Public news chitral

Public news chitral Digital media network

19/07/2025

موضوع: یوسی کوہ کے عوام ڈرائیور حضرات اور اڈہ منشیوں کی وجہ سے شدید پریشان ۔۔

کالم نگار: شہاب ثنا

ڈپٹی کمشنر لوئر چترال، اسسٹنٹ کمشنر لوئر چترال، ڈی پی او لوئر چترال، اور ٹریفک پولیس انچارج لوئر چترال کے نام میرا ایک ہنگامی پیغام ۔۔
میں، بحیثیت ایک ذمہ دار اور فکرمند شہری، آپ تمام متعلقہ اعلیٰ حکام، یعنی ڈپٹی کمشنر لوئر چترال، اسسٹنٹ کمشنر لوئر چترال، ڈی پی او لوئر چترال، اور ٹریفک پولیس انچارج لوئر چترال سے انتہائی ادب اور احترام کے ساتھ یہ گزارش کرتی ہوں کہ ہماری آواز کو سنیں اور عوامی مشکلات پر توجہ دیں۔ ہمارا یہ ہنگامی پیغام نیو شاہی اڈہ کی بڑھتی ہوئی من مانیوں اور ناجائز کرایہ وصولی کے حوالے سے ہے، جس نے عام شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
نیو شاہی اڈہ کی بے لگام من مانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔۔۔ہم یہ دیکھ کر پریشان ہیں کہ جب بھی ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، نیو شاہی اڈہ بغیر کسی انتظار کے، اور سب سے پہلے، کرایوں میں من مانا اور بے تحاشا اضافہ کر دیتا ہے۔ یہ اضافہ عام عوام پر ایک ناقابل برداشت مالی بوجھ بن جاتا ہے، خصوصاً جبکہ آمدن کے ذرائع پہلے ہی محدود ہیں۔
اس کے برعکس، اگر ہم قریب ہی واقع بونی جانے والے اڈے پر نظر ڈالیں، تو یہ قابل ستائش ہے کہ وہ سرکاری نرخ نامے پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ یہ مثال واضح کرتی ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو کس طرح عوام دوست ہونا چاہیے۔ مگر نیو شاہی اڈہ پر صورتحال بالکل مختلف ہے۔ یہاں چترال سے کوغذی جانے والی گاڑیوں میں بھی اپنی من مانی عروج پر ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ گاڑیاں اڈے سے تھوڑا آگے کھڑی کرکے مسافروں سے زیادہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے، اور اس عمل میں نیو شاہی اڈہ کے تمام منشی حضرات بھی پوری طرح ملوث ہیں۔ کرایہ وصولی میں شاہی اڈہ سب سے آگے ہے، جو کہ غریب عوام کی جیبوں پر سراسر ظلم ہے۔
ضلعی انتظامیہ کی خاموشی اور عوام کے سوالات
حال ہی میں مجھے اس صورتحال کا ذاتی طور پر سامنا کرنا پڑا۔ تین دن قبل جب میں کوغوزی سے چترال آئی تو مجھے 200 روپے کرایہ ادا کرنی پڑی ، لیکن واپسی پر اسی فاصلے کے لیے 150 روپے کا مطالبہ کیا گیا۔ حلانکہ راستہ اتنا لمبا بھی نہیں ۔۔جب کہ کرایہ نامہ پہلے سے ہی موجود ہے ۔۔جب میں نے اعتراض کیا اور ضلعی انتظامیہ سے شکایت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، تو ایک ڈرائیور نے جو بات بتائی وہ انتہائی صدمہ انگیز اور تشویشناک تھی: "ضلعی انتظامیہ شاہی اڈہ کے مالکان کے اشاروں پر چلتی ہے!"
یہ دعویٰ سن کر نہ صرف میرا دل دکھا بلکہ مجھے یہ سوالات کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا:
* کیا ضلعی انتظامیہ واقعی شاہی اڈہ کے مالکان کی غلام ہے؟کیا ضلعی انتظامیہ کا کام عوام کی ترجمانی کرنے کے بجائے شاہی اڈہ والوں کی ترجمانی کرنا ہے؟
ہم ضلعی انتظامیہ سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سنگین مسئلے کا فوری اور سخت نوٹس لیں۔ نیو شاہی اڈہ کے خلاف ٹھوس قانونی کارروائی کی جائے اور انہیں سختی سے پابند کیا جائے کہ وہ سرکاری نرخ نامے پر عمل درآمد کریں۔ غریب عوام کی جیبوں پر یہ ڈاکا بند ہونا چاہیے۔ ہمارا یہ پختہ مطالبہ ہے کہ اس ظلم کا خاتمہ کیا جائے اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ اور ساتھ ساتھ ڈرائیور حضرات اور منشیوں سے بھی پوچھا جائے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟
ہمیں امید ہے کہ آپ ہماری اس فریاد پر فوری توجہ دیں گے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مؤثر اور عملی اقدامات کریں گے تاکہ چترال کے شہری اس بے جا مالی بوجھ سے نجات حاصل کر سکیں۔
شہاب ثنا ۔۔۔

