Hafiz Muhammad Usman Attari

Hafiz Muhammad Usman Attari spiritual Rouhani scholar at darul Raza International

23/04/2025
18/04/2025

*کہاں سے لائیں وہ طالب علم؟*
(استاد کی عزت پر ایک جھنجھوڑ دینے والی تحریر)

کبھی علم دین کی حرمت یوں ہوتی تھی کہ شاگرد استاد کی سواری کے قریب بھی احترام سے دبے پاؤں گزرتے، نظریں جھک جاتی تھیں، زبان پر خاموشی اور دل میں تعظیم کا طوفان ہوتا۔ استاد کی جوتی تک مقدّس سمجھی جاتی، اور شاگرد اپنی قسمت پر ناز کرتا کہ اُسے ایک ایسے شخص سے نسبت حاصل ہے جس کے ذریعے اُسے دین کے انمول موتی میسر آ رہے ہیں۔

یاد آتا ہے ایک دن میں اپنے جامعہ میں انجانے میں کسی موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا، فوراً ایک بڑی جماعت کے طالب علم دوڑتے ہوئے آئے، کہنے لگے: "اللہ کے بندے! یہ موٹر سائیکل بڑے استاد صاحب کی ہے، کہیں بے ادبی نہ ہو جائے!"
کیا منظر تھا! دل جھوم اُٹھا، آنکھیں بھیگ گئیں۔ یہ وہ شاگرد تھے جنہوں نے ادب کے خمیر سے سیکھا، جنہیں معلوم تھا کہ علم صرف کتابوں سے نہیں، استاد کی نگاہ، دعا اور ادب سے منتقل ہوتا ہے۔

مگر افسوس!
آج کے دور میں نہ وہ طلب علم کی پیاس ہے، نہ وہ استاد کی توقیر۔
آج اگر استاد کی بات دل کو نہ بھائے، فوراً شکایت، بدتمیزی، اور یہاں تک کہ مطالبہ ہوتا ہے: "استاد کو تبدیل کیا جائے!"
ایک وقت تھا کہ علم کے متلاشی ہزاروں میل سفر کرتے، بیابانوں سے گزرتے، دنوں بھوکے رہتے، صرف اس امید پر کہ شاید ایک حدیث سننے کو مل جائے، شاید ایک فقہی مسئلہ سمجھ آجائے۔

مگر آج؟
آج استاد خود چل کر آتا ہے، لیکن شاگرد کہتا ہے: "ابھی وقت نہیں ہے، مصروف ہوں، نیند آ رہی ہے، دل نہیں چاہ رہا۔"

یہ علم نہیں، یہ علم کی توہین ہے!
یہ صرف بدنصیبی نہیں، یہ نحوست ہے۔
اور افسوس کہ یہ نحوست دینی علوم میں بھی بڑھتی جا رہی ہے، جہاں کبھی ادب، اخلاص، عاجزی اور قربانی کا چراغ جلتا تھا، آج وہاں ناشکری، شکایت، اور غرور کی آگ جلنے لگی ہے۔

میں خود ایک اکیڈمی چلاتا ہوں، میرے پاس جامعہ کے طلبہ بھی آتے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ طالب علم استاد کے خلاف شکایات کا انبار لگا دیتے ہیں، اور جب ان کی شکایت پر استاد صاحب کو بدل دیا جائے یا ان کلاس چینج کر دی جائے ، تو خوشی سے کہتے ہیں: "دیکھا؟ ہم نے یہ کر دیا!"
افسوس! ایسے طالب علم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
نہ علم اُن کے سینے میں اترتا ہے، نہ برکت اُن کے اعمال میں ہوتی ہے۔
ایسے لوگ دنیا میں دربدر پھرتے ہیں، اور آخرت میں بھی رسوائی ان کا مقدر بنتی ہے۔

میں نے خود جید اور سینئر اساتذہ کرام کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں... اُن کی بے توقیری پر جب ان کے دل سے آہ نکلتی ہے، تو سوچو! اُس طالب علم کے نصیب میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟
علم کا نور؟
یا استاد کی دعا؟
نہیں... کچھ بھی نہیں۔
رہ جاتی ہے صرف ایک محرومی، جو دنیا میں بھی اسے بے قرار رکھتی ہے، اور آخرت میں بھی اس کے لئے حسرت بن جاتی ہے۔

یاد رکھو!
ادب وہ سیڑھی ہے جس سے علم اوپر چڑھتا ہے،
استاد وہ دروازہ ہے جہاں سے حکمت کا نور داخل ہوتا ہے۔
جس نے اس دروازے کو ٹھوکر ماری، وہ محروم ہوا، ناکام ہوا، ذلیل ہوا۔

آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں ادب کو زندہ کریں۔
ہماری نسلوں کو یہ باور کروایا جائے کہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں!
اگر علم لینا ہے، تو پہلے جھکنا سیکھو۔
اگر کامیاب ہونا ہے، تو استاد کے قدموں میں بیٹھنا سیکھو۔
ورنہ یہ دنیا بھی تم پر تنگ ہو جائے گی، اور وہ دنیا بھی تمہارے لیے خسارے کا سودا بن جائے گی۔

✏️ابو نعمان مدنی
١٦ شوال المکرم ١٤٤٦ ھجری

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ سب کو عید مبارک
31/03/2025

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ سب کو عید مبارک

27/03/2025

بے شک! "جو باادب ہوتے ہیں، وہی بامراد بھی ہوتے ہیں" یہ ایک حقیقت ہے، جو قرآن و حدیث، بزرگانِ دین کے اقوال، اور عملی زندگی کے تجربات سے ثابت ہے۔

1. قرآن مجید میں ادب کی برکات

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی جگہ ادب کی تلقین فرمائی، خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کے بارے میں فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ
(اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو...) (الحجرات: 2)

اس آیت کے بعد بعض صحابہ جیسے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ، جو بلند آواز میں بات کرتے تھے، انتہائی ادب کے ساتھ دھیمی آواز میں بولنے لگے۔ یہی ادب انہیں بامراد بنا گیا۔

2. حدیثِ نبوی ﷺ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے اپنے بڑوں کا ادب کیا، وہ خود بھی عزت پائے گا۔" (مشکوٰۃ)

3. بزرگانِ دین کے اقوال و واقعات

حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جس نے ادب سیکھ لیا، وہ کامیاب ہو گیا"۔

حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: "علم سے پہلے ادب سیکھو، کیونکہ ادب ہی علم کا زیور ہے"۔

واقعہ: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ادب

امام اعظم رحمہ اللہ اپنے استاد حضرت حماد رحمہ اللہ کے گھر کے دروازے کی طرف پاؤں نہیں پھیلاتے تھے، چاہے وہ میلوں دور ہوں۔ یہی ادب انہیں "امامِ اعظم" کے مقام تک لے گیا۔

4. عملی زندگی میں ادب کے فوائد

جو والدین، اساتذہ اور بزرگوں کا ادب کرتا ہے، وہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا ہے۔

جو علماء و مشائخ کا ادب کرتا ہے، وہ علم و حکمت کے دروازے کھول لیتا ہے۔

جو قرآن اور حدیث کا ادب کرتا ہے، وہ نورِ معرفت پا لیتا ہے۔

جو مساجد، دینی محافل اور مقدس مقامات کا ادب کرتا ہے، اس پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔

نتیجہ:

ادب ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ جو اللہ، رسول، والدین، اساتذہ، اور بڑوں کا ادب کرتا ہے، وہی دنیا و آخرت میں بامراد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی ادب نصیب فرمائے۔ آمین!

*حـــــافظ محمد عثـــــــــمان عطاری*
ناظم اعلی دارالرضا انٹرنیشنل

03/03/2025
01/03/2025

بَانِیِ دَارُالرَّضَا اُسْتَاذُ الْعُلَمَاء وَالْعٰمِلِیْنْ ، پَاسْبَانِ مَسْلَکِ اَعْلیٰ حَضْرَتْ ، مُرِیْدِ عَطَّارْ حَضْرَتْ مَوْلَانَا اَلْحَافِظْ اَلْقَارِیْ مُفْتِیْ حَکِیْمْ اَبُوْ نُعْمَانْ مُحَمَّدْ عِرْفَانْ شَرِیْفْ عَطَّارِی اَلْمَدَنِیْ سَلَّمَھُ الْبَارِیْ خَلِیْفَہْ بَرَیْلِیْ شَرَیْفْ

01/03/2025

صدقہ فطر 2024ء

21/02/2025

**اسمِ اعظم کا وظیفہ*

جمعہ کے دن 100 یا 313 مرتبہ یہ پڑھیں:
"یَا اللّٰہُ، یَا رَحْمٰنُ، یَا رَحِیْمُ"
یہ وظیفہ ہر حاجت پوری کرنے اور گناہوں کی مغفرت کے لیے بہت مجرب ہے۔

حافظ محمد عثمان عطاری
ناظم اعلیٰ دارالرضا انٹرنیشنل

06/02/2025
06/02/2025

Address

Old Chinute Road
Jhang
35200

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hafiz Muhammad Usman Attari posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hafiz Muhammad Usman Attari:

Share