Salam Pakistan

Salam Pakistan All about beloved Pakistan

27/04/2025

*حقیقی خوبصورتی کیا ہے؟*
اصلاح احوال کے ضمن میں انتہائی خوبصورت تربیتی گفتگو خود بھی سماعت کریں اور اپنے فیملی ممبران اور دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں جزاک اللہ خیر
*منجانب: مرکز عرفان القران کویت*

04/03/2025
*چوتھا پارہ مختصر خلاصہ*4th para..👇اس پارے میں دو حصے ہیں:​۱۔ بقیہ سورۂ آل عمران۲۔ ابتدائے سورۂ النساء(پہلا حصہ) سورۂ...
04/03/2025

*چوتھا پارہ مختصر خلاصہ*
4th para..👇

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ بقیہ سورۂ آل عمران
۲۔ ابتدائے سورۂ النساء

(پہلا حصہ) سورۂ آل عمران کے بقیہ حصے میں پانچ باتیں ہیں:​

1۔ خانہ کعبہ کے فضائل
2۔ باہمی جوڑ
3۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
4۔ تین غزوات
5۔ کامیابی کے چار اصول

*1۔ خانہ کعبہ کے فضائل:*

یہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے اور اس میں واضح نشانیاں ہیں جیسے: مقام ابراہیم۔ جو حرم میں داخل ہوجائے اسے امن حاصل ہوجاتا ہے۔

*2۔ باہمی جوڑ:*

اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو۔

*3۔ امر بالمعروف اور نہی عن النکر:*

یہ بہترین امت ہے کہ لوگوں کی نفع رسانی کے لیے نکالی گئی ہے، بھلائی کا حکم کرتی ہے، برائی سے روکتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔

*4۔ تین غزوات:*

۱۔غزوۂ بدر ۲۔غزوۂ احد ۳۔غزوۂ حمراء الاسد

*5۔ کامیابی کے چار اصول:*

۱۔صبر ۲۔مصابرہ ۳۔مرابطہ ۴۔تقوی

(دوسرا حصہ) سورۂ النساء کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں چار باتیں ہیں:​

1۔ یتیموں کا حق: (ان کو ان کا مال حوالے کردیا جائے۔)

2۔ تعدد ازواج: (ایک مرد بیک وقت چار نکاح کرسکتے ہیں بشرط ادائیگیٔ حقوق۔)

3۔ میراث: (اولاد ، ماں باپ ، بیوی ، کلالہ کے حصے بیان ہوئے اس قید کے ساتھ کہ پہلی وصیت ادا کردی جائے۔)

4۔ محرم عورتیں: (مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، رضاعی مائیں، رضاعی بہنیں، ساس، سوتیلی بیٹیاں، بہویں۔)

*اہم اور عمل کی باتیں*

اللہ سے محبت کے دعوے کوسچ کرنے لے لئے اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ۔

ابراھیم علیہ السلام کا اللہ کے گھر کی تعمیر کرنا اور اتنا بڑاکام کر کے بھی اللہ کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا ۔

استطاعت ھو تو زندگی میں ایک دفعہ لازمی حج کرنا ۔

اللہ کی رسی یعنی قرآن مجید پر جمع ھونا اور تفرقہ بازی واختلاف سے بچنا ۔

کل انسانیت کی فکر کرنا ۔انہیں نیکی کی طرف دعوت دینا اور برائی سے روکنا ۔

وقتی آزمائشوں سے نمٹنے کے لئے صبر اور تقویٰ اختیار کرنا ۔

مال کی محبت کی وجہ سے ناکامی کا ھونا ۔کامیابی کے لئے کام کو خالصتا اللہ کے لئے کرنا ۔

تنگی اور خوشحالی میں خرچ کرنا ۔غصے کو پی جانا اور دوسروں کو معاف کر دینا محسن ھونے کی علامت ھے ۔

بڑے سے بڑے دکھ کو اللہ کی خاطر سہہ جانا ،سب محبتیں قربان کرکے اللہ کے دین کا کام کرنا ۔

مضوط بنانے اور برداشت پیدا کرنے کے لئے ایک کے بعد ایک امتحان سے گزرنا ۔

اللہ کے پاس خاص زندگی اور رزق پانے والے مقام شہادت کی دل سے تمنا اور دعا کرنا ۔

دشمن سے بے خوف ھونے کے لئے حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہنا اور دل سے اس پر یقین رکھنا ۔

اللہ کی خاطر رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رھنا اور قطع رحمی سے بچنا ۔

گھروں میں خواتین کے ساتھ زندگی گزارتے ھوئے اچھا سلوک کرنا اور بلا وجہ دست اندازی سے بچنا ۔علیحدگی کی صورت میں دیا ھوا مال واپس نہ لینا ۔

رشتوں کے تقد س کا پاس رکھنا اور ان کی حرمت کا خیال رکھنا اور ماضی میں جو ھو چکا اس کا اعادہ نہ کرنا-
اللہ تعالیٰ ھمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین
*ترتیب و تخریج: محمد عرفان عادل و روبیلہ غزل*
*مرکز عرفان القران کویت*
خود بھی پڑھیں اور دوسروں کے ساتھ شئیر کریں۔
*جزاکم اللہ خیرا کثیرا اجمعین*
ھذا من فضل ربی
ما توفیقی الا باللہ
*🤲🏻اللہ رب العزت اس ماہِ مبارک میں اپنے حبیبﷺ کے صدقے میں پوری امت کی بخشش فرمائے اور ہم سب کو سمجھ کر قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین*
💐💐💐💐💐💐💐💐

