25/09/2025
تُو میری آنکھ سے بَس ایک بار ٹَپکا تھا !!
پِھر اُس کے بعد زَمیں جَذب کر گئی تُجھکو
تَا عُمر اَپنی ذَات سے مُجھ کو گِلہ رہا
تا عُمر گُھومتا رَہا اپنے مَدار میں
اِس دُنیا کو دیکھ رہا ہُوں ایک اندھے کی آنکھوں سے
خوابوں جیسی دُنیا ہے اور مَنظر سَارے اچّھے ہیں !!
تو نے ہمارے سامنے پھینکی تھی زندگی
ہم نے ترا ادب کیا اس کو اٹھا لیا
کیسی مسافتیں ہیں تُو کمرے کو آ کے دیکھ
بیٹھے بِٹھائے مکڑی نے جَالا لگا دیا
آخر کو زندگی سے مُجھے ہَارنا پڑا
جتنا بھی مُجھ میں زور تھا,سارا لگا دیا
تحلیل ہو گیا ہے مِرا عکس جِھیل میں
بارش کی ایک بُوند نے مَنظر بدل دیا!
پہلے میں سوچتا تھا کہ میرا بھی ہے وجود
پھر اس نے میری سوچ کو یکسر بدل دیا
ہَمیں ہَمارے ہی حَال پر چھوڑا جَا رہا ہے
اب اِس تغافل پہ جانے کیا حَال ہو ہمارا؟
میں اک سفر میں سڑک کنارے پڑا ہوا ہوں
عجب سفر ہے کہ جس میں دنیا گزر رہی ہے
اپنے ہونے کا میں احساس دلاتا کیوں ہوں؟
جب مرا ہونا نہ ہونے کے برابر ٹھہرے
صدا خاموشیوں کی کیوں نہیں پہنچی؟
مرے چہرے کا رخ تو تیری جانب ہے
عجب لہجے کا مالک ہوں
مجھے بس میں سمجھتا ہوں
درندہ ہے اکیلا پن
اکیلے پن سے ڈرتا ہوں
مُدّت سے میری آنکھ سے آنسو نہیں گِرے
مُدّت سے میرے رَنج کو رَستہ نہیں مِلا۔!
اتنی گُھٹن ہو جس میں سَہُولت سےمَر سَکُوں
مُجھ کو مرے مِزاج کا پِنجرہ نہیں مِلا
تری مُحبت کی ہی ضرورت ہے آج مُجھ کو !!
میں بعد مرنے کے نوحہ خوانی کا کیا کروں گا؟
میں جانتا ہوں کہ ساتھ تیرا کہاں تلک ہے
مجھے پتہ ہے میں اس کہانی کا کیا کروں گا
زندگی کو کھینچ کر مُشکل سے لایا ہُوں یہاں
بَارہا ایسا لگا ہاتھوں سے اب رَسّی گئی
کشتی جَلا دی اپنی کہ وَاپس نہ جَا سکیں
رُخصت ہُوئے وہاں سے تو دِل بھی بَڑا کِیا
پھر لوگ ہم کو روند کر آگے نِکل گئے
اپنی طرف سے ہم نے جو رَستہ کُھلا کِیا
بہت دنوں کی بات ہے یہیں کہیں پہ زخم تھے
یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب نشاں نہیں رہے
اور ایک دن ہم آپکی یہ دنیا چھوڑ جائیں گے
خبر ملے گی آپکو کہ ہم یہاں نہیں رہے
آسَائشیں بہت تھیں پر زِندگی کو ہَم نے
اِک دَائرے میں لا کر ، اِک دار پر گُزارا
میں نامراد شخص تھا پل بھر نہ جی سکا
لیکن میں اپنے بچوں کو جینا سکھاؤں گا
تُمھارا ساتھ تھا ایسا کہ جاں مہکتی تھی
تُمھارے بَعد جو گُزری ،وہ جَاں پہ گُزری ہے
بارِ دِگر ! ہم اہلِ ہُنر سوچتے نہیں
چَھاؤں لُٹاتے وقت شجر سوچتے نہیں
یہ زندگی کے مَسئلے تو سَاتھ سَاتھ ہیں
آ بیٹھ میکدے میں جِگر ، سوچتے نہیں
