ناولز کی دنیا

ناولز کی دنیا Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from ناولز کی دنیا, Video Creator, Jhelum.

14/11/2025

ناول: "میرا ہرجائی"
رائٹر: سدرہ شیخ
قسط نمبر 33 (آخری قسط)
۔
حصہ دوم
۔
"وقت بدلتا چلا گیا تھا۔۔۔زندگی چلنا شروع ہوگئی تھی مگر اس ہسپتال کے اس کمرے میں زندگی ٹھہر گئی تھی۔۔۔ رک گئی تھی تھم گئی تھی۔۔۔
کہیں زندگی خوبصورت تھی تو کہیں زندگی ویران
کہیں زندگی آباد تھی تو کہیں زندگی برباد
کہیں زندگی خوشیوں سے بھرا چمن
تو کہیں زندگی غموں کا قبرستان
۔
"او رے لمحے تو کہیں مت جا۔۔۔
ہوسکے تو عمر بھر تھم جا۔۔۔"
۔
نسواء۔۔۔"
آنکھیں صاف کرکے انہوں نے وہ نام پکارا تھا اور جواب میں صرف خاموشی ملی تھی انہیں۔۔
اشک تھے کہ آنکھوں سے جاری تھے وہ سوجھی ہوئی آنکھیں بوجھل ہوگئی تھی پانی کے ان قطروں سے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"یہ وہ میڈیسن نہیں تھی میں نے دی تھی آپ کو آپ یہ کب سے کھلا رہے ہیں پیشنٹ کو۔۔؟"
ڈاکٹر کے کہنے کی دیر تھی ایک ہی سانس بھرنے کی آواز سنائی دی تھی نجیب آفندی کے چہرے پر وہ غصہ تھا جو اس سے پہلی انکی بیٹی نے نہ دیکھا ہو۔۔
"ہاؤ ڈیرھ یو۔۔؟؟ تمہارا ہسپتال ہے دوائی دینے والے تم ہو یا تمہاری نرسز۔۔۔
لاکھوں روپے بھر رہا ہوں اس لیے کہ یہ سب کرو۔۔؟؟"
ڈاکٹر کا کالر پکڑ کر وہ روم سے باہر لے گئے تھے حورب کے منع کرنے کے باوجود بھی
"دیکھیں سر کالر چھوڑیں میں تو خود شاک ہوں۔۔مجھے اس بارے کچھ معلوم نہیں ہے۔۔"
مگر ایک تھپڑ مار کر ڈاکٹر کو پیچھے دھکا دہ دیا تھا اور ایک ہی للکار میں آواز بلند کی تھی
"وہ نرس وہ وارڈ بوائے وہ سب عملہ چاہیے جو اس کمرے میں دیکھ بھال کررہا تھا"
"بابا پلیز۔۔ آپ ریلیکس ہوجائیں۔۔"
مگر وہ وہ آپے سے باہر ہوگئے تھے جب وہ وارڈ بوائے اور نرس سامنے آئیں تھے
"یو باسٹرڈ۔۔۔ کیا دوائیاں دیتے رہے ہو۔۔؟ اور کس کے کہنے پر۔۔؟؟"
وہ نرس پر تو ہاتھ نہیں اٹھاتے۔۔مگر وارڈ بوائے کو چھوڑتے نہیں ہیں۔۔
"بس کردیں آپ کو ماں کی قسم ہے۔۔"
نجیب کا اٹھتا ہوا ہاتھ رک گیا تھا اس وارڈ بوائے کو بھی ڈاکٹر کی طرح دھکا دہ دیا تھا
"اب ان سے پولیس نمٹے گی۔۔۔"
انہوں نے جیسے ہی فون کیا تھا وہ نرس بھاگنے لگی تھی جسے اسی ڈاکٹر نے پکڑ لیا تھا
"اگر تم دونوں اس سب میں انوالوو ہوئے تو خود اپنے ہاتھوں سے سزا دوں گا۔۔۔"
نجیب آفندی تو پیچھے بیٹھ گئے تھے سرپر ہاتھ رکھ کر
"کیوں آرام نہیں ہے۔؟؟ کس حال میں ہے پھر بھی کسی نے اسے مارنے کی کوشش کی۔۔
کیوں ہے اسکی زندگی خطرے میں میرے ہوتے ہوئے بھی۔۔؟؟"
"بس کرجائیں ڈیڈ۔۔ آپ کے ہاتھ بھی زخمی ہوگئے ہیں۔۔۔"
"ہم اس ہسپتال میں یا کسی ہسپتال میں نہیں رہیں گے بیٹا۔۔ میں ابھی شفٹ کرتا ہوں۔۔ ڈاکٹرز گھر آکر ٹریٹمنٹ کریں گے۔۔۔"
پر حورب انکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر انہیں چپ کروا چکی تھی
"یہ سب اتنا آسان نہیں ہے بابا۔۔۔ آپ سمجھ نہیں رہے یہ ہسپتال ڈاکٹر ہمیں اسی ملک میں ملیں تھے۔۔ یہ سب مانیٹرز اکوئپمنٹ ہمیں گھر میں نہیں مل سکتے ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔۔"
"کیا تمہیں اپنے باپ پر یقین نہیں ہے بیٹا۔۔؟ یہ سب کچھ بھی نہیں ہیں۔۔ میں اسکے لیے اس گھر میں ایک الگ ہسپتال بنا دوں گا اگر ضرورت پڑی تو۔۔"
۔
اور کچھ گھنٹے میں اس نے دیکھا بھی تھا۔۔ بہت گھروں کے درمیان وہ دو منزلہ مکان میں ایک گرینڈ روم میں ہر ضرورت کی مشین میں وہ ویک بستر۔۔۔
۔
اسے اس وقت یہ بات پتہ چل گئی تھی کی اسکی ماں کےلیے اسکے والد صاحب کسی حد تک جا سکتے ہیں۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"آپ کیوں خود جارہے ہیں میڈیسن لینے۔۔؟؟ اتنے ملازم ہیں کسی سے بھی کہہ دیں میرا ویٹ کرلیں بس فلائٹ ۔۔"
"نووو۔۔۔ اور اتنی جلدی واپسی۔۔؟ پرسو ہی تو گئی تھی پاکستان۔۔ کیا وہ لوگ اتنی چھٹیاں دہ دیتے ہیں۔۔؟؟ ڈاکٹر کو تو ایک پل کی فرصت نہیں ہوتی لیزی بون۔۔۔"
"ہاہاہاہا ۔۔۔۔بابا۔۔۔"
"ہاہاہاہا۔۔۔ اچھا فارمیسی آگئی ہے میں گھر جاتے وقت کال کرتا ہوں۔۔"
چند باتیں کرکے انہوں نے فون کاٹ دیا تھا اور جیسے ہی پلٹے تھے کسی سے ٹکڑا گئے تھے وہ۔۔
۔
"آپ رہنے دیں میں کرلوں گی سر۔۔"
"نہیں۔۔نہیں میری غلطی ہے بیٹا۔۔میں اٹھا دیتا ہوں۔۔"
وہ جیسے ہی جھک کر وہ سامان اٹھاتے ہیں انکی نظر اس لڑکی پر پڑتی ہے اور وہ سامان ہاتھ سے نیچے گر جاتا ہے
"منیشا بیٹا۔۔؟؟"
منیشا جو نجیب کو پہچان گئی تھی وہ کچھ قدم پیچھے ہوئی تھی جب نجیب صاحب نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔۔
"منیشا۔۔"
"بیٹا مت کہیے گا۔۔ایم سوری۔۔"
مگر نجیب صاحب اسکا بازو پکڑ چکے تھے
"تم اس وقت اس جگہ کیا کررہی ہو اس حالت میں۔۔؟؟ منیشا بیٹا میرے ساتھ چلو۔۔
ڈرائیور۔۔۔"
مگر وہ اپنا ہاتھ چھڑا چکی تھی
"آپ میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔۔ میں کچھ بھی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔۔"
بات کرتے کرتے اسکے پیٹ میں درد شروع ہوئی جس کی شدت اتنی تھی کہ وہ گھٹنوں کے بل گر گئی تھی۔۔
"میرا۔۔ میرا بچہ۔۔۔"
اپنے پیٹ کو پڑتے ہوئے چلائی تھی وہ۔۔
"کچھ نہیں ہوگا بیٹا۔۔ ہم ابھی ہسپتال چلیں گے۔۔"
انہوں نے جلدی سے ڈرائیور کو بلایا تھا جو گاڑی سڑک کے اس پار لے آیا تھا منیشا کو جلدی سے اٹھائے وہ گاڑی میں لٹا چکے تھے
۔
کچھ دیر میں ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے کچھ تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا جس پر نجیب صاحب کو غصہ بھی آیا تھا منیشہ پر
۔
"آپ کون ہوتے ہیں میرے فیصلے کرنے والے"
"کیا تم نہیں جانتی میں کون ہوں تمہارا۔۔؟؟ خون کا رشتہ نہیں مانتی تو انسانیت کے ناتے ہی مجھے میرا فرض پورا کرنے دو بیٹا۔۔"
"کونسا فرض۔۔؟؟ آپ بری ہیں ہر فرض سے۔۔ مجھے آپ سے کوئی احسان نہیں چاہیے۔۔"
"منیشا مجھے سختی کرنے پر مجبور نہ کرو۔۔"
