Knock - دستک

Knock - دستک As I Saw, As I think, As I experienced, As I Learned, & As I felt - I express.

**اسلام، پاکستانی فوج اور ایسٹ انڈیا کمپنی**اسلام کی تاریخ جب بھی پڑھی جائے تو ایک حقیقت بار بار سامنے آتی ہے کہ یہ دین ...
21/09/2025

**اسلام، پاکستانی فوج اور ایسٹ انڈیا کمپنی**

اسلام کی تاریخ جب بھی پڑھی جائے تو ایک حقیقت بار بار سامنے آتی ہے کہ یہ دین صرف دعوت و تبلیغ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی مضبوط عسکری طاقت اور جہاد کے نظام کی بدولت دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں پر غالب آیا۔ رسول اکرم ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں قصرِ قیصر و کسریٰ لرز اٹھے، ایران کی شہنشاہیت اور روم کی سلطنت اسلام کے سامنے جھک گئی۔ محض چند دہائیوں میں اسلام مشرق سے مغرب تک پھیل گیا اور یہ سب صرف عسکری طاقت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ فوجی طاقت ہی نے اسلام کی دعوت کے لیے امن و سکون کی فضا قائم کی، تعلیم، زبان اور ثقافت منتقل ہوئی، اور قوموں نے رضا کارانہ طور پر اسلام قبول کیا۔

تاریخ کا یہ سبق واضح ہے کہ کوئی بھی قوم اگر عسکری طاقت سے محروم ہو جائے تو خواہ کتنی ہی دولت مند کیوں نہ ہو، وہ دوسری طاقتور اقوام کی "ڈائننگ ٹیبل ڈِش" بن جاتی ہے۔ آج افریقہ کی حالت دیکھ لیجیے، جہاں بے پناہ معدنی وسائل اور قدرتی خزانے موجود ہیں، مگر عسکری اور سیکیورٹی ڈھانچے کی کمزوری نے اسے عالمی طاقتوں کے لیے میدانِ شکار بنا دیا۔ برصغیر کی تاریخ میں جب ہندوستان کو "سونے کی چڑیا" کہا جاتا تھا، تب بھی عسکری کمزوری نے ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے تاجروں کو حکومت کی لگام تھما دی۔ یہی مثالیں بتاتی ہیں کہ معیشت کے ساتھ ساتھ فوجی طاقت ہی کسی قوم کی اصل محافظ ہوتی ہے۔

اسلام کے دشمن اس حقیقت کو صدیوں سے سمجھتے آئے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر اسلامی نظام کو ختم کرنا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں کی عسکری طاقت کو زائل کیا جائے۔ چنانچہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں "سفید پرندہ" یعنی امن کے خواب تھما دیے گئے، یہ نعرہ دیا گیا کہ دولت اور ترقی بغیر جہاد اور مزاحمت کے بھی ممکن ہے۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت خلافتِ عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا۔ لارنس آف عریبیہ جیسے جاسوس، یورپی ایجنٹ عورتیں اور اندرونی غدار سرگرم ہوئے اور بالآخر وہ عظیم سلطنت جو چھ صدیوں تک اسلام کی سیاسی و عسکری ڈھال رہی، زمین بوس کر دی گئی۔

جب تک خلافت موجود تھی، مغرب بے بس تھا۔ برطانیہ، فرانس اور یورپ کے بادشاہ اسلامی طاقت کو سلام کرتے تھے۔ لیکن خلافت کے خاتمے کے بعد دشمن نے نیا سبق سیکھا: مسلمانوں کے ہاتھوں سے "دین" لے لو اور صرف "مذہب" تھما دو۔ دین ایک مکمل نظامِ حیات ہے جس میں سیاست، معیشت اور عسکری طاقت سب شامل ہیں، مگر مذہب کو محض چند عبادات تک محدود کر دیا جائے تاکہ امت اپنے اصل مقصد سے محروم ہو جائے۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ ہوا کہ مسلمانوں اور ان کی افواج کے درمیان ہمیشہ ایک دیوار کھڑی کی جائے تاکہ عوام اپنی فوج سے محبت نہ کر سکیں۔

