27/08/2025
بات صرف پانی کی نہیں،
بات ترجیحات کی ہےجہاز ہو یا میزائل، 1000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آئے، تو ہم لمحوں میں رڈار سے پکڑ لیتے ہیں،
فیصلہ لمحوں کا، عمل لمحاتی، مگر...
300 کلومیٹر دور 15 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آتا ہوا سیلاب —
وہ نہ پوشیدہ ہوتا ہے، نہ خاموش،
نہ پہلا ہوتا ہے، نہ آخری،پھر کیوں ہر بار وہی چیخیں، وہی تنبیہ، وہی لاشیں کیونکہ جہازوں سے ملک بچتا ہے،
مگر ندی نالوں سے ووٹ نہیں ملتے،
ریڈار کے فیصلے قومی ہوتے ہیں،
اور سیلاب کے فیصلے سیاسی تھڑے، چھجے، انکروچمنٹ
تو پھر دریاؤں کے راستے کیا ہیں
وہ بھی انکروچ کیے گئے، صرف فرق یہ ہے
تھڑے کچے مکانوں کے ہوتے ہیں،
اور دریا بند کرتے ہیں بااثر کی زمین کے لیے۔50 سال پرانا نظام
کیوں نہیں بدلا
کیونکہ نیا نظام ذمہ داری مانگتا ہے،
اور پرانا نظام صرف "ذمہ دار" ڈھونڈتا ہے۔سیلاب قدرتی ہے
ہو سکتا ہے،
مگر لاپرواہی اور نا اہلی وہ تو ہماری اپنی بنائی ہوئی مصیبت ہے۔ارلی وارننگ سسٹم
جی، موجود ہے!
سیٹلائٹ بھی، سینسر بھی، ماڈل بھی۔لیکن جس ملک میں فائل موومنٹ" کی رفتار 1 کلومیٹر فی ہفتہ ہو،وہاں 1000 کلومیٹر فی گھنٹہ کا ری ایکشن کون کرے
ڈیٹااگر ہم بھارت سے بروقت ڈیم ریلیز، اپ اسٹریم ڈیٹا لے سکیں تو ہم 1سے3 دن پہلے بتا سکتے ہیں۔
اگر صرف پاکستان کے اندر کا ڈیٹا ہو،
تو وقت صرف پانی کی رفتار جتنا ہوتا ہے۔
یعنی مرالہ سے کھنکی 9 گھنٹے،
قادرآباد سے تریمو: 48 گھنٹے،ستُلج پر 72 گھنٹے۔
مگر کیا ہم وہ 72 گھنٹے استعمال کر پاتے ہیں ٹیکنالوجی ، اسٹیٹ آف دی آرٹ نظام ممکن ہے ریڈار، ہائڈروگرام، فلڈ راؤٹنگ، SMS الرٹس، API انٹیگریشن، WhatsApp بوٹس!
مگر جب اختیار اور ابلاغ کا راستہ ہی بند ہو،تو الرٹ سسٹم صرف "پریس ریلیز" بن کے رہ جاتا ہے۔کاش ہم پانی کو دشمن نہ سمجھتے،
بلکہ اس کے آنے سے پہلے پل باندھ لیتے،
کاش ہم ماڈلنگ، وارننگ اور ایکشن کو صرف رپورٹوں میں نہ رکھتے،بلکہ اس سے لوگوں کی جانیں بچاتے۔آخر میں یہ سوال معصومانہ نہیں,یہ سوال ذمہ دارانہ ہے۔اور جو قومیں صرف ماضی کی تباہی سے سبق سیکھتی ہیں،
وہ مستقبل میں بھی تباہی کو دہراتی ہیں
ہم نے وقت کو پانی کی طرح بہتے دیکھا،
اور پانی کو وقت کی طرح گنوا دیا۔
بس فرق اتنا رہا
پانی ہر سال لوٹ آتا ہے،
وقت نہیں