14/11/2025
ناول: "میرا ہرجائی"
رائٹر: سدرہ شیخ
قسط نمبر 33 (آخری قسط)
۔
حصہ دوم
۔
"وقت بدلتا چلا گیا تھا۔۔۔زندگی چلنا شروع ہوگئی تھی مگر اس ہسپتال کے اس کمرے میں زندگی ٹھہر گئی تھی۔۔۔ رک گئی تھی تھم گئی تھی۔۔۔
کہیں زندگی خوبصورت تھی تو کہیں زندگی ویران
کہیں زندگی آباد تھی تو کہیں زندگی برباد
کہیں زندگی خوشیوں سے بھرا چمن
تو کہیں زندگی غموں کا قبرستان
۔
"او رے لمحے تو کہیں مت جا۔۔۔
ہوسکے تو عمر بھر تھم جا۔۔۔"
۔
نسواء۔۔۔"
آنکھیں صاف کرکے انہوں نے وہ نام پکارا تھا اور جواب میں صرف خاموشی ملی تھی انہیں۔۔
اشک تھے کہ آنکھوں سے جاری تھے وہ سوجھی ہوئی آنکھیں بوجھل ہوگئی تھی پانی کے ان قطروں سے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"یہ وہ میڈیسن نہیں تھی میں نے دی تھی آپ کو آپ یہ کب سے کھلا رہے ہیں پیشنٹ کو۔۔؟"
ڈاکٹر کے کہنے کی دیر تھی ایک ہی سانس بھرنے کی آواز سنائی دی تھی نجیب آفندی کے چہرے پر وہ غصہ تھا جو اس سے پہلی انکی بیٹی نے نہ دیکھا ہو۔۔
"ہاؤ ڈیرھ یو۔۔؟؟ تمہارا ہسپتال ہے دوائی دینے والے تم ہو یا تمہاری نرسز۔۔۔
لاکھوں روپے بھر رہا ہوں اس لیے کہ یہ سب کرو۔۔؟؟"
ڈاکٹر کا کالر پکڑ کر وہ روم سے باہر لے گئے تھے حورب کے منع کرنے کے باوجود بھی
"دیکھیں سر کالر چھوڑیں میں تو خود شاک ہوں۔۔مجھے اس بارے کچھ معلوم نہیں ہے۔۔"
مگر ایک تھپڑ مار کر ڈاکٹر کو پیچھے دھکا دہ دیا تھا اور ایک ہی للکار میں آواز بلند کی تھی
"وہ نرس وہ وارڈ بوائے وہ سب عملہ چاہیے جو اس کمرے میں دیکھ بھال کررہا تھا"
"بابا پلیز۔۔ آپ ریلیکس ہوجائیں۔۔"
مگر وہ وہ آپے سے باہر ہوگئے تھے جب وہ وارڈ بوائے اور نرس سامنے آئیں تھے
"یو باسٹرڈ۔۔۔ کیا دوائیاں دیتے رہے ہو۔۔؟ اور کس کے کہنے پر۔۔؟؟"
وہ نرس پر تو ہاتھ نہیں اٹھاتے۔۔مگر وارڈ بوائے کو چھوڑتے نہیں ہیں۔۔
"بس کردیں آپ کو ماں کی قسم ہے۔۔"
نجیب کا اٹھتا ہوا ہاتھ رک گیا تھا اس وارڈ بوائے کو بھی ڈاکٹر کی طرح دھکا دہ دیا تھا
"اب ان سے پولیس نمٹے گی۔۔۔"
انہوں نے جیسے ہی فون کیا تھا وہ نرس بھاگنے لگی تھی جسے اسی ڈاکٹر نے پکڑ لیا تھا
"اگر تم دونوں اس سب میں انوالوو ہوئے تو خود اپنے ہاتھوں سے سزا دوں گا۔۔۔"
نجیب آفندی تو پیچھے بیٹھ گئے تھے سرپر ہاتھ رکھ کر
"کیوں آرام نہیں ہے۔؟؟ کس حال میں ہے پھر بھی کسی نے اسے مارنے کی کوشش کی۔۔
کیوں ہے اسکی زندگی خطرے میں میرے ہوتے ہوئے بھی۔۔؟؟"
"بس کرجائیں ڈیڈ۔۔ آپ کے ہاتھ بھی زخمی ہوگئے ہیں۔۔۔"
"ہم اس ہسپتال میں یا کسی ہسپتال میں نہیں رہیں گے بیٹا۔۔ میں ابھی شفٹ کرتا ہوں۔۔ ڈاکٹرز گھر آکر ٹریٹمنٹ کریں گے۔۔۔"
پر حورب انکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر انہیں چپ کروا چکی تھی
"یہ سب اتنا آسان نہیں ہے بابا۔۔۔ آپ سمجھ نہیں رہے یہ ہسپتال ڈاکٹر ہمیں اسی ملک میں ملیں تھے۔۔ یہ سب مانیٹرز اکوئپمنٹ ہمیں گھر میں نہیں مل سکتے ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔۔"
"کیا تمہیں اپنے باپ پر یقین نہیں ہے بیٹا۔۔؟ یہ سب کچھ بھی نہیں ہیں۔۔ میں اسکے لیے اس گھر میں ایک الگ ہسپتال بنا دوں گا اگر ضرورت پڑی تو۔۔"
۔
اور کچھ گھنٹے میں اس نے دیکھا بھی تھا۔۔ بہت گھروں کے درمیان وہ دو منزلہ مکان میں ایک گرینڈ روم میں ہر ضرورت کی مشین میں وہ ویک بستر۔۔۔
۔
اسے اس وقت یہ بات پتہ چل گئی تھی کی اسکی ماں کےلیے اسکے والد صاحب کسی حد تک جا سکتے ہیں۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"آپ کیوں خود جارہے ہیں میڈیسن لینے۔۔؟؟ اتنے ملازم ہیں کسی سے بھی کہہ دیں میرا ویٹ کرلیں بس فلائٹ ۔۔"
"نووو۔۔۔ اور اتنی جلدی واپسی۔۔؟ پرسو ہی تو گئی تھی پاکستان۔۔ کیا وہ لوگ اتنی چھٹیاں دہ دیتے ہیں۔۔؟؟ ڈاکٹر کو تو ایک پل کی فرصت نہیں ہوتی لیزی بون۔۔۔"
"ہاہاہاہا ۔۔۔۔بابا۔۔۔"
