Qul قُل - A space for all

Qul قُل - A space for all A platform for all the joyous and fun loving people from all around the world to share your ideas.

15/06/2025

امام مھدی کا ظھور عنقریب ہونے والا ہے

مفتی ابو لبابہ شاہ منصور حفظہ اللہ نے کتاب دجالیات/ میں حضرت دانیال علیہ السلام کی تختیوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہودیوں کی ایک ریاست قائم ہوگی اور اسکے پچاس سال بعد امام مہدی کا ظہور ہوگا۔
(ظاہر سی بات ہے کہ 1946/47 میں اسرائیل کی بنیاد ڈالی تو گئی لیکن 1973 میں جاکر اقوام متحدہ نے ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا اور اسکے جھنڈے کو بھی تسلیم کیا تو حقیقی بنیاد ملک اور ریاست کے حیثیت سے 1973 میں سمجھی جائیگی اس لحاظ سے 2023 میں پچاس سال پورے ہوتے ہیں
لہذا ممکن ہے کہ 2024 میں امام مہدی کا ظہور ہوگا)
نیز نسائی میں جس غزوہ کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں امام مہدی کی ایک جماعت خراسان (افغانستان و مغربی پاکستان وغیرہ) سے نکل کر مشرقی علاقہ پر بر سر پیکار ہوگی تو حالیہ جو خبریں آ رہی ہیں اسکی پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں

( دجال کے خروج کے آثار)
قابل غور بات تو یہ بھی ہے کہ کورونا کا ڈرامہ بھی دوہزار چوبیس میں ختم کردیا جائے گا ۔
اس پر باقاعدہ 24 نیوز والوں نے ایک لمبی ڈبیٹ کی ہے
اور ملک بھارت میں ہندو راشٹر کا آفیشیل اعلان بھی غالبا اسی سال ہوگا
اور اس سے ایک سال قبل یعنی 2023 میں ترکی پر سے پابندی بھی ہٹا لی جائے گی، جس کا واضح مطلب ہے کہ ترکی پر جنگ مسلط کردی جائے گی، جس کے نتیجے میں قسطنطنیہ کفار کے قبضے میں جاسکتا ہے
اور سعودی بادشاہ کی وفات کی یہ روایت رہی ہے کہ عموماً وہ 90 سال کے آس پاس ہی فوت ہوتے ہیں اور اس وقت موجودہ بادشاہ شاہ سلمان کی عمر 86 سال ہے، ممکن ہےکہ وہ 24 ,25 تک 90 کے آس پاس ہونگے
اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے سوسال بھی 2023 تک پورے ہورہے ہیں
نیز ایک عرب عالم ہیں
شیخ صادق المغلسی المرانی انہوں نے 24 کے قریب ہی ظہور مہدی کی بات کہی ہے

حاصل یہ نکلا کہ ظہور مھدی کے لحاظ سے یہ دوسال یعنی 2024 اور 2025 کافی اہم ہیں

ایک بات بڑی فکر میں ڈالنے والی یہ بھی ھے کہ امت کے مختلف قسم کے گروہ امام مہدی کو تلاش بھی کررہے ہیں۔ اس عاجز کے پاس یہ بھی خبر آئی ہے کہ مختلف جہادی تنظیموں کے فکرمند لیڈران اس وقت بڑے فکرمند ہیں کہ امام مہدی کی قیادت میں ساری دنیا میں جہاد شروع کیا جائے ۔اور وہ اس کے لئے ان کی تلاش میں ہیں
کافی دن پہلے کسی صاحب نے بتایا تھا کہ پاکستان کے پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب نے حرم میں بیٹھ کر قسم کھا کر یہ بات کہی تھی کہ امام مہدی کا ظہور 2025 میں ہوگا، اور وہ ہرسال اسی تلاش میں جاتے ہیں کہ کسی طرح انہیں پہچان سکیں

ایک بات اور یاد آئی بڑی مزے کی بات ہے ،
بندہ مولانا سجاد نعمانی صاحب کا ایک بیان سن رہا تھا جس میں حضرت نے سورۂ کہف کی تفسیر کرتے ہوئے بڑا عجیب نکتہ پیش کیا فرمایا کہ
اللہ نے دجال کے فتوں کا ذکر سورۂ کہف میں کیا ہے، اور سورۂ کہف پندرھویں پارے کے نصف سے شروع ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ دجال کا خروج پندرھویں صدی کے نصف پر ہوگا،
آگے فرمایا کہ سولہواں پارہ شروع ہوتے ہوتے دجال کا ذکر ختم ہوجاتاہے جس سے معلوم ہوا کہ سولہویں صدی سے قبل ہی یہ فتنہ ختم ہوجائے گا،
مزید یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دجال کے ذکر سے پہلے بنی اسرائیل کا ذکر کیا ھے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس سے پہلے کافی چرچہ میں ہوں گے یعنی انہیں عروج ملے گا۔

