ASI Forum Pakistan

ASI Forum Pakistan ASI Publications Pakistan

چراغِ طُور،ساغرصدیقی اور اُس کا کُتّابرگد کے سائے میں حجام کُرسی شیشہ رکھے کسی گاہک کا شیو کررہا ہوتا تھا،مونچھیں تراش ر...
01/07/2025

چراغِ طُور،ساغرصدیقی اور اُس کا کُتّا

برگد کے سائے میں حجام کُرسی شیشہ رکھے کسی گاہک کا شیو کررہا ہوتا تھا،مونچھیں تراش رہا ہوتا تھا یا زلفیں۔ اُس کے برابر فُٹ پاتھ پر ایک شخص جنتریاں (کیا یاد آیا،کبھی کتابوں کی تمام دکانوں اور اخبارورسائل بیچنے والوں کے پاس جنتریاں ضرور رکھی ہوتی تھیں)، ڈائجسٹ، قسمت کا حال بتانے والی سستی کتابیں اور اخباری کاغذ پر چھپی شاعری کی جیبی کُتب رکھے بیٹھا ہوتا تھا۔ تب شاعری کی کتابوں کی ایسی مانگ ہوتی تھی کہ یہ فٹ پاتھوں پر عام بِکتی نظر آتی تھیں، عام آدمی بھی اِس درجہ باذوق ضرور تھا کہ وہ سڑک کنارے ساحر لُدھیانوی، عبدالحمید عدم اور ساغر صدیقی کی کُتب کی ورق گردانی کرتا نظر آجاتا تھا۔ وہیں میں نے پہلی مرتبہ ساغر صدیقی کا نام جانا۔لاہور چھاؤنی میں راحت بیکری کے باہر شہر میں پہلی مرتبہ کون آئس کریم متعارف کروائی گئی تھی سو وہاں لوگوں کا خاصا رش ہوتا تھا۔ برطانوی دور کی اس عمارت کے ایک جانب درسی کتابوں کی دکان تھی جہاں قلم، دوات، کاپیاں وغیرہ مِلا کرتی تھیں۔ اسکول کے زمانے میں میں وہاں جایا کرتا تھا، اس دکان کے عین سامنے حجام بیٹھتا تھا اور فُٹ پاتھ پر سستی کتابیں، ڈائجسٹ رکھے ہوتے تھے۔ اگر میری یادداشت درست ساتھ دیتی ہے تو عدم ؔ کی شاعری کی عام بکنے والی کتاب کا نام ’خرابات‘ اور ساحر کی کتاب کا نام ’تلخیاں‘ تھا۔ساغر صدیقی کی منتخب شاعری کی کتاب کی پیشانی پر شعر لکھا ہوتا تھا۔
آؤ اِک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
سرورق پر ساغر کا قلمی اسکیچ بنا ہوتا تھا جس میں لمبے بالوں والا ایک ملنگ شخص سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم ہوتا تھا،اُس کے پیچھے ایک بجھتے چراغ کی لو اور دھویں کی لمبی لکیر نظر آتی تھی۔ لڑکپن میں ایسے کردار زیادہ سحر طراز لگتے ہیں، جن میں کم نظر آتا ہو، زیادہ چھپا ہوا ہو۔ بہت بعد میں سوشل میڈیا پر جون ایلیا کی شاعری پر بنی ویب سائٹس پر ان کی شبیہ دیکھ کرمیرا ذہن ساغر صدیقی کے قلمی اسکیچ کی ان سے مماثلت کی جانب چلا گیا تھا۔ بہرحال اُس کتاب میں ساغر صدیقی کا مختصر احوالِ زندگی کچھ ایسے پرُاسرار اورپرُکشش انداز میں تحریر کیا گیا تھا کہ ان کی شاعری سے زیادہ ان کی شخصیت ذہن سے چپک کر رہ گئی۔ یہ ایسی چپکی کہ لاہور کی مال روڈ سے گورنمنٹ کالج جاتے ہوئے ہائی کورٹ کے باہر فٹ پاتھ پر نظر پڑتی تو ذہن ساغر صدیقی کی جانب چلا جاتا۔ شنید تھا کہ اپنی موت سے پہلے وہ اکثر اُدھر یا داتا دربار کے قریب مدہوش بیٹھے نظر آجایا کرتے تھے۔ بلکہ ایک جگہ تو یہ بھی پڑھا تھا کہ وہ کبھی کبھار گرمیوں کی سہ پہروں کو سرد مہری احباب سے دل گرفتہ فٹ پاتھ پر چند لکڑیوں کوآگ لگا کر ہاتھ تاپتے بھی نظر آجاتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بعد ازاں ساغر صدیقی پر جو تحریرسامنے آئی پڑھ ڈالی۔ ان کا اے حمید کے مضامین میں تذکرہ ہو یا یونس ادیب کی ان پر تحریریں۔ متوسط گھرانے کا پڑھا لکھا لڑکا جس کی سنجیدہ شاعری کی دھوم امرت سر کے ایک مشاعرے میں ایسی مچی کہ لاہور کے ادبی حلقوں میں بھی انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ایک حساس نوجوان جسے اُس کی پسند کی لڑکی سے بیاہ سے اس کے باپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ کم تر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، ایک ایسا سخن طراز شعر سازجس کے فلمی گیت ایسے مشہور ہوئے کہ ہر زبان پر آگئے، ایک ایسا سادہ منش معصوم انسان جسے ایک بہ ظاہر مہربان شخص نے جسم میں درد اور اضمحلال سے نجات کے لیے مارفیا کا انجیکشن لگایا تو یہ حساس شاعر جو بے مہریِ زمانہ سے ایسا دکھی تھا کہ مارفیا کی غلامی سے شروع ہونے والی داستان ان رستوں سے گزری جہاں اُسے آتا دیکھ کر اُس کے دوست اپنا رستہ بدل لیتے تھے یا اُسے ہاتھ ملاتے ہوئے چونی تھمادیتے تھے، جیسے دو دہائی قبل منٹو کے دوست احباب اُسے دیکھ کر راہ بدل لیا کرتے تھے، اس انجام پر منتج ہوئی کہ داتا دربار کے سامنے فٹ پاتھ پر ساغر صدیقی کی لاش پڑی تھی، پاس صرف اُس کا ساتھی کُتّا بیٹھا تھا۔ سڑکوں پر آوارہ پِھرنے اور بچے کھچے روٹی کے ٹکڑوں پر پلنے والا کُتّا ساغر کی موت سے چھے برس پہلے اُسے سڑکوں پر گھومتے ہوئے مل گیا تھا۔ دونوں کی ایسی نِبھی کہ جدھر ہوش و خرد سے بیگانہ درویش شاعر جاتا، کتا اُس کے پیچھے پیچھے سائے کی طرح چلتا تھا۔ کسی نکڑ پر ساغر کمبل چادر ڈالے سو جاتا تو وہ کتا اُس کے برابرسو جاتا تھا۔ ساغر اوراس کا کتامال روڈ، انارکلی بازار، ایبک روڈ، شاہ عالمی، اخبار مارکیٹ اورداتا دربار کے گردونواح میں نظر آتے تھے۔ فلم والے،نوآموز شعرا، رسائل کے مدیران وغیرہ چند ٹکوں کے عوض اُس سے اشعار لکھوالے جاتے۔ کبھی مزاجِ یار پر زیادہ سرمستی چھائی ہوتی تو وہ فٹ پاتھ پر اپنے سامنے موم بتی جلا لیتا، اُس کا کتااس کے قریب بیٹھا ہوتا اور خودمگن وخود شکن ساغر پراشعار کا نزول ہوتا اور وہ شعلے کی لو کو دیکھتا جھومتا جاتا اور اپنی تخلیق کی غنائیت میں کھوتا جاتاتھا۔
جولائی 1974ء میں ساغرموت کی کوٹھڑی میں چلا گیا،اُس کوٹھڑی میں سنّاٹا تھا اور بہت اندھیرا تھا۔چراغِ طُور جلاؤ بڑا اندھیراہے۔ وہ 46برس جیا۔ اُسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔
ساغر کے مرنے کے بعد اُس کا کتا ان جگہوں پر ساغر کو ڈھونڈتا نظرآتا تھا جدھر وہ دونوں اکٹھے پِھرا کرتے تھے، سو جایا کرتے تھے۔ ساغر کی موت کے ایک برس بعد اُس کتے کی لاش عین اُس جگہ سے ملی جہاں ساغر کو مردہ پایا گیا تھا۔
آدمی بوڑھا، ضعیف اورمجبور ہوجائے تو لوگ اسے چھوڑجاتے ہیں، بیمار ہوجائے تو اپنے بھی پیچھے ہٹنے لگتے ہیں، جس گھر میں فاقے آجائیں وہاں رشتے چھوڑجاتے ہیں، معذور ہوجانے والی بیوی سے شوہر ایک پل میں آنکھیں پھیر لیتا ہے۔
کبھی سُنا، دیکھا کہ کسی بوڑھے،بیمار، غریب یا معذور ہوجانے والے آدمی یا عورت کو اُس کا پالتو کتا چھوڑگیا ہو؟
ساغر کا کتا مجھے اپنے لڑکپن سے ہانٹ کرتا آیا ہے، البتہ گزشتہ چند روز سے اُس کا خیال بار بار میرے ذہن میں آرہا ہے۔ شاید جولائی کا مہینہ آرہا ہے جب ساغر فوت ہوا تھا یا شایداندھیراہے، چراغِ طُور سے بھی نہ کم ہونے والا اندوہ ناک اندھیرا۔