"ہاہاہاہا۔۔۔ اچھا فارمیسی آگئی ہے میں گھر جاتے وقت کال کرتا ہوں۔۔"
چند باتیں کرکے انہوں نے فون کاٹ دیا تھا اور جیسے ہی پلٹے تھے کسی سے ٹکڑا گئے تھے وہ۔۔
۔
"آپ رہنے دیں میں کرلوں گی سر۔۔"
"نہیں۔۔نہیں میری غلطی ہے بیٹا۔۔میں اٹھا دیتا ہوں۔۔"
وہ جیسے ہی جھک کر وہ سامان اٹھاتے ہیں انکی نظر اس لڑکی پر پڑتی ہے اور وہ سامان ہاتھ سے نیچے گر جاتا ہے
"منیشا بیٹا۔۔؟؟"
منیشا جو نجیب کو پہچان گئی تھی وہ کچھ قدم پیچھے ہوئی تھی جب نجیب صاحب نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔۔
"منیشا۔۔"
"بیٹا مت کہیے گا۔۔ایم سوری۔۔"
مگر نجیب صاحب اسکا بازو پکڑ چکے تھے
"تم اس وقت اس جگہ کیا کررہی ہو اس حالت میں۔۔؟؟ منیشا بیٹا میرے ساتھ چلو۔۔
ڈرائیور۔۔۔"
مگر وہ اپنا ہاتھ چھڑا چکی تھی
"آپ میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔۔ میں کچھ بھی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔۔"
بات کرتے کرتے اسکے پیٹ میں درد شروع ہوئی جس کی شدت اتنی تھی کہ وہ گھٹنوں کے بل گر گئی تھی۔۔
"میرا۔۔ میرا بچہ۔۔۔"
اپنے پیٹ کو پڑتے ہوئے چلائی تھی وہ۔۔
"کچھ نہیں ہوگا بیٹا۔۔ ہم ابھی ہسپتال چلیں گے۔۔"
انہوں نے جلدی سے ڈرائیور کو بلایا تھا جو گاڑی سڑک کے اس پار لے آیا تھا منیشا کو جلدی سے اٹھائے وہ گاڑی میں لٹا چکے تھے
۔
کچھ دیر میں ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے کچھ تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا جس پر نجیب صاحب کو غصہ بھی آیا تھا منیشہ پر
۔
"آپ کون ہوتے ہیں میرے فیصلے کرنے والے"
"کیا تم نہیں جانتی میں کون ہوں تمہارا۔۔؟؟ خون کا رشتہ نہیں مانتی تو انسانیت کے ناتے ہی مجھے میرا فرض پورا کرنے دو بیٹا۔۔"
"کونسا فرض۔۔؟؟ آپ بری ہیں ہر فرض سے۔۔ مجھے آپ سے کوئی احسان نہیں چاہیے۔۔"
"منیشا مجھے سختی کرنے پر مجبور نہ کرو۔۔"
"کریں سختی میں اس فیز سے پہلے بھی گزر چکی ہوں آپ کے بیٹے نے سختی کی تھی دیکھ لیں کیا نتیجہ نکلا۔۔"
اور وہ چپ چاپ روم سے جانے لگے تھے مگر نہ جا سکے۔۔ انہوں نے یہی تو سیکھا تھا اپنی غلطیوں سے کہ بھاگنا نہیں ہے سب ٹھیک کرنا ہے چاہے کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔۔
"میرا تم پر ہر طرح کا حق ہے بیٹا۔۔ اس ملک میں اس طرح کے قانون بہت ہیں جو تمہیں مجبور کردیں گے میری بات ماننے پر اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ تم چپ چاپ میری بات مانو
اپنا نہیں تو اپنے بچے کا سوچو ۔۔"
اور وہ چلے گئے تھے وہاں سے
"آئی ہیٹ یو نجیب مامو۔۔۔"
وہ زور سے بولی تھی بند دروازے کے اس پار نجیب نے وہ جملہ بھی اپنی یاداشت میں محفوظ کرلیا تھا جیسے باقی سب۔۔۔
۔
"سب کرتے ہیں۔۔ سب کررہے ہیں۔۔اب نفرت لفظ محبت لگنے لگا ہے مجھے
کم سے کم میرے اپنے کسی ایک جذبے سے تو یاد رکھے گے مجھے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"تو آپ مجھ سے شادی کرلینا پھر آپ ہمارے ساتھ رہیں گے۔۔"
اس بچی کے سوال پر سب ٹیچرز نے قہقہ لگا دیا تھا سوائے اس کے جو ایک دم سے چپ ہوگیا تھا
"ہاہاہاہا کیوں پروفیسر صاحب۔۔۔"
"باپ رے۔۔۔ مجھے شادی نہیں کرنی آپ کو کھانا بنانا بھی نہیں آتا۔۔۔"
"پر میں سیکھ لوں گی۔۔"
اس پر وہ کھلکھلا کر ہنس دیا تھا اس بچی کو گود میں اٹھائے گدگدی کرتے ہوئے ہوا میں کہرا دیا تھا اسے۔۔۔ جس پر اس بچی کے قہقے بھی ہواؤں میں گونج اٹھے تھے
"یہ آپ کے ساتھ بہت اٹیچ ہوگئی ہے پروفیسر صاحب۔۔۔"
"انکے ساتھ تو سب بچے ہی اٹیچ ہوگئے ہیں یہ سمر کیمپ واقعی ہی بہت اینجوائے کیا ہم سب نے۔۔"
اس شخص نے اس بچی کو نیچے اتار دیا تھا
"مس ماہا اب جلدی سے اپنے کیمپ میں چلی جائیں نہیں تو پرنسپل سر نے پنش کردینا ہے۔۔"
پر ماہا بازو باندھے منہ پھیر کر کھڑی ہوگئی تھی
