SeaFood Babu

SeaFood Babu We provide the highest quality seafood from the ocean to your door. Making it simple for you Seafood Supplier, Fish Supplier, Health Food Restaurant
(1)

15/05/2025

ابھی آرڈر کریں اور گھر بیٹھے بالکل تازہ مچھلیاں
اور جھینگے منگوائیں...
Place your Order on WhatsApp... 👇👇👇
https://wa.me/923091241963
03091241963
اگر آپ گھر بیٹھے اپنی من پسند ذائقے دار اور تازہ مچھلیاں اور جھینگے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ابھی ہمارے پیج یا دئیے گئے نمبر پر کال یا واٹس ایپ کر کے اپنا آرڈر بک کر سکتے ہیں. ہم روزانہ کی بنیاد پر تازہ مچھلیوں اور جھینگوں کا کام کرتے ہیں..
اب آپ جب چاہیں گھر بیٹھے تازہ مچھلیاں اور جھینگے منگوا سکتے ہیں. وہ بھی ایک کال پر. آپ کو مچھلی کے سالن والے سلائس بنوانے ہیں یا فرائی کے لیے سلائس بنوانے ہوں. آپ کو مچھلی کا بون لیس فنگر، بسکٹ چاہیے یا فلے. آپ جیسا چاہیں گے آپ کو گھر بیٹھے اب آپ کی مرضی کے مطابق سروس فراہم کی جائے گی... ابھی کراچی کے کہیں سے بھی اپنا آرڈر بک کریں اور گھر بیٹھے اپنی من پسند تازہ اور ذائقے دار مچھلیاں حاصل کریں...
اپنا آرڈر بک کرنے کے لیے درج ذیل دیئے گئے نمبر پر رابطہ کریں یا واٹس ایپ کریں... 👇👇
https://wa.me/923091241963
03091241963

میٹا نے اپنے بزنس واٹس ایپ پر ایک نیا اپڈیٹ کیا ہے... وہ اپڈیٹ یہ ہے کہ پہلے جو لوگ بزنس واٹس ایپ کو "API" کے ذریعے استع...
11/05/2025

میٹا نے اپنے بزنس واٹس ایپ پر ایک نیا اپڈیٹ کیا ہے... وہ اپڈیٹ یہ ہے کہ پہلے جو لوگ بزنس واٹس ایپ کو "API" کے ذریعے استعمال کرتے تھے اور اسے "THIRD PARTY" ایپ کے ذریعے جو مارکیٹنگ کے لیے براڈکاسٹ میسجز بھیجتے تھے وہ اب ڈائریکٹ بزنس واٹس ایپ سے بھیج سکیں گے... لیکن ساتھ ہی مسئلہ یہ ہو گیا کہ میں پچھلے 6 سال سے واٹس ایپ براڈکاسٹ میسج کا فیچر مفت میں استعمال کرتا تھا... اس فیچر میں ہوتا یہ تھا کہ جس کے پاس آپ نمبر موبائل میں محفوظ ہوتا تھا تو اس براڈکاسٹ سے بھیجے گئے میسجز اسے انفرادی طور پر موصول ہو جاتے تھے... یہ براڈکاسٹ واٹس ایپ کے دیگر گروپس کی طرح ہی ہوتا تھا لیکن فرق یہ تھا گروپس میں لوگوں کے نمبر پرائیویسی نہیں ہوتی تھی گروپ میں موجود ہر شخص کسی نہ کسی کا نمبر دیکھ سکتا تھا یا اسے میسجز بھیج سکتا تھا... دوسری طرف اسی کو بہتر بنایا واٹس کے کمیونٹی گروپ نے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ آپ ان لوگوں کو گروپ یا کمیونٹی میں شامل نہیں کر سکتے جنہوں نے اپنا واٹس پرائیویسی کی ہو... براڈکاسٹ ان سب سے منفرد اور بہترین آپشن تھا... اس میں ایک براڈکاسٹ لسٹ بنا کر 256 افراد کو شامل کریں اور ایک میسج بھیجیں گے تو وہ میسج تمام افراد کو انفرادی پہنچے گی جیسے کوئی شخص آپ کو ذاتی میسج کرتا ہے... کل جب یہ اپڈیٹ میرے پاس آیا تو میں نے اسے اپڈیٹ کر لیا جس کے بعد میرا واٹس ایپ براڈکاسٹ اب محدود ہو گیا ہے اور اس میں پورے مہینے میں صرف 256 میسج بھیجنے کی حد مقرر ہے... دو دن سے میرا کاروبار کافی متاثر ہو گیا ہے.. اب اس کے دو حل ہیں... پہلا یہ میں واٹس کا کو "APi" استعمال کروں یا واٹس ایپ کو ڈائریکٹ پیسے دوں.. دوسرا حل یہ ہے کہ اگر میں مفت میں یہ سروس استعمال کرنا چاہوں تو مجھے ایک ایک کر کے روزانہ 1000 افراد کو میسج کرنے ہوں گے جو کہ اتنا آسان نہیں اور وقت کا بھی کافی ضیا ہوگا...
کوئی ایکسپرٹ ہے جو اس مسئلے کا آسان حل بتائے اور اس کا مفت متبادل راستہ جس سے وقت بھی بچے اور کام بھی ہو جائے..
کیوں کہ ایک بار جب آپ اس اپڈیٹ کو استعمال کر لیتے ہیں تو پھر آپ واپس پرانے ورژن میں Revert نہیں کر سکتے...