*تیسرا پارہ- مختصر خلاصہ* Para 3اس پارے میں دو حصے ہیں:*1۔بقیہ سورہ البقرہ**2۔ابتدائے سورۂ آل عمران**(پہلا حصہ) سورہ ال...
03/03/2025

*تیسرا پارہ- مختصر خلاصہ* Para 3

اس پارے میں دو حصے ہیں:

*1۔بقیہ سورہ البقرہ*
*2۔ابتدائے سورۂ آل عمران*

*(پہلا حصہ) سورہ البقرہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:*

۱۔معروف اور بڑی آیات
۲۔دو نبیوں کا ذکر
۳۔صدقہ اور سود

*۱۔ تین معروف اور بڑی آیات:*

ایک ”آیت الکرسی“ ہے جو فضیلت میں سب سے بڑی ہے، اس میں سترہ مرتبہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔

دوسری ”آیتِ مداینہ“ جو مقدار میں سب سے بڑی ہے اس میں تجارت اور قرض مذکور ہے۔

تیسرے سورہ البقرہ کی آخری دو آیات جو ہمارے پیارے نبی، آقائے دو جہاں سرور کون و مکاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم سفر معراج کے دوران عرش کی رفعتوں میں عطا ہوئیں، ان دو آیات کے صبح و شام پڑھنے کی احادیث نبوی میں بڑی فضیلت آئی ہے

*۲۔ دو نبیوں کا ذکر:*

ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مباحثہ اور احیائے موتٰی کے مشاہدے کی دعا۔

دوسرے عزیر علیہ السلام جنھیں اللہ تعالیٰ نے سو سال تک موت دے کر پھر زندہ کیا۔

*۳۔ صدقہ اور سود:*

بظاہر صدقے سے مال کم ہوتا ہے اور سود سے بڑھتا ہے، مگر در حقیقت صدقے سے بڑھتا ہے اور سود سے گھٹتا ہے۔

4۔ سورہ البقرہ کی آخری دو آیات کی بہت فضیلت ہے
اور یہ معراج کے موقعہ پر عطا کی گئیں

(دوسرا حصہ) سورۂ آل عمران کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں چار باتیں ہیں:

1۔ سورہ البقرہ سے مناسبت
2۔اللہ تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے
3۔اہل کتاب سے مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ
4۔ انبیائے سابقین سے عہد

*1۔ سورہ البقرہ سے مناسبت*

مناسبت یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں قرآن کی حقانیت اور اہل کتاب سے خطاب ہے۔ سورہ البقرہ میں اکثر خطاب یہود سے ہے جبکہ آل عمران میں اکثر روئے سخن نصاری کی طرف ہے۔

*2۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے:*

پہلا قصہ جنگ بدر کا ہے، تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو شکست دے دی۔

دوسرا قصہ حضرت مریم علیھا السلام کے پاس بے موسم پھل کے پائے جانے کا ہے۔

تیسرا قصہ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہونے کا ہے۔

چوتھا قصہ حضرت عیسی علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونے، بچپن میں بولنے اور زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا ہے۔

*3۔ مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ:*

اہل کتاب سے مناظرہ ہوا، پھر مباہلہ ہوا کہ تم اپنے اہل و عیال کو لاؤ، میں اپنے اہل و عیال کو لاتا ہوں، پھر مل کر خشوع و خضوع سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر خدا کہ لعنت ہو، وہ تیار نہ ہوئے تو پھر مفاہمہ ہوا، یعنی ایسی بات کی دعوت دی گئی جو سب کو تسلیم ہو اور وہ ہے کلمۂ ”لا الہ الا اللہ“۔

*4۔ انبیائے سابقین سے عہد:*

انبیائے سابقین سے عہد لیا گیا کہ جب آخری نبی آئے تو تم اس کی بات مانو گے، اس پر ایمان لاؤ گے اور اگر تمھارے بعد آئے تو تمھاری امتیں اس پر ایمان لائیں۔

*اہم نکات کا خلاصہ*

بعض رسولوں کو بعض پرفضیلت دی گئی ہر رسول یا نبی پر اسے دی گئی فضیلت کے ساتھ ایمان لانا ضروری ھے ۔

آیت الکرسی قرآن مجید کی عظیم آیت ھے ۔اس کا پڑھنا رات بھر شیطان کے شر سے حفاظت کا ذریعہ ھے ۔

اللہ اھل ایمان کا دوست ھے وہ اپنے دوستوں کو کبھی تنھا نہیں چھوڑتا ۔ابراھیم علیہ السلام کو دوست بنایا تو انکی کیسی بے مثال راہ نمائی کی

ابراھیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں مکالمہ ھوا۔جس میں نمرود اپنی جھوٹی بادشاھت کی حقیقت واضح ھونے پر دھشت زدہ ھو گیا اور ششدر رہ گیا ۔