(عرفان جاوید)

شاھد سلیم شاھد — ایک سچے قلم کا نمائندہادب انسان کے احساسات، مشاہدات اور شعور کی ترجمانی کا ذریعہ ہے، اور وہ قلمکار جو ز...
08/04/2025

شاھد سلیم شاھد — ایک سچے قلم کا نمائندہ

ادب انسان کے احساسات، مشاہدات اور شعور کی ترجمانی کا ذریعہ ہے، اور وہ قلمکار جو زندگی کے حقیقی رنگوں کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے، وہی معاشرے کے شعور کو بیدار کرتا ہے۔ ایسے ہی بامعنی اور حساس قلم کے مالک ہیں شاھد سلیم شاھد جن کا اصل نام شاھد علی ہے۔ وہ 20 اگست 1986 کو ایک سادہ مگر باوقار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، محمد سلیم (مرحوم)، کی تربیت نے ان کے مزاج میں انکساری، محبت اور خدمتِ خلق کا جذبہ بھر دیا۔

شاھد سلیم شاھد کا تعلق ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال کے ایک گاؤں "کچہ موڑ" سے ہے، جہاں وہ "ادبی و عوامی لائبریری" کے ذریعے مطالعہ و تخلیق کے چراغ روشن کر رہے ہیں۔ یہی ان کا مستقل پتہ بھی ہے، جہاں سے ان کی فکری روشنی پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔

