The Journalist AK

  • Home
  • The Journalist AK

The Journalist AK ******

04/12/2023

رگڑے پے رگڑا لگتا ہی چلا جا رہا ہے

اگر یہ مقدمے اصلی ہیں تو پھر سزا مکمل ہونے سے پہلے ختم کیسے ہو جاتی ہے؟ اگر یہ مقدمے انتقامی ہیں تو عدالت سزا کیسے سنا دیتی ہے؟
تو جس عدالت نے انھی مقدمات میں پہلے سزائیں سنائیں وہ انصاف تھا یا جو عدالتیں اب انھی سزا یافتگان کو انھی مقدمات میں بری کر رہی ہیں وہ انصاف ہے؟

جو احتسابی ادارہ کل دل و جان سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کے اپنی ہی عائد کردہ فردِ جرم کی بنیاد پر ملزم کو زیادہ سے زیادہ سزا دلوانے پر کمر بستہ تھا وہی ادارہ آج اسی فردِ جرم کو پانچ منٹ میں کیسے یہ کہتے ہوئے واپس لے لیتا ہے کہ اگر عدالت ملزم کو بری کر دے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
کیسے پتہ چلے کہ یہ ادارہ کل دباؤ میں تھا یا آج دباؤ میں ہے یا کل بھی تھا اور آج بھی ہے؟
پس ثابت ہوا کہ کوئی شے قائم ہے تو وہ الہ دین کا چراغ ہے۔ سیدھا رگڑو تو ہر ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے، چھینی عزت بحال ہوجاتی ہے، پیروں تلے سے کھینچا جانے والا سرخ قالین پھر سے خود بخود کھلتا چلا جاتا ہے۔
کل تک پیچھے دوڑنے والا، دیواریں پھاندنے والا، ہتھکڑیاں ڈالنے والا دستہ اچانک سے ہٹو بچو ٹائپ محافظوں میں بدل جاتا ہے۔ زمین پر کیل کی طرح گڑے مقدمات اور ان مقدمات کے نتیجے میں کڑی سزائیں، اسپانسرڈ تزلیلات، کردار کشیاں، غدارانہ الزامات، ضبطیاں، میڈیائی سنسریات، غرض جملہ منفیات روئی کے گالوں کی طرح اڑنے شروع ہو جاتے ہیں اور سب کے سب بارِ دگر ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
گویا ہماری ریاستی ڈکشنری میں عروج کی جدید تعریف یہ ہے کہ ’پکڑ دھکڑ اور آزادی کے درمیانی وقفے کو عروج کہتے ہیں۔‘
یہی الہ دین کا چراغ الٹا رگڑا جائے تو دوڑتے اونٹ پر بیٹھے آدم کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ وہی انسان جسے قوم کی تقدیر بنا کے رائے عامہ کی منڈی میں جنسِ نادر کے طور پر اتارا جاتا ہے، پلک جھپک کے وقفے میں قومی خطرہ، جنسی کج رو، مال پیٹ تحریک کا سرغنہ، فاشسٹ، اقربا نواز، جھوٹا، بدتمیز، ریاست کا باغی، کسی بھی اعلی عہدے کے لیے ان فٹ اور جنتا کو گمراہ کرنے والا قرار پاتا ہے۔
ایسے خوش قسمت بدقسمت کا مقدر وہی کال کوٹھڑی بن جاتی ہے کہ جو خدا معلوم کب سے چراغِ الہ دین کے زخم خوردگان کا مسکن ہے اور اس کی سنگی دیواروں پر جلی حروف میں وقت سے نچڑی روشنائی نے لکھ دیا ہے،

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا (جالب)