اسی حکمتِ عملی کے نتیجے میں مسلم ممالک عروج پانے سے پہلے ہی زوال کا شکار ہونے لگے۔ لیکن یہ اللہ کا بڑا معجزہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک بار بار اپنی افواج کے ذریعے محفوظ رہا۔ 1947 میں کشمیر کی جنگ ہو یا 1965 کی بھارت کے ساتھ فیصلہ کن لڑائی، یا پھر 1971 کا سانحہ، پاکستان کی فوج ہر محاذ پر ڈٹی رہی۔ اگرچہ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت سازشوں نے نقصان پہنچایا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد میں بنگلہ دیش میں انہی کی فوج نے شیخ مجیب کو قتل کیا اور پھر حسینہ واجد نے ملک کو بھارتی گود میں ڈال دیا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ جہاں فوج کمزور ہو، وہاں ملک دشمن طاقتوں کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔

چونکہ پاکستانی فوج کسی جنگ میں ناکام نہ ہوئی، اس لیے دشمن نے پانچویں نسل کی جنگ (5th Generation Warfare) کا آغاز کیا۔ اس جنگ کا مقصد براہِ راست میدان میں شکست دینا نہیں بلکہ عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرنا ہے۔ نیا ورلڈ آرڈر اسی حکمتِ عملی پر کام کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر کیری لوگر بل، امریکی ڈرون حملے اور میڈیا مہمات سب اسی منصوبے کا حصہ تھے تاکہ پاکستانی عوام کو اپنی فوج پر شک ہو۔

یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ فوج جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں ہر ملک کی فوج اپنے کردار ادا کرتی ہے۔ امریکی تاریخ ہی کو دیکھ لیں:

1951 میں صدر ٹرومین اور جنرل ڈگلس میک آرتھر کے درمیان کورین جنگ کے معاملے پر ٹکراؤ ہوا۔ فوج نے اپنی رائے دی مگر عوام نے کبھی اپنی فوج سے نفرت نہیں کی۔

2020 میں جنرل ملی نے ٹرمپ کے فوجی احکامات کی مخالفت کی اور چین سے خفیہ کالز تک کیں تاکہ غیر ضروری جنگ نہ ہو۔ 2024 اور 2025 میں بھی امریکی جرنیلوں نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو "فاشسٹ" کہہ کر رد کیا، لیکن کسی نے فوج کو بدنام نہیں کیا۔

اسی طرح ترک فوج نے وزیراعظم نجم الدین اربکان کو "پوسٹ ماڈرن کو" کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا، مگر عوام نے اپنی فوج سے تعلق نہیں توڑا۔ فرانس میں 1961 میں "جنرلز پُٹش" ناکام ہوا، لیکن فوج پھر بھی عوام کا ادارہ رہی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیوں ایک منصوبے کے تحت عوام اور فوج کے بیچ نفرت کی دیوار کھڑی کی جا رہی ہے؟

اب پروپیگنڈا یہ ہے کہ پاکستانی فوج "کارپوریٹ فوج" ہے، جو کمپنیاں چلاتی ہے اور بجٹ کھا جاتی ہے۔ یہ بات عوامی ذہن میں ڈالی جا رہی ہے۔ لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں افواج یا ان کے فنڈز بڑے پیمانے پر معاشی ادارے چلاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں اسے مسئلہ نہیں بنایا جاتا۔

دنیا کی مثالیں دیکھیں:

امریکہ میں فوج براہِ راست بزنس نہیں چلاتی مگر $370 ارب سالانہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس پر خرچ ہوتا ہے۔ کنٹریکٹرز کی تعداد کئی بار فوجیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بلیک واٹر اور ہالیبرٹن جیسی کمپنیاں فوج کے لیے کام کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی کارپوریٹ فوجی معیشت ہے۔

روس میں واگنر گروپ اور دیگر پرائیویٹ ملٹری کمپنیاں نہ صرف جنگیں لڑتی ہیں بلکہ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں سونا، تیل اور معدنیات کا بزنس چلاتی ہیں۔ واگنر گروپ نے صرف گولڈ اسمگلنگ سے $130 ارب کمائے۔