"کریں سختی میں اس فیز سے پہلے بھی گزر چکی ہوں آپ کے بیٹے نے سختی کی تھی دیکھ لیں کیا نتیجہ نکلا۔۔"
اور وہ چپ چاپ روم سے جانے لگے تھے مگر نہ جا سکے۔۔ انہوں نے یہی تو سیکھا تھا اپنی غلطیوں سے کہ بھاگنا نہیں ہے سب ٹھیک کرنا ہے چاہے کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔۔
"میرا تم پر ہر طرح کا حق ہے بیٹا۔۔ اس ملک میں اس طرح کے قانون بہت ہیں جو تمہیں مجبور کردیں گے میری بات ماننے پر اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ تم چپ چاپ میری بات مانو
اپنا نہیں تو اپنے بچے کا سوچو ۔۔"
اور وہ چلے گئے تھے وہاں سے
"آئی ہیٹ یو نجیب مامو۔۔۔"
وہ زور سے بولی تھی بند دروازے کے اس پار نجیب نے وہ جملہ بھی اپنی یاداشت میں محفوظ کرلیا تھا جیسے باقی سب۔۔۔
۔
"سب کرتے ہیں۔۔ سب کررہے ہیں۔۔اب نفرت لفظ محبت لگنے لگا ہے مجھے
کم سے کم میرے اپنے کسی ایک جذبے سے تو یاد رکھے گے مجھے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"تو آپ مجھ سے شادی کرلینا پھر آپ ہمارے ساتھ رہیں گے۔۔"
اس بچی کے سوال پر سب ٹیچرز نے قہقہ لگا دیا تھا سوائے اس کے جو ایک دم سے چپ ہوگیا تھا
"ہاہاہاہا کیوں پروفیسر صاحب۔۔۔"
"باپ رے۔۔۔ مجھے شادی نہیں کرنی آپ کو کھانا بنانا بھی نہیں آتا۔۔۔"
"پر میں سیکھ لوں گی۔۔"
اس پر وہ کھلکھلا کر ہنس دیا تھا اس بچی کو گود میں اٹھائے گدگدی کرتے ہوئے ہوا میں کہرا دیا تھا اسے۔۔۔ جس پر اس بچی کے قہقے بھی ہواؤں میں گونج اٹھے تھے
"یہ آپ کے ساتھ بہت اٹیچ ہوگئی ہے پروفیسر صاحب۔۔۔"
"انکے ساتھ تو سب بچے ہی اٹیچ ہوگئے ہیں یہ سمر کیمپ واقعی ہی بہت اینجوائے کیا ہم سب نے۔۔"
اس شخص نے اس بچی کو نیچے اتار دیا تھا
"مس ماہا اب جلدی سے اپنے کیمپ میں چلی جائیں نہیں تو پرنسپل سر نے پنش کردینا ہے۔۔"
پر ماہا بازو باندھے منہ پھیر کر کھڑی ہوگئی تھی
"پہلے میرا جواب دیں شادی مجھ سے ہی کریں گے۔۔۔"
"ہاہاہاہاہاہا۔۔ نہیں۔۔"
"اوکے میں آپ کی ماما سے بات کروں پھر۔۔؟؟"
مننان کے چہرے کی ہنسی غائب ہوگئی تھی ماں لفظ پر۔۔۔
"اپنے کیمپ میں جاؤ ماہا۔۔"
"پر۔۔۔"
"ناؤ۔۔۔"
وہ چلایا تھا۔۔ اسے غصہ نہیں نہیں آتا تھا۔۔کسی نے ان چار سالوں میں اسے غصے میں نہیں دیکھا تھا
اب جب اس بچی کو ڈانٹتے دیکھا تو مس سائرہ نے ماہا کو پیار سے سمجھایا تھا۔۔
سب بچے اپنے اپنے ٹیچرز کے ساتھ کیمپ میں چلے گئے تھے سائرہ نے ایک نظر منہ
پھیرے پروفیسر کو دیکھا تھا وہ دور اس پہاڑی کے کنارہ پر کھڑا تھا۔۔
اس پرسکون ماحول میں اس شخص کے چہرے پر پڑتےبل اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ پرسکون نہیں ہے۔۔
"سرآپ۔۔"
"میں ابھی اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔۔ اس سکول کی ٹریپ کب ختم ہورہی ہے۔۔؟"
اس نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا
"نیکسٹ ویک۔۔۔ کیا آپ غصہ ہوگئے ہیں۔۔؟ لاسٹ ٹائم بھی جب غصہ ہوئے تو اس سکول کی ٹریپ آپ نے جلدی ہی ختم کروا دی تھی کیا اس بار بھی ان بچوں کو جلدی بھیج دیں گے۔۔؟؟"
"ہاہاہا۔۔ نہیں۔۔ اس بار میں جلدی جانا چاہتا ہوں۔۔ شہر میں کچھ کام ہے۔۔"
"اوہ۔۔۔"
دونوں کے درمیان پھر سے گہری خاموشی چھا گئی تھی۔۔
سائرہ بہت سے سوال کرنا چاہتی تھی پر چپ تھی کیا کرتی۔۔۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی انہوں نے سمر کیمپ آرگنائز کروائے تھے
ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ اس شخص کو انہی چند ماہ دیکھ پاتی تھی باقی کوئی نہیں جانتا تھا وہ کب کہاں سے آتے اور چلے جاتے ہیں۔۔۔
مگر وہ یہ جانتی تھی یہ جگہ اور یہ بچے بے حد سکون دیتے ہیں اس لیے ہر وقت وہ انہیں بچوں میں مگن دیکھتی تھی وہ۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"سر اس بار ہماری انفارمیشن ٹھیک ہیں "
"پچھلی بار بھی یہی کہا تھا نہ تم نے۔۔؟ کڑوروں روپے کھا کر بھی تم پہ نہ لگا پائے۔۔"
"سر ایک بار یہ دیکھ لیں۔۔"
اور جب وہ لیپ ٹاپ کی سکرین اس ڈی ٹیکٹو نے نجیب کے سامنے کی تھی ہاتھوں سے وہ گلاس گر گیا تھا۔۔ اور یقین آگیا تھا انہیں کہ انکی تلاش ختم ہونے کو آئی۔۔
"یہ میرا۔۔۔میرا۔۔۔"
آفس چئیر پر بیٹھ گئے تھے سکرین پر انگلیاں پھیرتے ہوئے آنکھیں بھر گئی تھی انکی۔۔
"وہ یہی ہیں۔۔۔ مگر شہر سے دور ایک لینڈ جو پرائیویٹ پراپرٹی ہے انکی سیکیورٹی بہت ٹائٹ ہے وہاں کی۔۔ وہ جگہ بچوں کے سمر کیمپ کی جگہ جانی جاتی ہے۔۔
میں زیادہ تو کچھ نہیں کرسکا مگر میں یہ پاس لے آیا ہوں۔۔
آپ اس سکول کے پرنسپل بن کر وہاں اینٹر ہوسکتے ہیں اور یہ ظاہر کیجئے گا کہ آپ وہاں سمر کیمپ بکنگ کے لیے گئے ہیں۔۔"
ساتھ کھڑا وہ آدمی سب بتاتا جارہا تھا مگر نجیب صاحب کی آنکھیں ہٹ نہیں پارہی تھی اس ویڈیو سے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"میں آج شام کو یہاں سے جارہا ہوں ۔۔ سنبھال لینا ۔۔ اس سکول کی ٹریپ کل کلوز ہوجائے گی اور۔۔"
"مننان۔۔۔ بیٹا۔۔۔"
میز پر بکھرے کاغذات سمیٹتے ہوئے وہ ہاتھ تھم گئے تھے۔۔۔ اس نے بےساختہ پیچھے مڑ کر دیکھا تھا
"۔۔۔"
مننان بیٹا۔۔۔"
وہ اندر داخل ہوئے تھے اور اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا
مننان بیٹا۔۔۔ میرے بچے۔۔۔ اتنی ضرورت سانسوں کی جسم کو نہ ہوگی جتنی ضرورت ہمیں تمہاری تھی بچے۔۔۔"
بیٹے کے چہرے کو ہاتھوں میں لئیے وہ چومتے ہوئے باتیں کررہے تھے۔۔
۔
یہ وہ محبت کی شدت تھی جسے وہ بچپن میں تلاش کرتا آیا تھا۔۔
اب اپنے باپ کو اس طرح دیکھ کر اسے وہ سکون وہ خوشی کیوں نہیں مل رہی تھی۔۔؟؟
"آپ یہاں کیوں آئے ہیں۔۔؟؟ کیسے معلوم ہوا۔۔؟ جائیں یہاں سے۔۔ اور پلیز کسی کو مت بتائیے گا کہ میں۔۔۔ میں زندہ بھی ہوں۔۔"
ہاتھ چھڑا کر وہ اس روم سے باہر چلا گیا تھا کمرے کے باہر کھلا آسمان تھا اس نے اس جگہ اپنا آفس وہ بلڈنگ کھڑی کی ہوئی تھی ان پہاڑوں پر۔۔۔ وہ جیسے ہی باہر آیا تھا آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا اسکے تیز دھڑکتے دل کو وہ آرام نہیں دہ پارہی تھی جو ہر روز ملتا تھا یہاں کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہوکر۔۔۔