پس ثابت ہوا کہ جس کے پاس الہ دین کا چراغ ہے وہی تخت کو تختہ اور تختے کو تخت بنانے پر قادر ہے۔ چاہے تو کٹھ پتلی میں حرکت پیدا کر دے نہ چاہے تو اسی کٹھ پتلی کو گودام میں رکھوا دے۔
فرض کریں جس کے پاس آج یہ چراغ ہے اس سے اگر کوئی چھین لے تو کیا ہم اس منحوس چکر ویو سے نکل آئیں گے؟ ہرگز نہیں۔ جس کسی کے پاس یہ چراغ ہو گا وہ اسے اپنے پسندیدگان و ناپسندیگان و پسماندگان کے لیے رگڑے گا اور اس کی بھی یہی خواہش ہو گی کہ سب کے سب کٹھ پتلیاں بن کے چراغ کی لو میں ناچیں اور انکار کریں تو اندھیر گودام میں پھینک دیے جائیں۔
یعنی چراغ کی اپنی کوئی سرشت نہیں ۔مظلوم کے ہاتھ لگ جائے تو اسے ظالم بنتے دیر نہیں لگتی۔ چھن جائے تو مظلوم بنتے دیر نہیں لگتی۔
اب ذرا ہمارے فیصلہ سازوں کی انفرادی و اجتماعی لفظیات ملاحظہ فرمائیے۔ میرے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں کہ آنکھ بند کر کے ’اوبڑ دی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین‘ پڑھوں اور ڈالروں کی برسات ہونے لگے اور پاک سرزمین خوشحالی سے جل تھل ہو جائے۔
میرے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ راتوں رات مسائیل حل ہو جائیں۔ یہ بحران میں نے پیدا نہیں کیا۔ اس گند کو صاف کرنے میں وقت لگے گا۔ جہاں آپ نے اتنا صبر کیا صرف چھہتر برس اور صبر کر لیں وغیرہ وغیرہ ۔
اور جب ان سے پوچھو کہ واقعی ان کے پاس جادو کی چھڑی یا الہ دین کا چراغ نہیں تو پھر وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس کے استعمال سے ایک شوگر مل بیس شوگر ملوں میں بدل جاتی ہے۔ پانچ لاکھ کے بیلنس میں پانچ اور صفر راتوں رات جڑ جاتے ہیں۔ گریڈ بائیس کے برابر تنخواہ میں اتنی برکت کیسے آ جاتی ہے کہ اندرون و بیرونِ ملک املاک کی تفصیل پیاز کے چھلکے کی طرح کھلتی چلی جاتی ہے۔

جنھوں نے نجات دھندہ، جادو کی چھڑی، گیدڑ سنگھی اور الہ دین کے چراغ سے نجات پالی وہ یورپ، امریکہ، جاپان، چین، برازیل، انڈیا اور بنگلہ دیش ہو گئے۔
ہم کیسے نجات پائیں اس چراغ سے جسے ہم نہیں بلکہ وہ ہمیں رگڑے جا رہا ہے اور رگڑے پر رگڑا لگتا ہی جا رہا ہے۔
شکستگی کا یہ درماں ہے تیرگی میں جئیں
چراغ ہو تو جلائیں لباس ہو تو سئیں

وسعت اللہ خان ( BBC, News)

22/11/2023

پہلے یہ باتیں سب بکواس اور بے ہودہ لگتی تھیں لیکن اب اپنی وہ سوچ اور خیالات بکواس اور بے ہودہ لگتے ہیں

ہم بھی میر بھی کی طرح سادہ تھے

1958میں مارشل لاء لگا کر جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ تو کرلیا، لیکن اسے معلوم تھا کہ پرانے سیاستدانوں کو ٹھکانے لگائے بغیر سکون سے حکومت کرنا مشکل ہوگا، لہٰذا ایبڈو (EBDO) کے نام سے نیب کی طرز پر ایک قانون بنایا، جس کے تحت سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے۔

جواب میں یا تو سیاستدان 7 سال تک سیاست سے بے دخلی قبول کرتا، یا فوجی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرتا۔

جن چند سیاستدانوں نے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا، ان میں عوامی لیگ کے بانی اور شیخ مجیب کے سسر جناب حسین شہید سہروردی بھی تھے، جو 12 ستمبر 1956 سے 17 اکتوبر 1957 تک وزیر اعظم رہے۔

سہروردی صاحب پر الزام لگا کہ بطور وزیراعظم انہوں نے اپنے ایک چہیتے صنعتکار کو بلا استحقاق امپورٹ پرمٹ دیا۔
فوجی عدالت میں سہروردی صاحب نے ریکارڈ سے ثابت کردیا کہ مذکورہ پرمٹ کے اجراء کیلئے وزارت تجارت کے سیکریٹری نے ان سے منظوری لی ہی نہیں، بلکہ خود ہی پرمٹ جاری کردیا۔