شاھد سلیم شاھد کی ادبی خدمات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ان کی تحریروں میں سماجی مسائل، انسانی رویّوں، فطرت اور روحانی سچائیوں کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف تخلیقِ ادب میں حصہ لیا بلکہ ادب کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی کی کوشش بھی کی۔

ان کی دو اہم کتابیں "سرد خانہ" (جون 2020ء) اور "قدرت کا انتقام" (دسمبر 2024ء) نہ صرف قارئین کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہیں بلکہ ادبی حلقوں میں بھی سراہا گیا۔ خاص طور پر "قدرت کا انتقام" ایک فکر انگیز اور بصیرت افروز تخلیق ہے، جسے 7 فروری 2025 کو خصوصی ایوارڈ اور سرٹیفیکیٹ سے نوازا گیا۔

ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد قومی و بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں نمایاں ترین یہ ہیں:

ریشم ایوارڈ (30 اپریل 2016ء)
جماعت اسلامی یونین کونسل جلو ادبی خدمات ایوارڈ
انٹرنیشنل رائٹر پاکستان ایوارڈ 2023ء
ادب سماج انسانیت فورم پاکستان ادبی خدمات ایوارڈ 2024ء
بشیر رحمانی ایوارڈ / سندِ تحسین (26 فروری 2025ء)
سرسید ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی اعزازی سند
ابدال لٹریری فورم (الف) کی جانب سے سندِ تحسین

یہ تمام اعزازات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ شاھد سلیم شاھد نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو معاشرے کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ان کی تحریریں محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ زندگی کی دھڑکن، معاشرتی درد اور فکری بالیدگی کا آئینہ ہیں۔

ان کا اسلوب سادہ مگر گہرا ہے، جو قاری کے دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ روایتی لفاظی سے دور رہتے ہوئے حقیقت کے قریب لکھتے ہیں۔ یہی انداز انہیں دیگر قلمکاروں سے ممتاز بناتا ہے۔

شاھد سلیم شاھد نہ صرف خود لکھتے ہیں بلکہ نوجوانوں کو بھی مطالعے اور تخلیق کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ان کی لائبریری ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی ہے۔ ان کا خواب ایک ایسا باشعور معاشرہ ہے جو کتاب سے رشتہ قائم رکھے اور سچائی کو اپنا شعار بنائے۔

ان کے فن، فکر اور جذبے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ شاھد سلیم شاھد ایک سچے، سادہ اور باہمت قلمکار ہیں جو علم و ادب کے میدان میں روشن چراغ کی مانند ہیں۔

ضمیر کی نیند اور غزہ کی چیخیںتحریر: ندا منیر(لیہ)ہم صداؤں میں سنائی نہیں دیےاب ہواؤں میں دکھائی دیں گےانتہائی معذرت کے س...
08/04/2025

ضمیر کی نیند اور غزہ کی چیخیں
تحریر: ندا منیر(لیہ)

ہم صداؤں میں سنائی نہیں دیے
اب ہواؤں میں دکھائی دیں گے

انتہائی معذرت کے ساتھ اب الفاظ نرم نہیں رہ سکتے۔ جب ظلم حد سے بڑھ جائے، تو نرمی مجرمانہ خاموشی بن جاتی ہے۔ اگر ہم آج بھی الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہے، تو ہمارے ضمیر مزید گہری نیند میں چلے جائیں گے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اب بھی جاگے نہیں — وہ اب بھی سوئے ہوئے ہیں۔

ان اشعار میں چھپے درد سے شاید آپ سمجھ ہی گئے ہوں کہ میرا اشارہ کہاں ہے۔ جی ہاں، میرا اشارہ غزہ کی طرف ہے — اس مظلوم سرزمین کی طرف جہاں انسانیت ہر لمحہ سسک رہی ہے۔ جہاں بچوں کی چیخیں، ماؤں کی آہیں، اور نوجوانوں کا خون اس زمین کو روز رنگین کر رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں کچھ دکھائی دے رہا ہے؟

کیا غزہ پر برسنے والے بم ہمیں نظر نہیں آتے؟
کیا معصوم بچوں کے جسموں کے ٹکڑے ہماری نظروں سے نہیں ٹکراتے؟
کیا ان کی چیخیں ہمارے کانوں تک نہیں پہنچتیں یا ہم نے سننے سے انکار کر رکھا ہے؟

یہ سوالات کسی اور کے لیے نہیں، ہم سب کے لیے ہیں۔ یہ سوالات ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ہیں۔ وہ ضمیر جو اب صرف دو دن کے سوشل میڈیا سٹیٹس سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ جو کسی خون آلود تصویر پر ریاکشن دے کر سمجھتا ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ ان لاشوں کو صرف دیکھنا کافی نہیں۔ ان کے لیے رونا کافی نہیں۔ دو دن کا بائیکاٹ کافی نہیں۔ اگر ہم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پھر مکمل کرنا ہوگا۔ اپنے طرزِ زندگی پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ صرف مصنوعات کا نہیں، اپنی بے حسی کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔

آج اگر ہم صرف تماشائی بنے رہے تو یاد رکھیں، کل یہ آگ ہمارے گھروں تک آ سکتی ہے۔ غزہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں، یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ اور اگر انسانیت مر جائے، تو ہم باقی بچ بھی جائیں تو زندہ نہیں کہلا سکتے۔

اب صرف باتوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ اب عمل درکار ہے۔ ہمیں اپنی ذات سے، اپنے معاشرے سے، اپنے رویوں سے یہ لڑائی لڑنی ہے۔ سوشل میڈیا پر نہیں، دل و دماغ میں انقلاب لانا ہوگا۔

