
21/09/2025
**اسلام، پاکستانی فوج اور ایسٹ انڈیا کمپنی**
اسلام کی تاریخ جب بھی پڑھی جائے تو ایک حقیقت بار بار سامنے آتی ہے کہ یہ دین صرف دعوت و تبلیغ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی مضبوط عسکری طاقت اور جہاد کے نظام کی بدولت دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں پر غالب آیا۔ رسول اکرم ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں قصرِ قیصر و کسریٰ لرز اٹھے، ایران کی شہنشاہیت اور روم کی سلطنت اسلام کے سامنے جھک گئی۔ محض چند دہائیوں میں اسلام مشرق سے مغرب تک پھیل گیا اور یہ سب صرف عسکری طاقت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ فوجی طاقت ہی نے اسلام کی دعوت کے لیے امن و سکون کی فضا قائم کی، تعلیم، زبان اور ثقافت منتقل ہوئی، اور قوموں نے رضا کارانہ طور پر اسلام قبول کیا۔
تاریخ کا یہ سبق واضح ہے کہ کوئی بھی قوم اگر عسکری طاقت سے محروم ہو جائے تو خواہ کتنی ہی دولت مند کیوں نہ ہو، وہ دوسری طاقتور اقوام کی "ڈائننگ ٹیبل ڈِش" بن جاتی ہے۔ آج افریقہ کی حالت دیکھ لیجیے، جہاں بے پناہ معدنی وسائل اور قدرتی خزانے موجود ہیں، مگر عسکری اور سیکیورٹی ڈھانچے کی کمزوری نے اسے عالمی طاقتوں کے لیے میدانِ شکار بنا دیا۔ برصغیر کی تاریخ میں جب ہندوستان کو "سونے کی چڑیا" کہا جاتا تھا، تب بھی عسکری کمزوری نے ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے تاجروں کو حکومت کی لگام تھما دی۔ یہی مثالیں بتاتی ہیں کہ معیشت کے ساتھ ساتھ فوجی طاقت ہی کسی قوم کی اصل محافظ ہوتی ہے۔
اسلام کے دشمن اس حقیقت کو صدیوں سے سمجھتے آئے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر اسلامی نظام کو ختم کرنا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں کی عسکری طاقت کو زائل کیا جائے۔ چنانچہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں "سفید پرندہ" یعنی امن کے خواب تھما دیے گئے، یہ نعرہ دیا گیا کہ دولت اور ترقی بغیر جہاد اور مزاحمت کے بھی ممکن ہے۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت خلافتِ عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا۔ لارنس آف عریبیہ جیسے جاسوس، یورپی ایجنٹ عورتیں اور اندرونی غدار سرگرم ہوئے اور بالآخر وہ عظیم سلطنت جو چھ صدیوں تک اسلام کی سیاسی و عسکری ڈھال رہی، زمین بوس کر دی گئی۔
جب تک خلافت موجود تھی، مغرب بے بس تھا۔ برطانیہ، فرانس اور یورپ کے بادشاہ اسلامی طاقت کو سلام کرتے تھے۔ لیکن خلافت کے خاتمے کے بعد دشمن نے نیا سبق سیکھا: مسلمانوں کے ہاتھوں سے "دین" لے لو اور صرف "مذہب" تھما دو۔ دین ایک مکمل نظامِ حیات ہے جس میں سیاست، معیشت اور عسکری طاقت سب شامل ہیں، مگر مذہب کو محض چند عبادات تک محدود کر دیا جائے تاکہ امت اپنے اصل مقصد سے محروم ہو جائے۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ ہوا کہ مسلمانوں اور ان کی افواج کے درمیان ہمیشہ ایک دیوار کھڑی کی جائے تاکہ عوام اپنی فوج سے محبت نہ کر سکیں۔
اسی حکمتِ عملی کے نتیجے میں مسلم ممالک عروج پانے سے پہلے ہی زوال کا شکار ہونے لگے۔ لیکن یہ اللہ کا بڑا معجزہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک بار بار اپنی افواج کے ذریعے محفوظ رہا۔ 1947 میں کشمیر کی جنگ ہو یا 1965 کی بھارت کے ساتھ فیصلہ کن لڑائی، یا پھر 1971 کا سانحہ، پاکستان کی فوج ہر محاذ پر ڈٹی رہی۔ اگرچہ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت سازشوں نے نقصان پہنچایا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد میں بنگلہ دیش میں انہی کی فوج نے شیخ مجیب کو قتل کیا اور پھر حسینہ واجد نے ملک کو بھارتی گود میں ڈال دیا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ جہاں فوج کمزور ہو، وہاں ملک دشمن طاقتوں کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔
چونکہ پاکستانی فوج کسی جنگ میں ناکام نہ ہوئی، اس لیے دشمن نے پانچویں نسل کی جنگ (5th Generation Warfare) کا آغاز کیا۔ اس جنگ کا مقصد براہِ راست میدان میں شکست دینا نہیں بلکہ عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرنا ہے۔ نیا ورلڈ آرڈر اسی حکمتِ عملی پر کام کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر کیری لوگر بل، امریکی ڈرون حملے اور میڈیا مہمات سب اسی منصوبے کا حصہ تھے تاکہ پاکستانی عوام کو اپنی فوج پر شک ہو۔
یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ فوج جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں ہر ملک کی فوج اپنے کردار ادا کرتی ہے۔ امریکی تاریخ ہی کو دیکھ لیں:
1951 میں صدر ٹرومین اور جنرل ڈگلس میک آرتھر کے درمیان کورین جنگ کے معاملے پر ٹکراؤ ہوا۔ فوج نے اپنی رائے دی مگر عوام نے کبھی اپنی فوج سے نفرت نہیں کی۔
2020 میں جنرل ملی نے ٹرمپ کے فوجی احکامات کی مخالفت کی اور چین سے خفیہ کالز تک کیں تاکہ غیر ضروری جنگ نہ ہو۔ 2024 اور 2025 میں بھی امریکی جرنیلوں نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو "فاشسٹ" کہہ کر رد کیا، لیکن کسی نے فوج کو بدنام نہیں کیا۔
اسی طرح ترک فوج نے وزیراعظم نجم الدین اربکان کو "پوسٹ ماڈرن کو" کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا، مگر عوام نے اپنی فوج سے تعلق نہیں توڑا۔ فرانس میں 1961 میں "جنرلز پُٹش" ناکام ہوا، لیکن فوج پھر بھی عوام کا ادارہ رہی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیوں ایک منصوبے کے تحت عوام اور فوج کے بیچ نفرت کی دیوار کھڑی کی جا رہی ہے؟
اب پروپیگنڈا یہ ہے کہ پاکستانی فوج "کارپوریٹ فوج" ہے، جو کمپنیاں چلاتی ہے اور بجٹ کھا جاتی ہے۔ یہ بات عوامی ذہن میں ڈالی جا رہی ہے۔ لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں افواج یا ان کے فنڈز بڑے پیمانے پر معاشی ادارے چلاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں اسے مسئلہ نہیں بنایا جاتا۔
دنیا کی مثالیں دیکھیں:
امریکہ میں فوج براہِ راست بزنس نہیں چلاتی مگر $370 ارب سالانہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس پر خرچ ہوتا ہے۔ کنٹریکٹرز کی تعداد کئی بار فوجیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بلیک واٹر اور ہالیبرٹن جیسی کمپنیاں فوج کے لیے کام کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی کارپوریٹ فوجی معیشت ہے۔
روس میں واگنر گروپ اور دیگر پرائیویٹ ملٹری کمپنیاں نہ صرف جنگیں لڑتی ہیں بلکہ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں سونا، تیل اور معدنیات کا بزنس چلاتی ہیں۔ واگنر گروپ نے صرف گولڈ اسمگلنگ سے $130 ارب کمائے۔
ترکی میں فوج کا پنشن فنڈ OYAK $18 ارب سے زیادہ اثاثے رکھتا ہے۔ رینالٹ، فیاٹ اور قطری کمپنیوں کے ساتھ پارٹنرشپ میں آٹو، اسٹیل اور انرجی بزنس کرتا ہے۔
مصر میں فوج معیشت کا 40% کنٹرول کرتی ہے، میگا پروجیکٹس سے لے کر واٹر اور ہوٹلز تک۔
ایران میں پاسدارانِ انقلاب (IRGC) کی کمپنیاں کنسٹرکشن، آئل اور میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔
چین، انڈونیشیا، میانمار اور بنگلہ دیش کی افواج بھی اپنی اپنی بنیادوں پر کاروبار کرتی ہیں۔
پاکستان میں فوجی فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، بحریہ فاؤنڈیشن اور شاہین فاؤنڈیشن کے ذریعے بزنس کا حجم تقریباً $20 ارب ہے۔ یہ کمپنیاں نہ صرف ریونیو پیدا کرتی ہیں بلکہ لاکھوں شہریوں کو روزگار بھی دیتی ہیں۔ اگر یہی کام ترکی، مصر، ایران یا روس میں ہو تو اسے قومی طاقت کہا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں اسے نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو خود اپنی افواج کو معاشی طور پر مستحکم رکھتے ہیں، وہ ہمیں کیوں سبق دیتے ہیں کہ اپنی فوج سے نفرت کرو؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: پاکستان واحد مسلم ملک ہے جس نے ایٹمی طاقت حاصل کی اور اب بتدریج مسلم دنیا کی سیکیورٹی کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت عالمی طاقتوں کو برداشت نہیں، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ یہ فوج صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ دین کو دوبارہ نافذ کرنے والی قوت بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان اور اس کی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش جاری ہے۔
لہٰذا آج کے حالات میں پاکستانی عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فوج کا کمزور ہونا دراصل ملک کا کمزور ہونا ہے۔ تاریخ، حقائق اور اعداد و شمار سب یہی بتاتے ہیں کہ جس قوم کے پاس عسکری طاقت نہ ہو، وہ کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتی۔ اور جس قوم کی فوج دشمنوں کے نشانے پر ہو، اس فوج کا دفاع دراصل دین اور وطن کا دفاع ہے۔
تحریر: قاضی طارق محمود — ایم۔اے (بین الاقوامی تعلقات)، ایل۔ایل۔بی زیرِ تعلیم، سوشَل اینڈ پولیٹیکل ایکٹوسٹ
Follow:
Urdu Blog Group:
https://chat.whatsapp.com/BmDgT5Sm3kuDusTnliEmBb?mode=ems_copy_t
Dastak Channel:
https://whatsapp.com/channel/0029VaDYwCnA2pL2Tva1jz3i