Agha News Network

Agha News Network Agha News Network
join us on Facebook
Twitter
Instagram
YouTube

سلطان بیبرس :   ایک غُلام جس سے منگول بھی ڈرتے تھے سلطان الظاہر رکن الدین بیبرس کا نام اسلامی تاریخ کی اُن درخشاں شخصیات...
29/07/2025

سلطان بیبرس : ایک غُلام جس سے منگول بھی ڈرتے تھے

سلطان الظاہر رکن الدین بیبرس کا نام اسلامی تاریخ کی اُن درخشاں شخصیات میں آتا ہے جنہوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے عظیم ترین فتنوں کو شکست دی بلکہ اسلام کی عظمت کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے روشن کر دیا۔ بیبرس کی کہانی کسی داستان سے کم نہیں۔ ایک غلام کی حیثیت سے زندگی کی ابتدا کرنے والا یہ عظیم انسان اپنے عزم، غیرت، تدبر، اور عسکری مہارت کے بل بوتے پر سلطنتوں کا مالک اور امت مسلمہ کا فخر بن گیا۔ اس کی زندگی میں ایسے بے شمار موڑ آئے جن میں عام انسان شاید ہمت ہار دیتا، مگر بیبرس نے ہر آزمائش کو قدموں تلے روند ڈالا۔

بیبرس 1223ء میں وسطی ایشیا کے قپچاق ترک قبیلے میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کا بیشتر حصہ افراتفری اور ظلم و ستم کے سائے میں گزرا۔ منگولوں کے حملوں نے اس کے قبیلے کو تباہ کر دیا اور بیبرس کو ایک کمسن بچے کی حیثیت سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ اسے ایک سوداگر نے خرید کر حلب کے بازار میں فروخت کے لیے پیش کیا۔ اس وقت شاید کسی کو بھی اندازہ نہ تھا کہ یہ غلام ایک دن اسلام کے عظیم ترین محافظوں میں شمار ہوگا۔
اسے پہلے ایک امیر نے خریدا مگر جلد ہی واپس کر دیا کیونکہ اس کی آنکھ میں ایک ہلکی سی بیماری تھی۔ پھر اسے ایک اور مملوک امیر، امیر علاء الدین نے خریدا اور یوں بیبرس کی قسمت کا پہیہ گھومنے لگا۔

بیبرس نے عسکری تربیت حاصل کی اور مملوکوں کی خصوصی فوج "البحرية" کا حصہ بن گیا۔ اس نے جلد ہی اپنی بہادری، فہم، سرعت اور قیادت کی صلاحیتوں سے سب کو متاثر کیا۔ میدان جنگ میں اس کی برق رفتار حملے، حکمت عملی میں چالاکی، اور دشمن کو دھوکہ دینے کی صلاحیت نے اسے اپنے ساتھیوں میں ممتاز کر دیا۔ اس زمانے میں مملوک طبقہ غلاموں پر مشتمل تھا جو فوج میں تربیت حاصل کر کے اعلیٰ مراتب تک پہنچتے تھے، اور بیبرس نے اس نظام کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

1250ء میں ایوبی سلطنت کے خاتمے کے بعد مملوکوں نے مصر میں اقتدار سنبھالا۔ اسی زمانے میں صلیبی جنگیں اپنے عروج پر تھیں اور بیبرس نے قاہرہ اور دمشق کے درمیان ہونے والی معرکہ المنصورہ میں شاندار بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرانسیسی بادشاہ لوئی نہم کو قید کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب فرانسیسی فوج دجلہ کے کنارے آئی، بیبرس نے ایسی چالاکی سے حملہ کیا کہ دشمنوں کے قدم اکھڑ گئے۔ فرانسیسیوں کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ان کا بادشاہ گرفتار کر کے قاہرہ لے جایا گیا، اور بیبرس کا نام پورے عالم اسلام میں گونجنے لگا۔

مگر تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج تب آیا جب منگولوں نے بغداد پر حملہ کر کے عباسی خلافت کو تہس نہس کر دیا۔ 1258ء میں ہلاکو خان کی قیادت میں منگول افواج نے علم، تہذیب اور روحانیت کے مرکز بغداد کو خاکستر کر دیا۔ لاکھوں مسلمان قتل کیے گئے، دریائے دجلہ کا پانی سیاہ ہو گیا کیونکہ اتنی کتابیں دریا میں پھینکی گئیں کہ سیاہی نے پانی کو سیاہ کر دیا۔ اس سانحے نے پورے عالم اسلام کو لرزا دیا اور اب منگولوں کا اگلا نشانہ مصر اور شام تھے۔