ترکی میں فوج کا پنشن فنڈ OYAK $18 ارب سے زیادہ اثاثے رکھتا ہے۔ رینالٹ، فیاٹ اور قطری کمپنیوں کے ساتھ پارٹنرشپ میں آٹو، اسٹیل اور انرجی بزنس کرتا ہے۔

مصر میں فوج معیشت کا 40% کنٹرول کرتی ہے، میگا پروجیکٹس سے لے کر واٹر اور ہوٹلز تک۔

ایران میں پاسدارانِ انقلاب (IRGC) کی کمپنیاں کنسٹرکشن، آئل اور میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔

چین، انڈونیشیا، میانمار اور بنگلہ دیش کی افواج بھی اپنی اپنی بنیادوں پر کاروبار کرتی ہیں۔

پاکستان میں فوجی فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، بحریہ فاؤنڈیشن اور شاہین فاؤنڈیشن کے ذریعے بزنس کا حجم تقریباً $20 ارب ہے۔ یہ کمپنیاں نہ صرف ریونیو پیدا کرتی ہیں بلکہ لاکھوں شہریوں کو روزگار بھی دیتی ہیں۔ اگر یہی کام ترکی، مصر، ایران یا روس میں ہو تو اسے قومی طاقت کہا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں اسے نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو خود اپنی افواج کو معاشی طور پر مستحکم رکھتے ہیں، وہ ہمیں کیوں سبق دیتے ہیں کہ اپنی فوج سے نفرت کرو؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: پاکستان واحد مسلم ملک ہے جس نے ایٹمی طاقت حاصل کی اور اب بتدریج مسلم دنیا کی سیکیورٹی کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت عالمی طاقتوں کو برداشت نہیں، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ یہ فوج صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ دین کو دوبارہ نافذ کرنے والی قوت بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان اور اس کی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش جاری ہے۔

لہٰذا آج کے حالات میں پاکستانی عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فوج کا کمزور ہونا دراصل ملک کا کمزور ہونا ہے۔ تاریخ، حقائق اور اعداد و شمار سب یہی بتاتے ہیں کہ جس قوم کے پاس عسکری طاقت نہ ہو، وہ کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتی۔ اور جس قوم کی فوج دشمنوں کے نشانے پر ہو، اس فوج کا دفاع دراصل دین اور وطن کا دفاع ہے۔

تحریر: قاضی طارق محمود — ایم۔اے (بین الاقوامی تعلقات)، ایل۔ایل۔بی زیرِ تعلیم، سوشَل اینڈ پولیٹیکل ایکٹوسٹ

Follow:

Urdu Blog Group:
https://chat.whatsapp.com/BmDgT5Sm3kuDusTnliEmBb?mode=ems_copy_t

Dastak Channel:
https://whatsapp.com/channel/0029VaDYwCnA2pL2Tva1jz3i

روس یوکرین کی جنگ ہار رہا ہےتحریر: مائیکل کیمیج – فارن پالیسی سمر 2025 میگزینتاریخ: ستمبر 2025روسی صدر ولادیمیر پیوٹن شک...
20/09/2025

روس یوکرین کی جنگ ہار رہا ہے
تحریر: مائیکل کیمیج – فارن پالیسی سمر 2025 میگزین
تاریخ: ستمبر 2025

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن شکست کی تصویر کو چھپانے کے ماہر ہیں۔ وہ 2000 میں برسرِ اقتدار آئے، جب چیچنیا کے علیحدگی پسند خطے میں جاری جنگ میں روسی فوج کو کامیابی حاصل ہوئی۔ پیوٹن نے خود کو ایک فیصلہ کن لیڈر کے طور پر پیش کیا، خواہ وہ 2008 کی روس-جارجیا جنگ ہو، 2014 میں کریمیا کا انضمام اور 2022 میں یوکرین پر بھرپور حملہ، یا 2015 میں شام میں روسی فوجی مداخلت۔ لیکن ان تمام محاذوں میں پیوٹن کو پائیدار کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ جارجیا اب بھی غیر یقینی کیفیت میں ہے اور شام میں روس کا اثر و رسوخ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ تاہم پیوٹن کسی بھی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ فاتح کا کردار ادا کرتے ہیں۔