اب ہم حضرت کی ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو اس سے بھی یہی اندازہ نکل کے سامنے آتا ہے کہ چونکہ دجال کے پندرھویں صدی کے نصف میں آنے کا امکان ہے اور حضرت مہدی اس سے تقریبا پانچ چھ سال قبل آئیں گے، اور اس وقت1443ہجری چل رہی ہے ۔ پانچ چھ سال قبل مطلب 45۔ 46 ہجری جو انگریزی سال کے حساب سے 2024 اور25 بنتے ہیں ۔
امام مہدی کے ظہور کے بعد بہت ممکن ہے کہ 2025 کے بعد امام مہدی کی قیادت میں تیسری عالمی اسلامی جنگ ہو۔

بہر حال آپ جس طرح بھی غور کریں گے یہی دو سال سامنے آئیں گے معلوم ہوا کہ یہ دوسال امت مسلمہ کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔۔ اللہ تبارک و تعالٰی امت مسلمہ کی دجالی فتنوں اور سازشوں حفاظت فرمائیں، آمین ثم آمین

1 پہلے سیاہ جھنڈے نکلیں گے.
2 پھر غزوہ ہند ہوگی.
3 پھر ہندستان میں ہندؤوں کا قتل عام ہوگا.
4 پھر ہندستان میں دین کے بد خواہ لوگوں کا قتل عام ہوگا. جیسے گستاخ اور لعنتی قادیانی وغیرہ
5 پھر تیسری جنگ عظیم شروع ہوگی.
6 پھر قسطنطنیہ مسلمانوں کے ہاتھوں نکل جائگا.
7 پھر سفیانی کا ظہور ہوگا.
8 پھر حضرت امام مہدی علیہ سلام کا ظہور ہوگا.
9 پھر سفیانی کا لشکر حضرت امام مہدی سے لڑنے چلے گا تو مکہ مدینہ کے درمیان مقام بیضا پر زمین میں دھنسا دیا جائگا.