ایسے کٹھن وقت میں مصر کے سلطان قطز نے بیبرس کو فوج کا سپہ سالار بنایا۔ 1260ء میں فلسطین کے مقام پر مشہور معرکہ عین جالوت برپا ہوا۔ بیبرس نے اپنی عسکری مہارت سے دشمن کو دھوکہ دیا، جھوٹا پسپا ہونے کا ناٹک کیا اور پھر اچانک حملہ کر کے منگولوں کو بری طرح شکست دی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر عین جالوت میں مسلمان شکست کھا جاتے تو اسلام کا وجود مشرق وسطیٰ میں ختم ہو جاتا۔
کتبغا، منگولوں کا عظیم سالار، اسی جنگ میں مارا گیا۔ مسلمانوں کی یہ فتح صرف ایک جنگ کی جیت نہیں تھی بلکہ ایک تہذیب کی بقا تھی۔

معرکہ عین جالوت کے بعد بیبرس نے قطز کے قتل میں مبینہ طور پر حصہ لیا یا کم از کم اس کا فائدہ اٹھایا اور خود تخت پر قابض ہو گیا۔ 1260ء میں سلطان الظاہر بیبرس کے لقب سے مصر اور شام کا حکمران بن گیا۔ بیبرس نے جس مضبوطی اور مہارت سے حکومت سنبھالی وہ اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ اس نے اندرونی خلفشار کو ختم کیا، مملوکوں کے مختلف گروہوں کو متحد کیا، اور عدل و انصاف کی بنیاد پر حکومت قائم کی۔

بیبرس نے اپنے دور حکومت میں عباسی خلافت کو علامتی طور پر دوبارہ زندہ کیا۔ بغداد کے ایک زندہ بچ جانے والے عباسی شہزادے کو قاہرہ لا کر خلیفہ مقرر کیا گیا اور بیعت لی گئی۔ اس سے بیبرس کو دینی اور اخلاقی جواز ملا، اور مملوک سلطنت اسلامی دنیا میں خلافت کا نیا مرکز بن گئی۔

سلطان بیبرس نے صلیبیوں کے خلاف مسلسل جہاد جاری رکھا۔ اس نے ایک ایک کر کے شام میں صلیبی قلعوں کو فتح کیا۔ قیساریہ، حیفا، ارسوف، یافا، صفد اور سب سے بڑھ کر انطاکیہ جیسے مضبوط قلعے بیبرس کے ہاتھوں میں آ گئے۔ انطاکیہ، جو کہ صلیبیوں کا ایک اہم مرکز تھا اور جس پر 170 سال سے صلیبیوں کا قبضہ تھا، بیبرس نے 1268ء میں فتح کیا۔ یہ ایک عظیم کامیابی تھی اور صلیبی دنیا میں کہرام مچ گیا۔
انطاکیہ کی فتح کے بعد بیبرس نے شہر کے قلعے تباہ کیے، صلیبی حکام کو قتل یا قید کر دیا، اور شہر کو مسلمانوں کے لیے کھول دیا۔ اس کی پالیسی یہ تھی کہ دشمن کی عسکری طاقت کو مکمل طور پر نیست و نابود کیا جائے تاکہ دوبارہ سر اٹھانے کی جرات نہ ہو۔

بیبرس صرف میدانِ جنگ کا ہیرو نہ تھا بلکہ ایک مدبر حکمران بھی تھا۔ اس نے مصر میں زراعت کی ترقی کے لیے نہریں کھدوائیں، تجارتی راستوں کو محفوظ بنایا، مدارس اور مساجد کی تعمیر کی، علماء کی سرپرستی کی اور فقہی علوم کو فروغ دیا۔
قاہرہ میں اس نے جامعہ الظاہریہ قائم کی جہاں ہزاروں طلبہ تعلیم حاصل کرتے۔ عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ عوام سلطان کی عدالت میں بلاخوف اپنے مسائل پیش کرتے۔
بیبرس نے عوام کے لیے ایک دن مخصوص کر رکھا تھا جب وہ خود مظلوموں کی شکایات سنتا تھا۔ مؤرخ ابن ایاس لکھتے ہیں کہ بیبرس رات کو بھیس بدل کر بازاروں میں نکلتا اور عوام کے حالات کا خود مشاہدہ کرتا۔