یوکرین کے معاملے میں بھی پیوٹن کامیابی کے مناظر تخلیق کر سکتے ہیں۔ انہوں نے 9 مئی کو — روس میں "یومِ فتح" کے موقع پر، جو 1945 میں نازی جرمنی کی شکست کی یادگار ہے — چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ریڈ اسکوائر میں روسی فوجیوں کی پریڈ دیکھی، تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ روس نہ تنہا ہے اور نہ ہی شکست خوردہ۔ روسی ریاستی میڈیا یہی کہتا ہے کہ یوکرین کمزور پڑے گا، یورپ اپنی بعد از قومی شناخت کی بحران سے نہیں نکل سکے گا، اور امریکا روس کے سامنے جھک چکا ہے، مان رہا ہے کہ نیٹو کی توسیع نے جنگ کو جنم دیا، یوکرین کی ہٹ دھرمی نے اسے طول دیا، اور جب 2022 میں جنگ شروع ہوئی تو امریکی صدر جو بائیڈن دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لے گئے۔

لیکن یوکرین نہ شام ہے اور نہ ہی جارجیا۔ شام ایک دور افتادہ مہم تھی جس سے واپسی کو چھپایا جا سکتا تھا۔ جارجیا ابھی تک روس اور مغرب کے بیچ معلق ہے، جو ماسکو کے لیے کوئی بڑا دھچکا نہیں۔ مگر یوکرین ایک ایسا محاذ ہے جو روس کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ یہاں روسی فوج رکی ہوئی ہے، ہلاکتیں اور زخمیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور پیوٹن کے پاس جنگ ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں، سوائے کسی نہ کسی صورت میں شکست تسلیم کرنے کے۔ کریملن روسی عوام سے جنگ کی تکالیف چھپانے کی کوشش کر سکتا ہے، لیکن بگڑتی معیشت کے اثرات کو چھپانا اتنا آسان نہیں۔ پیوٹن روسی عوام کو کوئی واضح سیاسی مستقبل بھی نہیں دکھا سکتے، سوائے لاانتہا "پیوٹن ازم" کے۔ آہستہ آہستہ، اگرچہ فوری طور پر نہیں، روس اس جنگ کو ہارنے لگا ہے۔

طویل جنگوں کے لیے ہم آہنگ کوششیں ضروری ہوتی ہیں۔ فوجی مقاصد کا انحصار سفارت کاری اور معیشت پر ہوتا ہے، اور یہ دونوں سیاسی عزم پر۔ ان تینوں میدانوں میں روس مشکلات کا شکار ہے۔ فوجی اور سفارتی مسائل ایک دوسرے کو بڑھا رہے ہیں، اور معیشت و سیاست کے چیلنجز بھی ایک دوسرے کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ اگر جنگ کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہوتی یا روس دفاعی پوزیشن پر ہوتا تو عوامی مشکلات برداشت کی جا سکتیں، سیاسی بےچینی مؤخر ہو سکتی تھی، اور سفارت کاری غیر اہم ہو جاتی — جیسا کہ دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین کے ساتھ ہوا۔ لیکن یوکرین میں پیوٹن ایک الٹ صورتحال میں ہیں، جہاں صرف بیان بازی سے نکلنے کا راستہ ممکن نہیں۔

روس کو دو بڑے فوجی بحرانوں کا سامنا ہے۔ پہلا اس کی اپنی ناکامی کہ وہ آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ بظاہر روس کچھ علاقے قبضے میں لے رہا ہے، لیکن یہ پیش رفت کسی بڑے نتیجے کی طرف نہیں جا رہی۔ مثال کے طور پر پوکرووسک نامی یوکرینی شہر کو مہینوں کی لڑائی کے باوجود روسی فوج نہیں لے سکی۔ اس دوران روس کو بڑے جانی نقصانات اٹھانے پڑے — تقریباً 7,90,000 ہلاکتیں یا زخمی (اور 48,000 لاپتہ)، صرف 2025 میں ہی ایک لاکھ سے زائد ہلاکتیں یا زخمی۔ اگر یہی شرح جاری رہی تو 2025 کے آخر تک روس کی ہلاکتیں دس لاکھ سے بڑھ جائیں گی، مگر اس کی پوزیشن 2022 سے بہتر نہیں ہوگی۔

