Explain by Ad faja

Explain by Ad faja Let's talk about life around us

خیبر پختونخوا میں تجارتی انصاف — ایک وکیل کی نظر سےہمارے عدالتی نظام میں اگر کوئی شعبہ سب سے زیادہ نظرانداز ہوا ہے تو وہ...
20/09/2025

خیبر پختونخوا میں تجارتی انصاف — ایک وکیل کی نظر سے

ہمارے عدالتی نظام میں اگر کوئی شعبہ سب سے زیادہ نظرانداز ہوا ہے تو وہ تجارتی قانون ہے۔ برسوں سے ہم وکلاء نے دیکھا کہ تاجر اور کاروباری حضرات امید کے چراغ جلائے عدالتوں میں آتے ہیں، مگر ان کی فائلیں انصاف کے بجائے گرد و غبار کا حصہ بن جاتی ہیں۔ مقدمہ بازی اکثر حقوق کے حصول سے زیادہ، ایک کٹھن آزمائش بن جاتی ہے۔ ایسے ہی پس منظر میں 2022ء کا خیبر پختونخوا ریزولوشن آف کمرشل ڈسپیوٹس ایکٹ اور اس کی 2024ء کی ترمیم ہمارے لیے امید کی ایک نئی کرن ہے۔

پہلی بار صوبے میں خصوصی تجارتی عدالتوں کا قیام ہوا ہے۔ یہ عدالتیں اس بات کا اعلان ہیں کہ کاروباری تنازعات کو عام مقدمات کی طرح نہیں بلکہ ایک حساس اور تیز تر قانونی ضرورت سمجھا جائے۔ وکیلوں کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ ایک طرف یہ موقع ہے کہ تجارتی قانون کو الگ اور مستحکم شعبے کے طور پر پروان چڑھایا جائے، اور دوسری طرف یہ چیلنج ہے کہ ہم اپنی عادی تاخیری حکمتِ عملی کو چھوڑ کر سخت ٹائم لائنز کے ساتھ خود کو ڈھالیں۔

متوازی طور پر، خیبر پختونخوا میں متبادل طریقہ ہائے کار (ADR) کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ ثالثی اور مصالحت اب کتابی الفاظ نہیں رہے بلکہ ہمارے قانونی نظام کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ 2020ء کا ADR ایکٹ اس سمت میں ایک انقلابی قدم تھا۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم وکلا اس نظام کو “دوسرے درجے کا انصاف” کہہ کر مسترد کرنے کے بجائے یہ سمجھیں کہ بعض اوقات ایک مفاہمت کاروباری رشتے کو بچا لیتی ہے، جب کہ مقدمہ بازی اسے توڑ دیتی ہے۔

یقیناً، سب کچھ ابھی ابتدائی مرحلے پر ہے۔ تجارتی عدالتیں نوزائیدہ ہیں، انہیں تجربہ کار ججوں، بنیادی سہولتوں اور مؤثر اپیل کے نظام کی ضرورت ہے۔ ADR فیصلوں پر عملدرآمد بھی ابھی کمزور ہے اور کاروباری طبقہ بھی پوری طرح اس سے واقف نہیں۔

پھر بھی، میں مایوس نہیں۔ اگر ہم بطور وکلاء اس نئے منظرنامے کو سنجیدگی سے قبول کر لیں تو ہم نہ صرف اپنی پریکٹس کو نئے رخ دے سکتے ہیں بلکہ کاروباری طبقے میں اعتماد بھی بحال کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے کلائنٹس کو آگاہ کریں، تخصص اختیار کریں اور مضبوط قانون سازی کا مطالبہ کریں تو یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔

آخرکار، تجارتی انصاف محض معاہدوں اور منافع کا نہیں بلکہ اعتماد کا معاملہ ہے ۔ عدالتوں پر اعتماد، قانون پر اعتماد، اور اس یقین پر اعتماد کہ جب کوئی تنازعہ پیدا ہوگا تو وہ برسوں تک لٹکنے کے بجائے جلد، منصفانہ اور مؤثر طریقے سے حل ہوگا۔