بیبرس کی سفارت کاری بھی کمال کی تھی۔ اس نے بازنطینی سلطنت کے ساتھ صلح کی تاکہ مغربی محاذ محفوظ رہے۔ آرمینیوں کو منگولوں سے الگ کرنے کے لیے حکمت عملی سے کام لیا۔ یہاں تک کہ منگولوں کے اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھا کر شام کو مکمل طور پر آزاد کرا لیا۔

بیبرس کی شخصیت میں جنگجو سپہ سالار، مدبر سیاستدان، منصف حکمران اور پرہیزگار مسلمان کی خوبیاں یکجا تھیں۔ وہ خود سادہ لباس پہنتا، عام کھانے کھاتا، اور نماز کا سختی سے پابند تھا۔ اس کی ذاتی زندگی میں بھی تواضع اور انکساری نمایاں تھی۔

1277ء میں دمشق میں اچانک بیمار ہو کر وفات پا گئے۔ کچھ مؤرخین کے مطابق انہیں زہر دے کر قتل کیا گیا، مگر اکثر مؤرخین بیماری کو وجہ قرار دیتے ہیں۔ بیبرس کی وفات پر پورے عالم اسلام میں کہرام مچ گیا۔ وہ ایک ایسا محافظ تھا جس نے اسلام کو منگولوں کے طوفان سے بچایا، صلیبیوں کو نیست و نابود کیا اور امت کو سربلندی کا راستہ دکھایا۔

سلطان بیبرس کا مقبرہ دمشق میں واقع ہے اور آج بھی لاکھوں مسلمان اس عظیم فاتح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر حوصلہ، غیرت اور ایمان ہو تو غلامی کی زنجیریں بھی عظمت کی زینہ بن سکتی ہیں۔

بیبرس نے جس سلطنت کی بنیاد رکھی تھی، اس کی مضبوطی کا راز صرف عسکری فتوحات میں نہیں تھا بلکہ انتظامی اصلاحات میں بھی پنہاں تھا۔ اس نے مملوک سلطنت کے ڈھانچے کو از سر نو منظم کیا۔ تمام فوجیوں کا باقاعدہ اندراج کرایا گیا، ہر فوجی کو ایک خاص زمین الاٹ کی گئی جس کی پیداوار اس کی تنخواہ کا ذریعہ بنتی۔ اس نظام کو "اقطاع" کہا جاتا تھا۔ اس سے نہ صرف فوج کی مالی حالت مضبوط ہوئی بلکہ ہر سپاہی اپنے علاقے میں نظم و نسق کا ذمہ دار بھی بن گیا، اور سلطنت کی جڑیں نچلی سطح تک مضبوط ہو گئیں۔

بیبرس نے خفیہ اطلاعات کے نظام کو بھی بڑی مہارت سے ترتیب دیا۔ جاسوسوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کیا جو سلطنت کے ہر کونے سے حالات کی رپورٹیں فراہم کرتا تھا۔ یہ نیٹ ورک نہ صرف داخلی امن و امان کے لیے مؤثر تھا بلکہ صلیبی ریاستوں اور منگول افواج کی سرگرمیوں پر بھی گہری نظر رکھتا تھا۔
بیبرس کو علم تھا کہ دشمن کی تیاریوں اور سازشوں کا قبل از وقت علم ہونا ہی فتح کی ضمانت ہے۔
مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ بیبرس کو معمولی معمولی بغاوتوں کی بھی بروقت خبر مل جاتی تھی اور وہ فوری کارروائی کر کے خطرات کا قلع قمع کر دیتا تھا۔

دینی لحاظ سے بیبرس ایک گہرے شعور رکھنے والا سلطان تھا۔ اس نے نہ صرف قاہرہ میں عباسی خلافت کو دوبارہ زندہ کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں خلافت کی علامتی حیثیت کو محفوظ رکھنے کے لیے کام کیا۔ وہ علمائے کرام کی دل کھول کر سرپرستی کرتا تھا۔ فقہ، حدیث اور تفسیر کے مدارس اس کے دور میں پھلے پھولے۔
جامعہ الظاہریہ اور دوسری کئی بڑی تعلیمی ادارے اس کی دین دوستی کا واضح ثبوت ہیں۔
بیبرس نے قاہرہ میں ایک عظیم کتب خانہ بھی قائم کیا جس میں ہزاروں نادر کتب جمع کی گئیں، اور طلبہ و علماء کو تحقیق و تعلیم کے لیے آزاد ماحول فراہم کیا گیا۔