فوجی عدالت کے سربراہ کرنل نے سہروردی صاحب سے کہا کہ کسی سیکرٹری کیلئے یہ کیسے ممکن ہوا کہ متعلقہ وزیر اور وزیراعظم سے منظوری لیئے بغیر اتنا بڑا پرمٹ خود ہی جاری کردیا۔

سہروردی نے جواب دیا کہ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ وقت کے آرمی چیف نے اس کیلئے سیکریٹری پر دبائو ڈالا۔ (آرمی چیف ایوب اس وقت چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن چکا تھا)۔
یہ سن کر کرنل کا چہرہ پیلا پڑ گیا، اور کانپتے ہوئے پوچھا:
آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟.

سہروردی صاحب نے جیب سے ایوب کی ایک دستخط شدہ پرچی نکال کر دکھائی، جو وزیراعظم سہروردی کے نام تھی، اور ان سے مذکورہ صنعتکار کو پرمٹ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
سہروردی صاحب نے کہا کہ میں نے کیس دیکھ کر پرمٹ دینے سے انکار کردیا تھا، تو آرمی چیف نے وزیر اور وزیراعظم کی منظوری کے بغیر سیکریٹری سے پرمٹ جاری کروا دیا۔

اس گفتگو کے بعد سہروردی صاحب کو 7سالہ نااہلی کی سزا تو پھر بھی دی گئی، لیکن پریس کو عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے سے روک ديا گیا.
سہروردی کی جگہ شیخ مجیب نے عوامی مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور مسلم لفظ نکال دیا۔

یـہ تاریـخ کـا جھـروکہ ان کے لیـئے جـن کـو معلـوم نہیـں ملـک کیـوں ٹـوٹا.
پاکستان کی تاریخ کے وہ اوراق جو ہمیں کتابوں میں پڑھائے نہیں جاتے اور میڈیا عوام کو بتاتا نہیں ۔ جانئیے ، پاکستان میں جمہوریت کا خاتمہ کس نے کیا ۔

🚷 قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائد اعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔

🚷 اس پر قائد اعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا :
’’ میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں ۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے ۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔ ‘‘

⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
👈 مصنف: قیوم نظامی

🚷 قائد اعظم کا ایوب خان کے بارے میں غصہ بعد میں بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور جب وہ ڈھاکہ گئے اور انھیں فوجی سلامی دی گئی تو انھوں نے ایوب خان کو اپنے ساتھ کھڑے ہونے سے روک دیا ۔

⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: گوہر گزشت
👈 مصنف: الطاف گوہر

🚷 دراصل تقسیم کے زمانے میں امرتسر میں ہندو مسلم فسادات پر قابو پانے کے لئے ایوب خان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر وہ وہاں جا کر مہاراجہ پٹیالہ کی محبوبہ پر عاشق ہو گئے اور اپنا بیشتر وقت اسکے ساتھ گزارنے لگے اور فسادات پہ کوئی توجہ نہیں دی ۔ جس پر قائد اعظم نے سزا کے طور پر ان کو ڈھاکہ بھیجا تھا ۔

⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: گوہر گزشت
👈 مصنف: الطاف گوہر

🚷 اپنی اس تنزلی پر ایوب خان بہت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے قائد آعظم کے احکامات کے برخلاف اسوقت کے فوجی سربراہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے انہوں نے اپنے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی سے مدد مانگی ۔ شیر علی خان پٹودی پہلی فرصت میں کراچی سے راولپنڈی گئے اور کمانڈر انچیف سر فرینک میسروی سے اپنے دوست کی سفارش کی لیکن بات بنی نہیں ۔

⏪ بحوالہ :
👈 کتابب: گوہر گزشت
👈 مصنف : الطاف گوہر

🚷 لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ جس ایوب خان سے قائداعظم اس قدر نالاں تھے اسی ایوب خان کو لیاقت علی خان نے اس وقت کے سینئر ترین جنرل ، جنرل افتخار پر فوقیت دے کر فوج کا سربراہ بنا دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے بھی انکے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی اور دیگر رفقاء نے اہم کردار ادا کیا ۔