تحریر فرخ جاوید قریشی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ۔ ۔

11/09/2025

کم از کم اجرت، زیادہ سے زیادہ ذمہ داری: خیبرپختونخوا میں مزدور حقوق کا نفاذ

خیبرپختونخوا حکومت کا کم از کم اجرت کو 36 ہزار سے بڑھا کر 40 ہزار مقرر کرنے کا فیصلہ محض ایک مالیاتی نوٹیفکیشن نہیں ہے بلکہ یہ محنت کش طبقے کی انسانیت کے اعتراف کے مترادف ہے۔ ہر قانونی شق کے پیچھے ایک مزدور کی تصویر ہے جو دن بھر پسینے اور مشقت میں گزارتا ہے اور شام کو اپنے گھر لوٹتا ہے جہاں اس کی معمولی کمائی پر پورے گھرانے کا انحصار ہوتا ہے۔ ایسے خاندانوں کے لیے یہ قانون کوئی مجرد اصول نہیں بلکہ بھوک اور عزت کے درمیان فرق ہے۔

قانونی ڈھانچہ بالکل واضح ہے۔ خیبرپختونخوا کم از کم اجرت ایکٹ 2013 کے تحت صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ صنعتی اور تجارتی مزدوروں کے لیے اجرت مقرر کرے۔ کم از کم اجرت بورڈ کی سفارش پر حکومت نے اب اس قانونی بنیاد کو 40 ہزار روپے ماہانہ تک بڑھا دیا ہے۔ قانونی طور پر یہ تبدیلی لازم ہے اور کوئی بھی بالغ یا غیر ہنر مند مزدور اس سے کم تنخواہ پر نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ ملک کا قانون ہے، نہ کہ کسی کی صوابدید یا سخاوت۔

آئین خود اس اقدام کو زندگی بخشتا ہے۔ آرٹیکل 3 ریاست کو استحصال کے خاتمے اور منصفانہ حالاتِ کار کی فراہمی کا پابند بناتا ہے۔ آرٹیکل 11 جبری مشقت سے تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ آرٹیکل 37 انسانی شرافت کے مطابق روزگار کی ضمانت دیتا ہے۔ اجرت میں اضافہ دراصل ان آئینی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے مترادف ہے۔ مزید یہ کہ مرد و خواتین کو برابر اجرت دینے کی شرط آئین کے اس بنیادی اصول کی تصدیق کرتی ہے جو مساوات کی ضمانت دیتا ہے۔

لیکن اصل چیلنج قانون سازی میں نہیں بلکہ اس کے نفاذ میں ہے۔ ہماری قانونی تاریخ ایسے خوبصورت الفاظ پر مبنی نوٹیفکیشنز سے بھری پڑی ہے جو کبھی فیکٹری کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ مزدور اکثر بے آواز رہتے ہیں، اپنے حقوق سے ناواقف یا پھر آواز بلند کرنے سے خائف۔ دوسری طرف، کئی آجر کم از کم اجرت کے قوانین کو محض علامتی سمجھتے ہیں اور ان کی لازمی حیثیت کو نظرانداز کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری ٹھیکیدار بھی نوٹیفائیڈ اجرت سے کم تنخواہیں دینے کے مرتکب پائے گئے ہیں، جس سے ریاست کی اپنی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ اگر سخت جانچ پڑتال، مؤثر سزائیں اور آسان شکایتی نظام نہ بنایا گیا تو یہ اعلان بھی ایک اور نامکمل وعدہ بن سکتا ہے۔

