25/08/2025
*اس رات اس نے اپنا دل کاغذ پر اتارا*
👇👇👇
ایلم ووڈ کے پرسکون گاؤں میں، جہاں خزاں کے پتے ہوا سے راز باتیں کرتے تھے، ایلیاس نامی ایک بوڑھا رہتا تھا۔ اس کی عمر 82 برس تھی، ہاتھ پرانے درخت کی چھال جیسے تھے، اور آنکھوں میں بھولی ہوئی خواہشات کا بوجھ تھا۔ وہ ہر صبح دریا کے کنارے لکڑی کے بنچ پر جاتا، اپنی مرحوم بیوی کلارا کی دھندلی تصویر تھامے۔ کلارا پانچ سال پہلے دنیا سے جا چکی تھی، اور اس نے ایک ایسی خلا چھوڑی جسے وقت نہ بھر سکا۔
ایلیاس اور کلارا نے مل کر زندگی بنائی۔ 1960 کی دہائی میں، وہ دنیا گھومنے کے خواب دیکھتے تھے، مگر غربت نے انہیں روکے رکھا۔ انہوں نے دو بچوں کی پرورش کی، ایلیاس بڑھئی تھا، کلارا درزی۔ ان کی محبت سادہ تھی: مشترکہ کھانے، شام کی سیر، اور خطوط۔ ہاں، خطوط! شادی سے پہلے انہوں نے سینکڑوں خط لکھے، ہر ایک ابدی وعدہ۔ بعد میں بھی، جب کام ایلیاس کو دور لے جاتا، وہ کلارا کے سلائی کے ٹوکری میں خط چھوڑتا۔
مگر زندگی، بےرحم اور سخت، نے ان کی خوشی چھین لی۔ ان کا بیٹا ایک فیکٹری حادثے میں جوان مر گیا۔ بیٹی دور چلی گئی، سال میں ایک بار ملنے آتی۔ کلارا کی صحت خراب ہوئی—پہلے کھانسی، پھر کمزوری، اور آخر کینسر نے اسے لے لیا۔ آخری دن، اس نے کہا، "ایک اور خط لکھو، کہ ہم دوبارہ ملیں گے۔"
ایلیاس نے لکھا۔ اس رات اس نے اپنا دل کاغذ پر اتارا: ناکام خوابوں کا افسوس، غصے کے لمحات کی معافی، اور ابدی محبت کے وعدے۔ اس نے خط بند کیا اور کلارا کے تابوت میں رکھا، یقین کہ یہ اسے آخرت میں ملے گا۔
اب، تنہا، ایلیاس روز دریا کنارے جاتا، تصویر کے کناروں کو چھوتا، جیسے وہ کلارا کے الفاظ ہوں۔ ایک صبح، طوفان آیا۔ بارش میں اسے سینے میں درد ہوا۔ بنچ پر گرتے ہوئے، اس نے کلارا کی مسکراہٹ سوچی۔ اس کی جیب میں ایک نیا، ادھورا خط تھا: "پیاری کلارا، کاش میں..."
گاؤں والوں نے شام کو اسے پایا، دریا آسمان کے آنسو بہا رہا تھا۔ اسے کلارا کے پاس دفنایا، مگر خطوط کا کسی کو پتا نہ چلا۔ آخر میں، ایلیاس کی کہانی ایلم ووڈ میں ایک اداس سرگوشی بن کر رہ گئی، وقت کے ساتھ کھو گئی، جیسے بہت سے ناکام وعدے۔