میدان جنگ میں بیبرس نہایت سخت دل اور بے رحم تھا، مگر عام عوام کے ساتھ اس کا برتاؤ مشفقانہ تھا۔ وہ روزانہ عدالت لگاتا اور ذاتی طور پر عوام کے مقدمات سنتا۔ مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی معمولی آدمی بھی سلطان سے انصاف مانگتا تو بیبرس فوراً اس کی فریاد پر کان دھرتا۔ ایک مرتبہ ایک بیوہ عورت نے کسی امیر کی شکایت کی تو بیبرس نے خود تحقیقات کروا کر امیر کو سزا دی اور عورت کو انصاف دلایا۔
یہ انصاف پسندی اس کے عہد میں اتنی مشہور ہو گئی کہ لوگ دور دور سے اپنے معاملات کے تصفیے کے لیے قاہرہ آتے تھے۔

بیبرس کی خارجہ پالیسی بھی کمال کی تھی۔ اس نے نہ صرف صلیبیوں اور منگولوں کا مقابلہ کیا بلکہ بازنطینی سلطنت، آرمینیا، اور دیگر ہمسایہ ریاستوں سے بھی معاہدے اور سفارتی تعلقات استوار کیے۔ اس نے اپنی سفارت کاری کے ذریعے کئی جنگوں کو ٹال دیا اور دشمنوں کو ایک دوسرے سے لڑوا کر مسلمانوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔
وہ جانتا تھا کہ صرف تلوار سے نہیں، بلکہ حکمت عملی سے بھی دشمن کو شکست دی جا سکتی ہے۔

سلطان بیبرس کی ایک اور نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ خود کو عوام سے الگ نہیں رکھتا تھا۔ وہ قاہرہ کی گلیوں میں عام کپڑے پہن کر نکلتا، بازاروں کا دورہ کرتا، تاجروں سے قیمتوں کے بارے میں پوچھتا، اور ظالم اہلکاروں کے خلاف فوری ایکشن لیتا۔
مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ کئی بار اس نے بددیانت حکام کو بازار میں سرعام کوڑے مارنے کا حکم دیا تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔
بیبرس کے دور میں تجارت خوب پھلی پھولی۔ مصر، شام اور حجاز کے درمیان قافلوں کی آمدورفت میں اضافہ ہوا۔ قاہرہ اس زمانے میں دنیا کی بڑی تجارتی منڈیوں میں شامل ہو گیا۔

بیبرس نے مسجد اقصیٰ اور حرمین شریفین کی خدمت بھی کی۔ اس نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے لیے سڑکوں کی تعمیر کروائی، حاجیوں کے لیے قیام گاہیں بنوائیں، اور راستے میں ڈاکہ زنی کے خلاف خصوصی فوجیں تعینات کیں۔
اس کا دل اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے ہر وقت دھڑکتا تھا۔

بیبرس کے دور میں فنون لطیفہ، فن تعمیر اور سائنسی علوم کو بھی فروغ ملا۔ اس نے قاہرہ، دمشق اور حلب میں کئی شاندار عمارتیں تعمیر کروائیں جن میں مساجد، مدرسے، قلعے اور کارواں سرائے شامل تھے۔ دمشق کا قلعہ الظاہریہ اور قاہرہ کا قلعہ آج بھی اس کی عظمت کی نشانیاں ہیں۔

بیبرس کا عسکری نظام بے نظیر تھا۔ اس نے فوج کو مستقل تربیت اور مشق کی بنیاد پر تیار رکھا۔ نئی جنگی تکنیکیں متعارف کروائیں، اور ہر سپاہی کو گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی اور دست بدست قتال میں مہارت دلائی۔
میدان جنگ میں بیبرس ہمیشہ اگلی صفوں میں رہتا، اپنی جان کی پروا کیے بغیر دشمن پر جھپٹتا۔
اسی جذبے نے اس کے سپاہیوں میں بے پناہ جوش اور وفاداری پیدا کر دی تھی۔

1277ء میں سلطان الظاہر بیبرس کی زندگی کا سورج غروب ہوا۔ بعض روایات کے مطابق وہ دمشق میں شکار کے دوران بیمار پڑا اور چند دنوں میں انتقال کر گیا۔ کچھ مورخین کہتے ہیں کہ دشمنوں نے سازش کر کے اسے زہر دیا تھا، مگر قطعی شواہد نہیں ملتے۔
اس کی وفات پر دمشق، قاہرہ، اور پورے عالم اسلام میں صف ماتم بچھ گئی۔ علماء، شعراء، اور مؤرخین نے اس کی بہادری، تدبر اور انصاف پسندی پر مرثیے اور قصیدے لکھے۔
ابن خلدون جیسے عظیم مفکرین نے بھی بیبرس کے دور کو ایک سنہری دور قرار دیا ہے۔