ورنہ وقت آتے دیر نہیں لگتی، جب ہم خود بھی ان ہواؤں میں دکھائی دیں گے، جنہیں آج ہم سننے سے انکار کر رہے ہیں۔

امت کی نیند، غزہ کی چیخیںتحریر: اسدالرحمن(لیہ)ہمیں وہ دن یاد رکھنا چاہیے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ یہ محض طاقت...
08/04/2025

امت کی نیند، غزہ کی چیخیں

تحریر: اسدالرحمن(لیہ)

ہمیں وہ دن یاد رکھنا چاہیے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ یہ محض طاقت کا مظاہرہ نہیں تھا بلکہ ایک پیغام تھا امت مسلمہ کے لیے۔ وہ دن تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ لیکن سب سے جذباتی لمحہ وہ تھا جب فلسطین کے مظلوم بچوں نے، اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:
"اب ہمارےپاس بھی ایٹمی طاقت ہے!"
یہ فقرہ محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک امید تھی، ایک سہارا تھا جسے فلسطین کے مسلمانوں نے پاکستان سے جوڑا۔ انہوں نے پاکستانی دھماکوں کو اپنا تحفظ سمجھا، اپنی جیت کا پہلا قدم جانا۔ مگر افسوس، ایک وہ دن تھا... اور ایک آج کا دن ہے۔
آج ہم پاکستانی صرف خاموش تماشائی ہیں۔ وہ فلسطینی جو ہماری طاقت پر خوشیاں منا رہے تھے، آج جب خون میں نہائے ہوئے ہیں، تب ہم صرف سوشل میڈیا پر دو دن کے سٹیٹس تک محدود ہو چکے ہیں۔ کیا یہی امت کا درد ہے؟ کیا یہی مسلمان بھائی چارہ ہے؟
جب فلسطینی معصوم ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں:
"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! روزِ قیامت عربوں اور اس وقت کے مسلمانوں کی شفاعت نہ فرمانا!"
تو کیا ہمیں ان الفاظ سے خوف محسوس نہیں ہوتا؟ کیا ہمارا دل نہیں کانپتا؟ کیا ضمیر نہیں جاگتا؟
یہ وقت امتحان کا ہے۔ یہ وقت ہے فرقہ واریت کو دفن کرنے کا۔ یہ وقت ہے شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، وہابی — سب لیبلز کو مٹا کر صرف "مسلمان" ہونے کا۔ دشمن جب آتا ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ ہم کس مسلک کے ماننے والے ہیں، وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ ہم کمزور ہیں، تقسیم شدہ ہیں، غافل ہیں۔
اور یہی وہ موقع ہے جس پر وہ وار کرتا ہے۔ ہماری تقسیم پر۔ ہمارے اختلاف پر۔
لیکن اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان خولوں کو توڑیں۔ ہمیں صرف متحد ہونا ہے — عملی طور پر۔
یہ وقت خالی بیانات اور سٹیٹس سے آگے نکل کر کچھ کرنے کا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ ہم واقعی ایک مسلمان قوم ہیں۔
وہ قوم جو اپنے بھائی بہنوں پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔
وہ قوم جس کی غیرت دو دن میں سو نہیں جاتی۔
ہمارےننھےننھےبچے، ہماری بیٹیاں، ہمارے معصوم بھائی غزہ میں ہواؤں میں اڑائے جا رہے ہیں — اور ہم... صرف دو دن کے سٹیٹس؟
یہ کافی نہیں۔
اب ہمیں کردار ادا کرنا ہے —
اتحاد کا، انسانیت کا، اور مظلوموں کے لیے آواز بلند کرنے کا۔
اگر کچھ کرنا ہے،
تو ثبوت دو!
بطور مسلمان، بطور پاکستانی، بطور انسان۔

ادب سماج انسانیت فورم پاکستانکے زیر اہتمام تخلیقی تحریری مقابلہکتاب: "تربیت کا فقدان"موضوع:ہمارےمعاشرے کا سب سے بڑا المی...
08/04/2025

ادب سماج انسانیت فورم پاکستان
کے زیر اہتمام

تخلیقی تحریری مقابلہ
کتاب: "تربیت کا فقدان"

موضوع:
ہمارےمعاشرے کا سب سے بڑا المیہ —تربیت کا فقدان

اب وقت ہے کہ آپ اپنے قلم سے روشنی پھیلائیں!

شرائط و ہدایات:
تحریر : کم از کم 3سے4صفحات پر مشتمل ہو

کاپی پیسٹ سے مکمل گریز کریں

صرف ذاتی اور تخلیقی تحریر قابلِ قبول ہو گی

تحریرMS Wordفائل میں
[email protected]

یا ٹیکسٹ کی صورت میں واٹس ایپ پر ارسال کریں
03125400326

کتاب کےعنوانات کی فہرست تیار ہے
آپ فہرست سے اپنی پسند کا موضوع منتخب کرنے کے لیے
ہمیں پرسنل میسج کریں

انعامات:
1. پہلی پوزیشن:
5000 روپے مالیت کی کتب
اور اعزازی شیلڈ

2. دوسری پوزیشن:
3000 روپے مالیت کی کتب
اوراعزازی شیلڈ

3. تیسری پوزیشن:
1500 روپے مالیت کی کتب
اوراعزازی شیلڈ

باقی تمام شامل لکھاریوں کو سوفٹ میں سرٹیفکیٹ دیا جائے گا

یہ موقع ہےاپنی سوچ کوالفاظ کا روپ دینے کا!
اپنے قلم سےتربیت کےفقدان پر روشنی ڈالیں اور نمایاں مقام حاصل کریں!

