Village life pakistan

Village life pakistan Beauty of Kaghan Valley.. Village lifestyle, Vlogs, Naran Kaghan Update, and much more on this page.. Like and share with you friends.

آج کے دن  یعنی 9   جولائی1996بروز پیر عظیم عالم محدث مناظر مفکر سیاستدان وادی کاغان کی تاریخی جامع مسجد مھانڈری کے خطیب ...
09/07/2025

آج کے دن یعنی 9 جولائی1996بروز پیر عظیم عالم محدث مناظر مفکر سیاستدان وادی کاغان کی تاریخی جامع مسجد مھانڈری کے خطیب حضرت مولانا قاضی مھدی الزمان رح فوت ھوئے۔اللہ پاک قاضی مھدی الزمان صاحب کی قبر پر کرڑوں رحمتیں نازل فرما ۔

09/07/2025

Muzaffarabd road

09/07/2025

بیلہ پل پہلے بازار والا بشلہ نالہ کی نظر

😁
08/07/2025

😁

07/07/2025

اصلی سوشل ورک!

بازار میں ایک بھکاری دن بھر کے راؤنڈ کے بعد کم و پیش 2,3 ہزار روپے بھیک جمع کر کے عیاشی کرتا ہے۔۔۔
اسی بازار میں ایک معزور شخص شربت کی ریڑھی لگائے بیٹھا ہے جو سارا دن سخت گرمی میں محنت کر کے بمشکل دن کا 5،6 سو بھی نہیں بنا پاتا۔۔۔
اس معزور شخص کا کل سرمایہ اور جمع پونجی بھکاری کی ایک دن کی دیہاڑی کا چوتھا حصہ بھی نہیں بنتا۔۔۔

ہماری حالت یہ ہے کہ ہم کسی ریڑھی سے کوئی چیز خریدتے ہیں اس سے بحث کر کے دس روپے کم کرواتے ہیں اور دو قدم کے بعد وہی دس روپے کسی بھکاری کو پکڑا دیتے ہیں۔۔۔

یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ ہم بھکاریوں کو نوازتے ہیں ہر بھیک مانگنے والے کو دیتے ہیں۔۔۔
مگر محنت مزدوری کرنے والوں سے ہم الجھتے ہیں، بحث کرتے ہیں، حقارت کرتے ہیں۔۔۔
ہمارے تعاون کے حقیقی حقدار وہ لوگ ہیں جو محنت مزدوری کرتے ہیں خاص کر معزور اور بزرگ لوگ جو اس حالت میں بھی حق حلال کے معاش کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔۔۔
بھکاریوں کو بھیک دینے سے لاکھ درجے بہتر ہے کسی محنت مزدوری کرنے والے سے کوئی چیز خرید لیں، کسی معزور محنت کش کے ساتھ معاونت کر لیں۔۔۔

اگر ہم سب مل کر ایک طریقہ اپنائیں تو بہت مفید ہوگا
یقیناً ہم میں سے ہر شخص روزانہ کے بیس، تیس روپے کسی بھکاری اور مانگنے والے دیتے ہیں ہم ایک ماہ کا حساب کریں اور اتنی رقم یکمشت کسی مزدور، یا خاص کر کسی معزور محنت کش کو دیں۔۔۔
اس سے تھوڑا سا سامان لیں اور ساری رقم اس کے حوالہ کر دیں تاکہ اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور اپنے چھوٹے سے کاروبار میں اس رقم کو لگالے تاکہ مزید فائدہ حاصل کر سکے۔۔۔
یقین جانیں یہ عمل اتنا عظیم اور بڑا ہے کہ اس کا اندازہ نہیں کیاجاسکتا ۔۔۔

07/07/2025

دولت عینک خرید سکتی ہیں لیکن نظر نہیں
دولت گھڑی خرید سکتی ہے لیکن وقت نہیں
دولت نرم بستر خرید سکتی ہے لیکن نیند نہیں

علامہ اقبال کی آخری رات20 اپریل 1938ء کی صبح کو ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ انھوں نے معمول کے مطابق دلیے کے ساتھ چائے...
06/07/2025