دیکھو ہماری آنکھ میں ویسی چمک نہیں
دیکھو ہمارا رنگ بھی ویسا نہیں رہا
آنکھوں سے خوش گمانی کی پٹی اتر چکی
اب صاف دیکھتا ہوں میں اندھا نہیں رہا
وطن کو چھوڑتے سمے کوئی تو ہم کو روکتا
وہ منتیں کہاں گئیں؟ وہ واسطے کہاں گئے؟
برا لگے نہ آپکو تو اک سوال پوچھ لوں ؟
مرے تو خیر آپ تھے, پر آپ کے کہاں گئے؟
کیسے اٹھائے پھرتے ہیں جسموں کا بوجھ سب
ہم کو تو دل کا بوجھ بھی ہلکا نہیں لگا
بیٹھے ہوئے ہیں خاک پہ خلوت کی چھاؤں میں
صحرا بھی میرے جیسوں کو صحرا نہیں لگا
اب ہاتھ مت لگا ,یونہی اکھڑا رہے یہ رنگ
اے زندگی تو اب مجھے چُونا نہیں لگا
دُنیا کے کام کاج سے فرصت مِلی تو پھر
بِستر سے تیری یاد کے بچّھو نکل پڑے
دن بھر تمام پَنچھی تُجھے ڈھونڈھتے رہے
شب کو تِری تلاش میں جگنو نکل پڑے
ایسا شدید وَجد کہ مت پُوچھیے حضُور
ہم رقص ہی کیے تھے کہ گھنگرو نکل پڑے
میں نے تمام عُمر مُحبت میں کاٹ دی
بَل بھی نہیں گیا مِرا , رَسّی بھی جَل گئی
اِس ریت جیسی زندگی کو سوچتا ہُوں اَب
کتنی بچی یہ ہاتھ میں, کتنی پِھسل گئی
کل شَب یہاں پہ کیا ہُوا ,دُنیا کو کیا خبر؟
تنہائی مُجھ کو بُھوک سے زندہ نِگل گئی
میاں شعر کہنا جو آسان ہوتا
تو اب تک ہمارا بھی دیوان ہوتا
میں کچھ ایسے حالات سے لڑ رہا ہوں
مرا باپ ہوتا تو حیران ہوتا
گہرے بادل ، اُڑتے پنچھی ، بہتی ندیا ،کِھلتے پُھول
باغوں کی سی سیر کرائی بانہوں کی گولائی نے
میں ہُوں ,میری تنہائی ہے ,اور اِک میرا سایہ ہے
کوئی اپنا ساتھ نہیں ہے ,جیسے اپنے ہوتے ہیں
مُجھ کو اچھا کہنے والے شاید تُجھ کو علم نہیں
پہلے پہلے ملنے والے سارے اچھے ہوتے ہیں
اب اس سے بڑھ کر ہو کیا ندامت کہ خوش گمانی میں عمر گزری
تم اس تعلق پہ کیا کہو گے یہ مجھ سے پوچھو کہ کتنا دکھ ہے
مری تو کوشش یہی رہے گی عیاں نہ ہوں دکھ کسی پہ لیکن
کسی نے پوچھا تو کیا کہوں گا, میں کیا کہوں گا کہ کیسا دکھ ہے؟
تُجھے پتہ ہے؟ صَدائیں آتی ہیں مُجھکو شَب بَھر
تُو جِس جگہ پر جُدا ہُوا تھا ، اُسی طرف سے !!
میں ایک مُدّت کے بعد لوٹا ! تو اپنے گاؤں میں اجنبی تھا
یہ خَال و خَد ہی بدَل چُکے تھے کِسے بتاتا کہ میں فلاں ہُوں ؟
ہمارے چہرے کی سِلوٹوں میں عَجب حوادث کی داستاں ہے !!
ہماری آنکھوں کی پُتلیوں نے جو خواب دیکھے تھے مَر چُکے ہیں
جو کوئی پُوچھے تو اُس سے کہنا,کہاں سے آئے ہو مُنہ اُٹھا کر؟
اکیلے پَن کی اذیتوں میں جو مُبتلا تھا وہ مَر چُکا ہے !!
نہ جانے والے کو دو صدائیں ,نہ مَرنے والے کو یُوں پُکارو
میں اس حقیقت سے آشنا ہُوں ,جو مَر چُکا ہے سو مَر چُکا ہے
فیصل محمود