۔
"مننان بیٹا۔۔"
"جائیں یہاں سے۔۔ مجھے زندہ میں شمار نہ کریں چلے جائیں۔۔"
"اور اسکا کیا جو زندہ ہوتے ہوئے بھی زندہ نہیں۔۔؟؟ مننان تمہاری ماں۔۔۔"
مننان کی مٹھی بند ہوگئی تھی
"کیا ہوا انہیں۔۔؟؟"
"جوان بیٹے کی موت کا سن کر کونسی ماں ٹھیک رہ سکتی ہے مننان۔۔؟؟ تمہاری ماں کچھ بھی نہیں رہی تمہارے بغیر۔۔۔
ایک بٹن۔۔۔ جو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ پریس کرکے اسے اس اذیت سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔۔
مننان ڈاکٹر کو لگتا ہے کہ وہ بہت پہلے جاچکی ہے۔۔۔
وہ مصنوعی سانس بس ہمارے لیے دلاسے ہیں۔۔"
"کہاں ہیں وہ۔۔؟؟"
والد کی آنکھیں سے گرنے والے آنسوؤں نے اسکا دل پسیج دیا تھا۔۔
ماں کا نہ ہونے اسکی روح تک کو گھائل کرگیا تھا اس لمحے۔۔
"لے چلیں۔۔۔ مجھے لے چلیں۔۔۔"
باپ کا ہاتھ پکڑے وہ تیز قدموں سے نکلا تھا اوہاں سے۔۔۔
کب گاڑی میں بیٹھا نجیب کی کب وہ اس چھوٹے سے گھر کے باہر رکی گاڑی سے اترا اور نجیب سے پہلے وہ اس گھر کے باہر تھا۔۔
زور سے دروازہ بجانے پر اسے جو آواز سنائی دی وہ اسے اور شاک کرگئی تھی
"افف مامو رک جائیں۔۔۔ آپ کی چابی کہاں ہے۔۔؟؟ "
وہ سب کچھ امیجن کرسکتا تھا مگر اپنے ماضی کو نہیں۔۔
منیشا جس طرح دروازہ کھولے اسکے سامنے کھڑی تھی
"منیشا بیٹا۔۔"
منیشا اس سے زیادہ شاک تھی مننان کو اپنے سامنے پاکر۔۔
جس کی موت پر ری ایکٹ نہیں کیا تھا اسکے زندہ وجود نے اسکی آنکھوں میں آنسو لا دئیے تھے
"ماں۔۔۔ ماں۔۔۔"
وہ اندر داخل ہوگیا تھا۔۔۔
"اس کمرے میں۔۔"
نجیب صاحب کے کہنے کہ دیر تھی اور وہ سیڑھیاں چڑھتے اس کمرے میں داخل ہوگیا تھا۔۔
۔
روم میں پہلے سے موجود ڈاکٹر اور نرس متوجہ ہوئے تھے
"سر ابھی ان کا معائنہ۔۔۔"
پر وہ ڈاکٹر کو پش کئیے بیڈ تک پہنچا تھا۔۔ سب کی آوازیں قدموں کی آہٹ دروازہ کھلنے اور بند ہونے کا شور دماغ سے اوجھل ہوگیا تھا جب اپنی ماں کو مشینوں کی قید میں گھیرے دیکھا تھا اس نے
"ماں۔۔۔میں آگیا ہوں۔۔ آپ کا مننان۔۔ ماں آگیا ہوں میں۔۔"
بہت آرام سے ماں کے ہاتھ کو ماتھے پر لگائے بیڈ پر بیٹھا تھا وہ۔۔۔
آنکھیں کھولو ماں۔۔۔ میں آگیا ہوں۔۔"
مانیٹر کی بیپ تیز ہوگئی تھی
"آپ باہر جائیں۔۔۔"
مگر وہ کسی صورت تیار نہیں تھا ہاتھ چھوڑنے کو۔۔
"انکی حالت خراب ہورہی ہے ہمیں انہیں ہاسپٹل شفٹ کرنا ہوگا۔۔"
"کچھ نہیں ہوگا آپ کو۔۔ میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا ماں۔۔"
۔
نسواء کو واپس ہسپتال شفٹ کردیا گیا تھا۔۔۔ایک ہفتہ حالت ویسی ہی رہی تھی
"انہوں امپرومنٹ دیکھائی ہے جو کہ بہت حیرانگی بات ہے۔۔ آپ جتنا ہوسکے ان سے باتیں کریں کوشش کریں کہ یہ ری ایکشن دیں۔۔"
ڈاکٹر کے جانے کے بعد ہی نجیب نے مننان کو اپنے گلے سے لگایا تھا
"تھینک یو سوو مچ بیٹا۔۔۔تم نے مجھے ایک نئی زندگی دہ دی ہے تھینک یو سو مچ۔۔"
مننان کے ماتھے پر بوسہ دئیے وہ واپس نسواء کے بیڈ پر بیٹھ گئے تھے
"نسواء ہمارا بیٹا واپس آگیا ہے۔۔۔اب آپ بھی واپس آجائیں۔۔ واپس آجائیں۔۔"
وہ اور بریک ڈاؤن نہیں دیکھ پا رہا تھا اپنے والد کا اپنی ماں کا روم سے جیسے ہی باہر جانے لگا تھا منیشا سے سامنا ہوا تھا اس کا۔۔۔
"یہ کھانا۔۔۔ مامو نے کچھ کھایا نہیں۔۔ کھلا دیجئے گا میں۔۔"
منیشا کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اس نے۔۔
"میں ۔۔ مجھے ضروری کام ہے۔۔ تم کھلا دو۔۔ "
ہاتھ ایک دم سے چھوڑ دیا تھا معذرت کرکے وہ چلا گیا تھا۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"بیٹا ڈنر کرلو۔۔۔"
ٹیرس پر کھڑے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا
"ابھی بھوک نہیں ہے۔۔ آپ۔۔"
"اٹس اوکے۔۔ نہیں کھانا مگر ہمیں کمپنی تو دہ سکتے ہو نہ۔۔؟؟ آج ڈنر تمہاری ماں کے پاس کریں گے۔۔"
انہیں انتظار تھا جیسے ہی مننان نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ باپ بیٹے نیچے آگئے تھے
۔
"ویسے آپ نے سہی گھر کے مردوں کو آگے لگایا ہوا ہے ماں۔۔ مامو بھی اور اب آپ کا بیٹا بھی۔۔
نوٹ فئیر میں اکیلے ہینڈل کررہی ہوں سب کچھ۔۔ اور وہ شیطان اسکی شرارتیں دیکھیں تو سمجھ آجائے کہ کتنا مشکل ہے۔۔"
"لڑکی اتنا تنگ بھی نہیں کرتے ہم۔۔"
"جائیں مامو۔۔ بنے مت اب۔۔ جتنا تنگ آپ کرتے ہیں بچوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں"
"ہاہاہا دیکھ لیں نسواء۔۔۔"
منیشا اور نجیب کی بونڈنگ دیکھ کر اسکے قدم دروازے پر ہی رکے رہ گئے تھے
"اندر آجائیں کھانا لگ گیا ہے۔۔"
منیشا آہستہ سے کہہ کر باہر چلی گئی تھی
"بیٹا تم نہیں کھاؤ گی۔۔؟؟ "
"میں بس انتظار کررہی ہوں سکول بس کسی بھی وقت ڈراپ۔۔لو آگئی اب پورا گھر سر پہ اٹھا لے گی۔۔"
وہ کہتے ہی چلی گئی تھی کچھ دیر میں وہ صوفہ پر بیٹھ گئے تھے
"کس کی بات ہورہی تھی۔؟"
مننان نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا جس کا جواب دیتے ہوئے نجیب ہچکچا رہے تھے
"وہ بیٹا۔۔۔"
"مجھے معلوم تھا کسی کو میرا انتظار نہیں ہوگا۔۔ ابو آپ بھی بہت گندے بچے ہیں۔۔"
دروازہ جیسے ہی کھلا تھا وہ کمر پر ہاتھ رکھے نجیب کو گھور رہی تھی
"ہاہاہاہا۔۔ کیا بات ہے اتنا بڑا میں آج سب کو بچہ لگ رہا ہوں۔۔۔"
وہ اپنی جگہ سے اٹھے تھے اس بچی کی طرف بڑھے تھے
"او مائی گاڈ۔۔۔ پروفیسر ایم۔۔۔؟؟"
نجیب کو پیچھے چھوڑے وہ مننان کی طرف بھاگی تھی
"ماہا۔۔ بیڈ مینرز۔۔"
منیشا کی آواز نے بھی اس بچی پر کوئی اثر نہیں کیا تھا جو مننان کے گلے لگی تھی
"پروفیسر ایم۔۔ کیا آپ میری ماما سے شادی کی بات کرنے آئے ہیں۔۔؟؟"
"وٹ دا۔۔۔"
منیشا نے غصے سے کہا تھا مننان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے۔۔
"جی ماما۔۔ میں نے کہا تھا نہ میں پروفیسر ایم سے شادی کروں گی۔۔سمر کیمپ یاد ہے۔۔؟"
