25/04/2024
بندوق و بارود کے سائے میں بہتے دریا کے اُس پار
بیساکھ کی دوپہریں اس قدر کیوں سسک رہی ہیں؟
کوئی چوٹ ہے جو دل پر پیوست ہے؟
کوئی غم ہے جو ان کے سر پر ہے؟ کوئی دکھ جو کھائے جا رہا ہے؟ کوئی درد ہے جو ان کو لاحق ہے؟
چھم کر برسنا سکھ کی علامت تو نہیں ہے۔ لمحات سکینت میں تو قطرے قطرے میں رحمت کا دریا سمو جاتا ہے ۔
یہ کیا غم ہے کہ جس کے پہاڑ ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں یہ کیا درد ہے کہ جس کی ٹیسوں نے کہرام مچا رکھا ہے
ایک لرزہ ہے جو فضاؤں پر طاری ہے ایک اودھم ہے جو دریاؤں نے مچا رکھا ہے، وحشت ہے کہ ہر سو چھائی ہوئی ہے
دریا ہے جیسے پھن پھیلائے کوئی اژدہا ہو ۔ دو کنارے اور دو ہی جہان ہیں، برباد جہاں وحشت سے بھرے ہوے کرب ناک
اُس پار تم ہو تمہاری گہری جھیل آنکھیں ہیں اور یہاں اس کنارے پر ایک چٹان ہے اس پر ایک کٹیا ہے یہ میرا پڑاو ہے یہاں اس کٹیا کی چھت پر میں ہوں عہد الست سے آج محشر زمانے تک سدا کا منتظر سدا کا متلاشی
اس پار یہاں فراز پر چٹان ہے ،کٹیا ہے اور میرا ورود
اُس پر وہاں نشیب پر ایک خستہ حال حویلی بوسیدہ چھت جس کی زنگ آلود چادروں میں سے ایک چمنی ابھرتی ہے
وہاں تم جھیل آنکھیں لیے براجمان ہو ۔ اور یہ چھم کر برسنا یہ موسلا دھاری یہ سب مدوجذر کا کیا دھرا ہے یہ ہمارے اسی ربط کا نتیجہ ہے ۔
تقسیم کی لعنت سے نجات مل جائے بندوقوں اور بارود کی دیوار گر جائے، نفرت کے بادل ذرا چھٹ جانے دو تم گواہ رہنا
یہی دریائے نیلم کے کنارے ہوں گے۔ یہ میری جانب فراز پر جو ایک چٹان ہے ایک کٹیا ہے یہیں ہوں گے
وہاں تمہاری جانب نشیب پر یہی حویلی یہی زنگ آلود چادروں کے مکان ہوں گے اور ہم ہوں گے "روبرو"
نہ تو میں میں رہوں نہ تو تو تو رہے ۔یوں ہوگا
تم اپنی جھیل آنکھوں کو ترو تازہ رکھنا میں اپنے دل کو جواں رکھتا ہوں
ایک تماشہ ہوا گا ایک کرتب ہو گا کیا ہی منظر ہو گا
تم اس نظارے کی خاطر اپنی جھیل آنکھوں ترو تازہ رکھنا میں
میں اس تماشے کی خاطر اپنا دل جواں رکھتا ہوں
پنچھی
Haider