دوسرا بحران خود یوکرین ہے۔ جب 2022 میں روس ابتدائی طور پر یوکرین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور فیصلہ کن وار کرنے میں ناکام ہوا تو پیوٹن کے پاس دو راستے تھے: محدود جنگ یا پورے ملک کے شہریوں پر جنگ مسلط کرنا۔ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا تاکہ پیچھے ہٹنے والے نظر نہ آئیں اور یوکرینیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں۔ لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔ روسی قبضے کی بربریت اور شہریوں پر مسلسل حملوں نے یوکرینی عوام کو لڑنے پر مزید آمادہ کر دیا۔

روس کی سفارت کاری بھی ناکام رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے آغاز میں روس کو سازگار مواقع ملے تھے، لیکن ماسکو نے بار بار فائر بندی کی خلاف ورزی کر کے انہیں ضائع کر دیا۔ نتیجتاً ٹرمپ کا جھکاؤ یوکرین اور یورپ کی طرف بڑھ گیا۔ جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے، جو برطانیہ، فرانس اور پولینڈ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں، یوکرین کی بھرپور حمایت کی اور جرمنی کو آدھے ٹریلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کا پابند کر دیا۔

معاشی طور پر بھی روس پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جنگ کے آغاز پر 5 فیصد شرح نمو اب صفر ہو چکی ہے۔ مہنگائی 10 فیصد کے قریب ہے۔ توانائی کی گرتی قیمتیں، امریکا کی تجارتی جنگوں اور چین کی سست معیشت کے باعث، روس کے بجٹ کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں جو تیل و گیس کی آمدن پر انحصار کرتا ہے۔ عوام اب اپنے حکمرانوں کی بصیرت پر سوال اٹھا رہے ہیں، مہنگائی اور غیر یقینی معیشت کے بوجھ تلے۔

پیوٹن نے روسی عوام سے کہا ہے کہ وہ اس جنگ میں ان پر اعتماد کریں۔ کچھ کرتے ہیں، کچھ نہیں کرتے۔ جو ان پر بھروسہ نہیں کرتے وہ پولیس اسٹیٹ کے جبر کا سامنا کر سکتے ہیں، اگرچہ روس مکمل طور پر آمریت نہیں ہے۔ سماج ایک عجیب امتزاج کا شکار ہے: بعض علاقوں میں جنگی جوش، جبکہ مجموعی طور پر سیاست سے لاتعلقی۔

اصل طاقت پیوٹن کے ہاتھ میں ہے۔ مگر یہ ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔ اگر جنگ جیت لی جائے تو طاقت ان کی کامیابی ہے، اگر ہار گئے تو ناکامی صرف انہی کے کھاتے میں لکھی جائے گی۔ شاید اسی لیے پیوٹن اب اپنے جانشین کی باتیں کرنے لگے ہیں، حالانکہ برسوں تک وہ اس موضوع پر خاموش تھے۔ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاست کو ایک غیر دانشمندانہ جنگ پر داؤ پر لگایا ہے — اور وہ اسے جیت نہیں رہے۔

مائیکل کیمیج امریکہ کی کیتھولک یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔

For Updates Follow:

Urdu Blog Group:
https://chat.whatsapp.com/BmDgT5Sm3kuDusTnliEmBb?mode=ems_copy_t

Urdu Channel:
https://whatsapp.com/channel/0029VacDC7PFsn0kIrTxUx0a

Dastak Channel:
https://whatsapp.com/channel/0029VaDYwCnA2pL2Tva1jz3i

❤️👍
19/09/2025

❤️👍

Pakistan–Saudi Defense Pact: New Dangers in the Region

The recent Israeli strikes on Iran and Qatar have shaken the entire Arab world. For years, the Arab states believed that Israeli aggression was confined to Palestine, Gaza, Lebanon, or Syria. But today they stand horrified, realizing that this fire could break out anywhere. Israel never attacks blindly; its operations are always carefully designed, aimed at specific individuals or strategic targets. This strengthens the perception that Israel’s ambitions are not limited to Palestine—they are far broader and infinitely more dangerous.

At this moment, Saudi Arabia fears whether Israel’s next onslaught could spill over into its territory. Is this fear grounded in secret intelligence reports, or is it merely a psychological aftershock of the Qatar attack? The answer cannot yet be given with certainty. But one thing is crystal clear: after the strike on Qatar, the entire region has been engulfed by an atmosphere of fear and uncertainty, and Saudi Arabia is no exception.