وہ سب چپ ہوگئے تھے پر ایک ہنسی نے ان سب کو شاکڈ کردیا تھا اور وہ ہنسی اس خاموش انسان کی تھی جو کب سے چپ تھا۔۔
"نسواء۔۔"
"ماں۔۔"
"نانو۔۔"
سب ہی بستر کی طرف بھاگے تھے۔۔۔
۔
"ہنستے ہنستے یار ہم تو روپڑۓے۔۔۔
آنکھیں پونچھوں۔۔ آنسو پھر سے نم کرے۔۔"
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"اب وہ بالکل فٹ ہیں اس وینٹی لیٹر کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔۔"
ایک ایک کرکے وہ مشین اس روم سے باہر چلی گئی تھی
"مننان بیٹا۔۔"
اسے پھر سے پکارے جانے کی ضرورت نہ تھی وہ ماں کی طرف لپکا تھا
"ماں۔۔۔"
ماں کے کندھے پر سر رکھے اسکی خاموش سسکیاں اس کمرے سے باہر تک سنائی دہ رہی تھی
"پروفیسر ایم کیوں رو رہے ہیں ماما۔۔؟"
"ماہا بیٹا ابھی آپ کے سونے کے ٹائم ہوگیا ہے چلیں۔۔"
"پر ماما۔۔"
"پلیز بیٹا باقی باتیں صبح سہی۔۔"
"اوکے۔۔ پر نانو سے تو ملنے دیں۔۔"
ماہا جلدی سے روم میں داخل ہوئی تھی
"مامو۔۔ سنبھالیں خود کو۔۔"
اندر سے آتی ہوئی آواز نے دونوں کو چپ کرا دیا تھا
"میں ہوں ماہا ماہیر آفندی۔۔۔"
بیڈ پر لیٹی نسواء سے ہاتھ ملاتے جیسے ہی اس نے اپنا نام بتایا اندر وہ ماں بیٹا ساکن ہوگئے تھے اور باہر نجیب آفندی۔۔۔ مننان کی فکر لاحق ہوگئی تھی انہیں۔۔
"ماہا بہت پیارا نام ہے۔۔"
"نسواء بھی بہت پیارا نام ہے ویسے۔۔"
نسواء پھر سے ہنسی تھی اور اس بچی کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔
ایک پل کو اسکی آنکھیں باہر کھڑے اس شخص سے ٹکرائی تھی مگر پھر وہ شخص اوجھل ہوگیا تھا آنکھوں سے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"بس کرجاؤ۔۔ بیٹا اور نہیں کھایا جائے گا۔۔"
"اب آپ کی منمانی نہیں چلے گی بھیا اور کھلائیں۔۔۔"
حورب کو دیکھتے ہی وہ کرسی سے اٹھی تھی
"حورب میری بچی۔۔"
"بس نام کی بچی تھی ماں۔۔ آخر کار آپ نے بھائی اور مجھ میں فرق کرہی دیا نہ۔۔؟
اتنے سال مجھے کس بات کی سزا ملی۔۔؟ اور بابا۔۔ آپ جانتی ہیں کیا گزری ان پر۔۔؟؟"
وہ ماں کے گلے لگ کر گلے شکوے کرتی ہے۔۔
"آپ دونوں نہیں آپ تینوں نے بہت امتحان لئیے میرے۔۔ ایک پل کو لگا تھا کہ اپنی جان لے لوں اور خود کو آزاد کرلوں اس روز روز کی اذیت سے۔۔"
حورب کی باتیں کڑوی مگر سچی تھی۔۔اور وہ آج بتانا چاہتی تھی کہ ان تینوں نے کتنی تکلیف دی اسے۔۔
۔
"گڑیا۔۔۔"
"مننان بھائی۔۔۔میں جانتی تھی آپ ٹھیک ہوں گے۔۔۔ کچھ نہیں ہوا ہوگا آپ کو۔۔
اتنا وقت لگا دیا واپس آنے میں بھائی۔۔۔"
بھائی کے گلے لگتے ہی اس کے شکایات دھری کی دھری رہ گئی تھی۔۔۔
۔
اپنوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مننان نے خود سے ایک وعدہ کیا تھا ان سب کے لیے جینے کا جنہوں نے اپنی زندگیاں روک دی تھی اسکے لیے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"مننان بیٹا ہم کہاں جارہے ہیں۔۔"
"۔۔۔ بابا کے پاس جارہے ہیں ماں۔۔"
"مننان۔۔"
"حیران مت ہوں۔۔ میں جانتا ہوں آپ کیوں ان کے سامنے نہیں جاتی کیونکہ آپ مجھے ناراض نہیں کرنا چاہتی۔۔۔"
"ایسی بات نہیں بیٹا۔۔یہ سب تمہارے بابا نے شروع کیا۔۔"
"انکی بھی وہی وجہ ہوگی جو آپ کی ہے۔۔ آپ دونوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرنا چاہتے تاکہ میں اداس نہ ہوجاؤں۔۔"
ماں کا ہاتھ پکڑے وہ ٹیرس پر لے آیا تھا پورا ٹیرس سجا ہوا تھا گلاب کے پھولوں سے روشن تھا موم بتیوں سے چراغوں سے۔۔۔درمیان میں ٹیبل اور دو کرسیاں رکھی گئی تھی مکمل انتظام کیا تھا ان بچوں نے اپنے والدین کی ڈیٹ کا۔۔۔
۔
"مننان۔۔۔"
"ماں انہیں بہت سزا مل گئی۔۔ بہت کچھ ہوگیا۔۔ دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں رہا انکے پاس
سوائے آپ کے۔۔ اب میرے لیے انکا وہ سہارا نہ چھینیں۔۔"
"بیٹا یہ نہ سوچو۔۔"
مگر وہ کرسی پر بٹھا چکا تھا نسواء کو۔۔
"ماں۔۔۔ اب بچوں کی فکر چھوڑ کر اپنی زندگی گزاریں۔۔ بس بہت کرلیا بچوں کے لیے۔۔
اب آپ دونوں کو ایک دوسرے کو اہمیت دینی ہوگی ایک دوسرے کو اہم سمجھنا ہوگا۔۔
میں نے جتنا ماضی میں آپ کو پل پل مرتے دیکھا۔۔ اب میں نے انکو تڑپتے ہوئے دیکھا ہے۔۔ایک بار۔۔ اس مننان کو درمیان سے ہٹا کر اپنے رشتے کو دیکھیں۔۔"
"اگر مننان ہٹ گیا تو کیا رہ جائے گا درمیان میں بیٹا۔۔؟؟"
نجیب صاحب بھی سامنے آچکے تھے
"تم ہمارے پیار کی نشانی۔۔۔ جس نے ہمیں جوڑے رکھا۔۔ اگر تم ہٹ گئے تو کیا وجود رہ جائے گا ہمارا۔۔؟؟"
مننان نے ان دونوں کے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا
"ویسے کیا غذب ڈھا رہی ہے آپ کی جوڑی۔۔ آپ اس مہرون ساڑھی میں اور آپ اس ٹکسیڈو میں۔۔میری نظر نہ لگ جائے۔۔ اور آپ دونوں بھی باہر نکل آئیں۔۔ میں نہیں چاہتا میرے ماں بابا کے رومینٹک سین کوئی دیکھے۔۔"
حورب منہ بناتے اور منیشا اسے آنکھیں دیکھاتے ہوئے اس چھپی ہوئی جگہ سے باہر نکلی تھی
"میں بھی تھی چھپی ہوئی"
"ہاہاہا آپ کو تو بھول ہی گیا تھا محترمہ۔۔"
ماہا کو گود میں اٹھائے خوب گدگدی کی تھی مننان نے۔۔۔
"چلو چلو۔۔ بھاگو نیچے۔۔۔"
وہ دونوں کو نیچے لے گیا تھا۔۔۔
"اور بابا۔۔ پلیز اپنی عمر کا لحاظ رکھئیے گا ہمیں کوئی بہن بھائی نہیں چاہیے ۔۔۔"
"ہاہاہاہاہا مننان بھیا۔۔۔۔"
وہ سب کے قہقے مسلسل سنائی دے رہے تھے انہیں جن کے منہ سرخ ہوگئے تھے مننان کی بات سن کر۔۔۔
"نسواء۔۔۔"
"اسے تو میں چھوڑوں گی نہیں۔۔۔"
پر وہ بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ چکے تھے۔۔اور وہ شرم کے مارے اپنی چہرہ نجیب کے سینے میں چھپا چکی تھی
"ہاہاہا۔۔ ارے اتنی شرم۔۔۔ میں نے کونسا سیریس لے لینا ہے۔۔ ڈونٹ وری۔۔"
"شٹ اپ۔۔"
"ہاہاہاہا آئیڈیا برا نہیں ہے نسواء۔۔۔ "
"نجیب۔۔۔ بس کریں۔۔"
نجیب کی ہنسی نے انہیں اور شرم سے پانی پانی کردیاتھا۔۔
۔
وہ رات انکی باتوں میں گزری تھی خوبصورت باتوں میں پرانی یادوں میں ۔۔۔
۔
"یہ دل ہمیشہ سے آپ کے لیے دھڑکا ہے نسواء۔۔کیا میں آئی لو یو نہ کہوں تو آُ سمجھ جائیں گی نہ کہ میں آپ سے بےحد محبت کرتا ہوں۔۔"