"پہلے میرا جواب دیں شادی مجھ سے ہی کریں گے۔۔۔"
"ہاہاہاہاہاہا۔۔ نہیں۔۔"
"اوکے میں آپ کی ماما سے بات کروں پھر۔۔؟؟"
مننان کے چہرے کی ہنسی غائب ہوگئی تھی ماں لفظ پر۔۔۔
"اپنے کیمپ میں جاؤ ماہا۔۔"
"پر۔۔۔"
"ناؤ۔۔۔"
وہ چلایا تھا۔۔ اسے غصہ نہیں نہیں آتا تھا۔۔کسی نے ان چار سالوں میں اسے غصے میں نہیں دیکھا تھا
اب جب اس بچی کو ڈانٹتے دیکھا تو مس سائرہ نے ماہا کو پیار سے سمجھایا تھا۔۔
سب بچے اپنے اپنے ٹیچرز کے ساتھ کیمپ میں چلے گئے تھے سائرہ نے ایک نظر منہ
پھیرے پروفیسر کو دیکھا تھا وہ دور اس پہاڑی کے کنارہ پر کھڑا تھا۔۔
اس پرسکون ماحول میں اس شخص کے چہرے پر پڑتےبل اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ پرسکون نہیں ہے۔۔
"سرآپ۔۔"
"میں ابھی اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔۔ اس سکول کی ٹریپ کب ختم ہورہی ہے۔۔؟"
اس نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا
"نیکسٹ ویک۔۔۔ کیا آپ غصہ ہوگئے ہیں۔۔؟ لاسٹ ٹائم بھی جب غصہ ہوئے تو اس سکول کی ٹریپ آپ نے جلدی ہی ختم کروا دی تھی کیا اس بار بھی ان بچوں کو جلدی بھیج دیں گے۔۔؟؟"
"ہاہاہا۔۔ نہیں۔۔ اس بار میں جلدی جانا چاہتا ہوں۔۔ شہر میں کچھ کام ہے۔۔"
"اوہ۔۔۔"
دونوں کے درمیان پھر سے گہری خاموشی چھا گئی تھی۔۔
سائرہ بہت سے سوال کرنا چاہتی تھی پر چپ تھی کیا کرتی۔۔۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی انہوں نے سمر کیمپ آرگنائز کروائے تھے
ہر بار کی طرح اس بار بھی وہ اس شخص کو انہی چند ماہ دیکھ پاتی تھی باقی کوئی نہیں جانتا تھا وہ کب کہاں سے آتے اور چلے جاتے ہیں۔۔۔
مگر وہ یہ جانتی تھی یہ جگہ اور یہ بچے بے حد سکون دیتے ہیں اس لیے ہر وقت وہ انہیں بچوں میں مگن دیکھتی تھی وہ۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"سر اس بار ہماری انفارمیشن ٹھیک ہیں "
"پچھلی بار بھی یہی کہا تھا نہ تم نے۔۔؟ کڑوروں روپے کھا کر بھی تم پہ نہ لگا پائے۔۔"
"سر ایک بار یہ دیکھ لیں۔۔"
اور جب وہ لیپ ٹاپ کی سکرین اس ڈی ٹیکٹو نے نجیب کے سامنے کی تھی ہاتھوں سے وہ گلاس گر گیا تھا۔۔ اور یقین آگیا تھا انہیں کہ انکی تلاش ختم ہونے کو آئی۔۔
"یہ میرا۔۔۔میرا۔۔۔"
آفس چئیر پر بیٹھ گئے تھے سکرین پر انگلیاں پھیرتے ہوئے آنکھیں بھر گئی تھی انکی۔۔
"وہ یہی ہیں۔۔۔ مگر شہر سے دور ایک لینڈ جو پرائیویٹ پراپرٹی ہے انکی سیکیورٹی بہت ٹائٹ ہے وہاں کی۔۔ وہ جگہ بچوں کے سمر کیمپ کی جگہ جانی جاتی ہے۔۔
میں زیادہ تو کچھ نہیں کرسکا مگر میں یہ پاس لے آیا ہوں۔۔
آپ اس سکول کے پرنسپل بن کر وہاں اینٹر ہوسکتے ہیں اور یہ ظاہر کیجئے گا کہ آپ وہاں سمر کیمپ بکنگ کے لیے گئے ہیں۔۔"
ساتھ کھڑا وہ آدمی سب بتاتا جارہا تھا مگر نجیب صاحب کی آنکھیں ہٹ نہیں پارہی تھی اس ویڈیو سے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"میں آج شام کو یہاں سے جارہا ہوں ۔۔ سنبھال لینا ۔۔ اس سکول کی ٹریپ کل کلوز ہوجائے گی اور۔۔"
"مننان۔۔۔ بیٹا۔۔۔"
میز پر بکھرے کاغذات سمیٹتے ہوئے وہ ہاتھ تھم گئے تھے۔۔۔ اس نے بےساختہ پیچھے مڑ کر دیکھا تھا
"۔۔۔"
مننان بیٹا۔۔۔"
وہ اندر داخل ہوئے تھے اور اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا
مننان بیٹا۔۔۔ میرے بچے۔۔۔ اتنی ضرورت سانسوں کی جسم کو نہ ہوگی جتنی ضرورت ہمیں تمہاری تھی بچے۔۔۔"
بیٹے کے چہرے کو ہاتھوں میں لئیے وہ چومتے ہوئے باتیں کررہے تھے۔۔
۔
یہ وہ محبت کی شدت تھی جسے وہ بچپن میں تلاش کرتا آیا تھا۔۔
اب اپنے باپ کو اس طرح دیکھ کر اسے وہ سکون وہ خوشی کیوں نہیں مل رہی تھی۔۔؟؟
"آپ یہاں کیوں آئے ہیں۔۔؟؟ کیسے معلوم ہوا۔۔؟ جائیں یہاں سے۔۔ اور پلیز کسی کو مت بتائیے گا کہ میں۔۔۔ میں زندہ بھی ہوں۔۔"