علامہ اقبال کی آخری رات

20 اپریل 1938ء کی صبح کو ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ انھوں نے معمول کے مطابق دلیے کے ساتھ چائے کی پیالی پی۔ میاں محمد شفیع سے اخبار پڑھوا کر سنے اور رشید حجّام سے شیو بنوائی۔ دوپہر کو ڈاک میں جنوبی افریقہ کے کسی اخبار میں ترشے وصول ہوئے، خبر یہ تھی کہ وہاں کے مسلمانوں نے نمازِ جمعہ کے بعد اقبال، مصطفٰی کمال اور محمد علی جناح کی صحت اور عمر درازی کے لیے دعا کی ہے۔ کوئی ساڑھے چار بجے بیرن فان والتھائم انھیں ملنے کے لیےآگئے۔ بیرن فان والتھائم نے جرمنی میں اقبال کی طالب علمی کے زمانے میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا اور اب وہ جرمنی کے نازی لیڈر ہٹلرکے نمائندے کی حیثیت سے ہندوستان اور افغانستان کا سفر کر کے شاید ان ممالک کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ہندوستان کا دورہ مکمل کر چکنے کے بعد وہ کابل جا رہے تھے۔ اقبال اور بیرن فان والتھائم دونوں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ہائیڈل برگ یا میونخ میں اپنی لینڈ لیڈی، احباب اور اساتذہ کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اقبال نے انھیں سفر افغانستان کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ جب بیرن فان والتھائم جانے لگے تو اقبال نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کر کے انھیں رخصت کیا۔ شام کی فضا میں موسم بہار کے سبب پھولوں کی مہک تھی اس لیے پلنگ خواب گاہ سے اٹھوا کردالان میں بچھوایا اور گھنٹہ بھر کے لیے وہیں لیٹے رہے پھر جب خنکی بڑھ گئی تو پلنگ گول کمرے میں لانے کا حکم دیا۔ گول کمرے میں ساڑھے سات سالہ منیرہ آپا جان کے ساتھ ان کے پاس گئی۔ منیرہ ان کے بستر میں گھس کر ان سے لپٹ گئی اور ہنسی مذاق کی باتیں کرنے لگی۔ منیرہ عموماً دن میں دو تین بار اقبال کے کمرے میں جاتی تھی۔ صبح اسکول جانے سے پہلے، دوپہر کو اسکول سے واپس آنے پر اور شام کو سونے سے قبل۔ لیکن اس شام وہ ان کے پہلو سے نہ اٹھتی تھی۔ دو تین بار آپا جان سے انگیریزی میں کہا، اسے اس کی حس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے۔ منیرہ اور آپاجان کے اندر چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم، پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین گھنٹے آدھ گھنٹے کے لیے آ بیٹھیں اوران سے کالج میں درسِ قرآن کے انتظامات کے متعلق باتیں کرتی رہیں۔
رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چوہدری محمد حسین، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ شاہ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آگئے۔ ان ایام میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبد القیوم تو جاوید منزل میں ہی مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں ابھی تک خون آرہا تھا اور اسی بناء پر چوہدری محمد حسین نے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کیا تھا۔ اس زمانے کے معروف ڈاکٹر کرنل امیر چند، الہٰی بخش، محمد یوسف، یار محمد، جمعیت سنگھ وغیرہ سبھی موجود تھے اور انھوں نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا، کیوں کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر رات خیریت سے گزر گئی تو اگلے روز نیا طریق علاج شروع کیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہوں پر اقبال کے اصحاب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اقبال سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی، لیکن وہ بڑے تیز فہم تھے۔ احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر انھیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کی موت کا وقت قریب آپہنچا ہے۔ چند یوم پیشتر جب کسی نے ان کی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا تو فرمایا: میں موت سے نہیں ڈرتا۔ بعد ازاں اپنا یہ شعر پڑھا تھا:؎

نشانِ مرد مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست

پس اس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ راقم کوئی نو بجے کے قریب گول کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا کون ہے؟ راقم نے جواب دیا : جاوید۔ ہنس پڑے، فرمایا: جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا: چوہدری صاحب! اسے "جاوید نامہ " کے آخر میں وہ دعا "خطاب بہ جاوید" ضرور پڑھوا دیجیے گا۔ اتنے میں علی بخش اندر داخل ہوا۔ اسے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہا۔ علی بخش نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا۔ چوہدری محمد حسین نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی۔ فرمایا آخر چالیس برس کی رفاقت ہے، اسے رو لینے دیں۔ رات کے گیارہ بجے اقبال کو نیند آگئی۔ البتہ میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے اس رات جاوید منزل ہی میں قیام کیا اور باہر دالان میں چارپائی بچھا کر لیٹ گئے۔ راقم بھی حسبِ معمول اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔

اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لیے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آوار دوا دینے کی کوشش کی، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ فرمایا: دوا میں افیون کے اجزاء ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد شفیع ان کے شانے اور کمر دبانے لگے تا کہ درد کی شدت کم ہو، لیکن تین بجے رات تل ان کی حالت غیر ہوگئی۔ میاں محمد شفیع، حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے ان کے گھر گئے، مگر ان تک رسائی نہ ہو سکی اور ناکام واپس آگئے۔ اقبال درد سے نڈھال تھے۔ میاں محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا: افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ تقریباً پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ کر اندر آئے۔ انھیں بھی حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے کے لیے کہا۔ وہ بولے: حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے تھے اور اس وقت انھیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اسی پر اقبال نے یہ قطعہ پڑھا:؎

سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگار ایں فقیرے
وگر دانائے راز آید کہ ناید

راجہ حسن اختر قطعہ کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن قرشی کو لانے کے لیے روانہ ہوگئے۔ اقبال کے کہنے پر ان کا پلنگ گول کمرے سے ان کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ انھوں نے فروٹ سالٹ کا گلاس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ اذانیں ہو رہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات کٹ گئی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع صبح کی نماز ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے تھے اور صرف علی بخش ہی اقبال کے پاس رہ گیا تھا۔ اسی اثناء میں اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ان کے منہ سے "ہائے" کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر انھیں شانوں سے اپنے بازؤوں میں تھام لیا۔ فرمایا: دل میں شدید درد ہے اور قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کر سکے، انھوں نے "اللہ" کہا اور ان کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ 21 اپریل 1938ء کو پانچ بج کر چودہ منٹ صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنے دیرینہ ملازم کی گود میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ طلوعِ آفتاب کے بعد جب راقم اور منیرہ نے ان کے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو خواب گاہ میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ پلنگ پر سیدھے لیٹے تھے۔ انھیں گردن تک سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا، جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلہ کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے اور سر کے بالوں کے کناروں پر راقم کے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔

کتاب: زندہ رُود
مصنف: ڈاکٹر جاوید اقبال

05/07/2025

*⭕دجال ، اسکی شخصیت اور اسکا خاتمہ:*

دجال *یہودیوں کی نسل* سے ہوگا
جس کا *قد* ٹھگنا ہو گا.
*دونوں پاؤں* ٹیڑھے ہوں گے ۔
*جسم* پر بالوں کی بھر مار ہوگی۔
*رنگ* سرخ یا گندمی ہو گا۔
*سر کے بال* حبشیوں کی طرح ہوں گے۔
*ناک* چونچ کی طرح ہںوگی۔
*بائیں آنکھ سے کانا ہںوگا۔*
*دائیں آنکھ* میں انگور کے بقدر ناخنہ ہو گا۔
اس کے *ماتھے پر ک، ا، ف، ر لکھا ہںوگا* جسے ہر مسلمان بآسانی پڑھ سکے گا۔

اس کی آنکھ سوئی ہںوئی ہوگی مگر دل جاگتا رہے گا۔ شروع میں وہ ایمان واصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھے گا، لیکن جیسے ہی تھوڑے بہت متبعین میسر ہںوں گے جن میں اصفہان ایران کے شہر کے 70ہزار یہودی ہونگے *وہ نبوت اور پھر خدائی کا دعویٰ کرںے گا۔*

اس کی سواری بھی اتنی بڑی ہو گی کہ اسکے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ ہی چالیس گز کاہو گا. ایک قدم تاحد نگاہ مسافت کو طے کرلے گا۔

*دجال پکا جھوٹا اور اعلٰی درجہ کا شعبدے باز ہںوگا۔* اس کے پاس غلوں کے ڈھیر اور پانی کی نہریں ہںوں گی۔ زمین میں مدفون تمام خزانے باہر نکل کر شہد کی مکھیوں کی مانند اس کے ساتھ ہولیں گے۔

جو قبیلہ اس کی خدائی پر ایمان لائے گا، دجال اس پر بارش برسائے گا جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں ابل پڑیں گے اور درختوں پر پھل آجائیں گے۔

کچھ لوگوں سے آکر کہے گا کہ اگر میں تمہارے ماؤں اور باپوں کو زندہ کر دوں تو تم کیا میری خدائی کا اقرار کرو گے؟

لوگ اثبات میں جواب دیں گے۔
اب دجال کے شیطان ان لوگوں کے ماؤں اور باپوں کی شکل لے کر نمودار ہوں گے۔ نتیجتاً بہت سے افراد ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

اس کی رفتار آندھیوں سے زیادہ تیز اور بادلوں کی طرح رواں ہو گی۔ وہ کرشموں اور شعبدہ بازیوں کو لے کر دنیا کے ہر ہر چپہ کو روندے گا۔