بیبرس کے بعد اس کے بیٹے سلطان السعید برسر اقتدار آیا، مگر باپ جیسی صلاحیتوں سے محروم تھا۔ رفتہ رفتہ مملوک سلطنت میں زوال شروع ہو گیا، مگر بیبرس کے قائم کردہ ادارے اور نظام اتنے مضبوط تھے کہ کئی دہائیوں تک سلطنت کو سہارا دیتے رہے۔

آج جب ہم سلطان بیبرس کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اس نے نہ صرف اپنے زمانے کی سب سے بڑی عالمی طاقتوں کو شکست دی، بلکہ اسلامی تہذیب کو بچایا، عدل و انصاف کا بول بالا کیا، علم و فن کو فروغ دیا، اور اپنی جان، مال اور وقت کو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے وقف کر دیا۔
بیبرس کی داستان غلامی سے عظمت کی معراج تک کی وہ داستان ہے جس میں ہر مسلمان کے لیے ہمت، غیرت، صبر اور عزم کا بے مثال سبق پوشیدہ ہے۔
اگر آج بھی امت مسلمہ بیبرس جیسے سرفروشوں کی سیرت سے سبق حاصل کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اسلام کو زیر نہیں کر سکتی۔

عجیب و غریب تاریخ

“کوا، بدصورت سہی… مگر غیرت مند ضرور ہے!”اگرچہ کوّا بدصورت پرندوں میں شمار ہوتا ہے،لیکن یہ پرندہ انسانوں کے لیے ایک خاموش...
26/07/2025

“کوا، بدصورت سہی… مگر غیرت مند ضرور ہے!”

اگرچہ کوّا بدصورت پرندوں میں شمار ہوتا ہے،
لیکن یہ پرندہ انسانوں کے لیے ایک خاموش نصیحت ہے۔
ظلم کے خلاف کھڑے ہونا، اپنے ساتھی کے لیے آواز بلند کرنا — یہ اس سے سیکھو۔

بس کسی مردہ کوے کا ایک پَر ہوا میں بلند کرو…
پھر دیکھنا کیسے لمحوں میں درختوں پر کوؤں کا ہجوم اُمڈ آتا ہے،
جیسے ماتم میں لپٹی ایک کالی چادر ہر شاخ پر بچھ جائے۔

کوّا، اپنے مرے ہوئے ساتھی کے ایک پَر کی توہین بھی برداشت نہیں کرتا…
اور ہم؟
ہم تو انسان ہو کر،
بےجان لاشوں کے اوپر سے گزر جاتے ہیں —
بےحسی کے سنگ مرمر پہ، خاموشی کی چال چلتے ہوئے۔

کویٹہ: (اسٹاپ رپورٹر) کلی سید لاجور سیدان گلستان میں کچھ مہینے قبل پیش آئے ناخوشگوار واقعے کی آج خوش آئند اختتام پذیر ہو...
25/07/2025

کویٹہ: (اسٹاپ رپورٹر) کلی سید لاجور سیدان گلستان میں کچھ مہینے قبل پیش آئے ناخوشگوار واقعے کی آج خوش آئند اختتام پذیر ہوا جس میں حاجی اللّٰہ محمد اور حاجی سید روح اللّٰہ آغا کے خاندانوں کے درمیان اللّٰہ کے فضل وکرم سے جرگہ ثالثین ڈپٹی چیئرمین قلعہ عبداللہ اکبر خان کاکڑ ،سید عبدالقاہر آغا، مولوی اعصام الدین اغا ، مولوی عبداللّٰہ آغا اور لاجور سیدان کی کمیٹی کی مخلصانہ کوششوں سے حل ہوگیا ہے دونوں خاندان آپس میں شروشکر ہوگئے ۔

ڈیگاری کی مقتول  خاتون بانو بی بی  والدہ نے جرگے کا فیصلہ درست قرار دے دیا،کہا فیصلےمیں سردارشیربازساتکزئی کا کوئی قصورن...
23/07/2025