نجیب کے گالوں پر ہاتھ رکھ کر انکا چہرہ اپنے برابر کیا تھا نسواء نے
۔
"ان لفظوں کی ضرروت نہیں رہی نجیب آپ کی آنکھیں آپ کا ہر راز کھول رہی ہیں مجھ پر۔۔۔"
انکے ماتھے پر اپنا ماتھا رکھے ہاتھوں میں ہاتھ تھام چکی تھی نجیب کے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"آپ دونوں اب ایک کمرے میں سوئیں گے۔۔؟؟"
ماہا نے نجیب اور نسواء سے ایک ہی سوال پوچھا تھا جب وہ اگلے دن بریک فاسٹ کرنے آئے تھے۔۔۔
"اہاہاہاہا۔۔۔"
نسواء کو کھانسی آنا شروع ہوگئی تھی اور حورب کی ہنسی کنٹرول نہیں ہورہی تھی اس وقت
اور وہ بچی ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھے کسی ہیڈ ماسٹر کی طرح دیکھ رہی تھی نجیب اور نسواء کو
"باپ رے۔۔ اتنا تو کبھی ہمارے بچوں نے نہیں پوچھ گچھ کی تھی۔۔"
وہ بھی ہنسی چھپاتے ہوئے کہتے ہیں نسواء کے کان میں۔۔
"ماہا ۔۔ آج سکول نہیں جانا بیٹا۔۔ میں ڈراپ کردوں۔۔؟؟"
مننان نے بہت پیار سے پوچھا تھا۔۔
"اسکی کوئی ضرروت نہیں اسکی سکول وین آتی ہوگی۔۔"
منیشا نے جتنی بے رخی سے کہا تھا مننان کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی سنجیدہ ہوگئے تھے۔۔
یہ وہ معاملہ تھا جس پر کوئی بھی فرد کچھ نہیں کہنا چاہتا تھا نہ ہی مننان سے نہ ہی منیشا سے۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"کیا نام بتایا تھا شہاب۔۔ آپ بلا لیں اسکے پیرنٹس کو نجیب۔۔۔"
حورب نے والد کو دیکھا تھا اور پھر خاموشی سے والدہ کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی
"کیا ہوا بیٹا۔۔ تم تو جارہی تھی ہاسپٹل۔۔"
"ماں۔۔ یہ کس کی بات ہورہی ہے۔۔؟؟"
"بیٹا تمہارے بابا نے تمہارے رشتے کی با۔۔"
"مجھے نہیں کرنا۔۔ اس شخص سے تو بالکل نہیں۔۔"
اور وجہ جان سکتا ہوں میں۔۔؟؟"
"بابا پلیز۔۔۔"
"کیا تمہیں وہ پسند نہیں تھا۔۔؟؟ کیا تمہاری اس سے نفرت میں نہیں تھا۔؟؟
اس وقت سے اب تک وہ بس ایک موقع مانگ رہا ہے حورب بیٹا۔۔"
"اور میں اسے وہ ایک موقع نہیں دینا چاہتی۔۔ اس نے آپ کو غلط کہا تھا۔۔
میری نظر میں جتنی عزت ماں کی ہے بھائی کی ہے اتنی آپ کی بھی ہے بابا۔۔
میں کسی غیر کو اجازت نہیں دیتی کہ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرے۔۔
پسند ہو یا نہ ہو۔۔۔ "
ماں کے گال پر بوسہ دئیے وہ روم سے چلی گئی تھی۔۔ نسواء تو کھلے منہ کے ساتھ اپنی بیٹی کو دیکھتی رہ گئی تھی
"نسواء آپ ہی سمجھائیں اسے۔ اس لڑکے سے ایک غلطی۔۔"
"غلطی نہیں کہتے اسے۔۔ بابا اگر گڑیا اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو اسے فورس نہ کریں۔۔"
"ہوا کیا ہے ان دونوں کو۔۔؟؟"
"انہیں پیار ہوا ہے آپ سے نجیب آفندی۔۔ اب چپ کرکے بیٹھ جائیں۔۔۔
ہم حورب کے لیے کوئی اور اچھا سوٹ ایبل رشتہ تلاش کرلیں گے۔۔"
بازو سے کھینچ کر وہ اپنے ساتھ بٹھا چکی تھی نجیب کو۔۔۔
"آہم۔۔۔ خیر ہو۔۔ نسواء۔۔ "
"خیر ہے مسٹر نجیب۔۔۔"
نجیب کی گردن پر ہاتھ رکھے نسواء نے سرگوشی کی تھی۔۔
چہرے کے درمیان وہ فاصلہ بھی ختم ہونے کو تھا جب وہ ننھی شیطان کمر پر ہاتھ رکھے وہاں کھڑی تھی
"آپ دونوں کس کرنے لگے تھے نہ۔۔؟ بیڈ مینرز ہیں۔۔۔"
"یا اللہ ۔۔ اب منیشا کو منع نہیں کروں گا۔۔ اسے بوڈنگ میں جانا چاہیے۔۔"
نسواء کے کندھے پر سر رکھ چکے تھے وہ اور نسواء ہنس ہنس کر پاگل ہوئے جارہی تھی۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"میں ڈراپ کردیتا ہوں منیشا گاڑی میں بیٹھو۔۔"
"نہیں میں چلی جاؤں گی۔۔ بس سٹینڈ پاس ہی ہے۔۔"
"اتنی بارش میں۔۔؟ فار گوڈ سیک گاڑی میں بیٹھو۔۔"
مگر منیشا تو زور سے اس کھلے دروازے کو بند کرکے آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔
وہ کچھ پل کو وہی رک گیا تھا پچھلے دنوں کی طرح وہ اب بھی درگزر کرنا چاہتا تھا اب بھی وہ چپ چاپ اپنے کام سے مطلب رکھنا چاہتا تھا۔۔
مگر اب اسکی لمٹ بھی کراس ہوتی جارہی تھی۔۔تیز بارش کو دیکھ کر اس نے اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولا تھا اور منیشا کے پیچھے قدم بڑھائے تھے
"تمہیں میری بات سمجھ کیوں نہیں آرہی منیشا۔۔؟ گاڑی میں بیٹھو۔۔"
بازو کو زبردستی پکڑے گاڑی کی طرف دھکیلا تھا
"لئیو مائی ہینڈ مننان۔۔ ہاتھ چھوڑیں۔۔"
اسکے چیخنے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔۔اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولے اس نے اندر پش کیا تھا منیشا کو۔۔
جو منہ بناتے ہی بیٹھ گئی تھی گاڑی میں۔۔۔
"ایم سوری۔۔۔ میں زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ اگر تم بیمار پڑجاؤ گی تو ماہا کا خیال کون رکھے گا۔۔؟؟"
اپنے رویے کا بہانہ بناتے ہوئے وضاحت دی تھی اس نے۔۔
"آپ کی عادت ہے پہلے کرلینا پھر معافی مانگ لینا۔۔ مگر خدارا میری بیٹی کو دور رکھے
میں نہیں چاہتی کہ اب آپ کے بدلوں میں وہ معسوم بچی آئے۔۔"
"منیشا۔۔ میں کسی بدلے کے تحت واپس نہیں آیا۔۔ کیا میں اس بچی کو نقصان پہنچا سکتا ہوں۔۔؟؟"
"آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔۔"
مننان نے پھر کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا اسے۔۔ گاڑی گھر کے باہر جیسے ہی رکی تھی وہ جلدی سے نکل کر اندر چلی گئی تھی اور جب مننان کار پارک کرکے اندر گیا تھا
تو سیدھا نسواء کی جانب بڑھا تھا جو ٹاول لئیے کھڑی تھی مسکراتے ہوئے بیٹے کے بالوں کو تولیے سے سکھانا شروع کیا تھا
"ماں۔۔۔ پچھلے ہفتے مس سائرہ کے آئے ہوئے رشتے کے بارے میں جواب جاننا تھا آپ نے میرا۔۔؟؟
میری طرف سے انکار کردیجئے گا۔۔۔
میں نے سوچ لیا ہے میری منزل کیا ہے۔۔۔ منزل مشکل ضرور ہے پر نا ممکن نہیں ہے ماں۔۔"
اسکی بات سن کر سیڑھیاں چڑھتے منیشا کے قدم رکے تھے
"مجھے فخر ہے تمہارے اس فیصلے پر بیٹا۔۔۔مگر۔۔"
"اس بار کوئی غلطی نہیں ہوگی۔۔ کوئی زور زبردستی نہیں ہوگی ماں۔۔ اس بار اگر میں اسے اپنی محبت سے نہ جیت سکا تو اسے قسمت کا فیصلہ سمجھ کر تسلیم کرلوں گا۔۔