🚷 اور بد نصیبی دیکھئے ، وہی ایوب خان پاکستان کا پہلا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا اور پاکستان پر گیارہ سال تک حکومت کرتا رہا ۔

⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: The Crossed Sword
👈 مصنف: شجاع نواز

🚷 قائد آعظم خاص جمہوری انداز میں مملکت چلانا چاہتے تھے اور اسی حوالے سے کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے ۔ اس حوالے سے قائد اعظم نے ایک اور فوجی افسر اکبر خان کے مشوروں سے زچ ہو کر اس سے کہا تھا کہ آپ کا کام پالیسی بنانا نہیں ، حکومت کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے ۔

🚷 اور بعد ازاں وہی جنرل اکبر لیاقت علی خان کے خلاف بغاوت کے جرم میں گرفتار ہوا اور تقریباََ پانچ سال جیل میں رہا ۔

🚷 اور بد نصیبی دیکھئیے ، عدالت سے غداری کی سزا کاٹنے والے ، اسی جنرل اکبر کو 1973 میں بھٹو صاحب ، قومی سلامتی کونسل کا رکن نامزد کر دیتے ہیں ۔

⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
👈 مصنف: قیوم نظامی

🚷 بانی پاکستان جون 1948 میں سٹاف کالج کوئٹہ گئے تو وہاں گفتگو کے دوران ان کو اندازہ ہوا کہ اعلیٰ فوجی افسران اپنے حلف کے حقیقی معنوں سے واقف نہیں ہیں ۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھ کے فوجی افسران کو یاد دہانی کے طور پر ان کا حلف پڑھ کر سنایا ، اور انہیں احساس دلایا کہ انکا کام حکم دینا نہیں صرف حکم ماننا ہے ۔

⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
👈 مصنف: قیوم نظامی

🚷 بعد کے ادوار میں فوجی جرنیلوں نے اس حلف کی اتنی خلاف ورزی کی کہ ائیر مارشل اصغر خان کو لکھنا پڑا کہ میری تجویز ہے کہ اگر ہم پر جرنیلوں ہی نے حکمرانی کرنی ہے تو یہ الفاظ حلف سے حذف کردیے جائیں : ’’ْمیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں، خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو، حصہ نہیں لوں گا۔‘‘ 🔹

⏪ بحوالہ:
👈 کتاب: جنرل اور سیاست
👈 مصنف: اصغر خان
جنرل گریسی جب اپنے پیشہ ورانہ دورے پر لاہور گئے تو کرنل ایوب کو دیکھا اور بلا کو پوچھا کہ "آپ کو تو ڈھاکہ میں رپورٹ کرنی تھی تو آپ یہاں کیا کر رہے ہیں"جس پر ایوب خان نے کہا کہ وہ کراچی لیاقت علی خان سے ملنے جا رہے ہیں ۔۔ اس پر جنرل گریسی نے ایوب کے کورٹ مارشل کے آرڈر کئے اور انہیں اپنے ساتھ کراچی لے آئے ۔
بحوالہ میموریز آف اے سولجر ۔۔جنرل وجاہت حسین "سیکریٹری جنرل گریسی"
حاصلِ کلام : 👈❤👉
جس دن ہم نے پاکستان میں جمہوریت بحال کر دی اسی دن سے پاکستان ترقی کرنا شروع کر دے گا اور عوام خوش حال ہو جائیں گے ۔
اسرار عبدالله

20/11/2023

آپ نے کوئی کتاب پڑھی اور اس کتاب میں آپ نے کوئی سطر کہیں پر اپنی گفتگو میں بطور دلیل یا علمی بات کے یا کسی حوالے کے تحت تو وہ کتاب بےکار نہیں ہے۔
علم کے بارے میں میری رائے ہے کہ یہ توانائی ہے اور سائنس دانوں کا ماننا اور کہنا ہے کہ توانائی ضائع نہیں ہوتی بلکہ اپنی شکل بدل لیتی ہے۔
گرائمر میں جملوں کی بہت ساری اقسام ہیں ان میں کچھ کلمہ ہوتے ہوتے اور کچھ مہمل ایسی کتابیں مہمل ہوتی ہیں جب تک کلمے کے ساتھ نہ ملیں اپنی الگ سے کوئی شناخت نہیں رکھتیں۔ لیکن جب کلمے کے سارے ملتے ہیں تو کلمے میں ایک ترنم پیدا کر دیتے ہیں۔ اس لیے یہ بیکار نہیں ہوتیں۔