منجانب:
ادب سماج انسانیت فورم پاکستان

ادب،سماج،انسانیت کے سنگ ایک روشن سفر

عنوانات کی فہرست واٹس ایپ پر وصول کرسکتے ہیں













فلسطین پکار رہا ہے… اُمت کیوں خاموش ہے؟تحریر: شہزادافق فلسطین اس وقت آگ میں جل رہا ہے، خون میں نہایا ہوا ہے، اور دنیا خا...
07/04/2025

فلسطین پکار رہا ہے… اُمت کیوں خاموش ہے؟

تحریر: شہزادافق

فلسطین اس وقت آگ میں جل رہا ہے، خون میں نہایا ہوا ہے، اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ غزہ کی گلیوں میں معصوم بچوں کی لاشیں بکھری ہوئی ہیں، ماؤں کی گودیں اجڑ چکی ہیں، اور بیمار خیموں میں تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ اسرائیلی بمباری نے اسپتال، اسکول، عبادت گاہیں سب کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ پچھلے چھ ماہ سے جاری اس بربریت میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

اس ظلم پر اقوامِ عالم کی خاموشی سمجھ آتی ہے، کیونکہ ان کے مفادات اسرائیل کے ساتھ جُڑے ہیں، لیکن افسوس کہ امتِ مسلمہ بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے بیٹھی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک کے پاس نہ صرف دولت ہے، بلکہ افواج، وسائل، سفارتی طاقت بھی ہے، مگر فلسطین کی دہائیوں پر لبیک کہنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔

کیا ہم بھول گئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم مومنوں کو باہمی محبت، رحم دلی اور مہربانی کرنے میں ایک جسم کی مانند پاؤ گے۔ اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔" (صحیح بخاری و مسلم)

مگر یہاں تو ایک عضو کٹ رہا ہے،اور باقی جسم بے حس پڑا ہے۔ کیا ہم اس حدیث کےمصداق باقی نہیں رہے؟کیا ہم نے اسلامی بھائی چارےکوصرف تقریروں تک محدود کر دیا ہے؟

اقوامِ متحدہ تک چیخ چیخ کر کہہ چکی ہے کہ غزہ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بن چکا ہے۔ لاکھوں لوگ پینے کے صاف پانی، دوا، خوراک اور بجلی سے محروم ہیں۔ بچوں کے جسم میں خوراک کی کمی کے باعث ہڈیاں نمایاں ہو گئی ہیں، اور دنیا آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔

کیا ہم نے وہ حدیثِ نبوی نہیں سنی؟
"جو شخص کسی مظلوم کی مدد کی طاقت رکھتا ہو اور نہ کرے، تو قیامت کے دن اللہ اسے بھی ذلت میں ڈال دے گا۔" (مسند احمد)

اب وقت ہے کہ امتِ مسلمہ صرف بیان بازی سے آگے بڑھے۔ یہ وقت ہے عملی اقدام کا، اتحاد کا، آواز بلند کرنے کا، سوشل میڈیا سے لے کر سفارتی میدان تک فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا۔

اگر آج ہم خاموش رہے تو کل روزِ محشر فلسطینی شہداء ہمارے خلاف گواہی دیں گے۔ اور اگر ان کی فریاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہو گئی تو ہم کس منہ سے شفاعت کی امید رکھیں گے؟

فلسطین ہمیں پکار رہا ہے…
آئیے! بیدار ہوں، متحد ہوں، اور اپنے مظلوم بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں، ورنہ تاریخ ہمیں بے غیرت اور بے حس امت کے طور پر یاد رکھے گی۔







#لکھاری





























سعید گشکوری – ایک ہمہ جہت شخصیتسعید گشکوری کاتعلق ضلع کوٹ ادو،تحصیل چوک سرور شہید سے ہے۔آپ گذشتہ پندرہ سال سے صحافت، علم...
05/04/2025

سعید گشکوری – ایک ہمہ جہت شخصیت

سعید گشکوری کاتعلق ضلع کوٹ ادو،تحصیل چوک سرور شہید سے ہے۔آپ گذشتہ پندرہ سال سے صحافت، علم و ادب، اور سماجی خدمت کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔ شاعری آپ کا ذوق بھی ہے اور اظہارِ فکر کا مؤثر وسیلہ بھی۔ اپنے قلم کے ذریعے جہاں معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، وہیں انسانی جذبات اور احساسات کو بھی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔

سعید گشکوری نہ صرف ایک باخبرصحافی اور حساس شاعر ہیں بلکہ ایک سرگرم سوشل ورکر بھی ہیں۔ آپ "واسیب ہیومن رائٹس سوسائٹی"کے تحصیل صدرکی حیثیت سے انسانی حقوق کے تحفظ، فلاحی سرگرمیوں اور محروم طبقوں کی آواز بلند کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔

حالیہ طور پر انہیں ادب سماج انسانیت فورم پاکستان کی جانب سے چوک سرور شہید کا صدر نامزد کیا گیا ہے۔ جو احباب اس فورم کی ممبرشپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ سعید گشکوری صاحب سے براہِ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔

+92 300 7489376














صائمہ حفیظ – ایک منفرد آواز اور معتبر نامصائمہ حفیظ ایک کہنہ مشق براڈکاسٹر، کمپیئر، صداکارہ اور مصنفہ ہیں، جنہوں نے 1992...
04/04/2025