میں اسکا ہرجائی بن کر نہیں جینا چاہتا ۔۔۔"
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
" نجیب۔۔۔ سو گئے۔۔۔؟؟ نجیب۔۔۔"
سینے سے سر اٹھائے نجیب کی بند آنکھوں کو دیکھا تھا اور واپس مایوسی سے سر نجیب کے سینے پر رکھے لیٹ گئی تھی
"میرے ہرجائی۔۔ ایکٹنگ بند کریں جانتی ہوں جاگ رہے ہیں۔۔۔"
اگلے لمحے اسے بیڈ کے ساتھ پن کردیا تھا نجیب نے آنکھوں میں بےپناہ غصہ تھا
"نسواء میں نے کتنی بار کہا ہے یہ لفظ مجھے زہر لگتا ہے۔۔"
"کونسا لفظ۔۔؟؟"
گلے میں بانہوں کا ہار ڈالے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا تھا
"ہرجائی۔۔"
"اووہ۔۔۔۔ برا کیوں لگتا ہے۔۔؟؟ کیا آپ میرے ہرجائی نہیں ہیں۔۔"
"نسواء۔۔پلیز۔۔۔"
"ہرجائی۔۔۔"
نجیب کی آنکھوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا تھا نسواء نے
"ہرجائی۔۔۔"
ماتھے پر بوسہ دے کر پھر سے دہرایا تھا
"میرا ہرجائی۔۔۔"
لبوں پر انگلی رکھتے ہوئے انہوں نے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا تھا
"نسواء۔۔۔"
"میرا ہرجائی۔۔۔۔"
اور وہ فاصلہ بھی ختم کردیا تھا نسواء نے۔۔۔
۔
۔
۔
٭٭٭۔۔۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔۔٭٭٭
۔
۔

14/11/2025

ناول: "میرا ہرجائی"
رائٹر: سدرہ شیخ
قسط نمبر 33 (آخری قسط)
۔
"آپریشن کامیاب ہوا بابا۔۔۔ ماں اب ہمیں چھوڑ کر نہیں جائیں گی کہیں نہیں جائیں گی۔۔۔"
نجیب کے گلے لگ کر اپنی بےپناہ خوشی کا اظہار کیا یہاں تک کہ روم میں موجود نرس اور ڈاکٹر بھی حورب کو اتنا خوش دیکھ کر مسکرا دئیے تھے
"میں نسواء کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ ان سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔"
"ابھی نہیں بابا۔۔ابھی آپ ٹھیک نہیں ہیں۔۔"
"نہیں بیٹا۔۔میں ٹھیک ہوں ایک بار نسواء کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔"
حورب نے نرس کو اشارہ کیا تھا اور وہ کچھ دیر میں ویل چئیر روم میں لے آئے تھے
"بس بیٹا میں چل لوں گا تمہارا باپ اتنا کمزور بھی نہیں ہے۔۔"
حورب نے مسکرا کر دیکھا تھا نجیب کو اور آنکھیں صاف کئیے ایک ڈاکٹر کی مدد سے نجیب کو ویل چئیر پر سہارا دے کر چئیر پر بٹھا دیا تھا
"میں جانتی ہوں آپ کمزور نہیں ہیں مگر یہ جسم کمزور ہے ابھی۔۔ آپ نے ماں کا خیال بھی تو رکھنا ہے نہ۔۔؟؟"
"میری بچی۔۔۔ مننان یہیں ہے وہ نسواء سے ملا۔۔؟؟"
"نہیں ابھی نہیں۔۔"
اور وہ ویل چئیر کو سہارا دئیے باہر لے گئی تھی۔۔
راستے میں ملنے والے کالیگ ڈاکٹر اسے مبارکباد دے رہے تھے اسکی تعریف کررہے تھے اور نجیب آفندی کا سینہ فخر سے اور چوڑہا ہورہا تھا
۔
کل کی رات بہت طویل ثابت ہوئی تھی مگر اب انہوں نے خود سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اب اپنی بیوی اور دونوں بچوں کو پھر سے اپنی زندگی میں ایک ساتھ لے آئے گے۔۔
وہ جانتے تھے نسواء انہیں قبول کرچکی ہے حورب انہیں تسلیم کرچکی ہے وہ یہ بھی جانتے تھے مننان نے کل جس طرح اسے بابا کہا وہ دن دور نہیں تھا جب مننان بھی اپنا لے گا۔۔۔
۔
مگر کیا پتہ تھا کچھ گھنٹوں کے بعد زندگی کا ہر پل ایک سال کی طرح کٹنا تھا ان کا۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"تمہاری وجہ سے ہوا سب کچھ نکل جاؤ میرے گھر سے۔۔۔ میرا بیٹا مر گیا تمہاری اور تمہاری بیٹی کی اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔۔"
"مجھے ایک بار ظہیر کو دیکھ لینے دیں ماں جی میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔"
مگر ظہیر صاحب کی دادی نے دروازہ کھول کر باہر دھکا دہ دیا تھا عمارہ اور ساتھ شزا کو۔۔
انہیں کوئی فکر نہیں تھی لوگ کی نظروں کی انہیں تو بس غصہ تھا اور وہ غصہ دوبالا ہوا جب دروازے پر دادی کو دیکھا تھا اپنی سوتن کو دیکھ کر انہوں نے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی تھی مگر دادی کی چھڑی نے درمیان میں رکاوٹ کھڑی کردی تھی
۔
"اسکی کیا غلطی ہے بلقیس جب گناہ مجھ سے ہوا تھا تو مجھے سزا دیتی۔۔ کیوں بچوں کو درمیان میں لے آئی۔۔؟؟ کیوں تمہاری نفرت نے دو ہنستے بستے خاندانوں کو برباد کردیا ۔۔"
"تم کہہ رہی ہو یہ سب۔۔؟؟ خود سے پوچھو برباد کس نے کیا درمیان میں کون آیا تھا۔
میرا گھر برباد کیا تم نے تمہارے ہوس نے تمہاری ضد نے۔۔۔"
"اس لیے آئی ہوں معافی مانگنے تم سے تم کہو گی تو تمہارے قدموں میں گر جاؤ گی ۔۔
اب بس کردو یہ نفرتیں۔۔ وہ شخص کب کا چلا گیا جس کے پیچھے یہ سب ہوا۔۔"
"تمہارے لیے آسان ہے کہنا کیونکہ وہ شخص تمہارا ہوکر رہا تمہارے بچوں کا ہوکر رہا۔۔ مجھے کیا ملا۔۔؟ میرا جو تھا اب وہ بھی نہیں رہا۔۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔
تم جیسی عورتیں جو شادی شدہ مردوں کے ساتھ آفئیر چلا کر شادی کرلیتی ہیں یہ جانے بغیر کہ دوسری بیوی کے آجانے پر پہلی بیوی کی زندگی اور بچوں کی زندگی کسی جہنم سے کم نہیں ہوتی۔۔۔مگر پھر بھی تم جیسی باز نہیں آتی۔۔
تم دیکھ رہی ہو یہ بربادی۔۔؟؟ میری بددعا ہے تمہارے خاندان میں بھی جوان جنازے۔۔"
"ماہیر جاچکا ہے اس سے جوان موت کیا ہوگی۔۔؟؟ خدا کا واسطہ۔۔"
"ماہیر کونسا تمہارا خون تھا۔۔؟؟ یہی جوان جنازہ مننان کا ہوتا تب پوچھتی۔۔
میرا بدلہ کبھی ختم نہیں ہوگا کبھی نہیں۔۔تم۔۔۔"
انکے سینے میں درد اٹھی اور وہ پیچھے جاگری تھی۔۔۔
رشتے داروں نے دادی اور عمارہ کو بے عزت کرکے گھر سے نکال دیا تھا۔۔۔
گھر پہنچنے سے پہلے بلقیس بیگم کی موت کی خبر انہیں مل گئی تھی۔۔۔
۔
"میں خود کو کبھی معاف نہیں کرپاؤں گی آفندی صاحب اور آپ کو بھی نہیں۔۔۔"
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"نسواء۔۔۔"
"میں ابھی آئی۔۔"
نجیب کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے جب وہ نسواء کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتے ہیں عین اسی وقت حورب ایکسئیوز کرکے وہاں سے چلی گئی تھی اور اپنے ساتھ نرسز کو بھی لے گئی تھی۔۔۔