بستی سے گز رنے والے شخص (حضرت عذیر علیہ السلام ) کو ان کے گدھے اور کھانے پینے کے ذریعے اور ابراھیم علیہ السلام کو پرندوں کے ذریعے زندگی بعد الموت کی حقیقت سمجھائی گئی ۔

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا اجر کئی گنا زیادہ ملتا ھے ۔لہذا خرچ کرتے ھوئے 3 کاموں یعنی احسان جتانا ، دکھ دینا ،دکھاوا کرنے سے بچنا ھے ۔

جو اللہ کے دین کی خدمت میں لگے ھوئے ھیں اور لپٹ کر سوال نہیں کرتے ان پر خرچ کرنا زیادہ بہتر ھے ۔

سود لینا اور دینا حرام قرار دیا گیا ھے ۔یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ھے ۔اس لئے اھل ایمان کو اس سے اجتناب کرنا چاھئے ۔

مومن بندوں کو تعلیم دی گئی ک جب وہ قرض کا لین دین کریں تو اس کو لکھ لیا کریں تا کہ کسی مشکل سے بچ سکیں

سورۃ البقرۃ کی آخری 2 آیا ت معراج کی رات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاھوئیں ۔جوشخص ان 2 آیات کو رات میں پڑھ لے گا وہ اس کو کافی ھو جائیں گی ۔اور یہ قبولیت دعا کا ذریعہ بھی ھے ۔

علم کا مقام اس سے بڑھ کر اور کیا ھو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی گواھی کے ساتھ فرشتوں اور اھل علم کی گواھی کو اکٹھا کیا ۔

اللہ کی محبت کے حصول کا طریقہ اتبا ع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ھے مختلف فتنوں ،فلسفوں ،نظریات سے بچنا اسی وقت ممکن ھے جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑ لیا جائے

حضرت مریم علیھا السلام کو تمام عورتوں پر فضیلت عطا کی گئی ۔دوسروں کو ملنے والی فضیلت پر خوش ھونا اور اللہ سے اپنے لئے اچھے کاموں کی توفیق مانگنی چاھیے اور اللہ کے فیصلوں پر راضی رھنا چاھیے ۔

اللہ نے بہترین تدبیر کرتے ھوئے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھالیا ۔رفع عیسی علیہ السلام پر ایمان لانا ضروری ھے ۔
*ترتیب و تخریج: محمد عرفان عادل و روبیلہ غزل مرکز عرفان القران کویت*
خود بھی پڑھیں اور دوسروں کے ساتھ شئیر کریں۔
*جزاکم اللہ خیرا کثیرا اجمعین*
ھذا من فضل ربی
ما توفیقی الا باللہ
*🤲🏻اللہ رب العزت اس ماہِ مبارک میں اپنے حبیبﷺ کے صدقے میں پوری امت کی بخشش فرمائے اور ہم سب کو سمجھ کر قرآن کریم پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین*
💐💐💐💐💐💐💐💐

*دوسرا پارہ​*(مختصر خلاصہ)2nd para👇قرآن کریم کا پارہ نمبر ۲( سیقول ) سورة البقرة کی آیت نمبر 142سے 252پر مشتمل ہے۔ جیسا ...
02/03/2025

*دوسرا پارہ​*(مختصر خلاصہ)

2nd para👇

قرآن کریم کا پارہ نمبر ۲( سیقول ) سورة البقرة کی آیت نمبر 142سے 252پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ پارہ اول کے خلاصے میں بیان کیا گیا کہ قرآن کریم کی سورة البقرہ قرآن کی سب سے بڑی سورة ہے ۔ یہ کل 286آیات پر مشتمل ہے۔ 141ابتدائی آیات پارہ اول میں ، 111آیات پارہ نمبر 2میں اور 34آیات پارہ نمبر 3میں ہیں۔ اس طرح سورة البقرہ قرآن کریم کے ابتدائی تقریباً ڈًھائی پاروں پر مشتمل سورہ ہے۔ سورة البقرہ کے بارے میں ابتدائی باتیں پہلے خلاصے میں بیان کی جاچکی ہیں۔ دوسرے پارہ کی ابتدا 142ویں آیت سے ہوتی ہے اور آیت نمبر 252پر اس کا اختتام ہوگا۔

*مختصر نکات*
اس پارے میں چار باتیں ہیں:

1۔تحویل قبلہ
2۔آیت بر اور ابوابِ بر
3۔قصۂ طاعون
4۔قصۂ طالوت

*1۔تحویل قبلہ:*

ہجرت مدینہ کے بعد سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس قبلہ رہا ، آپ ﷺ کی چاہت تھی کہ خانہ کعبہ قبلہ ہو، اللہ تعالیٰ نے آرزو پوری کی اور قبلہ تبدیل ہوگیا۔