ہاتھ چھڑا کر وہ اس روم سے باہر چلا گیا تھا کمرے کے باہر کھلا آسمان تھا اس نے اس جگہ اپنا آفس وہ بلڈنگ کھڑی کی ہوئی تھی ان پہاڑوں پر۔۔۔ وہ جیسے ہی باہر آیا تھا آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا اسکے تیز دھڑکتے دل کو وہ آرام نہیں دہ پارہی تھی جو ہر روز ملتا تھا یہاں کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہوکر۔۔۔
۔
"مننان بیٹا۔۔"
"جائیں یہاں سے۔۔ مجھے زندہ میں شمار نہ کریں چلے جائیں۔۔"
"اور اسکا کیا جو زندہ ہوتے ہوئے بھی زندہ نہیں۔۔؟؟ مننان تمہاری ماں۔۔۔"
مننان کی مٹھی بند ہوگئی تھی
"کیا ہوا انہیں۔۔؟؟"
"جوان بیٹے کی موت کا سن کر کونسی ماں ٹھیک رہ سکتی ہے مننان۔۔؟؟ تمہاری ماں کچھ بھی نہیں رہی تمہارے بغیر۔۔۔
ایک بٹن۔۔۔ جو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ پریس کرکے اسے اس اذیت سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔۔
مننان ڈاکٹر کو لگتا ہے کہ وہ بہت پہلے جاچکی ہے۔۔۔
وہ مصنوعی سانس بس ہمارے لیے دلاسے ہیں۔۔"
"کہاں ہیں وہ۔۔؟؟"
والد کی آنکھیں سے گرنے والے آنسوؤں نے اسکا دل پسیج دیا تھا۔۔
ماں کا نہ ہونے اسکی روح تک کو گھائل کرگیا تھا اس لمحے۔۔
"لے چلیں۔۔۔ مجھے لے چلیں۔۔۔"
باپ کا ہاتھ پکڑے وہ تیز قدموں سے نکلا تھا اوہاں سے۔۔۔
کب گاڑی میں بیٹھا نجیب کی کب وہ اس چھوٹے سے گھر کے باہر رکی گاڑی سے اترا اور نجیب سے پہلے وہ اس گھر کے باہر تھا۔۔
زور سے دروازہ بجانے پر اسے جو آواز سنائی دی وہ اسے اور شاک کرگئی تھی
"افف مامو رک جائیں۔۔۔ آپ کی چابی کہاں ہے۔۔؟؟ "
وہ سب کچھ امیجن کرسکتا تھا مگر اپنے ماضی کو نہیں۔۔
منیشا جس طرح دروازہ کھولے اسکے سامنے کھڑی تھی
"منیشا بیٹا۔۔"
منیشا اس سے زیادہ شاک تھی مننان کو اپنے سامنے پاکر۔۔
جس کی موت پر ری ایکٹ نہیں کیا تھا اسکے زندہ وجود نے اسکی آنکھوں میں آنسو لا دئیے تھے
"ماں۔۔۔ ماں۔۔۔"
وہ اندر داخل ہوگیا تھا۔۔۔
"اس کمرے میں۔۔"
نجیب صاحب کے کہنے کہ دیر تھی اور وہ سیڑھیاں چڑھتے اس کمرے میں داخل ہوگیا تھا۔۔
۔
روم میں پہلے سے موجود ڈاکٹر اور نرس متوجہ ہوئے تھے
"سر ابھی ان کا معائنہ۔۔۔"
پر وہ ڈاکٹر کو پش کئیے بیڈ تک پہنچا تھا۔۔ سب کی آوازیں قدموں کی آہٹ دروازہ کھلنے اور بند ہونے کا شور دماغ سے اوجھل ہوگیا تھا جب اپنی ماں کو مشینوں کی قید میں گھیرے دیکھا تھا اس نے
"ماں۔۔۔میں آگیا ہوں۔۔ آپ کا مننان۔۔ ماں آگیا ہوں میں۔۔"
بہت آرام سے ماں کے ہاتھ کو ماتھے پر لگائے بیڈ پر بیٹھا تھا وہ۔۔۔
آنکھیں کھولو ماں۔۔۔ میں آگیا ہوں۔۔"
مانیٹر کی بیپ تیز ہوگئی تھی
"آپ باہر جائیں۔۔۔"
مگر وہ کسی صورت تیار نہیں تھا ہاتھ چھوڑنے کو۔۔
"انکی حالت خراب ہورہی ہے ہمیں انہیں ہاسپٹل شفٹ کرنا ہوگا۔۔"
"کچھ نہیں ہوگا آپ کو۔۔ میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا ماں۔۔"
۔
نسواء کو واپس ہسپتال شفٹ کردیا گیا تھا۔۔۔ایک ہفتہ حالت ویسی ہی رہی تھی
"انہوں امپرومنٹ دیکھائی ہے جو کہ بہت حیرانگی بات ہے۔۔ آپ جتنا ہوسکے ان سے باتیں کریں کوشش کریں کہ یہ ری ایکشن دیں۔۔"
ڈاکٹر کے جانے کے بعد ہی نجیب نے مننان کو اپنے گلے سے لگایا تھا
"تھینک یو سوو مچ بیٹا۔۔۔تم نے مجھے ایک نئی زندگی دہ دی ہے تھینک یو سو مچ۔۔"
مننان کے ماتھے پر بوسہ دئیے وہ واپس نسواء کے بیڈ پر بیٹھ گئے تھے
"نسواء ہمارا بیٹا واپس آگیا ہے۔۔۔اب آپ بھی واپس آجائیں۔۔ واپس آجائیں۔۔"
وہ اور بریک ڈاؤن نہیں دیکھ پا رہا تھا اپنے والد کا اپنی ماں کا روم سے جیسے ہی باہر جانے لگا تھا منیشا سے سامنا ہوا تھا اس کا۔۔۔
"یہ کھانا۔۔۔ مامو نے کچھ کھایا نہیں۔۔ کھلا دیجئے گا میں۔۔"
منیشا کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اس نے۔۔
"میں ۔۔ مجھے ضروری کام ہے۔۔ تم کھلا دو۔۔ "
ہاتھ ایک دم سے چھوڑ دیا تھا معذرت کرکے وہ چلا گیا تھا۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"بیٹا ڈنر کرلو۔۔۔"