ہنگو میں خوارجی دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن ہنگو کے علاقے دوآبہ میں پولیس نے شناوڑی زرگری میں خفیہ اطلاع پر دہشت گر...
19/07/2025

ہنگو میں خوارجی دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن

ہنگو کے علاقے دوآبہ میں پولیس نے شناوڑی زرگری میں خفیہ اطلاع پر دہشت گردوں کے خلاف اہم آپریشن کیا۔ آپریشن کے دوران چترال سے تعلق رکھنے والے ڈی پی او ہنگو محمد خالد خان زخمی ہو گئے۔

پولیس کی جوابی کارروائی میں چار خوارجی دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے۔ زخمی ڈی پی او کو فوری طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا، حالت خطرے سے باہر ہے۔

پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت کارروائی سے علاقے میں ایک بڑا سانحہ ٹل گیا۔

چترال کے لیے ایک اور قابلِ فخر لمحہچترال سے تعلق رکھنے والے 30 سے زائد باصلاحیت اسٹینوگرافرز کی سفارشات سول سیکرٹریٹ میں...
08/07/2025

چترال کے لیے ایک اور قابلِ فخر لمحہ

چترال سے تعلق رکھنے والے 30 سے زائد باصلاحیت اسٹینوگرافرز کی سفارشات سول سیکرٹریٹ میں منظور کر لی گئی ہیں، جو کہ نہ صرف ان امیدواران کی محنت، قابلیت اور صبر کا نتیجہ ہے بلکہ پوری چترالی قوم کے لیے باعثِ مسرت اور فخر بھی ہے۔

یہ پیش رفت چترالی نوجوانوں کی تعلیمی استعداد، پیشہ ورانہ سنجیدگی اور سرکاری شعبوں میں بڑھتی ہوئی شمولیت کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ یہ کامیابی ایک امید بن کر ابھری ہے جو آنے والے وقت میں مزید مواقع کی راہ ہموار کرے گی۔

ہم تمام کامیاب امیدواروں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ایمانداری، خلوص اور قوم کی خدمت کے جذبے سے سرانجام دیں گے۔

یہ دن نہ صرف ان نوجوانوں کا ہے، بلکہ پورے چترال کے لیے خوشی کا دن ہے

اسلام و علیکم احباب ،،،! مجھے دوبارہ بلیک میل کرنے کی کوشش کیا جارہا ہے  صوفیہ پروین (Feya V log) کا اور میرا رشتہ 2 سال...
19/06/2025

اسلام و علیکم احباب ،،،!

مجھے دوبارہ بلیک میل کرنے کی کوشش کیا جارہا ہے
صوفیہ پروین (Feya V log) کا اور میرا رشتہ 2 سال پہلے ختم ہو چکا ہے حق مہر ادا کر چکا ہوں۔
ہمارا فیملی کیس ہائیکورٹ پر جاری ہے میرا سابقہ اہلیہ میرے لئے عزت کے حامل ہے۔ میری ایک بیٹی ایضاًء الملک سابقہ اہلیہ کے پاس ہے انکی خاطر بہت سارے چیزیں قربان کر رہا ہوں اور برداشت کر رہا ہوں
یہ میرا ذاتی معاملہ ہے بعض سیاسی مخالفین اس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔میں نہ ایم۔پی۔اے فاتح الملک علی ناصر کا کوئی عہدہ دار ہوں اور نہ ہی میں نے ایم پی اے یا کسی اور پارٹی لیڈرشپ کو اپنی ذاتی معاملہ میں گھسیٹا ہے یہ محض میری سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی ایک گھناؤنی سازش ہےجس میں پی۔ٹی۔ائی چترال کی دوسرے لیڈر شپ کو خواہ مخواہ کھسیٹا جارہا ہے۔ سیاست میں میرا ایکٹیو ہونا میرے مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہے ہیں عوام چترال کے لوگون کی فی سبیل اللّٰہ خدمت کر رہا ہوں !
اس مسئلے کے حوالے سے عنقریب ایک ویڈیو پیغام جاری کرونگا جس میں تمام دستاویزات، ثبوت اور دلائل پبلک کے سامنے لاونگا۔
موصوفہ سوشل میڈیا پر اظہار ہمدردی لینے کی کوشش کر رہی ہے اسکے فیس بک اکاؤنٹ اور ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر جاکر اسکی موج مستیاں دیکھیں کیا ایک عزت دار خاتون کو اسی طرح زندگی گزارنی چاہیے یا ایسی عورت کے ساتھ مجھے زندگی بسر کرنی ہے ؟
مجھ سے طلاق لینے سے پہلے موصوفہ نوشہرہ اور صوابی میں 2018 سے پہلے شادی کرکے ان سے طلاق لیکر حق مہر ادا ہونے کے باوجود ان کو بھی عدالت گھسیٹ چکے ہیں جن کے ثبوت کل اپلوڈ کرونگا
7 سال پہلے مجھے بلیک میل کرکے میرے ساتھ شادی کی اب مجھے بلیک میل کرکے 40 لاکھ کا مطالبہ کر رہی ہے جو سوات ہائیکورٹ سے زیر سماعت ہے