10 پھر بنوقلب کا لشکر امام مہدی کے ہاتھوں شکست کھائے گا. جس کو لوٹنے کا حکم رسول اللہ نے دیا ہے.
11 پھر مشرق سے سیاہ جھنڈے عرب کی طرف طوفان بن کر اٹھیں گے. عرب کو بچانے کے لئے ساری یہودی نیوی میدان میں آئے گی اور سیاہ جھنڈوں کے ہاتھوں بری طرح تباہ ہوگی.
12 پھر حجاز مقدس کا محاصرہ تو ڑنے کے لئے خلیج فارس کے نزدیک سیاہ جھنڈے دجالیوں سے بڑا زبردست معرکہ لڑینگے اور محاصرہ توڑدینگے.
13 پھر یہ لشکر امام مہدی علیہ سلام کی بیعت کے لئے آگے بڑھے گا اور رستے میں نجد شہر ان کی طوفانی یلغار کی لپیٹ میں آجائےگا.
14 پھر یہ لشکر امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت کریگا.
15 پھر یہ عربوں سے خزانہ طلب کرینگے. وہ دینے سے انکار کرینگے. پھر یہ سیاہ جھنڈے والوں کے ہاتھوں بری طرح قتل ہونگے. انکے قتل عام کے دوران سیاہ جھنڈے عرب کی ریت کو عربوں کے خون سے تر کردینگے. اس خوفناک قتل عام کا ذکر احادیث مبارکہ میں بھی ملتا ہے. یہی وجہ ھوگی کہ عرب بہت کم رہ جائینگے.
16 پھر عرب بھاگ کر مکہ اور مدینہ میں پناہ لینگے اور اپنی جان بخشی کے لئے خزانہ دینا چاہینگے لیکن سیاہ جھنڈے لینے سے انکار کردینگے.
17 پھر سیاہ جھنڈوں کی اگلی یلغار کا نشانہ مصر بنے گا. جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے. پھر ایران کی باری آئگی. لیکن ایران اطاعت قبول کرکے جان بچائگا.
18 پھر رومی اپنے وہ لوگ جو اسلام قبول کر چکے ہونگے واپس مانگے گے. نہ دینے پر رومیوں کے 80 جھنڈے سیاہ جھنڈوں سے لڑنے کے لئے نکلےگے. ہر جھنڈے تلے 60 ہزار رومی ہونگے. ان کی اتنی تعداد دیکھ کر سیاہ جھنڈوں میں سے ایک تہائی بھاگ جائنگے. جن کی توبہ اللہ کبھی قبول نہ کریگا. پہلے دن مسلمان ایک جماعت کو لڑنے بھیجےگے. ساری جماعت شام تک شہید ہوجائگی. پھر چوتھے دن تمام اہل اسلام جو کہ سیاہ جھنڈے والے ہی ہونگے مل کر رومیوں پر حملہ آور ہونگے. پھر وہ ایسی جنگ کرینگے کہ تاریخ انسانی میں پہلے کسی قوم نے ایسی جنگ نہ کی ہوگی یا پھر فرمایا کہ وہ ایسی جنگ ہوگی کہ پہلے کبھی نہ لڑی گئی ہوگی. پھر اللہ رومیوں پر شکست مسلط کردیگا. پھر مسلمان یعنی سیاہ جھنڈے ان کا قتل عام کرینگے.یہاں تک کہ رومیوں کی لاشوں کے پہلو سے پرندہ اڑے گا. وہ مرکر گریگا لیکن لاشوں کے سمندر کو پار نہ کر سکےگا. اور مر کر گرےگا بھی تو ایک لاش پر.
اس جنگ کے بعد آدھے سے زیادہ لشکر آرمینیا کی طرف جائیگا. سیاہ جھنڈے ارمینیا پر آندھی طوفان اور بلا بن کر نازل ہونگے اور آرمینیا کو وہ تباہی دیکھنی پڑیگی جس کے سامنے بابل و نینوہ اور بغداد کے قصے بھی ہیچ ہیں. اس کا ذکر حدیث مبارکہ میں ملیگا.
لشکر وہاں سے ہوتاہوا امام مہدی سے مل کر قسطنطنیہ کا محاصرہ کرلیگا. اللہ سیاہ جھنڈوں کی جہاد کا صلہ یہ دیگا کہ انکے نعروں سے ہی قسطنطیہ فتح ہوجائگا. پھر سیاہ جھنڈوں کا کچھ لشکر یورپ کی طرف نکلے گا.
اور جب یہ یورپ کی دہلیز پر پہنچے کا تو پورے یورپ میں کہرام مچ جائگا. لیکن یہی پہ خبر بھی پہنچ جائے گی کہ دجال نکل آیا ہے. پھر یہ لشکر وہاں سے انتہائی تیزی سے واپس آئےگا. ان کی رفتار انتہائی تیز ہوگی.
احادیث مبارکہ کے مطابق یہ بڑا ہی سخت امتحان ہوگا. انتہائی سخت وقت ہوگا. جو کوئی تھوڑا آرام کا وقت نکالنے میں کامیاب ہوگا وہی طاقتور تصور کیا جائگا.
آتے ہی عرب میں وہ رومی جو دجال سے ملے ہوں گے. ان پرتین جگہوں سےشب خون مارینگے. اور ان میں سے کوئی بھی بچ کر واپس نہ جائگا.
پھر مسلمان دیکھیں گے کہ حضرت عیسی تشریف لائنگے اور دجال انہیں دیکھ کر پانی میں نمک کی طرح پگھلےگا. پھر وہ وہاں سے بھاگے گا اور مقام لد پر حضرت عیسی کے ہاتھوں قتل ہوگا. پھر یہودیوں کا سیاہ
جھنڈے والے قتل عام کرینگے.
یہی وقت ہوگا جب مومنین مشرق سے لے کر مغرب تک فتوحات کے جھنڈے لہرارہے ہونگے. اور اللہ نے سورت بنی اسرائیل میں جووعدہ فرمایا تھا پورا ہوگا. یعنی کفر و سرکشی کرنے والی کوئی بھی بستی ایسی نہیں جسے ہم روز قیامت سے قبل ہی تباہ و برباد نہ کردیں.
پھر حضرت عیسی کو حکم ہوگا کہ کوہ طور پر جاکر قلعہ بند ہو جائیں. یاجوج ماجوج نکل کر فتنہ عظیم پھیلائیں گے. اللہ تعالئ ان پر اپنا قہر نازل کریگا اور ان پر نفہ نامی کیڑا لگ جائگا اور ہلاک ہونگے.پھر سات سال تک مسلمان امن امان سے رہینگے. امن اتنا زیادہ ہوگا کہ بچہ شیر کو بھگا دیگا. جہاد ختم ہو جائگا. تلواریں دراتیاں بن جائنگیں. شیطانیت تباہ ہوچکی ہو گی. اور شیطان کو جو قیامت تک کی مہلت دی تھی ختم ہوگی. پھر ایک نرم ہوا چلےگی جس سے دنیامیں اسلام ختم ہوجائگا. اب حبشی دنیا پر حکومت کرینگے. اور نفس کی حکمرانی ہوگی. ایک حبشی ٹیڑھی پنڈلی والا نیلی آنکھوں والا اورٹھگنا خانہ کعبہ کو گرا کر پتھر سمندر میں پھینک دیگا. غلاف جلا دیگا اور خزانہ گھر لیجائگا. پھر قیامت مرحلہ وار شروع ہوگی. اور تمہارے رب کے وعدے کا وقت آجائےگا.

فتنہ دجال بہت سخت ہو گا۔ اس سے حفاظت کے لئے ہر جمعہ کے روز سورہ الکہف کی تلاوت لازمی کریں۔

گزارش ہے کہ اس قیمتی معلومات کو اپنے تک محدود نہ رکھیں. اس معلومات کو اکٹھا کرنے میں. ہماری چار سال کی محنت لگی ہے.