In such a backdrop, when the world speaks of the finest armies, Pakistan’s military stands in the front row. History testifies that Pakistan Army, through its courage, discipline, sharp strategy, and impeccable defense preparedness, has carved its place among the strongest forces on earth. During the May 2025 skirmish with India, Pakistan dealt a crushing blow to the Indian Air Force by deploying China’s J-10C jets and PL-15 missiles, shooting down five to six aircraft, including three Rafales. It was the Rafale’s first combat defeat—an event that sent shockwaves across the globe. Independent experts confirmed the loss of at least three Indian aircraft, and Pakistan’s success received wide global recognition. Once again, the world acknowledged that the Pakistani military not only makes its enemies eat humble pie but also stands firm against every challenge.

Pakistan today remains the only Islamic state armed with nuclear weapons. Alongside these, modern missile systems and hundreds of thousands of brave soldiers make its defense impregnable. Pakistan's military role has turned its country in South Asia, particularly in the subcontinent, into a complete military zone, equipped with top-tier armies, nuclear arsenals, state-of-the-art missiles, and all tools of military power.

It is now increasingly clear that behind Israel stands the United States. Yet paradoxically, even the mighty U.S. appears helpless before Israel. In fact, Washington often seems to dance to someone else’s tune—with Israel pulling the strings of the world’s greatest superpower. For the Arab world, this realization is terrifying: if even America cannot shield its allies from Israeli wrath, what chance do smaller states have?

Take Qatar as an example. Despite being a longstanding ally of Washington, it could not escape Israeli aggression. Israel informed the U.S. before attacking Qatar, and America stood by as a silent spectator. That moment exposed the humiliation and helplessness of the Arab states. Those nations that once invoked the name of Islam and the Muslim Ummah now stand blindfolded with America—only to be shown by Israel that even U.S. support cannot protect them.

It is in this hour of despair that Arab eyes, especially those of Saudi Arabia, have turned once again toward Pakistan. Pakistan is the last hope—not only because it holds nuclear capability but also because it commands a battle-hardened, fearless army. Pakistani soldiers have always staked their lives for the defense of their homeland, and that sacrifice has inspired the entire world. Yet war is not fought by valor and weapons alone; it demands massive financial resources. To mobilize troops and operate advanced weaponry, heavy funding is needed—something impossible without a powerful alliance.

Against this backdrop, on September 17, 2025, a historic defense agreement was signed in Riyadh between Pakistan and Saudi Arabia. According to this pact, any attack on either nation will be treated as an attack on both—a clause reminiscent of NATO’s Article 5, which guarantees collective defense. The agreement also emphasizes enhanced military cooperation, joint strategies, and global peace. Although nuclear capability was not explicitly mentioned, Saudi officials indicated that the pact covers “all military resources,” implicitly suggesting the inclusion of a nuclear umbrella.

The deal was signed during Prime Minister Shehbaz Sharif’s state visit to Crown Prince Mohammed bin Salman, with Pakistan’s Army Chief Field Marshal Asim Munir also present. The backdrop was Israel’s strike on Qatar and the growing regional tension that drew both nations closer. Saudi Defense Minister Khalid bin Salman declared on social media: “Saudi Arabia and Pakistan will always stand shoulder to shoulder against any aggressor.” For the Arab world, these words brought a new ray of hope.

The global reaction was swift. India appeared most alarmed, announcing it would closely study the pact’s implications. Indian analysts see it as a major challenge to New Delhi’s Gulf strategy. The U.S. refrained from open criticism, though former American envoy Zalmay Khalilzad remarked that the deal reflects growing distrust in Washington’s security guarantees. Israel remained officially silent, but experts agree the agreement was a direct response to Tel Aviv’s strike on Qatar.

Pakistani analysts hailed the pact as historic. It not only secures vital financial resources for strengthening Pakistan’s defense but also boosts its standing on the global stage. Saudi officials, for their part, called it a new milestone in their quest for defense sovereignty—one that could shift the regional balance of power.