*تمام دشمنانِ اسلام اور دنیا بھر کے یہودی، امت مسلمہ کے بغض میں اس کی پشت پناہی کر رہںے ہںوں گے*۔

*وہ مکہ معظمہ میں گھسنا چاہںے گا مگر فرشتوں کی پہرہ داری کی وجہ سے ادھر گھس نہ پائے گا*۔

*اس لیے نامراد وذلیل ہو کر واپس مدینہ منورہ کا رخ کرے گا۔اس وقت مدینہ منورہ کے سات دروازںے ہںوں گے اور ہر دروازںے پر فرشتوں کا پہرا ہںوگا۔ لہذا یہاں پر بھی منہ کی کھانی پڑںے گی۔*

انہی دنوں مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا۔ جس سے گھبرا کر بہت سارے بے دین شہر سے نکل کر بھاگ نکلیں گے۔ باہر نکلتے ہیں دجال انہیں لقمۂ تر کی طرح نگل لے گا۔

*آخر ایک بزرگ اس سے بحث و مناظرہ کے لئے نکلیں گے اور خاص اس کے لشکر میں پہنچ کر اس کی بابت دریافت کریں گے۔*

لوگوں کو اس کی باتیں شاق گزریں گی۔ لہذا اس کے قتل کا فیصلہ کریں گے مگر چند افراد آڑے آکر یہ کہہ کر روک دیں گے کہ ہمارے خدا دجال *(نعوذ بااللہ)* کی اجازت کے بغیر اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا ہے.

چنانچہ اس بزرگ کو دجال کے دربار میں حاضر کیا جائے گا.

جہاں پہنچ کر یہ بزرگ چلا اٹھے گا :
"میں نے پہچان لیا کہ تو ہی دجال ملعون ہے اور *رسول اللّٰه ﷺ نے ہمیں تیرںے ہںی خروج کی خبر دی تھی۔"*

دجال اس خبر کو سنتے ہی آپے سے باہر ہو جائے گا اوراس کو قتل کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ درباری فوراً اس بزرگ کے دو ٹکڑںے کر دیں گے۔

دجال اپنے حواریوں سے کہے گا کہ اب اگر میں اس کو دوبارہ زندہ کر دوں تو کیا تم کو میری خدائی کا پختہ یقین ہو جائے گا۔ یہ دجالی گروپ کہے گا کہ ہم تو پہلے ہی سے آپ کو خدا مانتے ہوئے آرہے ہیں، البتہ اس معجزہ سے ہمارے یقین میں اور اضافہ ہںو جائے گا ۔

دجال اس بزرگ کے دونوں ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے زندہ کرنے کی کوشش کرے گا ادھر وہ بزرگ بوجہ حکمِ اِلٰہی کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے اب تو مجھے اور زیادہ یقین آ گیا ہے کہ تو ہی دجال ملعون ہے۔

وہ جھنجھلا کر دوبارہ انہیں ذبح کرنا چاہے گا لیکن اب اسکی قوت سلب کر لی جائے گی۔

دجال شرمندہ ہوکر انہیں اپنی جہنم میں جھونک دے گا لیکن یہ آگ ان کے لئے ٹھنڈی اور گلزار بن جائے گی۔

*اس کے بعد وہ شام کا رخ کرںے گا۔ لیکن اس کے دمشق پہنچنے سے پہلے ہںی حضرت امام مہدی علیہ السلام وہاں آچکے ہںوں گے۔*

*دجال دنیا میں صرف چالیس دن رہںے گا۔ ایک دن ایک سال دوسرا دن ایک مہینہ اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا۔ بقیہ معمول کے مطابق ہںوں گے۔*

حضرت امام مہدی علیہ السلام دمشق پہنچتے ہںی زور وشور سے جنگ کی تیاری شروع کردیں گے لیکن صورتِ حال بظاہر دجال کے حق میں ہںوگی۔ کیونکہ وہ اپنے مادی و افرادی طاقت کے بل پر پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکا ہو گا۔ اس لیے عسکری طاقت کے اعتبار سے تو اس کی شکست بظاہر مشکل نظر آ رہںی ہو گی مگر اَللّٰه کی تائید اور نصرت کا سب کو یقین ہںوگا۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام اور تمام مسلمان اسی امید کے ساتھ دمشق میں دجال کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں ہںوں گے۔

*تمام مسلمان نمازوں کی ادائیگی دمشق کی قدیم شہرہ آفاق مسجد جامع اموی میں ادا کرتے ہںوں گے۔*