شاہد شاہ

09/05/2025

Never Share These 3 Secrets with Anyone | 3 Batein Jo Kabhi Kisi ko Nahi Batani chahiye

05/05/2025

Smart & Simple 8 Best Ways to Save Your Money Like a Pro | Pese Bachane k 8 behtreen tarike
پیسے بچانے کے آٹھ بہترین طریقے

01/05/2025

4 secret habits of empower yourself

ایک عام کرایہ دار کی خاص سوچ — بجلی کے بل کو 10000 سے 2000 روپے تک کیسے لایا؟آج ہر دوسرا شخص مہنگائی سے تنگ ہے، اور بجلی...
14/04/2025

ایک عام کرایہ دار کی خاص سوچ — بجلی کے بل کو 10000 سے 2000 روپے تک کیسے لایا؟

آج ہر دوسرا شخص مہنگائی سے تنگ ہے، اور بجلی کا بل اُس آگ میں گھی کا کام کرتا ہے۔
کسی کی تنخواہ کم ہے، کسی کا خرچہ زیادہ۔ ایسے میں اگر ہر مہینے 12 سے 15 ہزار روپے صرف بل کی صورت میں نکل جائیں تو باقی زندگی کے پہیے کہاں سے چلیں؟

میں بھی انہی میں سے تھا — کراچی کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہنے والا عام کرایہ دار۔
دو کمرے، کچن، باتھ روم، چھت پر دو سیلنگ فین، 10 بلب، ایک فریج، ایک LED TV، ایک لیپ ٹاپ، دو چارجر، ایک WiFi — اور ہر مہینے بجلی کا بل 10 سے 15 ہزار روپے تک!

لیکن آج...
میرا مہینے کا بجلی کا بل صرف 2000 سے روپے ہے۔
یہ معجزہ نہیں، شعور اور سمجھ بوجھ کا نتیجہ ہے۔

یہ بات اُن دوستوں سے خاص کر کہنا چاہتا ہوں جو بل سے پریشان ہیں — کہ کچھ خاص قربانی دیے بغیر بھی ہم اس مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں، اگر نیت ہو، اور تھوڑی سی سمجھداری شامل ہو۔

آئیے دیکھتے ہیں میں نے کیا کیا:

1- سب سے پرانے پنکھے کو انورٹر فین سے بدلا.
پہلے میرے گھر میں عام سیلنگ فین لگے تھے جو 80 سے 100 واٹ کھاتے تھے۔
اب میں نے 30 واٹ کے انورٹر فین لگائے ہیں، جو کم بجلی لیتے ہیں لیکن ٹھنڈک میں کوئی کمی نہیں۔
گرمی کے دنوں میں فین 24 گھنٹے آن رہتے ہیں، مگر ہم صرف اُس کمرے کا پنکھا چلاتے ہیں جس میں موجود ہوتے ہیں۔
دوسرا پنکھا بلا ضرورت بند رہتا ہے۔

