Marui

Marui Marui History Positive things and facts based on truth

بنگلاديش ۔شيخ مجيب تي ٺهندڙ فلم ۾ شيخ حسينه واجد جو ڪردار ادا ڪندڙ اداڪاره نصرت گرفتار
19/05/2025

بنگلاديش ۔شيخ مجيب تي ٺهندڙ فلم ۾ شيخ حسينه واجد جو ڪردار ادا ڪندڙ اداڪاره نصرت گرفتار

سندھ کی نئی نسل ، شہری و دیہی افراد سے اگر پوچھا جائے کہ دریائے سندھ کہاں سے شروع ہوتا ہے ، دس میں سے آٹھ افراد کہتے ہیں...
22/10/2024

سندھ کی نئی نسل ، شہری و دیہی افراد سے اگر پوچھا جائے کہ دریائے سندھ کہاں سے شروع ہوتا ہے ، دس میں سے آٹھ افراد کہتے ہیں سکھر سے شروع ہوتا ہے ، اس لئے آج سوچا آپ کو دریائے سندھ کے بارے میں کچھ تفصیل سے بتایا جائے ۔

دریائے سندھ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا دریا جو دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے ۔ اس کی لمبائی 2000 ہزار میل یا 3200 کلو میٹر ہے۔

چین کے علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک ذیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے ۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل "مانسرور" ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا اور بھی نکلتے ہیں۔

ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔

گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔

برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔

اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔

ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی ۔ حتی کہ 1811 عیسوی میں "ولیم مور کرافٹ" نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرور نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے "سیون ہیڈن" 1907ء میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر "سنگی کباب" یا "سینگے کباب" کے علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں بہنے والی ندی "گارتنگ" یا "گارتانگ" ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لیے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا۔ اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے۔

گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں ۔ وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔

دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر اسکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے ۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا ملتا ہے۔

اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس اٹک کے مقام پر دریائے کابل اس میں آ ملتا ہے ۔ دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔

کالا باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے ۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم ، چناب ، راوی ، ستلج ، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں۔

گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں تک آتا ہے۔ حیدرآباد کے پہلو سے گذر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گذر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔

اس دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان کا نام انڈیا پکارا گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔ اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی۔ رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں۔ یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے۔ اس دریا کے کنارے دنیا کی ایک قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس دریا کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوسکتے تھے۔ یہ دریا اپنی تند خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی اسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔
یوں یہ دریا چین کے تبت اور لداخ سے ہوتا ہوا ہندستان سے گھومتا ہوا بلتستان کے علاقوں گلگت ، اسکردو ، استور نانگا پربت کے پہاڑی سلسلوں سے اپنا راستہ بناتا خیبرپختونخواہ میں داخل ہوتا ہے

دریا پارسی زبان کا لفظ ہے جس کو سنسکرت میں ندی ، عربی میں نہر ، ترکی میں نیلاب اور انگریزی میں river کہتے ہیں۔

سنسکرت میں سندھو کا مطلب ہے سمندر یا بڑا دریا۔ سنسکرت ڈکشنری کے مطابق سندھو کا بنیادی لفظ سنید Syand ہے جس کا مطلب بہنا ہے۔ یعنی سندھو کا مطلب ہوا "ایسی ندی جو ہمیشہ بہتی رہے یا پھر بہتی ہوئی ندی۔ پروفیسر میکس میولر کے نزدیک سندھو کا لفظ سُدھ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بچاؤ کرنا۔ دریائے سندھ جن علاقوں سے بہتا ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کا بچاؤ کرتا ہے۔ غیروں کے حملے سے اور جنگلی سوروں سے۔

سندھو لفظ کے مختلف لہجے۔
رگ وید کے زمانے 1500 ق م میں سندھو کو سندھو ہی کہا جاتا تھا۔ ایرانی دور 518 ق م میں ایران کے دارا نے سندھ پر قبضہ کیا تو انہوں نے سندھ کو ہندو کہنا شروع کردیا۔ کیونکہ ان کی زبان میں "س" کا حرف نہیں تھا۔ اور انہوں نے س کی جگہ ہ استعمال کرنا شروع کیا۔ اور اس طرح سندھو سے ہندو ہوگیا۔ یونانی دور 326 ق م میں یونانیوں نے سندھ کو ہند کہا اور اس کا لہجہ "انڈ" کردیا۔ اور ندی کو انڈوس indos اور ملک کا نام انڈیکا Indica رکھا۔ لاطینی زبان بولنے والوں نے انڈوس کو "انڈس Indus" اور سندھ کو ہند اور پورے خطے کو انڈیکا سے انڈیا بنایا۔ چینی سیاح یوان نے 641 عیسوی کو سندھو کو "سن تو" (سنتو) لکھا ہے۔ غرض دریائے سندھ مختلف لہجوں میں کچھ یوں ہے۔ (سندھو ۔ سنسکرت ) ( ہندو ۔ ایرانی ) ( انڈوس ۔ یونانی ) ( انڈس لاطینی ) ( سن ۔ تو چینی )