ڈیگاری کی مقتول خاتون بانو بی بی والدہ نے جرگے کا فیصلہ درست قرار دے دیا،کہا فیصلےمیں سردارشیربازساتکزئی کا کوئی قصورنہیں، سردار شیرباز اور دیگرکو رہا کیا جائے

21/07/2025
21/07/2025

’’لڑکی اور لڑکا آپس میں میاں بیوی نہیں تھے ، خاتون کے 5 بچے بھی ہیں‘‘
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کے بلوچستان میں جوڑے کے قتل کیس میں تہلکہ خیز انکشافات
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ سنجیدی ڈیگاری میں قتل ہونے والی خاتون اور مرد کے درمیان کوئی ازدواجی تعلق نہیں تھا۔

کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا عوام کو حقائق کے بارے میں پتہ ہونا چاہیے، سوشل میڈیا پر کہا جاتا رہا کہ نوبیاہتا جوڑا تھا لیکن ایسا نہیں تھا، مقتولین کے درمیان کوئی ازدواجی رشتہ نہیں تھا، خاتون پانچ بچوں کی ماں تھی، قتل ہونے والے مرد کے بھی 4، 5 بچے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے سے پہلے ہی معاملے کا نوٹس لیا اور آئی جی کو ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا، کیس میں اب تک 11 افراد ہو چکے ہیں، مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار ے جا رہے ہیں، جو بھی کیس میں ملوث ہوگا اس کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے روز سے کہہ رہا ہوں کہ ریاست ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ رہی ہے، اس کیس میں بھی ریاست مظلوموں کے ساتھ ہے، ڈی ایس پی کو معطل کردیا ہے کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ معاملے سے حکومت کو آگاہ کرتا، میں اس کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پرلے رہاہوں۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا اس طرح کے بہت سے جرگے ہوتے ہیں، انہیں روکا بھی گیا ہے، ہم جرگوں کو پروموٹ نہیں کریں گے، ہمیں آئین کے مطابق چلناہے۔

پاکستانی وزیر داخلہ محسن ‎نقوی نے آج ‎کابل میں ‎افغان وزیر داخلہ سراج الدین ‎حقانی کے ساتھ کابل میں ملاقات کی جس میں افغ...
20/07/2025

پاکستانی وزیر داخلہ محسن ‎نقوی نے آج ‎کابل میں ‎افغان وزیر داخلہ سراج الدین ‎حقانی کے ساتھ کابل میں ملاقات کی جس میں افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی بھی شامل تھا۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے ملک کے مختلف حصوں بلخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تشدد کی کاروائیوں کو روکنے میں مدد کی درخواست کی ہے۔

20/07/2025

قلعہ عبداللہ
خطرناک جھگڑا دو قبائل کے درمیان جنگ ، ایک گھنٹے سے جاری ہے قبائل اور حکومت کردار ادا کریں تفصیلات کے مطابق قلعہ عبداللہ توت اڈے میں کاکوزئی اور بدوان قبائل کے درمیان جھگڑا درجنوں افراد زخمی و ہلاک ہوئے ہیں
قبائل اور حکومت جنگ بندی میں کردار ادا کریں شہریوں کی اپیل ذرائع کے مطابق توت اڈا پر خانی بدوان اور عرمبئ کاکوزئ کا درمیان لڑائی میں متعدد افراد زخمی و جان بحق ہوئے ہیں

خاتون کا آخری جملہ : سم ائنا اجازت نمے"صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے"لڑکی کے اس دلیرانہ جملے نے وہاں کھڑے تمام مردوں کو ...
20/07/2025

خاتون کا آخری جملہ : سم ائنا اجازت نمے
"صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے"

لڑکی کے اس دلیرانہ جملے نے وہاں کھڑے تمام مردوں کو مار دیا تھا۔

لڑکی کے ہاتھ میں قُرآنِ مجید موجود تھا ، وہ لے لیا ۔ لیکن کاش  وہ اس کتاب کو کھول کر پڑھ بھی لیتےجہاں سورۃُ النِّساء میں...
20/07/2025

لڑکی کے ہاتھ میں قُرآنِ مجید موجود تھا ، وہ لے لیا ۔ لیکن کاش وہ اس کتاب کو کھول کر پڑھ بھی لیتے
جہاں سورۃُ النِّساء میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔۔۔۔

"فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ"

ترجمہ:
"پس تم اُن (عورتوں) کو نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہو جائیں۔"

Address

Karachi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Agha News Network posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Agha News Network:

Share