22/02/2025
سکندرِ اعظم کی حقیقی کہانی
سکندرِ اعظم (Alexander the Great) قدیم مقدونیہ کے عظیم فاتح اور حکمران تھے۔ ان کی پیدائش 356 قبلِ مسیح میں مقدونیہ کے شہر پیلا میں ہوئی۔ ان کے والد فلپِ دوم مقدونیہ کے بادشاہ تھے، جنہوں نے اپنے بیٹے کو جنگی تربیت اور حکمرانی کے فن سے روشناس کروایا۔ سکندر نے بچپن میں ہی فلسفی ارسطو سے تعلیم حاصل کی، جس نے ان میں علمی جستجو اور غور و فکر کی عادت پیدا کی۔
ابتدائی دور اور بادشاہت کا حصول
فلپِ دوم کے قتل کے بعد، 336 قبلِ مسیح میں سکندر تخت پر بیٹھے۔ وہ کم عمری میں ہی اپنی صلاحیتوں اور حوصلے کے باعث مقدونیہ کی فوج کے سپہ سالار بن گئے۔ انہوں نے یونانی ریاستوں کو متحد کیا اور خود کو یونان کا حکمران منوایا۔
فتوحات کا آغاز
سکندر نے 334 قبلِ مسیح میں فارس کی عظیم سلطنت پر حملہ کر کے اپنی مہمات کا آغاز کیا۔ اپنی غیر معمولی فوجی حکمت عملی اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے انہوں نے ایک کے بعد ایک محاذ پر کامیابی حاصل کی۔ سکندر کی افواج نے مصر، ایران، ایشیائے کوچک (آج کا ترکی)، شام اور افغانستان تک اپنا دائرۂ کار بڑھایا۔
مصر میں قدم اور فارس کی شکست
مصر میں سکندر کو فرعون کا لقب دیا گیا اور انہوں نے اسکندریہ (Alexandria) شہر کی بنیاد رکھی جو بعد میں علم و ادب کا عظیم مرکز بنا۔ فارس کی سلطنت کو شکست دینے کے بعد، انہوں نے شاہِ فارس داریوش سوم کو کئی لڑائیوں میں شکست سے دوچار کیا، جس کے نتیجے میں فارس کی وسیع و عریض سلطنت سکندر کے زیرِ نگیں آ گئی۔
ہندوستان کی مہم
سکندر نے 326 قبلِ مسیح میں ہندوستان کی طرف پیش قدمی کی اور دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس کے ساتھ تاریخی جنگ لڑی۔ اگرچہ اس جنگ میں سکندر کو فتح حاصل ہوئی، لیکن انہیں راجہ پورس کی بہادری سے بے حد متاثر ہو کر اس کی ریاست واپس لوٹانا پڑی۔ مزید آگے بڑھنے کے بجائے، سکندر کی فوج تھکان اور نامساعد حالات کے باعث واپسی پر مجبور ہو گئی۔
واپسی اور انتقال
سکندر کی سلطنت بحیرۂ روم سے لے کر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ واپسی کے سفر کے دوران 323 قبلِ مسیح میں بابل کے مقام پر سکندرِ اعظم کا اچانک انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات کی وجہ کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، جن میں ملیریا، زہر خورانی یا بیماری کے امکانات شامل ہیں۔
وراثت اور تاریخ میں مقام
سکندرِ اعظم نے مختصر زندگی میں اتنی وسیع سلطنت قائم کی کہ ان کے بعد کوئی بھی حکمران اسے ایک مرکز کے تحت قائم نہ رکھ سکا۔ تاہم، ان کی فتوحات نے یونانی ثقافت اور فلسفے کو مشرق تک پہنچایا اور مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے سے روشناس کروایا۔
سکندر کو تاریخ میں ایک عظیم فاتح، فوجی ماہر اور باہمت حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جس نے کم عمری میں وہ کارنامے سرانجام دیے جن کا تصور بھی کرنا مشکل ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں قائم کیے گئے شہر، علمی مراکز اور ثقافتی امتزاج آج بھی ان کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