اہم نوٹ: بجلی کی بچت کا پہلا قدم — اپنے آلات کو پہچانیے
یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آپ کے گھر میں کون سی برقی اشیاء سب سے زیادہ بجلی کھا رہی ہیں۔
صرف بل دیکھنے سے بات نہیں بنتی — اصل سمجھ تو تب آئے گی جب آپ ہر چیز کی بجلی کھپت کا اندازہ لگائیں گے۔

اکثر گھروں میں سیلنگ فین کے ساتھ ساتھ پیڈسٹل فین بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی حقیقت ہے:
پیڈسٹل فین، سیلنگ فین سے بھی زیادہ بجلی کھاتا ہے!
ایک عام پیڈسٹل فین تقریباً 120 سے 150 واٹ تک بجلی کھینچتا ہے۔

جب کہ ایک 12 وولٹ کا "DC" پنکھا — جس کا چارجر 12 وولٹ اور 5 ایمپیئر ہو — صرف 60 واٹ میں کام کرتا ہے۔
یعنی آدھی بجلی میں وہی ٹھنڈک!

اسی طرح پرانے سیلنگ فین 80 سے 100 واٹ لیتے ہیں، لیکن نئے "Invertor Fan" صرف 30 واٹ پر چلتے ہیں —
یوں پرانے ایک پنکھے کے بجائے نئے ٹیکنالوجی والے تین پنکھے چل سکتے ہیں!

اسی سمجھداری کا اطلاق استری پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہم گھر میں کپڑے اُس وقت استری کرتے ہیں جب:

یا تو فریج بند ہوتا ہے

یا گھر میں کم سے کم دیگر بجلی والے آلات چل رہے ہوتے ہیں

اس سے لوڈ تقسیم ہوتا ہے، اور بل کم آتا ہے۔

2۔ کمپیوٹر کی جگہ لیپ ٹاپ:
پہلے میرا آن لائن یا دفتر کا ہر کام ڈیسک ٹاپ پر ہوتا تھا، جو 300 سے 500 واٹ تک کھینچتا تھا۔
اب "Laptop" استعمال کرتا ہوں، جو صرف 60 واٹ لیتا ہے۔
اُسی پر کام بھی ہو جاتا ہے، اور بستر پر لیٹ کر سکون بھی ملتا ہے۔

3۔ ریفریجریٹر — سمجھداری سے چلایا:
میرا فریج 170 واٹ پر چلتا ہے اور تقریباً 17 گھنٹے روزانہ آن رہتا ہے۔
لیکن میں نے اِسے بھی ایک نظام کے تحت چلانا سیکھا۔

مثلاً:
صبح 9 سے 12 بجے تک جب میں دفتر میں ہوتا ہوں، اُس وقت بیوی اور بچہ سو رہے ہوتے ہیں۔
اس وقت کوئی فریج نہیں کھولتا، تو میں فریج بند کر دیتا ہوں۔
اُس وقت تک فریج میں بھرپور کولنگ ہو چکی ہوتی ہے، اور تین گھنٹے بند رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

شام 6 سے رات 10 بجے تک بھی بند رکھتا ہوں کیونکہ wife واک پر چلی جاتی ہے، اور ہم فریج نہیں کھولتے۔

ہم فریزر سے برف نکال کر پہلے ہی پانی کے کولر میں رکھ دیتے ہیں، تاکہ پینے کے لیے ٹھنڈا پانی بار بار فریج سے نہ نکالنا پڑے۔

فریج کا دروازہ صرف اُس وقت کھولتے ہیں جب کچن کا ضروری کام ہو — یہی وجہ ہے کہ ہمارا فریج کا کمپریسر بار بار نہیں چلتا، اور زیادہ بجلی استعمال نہیں کرتا۔

اہم بات:
ریفریجریٹر کا کمپریسر آٹو ہوتا ہے۔ جب فریج کے اندر کولنگ برقرار ہو، تو کمپریسر خود بخود بند ہو جاتا ہے۔
لیکن اگر آپ بار بار دروازہ کھولتے رہیں، تو وہ کولنگ ضائع ہو جاتی ہے، اور کمپریسر بار بار چلتا ہے، جس سے بجلی کا زیاں ہوتا ہے۔