سندھ کے صفاتی نام
سنسکرت میں ہی سندھو کو بچانے والا یا روزی دینے والا کہا گیا ہے۔ تبت والوں نے اسے شیر کے منہ سے نکلنے والا دریا یعنی شیر دریا کہا۔ قراقرم کے بیچ والے حصے میں اسے دریا کہا گیا ہے۔ قراقرم سے نیچے تربیلا تک اسے ابا سین کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے سب کا باپ یا دریاؤں کا باپ۔

سندھی زبان میں دریا کیلئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ اسی طرح سنسکرت ایک قدیم زبان ہے جس کا مطلب ہے "تراشی ہوئی"۔ تو یہ کہاں سے تراشی ہوئی ہے۔ غالب امکان ہے کہ یہ موئن جو ڈارو کی زبان سے تراشی گئی ہوگی۔ جس کو اگر سندھی کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔ لفظ سندھو کے دریا ہونے کا ایک ثبوت اس طرح سے ہے کہ آریہ قوم نے شمالی سندھ کو سپت سندھو کہا۔ سپت کا مطلب سات اور سندھو کا مطلب دریا۔ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین۔

اس مضمون کی تیاری کیلئے وکیپڈیا
اور کتاب شیر دریا ۔۔۔۔۔۔ جین فیرلیی
شیر دریا ۔۔۔۔۔ Raza Ali Abidi
رضا علی عابدی کی کتاب کا سندھی ترجمہ Gul Hassan Kalmatti نے کیا ہے ۔
گزر گاہیں ۔۔۔ پروفیسر شیر خان سیلرو
سے مدد لی گئی ہے۔

نثاریات
Copied

سنڌ سميت سڄو ملڪ ھينئن ٿو گھرجي .انڊيا جي رياست ڪيرالا جي ھنن مسلمان زال مڙسن  خديجه ۽ عبدالله ڏھن سالن جي ھڪ لاوارث ھند...
21/10/2024

سنڌ سميت سڄو ملڪ ھينئن ٿو گھرجي .

انڊيا جي رياست ڪيرالا جي ھنن مسلمان زال مڙسن خديجه ۽ عبدالله ڏھن سالن جي ھڪ لاوارث ھندو نياڻيء کي گود ورتو ۽ ٻاويھ سالن ۾ ھندو ريتن رسمن سان ھڪ ھندو ڇوڪري سان شادي ڪرائي ،
ڪيتري نه خوبصورت ڳالھ آھي جو ڏھن کان ٻاويھ سالن جي عمر تائين ھنن کيس پنھنجي ڌيء وانگر پيار ڏيندي ۽ پڙھائيندي ڪڏھن بہ کيس مسلمان ٿيڻ ۽ پنھنجي مذھب کي اعلي ٻڌائڻ جي تبليغ نه ڪئي ۽ نه وري ڪنھن مسلمان ڇوڪري سان شادي ڪرڻ لاء زور ڀريو .
Majeed Mangi je wall tan.

اها عورت جيڪا ڪتاب خريد ڪري ۽ پڙهندي پنهنجي پئسي سان..... سماج ۾ عظيم انسانن کي جنم ڏيندي آهيCopy
04/10/2024

اها عورت جيڪا ڪتاب خريد ڪري ۽ پڙهندي پنهنجي پئسي سان..... سماج ۾ عظيم انسانن کي جنم ڏيندي آهي

Copy

18/09/2024

سائو پاڪستان جي نالي سنڌو درياء مان ڇھ ڪئنال ڪڍي سنڌ سڪائڻ وارو ناپاڪ منصوبو نامنظور

ٿر جي ڪوئيل فوزيا سومري سان گڏ ڇوڪرو  ڪير آھي ڪير سنڄاڻي ٿو 🤔🤔
17/09/2024

ٿر جي ڪوئيل فوزيا سومري سان گڏ ڇوڪرو ڪير آھي ڪير سنڄاڻي ٿو 🤔🤔

سنڌ ئي پاڪستان جي حقيقي تصوير آهي. ۽ اسان پنجابي 70 سالن کان سنڌ کي کائي رهيا آهيون،  پاڪستان کي ٺهڻ ۾ 70 سال گذري ويا آ...
16/09/2024

