
21/08/2022
کیا ہمیں دن میں تین بار کھانا کھانا چاہیے؟
ممکن ہے کہ آپ دن میں تین بار کھانا کھاتے ہوں۔ جدید دور میں ایسے ہی کھانا کھایا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ کھانوں میں سب سے اہم ناشتہ ہے۔ کام پر بھی کھانے کا وقفہ ہوتا ہے اور ہماری سماجی اور گھریلو زندگی بھی کھانوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ لیکن کیا یہ تین کھانوں والا نظام ہمارے لیے صحت مند ہے بھی یا نہیں؟
یہ سوچنے سے پہلے کہ ہمیں دن میں کتنی بار کھانا کھانا چاہیے، سائنسدان ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں کب نہیں کھانا چاہیے۔
اس وقت انٹرمٹنٹ فاسٹنگ، یعنی کسی ایک دن میں آٹھ گھنٹے تک کچھ نہ کھانا، کے بارے میں بہت تحقیق ہو رہی ہے۔
کیلیفورنیا کے سالک انسٹیٹیوٹ فار بایولاجیکل سٹڈیز سے منسلک ایملی منوگن 'کب کھانا چاہیے' پر ایک تحقیقی پیپر لکھ چکی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ‘جسم کو دن میں 12 گھنٹے تک خوراک کا وقفہ دینے سے ہمارے نظام انہضام کو بھی آرام کا موقع ملتا ہے۔‘
یونیورسٹی آف وسکانسن کے سکول آف میڈیسن اینڈ پبلک ہیلتھ سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر روزلین اینڈرسن نے انسانی جسم کو یومیہ مطلوب کیلوریز کے بارے تحقیق کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ روزانہ کھانے میں ایک بڑے وقفے کے فوائد ہیں۔ ‘کھانے میں لمبے وقفے سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ ایسے پروٹینز یا لحمیات کو ٹھیک کر سکے جو کسی وجہ سے کھل نہیں سکے ہیں۔ ایسے لحمیات کا کئی قسم کی بیماری سے تعلق جوڑا جاتا ہے۔‘
پروفیسر روزلین اینڈرسن کہتی ہیں کہ ہمارے جسموں کا ارتقا انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کی طرز پر ہوا ہے۔ ‘اس سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ جسم میں توانائی کو جمع کرے اور اسے وہاں استعمال کرے جہاں اس کی ضرورت ہے اور وہ ہمارے جسموں میں جمع توانائی کو خارج کرنے کے نظام کو بھی متحرک کرے۔‘
سپورٹس سائنس کے پروفیسر انتونیو پاولی کے مطابق کھانے کے دوران لمبے وقفے جسم میں گلسرین کے استعمال میں بہتری لاتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد جسم میں گلوکوز لیول میں کم اضافے کی وجہ سے جسم کم توانائی کو جمع کر پاتا ہے
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں صرف ایک کھانا صحت کے لیے مفید ہے
لیکن ایملی منوگن دن میں صرف ایک کھانے کا مشورہ نہیں دیتی ہیں۔
وہ سمجھتی ہیں کہ جب ہم کچھ نہیں کھاتے تو ہمارے خون میں فاسٹنگ گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اگر ایک عرصے تک ایسا ہی ہوتا رہے تو اس سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
منوگن کہتی ہیں کہ خون میں فاسٹنگ گلوکوز کی مقدار کو کم سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں ایک سے زیادہ بار کھانا کھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسم کو یہ پیغام نہ جائے کہ وہ فاقہ کر رہا ہے جس کے ردعمل میں وہ فاسٹنگ گلوکوز بنانا شروع کر دے۔
منوگن کہتی ہیں کہ دن میں دو سے تین بار کھانا کھانا اچھا عمل ہے۔
‘اگر دن کے ابتدائی حصے میں کیلوریز کی ایک بڑی مقدار کو کھا لیا جائے تو یہ صحت کے مفید ہے۔ رات دیر سے کھانا کھانے کو دل کے عارضے، نظام ہضم اور ذیابیطس کی بیماریوں سے جوڑا جاتا ہے۔‘
اگر آپ اپنا زیادہ کھانا دن کے ابتدائی حصے میں کھاتے ہیں تو جسم تمام توانائی کو استعمال کر سکتا ہے اور اسے چربی کے طور جسم میں جمع نہیں کرے گا
سکتی ہیں
لہٰذا، سائنس یہ کہتی ہے کہ دن بھر کھانے کا سب سے صحت بخش طریقہ یہ ہے کہ دو یا تین کھانے، رات بھر طویل روزہ رکھنے کے ساتھ، دن میں بہت جلدی یا بہت دیر سے کھانا نہ کھایا جائے، اور زیادہ کیلوریز کو دن کے پہلے حصے میں کھا لیا جائے، یہی صحت کے لیے مفید ہے۔
ایملی منوگن کا کہنا ہے کہ کھانے کے بہترین اوقات کو مقرر نہ کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ یہ ایسے لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتے جو بے قاعدہ وقت میں کام کرتے ہیں، جیسے کہ رات کی شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔
منوگن کہتی ہیں کہ لوگوں کو یہ بتانا کہ وہ شام سات بجے کے بعد کھانا نہ کھائیں ایسے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے جو مختلف اوقات میں کام کرتے ہیں۔
اگر آپ اپنے جسم کو باقاعدگی سے رات کو فاقہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو کوشش کریں کہ زیادہ دیر یا جلدی نہ کھائیں اور آخری کھانے میں کم کھانے کی کوشش کریں۔
‘آپ اپنے پہلے کھانے میں تھوڑی تاخیر اور آخری کھانے کو آگے بڑھانے سے ڈرامائی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ کسی اور چیز کو تبدیل کیے بغیر اسے باقاعدہ بنانے سے بڑا اثر ہو سکتا ہے۔‘
محققین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ آپ جو بھی تبدیلیاں کرتے ہیں وہ مستقل بنیادوں پر ہونی چاہیں اور تسلسل عمل بہت ضروری ہے۔