*2۔آیتِ بر اور ابوابِ بر:*

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ ۔۔۔۔ (البقرۃ:۱۷۷) یہ آیتِ بر کہلاتی ہے، اس میں تمام احکامات عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق اجمالی طور پر مذکور ہیں، آگے ابواب البر میں تفصیلی طور پر ہیں:
۱۔صفا مروہ کی سعی
۲۔مردار، خون، خنزیرکا گوشت اور جو غیر اللہ تعالیٰ کے نامزد ہو ان کی حرمت
۳۔قصاص
4۔وصیت
۵۔روزے
6۔اعتکاف
۷۔حرام کمائی
۸۔قمری تاریخ
۹۔جہاد
۱۰۔حج
۱۱۔انفاق فی سبیل اللہ تعالیٰ
۱۲۔ہجرت
۱۳۔شراب اور جوا
14۔مشرکین سے نکاح
۱۵۔حیض میں ج**ع
16۔ایلاء
۱۷۔طلاق
۱۸۔عدت
۱۹۔رضاعت
۲۰۔مہر
۲۱۔حلالہ
۲۲۔معتدہ سے پیغامِ نکاح۔

*3۔قصۂ طاعون:*

کچھ لوگوں پر طاعون کی بیماری آئی، وہ موت کے خوف سے دوسرے شہر چلے گئے، اللہ تعالیٰ نے (دو فرشتوں کو بھیج کر) انھیں موت دی (تاکہ انسانوں کو پتا چل جائے کہ کوئی موت سے بھاگ نہیں سکتا) کچھ عرصے بعد اللہ نے (ایک نبی کے دعا مانگنے پر) انھیں دوبارہ زندگی دے دی۔

*4۔قصۂ طالوت:*

طالوت کے لشکر نے جالوت کے لشکر کو باوجود کم ہونے کے اللہ تعالیٰ کے حکم سے شکست دے دی۔

*پارہ 2 خلاصہ کی تفصیل*

1- دوسرے پارے کے آغاز میں سورہ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے قبلے کی تبدیلی کا ذکر فرمایا ہے۔ مسلمانوں پر جب اللہ نے نماز کو فرض کیا تو ابتدائی طور پر مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دلی تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ قبلے کو تبدیل کرکے بیت الحرام کو قبلہ بنا دے۔ چنانچہ بیت الحرام کو قبلہ بنا دیا گیا۔ اس پر بعض کم عقل لوگوں نے تنقید کی کہ جس طرح قبلہ تبدیل ہوا ہے، مذہب بھی تبدیل ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قبلے کی تبدیلی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون میرے محبوب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا پیروکار ہے اور کون ہے جو اپنے قدموں پر پھر جانے والا ہے۔ وگرنہ جہتیں تو ساری اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہیں۔ مشرق و مغرب اللہ کے لیے ہیں اور وہ جس کو چاہتا ہے صراطِ مستقیم پر چلا دیتا ہے۔

2- اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ اہلِ کتاب کے پختہ علم والے لوگ پیغمبر علیہ السلام کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کا ایک گروہ جانتے بوجھتے ہوئے حق کو چھپاتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ اس کے بندوں کو اس کا ذکر کرنا چاہیے۔ ارشاد ہوا: "تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا۔”

3- اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ خدا کی تائید و نصرت صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
ارشاد ہے کہ شہید مرتا نہیں بلکہ زندہ ہوتا ہے مگر تم اس کی حیات کا شعور نہیں رکھتے۔ اگر کوئی مصیبت آئے تو کہو کہ بے شک ہم اللہ کی طرف ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، پس جو کوئی بھی حج اور عمرہ کرے اس کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی ضرور کرنی چاہیے۔

4- اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر ہے جو خدا کے احکامات اور اس کی آیات کو چھپاتے ہیں۔ ارشاد ہے کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو، یعنی ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے محروم رہیں گے۔

5- اس کے بعد ارشاد ہے کہ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم عبادت کے لیے مشرق کی طرف رخ کرتے ہو یا مغرب کی طرف بلکہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کی ذات، یومِ حساب، تمام انبیا اور ملائکہ پر پختہ ایمان ہو اور وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنے والا ہو، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا کرنے والا ہو، وعدوں کو پورا کرنے والا ہو اور تنگی اور کشادگی دونوں حالتوں میں صبر کرنے والا ہو۔ جس میں یہ تمام اوصاف ہوں گے وہی حقیقی متقی ہے۔

6- اس کے بعد قانونِ قصاص و دیت کا ذکر ہے۔ ارشاد ہے کہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جائے گا تاہم اگر کوئی اپنے بھائی کو دیت دے کر معاف کر دیتا ہے تو یہ خدا کی طرف سے رخصت ہے لیکن زندگی بہرحال قصاص لینے میں ہی ہے۔

7- اس کے بعد رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا ذکر ہے اور ارشاد ہے کہ قرآنِ کریم کو رمضان کے مہینے میں اتارا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مسافروں اور مریضوں کو رخصت دی ہے کہ اگر وہ رمضان کے روزے نہ رکھ سکیں تو بعد میں کسی وقت قضا روزے پورے کر سکتے ہیں، اور جن میں قضا کی استعداد نہ ہو وہ فدیے میں مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ روزوں کے بارے میں بطورِ قاعدہ یہ بات بتائی گئی ہے کہ خدا تمھارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ نیز رمضان کی راتوں میں بیویوں کے پاس جانا جائز کر دیا گیا کیونکہ لوگ
اس سلسلے میں خیانت کیا کرتے تھے، اور ارشاد ہوا کہ عورتیں تمھاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو یعنی مرد و عورت ایک دوسرے کی زینت بھی ہیں اور ضرورت بھی۔ نیز ارشاد ہوا کہ سحری کا وقت تب تک ہے جب تک تم کالے اور سفید دھاگے میں تمیز کر سکو۔