مشورہ:

فریج کو گھر کے ٹھنڈے حصے میں رکھیں۔

اُس کا دروازہ بے وجہ نہ کھولیں۔

کچھ اوقات میں اسے بند کر کے کمپریسر کو “آرام” دیں۔

یہ چھوٹے چھوٹے قدم مہینے کے آخر میں بڑے فائدے دیتے ہیں۔

4۔ بلب کا دانشمندانہ استعمال
میرے فلیٹ میں 10 عدد 12 واٹ کے LED بلب لگے ہیں۔
ان میں سے کمرے کے بلب 16 گھنٹے آن رہتے ہیں، کیونکہ قدرتی روشنی کم آتی ہے۔
مگر کچن اور باتھ روم کے بلب صرف استعمال کے وقت ہی جلتے ہیں۔

5۔ موبائل، لیپ ٹاپ اور WiFi روٹر
چار بنیادی چارجر روزانہ مستقل استعمال ہوتے ہیں۔
یہ بھی اگر مناسب وقت پر بند کیے جائیں تو کافی بچت ہوتی ہے۔ اس میں صرف انٹرنیٹ کا روٹر بند نہیں ہوتا باقی چارجر کو صرف اسی وقت استعمال کرتے ہیں جب موبائل یا لیپ ٹاپ میں چارج کم ہو جائے...

اب آتے ہیں حساب کی طرف — یہ سب ملا کر کتنی یونٹس بنتی ہیں؟

انورٹر فین: 21.6 یونٹس

بلب: 57.6 یونٹس

لیپ ٹاپ: 10.8 یونٹس

فریج: تقریباً 45 یونٹس (سمجھداری سے چلانے کے بعد)

چارجر/روٹر: 14.4 یونٹس

کل یونٹس = تقریباً 150 سے 160 یونٹس
اگر فی یونٹ ریٹ 14 روپے لگائیں تو:
160 × 14 = 2240 روپے

اب یہاں ایک بہت اہم بات، جو اکثر لوگ نہیں جانتے:

جیسے ہی آپ کا بجلی کا استعمال 200 یونٹس سے تجاوز کرتا ہے،
آپ "Protected صارف" کیٹیگری سے نکل کر Unprotected صارف بن جاتے ہیں —
اور پھر ہر یونٹ کی قیمت تقریباً دُگنی ہو جاتی ہے۔

یعنی:

200 یونٹس تک آپ کو سبسڈی والی قیمت پر بجلی ملتی ہے۔

لیکن 201 واں یونٹ آتے ہی آپ مہنگی کمرشل قیمت پر چلے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ 220 یونٹس پر بھی بعض اوقات بل 5 ہزار سے اوپر ہو جاتا ہے۔

واپس Protected صارف بننے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

اگر آپ اس وقت Unprotected صارف ہیں تو گھبرائیں مت —
آج سے کوشش کریں کہ ہر مہینے بجلی کا استعمال 200 یونٹس سے کم رکھیں۔

چھ مہینے مسلسل اگر آپ 200 یونٹس سے کم بجلی استعمال کریں گے تو
آپ دوبارہ Protected صارف بن جائیں گے —
اور پھر آپ کو بجلی سستی ملے گی، بل کم آئے گا، ذہنی سکون زیادہ ہو گا۔

آپ میرے دونوں بل میں خود واضح فرق دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے میں نے خود کو "unprotected" صارفین کی کیٹیگری سے نکال کر "Protected" صارفین میں شامل کیا اسی وجہ سے میرے بل میں 4 گنا کمی آئی ہے...