سنڌ ئي پاڪستان جي حقيقي تصوير آهي.
۽ اسان پنجابي 70 سالن کان سنڌ کي کائي رهيا آهيون،
پاڪستان کي ٺهڻ ۾ 70 سال گذري ويا آهن، جيڪڏهن سنڌ جي آمدنيءَ جو 10 سيڪڙو به سنڌ کي ڏنو وڃي ته سنڌ جي هر فرد کي هڪ ڪروڙ ستر لک رپيو ملن ها
پر سپريم ڪورٽ سوال ڪري رهي آهي ته سنڌ کي ڏنل 8 ارب رپيا ڪيڏانهن ويا؟
سنڌ جي 7 ڪروڙ آبادي ۾ 8 ارب ورهائجن ته 100 رپيا في ماڻهو ٿي ويندو. شڪر آهي ته سنڌي اسان پنجابين کان حساب نٿا گهرن،
ٻي صورت ۾ اسين پنجابي سنڌين جو قرض ستين پيڙهيءَ تائين نٿالاھي ا سگهون
نالي واري قانون دان بيرسٽر اعتزاز احسن















ڏهرڪي ضلعي گهوٽڪي واسي آرٽسٽ سيفي سومرو 2017 ۾ پنهنجون پينٽنگس (آڱرين جو پورهيو) نمائش لاءِ فريئر هال ڪراچي ۾ جمع ڪرايون...
15/09/2024

ڏهرڪي ضلعي گهوٽڪي واسي آرٽسٽ سيفي سومرو 2017 ۾ پنهنجون پينٽنگس (آڱرين جو پورهيو) نمائش لاءِ فريئر هال ڪراچي ۾ جمع ڪرايون هيون، بعد ۾ کيس واپس ڪرڻ بدران چيو ويو ته پينٽنگس گم ٿي ويون آهن، جيڪي شايد وڪرو ڪيون ويون هيون ۽ تازو ARY جي ,.kabhi main kabhi Tum هڪ ڊرامي ۾ نظر آيون آهن. آرٽسٽ آرٽ گيلريز ۽ ٻين مافيائي ٽولن پاران استحصال جو شڪار ٿين ٿا. جيڪڏھن آرٽسٽن جي تخليق کي ايئن ھر روز چوري ڪيو ويو تہ آرٽسٽ مايوسي جو شڪار ٿيندا. آخر ڪيستائين نوجوان آرٽسٽن جو استحصال ھلندو رھندو؟

Artist Seffy Soomro from Daharki, District Ghotki, displayed his artwork at an exhibition held at Frere Hall, Karachi In 2017, . However, when he later requested the return of his paintings, the management claimed they had been lost and could not be found. Fast forward to 2024, these very same paintings resurfaced in Episode 17 of Kabhi Main Kabhi Tum at the 42:45 mark, a show currently airing on ARY Digital.

This incident highlights the exploitation that young artists, particularly in Pakistan, continue to face. Their hard work is often misappropriated by established artists and monopolistic galleries. Emerging artists, especially those from Sindh and Balochistan, have endured similar experiences. Major production houses, university faculties, art galleries, and businesses routinely take advantage of these artists, offering excuses and false promises while using their work for personal and financial gain.

In some instances, artwork created by students and young artists is given away as gifts by influential authorities to bolster their personal and professional relationships. The creators themselves receive neither recognition nor financial compensation. Meanwhile, certain artists without real merit align themselves with corrupt systems and lobby groups, relying on sponsorships from international organizations, governments, and private businesses to promote their careers. As a result, truly deserving artists are often left out, disheartened and marginalized. Awards, funding, and opportunities are distributed within exclusive networks based on personal connections rather than merit, leaving many talented artists struggling financially and forcing them to abandon their creative passions for more technical fields out of sheer disappointment.

Seffy Soomro’s story exemplifies the plight of many first-generation young artists in Pakistan, who suffer under a system that fails to protect their creative and intellectual property. Who will hold these institutions, galleries, and channels accountable for exploiting young talent and using them for unpaid labor? This is a critical issue in a country where nearly 67% of the population consists of young people. If the systemic exploitation of youth isn't addressed and support isn't provided, progress will remain elusive. No country has ever thrived by undermining its young talent and stifling new ideas.