ٹیرس پر کھڑے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا
"ابھی بھوک نہیں ہے۔۔ آپ۔۔"
"اٹس اوکے۔۔ نہیں کھانا مگر ہمیں کمپنی تو دہ سکتے ہو نہ۔۔؟؟ آج ڈنر تمہاری ماں کے پاس کریں گے۔۔"
انہیں انتظار تھا جیسے ہی مننان نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ باپ بیٹے نیچے آگئے تھے
۔
"ویسے آپ نے سہی گھر کے مردوں کو آگے لگایا ہوا ہے ماں۔۔ مامو بھی اور اب آپ کا بیٹا بھی۔۔
نوٹ فئیر میں اکیلے ہینڈل کررہی ہوں سب کچھ۔۔ اور وہ شیطان اسکی شرارتیں دیکھیں تو سمجھ آجائے کہ کتنا مشکل ہے۔۔"
"لڑکی اتنا تنگ بھی نہیں کرتے ہم۔۔"
"جائیں مامو۔۔ بنے مت اب۔۔ جتنا تنگ آپ کرتے ہیں بچوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں"
"ہاہاہا دیکھ لیں نسواء۔۔۔"
منیشا اور نجیب کی بونڈنگ دیکھ کر اسکے قدم دروازے پر ہی رکے رہ گئے تھے
"اندر آجائیں کھانا لگ گیا ہے۔۔"
منیشا آہستہ سے کہہ کر باہر چلی گئی تھی
"بیٹا تم نہیں کھاؤ گی۔۔؟؟ "
"میں بس انتظار کررہی ہوں سکول بس کسی بھی وقت ڈراپ۔۔لو آگئی اب پورا گھر سر پہ اٹھا لے گی۔۔"
وہ کہتے ہی چلی گئی تھی کچھ دیر میں وہ صوفہ پر بیٹھ گئے تھے
"کس کی بات ہورہی تھی۔؟"
مننان نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا جس کا جواب دیتے ہوئے نجیب ہچکچا رہے تھے
"وہ بیٹا۔۔۔"
"مجھے معلوم تھا کسی کو میرا انتظار نہیں ہوگا۔۔ ابو آپ بھی بہت گندے بچے ہیں۔۔"
دروازہ جیسے ہی کھلا تھا وہ کمر پر ہاتھ رکھے نجیب کو گھور رہی تھی
"ہاہاہاہا۔۔ کیا بات ہے اتنا بڑا میں آج سب کو بچہ لگ رہا ہوں۔۔۔"
وہ اپنی جگہ سے اٹھے تھے اس بچی کی طرف بڑھے تھے
"او مائی گاڈ۔۔۔ پروفیسر ایم۔۔۔؟؟"
نجیب کو پیچھے چھوڑے وہ مننان کی طرف بھاگی تھی
"ماہا۔۔ بیڈ مینرز۔۔"
منیشا کی آواز نے بھی اس بچی پر کوئی اثر نہیں کیا تھا جو مننان کے گلے لگی تھی
"پروفیسر ایم۔۔ کیا آپ میری ماما سے شادی کی بات کرنے آئے ہیں۔۔؟؟"
"وٹ دا۔۔۔"
منیشا نے غصے سے کہا تھا مننان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے۔۔
"جی ماما۔۔ میں نے کہا تھا نہ میں پروفیسر ایم سے شادی کروں گی۔۔سمر کیمپ یاد ہے۔۔؟"
وہ سب چپ ہوگئے تھے پر ایک ہنسی نے ان سب کو شاکڈ کردیا تھا اور وہ ہنسی اس خاموش انسان کی تھی جو کب سے چپ تھا۔۔
"نسواء۔۔"
"ماں۔۔"
"نانو۔۔"
سب ہی بستر کی طرف بھاگے تھے۔۔۔
۔
"ہنستے ہنستے یار ہم تو روپڑۓے۔۔۔
آنکھیں پونچھوں۔۔ آنسو پھر سے نم کرے۔۔"
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"اب وہ بالکل فٹ ہیں اس وینٹی لیٹر کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔۔"
ایک ایک کرکے وہ مشین اس روم سے باہر چلی گئی تھی
"مننان بیٹا۔۔"
اسے پھر سے پکارے جانے کی ضرورت نہ تھی وہ ماں کی طرف لپکا تھا
"ماں۔۔۔"
ماں کے کندھے پر سر رکھے اسکی خاموش سسکیاں اس کمرے سے باہر تک سنائی دہ رہی تھی
"پروفیسر ایم کیوں رو رہے ہیں ماما۔۔؟"
"ماہا بیٹا ابھی آپ کے سونے کے ٹائم ہوگیا ہے چلیں۔۔"
"پر ماما۔۔"
"پلیز بیٹا باقی باتیں صبح سہی۔۔"
"اوکے۔۔ پر نانو سے تو ملنے دیں۔۔"
ماہا جلدی سے روم میں داخل ہوئی تھی
"مامو۔۔ سنبھالیں خود کو۔۔"
اندر سے آتی ہوئی آواز نے دونوں کو چپ کرا دیا تھا
"میں ہوں ماہا ماہیر آفندی۔۔۔"
بیڈ پر لیٹی نسواء سے ہاتھ ملاتے جیسے ہی اس نے اپنا نام بتایا اندر وہ ماں بیٹا ساکن ہوگئے تھے اور باہر نجیب آفندی۔۔۔ مننان کی فکر لاحق ہوگئی تھی انہیں۔۔
"ماہا بہت پیارا نام ہے۔۔"
"نسواء بھی بہت پیارا نام ہے ویسے۔۔"
نسواء پھر سے ہنسی تھی اور اس بچی کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔
ایک پل کو اسکی آنکھیں باہر کھڑے اس شخص سے ٹکرائی تھی مگر پھر وہ شخص اوجھل ہوگیا تھا آنکھوں سے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"بس کرجاؤ۔۔ بیٹا اور نہیں کھایا جائے گا۔۔"
"اب آپ کی منمانی نہیں چلے گی بھیا اور کھلائیں۔۔۔"
حورب کو دیکھتے ہی وہ کرسی سے اٹھی تھی
"حورب میری بچی۔۔"
"بس نام کی بچی تھی ماں۔۔ آخر کار آپ نے بھائی اور مجھ میں فرق کرہی دیا نہ۔۔؟
اتنے سال مجھے کس بات کی سزا ملی۔۔؟ اور بابا۔۔ آپ جانتی ہیں کیا گزری ان پر۔۔؟؟"
وہ ماں کے گلے لگ کر گلے شکوے کرتی ہے۔۔
"آپ دونوں نہیں آپ تینوں نے بہت امتحان لئیے میرے۔۔ ایک پل کو لگا تھا کہ اپنی جان لے لوں اور خود کو آزاد کرلوں اس روز روز کی اذیت سے۔۔"
حورب کی باتیں کڑوی مگر سچی تھی۔۔اور وہ آج بتانا چاہتی تھی کہ ان تینوں نے کتنی تکلیف دی اسے۔۔
۔
"گڑیا۔۔۔"
"مننان بھائی۔۔۔میں جانتی تھی آپ ٹھیک ہوں گے۔۔۔ کچھ نہیں ہوا ہوگا آپ کو۔۔
اتنا وقت لگا دیا واپس آنے میں بھائی۔۔۔"
بھائی کے گلے لگتے ہی اس کے شکایات دھری کی دھری رہ گئی تھی۔۔۔
۔
اپنوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مننان نے خود سے ایک وعدہ کیا تھا ان سب کے لیے جینے کا جنہوں نے اپنی زندگیاں روک دی تھی اسکے لیے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"مننان بیٹا ہم کہاں جارہے ہیں۔۔"
"۔۔۔ بابا کے پاس جارہے ہیں ماں۔۔"
"مننان۔۔"
"حیران مت ہوں۔۔ میں جانتا ہوں آپ کیوں ان کے سامنے نہیں جاتی کیونکہ آپ مجھے ناراض نہیں کرنا چاہتی۔۔۔"
"ایسی بات نہیں بیٹا۔۔یہ سب تمہارے بابا نے شروع کیا۔۔"
"انکی بھی وہی وجہ ہوگی جو آپ کی ہے۔۔ آپ دونوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرنا چاہتے تاکہ میں اداس نہ ہوجاؤں۔۔"
ماں کا ہاتھ پکڑے وہ ٹیرس پر لے آیا تھا پورا ٹیرس سجا ہوا تھا گلاب کے پھولوں سے روشن تھا موم بتیوں سے چراغوں سے۔۔۔درمیان میں ٹیبل اور دو کرسیاں رکھی گئی تھی مکمل انتظام کیا تھا ان بچوں نے اپنے والدین کی ڈیٹ کا۔۔۔
۔
"مننان۔۔۔"
"ماں انہیں بہت سزا مل گئی۔۔ بہت کچھ ہوگیا۔۔ دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں رہا انکے پاس
سوائے آپ کے۔۔ اب میرے لیے انکا وہ سہارا نہ چھینیں۔۔"
"بیٹا یہ نہ سوچو۔۔"
مگر وہ کرسی پر بٹھا چکا تھا نسواء کو۔۔
"ماں۔۔۔ اب بچوں کی فکر چھوڑ کر اپنی زندگی گزاریں۔۔ بس بہت کرلیا بچوں کے لیے۔۔
اب آپ دونوں کو ایک دوسرے کو اہمیت دینی ہوگی ایک دوسرے کو اہم سمجھنا ہوگا۔۔
میں نے جتنا ماضی میں آپ کو پل پل مرتے دیکھا۔۔ اب میں نے انکو تڑپتے ہوئے دیکھا ہے۔۔ایک بار۔۔ اس مننان کو درمیان سے ہٹا کر اپنے رشتے کو دیکھیں۔۔"
"اگر مننان ہٹ گیا تو کیا رہ جائے گا درمیان میں بیٹا۔۔؟؟"
نجیب صاحب بھی سامنے آچکے تھے
"تم ہمارے پیار کی نشانی۔۔۔ جس نے ہمیں جوڑے رکھا۔۔ اگر تم ہٹ گئے تو کیا وجود رہ جائے گا ہمارا۔۔؟؟"
مننان نے ان دونوں کے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا
"ویسے کیا غذب ڈھا رہی ہے آپ کی جوڑی۔۔ آپ اس مہرون ساڑھی میں اور آپ اس ٹکسیڈو میں۔۔میری نظر نہ لگ جائے۔۔ اور آپ دونوں بھی باہر نکل آئیں۔۔ میں نہیں چاہتا میرے ماں بابا کے رومینٹک سین کوئی دیکھے۔۔"
حورب منہ بناتے اور منیشا اسے آنکھیں دیکھاتے ہوئے اس چھپی ہوئی جگہ سے باہر نکلی تھی
"میں بھی تھی چھپی ہوئی"
"ہاہاہا آپ کو تو بھول ہی گیا تھا محترمہ۔۔"
ماہا کو گود میں اٹھائے خوب گدگدی کی تھی مننان نے۔۔۔
"چلو چلو۔۔ بھاگو نیچے۔۔۔"
وہ دونوں کو نیچے لے گیا تھا۔۔۔
"اور بابا۔۔ پلیز اپنی عمر کا لحاظ رکھئیے گا ہمیں کوئی بہن بھائی نہیں چاہیے ۔۔۔"
"ہاہاہاہاہا مننان بھیا۔۔۔۔"
وہ سب کے قہقے مسلسل سنائی دے رہے تھے انہیں جن کے منہ سرخ ہوگئے تھے مننان کی بات سن کر۔۔۔
"نسواء۔۔۔"
"اسے تو میں چھوڑوں گی نہیں۔۔۔"
پر وہ بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ چکے تھے۔۔اور وہ شرم کے مارے اپنی چہرہ نجیب کے سینے میں چھپا چکی تھی