ملی شیرازہ ،لشکر کی ترتیب اور یہودیوں کے خلاف صف بندی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت امام مہدی علیہ السَّلام دمشق میں اس کو اپنی فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے۔ اور اس وقت یہی مقام ان کا ہیڈ کواٹر ہںوگا۔

*حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک دن نماز پڑھانے کے لیے مصلے کی طرف بڑھیں گے تو عین اسی وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزو ل ہںوگا*۔

نماز سے فارغ ہںو کر لوگ دجال کے مقابلے کے لیے نکلیں گے۔

*دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ایسا گُھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہںے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر اس کو قتل کر دیں گے* اور حالت یہ ہوگی کہ *شجر و ہںجر آواز لگائیں گے کہ اے روح اللّٰه میرںے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہںے۔*

چنانچہ وہ دجال کے چیلوں میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے۔

*پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب کو توڑیں گے یعنی صلیب پرستی ختم کریں گے۔*

خنزیر کو قتل کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے اور اس کے بعد مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور لوگ ایسے دین دار ہںو جائیں گے کہ ان کے نزدیک ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہںوگا۔

*📚(مسلم، ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی، طبرانی، حاکم، احمد)*

*اَللّٰه تعالٰى تمام مسلمانوں کا ایمان سلامت رکھے، آمین ثم آمین یارب العالمین🤲🏼*

*نوٹ:* یاد رہے کہ فتنہ دجال سے آگاہی تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے جبکہ آج یہ سنت مٹ چکی ہے.
لہٰذا اس سنت کوزندہ کرتے ہوئے اس پوسٹ کو بار بار پڑھیںِ اوردوسروں تک پہنچائیں۔“
منقُول.

05/07/2025

ٹک ٹاک انسٹاگرام وکے یوٹیوب کیلیے فالور لائک ویو فل گارنٹی کے ساتھ دستیاب ہیں ۔03475930166

پاکپتن کا بہشتی دروازہ کھولا گیا،یہ پانچ دن عشاء اور فجر کے درمیان کھلا رہے گا۔روزانہ اس دروازے سے ڈیڑھ لاکھ لوگ گزریں گ...
04/07/2025

پاکپتن کا بہشتی دروازہ کھولا گیا،یہ پانچ دن عشاء اور فجر کے درمیان کھلا رہے گا۔

روزانہ اس دروازے سے ڈیڑھ لاکھ لوگ گزریں گے جن کا یہ ماننا ہے کہ جو شخص ایک بار اس دروازے سے گزرا اس کے سبھی گناہ معاف ہونگے،یہ جنتی دروازہ ہے ۔

عالم اسلام میں گناہ بخشوانے کی یہ خصوصی سہولت و رعایت پاکستانیوں کے ہاتھ اور حصے میں آئی ہے ۔

مسجد الحرام کے 243 دروازے،مسجد نبوی شریف کے 110 دروازے ،قبلہ اوّل بیت المقدس کے 11 دروازے مسلمانوں کے تینوں مقدسات کے مجموعی 364 دروازوں میں سے کسی دروازے کے حصے میں یہ “سعادت “ نہ آئی کہ بندہ صرف نیچے سے گزرے اور گناہوں سے دھل جائے۔

میں مگر سوچ رہا ہوں تیرہویں صدی سے پہلے اس خطے کے لوگ گناہ بخشوانے کے لئے کیا کرتے ہونگے ؟

جنت کے اس دروازے پر بھیڑ کی وجہ سے 2021 میں 27 افراد جاں بحق ہوئے تھے جب کہ 2010 میں ایک خودکش بمبار کو بھی باب جنت سے گزر کر چھ افراد کو ہمراہ لیکر بذعم خود جنت جانے کا “شرف” حاصل ہوا تھا ۔

یہ جنت کا واحد دروازہ ہے جس پر پنجاب پولیس تعینات ہے ..

بہشتی دروازے سے نکلتے ہی اپنی جیب چیک کی تو موبائل اور پرس غائب تھے میں نے پولیس والے کو بتایا تو پولیس والا کہنے لگا پت...
04/07/2025

بہشتی دروازے سے نکلتے ہی اپنی جیب چیک کی تو موبائل اور پرس غائب تھے میں نے پولیس والے کو بتایا تو پولیس والا کہنے لگا پتر یہ دنیاوی چیزیں ہیں جنت میں داخل ہوتے ہی فرشتے یہ چیزیں نکال لیتے ہیں ۔😅😅😀

04/07/2025

Muzzafarabd bridge kashmir valley

Address

Mahandri Kaghan
Kaghan
2120

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00
Sunday 09:00 - 17:00

Telephone

+923475930166

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Village life pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Village life pakistan:

Share