نوٹ میرا وکیل ایڈوکیٹ فرید نثار بھی کل اس حوالے سے وضاحتی بیان جاری کریں گے ؛ 9.5.2025 کو ہائیکورٹ میں کیس تھا اب گلے تاریخ کا انتظار ہے ۔
تمام سوشل میڈیا صارفین اور پیج ایڈمن صاحبان سے گزارش ہے کہ ایک فیملی میٹر کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنایا جائے ,

اظہار دستگیر
رہنما پاکستان تحریک انصاف

حالیہ PSDP میں چترال کی سڑکوں کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص – اہم منصوبے شاملوفاقی حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PS...
11/06/2025

حالیہ PSDP میں چترال کی سڑکوں کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص – اہم منصوبے شامل

وفاقی حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) 2025-2026 میں چترال کے اہم شاہراہوں کی تعمیر و بحالی کے لیے خطیر رقم مختص کی ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد نہ صرف چترال کو باقی ملک سے بہتر طور پر منسلک کرنا ہے بلکہ سیاحت، تجارت اور مقامی لوگوں کی نقل و حرکت کو بھی آسان بنانا ہے۔

حالیہ بجٹ میں جن اہم سڑکوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے، ان میں شامل ہیں:

1. چترال – شندور روڈ:
یہ سڑک چترال کو گلگت بلتستان کے علاقے شندور سے ملاتی ہے اور ہر سال ہونے والے شندور پولو فیسٹیول کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس سڑک کی بہتری اور توسیع کے لیے 4.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

2. کیلاش – چترال روڈ:
کیلاش وادیوں کو چترال شہر سے جوڑنے والی یہ سڑک سیاحتی لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ وادی کیلاش میں سال بھر ہزاروں سیاح آتے ہیں، جن کی سہولت کے لیے اس سڑک کی اپ گریڈیشن ضروری سمجھی گئی ہے۔ حکومت نے اس مقصد کے لیے 2.3 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

3. لواری ٹنل تا میرکھنی روڈ:
لواری ٹنل، جو چترال کو دیر اور ملک کے دیگر حصوں سے ملاتی ہے، سے آگے میرکھنی تک کی سڑک کی حالت خستہ تھی۔ اس کی بحالی اور کشادگی کے لیے 3.8 ارب روپے رکھے گئے ہیں

4. کلکٹک – چترال روڈ:
کلکٹک سے چترال تک کا راستہ بھی اہم تجارتی اور سفری روٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس سڑک کی بہتری کے لیے 1.6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

09/05/2025
لوئر چترال پولیس نے فارنر ٹورسٹ کا گمشدہ پاسپورٹ و ویزہ دھونڈ کر اس کو حوالہ کیا   نیوزی لینڈ سے آئے ہوئے مہمان سیاح کا ...
10/04/2025

لوئر چترال پولیس نے فارنر ٹورسٹ کا گمشدہ پاسپورٹ و ویزہ دھونڈ کر اس کو حوالہ کیا

نیوزی لینڈ سے آئے ہوئے مہمان سیاح کا پاسپورٹ و ویزہ تھانہ ایون کے حدود میں دوران سفر گرکر گم ہوگیا تھا جس کو ٹوارزم اور مقامی پولیس نے دھونڈ کر ایس۔ایچ۔او کو حوالہ کیا ۔

ایس۔ایچ۔او تھانہ ایون SI عطاءالرحمن نے مہمان سیاح کو اپنے آفس میں بلاکر پاسپورٹ و ویزہ ان کے حوالہ کیا جس پر مہمان سیاح نے ٹوارزم اور مقامی پولیس کی بھرپور تعاون پر شکریہ ادا کیا اور ان کی تعریف کی۔

#کوغذیپوسٹ

30/03/2025

ایک اور مبینہ خودکشی کا واقعہ
آیون ہائیر سکینڈری سکول کے سکینڈ ائیر کے سٹوڈنٹ نے مبینہ طور پر خود کشی کر لی ، لاش پوسٹ مارٹم کیلئے ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال منتقل ، خود کشی کی وجہ معلوم نہ ہو سکی

چترال آیون غو چھاکوہ کے رہائشی سکینڈ ائیر کے سٹوڈنٹ امجد ولد محمد اکبر نے اتوار کی صبح مبینہ طور پر بندوق سے خود پر فائر کھول کر خود کشی کر لی ۔ نوجوان کی خود کشی وجہ معلوم نہ ہوسکی ہے ،تاہم اصل حقائق پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی سامنے آ سکتے ہیں ۔ امجد کاخاندان کاافراد پاک افغان بارڈر ارسون سے تعلق رکھتا ہے ۔ جو ہجرت کرکے آیون کے مقام غوچھار کوہ میں رہائش اختیار کی ہے ۔ اتوار کی صبح امجد کی خود کشی کا واقعہ پیش آیا ۔ جس کی لاش کو پولیس تھانہ آیون نے اپنی تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کیلئے چترال روانہ کر دیا ہے ۔ آیون پولیس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے ۔

fast news chitral

عنوان: چترال ایک گلدستہ ہےتحریر: محمد حمید اللہ آف برغوزی  اس کا ہر برگ آئنہ روئے چمن آرا کا ہے دیدنی ہے یہ چمن گر ہم نظ...
22/03/2025