گزشتہ دنوں اسی قسم کی ایک کتاب عشق لاحاصل پڑھی ہوتی کتاب میں مجھے خاشئیے پر لکھنے کیلیے کچھ نہیں ملا لیکن یقیناً دماغ کے کسی کونے میں اپنے لیے بہتر کلمہ کے انتظار میں بیٹھی راہ تک رہی ہے۔

وہ ہم نشیں ہوتے ہیں تو معنی مل جاتے ہیں مجھے
میں کلید اردو کا مہمل، میری وقعت کیا ہے (جواد)

جواد لطیف بٹ

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا مأخذ:
20/11/2023

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے

دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا

مأخذ:

19/11/2023

کسی نے کیا خوب کہا ہے پاکستان تحریک انصاف بکھری نہیں نکھری ہے دعا کو دغا اور محرم کو مجرم بنانے کے اس عمل میں پاکستان تحریک انصاف سیاسی جماعت سے سیاسی نظریہ بن گئی ہے جماعت پر پابندی لگ سکتی لیکن نظریات کیا کریں گے۔
ملک کو دو لخت کرنے والے ملکی صنعتی ترقی کی ماں بہن کرنے والے بھٹو کو ابھی تک مار نہیں سکے۔ تو ملک کو قومی غیرت کا سبق دینے والے ایاک نعبد و ایاک نستعین کہنے والے شخص کو یس نے عوام کو سیاسی شعور دیا اس کو آپ کیسے ختم کرینگے؟

جواد لطیف بٹ

19/11/2023

ویسے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان پر یہ الزام کے یہ عالمی طاقتوں کے سامنے لیے جاتا ہے کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔
پاکستان کیلیے ویسے تو سبھی چوہدری ہی ہیں اور پاکستان انکا کمی لیکن امریکہ اور برطانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے ودے مائی باپ ہیں پاکستان کے اور پاکستان جیسے تمام ٹ پ ملکوں کے۔
پاکستان میں الیکشن کی تاریخ 8 فروری کو ہونے کی پیش گوئی نما فیصلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے منادی ہوا ہے لیکن کوئی آثار نہیں لگ رہے کیونکہ کوئی پی ٹی آئی کی سیاسی پکڑ دھکڑ کے علاؤہ کسی جماعت نے بھی کوئی جلسے جلوس نہیں نکالے اب تک سوائے پیپلز پارٹی کے سبھی جماعتیں سوشل میڈیا پر سرویز کروائے اور عوامی نبض سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب تک کے تمام سرویز کے پاکستان تحریک انصاف اسی فیصد سے زیادہ مقبولیت کے ساتھ سب کو دندل ڈال رہی ہے۔
انہی سرویز کو مد نظر رکھتے ہوئے مائی باپ بھی متحرک ہو گیے اور پیڈیم میں شامل بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں۔
انہی ملاقاتوں کی بنیاد پر میں پاکستان کے تھلے لگنے والے طعنے کا جواب دے رہا ہوں۔
برطانیہ اور امریکہ ہمارے مائی باپ ہوتے تو ہم ان سب کو باعزت طریقے سے اپنے پاس بھی بلا سکتے تھے اور یہ دم ہلاتے وہاں جاتے لیکن
رسم دنیا نبھانے کیلیے وہ خود گئے ہیں تاہم دم ہلانے واے آداب کو پیش نظر رکھتے ہوئے آصف زرداری نے کہہ دیا ہے کہ ملک صاف اور شفاف الیکشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔
آیندہ ڈیٹ اپ میں تام نٹی بڑی طے پا چکی ہے اس لیے الیکشن کے صاف اور شفاف آئینے پر پہلے سے طے شدہ نتائج بالکل صاف نظر آ رہے ہیں۔ ان صاف اور شفاف انتخابات سے کتنا سیاسی استحکام آتا ہے یہ الیکشن ہونے کے پانچ چھ ماہ بعد نظر سنگ لگے گا
تاہم شنید کے مطابق امریکہ اور برطانیہ پاکستانی معیشت کو نواز شریف کے قیادت میں آہنگ پاؤں پر کھڑا کرنے کیلیے ڈالروں کی بارش بھی کر سکتے ہیں۔
تاہم لائق پتر پڑھن بھایا
سولہ دونڑیں اٹھ