8- اس کے بعد چاند کے گھٹنے بڑھنے کی غرض و غایت بتائی گئی ہے کہ اس کے ذریعے اوقات اور حج کے ایام کا تعین ہوتا ہے۔ پھر قتال کی فرضیت کے آداب و احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد حج کے آداب کا ذکر ہے کہ حج میں بے حیائی اور لڑائی جھگڑے والی کوئی بات نہ ہو۔ ارشاد ہوا کہ حاجی کو زادِ راہ کی ضرورت ہے اور سب سے بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔

9- اس کے بعد دعا مانگنے کا طریقہ بتایا گیا۔ ارشاد ہوا کہ بعض لوگ دعا مانگتے ہیں کہ خدا ہمیں دنیا میں بہترین دے جب کہ بعض لوگ جو ان کے مقابلے میں بہتر دعا مانگتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں دنیا میں بھی بہترین دے اور آخرت میں بھی بہترین دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
اس کے بعد سابقہ امتوں کے ان لوگوں کا ذکر ہوا ہے جن کو ایمان لانے کے بعد تکالیف، مصائب اور زلزلوں کو برداشت کرنا پڑا۔ خدا تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو سابقہ امتوں کی تکالیف سے اس لیے آگاہ فرمایا کہ ان کے دلوں میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ جنت میں جانا آسان نہیں بلکہ اس کے لیے تکالیف اور آزمائشوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔
10- اس کے بعد دین سے پھر جانے کے وبال کا ذکر ہے کہ جو شخص اپنے دین سے منحرف ہو جائے گا اور کفر کی حالت میں مرے گا تو اس کے اعمال ضائع کر دیے جائیں گے۔
11- اس کے بعد شراب اور جوئے کے بارے میں ذکر ہے کہ گو ان میں بعض چیزیں فائدے کی ہیں لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں اس لیے لوگوں کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔
12- اس کے بعد ناپاکی کے ایام میں عورتوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا اور طلاق کے مسائل کو بالتفصیل بیان فرمایا گیا کہ طلاق کا اختیار مرد کے پاس دو دفعہ ہوتا ہے۔ اگر وہ مختلف اوقات میں دو دفعہ طلاق بھی دے دے تو وہ اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے لیکن اگر وہ تیسری طلاق بھی دے دے تو پھر رجوع کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس کے بعد رضاعت کی مدت کا ذکر ہے کہ عورت اپنے بچے کو دو برس تک دودھ پلا سکتی ہے۔ پھر بیوہ کی عدت کا ذکر ہے کہ بیوہ کو چاہیے کہ چار مہینے اور دس دن تک عدت پوری کرے اور اس کے بعد اگر کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو کرلے۔

13- اس کے بعد اللہ نے نمازوں کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ خصوصًا درمیانی نماز (بعض کے نزدیک عصر اور بعض کے نزدیک فجر) کی حفاظت کیا کرو۔

اس کے بعد ہاروت ماروت اور طالوت جالوت کا قصہ بیان ہوا ہے۔ پارے کے آخر میں ارشاد ہے کہ اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھر جاتی۔ مطلب یہ کہ حکمرانوں کا آنا جانا بھی خدا کی نعمت ہے۔
جہاد کی ترغیب دینے کے لئے ایک قوم کا تذکرہ ہے، جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے محض اس لئے نکل بھاگے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی اور بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت حزقیل کی دعا سے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔ پھر جہاد کا حکم اور اس کے ساتھ ہی اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی تلقین ہے۔ پھر مسلم حکمران طالوت اور کافر حکمران جالوت کے درمیان مقابلہ کا تذکرہ ہے۔ بنی اسرائیل کے جہاد سے راہِ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے ایک ظالم قوم عمالقہ کو اللہ تعالیٰ نے ان پر مسلط کردیا تو انہیں جہاد کی فکر لاحق ہوئی۔ حضرت شمویل علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلم بادشاہ طالوت کی زیر قیادت جہاد کا حکم دیا۔ طالوت کی امارت پر بنی اسرائیل نے اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جسمانی قوت اور جنگی علوم میں مہارت کو اس کی اہلیتِ امارت کی دلیل کے طور پر بیان کیا اور بنی اسرائیل کے مذہبی مقدسات اور حضرت موسیٰ و ہارون کے تبرکات پر مشتمل تابوت جوکہ دشمنوں کے قبضہ میں تھا۔ انہیں واپس دلاکر ان کی تسلی اور دل جمعی کا انتظام کردیا۔ بنی اسرائیل نے کچھ پس و پیش کے بعد جہاد پر آمادگی ظاہر کردی۔ طالوت نے جنگی نقطۂ نظر سے کچھ پابندیاں عائد کیں، جن میں راستہ میں آنے والے دریا سے پانی پینے کی ممانعت بھی شامل تھی۔ بہت سے لوگ اس کی پابندی نہ کرسکے اور جہاد میں شرکت کے لئے نا اہل قرار پائے۔ ایک قلیل تعداد جوکہ بعض روایات کے مطابق تین سو تیرہ تھی جہاد میں شریک ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست دے کر اہل ایمان کو غالب کرکے ہمیشہ کے لئے یہ ضابطہ بتادیا کہ اللہ کی مدد قلت و کثرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے اور دوسرا ضابطہ یہ بتایا کہ جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بعض مؤمن بندوں کو استعمال کرکے ظالموں کا صفایا کردیا کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے۔
*ترتیب و تخریج: محمد عرفان عادل و روبیلہ غزل*
*مرکز عرفان القران کویت*
خود بھی پڑھیں اور دوسروں کے ساتھ شئیر کریں۔
*جزاکم اللہ خیرا کثیرا اجمعین*
ھذا من فضل ربی
ما توفیقی الا باللہ
*🤲🏻اللہ رب العزت اس ماہِ مبارک میں اپنے حبیبﷺ کے صدقے میں پوری امت کی بخشش فرمائے اور ہم سب کو سمجھ کر قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین*
💐💐💐💐💐💐💐💐