عنوان: چترال ایک گلدستہ ہے
تحریر: محمد حمید اللہ آف برغوزی

اس کا ہر برگ آئنہ روئے چمن آرا کا ہے
دیدنی ہے یہ چمن گر ہم نظر پیدا کریں۔

وادی چترال میں بہار کا آغاز ہے۔ کوہ و دشت برف کی سفید چادر اتار کر سبز لباس اوڑھنے کی تیاری میں مصروف ہے۔
تمام ثمر اور درختوں کے پھول اپنی اپنی بو قلمونی سے جمالیاتی ذوق رکھنے والے نوجوانوں کی عشقیہ نگاہوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ان کے تڑپتے دل ان مناظر کو موبائل کے شیشے میں اتارنے اور یار احباب کو دکھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ یوں اراندو سے قرام برا، اور شندور سے گوبور"لوٹ کوہ " تک کے مناظر کو اج میں نے بھی نوجوانوں کی وساطت سے دیکھا۔ان کے جذبہ وطنیت کو دیکھ کر میری باسی کڑاہی میں ابال ایا کہ چترال میرا بھی ہے۔ تو میں نے بھی روزے کی قید و بند کے عروج میں کاغذ٫ قلم٫ سنبھال۔ کلمہ٫ فعل٫ حرف اور اسم کے اوزار اٹھاکر میدان سفید میں میزا داغ دہلوی کے دو مصرعوں کو نو جوانوں کے لئے للکار بناکے اترا۔ حضرت خضر جب شہید نہ ہو۔ لطف عمر دراز کیا جانیں۔
جو گزرتے ہیں داغ پر صد مے اپ بندہ نواز کیا جانیں۔

بزرگو اور جوانو! بزرگوں کو تو میں ناچیز کیا بتاوں؟وہ تو ہمارے علمی دیواں ہیں۔ انہی کی علمی ذخیرے سے ہمارا قلم تحریر کی مسافت کے دوراں ذاد راہ لیتا رہتا ہے۔ وہ ہمارے اسلاف فکر و دانش رہ بھی گئے ہیں گنے چنے۔ اللہ ذندہ رکھے ان کی ہر نفس سفینہ حیات چترال کے لئے ایندھن کا کام دیتی ہے۔ ادب و احترام کی قید چترالی تہذیب یہی ہے کہ اپنے بڑوں کے سامنے دو زانو بیٹھیں، پاوں نہ پھیلائں، وہ بول رہے ہوں تو انکی بات نہ کاٹیں۔ تم بول رہے ہوں تو مخاطب بزرگ ہوں۔ الفاظ ملائمت اور متانت کے لہجے میں ہوں۔ اور رنگ و روپ، لطافت اور شرافت سے لبریز ہو۔۔
چترال کا اصل منظر اس کی تہذیب٫ تمدن، راست بازی، پاکبازی امانت و دیانت اور نیک نامی و پاک دامنی ہے۔ نہ کہ پہاڑوں کی سرسبزی یا زمین کی زرخیزی۔ یہ صفت دوسرے نمبر پہ اتی ہے۔پہلے خود کو انسانیت کے چمن کا ایسا گلاب بنائیں کہ تیری مہک سے وادی چترال معطر ہو اور سارے پاکستان میں تیری شرافت اور لیاقت کا شہرہ ہو۔ اسی لئے میں نے بھی بزرگوں کو مخاطب کیا ہے جو ان کا حق ہے۔

وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ انسان تو کیا جنگلی حیات کا بھی اپنی اپنی علاقائی حد بندی ہوتی ہے۔ اسی پر ان کے ہاں بھی نوبت کشت و خون کی اتی ہے۔ وطن کے لئے وقت٫ مال٫ جان دینا کوئی گران سودا نہیں۔ بہت ارزان سودا ہے۔ وطن محبوب ہے معشوق ہے۔ اس کے لئے تن من دھن کی قربانی عاشق کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی میں عاشق کی شان، وفا اور بقا ہے۔
بقول سودا!
موقر جان اور باب ہنر کو بے لباسی میں
کہ ہو جو تیغ یا جوہر اسے عزت ہے عریانی۔

وادی کہسار چترال قراقرم اور کوہ ہندوکش کے فلک بوس پہاڑوں کے درمیان چھوٹے بڑے دیہات پر مشتمل ایک وادی ہے۔ صناع حقیقی نے چاروں طرف بلند و بالا پہاڑوں کی کیل ٹھونس کر اس کی محفوظیت اور مامونیت کا سامان کیا ہے ورنہ ہم کسی کام کے نہ تھے۔
بقول اقبال:
جو خزان نادیدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہی نہیں۔