صائمہ حفیظ – ایک منفرد آواز اور معتبر نام

صائمہ حفیظ ایک کہنہ مشق براڈکاسٹر، کمپیئر، صداکارہ اور مصنفہ ہیں، جنہوں نے 1992 میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ ان کی آواز میں ایک ایسی جادوئی کشش ہے جو سامعین کو مسحور کر دیتی ہے۔ اردو، پنجابی اور پوٹھوہاری زبانوں پر مکمل عبور رکھنے والی صائمہ حفیظ نے اپنی خوبصورت آواز اور منفرد اندازِ میزبانی کے ذریعے نہ صرف ریڈیو بلکہ ٹیلی ویژن کی دنیا میں بھی اپنی پہچان بنائی۔

انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر بے شمار معلوماتی، تفریحی اور ادبی پروگراموں کی میزبانی کی، جنہیں ناظرین اور سامعین نے بے حد سراہا۔ ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کے اعتراف میں ریڈیو پاکستان نے انہیں ایکسِلینس ایوارڈ سے نوازا، جبکہ مسلسل دو سال تک پی ٹی وی ایوارڈز میں بہترین کمپیئر کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اس کے علاوہ، کئی ادبی و ثقافتی حلقوں نے بھی انہیں بے شمار اسناد، شیلڈز اور اعزازات سے نوازا۔ 2022 میں انہیں انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان کی جانب سے باقی صدیقی ایوارڈ کا اعزاز ملا، جو ان کی خدمات کا شاندار اعتراف ہے۔

صائمہ حفیظ نہ صرف ایک شاندار کمپیئر اور صداکارہ ہیں بلکہ اسکرپٹ رائٹنگ اور ٹرانسکرپشن میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔ وہ گزشتہ 20 سال سے ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے قومی نشریاتی رابطے پر نشر ہونے والے خواتین کے معروف پروگرام "سُکھی گھر" کی میزبانی کر رہی ہیں، جس نے بے شمار خواتین کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ متعدد دستاویزی پروگراموں، فیچرز اور ریڈیو ڈراموں میں اپنی صداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں، جن میں ان کی آواز کی تاثیر اور جذبات کی گہرائی سامعین کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ چکی ہے۔

ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے شروع ہونے والا ان کا فنی سفر الحمدللہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ ان کی فنی خدمات اور لگن نے انہیں پاکستان کے معتبر براڈکاسٹرز میں ایک نمایاں مقام عطا کیا ہے۔ ان کی آواز، اندازِ میزبانی اور تخلیقی صلاحیتیں آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعلِ راہ ہیں۔

ادبستان (افسانوی کتاب) میں شمولیت کا سنہری موقع!السلام علیکم ناظرین!کتاب ادبستان کے لیے افسانوں اور کہانیوں کا انتخاب شر...
04/04/2025

ادبستان (افسانوی کتاب)
میں شمولیت کا سنہری موقع!

السلام علیکم ناظرین!
کتاب ادبستان کے لیے افسانوں اور کہانیوں کا انتخاب شروع ہو چکا ہے۔ آپ اپنی پسند کا کوئی بھی افسانہ یا کہانی بھیج سکتے ہیں۔

شرائط و تفصیلات:
تحریر کاپی شدہ یا چوری شدہ نہ ہو، صرف آپ کی ذاتی تخلیق ہو۔

الفاظ کی حدتقریباً 1000 الفاظ ہے۔

موضوع (ٹاپک) آپ خود منتخب کر سکتے ہیں۔

کتاب میں شامل ہونے والے تمام ممبران کتاب خریدنے کے پابند ہوں گے۔

کتاب کی قیمت: 600 روپے
ڈاک خرچ: 100 روپے
کل رقم: 700 روپے

یہ مقرر فیس سال 2025 تک برقرار رہے

خصوصی انعامات:
کتاب میں شامل افسانوں/کہانیوں میں سے تین بہترین تخلیقات کا انتخاب کیا جائے گا:

1. پہلا انعام:
اعزازی شیلڈ
5000 روپے مالیت کی کتب

2. دوسرا انعام:
اعزازی شیلڈ
3000 روپے مالیت کی کتب

3. تیسرا انعام:
اعزازی شیلڈ
1500 روپے مالیت کی کتب

مسلسل لکھنے والے تمام ممبران کو سالانہ ایوارڈ تقریب کے لیے نامزد کیا جائیں گا۔
ادارے میں شمولیت کے لیے کوئی رجسٹریشن فیس نہیں ہے۔

اپنی تخلیقات جلد از جلد ارسال کریں اور ادبستان کا حصہ بنیں!
ہم آپ کی تخلیقی تحریروں کے منتظر ہیں۔

ادب سماج انسانیت فورم پاکستان
بانی وصدرنشین: شہزادافق

051-5184707
0312-5400326

#ادبستان





فارم










اللّٰہُمَّ اجْعَلْ كَلَامِي نُورًا، وَتَأْثِيرِي خَيْرًا، وَقَلْبِي طَاهِرًا، وَنَفْسِي مُطْمَئِنَّةً، وَأَخْلَاقِي زَكِ...
30/03/2025

اللّٰہُمَّ اجْعَلْ كَلَامِي نُورًا، وَتَأْثِيرِي خَيْرًا، وَقَلْبِي طَاهِرًا، وَنَفْسِي مُطْمَئِنَّةً، وَأَخْلَاقِي زَكِيَّةً، وَأَعْمَالِي صَالِحَةً، وَاجْعَلْنِي مِمَّنْ تَسْتَجِيبُ لَهُمُ الدُّعَاءَ وَتُبَارِكُ فِي أَقْوَالِهِمْ وَأَفْعَالِهِمْ، وَتَجْعَلُهُمْ نُورًا لِلنَّاسِ وَهُدًى لِلْمُهْتَدِينَ۔

(اے اللّٰہ! میرے کلام کو نور، میرے تأثیر کو خیر، میرے دل کو پاک، میری روح کو مطمئن، میرے اخلاق کو پاکیزہ، اور میرے اعمال کو صالح بنا دے۔ اور مجھے ان لوگوں میں شامل فرما جن کی دعائیں تو قبول کرتا ہے، جن کے الفاظ اور اعمال میں برکت دیتا ہے، اور جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ آمین!)