آخر میں ایک دل سے نکلی ہوئی بات — ایک نصیحت

زندگی میں بہت سی چیزیں ہماری دسترس سے باہر ہوتی ہیں —
مہنگائی، تنخواہ، حالات۔

لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو صرف ہماری نیت، عقل، اور عادت سے قابو میں آ سکتی ہیں۔

بجلی کا بل اُنہی میں سے ایک ہے۔
یہ قربانی نہیں، سمجھداری مانگتا ہے۔

کب کھولنا ہے، کب بند کرنا ہے — اگر آپ کو یہ آ جائے،
تو ہزاروں بچا سکتے ہیں، ذہنی سکون پا سکتے ہیں۔

یاد رکھیں:
“اکثر لوگ پیسے کما کر تھک جاتے ہیں، لیکن بچا کر سکون پاتے ہیں۔”

— شاہد شاہ

"دعاؤں کی روشنی میں آباد ہوئی دنیا"شام ڈھل رہی تھی، سورج کی آخری کرنیں جیسے کسی ماں کے ماتھے پر پڑنے والی آخری دعا کی ما...
07/04/2025

"دعاؤں کی روشنی میں آباد ہوئی دنیا"

شام ڈھل رہی تھی، سورج کی آخری کرنیں جیسے کسی ماں کے ماتھے پر پڑنے والی آخری دعا کی مانند تھیں۔ میں بیٹے کا ہاتھ تھامے قبرستان کی طرف جا رہا تھا۔ اُس کا ننھا ہاتھ میری انگلی کو مضبوطی سے پکڑے تھا، جیسے زندگی میں جڑنے کی کوئی آخری امید۔ ہم دونوں خاموش تھے، لیکن ہمارے دلوں میں بہت کچھ بول رہا تھا۔

قبر کے قریب پہنچ کر میں رک گیا۔ بیٹے نے پوچھا، “ابو، یہ دادی ہیں نا؟”

میں نے سر ہلایا، آنکھیں نم ہو گئیں۔ "ہاں بیٹا، یہی وہ عظیم ہستی ہیں جن کی دعاؤں سے آج تمہارا باپ سر اٹھا کر جیتا ہے۔"

میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، قبر کے سرہانے ہاتھ رکھا اور کہا، "امی، میں آ گیا ہوں... اکیلا نہیں، اپنے بیٹے کے ساتھ۔ آپ کا پوتا جو آپ کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی... جس کے لیے آپ میری شادی کرانے کے لئے ہر وقت بےتاب رہتی تھی... میرا بیٹا جس کے لیے آپ ہر رات دعا کرتی تھیں کہ اسے وہ زندگی ملے جو میں نہ پا سکا۔"

میرے ماضی کی تصویریں آنکھوں کے سامنے چلنے لگیں۔

دس سال کا تھا جب گھر کا چولہا بجھنے لگا۔ غربت ایسی کہ کبھی پیٹ بھرا نہیں، اور خواہشیں تو جیسے کسی اور ہی دنیا کی چیز تھیں۔ اسی عمر میں گھر سے نکل پڑا، ہاتھوں میں بچپن کی لکیر تھی اور آنکھوں میں ذمہ داریوں کی نمی۔

شروع میں ہوٹل میں کام کیا، میز صاف کی، لوگوں کے بچے کھچے کھانے سمیٹے، برتن دھوئے۔ پھر ایک فیکٹری میں لوڈر بن گیا، صبح شام وزن اٹھاتا، کندھے چھل جاتے لیکن زبان پر شکوہ نہ ہوتا۔ ایک بار امی نے میرے بازو پر نیل دیکھے تو پوری رات میرے سرہانے بیٹھی رہیں۔ ان کی دعائیں میری تھکن کو کھا جاتی تھیں۔

اسی دوران میں نے پڑھائی بھی جاری رکھی۔ رات کے وقت کوچنگ سینٹر کے فلائر بانٹتا تھا، سڑکوں پر کھڑا ہو کر، لوگوں سے التماس کرتا کہ "سر، یہ سنٹر بہت اچھا ہے، بچوں کو کامیاب بناتا ہے۔" دل میں خواہش تھی کہ کبھی میرا بھی کوئی سنٹر ہو، کوئی ایسی جگہ جہاں میں کسی کے نصیب کا دروازہ بنوں۔

پھر ایک دن قسمت نے پہلو بدلا۔ میں ایک اسکول میں ٹیچر بن گیا۔ وہ بھی نوکری ہی تھی، لیکن عزت تھی۔ بچوں کو پڑھاتا، ان کی معصوم باتوں میں جیسے اپنے بچپن کی جھلک دیکھتا۔