باہر آتے ہی اس نے پہلا کام اپنے بھائی کو فون کرنے کا کیا تھا۔۔ جو آف جارہا تھا
"مننان بھائی کہاں ہیں آپ۔۔؟؟"
"ڈاکٹر حورب آپ کو ڈاکٹر سحر نے او ٹی میں رپورٹ کرنے کا کہا ہے۔۔"
نرس کی بات سن کر حورب نے ایک نظر شیشے کے اس پار اپنے پیرنٹس کو دیکھا تھا اور پھر وہ چلی گئی تھی وہاں۔۔
ڈیوٹی کے ہاتھوں وہ بھی مجبور تھی جانے سے پہلے ایک بار پھر بھائی کو کال ملائی تھی اس نے
۔
"یہ سب کیسے ہوا نجیب۔۔؟ آپ کوئی سپر ہیرو نہیں ہیں اس عمر میں کون کرتا ہے ایسے۔۔؟؟"
"ڈانٹنے کے بجائے جگہ دہ دیں نسواء۔۔ سکون کی نیند آجائے گی۔۔
نسواء کی بات ٹال دی تھی وہ مکمل بات نہیں بتانا چاہتے تھے ۔۔
"بس کچھ دن اور نسواء ہم پوری طرح نجات پا لیں گے ان گھٹیا لوگوں سے۔۔"
ویل چئیر سے جیسے ہی اٹھے نسواء نے ہاتھ آگے بڑھایا تھااور وہ پاس اسی بیڈ پر بیٹھ گئے تھے
"نسواء۔۔ بہت مبارک ہو آپ کا آپریشن کامیاب ہوگیا۔۔ اگر میں ٹھیک ہوتا تو یہی شکرانے کے نوافل ادا کرتا۔۔ اللہ نے آپ کو ایک نئی زندگی بخشی میری زندگی مجھے واپس مل گئی نسواء۔۔"
چہرے کی طرف جھک کر بوسہ لیا تھا نسواء کے ماتھے پر۔۔۔
"نجیب۔۔۔"
"شش۔۔۔ "
ان دونوں آنکھوں پر بوسہ لیا تو نسواء کی پلکیں جھک گئی تھی جب نجیب کے لب ان کے ناک سے ٹکرائے تھے آنکھیں شاک سے بڑی ہوئی تھی
"نجیب۔۔۔شرم کریں حورب کسی بھی لمحے اندر آتی ہوگی۔۔نرس ڈاکٹر۔۔"
نجیب نے بے باکی دیکھاتے ہوئے وہ بھی کردیا تھا جس پر نسواء گھبرا رہی تھی
"سی اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔۔؟؟"
"شرم کریں۔۔"
شرماتے ہوئے چہرہ دوسری طرف کرلیا تھا اب نجیب کے چہرے پر ہنسی آئی تھی نسواء کے چہرے پر وہی ہنسی وہی رونق دیکھ کر۔۔۔
"نسواء۔۔۔زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے اور وہ آپ ہیں۔۔"
اور وہ پہلو میں لیٹ گئے تھے نسواء کے۔۔
"آپ کو درد ہورہا ہوگا میں حورب کو بلاؤں۔۔؟؟"
"نہیں اسکی ضرورت نہیں میرے تمام تر دردوں کو راحت مل جاتی آپ کے پہلو میں آکر نسواء۔۔ آپ کا ہونا میرا ہونا ہے۔۔۔"
"ہممم۔۔۔"
نسواء خاموش ہوگئی تھی وہ جانتے تھے ابھی بہت وقت درکار تھا نسواء کو پھر سے ویسا کرنے میں جیسی وہ پہلے تھی اپنی محبت کا اظہار کرنے والی پیار نچھاوڑ کرنے والی۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"یہ کیا بکواس کررہے ہیں۔۔۔ آفیسر میں تمہاری جان لے لوں گا اگر تم نے اب میرے بیٹے کو مرا ہوا کہا۔۔ سرچ کرو پورا ایریا سرچ کرو۔۔ ایک بھی جگہ نہ چھوٹے۔۔"
۔
پچھلے دو گھنٹے سے وہ اس جگہ پر موجود تھے زخم تازہ تھے تب بھی انہیں فکر نہ تھی
انہیں تو خبر بھی کسی نیوز چینل سے ملی تھی ہسپتال سے سیدھا یہیں آئے تھے وہ۔۔
۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ دو گھنٹے کچھ گھنٹوں میں اور دن شام میں ڈھل چکا تھا۔۔
"کچھ نہیں ملا تو اس کا یہی مطلب ہوا مننان کی گاڑی تھی وہ نہیں تھا۔۔حورب بیٹا تم ٹھیک کہہ رہی تھی ہوسکتا ہے مننان کی گاڑی کسی نے چرا لی ہو ہو۔۔
ہوسکتا ہے گاڑی کوئی اور چلا رہا ہو۔۔۔"
"بابا آپ بیٹھ جائیں سٹیچز سے بلڈ نکلنا شروع ہوگیا ہے مننان بھائی کو کچھ نہیں ہوگا آپ بیٹھ جائیں۔۔"
"سر ایک ڈیڈ باڈی ملی ہے۔۔"
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"مجھے اپنا لینا چاہیے تھا نجیب۔۔۔ آپ کے دھوکے کو آپ کی دوسری شادی کو اس دوسری عورت کو اپنا لینا چاہیے تھا اگر اپنا لیتی تو آج میرا مننان اس بدلے کی آگ میں جل نہ جاتا۔۔۔ وہ تمہاری نفرت۔۔۔"
بات کرتے کرتے اس نے اس شخص کو وہ عزت نہیں دی تھی وہ جو آپ کہتی تھکتی نہ تھی وہ تم تمہیں کہہ کر مخاطب کر رہی تھی ۔۔۔
۔
"نسواء یہی فرق ہے ایک عورت اور مرد کی محبت میں۔۔
آپ میں کبھی کوئی کمی نہیں تھی۔۔ کمی مجھ میں تھی میری محبت میں تھی میری وفا میں تھی۔۔۔
میں نے بے وفا ہونا تھا تب نہ ہوتا تو کچھ سال بعد ہوجاتا۔۔۔ میں نے تو مکمل مستقبل سوچ رکھا تھا۔۔۔"
نسواء کا ہاتھ ہاتھوں میں بھر کر بہت چاہ سے دیکھا تھا نجیب نے۔۔۔
"میں اس وقت ایک شوہر ایک ہمسفر نہیں ایک مرد بن کر سوچتا رہا۔۔۔جسے دو عورتیں ایک ساتھ چاہیے تھی
نسواء میں نے تو مستقبل سوچ لیا تھا۔۔۔
دوسری شادی کرکے آپ پر مسلط کردینے کا مستقبل۔۔۔
عمارہ کو ہمارے گھر میں بیوی بنا کر لانے کا جس دن سوچا۔۔۔ تب یہ بھی سوچ لیا تھا کہ آپ کو زبردستی اپنانا پڑے گا مگر۔۔۔۔"
"مگر۔۔۔یہ کمبخت نسواء۔۔۔ جس نے دوسری بیوی کو کیا اپنانا تھا اس نے شوہر ہی ٹھکرا دیا۔۔۔"
نسواء نے بات مکمل کی تو گہری خاموشی چھا گئی تھی
"نجیب۔۔۔ مجھے اپنا لینا چاہیے تھا آپ کے فیصلے کو۔۔۔ میں اکیلی تھوڑی ہوں جس پر شوہر نے سوتن لاکر بٹھا دی۔۔۔؟
نجانے کتنی بیویوں پر یہ قیامت گزری ہوگی۔۔۔ نجانے کون کون سے بیوی یہ گھونٹ زبردستی پیتی ہوگی۔۔۔
مجھے بھی پی لینا چاہیے تھا۔۔۔
ایک بات بتائیں۔۔۔اگر میں اپنا لیتی تو کیا مننان کو آپ وہ محبت وہ رتبہ وہ باپ کا پیار دہ پاتے۔۔۔؟؟ جو نفرت آپ نے ہماری پیار کی نشانی کو ان پانچ سالوں میں دی تھی ۔۔"
۔
یہ وہی مدعا تھا یہی تو وہ اہم مرکز تھا۔۔۔
ان کا بیٹا مننان۔۔۔
"نسواء۔۔۔ آپ ابھی ٹھیک۔۔۔"
وہ گھٹنوں پر سے اٹھنے لگے تھے جب نسواء نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں واپس بٹھایا تھا۔۔۔
"کیا مننان کو آپ نے وہ محبت دینی تھی نجیب۔۔۔؟ آپ نے وہ محبت نہیں دینی تھی اسے۔۔ دوسری بیوی کے آنے پر آپ نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میرے بیٹے کو نفرت کا نشانہ بنانا تھا نجیب۔۔۔۔
اور جب اولاد ہوجانی تھی تو سب نے مل کر اسے ٹارچر کرنا تھا۔۔۔۔
کہاں لے آیا نصیباں۔۔۔۔
جب وہ پاس تھا تو آپ دشمن تھے اور جب دور ہوا تو خود دشمن بن گیا خود کا۔۔۔ میری وجہ سے میرے لیے لیتا رہا وہ بدلہ۔۔۔۔
وہ کیوں بدلہ لیتا رہا۔۔۔؟
اسے سمجھ جانا چاہیے تھا جب ایک شادی شدہ رشتے میں شوہر باہر منہ مار لے تو بیوی میں کمی۔۔۔"