آجر حضرات کے معاشی دباؤ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چھوٹے کاروبار بڑھتی ہوئی لاگت اور سکڑتی ہوئی منڈی میں مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن قانون کا توازن صرف ان کے حق میں نہیں جھک سکتا۔ کم از کم اجرت کا مقصد منافع کی ضمانت دینا نہیں بلکہ بقا کی ضمانت دینا ہے۔ قانون کی پہلی وفاداری اس مزدور کے ساتھ ہے جو معیشت کے نچلے درجے پر کھڑا ہے، جو اکثر نظر سے اوجھل اور آواز سے محروم ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ 40 ہزار روپے کوئی انعام نہیں بلکہ آج کے پاکستان میں صرف بقا کی لاگت کا اعتراف ہے۔ یہ وہ قانونی کم از کم ہے جو کسی انسان کو اس کی محنت کے عوض ادا کرنا لازمی ہے۔ اس سے انکار نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر منصفانہ ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت نے قانون بنا کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اب اصل امتحان اس کے نفاذ کا ہے۔ صرف اسی صورت میں یہ نوٹیفکیشن کاغذ سے تنخواہ کی پرچی تک، وعدے سے تحفظ تک اور قانون سے زندگی تک کا سفر طے کرے گا۔

ریگولیشن اور بنیادی حقوق کے مابین: ڈکی بھائی کیس پر قانونی نقطۂ نظرسعد الرحمٰن المعروف ڈکی بھائی کے خلاف شروع کی گئی عد...
10/09/2025

ریگولیشن اور بنیادی حقوق کے مابین: ڈکی بھائی کیس پر قانونی نقطۂ نظر

سعد الرحمٰن المعروف ڈکی بھائی کے خلاف شروع کی گئی عدالت کارروائی کئی اہم آئینی و قانونی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے جن پر عدلیہ کی باریک بینی سے نظرثانی ناگزیر ہے۔ اگرچہ ریاست کو یہ حق اور اختیار حاصل ہے کہ وہ جوئے جیسے غیر قانونی افعال کی روک تھام کرے اور ان کی تشہیر کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے محدود بنائے، تاہم ایسا اقدام صرف اس وقت جائز ہوگا جب وہ خالصتاً قانون کے مطابق اور آئین پاکستان کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے

اس مقدمے میں جسمانی اور عدالتی ریمانڈ کے بار بار بڑھائے جانے نے آرٹیکل 10-اے میں دیے گئے منصفانہ ٹرائل کے حق پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ جب تک چالان مکمل نہ ہو اور ٹھوس شہادتیں پیش نہ کی جائیں، ملزم کو طویل حراست میں رکھنا انصاف کے بنیادی اصولوں سے انحراف اور قبل از وقت سزا دینے کے مترادف ہے۔ قانون کے تحت تفتیشی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الزامات کو معتبر شواہد کے ساتھ ثابت کریں، نہ کہ محض غیر ضروری ریمانڈ پر انحصار کریں۔

پاکستان پینل کوڈ اور الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت لگائے گئے الزامات اپنی نوعیت میں وسیع اور مبہم ہیں جنہیں صرف مخصوص اور درست حالات میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی سزا کے قائم رہنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ استغاثہ نہ صرف جرم اور ملزم کے عمل کے مابین واضح ربط ثابت کرے بلکہ اس کے ساتھ مجرمانہ نیت اور براہِ راست مالی فائدہ بھی دکھائے۔ محض کسی مواد کو اپ لوڈ کرنے سے، جب تک مالی منفعت اور دانستہ نیت کا ثبوت نہ ہو، فوجداری ذمہ داری قائم نہیں ہوتی۔

آئین کا بنیادی اصول مساوات بھی اس کیس میں اہمیت اختیار کرتا ہے۔ یہ حقیقت کہ بعض دیگر افراد بھی اسی نوعیت کی سرگرمیوں میں ملوث بتائے,دالتی کارروائی اس طور پر چلائی جانی چاہیے جو بیک وقت ریاست کی قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری اور عدلیہ کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے فریضے کو اجاگر کرے۔

04/02/2025
Buddies
07/09/2024

Buddies

With buddies
07/09/2024

With buddies

Life lesson
08/08/2024

Life lesson

Address

Abapara
Islamabad

Telephone

+923130831923

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Explain by Ad faja posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Explain by Ad faja:

Share