"ہاہاہا۔۔ ارے اتنی شرم۔۔۔ میں نے کونسا سیریس لے لینا ہے۔۔ ڈونٹ وری۔۔"
"شٹ اپ۔۔"
"ہاہاہاہا آئیڈیا برا نہیں ہے نسواء۔۔۔ "
"نجیب۔۔۔ بس کریں۔۔"
نجیب کی ہنسی نے انہیں اور شرم سے پانی پانی کردیاتھا۔۔
۔
وہ رات انکی باتوں میں گزری تھی خوبصورت باتوں میں پرانی یادوں میں ۔۔۔
۔
"یہ دل ہمیشہ سے آپ کے لیے دھڑکا ہے نسواء۔۔کیا میں آئی لو یو نہ کہوں تو آُ سمجھ جائیں گی نہ کہ میں آپ سے بےحد محبت کرتا ہوں۔۔"
نجیب کے گالوں پر ہاتھ رکھ کر انکا چہرہ اپنے برابر کیا تھا نسواء نے
۔
"ان لفظوں کی ضرروت نہیں رہی نجیب آپ کی آنکھیں آپ کا ہر راز کھول رہی ہیں مجھ پر۔۔۔"
انکے ماتھے پر اپنا ماتھا رکھے ہاتھوں میں ہاتھ تھام چکی تھی نجیب کے۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"آپ دونوں اب ایک کمرے میں سوئیں گے۔۔؟؟"
ماہا نے نجیب اور نسواء سے ایک ہی سوال پوچھا تھا جب وہ اگلے دن بریک فاسٹ کرنے آئے تھے۔۔۔
"اہاہاہاہا۔۔۔"
نسواء کو کھانسی آنا شروع ہوگئی تھی اور حورب کی ہنسی کنٹرول نہیں ہورہی تھی اس وقت
اور وہ بچی ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھے کسی ہیڈ ماسٹر کی طرح دیکھ رہی تھی نجیب اور نسواء کو
"باپ رے۔۔ اتنا تو کبھی ہمارے بچوں نے نہیں پوچھ گچھ کی تھی۔۔"
وہ بھی ہنسی چھپاتے ہوئے کہتے ہیں نسواء کے کان میں۔۔
"ماہا ۔۔ آج سکول نہیں جانا بیٹا۔۔ میں ڈراپ کردوں۔۔؟؟"
مننان نے بہت پیار سے پوچھا تھا۔۔
"اسکی کوئی ضرروت نہیں اسکی سکول وین آتی ہوگی۔۔"
منیشا نے جتنی بے رخی سے کہا تھا مننان کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی سنجیدہ ہوگئے تھے۔۔
یہ وہ معاملہ تھا جس پر کوئی بھی فرد کچھ نہیں کہنا چاہتا تھا نہ ہی مننان سے نہ ہی منیشا سے۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"کیا نام بتایا تھا شہاب۔۔ آپ بلا لیں اسکے پیرنٹس کو نجیب۔۔۔"
حورب نے والد کو دیکھا تھا اور پھر خاموشی سے والدہ کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی
"کیا ہوا بیٹا۔۔ تم تو جارہی تھی ہاسپٹل۔۔"
"ماں۔۔ یہ کس کی بات ہورہی ہے۔۔؟؟"
"بیٹا تمہارے بابا نے تمہارے رشتے کی با۔۔"
"مجھے نہیں کرنا۔۔ اس شخص سے تو بالکل نہیں۔۔"
اور وجہ جان سکتا ہوں میں۔۔؟؟"
"بابا پلیز۔۔۔"
"کیا تمہیں وہ پسند نہیں تھا۔۔؟؟ کیا تمہاری اس سے نفرت میں نہیں تھا۔؟؟
اس وقت سے اب تک وہ بس ایک موقع مانگ رہا ہے حورب بیٹا۔۔"
"اور میں اسے وہ ایک موقع نہیں دینا چاہتی۔۔ اس نے آپ کو غلط کہا تھا۔۔
میری نظر میں جتنی عزت ماں کی ہے بھائی کی ہے اتنی آپ کی بھی ہے بابا۔۔
میں کسی غیر کو اجازت نہیں دیتی کہ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرے۔۔
پسند ہو یا نہ ہو۔۔۔ "
ماں کے گال پر بوسہ دئیے وہ روم سے چلی گئی تھی۔۔ نسواء تو کھلے منہ کے ساتھ اپنی بیٹی کو دیکھتی رہ گئی تھی
"نسواء آپ ہی سمجھائیں اسے۔ اس لڑکے سے ایک غلطی۔۔"
"غلطی نہیں کہتے اسے۔۔ بابا اگر گڑیا اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو اسے فورس نہ کریں۔۔"
"ہوا کیا ہے ان دونوں کو۔۔؟؟"
"انہیں پیار ہوا ہے آپ سے نجیب آفندی۔۔ اب چپ کرکے بیٹھ جائیں۔۔۔
ہم حورب کے لیے کوئی اور اچھا سوٹ ایبل رشتہ تلاش کرلیں گے۔۔"
بازو سے کھینچ کر وہ اپنے ساتھ بٹھا چکی تھی نجیب کو۔۔۔
"آہم۔۔۔ خیر ہو۔۔ نسواء۔۔ "
"خیر ہے مسٹر نجیب۔۔۔"
نجیب کی گردن پر ہاتھ رکھے نسواء نے سرگوشی کی تھی۔۔
چہرے کے درمیان وہ فاصلہ بھی ختم ہونے کو تھا جب وہ ننھی شیطان کمر پر ہاتھ رکھے وہاں کھڑی تھی
"آپ دونوں کس کرنے لگے تھے نہ۔۔؟ بیڈ مینرز ہیں۔۔۔"
"یا اللہ ۔۔ اب منیشا کو منع نہیں کروں گا۔۔ اسے بوڈنگ میں جانا چاہیے۔۔"
نسواء کے کندھے پر سر رکھ چکے تھے وہ اور نسواء ہنس ہنس کر پاگل ہوئے جارہی تھی۔۔۔