History proves that whenever Pakistan’s Army has been given resources and a clear strategy, it has crushed the enemy’s malicious designs. This is why Saudi Arabia now places its trust in Pakistan. Today, Pakistan is not only a guarantor of its own borders but also a shield for Saudi Arabia. This marks a new recognition of Pakistan’s military capabilities and sacrifices at the international level.

It is noteworthy that Pakistan’s military tradition has never been confined to borders alone. From defending the homeland to playing decisive roles in national security and democracy, the Army has always been a central force. It is not far-fetched to imagine that this pact, too, may eventually extend beyond Saudi Arabia’s borders, enabling Pakistan to contribute to the Kingdom’s internal stability just as it has at home. The proud truth remains: wherever resources are provided, Pakistan’s armed forces deliver excellence.

There is hope that Pakistan will not limit this alliance to Saudi Arabia’s territorial defense alone but, as it has done in its own democratic and national security struggles, will also support the Kingdom’s internal strength. This pact stands as proof that Pakistan is not only the guardian of its own soil but the true protector of the Muslim Ummah. May this agreement become a means of peace and justice in the world. But one fact is undeniable: today, Pakistan is the Arab world’s last hope—and it has shown it has the strength to live up to that hope.

Written by: Qazi Tariq Mahmood — M.A. (International Relations), LL.B (Con), Social & Political Activist

:- Qazi Tariq Mehmood

Join Our

WhatsApp Channel: https://whatsapp.com/channel/0029VbBDyMwKbYMFcxO7m31K

WhatsApp Group:
https://chat.whatsapp.com/IUxwQPiBsyqHbWQ3cATiz5?mode=ems_copy_t

اہراموں کی تعمیر کیسے ہوئی، اس کی یہی واحد ممکنہ وضاحت ہے؛ خلائی مخلوق کا وجود ایک قابلِ اعتبار وضاحت نہیں ہے۔​4,500 سال...
17/09/2025

اہراموں کی تعمیر کیسے ہوئی، اس کی یہی واحد ممکنہ وضاحت ہے؛ خلائی مخلوق کا وجود ایک قابلِ اعتبار وضاحت نہیں ہے۔
​4,500 سال پہلے مصر کی قدیم بادشاہت کے دوران تعمیر کیے گئے، اہرامِ گیزا صرف شاندار مقبرے ہی نہیں ہیں: وہ قدیم مصریوں کی زندگی کے بارے میں بھی مورخین کے لیے معلومات کا بہترین ذریعہ ہیں، کیونکہ ان کی دیواریں زرعی طریقوں، شہری زندگی اور مذہبی تقریبات کی تصاویر سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ لیکن ایک موضوع پر، وہ پراسرار طور پر خاموش ہیں: وہ اس بارے میں کوئی بصیرت فراہم نہیں کرتے کہ اہرام کیسے بنائے گئے تھے۔
​یہ ایک ایسا معمہ ہے جس نے ہزاروں سالوں سے مورخین کو پریشان کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے انتہائی تصوراتی قیاس آرائی کرنے والے ماورائے زمین مداخلت یا دیگر غیر روایتی نظریات کے غیر واضح علاقے میں چلے گئے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں کئی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے کام نے مصری مطالعہ کے منظر نامے کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا ہے۔
​(تصویر کی وضاحت: تھامس فشر ریئر بک لائبریری/فلِکر) اہراموں کی تعمیر کا معمہ صدیوں سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو حیران کر رہا ہے۔ یہاں، ایک ٹیم 1925 میں چنائی کا معائنہ کر رہی ہے۔
​اہراموں نے نسل در نسل ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو کیوں الجھائے رکھا ہے؟ ایک وجہ یہ ہے کہ وہ انجینئرنگ کا ایک حیرت انگیز کارنامہ ہیں جو خاص طور پر ان چیزوں کے لحاظ سے متاثر کن ہیں جو ہم جانتے ہیں کہ ان کے معماروں کے پاس نہیں تھیں۔ جدید معیار کے لحاظ سے بھی، مصری اہرام حیرت انگیز طور پر پیچیدہ اور ساختی طور پر مضبوط ہیں۔ جب آپ اس حقیقت کو بھی شامل کرتے ہیں کہ قدیم مصریوں کے پاس ایسے اوزاروں کی کمی تھی جو ایسی حیرت انگیز عمارتوں کو بنانا آسان بنا سکتے تھے، تو یہ سمجھنا آسان ہے کہ ان کی تعمیر اتنے مختلف نظریات کا موضوع کیوں رہی ہے۔
​مثال کے طور پر، مصریوں نے ابھی تک پہیے کو دریافت نہیں کیا تھا، لہٰذا بڑے پتھروں (جن میں سے کچھ کا وزن 90 ٹن تک تھا) کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا مشکل ہوتا۔ انہوں نے ابھی تک پُلی بھی ایجاد نہیں کی تھی، ایک ایسا آلہ جو بڑے پتھروں کو اٹھانا اور انہیں اپنی جگہ پر منتقل کرنا بہت آسان بنا دیتا۔ ان کے پاس تو بلاکس کو کاٹنے اور شکل دینے کے لیے لوہے کے اوزار بھی نہیں تھے۔