اپنی مدح سرائی میں ہم اج غیور٫ شریف اور امن پسند وغیرہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں۔ ہم آزمائے ہوئے نہیں ہیں۔ اس لئے کہ رب نے حفاظت کا سامان کیا ہوا ہے۔ اللہ کا ہزار بار شکر کرنا چاہئے۔ اب لواری کی عافیت اور موبائل کی تربیت سے بگاڑ پیدا ہو گئا ہے۔ اپنا خیال رکھ اور خود کو خواب غفلت سے جگا اور اس گلدستے کی پتیاں بکھرنے نہ پائیں۔ اس لئے کہ

ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی ذندگی میں۔

جس کے دوست دشمن نہ ہوں البتہ وہ فرشتہ ہے انسان نہیں۔رہتی دنیا میں بغیر دوست دشمن کے وجود ہی باقی نہیں رہتا۔طاقتور دشمن کے ہوتے ہوئے تو طاقتور رہتا ہے۔ لہذا ہر وقت لوح و قلم٫ تیر و تبر سے لیس رہنا چاہئے۔ اسباب حفاظت سے انکار ہلاکت ہے۔ وقت اور دشمن کی نوعیت کے مطابق مقابلے کی حفاظتی سامان ضرب و حرب اور تربیت برائے تقویت لازمی ہے۔ مگر اپنے وطن اپنی تہذیب اور اپنے زبان و ادب کے سب سے بڑے دشمن اور دوست اپ خود ہیں۔ اپ کی لاعلمی اور جہالت دشمن کے ہاتھوں کھلونا بنادیتی ہے۔ آپس میں نفرت نفاق، عدم شرکت مراسم بگاڑ کے اسباب ہیں۔ یہ موجود ہوں تو بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔ اگر بے موقع اور بے محل ہوں تو قبائلی امتیازات٫ مسالکی اعتراضات و اختلافات بربادی میں ایٹم سے ذیادہ طاقتور ہیں۔ گلدستہ چترال فساد کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

میرے عزیزو! بے شک میں چترالی ہوں۔ ایک دیہاتی ہوں۔ عوامی معلومات کے مراکز تک میری کوئی ایسی رسائی نہیں جو شہر والوں کی ہے۔ جدید مواصلاتی نظام کا بھی علم نہیں رکھتا۔ جس نے گلی گلی قریہ قریہ خون کی ندیاں بہادی ہے۔ بس میری عمر، مشاہدہ اور سوچ بچار میرے خیالات کے ،ماخذ ہیں۔ جو آپ تک پہنچاتا ہوں۔ میرا فرض ہے۔ وقت کا تقاضا کیا ؟ اپ فیصلہ کریں۔ ملک خداداد آتشکدہ بنا ہوا ہے ۔ الاو تھمتا نہیں۔

میرے دوستو! گزشتہ بیس سالوں سے پھول جیسے بیٹے قربان ہورہے ہیں۔ بیرونی دشمن اور اپنے نادان بیٹے تبر میں دستہ بن کے اپنی ہی ٹانگوں کو کاٹ رہے ہیں۔ دشمن مغرور خود معذور۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے اسد۔
لڑتا ہے اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔۔

اپنی زبان و قلم سے ایسی بات نہ بولنا چاہئے نہ لکھنا چاہئے۔جس سے پاکستان خصوصا چترال کی مذہبی٫ سماجی٫ ثقافتی٫ لسانی اور روایتی الفت و یگانگت کے گلدستے کو زک پہونچے۔ جو نو وارد دوست یا بے خبر نوجوان گلستان چترال میں مقیم ہیں ۔ ایسی بات ہر گز نہ کریں جس سے چترالی تہذیب کا پھول ازردہ اور چمن افسردہ ہو۔
ہر کوئی اپنے چترال کی دور افتادگی٫ ںپسماندگی٫ مذہبی٫ لسانی اور جغرافیائی پیچیدگیوں کو دیکھیں۔ یوں مذہب، تہذیب اور روایات کے خلاف نہ کچھ بولے نہ کچھ لکھے کہ کہی ازادی کے نام پر بربادی نہ ہو۔
بقول اقبال:

افسردہ اگر اس کی نوا ٫ سے ہو گلستان ۔
بہتر ہے کہ خاموش رہیں مرغ سحر خیز۔

کیونکہ ہمارے مزاہب٫ ہماری تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب اس حدود اربعہ کے اندر انگوٹھی میں نگینہ جیسے ہیں۔ہمیں اپنے پر وقار چترال کو پارہ چنار٫ لکی مروت٫ بنوں اور
ڈی ائی خان نہ بننے دینا چاہئے۔ سکولوں کالجوں اور دارالعلوموں میں اساتذہ کرام پاکستانیت، چترالیت اور ہم آہنگی و یگانگت پر باقاعدہ لکچر دیا کریں۔ یہ تمام مضامین سے اس وقت لازمی مضمون ہے۔ خاص کر ہماری وادی"چترال" زبانوں٫ روایات٫ مذاہب اور دیگر رنگینیوں کا صدیوں پرانا گلدستہ ہے۔ مزید گل و بلبل درامد کرنے کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔
ہمیں پرانے ہی حال میں مہکنے دیں اور چہکنے دیں۔۔