قیامت کب آ جاۓ کوئی پتہ نہیں تو کیا آپ نے اس کی تیاری کر لی ہے۔اصل علم اللہ ربّ العزت کے پاس بیشک ہمیں تیاری کرنی ہے کوشش کرنی ہے غورفکر کرنا ہے خود کو نسلوں کو اس فتنے سے بچانا ہے
ان شاءاللہ تعالیٰ

#کاپی

05/06/2025

▓▒F░O░L░L░O░W▒▓
🤍 🤍
The Evolution of : A Legacy of Engineering Excellence
Introduction
Bayerische Motoren Werke AG, commonly known as BMW, is a renowned German automobile and motorcycle manufacturer celebrated for its performance-oriented vehicles and cutting-edge technology. Founded in 1916, BMW has become synonymous with luxury, innovation, and driving pleasure. This article explores the history, evolution, and impact of BMW on the automotive landscape.
History and Foundation
BMW was established in Munich, Germany, originally as a manufacturer of aircraft engines during World War I. The company's first product was the BMW IIIa aircraft engine, which gained acclaim for its performance and reliability. However, the end of the war in 1918 led to a ban on aircraft engine production in Germany, prompting BMW to diversify its offerings.— bersama Tasty Besty Food 1M.
In 1923, BMW shifted its focus to motorcycles, launching the R32, which featured a revolutionary flat-twin engine and shaft drive. This motorcycle laid the foundation for BMW's reputation in the two-wheeled segment, eventually leading to several racing successes in the years that followed.
The Automotive Era
BMW entered the automotive market in 1928 with the acquisition of the Fahrzeugfabrik Eisenach. The first BMW car was the BMW 3/15, based on the Austin Seven. The introduction of the BMW 328 in the 1930s marked a turning point for the company, establishing it as a manufacturer of high-performance sports cars. The 328 gained recognition in motorsports, winning the Mille Miglia in 1940.
However, World War II led to significant challenges for BMW. The company was forced to redirect its production to support the German war effort, resulting in severe damage to its factories and infrastructure. After the war, BMW faced the daunting task of rebuilding and redefining its identity.
Post-War Recovery and Growth
In the post-war years, BMW focused on producing small, affordable cars. The BMW 501 and 502,

05/06/2025
05/06/2025

❤️💯🌿




The Evolution of : A Legacy of Engineering Excellence
Introduction
Bayerische Motoren Werke AG, commonly known as BMW, is a renowned German automobile and motorcycle manufacturer celebrated for its performance-oriented vehicles and cutting-edge technology. Founded in 1916, BMW has become synonymous with luxury, innovation, and driving pleasure. This article explores the history, evolution, and impact of BMW on the automotive landscape.
History and Foundation
BMW was established in Munich, Germany, originally as a manufacturer of aircraft engines during World War I. The company's first product was the BMW IIIa aircraft engine, which gained acclaim for its performance and reliability. However, the end of the war in 1918 led to a ban on aircraft engine production in Germany, prompting BMW to diversify its offerings.— bersama Tasty Besty Food 1M.
In 1923, BMW shifted its focus to motorcycles, launching the R32, which featured a revolutionary flat-twin engine and shaft drive. This motorcycle laid the foundation for BMW's reputation in the two-wheeled segment, eventually leading to several racing successes in the years that followed.
The Automotive Era
BMW entered the automotive market in 1928 with the acquisition of the Fahrzeugfabrik Eisenach. The first BMW car was the BMW 3/15, based on the Austin Seven. The introduction of the BMW 328 in the 1930s marked a turning point for the company, establishing it as a manufacturer of high-performance sports cars. The 328 gained recognition in motorsports, winning the Mille Miglia in 1940.
However, World War II led to significant challenges for BMW. The company was forced to redirect its production to support the German war effort, resulting in severe damage to its factories and infrastructure. After the war, BMW faced the daunting task of rebuilding and redefining its identity.
Post-War Recovery and Growth
In the post-war years, BMW focused on producing small, affordable cars. The BMW 501 and 502, la

05/06/2025

Beshk❤💯
❤️💯🌿




The Evolution of : A Legacy of Engineering Excellence
Introduction
Bayerische Motoren Werke AG, commonly known as BMW, is a renowned German automobile and motorcycle manufacturer celebrated for its performance-oriented vehicles and cutting-edge technology. Founded in 1916, BMW has become synonymous with luxury, innovation, and driving pleasure. This article explores the history, evolution, and impact of BMW on the automotive landscape.
History and Foundation
BMW was established in Munich, Germany, originally as a manufacturer of aircraft engines during World War I. The company's first product was the BMW IIIa aircraft engine, which gained acclaim for its performance and reliability. However, the end of the war in 1918 led to a ban on aircraft engine production in Germany, prompting BMW to diversify its offerings.— bersama Tasty Besty Food 1M.
In 1923, BMW shifted its focus to motorcycles, launching the R32, which featured a revolutionary flat-twin engine and shaft drive. This motorcycle laid the foundation for BMW's reputation in the two-wheeled segment, eventually leading to several racing successes in the years that followed.
The Automotive Era
BMW entered the automotive market in 1928 with the acquisition of the Fahrzeugfabrik Eisenach. The first BMW car was the BMW 3/15, based on the Austin Seven. The introduction of the BMW 328 in the 1930s marked a turning point for the company, estab

