06/09/2025
گھاس کٹائی میں نالے کے پانی کی تشویشناک آلودگی اور اس کے خوفناک اثرات
گھاس کٹائی یعنی اول تھوس کے موسم میں حسب روایت خواتین و حضرات نالے کے پانی میں ہی استنجا کرتے ہیں اور نالے کے قریب رفع حاجت کرتے ہیں جس کی وجہ سے نالے کا پانی ایک سے دو ماہ تک آلودہ اور گندا رہتا ہے۔ یہ آلودہ پانی بخار، نمونیا اور پیٹ کی متعدد بیماریوں کا ویسے بھی سبب بنتا ہے لیکن سب سے زیادہ تشویشناک اور خطرناک امر یہ ہے کہ انسانی فضلے سے آلودہ یہ پانی یرقان (مکسیر) کی بیماری کا سبب بنتا ہے جس کی بہت سی قسمیں hepatitis A، hepatitisB ،hepatisC وغیرہ ہیں۔ یرقان کی بیماری میں انسان کا جگر سب سے زیادہ متاثر ہو جاتا ہے۔ ان قسموں میں سے hepatitis B اور hepatitis C انتہائی خطرناک ہیں کیونکہ یرقان کی یہ دونوں قسمیں جگر کے کینسر کا سبب بنتی ہیں۔ hepatitis C تو بس لا علاج ہے۔
ہمارے لوگوں میں بدقسمتی سے ایک جہالت پر مبنی اطمئنان ہوتا ہے۔ اکثر لوگ اب بھی ہمیں یوں کہتے ہوئے نظر آئیں گے:
"یا ڈاکٹر کونی زیربالا۔ کھونگ یو ژوخ پو زیرین دکپن۔ خدا سی ربیسے یود پو وین۔" ہم نے ان معاملات میں جاہلوں سے زیادہ کسی کو دلیر نہیں دیکھا ہے کیونکہ یہ جاہل نہیں جانتے ہیں کہ جراثیم ، بیکٹریا ،وائرس وغیرہ بھی اللہ کے نظام کا حصہ ہیں اور وہ بھی اللہ کے بنائے ہوئے نظام کی ہم سے بہتر اطاعت کر رہے ہیں۔ میڈیکل کے علماء یہ بات بہتر جانتے ہیں۔ اسی لیے تو اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:
انما یخشا اللہ من عبادہ العلماء ۔ترجمہ: اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علماء میں سے ہیں۔ یعنی علماء ہی اللہ کے نظام کی پیچیدگیوں کا خوف رکھتے ہیں اس لیے وہ اس نظام کو بگاڑنے والی گندی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتے ہیں۔
ہم کریس والے اپنی تاریخ پر غور کم ہی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں واٹر سپلائی کی ٹینکی بننے سے پہلے ہر محلے میں تین تین چار چار کنواں ہوا کرتے تھے جن کی شاید سالوں میں کبھی صفائی ہوتی ہو گی۔ اس زمانے میں محلہ برچھوںگ، محلہ بیماکھور، محلہ پنزل، محلہ مونکھور اور شغرن گونگوں ،گونگیوں،بہروں اور بہریوں یعنی غوٹ غونمو اور دیگر معذوروں سے مالا مال تھے۔ اکثر لوگوں کے گلے پر فٹ بال اور والی بال جیسے گلہڑ ہوا کرتے تھے۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ ان پانچوں محلہ جات کا پینے کا پانی کریس کے باقی محلہ جات کے سیوریج سے گندا ہو کر آتا تھا۔ پھر گندے کنویں میں گرتا تھا۔ دوسری طرف اس زمانے میں بھی ڈنگا، یولجک، چھرہ تھنگ میں غوٹ غونمو ،گڑاچن وغیرہ نہ ہونے کے برابر تھے کیونکہ ان کو محلے کے اوپر سے سیور اور چھنمہ کوہل سے آنے والا صاف ستھرا پانی دستیاب تھا۔ اس کے بعد جب واٹر سپلائی آئی تب اول الذکر چار پانچ محلہ جات میں غوٹ ،غونمو اور گڑاچن جیسے معذوروں کی پیدائش میں نمایاں طور پر کمی آئی۔ پھر بھی ہمارے لوگ سبق حاصل نہیں کرتے ہیں۔
فاعتبروا یا اولی الابصار !
✍️ محمد یحیی خان