نہ پایمال کریں مجھ کو زایران چمن
انہیں کی شاخ نشیمن کی یادگار ہوں میں۔

Courtesy Koghuzi Post کوغزی پوسٹ

عنوان: "گلستان کے سائے میں"تحریر: محمد حمید اللہ آف برغوزی چترال لقمان را گفتند”حکمت از کہ اموختی؟گفت"از نابینایاں"کہ تا...
14/03/2025

عنوان: "گلستان کے سائے میں"
تحریر: محمد حمید اللہ آف برغوزی چترال

لقمان را گفتند”حکمت از کہ اموختی؟
گفت"از نابینایاں"کہ تا جائے نہ یافتند پاے نہ نہند"

لقمان کی فہم و فراست اور دانائی و حکمت زبان ذد خاص و عام ہے۔ قران کریم میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ آخر تو نے یہ علم و حکمت کس سے سیکھی؟ تو اس نے نہایت مختصر مگر انتہائی تشریح طلب جواب دیا۔"کہ بینائی سے محروم لوگوں سے "وہ اس وقت تک قدم نہیں رکھتے جب تک لاٹھی کی نوک سے ٹٹول کر یقین نہ کرلیتے کہ یہاں میرا پاوں ٹک جائے گا۔

علم الاخلاق کی کتابوں اور مذہبی تشریحات میں دنیا کو ظاہرا عبث چیزوں سے تشبیہ دئے سب نے پڑھا ہے۔ مثلاً سرائے٫خیمہ٫سستانے کی جگہ٫ مکھی کا پر اور آخرت کی
کھیتی وغیرہ۔ ارشاد بجا ٫ کسے انکار ہے؟ معلوم تاریخ سے تا اندام انبیائے کرام٫ ائمہ عظام٫ جابر و قاہر حکمران سلاطین باجبروت آئے اور گئے۔ تاقیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا اور دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کئے بغیر زندگی خوب و زشت ممکن نہیں۔ مخلص کاشی نامی ایک صوفی صاحب کی نظر میں دنیا کی تعریف دیکھیں"
طاس حمام است این دنیائے دوں۔
ہر زمان در دست ناپاک دگر۔

شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے لقمان کے اس قول کو عنوان بنا کر ہر کام کی ابتدا سے پہلے عقل ودانش ٫اسباب حاضر اور تفکر وتدبر کے استعمال کا کہا ہے۔ مزید اہل خرد٫ عوام الناس سے بھی مفاہمت و مشاورت نقصان و زیان کے میزان میں تولتے ہوئے ہونی چاہئے۔
جسطرح ایک اندھا اپنا پاؤں زمین پر جمانے سے پہلے عصا کے سہارے ٹٹولنے لگتا ہے۔ اطمینان قلبی٫ یقین سلامتی کے بعد قدم بڑھاتا ہے۔ اگر اندیشہ زحمت و مصیبت غالب ہو قدم نہیں بٹھاتا۔ خواہ لمحے کی ہو یا ہزار سال کی۔ تب بھی اس پاس مضافاتی خیر و شر کے اسباب کا جائزہ لینا چاہئے۔ دل میں آئی ہر خیال پر مہمیز نہ ہو۔ جس طرح پاک سر زمین کے ارباب اختیار اور ماہرین کرتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم ٫ اسٹیل مل، پی آئی اے وغیرہ نا عاقبت اندیشی کی بے شمار مثالیں ہیں۔
لہذا سفر ہو کہ حضر، تعمیر ہو کہ تخریب، دوستی ہو کہ دشمنی، شادی ہو کہ طلاق، جنگ ہو کہ امن، زیست ہو کہ موت کسی بھی حالت میں جلد بازی نہ ہو۔ گفتار و رفتار سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ ایک فقرے سے آگ بڑھکے گی، عمر بھر کی قربانی سے ایک تنکا مشکل سے سبز ہوگا۔ بربادی عجلت و سرعت میں آتی ہے۔ آبادی و شادابی مدت میں۔ اگر ہم اس طاس حمام میں ایک سیکنڈ کے لئے آئے ہیں تو اس طاس کو ناقابل استعمال چھوڑ کے نہیں جانا ہے۔ حمام میں انے والے اس طاس کو استعمال کرکے پاکی حاصل کرینگے۔ افسوس حمام سے گیا آدمی واپس نہیں آتا تا۔ بقول کلیم شیرازی:

وضع زمانہ قابل دیدن دوبارہ نیست۔
رو پس نہ کرد ہر کہ ازین خاکدان گذشت۔

مطلب یہ گیا آدمی لوٹ کر اپنے باقیات کو نہیں دیکھ سکتا ۔مردوں کا کیا کہنا ؟ زندہ ظالم ٫بےشرم و بےحیا ڈوبتے نہیں مرتے نہیں کہ انھوں نے اپنے دور سلطانی میں اس ملک کے ساتھ کیا کیا؟ وہ افراد جن میں عقل خرد کا فقدان ہو۔ سوچ بچار سے محروم ہوں۔ انسانیت کی بہبودی کو کیا جانیں؟
بقول سعدی!
حدیث عشق چہ داند کسے کہ در ہمہ عمر۔
بہ سر نہ کوفتہ باشد در سرائے۔ را۔