03/06/2025

Follow us Islam and Quran 👆🏻
The Evolution of : A Legacy of Engineering Excellence
Introduction
Bayerische Motoren Werke AG, commonly known as BMW, is a renowned German automobile and motorcycle manufacturer celebrated for its performance-oriented vehicles and cutting-edge technology. Founded in 1916, BMW has become synonymous with luxury, innovation, and driving pleasure. This article explores the history, evolution, and impact of BMW on the automotive landscape.
History and Foundation
BMW was established in Munich, Germany, originally as a manufacturer of aircraft engines during World War I. The company's first product was the BMW IIIa aircraft engine, which gained acclaim for its performance and reliability. However, the end of the war in 1918 led to a ban on aircraft engine production in Germany, prompting BMW to diversify its offerings.— bersama Tasty Besty Food 1M.
In 1923, BMW shifted its focus to motorcycles, launching the R32, which featured a revolutionary flat-twin engine and shaft drive. This motorcycle laid the foundation for BMW's reputation in the two-wheeled segment, eventually leading to several racing successes in the years that followed.
The Automotive Era
BMW entered the automotive market in 1928 with the acquisition of the Fahrzeugfabrik Eisenach. The first BMW car was the BMW 3/15, based on the Austin Seven. The introduction of the BMW 328 in the 1930s marked a turning point for the company, establishing it as a manufacturer of high-performance sports cars. The 328 gained recognition in motorsports, winning the Mille Miglia in 1940.
However, World War II led to significant challenges for BMW. The company was forced to redirect its production to support the German war effort, resulting in severe damage to its factories and infrastructure. After the war, BMW faced the daunting task of rebuilding and redefining its identity.
Post-War Recovery and Growth
In the post-war years, BMW focused on producing small, affordable cars. The BMW 501 and 502,

03/06/2025



*یومِ عرفہ کا زندگی بدل دینے والا سبق – ضرور پڑھیں*

ایک بھائی نے یہ دل کو چھو لینے والا واقعہ شیئر کیا:

بالکل ایک سال پہلے، میرے سپرمارکیٹ میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگ گئی، جس نے میری دکان کے تین چوتھائی سے زیادہ مال کو جلا کر راکھ کر دیا۔

یہ واقعہ یومِ عرفہ سے صرف دو دن پہلے پیش آیا!

آپ تصور کر سکتے ہیں کہ میری حالت کیا تھی — عیدالاضحی قریب تھی، مگر میری دکان، میرا سامان، میرا کاروبار — سب تباہ ہو چکا تھا۔ نہ کوئی عیدی، نہ خوشی، نہ مسرت — صرف غم، پریشانی، اور قرض کا بوجھ۔

اس وقت میری شادی کو صرف دو ماہ ہوئے تھے۔ جلا ہوا مال تقریباً 15,000 ڈالر کے برابر تھا۔ میں سوچنے لگا: اب کیا کروں؟ کیسے اس نقصان کی تلافی ہو؟ کیا اپنی نئی نویلی دلہن سے کہوں کہ اپنا سونا بیچ دے؟ یا کسی سے قرض لوں؟ لیکن کس سے؟

آخرکار میں نے سوچا کہ دوستوں سے قرض لینا بہتر ہے۔ مگر جب بھی کسی دوست سے بات کی، وہ یہی کہتا، “عید قریب ہے، معاف کرنا — اس وقت مدد نہیں کر سکتا۔”

دو دن اسی حالت میں گزر گئے — ذہنی دباؤ اور مایوسی کے ساتھ۔ بمشکل 800 ڈالر جمع کر پایا — جو میرے نقصان کے مقابلے میں ایک قطرہ بھی نہیں تھے۔

اس رات میں گھر واپس جا رہا تھا تو ایک پڑوسی ملا، کہنے لگا:
“عید مبارک بھائی! کل روزہ نہ بھولنا!”

میں نے دل میں سوچا: روزہ؟ اس حال میں؟ مجھے اکیلا چھوڑ دو...