ان ڈالروں کی برسات کا انجام زیادہ بارش آتا ہے
تو زیادہ پانی آتا ہے
اور زیادہ پانی آتا ہے تو سیلاب آتا ہے
اور سیلاب آتا ہے تو تباہی آتا ہے

پیڈیم دور حکومت میں نواز شریف ورچوئل وزیر اعظم تھا اور آرمی چیف سے لیکر معیشت کیلیے اٹھائے گے سبھی اقدامات کا فیصلہ اور حکم نواز شریف کے ہی برین چائلڈ تھے۔ اس لیے الیکشن کے بعد کا منظر نامی 10 اپریل 2022 کو بننے والی حکومت اور اسکے نتائج سے زیادہ بدتر تو ہوسکتا ہے بہتر نہیں ہوسکتا۔
میرے خیال میں ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان اپنے مشکل سے مشکل ترین حالات کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔۔

جواد لطیف بٹ

19/11/2023

"ووٹ کو عزت دو" کے بیانیے کی ناکامی کے بعد پیش خدمت ہے۔
"جمہوریت نہیں حکومت چاہیے"
"ساڈی گل ہو گٸی جے" 😀

19/11/2023

مسئلہ تب ہوا جب خواتین کو قرآن کی تعلیم سے روکا گیا اور وہ رک بھی گئیں ۔
میری نانی دادی صرف قرآن پڑھی ہوئی تھیں اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھیں حالانکہ پیسے والے خاندان سے تھیں اور مالدار خاندان میں بیاہیں ۔پھر میری بڑی پھپھیاں اور خالائوں نے قرآن کے ساتھ صرف اردو لکھنا پڑھنا سیکھی لیکن قرآن کا ترجمہ کسی نے نہیں پڑھا۔پھر چھوٹی پھپھیو خالائوں کے زمانے تک وقت بدل رہا تھا تو انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی میری والدہ سمیت ۔
اور میرا دور آنے تک اعلی تعلیم تو لازم ہوگئی لیکن قرآن کے وہی من گھڑت تراجم تفاسیر چلتے رہے وہ بھی ان میں سے کسی کو پڑھنے کی فرصت نہ ملی 💔
وہ تو اللہ بھلا کرے میرے میاں کا جنہیں کتابیں جمع کرنے کا شوق تھا اور مجھے پڑھنے کا تو قرآن کے تراجم تفاسیر پڑھتے پڑھتے بخاری مسلم بھی پڑھ ڈالیں اور سوچنے والا ذہن اللہ کی عطا تھی تو فرق بھی سامنے آنا شروع ہوگیا قرآن اور انسانوں کی لکھی حدیثوں کا ۔لگا کچھ نہیں بہت گڑ بڑ ہے سو قرآن ڈائریکٹ لفظی ترجمے سے پڑھنے سمجھنے کی اللہ نے دل میں ڈالی ، اس ہی نےمدد بھی کی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ نے ہاتھ پکڑ لیا ہے شکر ہے میرے مالک کا 🙏
دلی خواہش ہے کہ دنیا بھر میں قرآن کے صرف لفظی تراجم ہی پڑھائے جائیں اسکولوں میں بھی اور مساجد میں بھی الہی آمین 🤲🙏
مہر افشاں

19/11/2023

رستہ فیر گوا دِتا ای
کہڑی راہ تے پا دِتا ای

ڈُبے ہوۓ پیار دے چن نوں
چنّاں! فیر چڑھا دِتا ای

جو کجھ تینوں کہنا نئیں سی
میرے توں اخوا دِتا ای

عشق دی تسبی کیتی جاواں
کہڑے آہرے لا دِتا ای

وصلاں ویلے دل نوں موہ کے
جذبے نوں چمکا دِتا ای

ایناں سوہنا ہسّیا نہ کر
پُھلاں نوں شرما دِتا ای

جوبن والی جھلک وکھا کے
یار صفی نوں ڈھا دِتا ای

(سرفراز صفی)

25/06/2023

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when The Journalist AK posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share