#دعائیں
#کامیابی
#رحمت
#خوشی
#سلامتی


#مسکراہٹ
#محبت

#امن
#روشنی

#نعمتیں
#اللّٰہ_کریم





ٰ
#سچائی
#صبر
#ایمان
#خلوص
#پاکیزگی

📌 ادب سماج انسانیت فورم پاکستان کے زیر اہتمام"ادبستان" –اردو افسانوی مجموعہ📚 مرتب: شہزاداُفق اردو افسانہ نگاروں کے لیے ا...
29/03/2025

📌 ادب سماج انسانیت فورم پاکستان کے زیر اہتمام

"ادبستان" –اردو افسانوی مجموعہ

📚 مرتب: شہزاداُفق

اردو افسانہ نگاروں کے لیے ایک سنہری موقع!

ادب سماج انسانیت فورم پاکستان کے زیر اہتمام "ادبستان" کے نام سے ایک نیا اردو افسانوی مجموعہ مرتب کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ افسانہ نگار ہیں اور اپنی تحریر کو ایک معیاری ادبی کتاب میں شامل کروانا چاہتے ہیں، تو یہ بہترین موقع ہے!

📌 شمولیت کی شرائط:

✅ آپ کا افسانہ کم از کم 1000 الفاظ پر مشتمل ہونا چاہیے۔
✅ افسانہ اردو زبان میں لکھا گیا ہو۔
✅ افسانےکی آخری تاریخ 25 اپریل ہے، اس کے بعد موصول ہونے والی تحریریں شامل نہیں کی جا سکیں گی۔
✅ منتخب افسانے "ادبستان" میں شامل کیے جائیں گے اور باقاعدہ اشاعت دی جائے گی۔

🏆 بہترین افسانہ نگاروں کے لیے خصوصی انعامات:

کتاب میں شامل ہونےوالےافسانوں میں سےتین بہترین افسانےمنتخب کیےجائیں گے،جنہیں خصوصی انعامات دیے جائیں گے:

🥇 پہلی پوزیشن–5000 روپے مالیت کی کتب اور
اعزازی شیلڈ
🥈 دوسری پوزیشن – 3000 روپے مالیت کی کتب اور اعزازی شیلڈ
🥉 تیسری پوزیشن – 1500 روپے مالیت کی کتب اور اعزازی شیلڈ

یہ ایک نادر موقع ہے اپنی تحریری صلاحیتوں کو نکھارنے اور ایک معیاری اردو افسانوی کتاب کا حصہ بننے کا۔

📌 اپنا افسانہ جلدی بھیجیں اور "ادبستان" کا حصہ بنیں!

https://chat.whatsapp.com/Enf5cL0HhGo7Ye4n8J0qhu

#ادبستان













ُفق

اڑان لٹریری کلب (رجسٹرڈ)(نوٹ: پہلی تقریب کے بعد تنظیم کا نام قندیلِ ادب سے اڑان لٹریری کلب کر دیا گیا تھا)ادبی تنظیم اڑا...
22/03/2025

اڑان لٹریری کلب (رجسٹرڈ)
(نوٹ: پہلی تقریب کے بعد تنظیم کا نام قندیلِ ادب سے اڑان لٹریری کلب کر دیا گیا تھا)