ماشاءاللہ مبارک باد مرکز عرفان القران کویت کی ٹیم  ۔۔۔سال 2024 میں جملہ فورمز میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر سند حسن کارکر...
02/03/2025

ماشاءاللہ مبارک باد
مرکز عرفان القران کویت کی ٹیم ۔۔۔سال 2024 میں جملہ فورمز میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر سند حسن کارکردگی کی حقدار ٹھہری۔

*مختصر خلاصہ پارہ نمبر 1*👇پہلا پارہ​*سورہ الفاتحہ* سورۃ الفاتحہ کو سورۃ الشفاء ، ام الکتاب، السبع للمثانی، سورۃ الدعا‘ س...
02/03/2025

*مختصر خلاصہ پارہ نمبر 1*👇

پہلا پارہ​

*سورہ الفاتحہ*

سورۃ الفاتحہ کو سورۃ الشفاء ، ام الکتاب، السبع للمثانی، سورۃ الدعا‘ سورۃ المسئلہ ،ام القرآن، سورۃ الکنز ‘ سورۃ الواقیہ ‘ سورۃ الکافیہ‘ سورۃ الرُّقیہ اور سورۃ الحمد کے ناموں سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کی عظمت کا بیان ہے‘ اس امر کا بیان ہے کہ عبادت کی حق دار صرف اسی کی ذات پاک ہے اور بالذات صرف اسی سے مدد طلب کی جائے اس میں اللہ کی بارگاہ سے دعا والتجا کے آداب بیان کئے گئے ہیں ۔

*سورۃ الفاتحہ کی فضیلت و عظمت*

یہ عظیم سورۃ ترتیب و تلاوت کے اعتبار سے قرآن کریم کی سب سے پہلی سورت ہے اس کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس کی قرأت کو ہرنماز کی ہر رکعت میں واجب قرار دیا گیا ہے ۔ سورہ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے اور آخری تین میں انسان کی طرف سے دعا و درخواست کا مضمون ہے جو رب العزت نے اپنی رحمت سےخود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی ایک آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں کچھ حمد و ثناء کا پہلو ہے کچھ دعا و درخواست کا۔
صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورہ فاتحہ) میرے اور بندے کےدرمیان دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی ہے اور جب وہ کہتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرےبندے نے میری تعریف و ثناء بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرےبندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ کیوں کہ اس میں ایک پہلو حق تعالیٰ کی حمد و ثناء کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعا و درخواست کا، اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی، پھر جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ(آخرتک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب میرے بندے کے لیے ہے اور اس کو وہ چیز ملےگی جو اس نے مانگی۔ (مظہری بحوالہ معارف القرآن) (صحیح مسلم ‘رقم الحدیث:877)

*سورۃ البقرہ*

سورہ البقرہ کا پڑھنا باعث برکت وثواب ہے، احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی فضیلت مذکور ہے، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے، شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ (ابن کثیر از حاکم)
اگر سورہ بقرہ طوالت کی وجہ سے روزانہ نہ پڑھی جاسکتی ہو، تو کم از کم سونے سے پہلے سورہ بقرہ کی آخری دو آیات ضرور پڑھ لینی چاہئیے، کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو شخص رات کے وقت سورہ بقرہ کی آخری دو آیات تلاوت کرے گا، تو یہ دو آیتیں اس کیلیے (ہر قسم کے آفات سے بچاؤ کے لئے) کافی ہو جائیں گی، (سنن ترمذی)۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ وہ گھر جس میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا“۔

جامع الترمذی حدیث #2881

پہلے پارے میں پانچ باتیں ہیں:

1۔اقسام انسان
2۔اعجاز قرآن
3۔قصۂ تخلیقِ حضرت آدم علیہ السلام
4۔احوال بنی اسرائیل
5۔قصۂ حضرت ابراہیم علیہ السلام

*1۔اقسام انسان تین ہیں:*

مومنین ، منافقین اور کافرین۔

مومنین کی پانچ صفات مذکور ہیں:
۱۔ایمان بالغیب ۲۔اقامت صلوۃ ۳۔انفاق ۴۔ایمان بالکتب ۵۔یقین بالآخرۃ

منافقین کی کئی خصلتیں
مذکور ہیں:

جھوٹ، دھوکا، عدم شعور، قلبی بیماریاں، سفاہت، احکام الٰہی کا استہزائ، فتنہ وفساد، جہالت، ضلالت، تذبذب۔

اور کفار کے بارے میں بتایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ ہے۔

*2۔اعجاز قرآن:*

جن سورتوں میں قرآن کی عظمت بیان ہوئی ان کے شروع میں حروف مقطعات ہیں یہ بتانے کے لیے کہ انھی حروف سے تمھارا کلام بھی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی، مگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کے کلام جیسا کلام بنانے سے عاجز ہو۔

*3۔قصۂ حضرت آدم علیہ السلام :*

اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانا، فرشتوں کا انسان کےبارے میں یہ کہنا کہ فساد اور خونریزی کریگا ، اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کو علم عطا فرمانا، فرشتوں کا اقرارِ عدم علم کرنا، فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کروانا، شیطان کا انکار کرنا پھر مردود ہوجانا، جنت میں آدم وحوا علیہما السلام کو شیطان کا بہکانا اور پھر انسان کو خلافتِ ارض عطا ہونا۔

*4۔احوال بنی اسرئیل:*

ان کا کفران نعمت اور اللہ تعالیٰ کا ان پر لعنت نازل کرنا۔ بنی اسرائیل اور اُن کی طرح طرح کی عہد شکنیوں‘ اُن پر مختلف انعامات اور اُن کی سرکشی کے مختلف انداز بیان کئے ہیں۔ پہلے تواللہ تعالیٰ نے ان پر نازل کی گئی اپنی کئی نعمتوں کا ذکر فرمایا جو یہ ہیں :فرعون اور فرعونیوں کے تسلُّط اور نسل کشی سے نجات دلانا‘ ان کیلئے سمندر کو پاٹ کر وادیِٔ سینا میں پہنچانا‘ وادیِ ٔسینا میں اُن پر طویل عرصے تک بادلوں کا سایہ فِگن ہونا‘ مَنّ وسَلویٰ کی صورت میں تیار خوانِ نعمت کا نازل کرنا‘ چٹان پر عصائے موسیٰ کی ضرب سے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشموں کا جاری ہونا‘ گائے ذبح کرکے اس کے ٹکڑے کو مقتول پر لگا کر قاتل کا پتا چلانا ‘ ان کو اپنے عہد کے لوگوں پر فضیلت دینا ‘ بنی اسرائیل میں بکثرت انبیائے کرام کی بعثت اور پھراس کے بعداُن کی سرکشی کا تفصیلی بیان ہوا ‘ جس کی تفصیل یہ ہے: ﷲتعالیٰ سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑنا‘ ان کے علماء کے قول وفعل کا تضاد ‘ دنیاوی مال کی لالچ میں بااثر لوگوں کے لئے اَحکامِ الٰہی میں ردّوبدل کرنا یا اَحکامِ الٰہی کو جان بوجھ کر چھپانا‘ موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر گئے توان کی عدم موجودگی میں بچھڑے کی پوجا کرنا‘ مَنّ وسَلویٰ کی گراں قدراور تیار سَماوی نعمت کو ٹھکرا کر گندم ‘ سبزی ‘ ککڑی ‘ مسور کی دال اور پیاز (یعنی زمینی پیداوار)کی فرمائش کرنا‘گویا اعلیٰ کو رد کرکے ادنیٰ کو طلب کرنا‘ انبیاء کو ناحق قتل کرنا‘ سَبت(ہفتہ) کے دن کی حرمت کو پامال کرنا‘گائے ذبح کرنے کے سیدھے سادے حکم کو ماننے کی بجائے اس کے بارے میں کئی سوالات اٹھانا‘ کلامِ الٰہی میں لفظی ومَعنوی تحریف (رد وبدل) کرنا‘ تورات وانجیل میں سیدنا محمد رسول کریمﷺ کے بارے میں بیان کی گئی بشارتوں کو چھپانا‘ شوہر اور بیوی میں تفریق کیلئے جادو سیکھنا اور اس کا استعمال ‘ اِشارات وکنایا ت اور لفظی رد وبدل کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی شان میں اہانت کرناوغیرہ؛

*5۔ قصہّ حضرت ابراہیم علیہ السلام:*

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کرنا اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں اسکی قبولیت کے لئے دعا کرنا اور پھر توبہ و استغفار کرنا
اس میں حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے منصبِ امامت پر فائز کئے جانے کا تذکرہ ہے ۔ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے بیت اللہ کو تعمیر کرنے کاذکر ہے اوراس امر کا بیان ہے کہ تعمیر ِ بیت اللہ کے بعد انہوں نے اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کی:اے ہمارے رب اِن (اہلِ مکہ) میں ‘ انہی میں ایک عظیم رسول کو مبعوث فرما ‘ جو ان لوگوں پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کی اصلاح کرے۔ قربان جائیں اس روح پرور دعائے خلیل پر، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیسی خوبصورت اور عظیم دعا مانگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ھی رب سے مانگ لیا، گویا پوری کائنات ہی مانگ لی، اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں حضرت عیسیٰ کی بشارت اور حضرت ابراہیم کی دعا کا ثمر(نتیجہ) ہوں ۔

صبغۃ اللہ “ (اللہ کا رنگ) کی تفسیر :