CP

پاڪستان جي وجود ۾ اچڻ کان اڳ به سنڌ جي سرڪاري اسڪولن ۾ سنڌي پڙھائي ويندي ھئي۔ھي 1938 ۾ سنڌي جو پھريون  #سنڌي ٻاراڻو ڪتاب...
14/09/2024

پاڪستان جي وجود ۾ اچڻ کان اڳ به سنڌ جي سرڪاري اسڪولن ۾ سنڌي پڙھائي ويندي ھئي۔ھي 1938 ۾ سنڌي جو پھريون #سنڌي ٻاراڻو ڪتاب۔ قيمت : 9 پايون ۔ مرحوم مير غلام نبي ٽالپر جي لائيبريري ۾

ایک طاقتور تصویر؛بنگلہ دیش کے ایک نوجوان نے ڈگری لینے کے بعد گریجویشن کا لباس اپنے ماں اور باپ کو پہنا کر اُس نے سائیکل ...
14/09/2024

ایک طاقتور تصویر؛

بنگلہ دیش کے ایک نوجوان نے ڈگری لینے کے بعد گریجویشن کا لباس اپنے ماں اور باپ کو پہنا کر اُس نے سائیکل رکشہ میں بٹھایا۔ جسے چلا کر اُس کے بوڑھے باپ نے اُس کے اخراجات اُٹھاۓ۔

ماں باپ کو اس انداز میں خراج تحسین پیش!

سنڌ جي قديم ۽ عظيم ثقافت جو اهڃاڻ ۽ اسان سنڌي قوم جو فخر ٽوپي اجرڪ پارائڻ وارو به اردو ڳالهائيندڙ آهي ۽ جن تحفا اهي وصول...
13/09/2024

سنڌ جي قديم ۽ عظيم ثقافت جو اهڃاڻ ۽ اسان سنڌي قوم جو فخر ٽوپي اجرڪ پارائڻ وارو به اردو ڳالهائيندڙ آهي ۽ جن تحفا اهي وصول ڪيا آهن اهي به اردو ڳالهائيندڙ آهن اها تمام خوشي جهڙي ڳالھ آهي. سنڌ جي موجوده ۽ ايندڙ حالتن کي نظر ۾ رکندي هاڻي هنن اردو ڳالهائيندڙ سنڌ جي ان مستقل آبادي کي به اها ڳالھ سمجهڻي پوندي ته اسان اصل ۽ حقيقي ڌرتي ڌڻين وانگر هنن جو به سندن موجوده ۽ ايندڙ نسلن سميت کائڻ پيئيڻ جيئڻ مرڻ دفن ٿيڻ سنڌ ۾ ئي آهي ان ڪري هنن کي سنڌو جي پيتل پاڻي ۽ ڌرتي جي کاڌل نمڪ سان نمڪ حلالي ۽ سنڌي قوم سان وفاداري جو ثبوت ڏيندي اهو مهاجر مهاجر جو بي سرو راڳ ڳائڻ ڇڏڻو پوندو. سنڌ کي عالمي يتيم خانو سمجهي بنا ڪنهن روڪ جي ايندڙ ڌاريا نه فقط اسان جي وجود ۽ بقاء لاء خطرو آهن پر انهي ڌاري جي آبادڪاري جي سمنڊ ۾ اسان سان گڏ هي به لڙهي ويندا. سنڌ ۾ ڪجھ مخصوص قومپرستي جي نالي تي "لسانيت" جي سياست ڪندڙ ڌرين کي به اهو سمجهڻو پوندو ته اسان جا دشمن هي اردو ڳالهائيندڙ نه پر اسان جي وسيلن جي مڪمل ڦرلٽ ڪندڙ ۽ سنڌ جي زمينن تي قبضا ڪري والار ڪندڙ اسان جي سنڌو تي ڌاڙو هڻندڙ پنجاب آهي انهي ڪري پنهنجي سياست جو رخ اصل سنڌ دشمن ۽ استحصالي قوتن ڏانهن ن سمورين غلط فهمين ۽ نفرتن کي ختم ڪندي اردو ڳالهائيندڙن کي محبت وچان سندن ڇاتي سان لڳائين جيئن متحد ٿي ڪري سنڌ دشمنن جو مقابلو ڪجي. جيڪڏهن فقير جي موقف سان متفق آهيو ته پنهنجي راء جو اظهار ڪيو ۽ توهان کي اختلاف رکڻ جو پڻ مڪمل حق آهي.🙏

شراب ماکي ٿيو وڃيچرس چاڪليٽ ٿيو وڃيباقي اسان واري دال کي مجال  آهي جو...هڪ ڀيرو به ڪڪڙ جي ٻوڙ ۾ تبديل ٿئي پئي🐓 😜😜😜😜
12/09/2024

شراب ماکي ٿيو وڃي
چرس چاڪليٽ ٿيو وڃي
باقي اسان واري دال کي مجال آهي جو...
هڪ ڀيرو به ڪڪڙ جي ٻوڙ ۾ تبديل ٿئي
پئي🐓 😜😜😜😜

Address

Karachi

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Marui posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share