09/08/2025
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی کہانی کے آخری اور سب سے شاندار صفحے پر پہنچ گئے ہوں — بلتت قلعے کی چھت پر رکھا وہ شاہی تخت، جو صدیوں سے ہوا اور دھوپ کے سنگ بیٹھا ہے۔ یہ صرف ایک تخت نہیں، یہ ایک حکمران کی آنکھوں کا زاویہ ہے، ایک ایسی نشست جہاں بیٹھ کر وہ پورے ہنزہ کو اپنی سلطنت کی کتاب کے کھلے ورق کی طرح دیکھتا تھا۔
سامنے راکا پوشی اپنی برفیلی عظمت کے ساتھ یوں کھڑی ہے جیسے آسمان پر کسی نے سفید روشنی کا مینار گاڑ دیا ہو۔ نیچے وادی کے سبز قالین پر بستیاں بکھری ہیں، اور دوسری سمت نگّر کی زمین ہے — وہی نگّر، جو کبھی ہنزہ کے ساتھ برف اور تلوار کے قصے بانٹتا تھا۔ دریا اپنی نیلی لکیر میں وادی کو کاٹتا ہوا بہتا ہے، اور ہوا میں ایک پرانی سلطنت کی دھڑکن محسوس ہوتی ہے۔ اس تخت سے نظر آنے والا منظر محض زمین کا نظارہ نہیں، بلکہ اقتدار، وقار اور وقت کی لامحدود وسعت کا ایک خاموش اعلان ہے۔