لیکن نوکری سے کبھی دل نہیں بھرا۔ بیس سال کی نوکری کے بعد بھی کوئی خواب پورا نہیں ہو سکا۔ ضرورتیں بھی مشکل سے پوری ہوتیں، خواہشیں تو کب کی مر چکیں تھیں۔

پھر پانچ سال پہلے، ایک نیا راستہ کھلا۔

امی نے ایک دن کہا، “بیٹا، کیوں نہ تُو اپنا کچھ شروع کرے؟ تُو محنتی ہے، اللہ برکت دے گا۔” ان کی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو صرف ماؤں کی دعاؤں میں ہوتی ہے۔

میں نے تازہ مچھلی کا آن لائن کاروبار شروع کیا۔ روز فجر سے پہلے اُٹھ کر فِش مارکیٹ جاتا، تازہ مال چُنتا، خود پیکنگ کرتا، خود ہی ڈیلیور کرتا۔ آغاز میں گاڑی نہیں تھی، بائیک پر برف کے ڈبے لے کر گھومتا تھا۔ لیکن امی کی دعائیں میرے ساتھ تھیں۔ چھ مہینے میں کاروبار چل نکلا۔ میں نوکری سے آزاد ہو گیا۔

امی کو میری کامیابی دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ روز میرے لیے دعا کرتیں، میرے بیٹے کو کامیابیوں کا وارث بنا۔"

چھ مہینے بعد وہ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ایسا لگا جیسے میری دنیا ویران ہو گئی ہو، جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔

لیکن پھر میرے بیٹے نے زندگی میں نئی روشنی بھری۔

اُس کے قہقہے، اُس کی شرارتیں، اُس کی معصوم باتیں... یہ سب مجھے جینے کا حوصلہ دیتی رہیں۔ آج جب میں اُسے اپنی زندگی کا سبق دہراتا ہوں، اُسے سچ بولنا سکھاتا ہوں، اُسے محنت کا مطلب سمجھاتا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سا سکون ہوتا ہے۔

اب میں چاہتا ہوں کہ جو زندگی نے مجھے سکھایا، وہ میں اُسے سکھاؤں۔ صرف کتابی تعلیم نہیں، بلکہ دنیا کے وہ تجربے بھی، جو زندگی کی اصل درسگاہ سے ملتے ہیں۔ میں اُسے اپنے ساتھ لے کر فِش مارکیٹ بھی جاتا ہوں، اُسے بتاتا ہوں کہ کون سی مچھلی تازہ ہے، کون سی نہیں۔ اُسے سکھاتا ہوں کہ کسی کو دھوکہ مت دینا، وزن کم مت تولنا، کیونکہ رزق میں برکت صرف دیانت میں ہے۔

قبرستان کی خاموشی میں میرا بیٹا جھک کر بولا، "دادی، میں بڑا ہو کر ابو جیسا بنوں گا، آپ دعا کرنا۔"

میں نے اُسے گلے سے لگا لیا، دل میں ایک نئی امید جاگ گئی۔

امی کی قبر پر پڑا وہ ننھا سا گلاب جیسے کہہ رہا تھا:

"جس بیٹے نے ماں کی دعاؤں سے دنیا بنائی، وہی بیٹا اپنے بیٹے کو ایسی تربیت دے رہا ہے کہ دعائیں نسلوں تک چلیں۔"

یہی اصل کامیابی ہے، یہی اصل میراث ہے۔

امی نے میری شادی نہیں دیکھی... یہ خواب اُن کا کبھی پورا نہ ہو سکا۔ میری شادی اُن کے انتقال کے دو سال بعد ہوئی۔ دل کے ایک کونے میں یہ خلش ہمیشہ رہے گی کہ جن ہاتھوں نے میرے لیے بچپن سے دعائیں کیں، وہ ہاتھ میرے سر پر سہرا بندھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔

لیکن وہ میری کامیابی دیکھ گئیں، یہ میرے لیے سب کچھ ہے۔ انہوں نے وہ دن دیکھ لیا تھا جب اُن کا بیٹا نوکریوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر خود کا مالک بن چکا تھا، جب ایک ماں کی دعاؤں نے ایک بیٹے کو محرومیوں سے نکال کر عزت کی چھاؤں میں کھڑا کر دیا تھا۔