علامہ کا یہ شعر سعدی کے شعر کا ہوبہو ترجمہ ہے۔

جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا
کسے خبر کہ تو ہے سنگ خارا یاکہ زجاج؟

لہذا بے تجربہ بے سوچ بے خرد اور ناعاقبت اندیش لوگ قوم کی کشتی گرداب میں ڈبو دینگے ۔ اللہ ایسے رہنماوں سے بچائے۔ آمین ثم آمین
Courtesy Koghuzi Post کوغزی پوسٹ


#کوغذیپوسٹ

اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن.آج چترال کا ایک اور بیٹا مادر وطن کے لیے جان قربان کر لیا.سپاہی آصف علی چترالی...
08/03/2025

اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن.
آج چترال کا ایک اور بیٹا مادر وطن کے لیے جان قربان کر لیا.
سپاہی آصف علی چترالی 15 دن پہلے
مہمند ایجنسی گورسل گیٹ ٹکری نالا ٹینک پوسٹ پر افغان مارٹر گولے سے زخمی ھوےتھےآج ھسپتال میں تین بجے اٰللٰہ ﷻ کو پیارا ھوگیا۔اس کا تعلق اپر چترال ریشن سے ہے.
اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن ۔
رب ذٌالجلال اُنہیں اخیرت میں اٰعٰلٰی مقام عطا فرمائیں۔
امین ثُمہ امین
Public news chitral

عنوان: گلستآن کے سائے میںتحریر: محمد حمیداللہ برغوزیتاریخ:۴/۳/۲۰۲۵اللہ پاک کی دی ہوئی کتنی نعمتوں کو ہم  شمار کرینگے اگر...
04/03/2025

عنوان: گلستآن کے سائے میں
تحریر: محمد حمیداللہ برغوزی
تاریخ:۴/۳/۲۰۲۵

اللہ پاک کی دی ہوئی کتنی نعمتوں کو ہم شمار کرینگے اگر کرنے لگین عمر ختم ہوگی ہم پہلے صفحے پر ہی ہونگے۔ اللّٰہ پاک وہ سخی ذات ہے کہ اس کی سخاوت کا دسترخوان گبر و ترسا کے سامنے بھی ایسا ہی بچھا جیسا کہ اس کے مقبول نظر بندوں کے سا منے۔

رزق روزی کی کیا بات٫ شکل و صورتجسم و جسامت کو دیکھے ہر کوی اپنے اپنے وجود میں نازاں و شاداں نہ شاکی نہ نالاں اور اپنی نظر میں ہر ایک زلیخا اور ہر کوئی یوسف۔ اپنی ذات پر بےحد اطمینان و ایقان٫ عطیہ خدا وندی نہی تو اور کیا؟ یہی وجہ ہےکہ ہر انسان اپنے کے کام اور اپنی بولی بات کو دوسروں سے افضل واکمل سمجھتا ہے۔

میرے کہنے کا مقصد یہی ہے کہ اللہ کے انعامات بےبشمار وبے کنار ہیں ایک سے ایک افضل اور ایک سے ایک اجمل۔ مگر ایک نعمت جو انسان کو تمام مخلوقات میں محترم اور ابناے جنس میں مکرم و معظم بنادیتی ہے وہ"زبان"ہے یہ شہد اور زہر دونوں کا منبع ہے اس کی وجہ سے دوست دشمن اور دشمن دوست بن سکتا ہے۔ اس میں شہد بھرے اور زہر بھرے الفاظ موجود ہیں جنکے بے محل اور برمحل استعمال کیوجہ سے ایک گلزار خار زار اور ایک کھنڈر٫ ویرانہ گلستان بن سکتا ہے۔ اگر ہہ تلخی وشیرینی زبان میں نہ ہوتی تو خالق تاکیدا نہ فرمایا ہوتا،"لوگوں کے ساتھ پیار سے بولا کریں۔

اچھی بولی اچھے الفاظ اور ان کا مناسب وقت میں مقام وقیام کو دیکھ کر٫ مخاطبین وحاضرین کی عمری منصبی درجات کے پیش نظر استعمال محفل کو زعفران زار بنا دیتی ہے۔ اس کے مقابلے لہجہ تلخ اور کرخت ہو تو وہی محفل میدان جنگ بن جاتی ہے۔ دیکھیں تمام پرندے بال و پر کے مالک ہیں رنگ ہاے گونا گون سے مزین ہیں ۔ مگر مایون اور بلبل پر جان فدا، بےچارے بوڑھے کوے نے ہمارا کیا بگاڑا ہے ازل سے ہماری زمین کو غلاظتوں اود الایشوں سے پاک کرتا رہا ہے بے چارے کی اواز کانوں کو بھلی نہیں لگتی بس یہی اثر انسانی زبان میں بھی ہے۔ انسان اپنی زبان سے مردم ازار ہوجائے تو اس سے چوپائے بہتر ہیں۔ انسانی زبان کی مردم آزاری انسان دوستی کے بارے میں شیخ سعدی کی شھرہ افاق کتاب "گلستان" میں ایک حکایت ہے۔ جو قابل عبرت ہے،