ادبی تنظیم اڑان لٹریری کلب (رجسٹرڈ) کا قیام 20 ستمبر 2021 کو عمل میں لایا گیا۔ جس کے بانی و سربراہ بلال ہادی ہیں۔ جب کہ چیئرمین عاصم عاضی ہیں۔ تنظیم کے ممبران 5 ہیں۔ جس میں بانی بلال ہادی، چیئرمین عاصم عاضی، صدر ڈاکٹر عظمت شہزاد عزمی، کوآرڈینیٹر ڈاکٹر صبا فردوس ستی، کوآرڈینیٹر ایبٹ آباد عاصم اسیر قریشی ہیں۔ تنظیم کی ہر تقریب میں نظامت کے فرائض عاصم عاضی سر انجام دیتے ہیں۔ تنظیم کی نوجوانوں کی نشستیں ہر تین ماہ بعد کلرکہار سائنس کالج میں منعقد ہوتی ہیں جس میں کہ کالج میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کو شعر و ادب کی طرف لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس تمام عرصہ میں 3 طلبہ کو شاعری کے حوالہ سے سامنے لایا گیا جب کہ ایک طالبہ نے نثر پر کام کرنا شروع کیا۔ ان 3 طلبا میں سے ایک طالب علم نے نیشنل لیٹریری فیسٹیول 2024 جو کہ دسمبر 2024 میں اسلام آباد میں منعقد ہوا، کے بیت بازی کے مقابلہ میں بھی حصہ لیا۔
کلرکہار سائنس کالج چکوال کے ساتھ مل کر محفلِ مشاعرہ اور کتب کی تقریبِ رونمائی کا سلسلہ جاری ہے۔ جب کہ 3 ادبی شخصیات کو ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 2 ستمبر 2022 کو اڑان لٹریری کلب کو گورنمنٹ آف پاکستان سے رجسٹرڈ کرایا گیا۔ جس کا رجسٹریشن نمبر 0209933 ہے۔
ساحل پبلی کیشن بھی اڑان لٹریری کلب کا حصہ ہے جس کے زیرِ اہتمام سلمیٰ کشم کا شعری مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔
ادبی تقریبات کی تفصیل:
1) 10 اکتوبر 2021 القائم لائبریری میں نسیمِ سحر کی صدارت میں مشاعرہ۔ مہمانانِ خصوصی فرحت عباس، شعیب بن عزیز اور علی اکبر عباس تھے۔
2) 26 جون 2022 کلرکہار سائنس کالج میں مشاعرہ کرایا گیا جس کی صدارت نصرت یاب خان نصرت نے کی۔ مہمانانِ خصوصی قیوم طاہر اور تسلیم اکرام صاحبہ تھیں۔
3) 27 نومبر 2022 پروفیسر احسان الہیٰ احسان کی صدارت میں کلرکہار سائنس کالج چکوال میں مشاعرہ۔ جس کے مہمانانِ خصوصی پروفیسر عظمت شہزاد عزمی اور مدثر عباس کو ان کی علمی و ادبی خدمات پر اعترافِ فن ایوارڈ دیا گیا۔
4) 15 جنوری 2023 پروفیسر احسان الہیٰ احسان کی کتاب کی تقریبِ رونمائی اور مشاعرہ۔ جس کی صدارت ڈاکٹر کامران کاظمی نے کی۔
5) فروری 2023 آرٹس کونسل راولپنڈی میں بیادِ امجد اسلام امجد مشاعرہ کی صدارت سعید راجہ نے کی۔
6) مئی 2023 ایبٹ آبادشہر میں نازمظفر آبادی کی صدارت میں مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔
7) 1اکتوبر 2023 کلرکہار سائنس کالج چکوال کے مقام پر نصرت یاب خان نصرت کی صدارت میں مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔
8) 10 مارچ 2024 حسن تخلیق مشاعرہ (راولپنڈی) صدارت ڈاکٹر وحید احمد، مہمانان خصوصی: ناصر علی سید، عمران عامی، افضل خان، ڈاکٹر ساجد رحیم اور طاہر عبید تھے۔
9) 12 مئی 2024۔ ڈاکٹر عظمت شہزاد عزمی کے اعزاز میں علی انسٹیٹیوٹ آف سائنسز چکوال کے مقام پر محفل مشاعرہ جس کی صدارت نصرت یاب خان نے کی جب کہ مہمانان خصوصی ڈاکٹر ساجد اقبال، حسین اختر اور پروفیسر نعیم جاوید نعیم تھے۔

ایوارڈ کی تفصیل:
1) اعترافِ فن ایوارڈ: مدثر عباس کو پنجابی کے لہجہ دھن جو کہ چکوال میں بولی جانے والی زبان ہے۔ دھن کی لغت شائع کرنے پر ایوارڈ دیا گیا۔
2) اعترافِ فن ایوارڈ: پروفیسر عظمت شہزاد عزمی کو ان کے تحیقی کام ''افضل منہاس کی غزل گوئی'' پر دیا گیا۔
3)اعتراف فن ایوارڈ: احسان الہیٰ احسان کے تین شعری مجموعے، بشمول 2 انگریزی شاعری کی کتب اور بابا یحیی خان کی کتب کا انگریزی میں ترجمہ کرنے پر دیا گیا۔

کتب کی تفصیل:
کتاب کا نام: جھیل نگر
سن اشاعت: اگست 2022
مصنفہ کا نام: سلمیٰ کشم

ادب سماج انسانیت فورم پاکستان کے زیر اہتمام چھٹی سالانہ تربیتی ورکشاپ اور ایوارڈ تقریب 2025ء میں ادبی تنظیم " اڑان لٹریری کلب " کو اعزازی شیلڈ سے نوازا گیا

#ناول
#افسانہ
#تاریخ
#سفرنامہ
#شاعری
#آبیتی
#مضمون
#تنقید
#ادبیات

#ناول
#افسانہ
#تاریخ
#سفرنامہ
#شاعری
#آبیتی
#مضمون
#تنقید
#ادبیات

#اردو
#پنجابی
#سندھی
#بلوچی
#پشتو
#سرائیکی

#ادب
#سماج
#انسانیت
#ادیب


#ادبستان




#اردووالے

#اردو
#پنجابی
#سندھی
#بلوچی
#پشتو
#سرائیکی
#ہندکو
#براہوی
#کشمیری
#گوجری
#پہاڑی
#دراؤڑی
#منکیالی
#دھاتی
#کوہستانی
#شینا
#بلتی
#برشاسکی
#واخی
#پوٹھوہاری


















#پنجاب
#سندھ

#بلوچستان




#صحافت
#تجارت
#تعلیم
#صحت
#سیاست
#فنون
#ادب
#ٹیکنالوجی
#معاشیات
#سائنس
#ثقافت
#آرٹ
#موسیقی
#فیشن
#کھانا
#سفر
#کھیل
#قانون
#معاشرت
#انسانیت
#ماحولیات
#زرعی
#انٹرپرینیورشپ
#تاریخ
#تفریح

Address

Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ASI Forum Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category