میری بیوی نے میرا دل ہلکا کرنے کے لیے کہا کہ تھوڑی دیر چہل قدمی کرتے ہیں۔ ہم باہر نکلے، مگر میرا دل غم سے بوجھل تھا — میں کسی چیز سے لطف نہیں اٹھا پا رہا تھا۔

جب گھر واپس آئے، تو وہ بولی:
“چلو سحری کی تیاری کرتے ہیں؛ فجر کا وقت قریب ہے۔”

میں نے تلخی سے جواب دیا:
“سحری؟ مجھے تو یاد ہی نہیں رہا کہ کل یومِ عرفہ ہے!
تم اور میں جیسے دو مختلف دنیاؤں میں جی رہے ہیں۔ کیا سحری؟ کیا عرفہ؟ کیا تمہیں ہماری حالت نظر نہیں آ رہی؟”

اس نے نرمی سے کہا:
“اللہ نے ہمارے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔ وہ ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ لیکن روزہ ضرور رکھو۔”

اس نے اصرار کیا — اور ہم نے نیت کر کے روزہ رکھ لیا۔

افطار کے وقت، وہ بولی:
“اللہ سے دعا مانگو۔”

میں نے کہا:
“کس چیز کی دعا؟”

کہنے لگی:
“جو دل چاہے، مانگو۔”

میں نے طنزیہ انداز میں کہا:
“کیا مانگوں؟ یہ کہ آسمان سے 15,000 ڈالر آ جائیں؟ کیا یہ ممکن ہے؟”

وہ بولی:
“جس نے آسمان بنایا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔”

وہ چپ چاپ نماز پڑھنے لگی اور دعا میں مشغول ہو گئی۔ میں نے بھی دعا کی، مگر دل میں صرف وہی 15,000 ڈالر گھوم رہے تھے — میں چاہتا تھا سب کچھ واپس مل جائے۔

مغرب کے ایک گھنٹے بعد، میرے ایک دوست کا فون آیا:
“کافی شاپ آؤ، تم سے ضروری بات کرنی ہے۔”

میں گیا، تو اس نے کہا:
“میرے ایک جاننے والے نے پیسے جمع کیے ہیں اور وہ کسی کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ تم سے بہتر کوئی نہیں لگا مجھے۔”

ہم نے اس شخص کو بلایا — وہ آیا اور کہا:
“میرے پاس 30,000 ڈالر ہیں، اور میں کاروبار میں لگانا چاہتا ہوں۔”

میں نے کہا:
“میری دکان کو 15,000 ڈالر کے مال کی ضرورت ہے۔ کیوں نہ آدھے پیسے مال میں لگاؤ اور آدھے دکان کی تزئین و آرائش میں؟ منافع میں 50/50 کا حصہ ہوگا، جب تک تمہارا اصل سرمایہ پورا واپس نہ ہو جائے۔”

ہم نے معاہدہ کر لیا۔ میں نے دکان دوبارہ بنائی، مال خریدا، اور عید کے بعد دکان کھول دی۔ اس دن میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔

اوہ! میں بھول گیا — دکان میں آگ لگنے سے ایک ہفتہ پہلے میری والدہ کو کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ ٹیسٹ کروا لیے تھے، اور نتائج عرفہ کے دن آنے تھے۔

نتیجے آئے — منفی تھے۔ الحمدللہ، وہ مکمل طور پر صحت مند تھیں!

جب امی کو پتہ چلا، تو وہ خوشی سے پورا دن روتی رہیں — اللہ کا شکر ادا کرتی رہیں۔

دکان دوبارہ کھل گئی، امی شفا یاب ہو گئیں، اور پھر میری بیوی نے فون کر کے بتایا کہ ہمیں اولاد کی نعمت کی خوشخبری ملی ہے۔

پھر اُس نے مجھ سے کہا:
“اب سمجھ آیا روزہ رکھنے اور عرفہ کے دن دعا مانگنے کی طاقت کیا ہوتی ہے؟”

میں نے دل میں کہا:
سبحان اللہ!
کچھ دن پہلے لگ رہا تھا جیسے پوری دنیا ختم ہو گئی ہے، اور آج صرف ایک مخلص دعا سے سب کچھ پلٹ گیا۔

اس دن میں نے اللہ کے سامنے عاجزی کا وہ سبق سیکھا جو کبھی نہیں بھولوں گا۔

اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
کبھی وہ ہمیں آزماتا ہے تاکہ ہم اس کی طرف رجوع کریں، توبہ کریں۔

عید کے بعد کاروبار اچھا چلنے لگا، اور جلد ہی وہ 30,000 ڈالر واپس ہو گئے۔
میں وہ پیسے واپس دینے گیا — مگر تب کہانی میں ایک نیا موڑ آیا۔

اس شخص نے کہا:
“سچ یہ ہے کہ یہ پیسے میرے نہیں تھے۔ کسی شخص نے، جس کی بیوی کینسر سے صحت یاب ہوئی تھی، اللہ کی رضا کے لیے یہ تمہیں دلوائے۔ وہ تمہاری مدد کرنا چاہتا تھا — گمنام رہ کر۔”

“یہ پیسے تمہارے ہیں — کوئی واپس نہیں مانگے گا۔”

اللہ کی قسم، میں گھر آ کر کمرے میں بند ہو گیا — اور ایک گھنٹہ بچوں کی طرح رویا۔
اللہ کی رحمت اور عنایت پر — جو میں نے محسوس کی۔

اب بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے، آنکھوں سے صرف آنسو نہیں — خون کے آنسو نکلتے ہیں — کہ میں نے رب سے دوری میں وقت گزارا، جب کہ وہ تو ہمیشہ قریب تھا۔