"حکایت"کہ بادشاہ ایک مجرم کو پھانسی کا حکم دیتا ہے تو مجرم انتہای نازیبا الفاظ بادشاہ کے حق میں بولتا ہے یقینی بات ہے کوئی سہارا نجات کا نظر نہیں آتا اور کیا کرسکتا ہے اپنے ترکش کے تیروں اور نیزہ و بالی سے بادشاہ پر وار کرتا ہے ۔ عربی میں ایک کہاوت ہے کہ " بھاگتی بلی اگر کتے سے بچ نہ سکی تو مڑ کر کتے کو پنجہ ضرور مارتی ہے " یہ کہ لڑو اور مرو۔ خبر چاپلوسوں یا مخبروں نے بادشاہ تک پہنچائی ۔ بادشاہ نے معرکے میں ایک وزیر سے پوچھا"اس مجرم کے بارے میں بری خبریں ہیں حقیقت کیا ہے؟
وزیر با تدبیر قدم بوسی کے بعد کھڑا ہوا اور کہا حضور مجرم کہ رہا تھا " کہ اللہ نے جس کو قہر کا اختیار دیا ہے اسی کے پاس اللہ کا دیا ہوا رحم وکرم کا بھی اختیار ہے۔ یہ سن کر بادشاہ کے بدن کے سارے بال قہر کی وجہ سے نیزہ و بالی بن گئے تھے۔ ملائم الفاظ میں جان کی امان کی فریاد سن کر بیٹھ گئے ۔ مجرم کی معافی کے حکمنامے کے لئے قلم کو جنبش دینے ہی کو تھا کہ بائیں جانب سے ایک اور وزیر بے تدبیر نے قدم بوسی کی اور بولنے کی اجازت چاہی' قلم رک گیا۔ وزیر نے اپنے ساتھ وزیر سے مخاطب ہوکر کہا"ہم جیسے لوگوں کو بادشاہوں کے حضور۔ وہی کہنا ہے جو سچ اور راست ہو۔
مجرم بادشاہ کو گالی دے رہا تھا نا زیبا الفاظ استعمال کررہا تھا۔ تو نے حضور کے سامنے با لکل دروغ گوئی کی٫دن کو رات میں بدل دیا کیا تمہیں حضور کی عزت و جلال کا خیال نہیں۔؟

"خبردار نہ بولنا تیرے اس سچ میں فساد ہے، ہلاکت ہے، ظلم ہے اور عناد ہے اور تیری زبان سے آگ برس رہی ہے ، ترے الفاظ سے خون بہ رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے خدا کی قسم ! مجھے وہ جھوٹ تیرے اس فتنہ انگیز سچ سے بہت بہتر لگتا ہے اور مجھے اس کی ملائمت و ملاطفت بھری زبان تیری منافقت وعداوت بھری بیان سے بدرجہا بہتر لگتی ہے"دروغ مصلحت امیز بہ از راست فتنہ انگیز"
کسی کی بات کی نفی یا تردید سے پہلے سوچنا چاہے کہ موقع و محل موزوں ہے کہ نہیں٫ نفع نقصان اقرار میں ہے یا انکار میں، اگر بولوں فائدہ کتنا نہ بولوں زیاں کتنا؟ یہی ہے زبان کی تاثیر اور اس کا مناسب استعمال۔ بصورت دیگر اپ کا سب سے بڑا دشمن یہی زبان ہے۔ اور دیگر وسیلے جو تیرے زیر استعمال ہیں۔ یہ کہتے ہوئے"کہ میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں، بولنا میرا حق ہے، کیوں نہ بولوں؟ بولیں بے شک بولیں، اگر پہلے وزیر جیسی صلاحیت آپ میں ہے ، اگر دوسرے وزیر جیسی نا اہلیت خباثت ہو تو نہ بولنا بہتر ہے۔ صرف اس حقداری کے دعوے کے ساتھ میری بھی انکھیں ہیں جو چاہوں دیکھوں دو بازو ہیں دو مکے ہیں جس کی ناک سامنے آئے لگا لوں۔ یہ نہیں ہوسکتا یہ وسیلے کا ناجائز استعمال ہے۔

وسیلہ شرعی حاجات کی تحصیل وتکمیل کے لے ہے نہ کہ دوسروں کی تشنیع تذلیل کے لے۔ ہمارے اسلاف نے مردم ازار اور بد خو کو زہر سے تشبیہ دے رکھی ہیں۔ خوش خو اور خوش مزاج کو شہد سے تشبیہ دی ہیں۔ کنجوس اور بخیل کو اب شور سے، سخی اور رحم دل کو اب شیرین سے تشبیہ دی ہیں۔
اللہ ہمیں بھی فائدہ مند اوصاف کا مالک بنائے۔ زبان کو زمان و مکان کے موافق مناسب الفاظ کے ساتھ استعمال کر نے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین۔

اسی امید پر زندہ ہیں

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلت ہے۔۔

میر تقی میر"
Courtesy Koghuzi Post کوغزی پوسٹ

#کوغذیـپوسٹ

Address

Islamabad
Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Public news chitral posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share