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
"میں ڈراپ کردیتا ہوں منیشا گاڑی میں بیٹھو۔۔"
"نہیں میں چلی جاؤں گی۔۔ بس سٹینڈ پاس ہی ہے۔۔"
"اتنی بارش میں۔۔؟ فار گوڈ سیک گاڑی میں بیٹھو۔۔"
مگر منیشا تو زور سے اس کھلے دروازے کو بند کرکے آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔
وہ کچھ پل کو وہی رک گیا تھا پچھلے دنوں کی طرح وہ اب بھی درگزر کرنا چاہتا تھا اب بھی وہ چپ چاپ اپنے کام سے مطلب رکھنا چاہتا تھا۔۔
مگر اب اسکی لمٹ بھی کراس ہوتی جارہی تھی۔۔تیز بارش کو دیکھ کر اس نے اپنی سائیڈ کا دروازہ کھولا تھا اور منیشا کے پیچھے قدم بڑھائے تھے
"تمہیں میری بات سمجھ کیوں نہیں آرہی منیشا۔۔؟ گاڑی میں بیٹھو۔۔"
بازو کو زبردستی پکڑے گاڑی کی طرف دھکیلا تھا
"لئیو مائی ہینڈ مننان۔۔ ہاتھ چھوڑیں۔۔"
اسکے چیخنے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔۔اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولے اس نے اندر پش کیا تھا منیشا کو۔۔
جو منہ بناتے ہی بیٹھ گئی تھی گاڑی میں۔۔۔
"ایم سوری۔۔۔ میں زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ اگر تم بیمار پڑجاؤ گی تو ماہا کا خیال کون رکھے گا۔۔؟؟"
اپنے رویے کا بہانہ بناتے ہوئے وضاحت دی تھی اس نے۔۔
"آپ کی عادت ہے پہلے کرلینا پھر معافی مانگ لینا۔۔ مگر خدارا میری بیٹی کو دور رکھے
میں نہیں چاہتی کہ اب آپ کے بدلوں میں وہ معسوم بچی آئے۔۔"
"منیشا۔۔ میں کسی بدلے کے تحت واپس نہیں آیا۔۔ کیا میں اس بچی کو نقصان پہنچا سکتا ہوں۔۔؟؟"
"آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔۔"
مننان نے پھر کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا اسے۔۔ گاڑی گھر کے باہر جیسے ہی رکی تھی وہ جلدی سے نکل کر اندر چلی گئی تھی اور جب مننان کار پارک کرکے اندر گیا تھا
تو سیدھا نسواء کی جانب بڑھا تھا جو ٹاول لئیے کھڑی تھی مسکراتے ہوئے بیٹے کے بالوں کو تولیے سے سکھانا شروع کیا تھا
"ماں۔۔۔ پچھلے ہفتے مس سائرہ کے آئے ہوئے رشتے کے بارے میں جواب جاننا تھا آپ نے میرا۔۔؟؟
میری طرف سے انکار کردیجئے گا۔۔۔
میں نے سوچ لیا ہے میری منزل کیا ہے۔۔۔ منزل مشکل ضرور ہے پر نا ممکن نہیں ہے ماں۔۔"
اسکی بات سن کر سیڑھیاں چڑھتے منیشا کے قدم رکے تھے
"مجھے فخر ہے تمہارے اس فیصلے پر بیٹا۔۔۔مگر۔۔"
"اس بار کوئی غلطی نہیں ہوگی۔۔ کوئی زور زبردستی نہیں ہوگی ماں۔۔ اس بار اگر میں اسے اپنی محبت سے نہ جیت سکا تو اسے قسمت کا فیصلہ سمجھ کر تسلیم کرلوں گا۔۔
میں اسکا ہرجائی بن کر نہیں جینا چاہتا ۔۔۔"
۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔
۔
" نجیب۔۔۔ سو گئے۔۔۔؟؟ نجیب۔۔۔"
سینے سے سر اٹھائے نجیب کی بند آنکھوں کو دیکھا تھا اور واپس مایوسی سے سر نجیب کے سینے پر رکھے لیٹ گئی تھی
"میرے ہرجائی۔۔ ایکٹنگ بند کریں جانتی ہوں جاگ رہے ہیں۔۔۔"
اگلے لمحے اسے بیڈ کے ساتھ پن کردیا تھا نجیب نے آنکھوں میں بےپناہ غصہ تھا
"نسواء میں نے کتنی بار کہا ہے یہ لفظ مجھے زہر لگتا ہے۔۔"
"کونسا لفظ۔۔؟؟"
گلے میں بانہوں کا ہار ڈالے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا تھا
"ہرجائی۔۔"
"اووہ۔۔۔۔ برا کیوں لگتا ہے۔۔؟؟ کیا آپ میرے ہرجائی نہیں ہیں۔۔"
"نسواء۔۔پلیز۔۔۔"
"ہرجائی۔۔۔"
نجیب کی آنکھوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا تھا نسواء نے
"ہرجائی۔۔۔"
ماتھے پر بوسہ دے کر پھر سے دہرایا تھا
"میرا ہرجائی۔۔۔"
لبوں پر انگلی رکھتے ہوئے انہوں نے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا تھا
"نسواء۔۔۔"
"میرا ہرجائی۔۔۔۔"
اور وہ فاصلہ بھی ختم کردیا تھا نسواء نے۔۔۔
۔
۔
۔
٭٭٭۔۔۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔۔٭٭٭
۔
۔