اسی تجربہ نے مجھے یومِ عرفہ، روزہ، دعا، اور اللہ پر اعتماد کا اصل مطلب سکھایا۔
یہ میری زندگی کا نقطۂ آغاز بن گیا — میں نے توبہ کی اور دین سے جُڑ گیا۔

سبق:

> "اللہ کبھی کبھی دینے کے لیئے روکتا ہے، اور روکنے کے لیئے دیتا ہے — یہی اُس کی حکمت ہے۔"

یہ ذوالحجہ کے پہلے دس بابرکت دن ہیں، ہم دعا، توبہ، اور ذکر میں محنت کریں — اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کو نہ بھولیں۔

> رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
*"جو کسی کو نیکی کی طرف رہنمائی کرے، اُسے بھی وہی اجر ملے گا جو نیکی کرنے والے کو ملتا ہے۔"*
(مسلم)

اس لیئے اس واقعے کو ضرور دوسروں سے شیئر کریں۔
کیا پتہ آپ کی زندگی ختم ہو جائے — اور آپ کے اعمال نامے میں یہ نیکی کی دعوت باقی رہ جائے۔

✏️ ترجمہ: خیران

کیا ہی خوبصورت واقعہ ہے۔

No drama ir grudges, just distance, silence, and self-respect.
27/05/2025

No drama ir grudges, just distance, silence, and self-respect.

27/05/2025

Hi everyone! 🌟 You can support me by sending Stars – they help me earn money to keep making content that you love.

Whenever you see the Stars icon, you can send me Stars.

25/05/2025

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی صاحبزادی حمیرہ مودودی نے اپنی کتاب شجر ہائے سایہ دار میں *ائیرفورس* کے اسکوارڈن لیڈر کی مولانا مودودی کو اپنے خواب کی تفصیل بیان کی ہے۔

۱۹۷۸ء کے دوران، میں جدہ سے گرمیوں کی تعطیلات کے سلسلے میں لاہور آئی ہوئی تھی کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک روز مغرب کے بعد پاکستان ایئر فورس کے دو اسکواڈرن لیڈر سرگودھا سے ابا جان سے ملنے آئے۔ ابا جان دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے، وہیں انھیں بلوالیا ۔ .

ان میں سے ایک صاحب جو دیکھنے میں بڑے مضطرب نظر آ رہے تھے۔ بتانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور جب سے دیکھا ہے میں اس قدر بے چین اور بے کل ہوں کہ نہ مجھے نیند آتی ہے، نہ بھوک لگتی ہے اور نہ میں کسی کام کو دل جمعی سے کر سکتا ہوں ۔ وہ خواب یہ ہے کہ میں مدینے گیا ہوں، تو دیکھتا ہوں کہ مدینہ تو پورے کا پورا بم باری سے تباہ ہو چکا ہے۔ نہ مسجد ہے نہ گنبد خضرا ہے، نہ کوئی گھر اور عمارت سلامت ہے۔ اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ جب میں اس مقام پر آتا ہوں جہاں روضہ مبارک ہے۔ تو دیکھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچی قبر کے باہر کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔۔۔ کہیں قریب ہی سے بہت سے لوگوں کی باتیں کرنے کی آواز آتی ہے۔ میں ادھر دیکھتا ہوں تو ایک تہہ خانے میں سیڑھیاں اترتی نظر آتی ہیں۔ میں فورا نیچے تہہ خانے میں چلا جاتا ہوں۔ ابھی آدھی سیڑھیاں ہی اترا تھا کہ دیکھتا ہوں، چھ سات یہودی صرف جانگیے پہنے، بڑے بڑے چھرے ہاتھوں میں لیے انسانی لاشوں کے ٹکڑے کر کر کے ڈھیر لگا رہے ہیں اور دیواروں کے ساتھ ( اہل مدینہ کی ) بے شمار انسانی لاشیں لٹکی ہوئی ہیں۔ میں یہ منظر دیکھ کر الٹے پاؤں اوپر کی طرف بھاگتا ہوں کہ یہ تو میرے بھی ٹکڑے کر ڈالیں گے۔ اوپر پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم التحیات پڑھ کر سلام پھیر رہے ہیں۔۔۔ سلام پھیر کر میری طرف دیکھ کر آپ فرماتے ہیں : فکر نہ کرو، یہ گوشت بکے گا نہیں!
اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔ بس مولانا ، جب سے میں نے یہ خواب دیکھا ہے، روز بروز میری بے کلی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے؟ آپ بتائیے ، اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟

اگر چہ ابا جان ، خوابوں کی دنیا سے تعلق نہیں رکھتے تھے ، اور نہ خوابوں کی تعبیر سے نتائج اخذ کرنے کے طرف دار تھے ۔ وہ حقائق کی دنیا اور منطقی اصولوں کو ایمان کے تابع لاکر زندگی بسر کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ خواب سن کر ابا جان خود حیران ہوتے جا رہے تھے کہ ایسا خواب تو بڑے بڑے ولیوں کو بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوتا مگر یہ اس داڑھی منڈے نوجوان ہوا باز کو نظر آیا ہے۔ کسی آستانہ عالیہ کے سجادہ نشین، کسی فقیہ مصلحت اور کسی حامل جبہ و دستار کو نہیں بلکہ ستاروں پر کمند ڈالنے والے فضائیہ کے مجاہد کو دکھائی دیا ہے، جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں خانقاہوں کے مجاوروں اور حجروں کے باسیوں کے بجائے ، رسم شبیری ادا کرنے والے ایسے نوجوان ہی ملت بیضا کی قیادت کریں گے اور یہی لوگ حرمین الشریفین کی حفاظت و مدافعت کی ذمے داری نبھائیں گے۔

ابا جان نے اُن نوجوان جنگی ہوا بازوں سے کہا: رسول کریم کی حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے روایت کیا ہے. إذا وقعت الملاحِمُ بَعَثَ اللَّهُ بَعْثًا مِنَ الموالى هُمْ أَكْرَمُ الْعَرَب فَرَسًا وَأَجُوَدُ سَلَاحًا يُؤَيِّدُ اللَّهُ بِهِمُ الدِّينِ مشکوة | جب جنگوں پر جنگیں ہوں گی ، تو اللہ ، غیر عرب اقوام میں سے ایک قوم کو اٹھا کر کھڑا کرے گا۔ وہ شہواری میں عربوں سے بہتر اور اسلحے میں ان سے برتر ہوں گے۔ ان کے ذریعے اللہ اپنے دین کی مدد کرے گا۔

پھر کہا: یہ خواب اس حدیث کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے، جو حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے: آخر زمانے میں ایسے لوگ آئیں گے جو پرندوں کی طرح تیز رفتار اور درندوں کی طرح ظالم ہوں گے ( مشکوۃ ۔ یعنی آج ہمیں اس کا یہی مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ جنگی ہوائی جہازوں پر سوار ہو کر اپنے ملک سے اڑیں گے اور بڑی بے رحمی سے اپنے مخالفوں کے بچوں، بوڑھوں ، عورتوں اور مخلوق خدا کو تباہ و برباد کرتے جائیں گے، ان کے ہاتھوں نہ کسی کی جان و مال محفوظ ہوگی اور نہ عزت و آبرو
تیسری حدیث مبارکہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر غفاری کو مخاطب کر کے فرمایا: اے ابوذر، جس وقت مدینے میں ایسی بھوک ہوگی کہ تو اپنے بستر سے کھڑا ہوکر مسجد تک نہیں جا سکے گا ، مگر یہ بھوک تجھ کو مشقت میں ڈال دے گی۔ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب مدینے میں اتنا قتل ہوگا کہ خون احجار الزيت ( چکنے پہاڑ ) کو ڈھانپ لے گا۔

اسی طرح حدیث دجال سنا کر کہا کہ آپ کا خواب بظاہر اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ آیندہ صلیب و ہلال کے معرکوں میں ایئر فورس فیصلہ کن کردار ادا کرے گی، اس لیے اللہ نے یہ خواب ایک جنگی پائلٹ کو دکھایا ہے۔ اس لیے یہ وقت اپنے طیارے کے کاک پٹ میں اذان دینے کا ہے۔ آپ کا فرض آپ کو پکار رہا ہے، ملت بیضا اور حرمین الشریفین کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔

ایک حدیث کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے بعد انھی علاقوں سے فوج ان کی مدد کو پہنچے گی جو غیر عرب ہوں گے، اور اسلحہ وفن سپہ گری میں عربوں سے افضل ہوں گے۔
یاد رکھیے، آپ کی سب سے بنیادی وفاداری اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، اس کے بعد حرمین سے ہے اور اس کے بعد اپنے وطن سے ۔ آپ ان وفاداریوں کو بیک وقت نبھانے کے لیے اللہ اور قرآن سے تعلق جوڑیں اور اللہ تعالیٰ ہی سے مدد کی دعا کرتے رہا کریں۔

یہ تعبیر سننے کے بعد جب وہ پائلٹ پر سکون ہو کر جانے کے لیے اٹھے تو بیماری اور سخت نقاہت کے باوجود، ابا جان نے کھڑے ہو کر ان سے الوداعی مصافحہ کیا ، اور اصرار کر کے انھیں اپنے کمرے کے دروازے تک رخصت کرنے آئے اور کہا: چونکہ آپ نے خواب میں نبی کریم کی زیارت کی ہے، اس لیے آپ تکریم کے لائق ہیں۔ اب آپ اپنی جو بے چینی اور بے کلی مجھے دے کر جارہے ہیں، نہ جانے میں کب تک اس کیفیت میں مبتلا رہوں گا۔

*شجر ہائے سایہ دار*
حمیرہ مودودی

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qul قُل - A space for all posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share