نجیب نے نسواء کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔
۔
"آپ ایک اچھی بیوی بنی نسواء میں ایک اچھا شوہر نہیں بن پایا۔۔ میرے بچوں کی تربیت اس بات کی گواہ ہیں۔۔ میں نے اپنی ہوس کو درمیان میں آنے دیا ہمارے ہنستے بستے گھر کو برباد کردیا۔۔
اگر آپ رُک بھی جاتی۔۔۔ رک جاتی تب بھی میں مننان ہمارے بیٹے کو وہ رتبہ نہ دے پاتا۔۔۔
سچ بات تو یہ ہے کہ۔۔۔ آپ کے چلے جانے کے بعد مجھے وہ قدر ہوئی آپ کی۔۔۔نسواء۔۔
اگر اس رشتے میں کوئی قصور وار ہے تو وہ 'میں ' ہوں نجیب آفندی
آپ کا شوہر جس نے دوسری شادی تو کرلی اپنی ضد تو پوری کرلی مگر وہ سب چلا گیا
میری دوسری شادی میری پہلی شادی کو مکمل تباہ کرگئی۔۔
میں آج خالی ہوں۔۔ مننان کے نہ ہونے نے میرے وجود کو بھی ختم کردیا۔۔"
اور نسواء کو وہ سب باتیں پھر سے یاد آگئیں تھیں مننان کی موت کی خبر جس نے سہمی ہوئی اس ماں کو پھر سے اتاولا کردیا تھا۔۔
اس بار کھڑے ہوتے ہوئے اسے نجیب کے سہارے کی ضرورت پڑی تھی جب وہ باہر نکلی تھی اپنے شوہر کے ساتھ۔۔۔
۔
کون تھا باہر۔۔؟؟ جنازے پر رونے والا کون تھا۔۔؟؟ حورب کی چیخنے چلانے کی آوازیں پورے ہال میں گونج رہی تھی
نجیب آفندی کا پورا خاندان ایک سائڈ پر تھا مگر کوئی بھی اس طرف دیکھنا نہیں چاہتا تھا کوئی بھی نہیں۔۔۔
"ماں۔۔۔ مننان بھائی۔۔۔"
وہ ماں کے سینے سے لگے رونے لگی تھی مگر ماں کہاں جاتی جس کی کل کائنات ہی اسکا بیٹا تھا
وہ پتھر بن کر بیٹھ چکی تھی وہیں لوگ تعزیت کرنے نجیب صاحب کی طرف بڑھ رہے تھے جنہیں کچھ سد بد نہ رہی تھی یہ دوسرا جوان جنازہ تھا۔۔ ماہیر کے وقت تو وہ بہانہ بنا چکے تھے کہ انکا بیٹا نہیں مگر اب کیا بہانہ بناتے۔۔۔
۔
"نجیب بھائی۔۔ یہ سب کیا ہوگیا۔۔آپ کے ایک فیصلے نے سب بکھیر دیا۔۔
میری بیٹی چلی گئی اور اب آپ کا بیٹا بھی چلا گیا۔۔اب۔۔۔"
فضا کی باتیں ادھوری رہ گئی تھی جب اسکی بیٹی اندر حال میں داخل ہوئی تھی ۔۔
"کہانی مننان پر ہی ختم ہونی تھی مامو۔۔۔ شروع بھی تو اسی کی وجہ سے ہوئی تھی نہ۔۔؟
سب کی زندگیوں کو جہنم بنا کر وہ خود کتنی خاموشی سے چلا گیا۔۔
تمہیں ایسے نہیں جانا چاہیے تھا مننان تم نے تو جیت کا جشن منانا تھا۔۔ دیکھو نجیب آفندی کے ہر چاہنے والے کو خوں کے آنسو رلا دیا تم نے۔۔
اب کیوں چپ ہو اٹھو۔۔ اور بتاؤ سب کو۔۔۔"
میت پر ہاتھ مارتے ہوئے سر رکھ دیا تھا۔۔ اور بے تحاشہ رو دی تھی وہ۔۔
"مننان ہمارا بچہ بھی باپ کی محبت کو ترستا رہے گا جیسے تم ترستے رہے۔۔۔"
نجیب صاحب منہ پلٹ گئے تھے ہال سے باہر چلے گئے تھے وہ۔۔۔
اب انکی برداشت سے باہر ہوگیا تھا سب کچھ۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"نسواء گھر چلیں۔۔ اس وقت قبرستان میں مت بیٹھیں گھر چلیں۔۔"
"کونسے گھر۔۔؟؟ کس کے گھر شوہر بہت پہلے گھر سے نکال چکا تھا۔۔۔
اور جس بیٹے نے چھت دی وہ خود چلا گیا۔۔ اب کس کے گھر چلوں۔۔"
ہاتھوں کو جھٹک کر وہ واپس مٹی پر بیٹھ گئی تھی ننگے سر ننگے پاؤں۔۔۔
وہ ماں پھر سے وہی اس قبر کے پاس بیٹھ گئی تھی۔۔
"ہمارے گھر۔۔ ہمارے بیٹے کے گھر نسواء۔۔ چلیں ہاتھ جوڑتا ہوں۔۔"
"میں نے بھی ہاتھ جوڑے تھے نجیب۔۔ اگر رک جاتے تو آج یہ نہ ہوتا۔۔۔
نجیب آفندی۔۔۔ کیا مل کیا گیا دوسری شادی کرکے۔۔؟؟ کیوں میرا گھر اجاڑ دیا آپ نے کیوں۔۔؟؟"
نجیب کا کالر پکڑ کر وہ اٹھی تھی اور وہ کسی مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑے رہ گئے
"نسواء مجھے سزا دیں جو کہنا ہے کہیں مگر گھر چلیں۔۔"
"میں اپنے گھر میں ہوں۔۔ یہ میرا گھر ہے۔۔۔ میرا بیٹا جہاں ہے وہاں میرا گھر ہے نجیب۔۔۔
میرا مننان جہاں ہے۔۔ وہاں میرا گھر ہے۔۔"
"بس کرجائیں نسواء۔۔۔ خدا کے لیے۔۔۔"
"آپ بس کرجائیں نسواء۔۔گھر چلیں۔۔"
اسکی چادر بھی کندھوں سے سرک کر نیچے گھر گئی تھی
"آپ نے سوچ بھی کیسے لیا نجیب کے میں اپنے بچے کو یہاں تنو تنہا چھوڑ جاؤں گی۔۔؟؟
میرا مننان جس نے مجھے ایک لمحے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا۔۔ جہاں جس جگہ میرے شوہر کو میرے ساتھ ہونا چاہیے تھا وہاں میرا بیٹا تھا۔۔
ہر حالت میں ہر حال میں۔۔میں کیسے چھوڑ جاؤں۔۔۔ مننان سن رہے ہو میرے بچے۔۔۔
تمہاری ماں تمہارے سوا کچھ نہیں ہے بیٹا۔۔ میرا وجود کچھ نہیں ہے۔۔ میں بھی مر جانا۔۔"
نجیب کا ہاتھ اٹھ گیا تھا۔۔ اور وہ گر گئی تھی زمین پر۔۔۔
"بس کرجائیں نسواء ایک اور جنازہ نہیں اٹھا سکتا یہ کندھا۔۔ رحم کھا لیں مجھ پر۔۔
کوئی تو رحم کھا لے مجھ پر میری زندگی پر۔۔"
سسکتی ہوئی آواز نے دم توڑ دیا تھا جب وہ نسواء کے کندھے پر سر رکھ کر رو دئیے تھے
"نسواء بس کرجائیں۔۔پلیز ہاتھ جوڑتا ہوں بس کرجائیں۔۔گھر چلیں۔۔"
"نہیں چل سکتی گھر۔۔ میں نہیں جاسکتی کہیں بھی میں نے جاکر بھی یہیں آنا ہے۔۔
میرا وجود میرے بیٹے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔۔ میں خاک ہوں نجیب۔۔ وہ خاک جسے اسے کے ظالم شوہر نے پاؤں کی دھول سمجھ کر اڑا دیا۔۔۔
میں وہ بدبخت ہوں جسے دوسری زندگی دی اسکے بیٹے نے۔۔ میں تو جی ہی اپنے مننان کے لیے رہی تھی۔۔
میں کچھ نہیں ہوں نجیب۔۔۔ میراوجود کچھ نہیں ہے۔۔
میں بس اسکے لیے جی رہی تھی وہ نہیں تو میں بھی نہیں یہ نسواء بھی نہیں۔۔۔"
سر اٹھا کر نجیب کی آنکھوں میں دیکھا تھا اب انہوں نے اپنے شوہر کی آنکھوں میں دیکھا تھا
"نجیب میں مننان کے بغیر کچھ نہیں ہوں میری ممتا مر گئی میرے بیٹے کے ساتھ میں۔۔۔"
"نسواء۔۔۔یہ خون۔۔"
نسواء کے ناک سے بہتے خون نے انہیں پریشان کردیا اور اگلے ہی لمحے وہ بےجان گر پڑی تھی
"نسواء۔۔۔۔ نسواء۔۔۔"
نسواء۔۔۔"
اس وجود کو سینے سے لگائے چیخ اٹھے تھے وہ۔۔۔
۔
۔
نوٹ۔۔۔۔۔٭٭٭٭
ناول کا دوسرا مکمل حصہ دوسری پوسٹ پر ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔
۔

Address

Jhelum

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ناولز کی دنیا posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category