Follow our :

https://whatsapp.com/channel/0029VaDYwCnA2pL2Tva1jz3i

‏یہ جناح کے زیارت میں قیام کے زمانے کی بات ہے کہ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے فاطمہ جناح سے پوچھا: ’آپ کے بھائی کو کچھ کھانے ...
15/09/2025

‏یہ جناح کے زیارت میں قیام کے زمانے کی بات ہے کہ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے فاطمہ جناح سے پوچھا: ’آپ کے بھائی کو کچھ کھانے پر کیسے آمادہ کیا جائے، ان کی خاص پسند کا کوئی کھانا بتائیں۔”
فاطمہ جناح نے بتایا کہ بمبئی میں ان کے ہاں ایک باورچی ہوا کرتا تھا جو چند ایسے کھانے تیار کرتا تھا کہ بھائی ان کو بڑی رغبت سے کھاتے تھے، لیکن پاکستان بننے کے بعد وہ باورچی کہیں چلا گیا۔ انھیں یاد تھا کہ وہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کا رہنے والا تھا اور کہا کہ شاید وہاں سے اس کا کچھ اتا پتا مل سکے۔
یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے حکومت پنجاب سے درخواست کی کہ اس باورچی کو تلاش کر کے فوراً زیارت بھجوایا جائے۔ کسی نہ کسی طرح وہ باورچی مل گیا اور اسے فوراً ہی زیارت بھجوا دیا گیا تاہم جناح کو اس کی آمد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
کھانے کی میز پر انھوں نے اپنے مرغوب کھانے دیکھتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا اور خوش ہو کر خاصا کھانا کھا لیا۔ جناح نے استفسار کیا کہ آج یہ کھانے کس نے بنائے ہیں تو ان کی بہن نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے ہمارے بمبئی والے باورچی کو تلاش کر کے یہاں بھجوایا ہے اور اس نے آپ کی پسند کا کھانا بنایا ہے۔
جناح نے بہن سے پوچھا کہ اس باورچی کو تلاش کرنے اور یہاں بھجوانے کاخرچ کس نے اٹھایا ہے۔ عرض کیا کہ یہ کارنامہ حکومت پنجاب نے انجام دیا ہے، کسی غیر نے تو خرچ نہیں کیا۔ پھرجناح نے باورچی سے متعلق فائل منگوائی اور اس پر لکھا کہ ’گورنر جنرل کی پسند کا باورچی اور کھانا فراہم کرنا حکومت کے کسی ادارے کا کام نہیں ہے۔ خرچ کی تفصیل تیار کی جائے تا کہ میں اسے اپنی جیب سے ادا کرسکوں‘ اور پھر ایسا ہی ہوا!!”

خصوصی رپورٹ “قائدِ اعظم کی زندگی کے آخری 60 دن” سے اقتباس ۔
بی بی سی اردو


Follow our :

https://whatsapp.com/channel/0029VaDYwCnA2pL2Tva1jz3i

11/09/2025

🔥 😊

11/09/2025
Pakistan ki qismat k azeem rehnma peda huwe... badqismati k unko qatl krdia gaya....
04/04/2024

Pakistan ki qismat k azeem rehnma peda huwe... badqismati k unko qatl krdia gaya....

...

28/03/2024

Address

Karachi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Knock - دستک posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share