرے دھیرے اندھیرے کا حصہ بنتا جا رہا تھا۔"
مولوی صاحب نے فیصلہ کیا کہ رفیق کو بچانے کے لیے ایک خاص عمل کیا جائے۔ ایک پاک رات کو، جب چاند آدھا ہو، سب لوگ جنگل کے کنارے جمع ہوئے۔ رفیق کے گرد قرآن کی آیات پڑھتے ہوئے دائرہ بنایا گیا۔ اور جیسے ہی عمل شروع ہوا… گھاٹی میں ہلچل مچ گئی۔
درخت ہلنے لگے، ہوائیں چلنے لگیں، اور دور سے وہی سیاہ بھیڑیا غرایا۔ وہ آیا، جیسے روشنی میں جلتا ہوا سایہ ہو — اُس نے رفیق پر حملہ کرنا چاہا، مگر دائرے سے ٹکرا کر پیچھے گر گیا۔
پھر اُس نے انسانی آواز میں کہا:
"رفیق میرا ہے! میں نے اسے اندھیرے سے نکالا تھا!"
رفیق نے دھیرے سے کہا:
"نہیں… تُو نے مجھے اندھیرے میں دھکیلا تھا۔ اب میں واپس روشنی میں جانا چاہتا ہوں۔"
یہ کہتے ہی رفیق نے ہاتھ جوڑ کر دعا کی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہے، اور سب نے دیکھا — بھیڑیے کی شکل بدلنے لگی، جیسے وہ جل رہا ہو… یا تحلیل ہو رہا ہو۔
آخرکار، ایک تیز چیخ کے ساتھ وہ سایہ ہوا میں بکھر گیا۔
رفیق بے ہوش ہو کر گرا، مگر اس بار، جب وہ جاگا — اُس کی آنکھوں میں روشنی تھی۔ وہی روشنی جو پہلے کھو چکی تھی۔
---
مہینوں بعد…
گھاٹی کے پاس اب کوئی نہیں جاتا۔ رفیق معمول کی زندگی میں واپس آ گیا، مگر اُس کی طبیعت میں اب ایک گہری سنجیدگی تھی۔ وہ دوسروں کو سمجھاتا:
"ہر طاقت اچھی نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ جو چیز ہماری حفاظت کرتی دکھتی ہے، وہ اصل میں ہمیں کھا رہی ہوتی ہے۔"
رفیق اب بچوں کو کہانیاں سناتا ہے — اندھیرے کی، دوستی کی… اور اُس لمحے کی، جب اُس نے سچی بہادری دکھائی — اندھیرے سے نہیں، بلکہ خود سے لڑ کر۔
---
اختتام