اللہ کے رنگ میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ کا دین ہے ‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض عیسائی اپنے بچوں کو پیلے رنگ میں رنگتے تھے اور کہتے تھے یہ اس کے لیے تطہیر ہے اور اب وہ عیسائیت میں داخل ہوگیا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ کے رنگ کو طلب کرو اور وہ دین اسلام ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کی فطرت ہے یعنی جس فطرت اور خلقت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے ‘ اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ کی سنت ہے۔ یعنی اللہ کا رنگ اختیار کرلو، اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کا دین ہے، اس کے تمام ظاہری، باطنی اعمال اور تمام اوقات میں اس کے تمام عقائد پر عمل کرو یہاں تک کہ یہ دین تمہارا رنگ اور تمہاری صفات میں سے ایک صفت بن جائے۔ پس جب یہ دین تمہاری صفت بن جائے گا تو یہ تمہارے لیے اس بات کو ضروری کر دے گا کہ تم خوشی، اختیار اور محبت سے اللہ کے حکموں کے آگے سرتسلیم خم کر دو اور دین تمہاری فطرت اور طبیعت بن جائے گا۔ جیسے کپڑے کو مکمل طور پر رنگ دیا جائے تو یہ رنگ اس کپڑے کی صفت بن جاتا ہے، تب تمہیں دنیاوی اور آخروی سعادت حاصل ہوجائے گی، کیونکہ دین مکارم اخلاق، محاسن اعمال اور بلند متربہ امور کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
بنابریں اللہ تعالیٰ نے برسبیل تعجب، پاک اور طاہر عقلوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : ﴿صِبْغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً﴾ یعنی کوئی اور رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں۔ جب تم کوئی ایسی مثال دیکھنا چاہو جو تمہارے سامنے اللہ کے رنگ اور کسی اور رنگ کے مابین فرق کو واضح کرے تو تم کسی چیز کا اس کی ضد کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھو۔
آپ اس بندہ مومن کو کیسا دیکھتے ہیں جو اپنے رب پر صحیح ایمان رکھتا ہے اور اس ایمان کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اپنے رب کے سامنے جھک جاتا ہے اور جوارح اس کی اطاعت کرتے ہیں، پس بندہ مومن ہر اچھے وصف، خوبصورت فعل، کامل اخلاق اور بلند صفات کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے اور گندی صفات، رذیل عادات اور دیگر تمام عیوب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ پس قول و فعل میں سچائی، صبر، بردباری، پاکبازی، شجاعت، قولی و فعلی احسان، محبت الٰہی، خشیت الٰہی، اللہ کا خوف اور اس سے امیدرکھنا، اس کا وصف بن جاتا ہے۔ پس اس کا حال معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک ہوجاتا ہے۔ اس کا مقابلہ اس بندے کے ساتھ کیجیے جس نے اپنے رب کا انکار کیا، اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوا اور کفر، شرک، جھوٹ، خیانت، مکرو فریب، دھوکہ، بد کرداری اور اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے مخلوق کے ساتھ برے سلوک جیسی صفات قبیحہ سے اپنے آپ کو متصف کیا۔ اس بندے میں اپنے معبود کے لیے اخلاص ہے نہ اس کے بندوں کے لیے حسن سلوک کا اہتمام۔
اس سے آپ کے سامنے وہ عظیم فرق ظاہر ہوجاتا ہے جو ان دو بندوں کے درمیان ہے اور آپ پر یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی دوسرا رنگ اللہ کے رنگ سے اچھا نہیں نیز ضمنی طور پر اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جس نے اللہ کے دین کے سوا کوئی اور رنگ اختیار کیا اس سے بدتر کوئی اور رنگ نہیں۔

اس کے بعد اس سورت میں اولادِ ابراہیم حضرت اسماعیل‘ حضرتِ اسحاق ‘ حضرت یعقوب اور ان کی اولاد حضرت موسیٰ وعیسیٰ اور اجمالی طور پر دیگر انبیائِ کرام علیہم السلام کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ اہلِ ایمان سب انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اورایمان کے لانے میں رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتےاور یہ بھی کہ حضرات ابراہیمؑ ‘ اسماعیل ؑ‘ اسحاق‘ ؑیعقوب ؑاور ان کی اولاد یہودی ونصرانی نہیں تھے‘ بلکہ سب کے سب ایک ہی دینِ اسلام کے علمبردار اور داعی تھے ۔
🎁🎁🎁💝💝🤲🎁🎁۔
پہلے پارہ کے ساتھ پہلی سحری،افطاری آپ سب کو مبارک🕋🌹
*ترتیب و تخریج: محمد عرفان عادل و روبیلہ غزل - مرکز عرفان القران کویت*
خود بھی پڑھیں اور دوسروں کے ساتھ شئیر کریں۔
*جزاکم اللہ خیرا کثیرا اجمعین*
ھذا من فضل ربی
ما توفیقی الا باللہ
*🤲🏻اللہ رب العزت اس ماہِ مبارک میں اپنے حبیبﷺ کے صدقے میں پوری امت کی بخشش فرمائے اور ہم سب کو سمجھ کر قرآن پاک پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین*
💐💐💐💐💐💐💐💐

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Salam Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share