آج... جب بھی وقت ملتا ہے، میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر اُن کی قبر پر آتا ہوں۔ اُسے اُن کے بارے میں کہانیاں سناتا ہوں، اُن کی دعاؤں کے قصے، اُن کی قربانیوں کی باتیں۔ یہ میرا طریقہ ہے اُسے سکھانے کا کہ "والدین کیا ہوتے ہیں، ان کی قدر کیسے کی جاتی ہے، اور اُن کی یاد کیسے دل سے لگائے رکھی جاتی ہے۔"

میں چاہتا ہوں وہ سمجھے کہ جو بھی عزت، کامیابی اور سکون ہمیں ملا ہے، وہ صرف ماں کی دعاؤں اور والدین کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اُسے اپنے بزرگوں سے محبت کرنا آئے، قبرستان آنا، دعا مانگنا، اور اُن چپ خاموش پتھروں میں چھپی کہانیاں سننا آئے۔

آج میرا بیٹا میری دنیا ہے... اور میں چاہتا ہوں کہ میری دنیا، میرے والدین کی روشنی میں پروان چڑھے۔

کیونکہ جنہوں نے میرے لیے سب کچھ کیا، میں چاہتا ہوں کہ اُن کا عکس میری اگلی نسلوں میں بھی زندہ رہے۔

شاہد شاہ

06/04/2025

"کامیابی کے شارٹ کٹ نہیں ہوتے – کورس بیچنے والوں کی حقیقت"

آج کے دور میں ہر طرف کامیابی کے وعدے بکھرے پڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چمکتی گاڑیاں، مہنگے موبائل، دبئی کے ویلا، اور نیچے ایک کیپشن:
"ہم سے سیکھو، ہم نے لاکھوں کمائے، تم بھی کما سکتے ہو!"

مگر سچ یہ ہے کہ کامیابی کی کوئی شارٹ کٹ گلی نہیں ہوتی۔ جو راستے چمکدار دکھائے جا رہے ہیں، وہ اکثر محض دھوکے کی راہ ہوتی ہے۔

میں خود ایک آن لائن کاروبار کرتا ہوں — SeaFood Babu کے نام سے۔ میں بازار سے تازہ مچھلی خریدتا ہوں، اسے صاف ستھرا کر کے لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچاتا ہوں۔ میری کمائی میرے پسینے سے جُڑی ہے، میری آنکھوں کی پہچان سے، میری مارکیٹ کی سمجھ سے۔
اگر کوئی مجھ سے آ کر کہے:
"بھائی، مجھے بھی یہ بزنس سکھاؤ!"
تو میں یہی کہوں گا:
"پہلے مارکیٹ میں خود جا کر مچھلی کو پہچانو، سیکھو کہ تازہ اور باسی میں کیا فرق ہے، پھر کاروبار کا سوچنا۔"

یہ کام الفاظ میں نہیں، تجربے میں سکھایا جاتا ہے۔ اور کوئی بھی عقلمند شخص اپنا خالص تجربہ، محنت، اور کاروباری راز کسی کو ایسے ہی نہیں دیتا۔

آپ کو ایک مثال دیتا ہوں:
کبھی آپ نے دیکھا کہ Pepsi اپنا فارمولا کسی کو دے دے؟
یا McDonald’s آپ کو اپنی سیکریٹ ریسپی سکھا دے؟
یا Jeff Bezos آپ کو Amazon سکھانے بیٹھ جائے؟
نہیں نا! کیونکہ اصل بزنس رازوں پر چلتے ہیں، نہ کہ لیکچرز پر۔

تو پھر سوال یہ ہے:
یہ آن لائن کورس بیچنے والے جو کہتے ہیں "ہم نے لاکھوں کمائے"، وہ چند ہزار کے کورس بیچنے کیوں نکلے؟

اس کا جواب سادہ ہے:
یہ کامیاب نہیں ہوئے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو خود ناکام ہو کر، اب کورس بیچنے کو بزنس بنا چکے ہیں۔ ان کا اصل "پرافٹ" آپ جیسے نوجوانوں کی خواہشات سے جُڑا ہوتا ہے۔

یہ آپ کو دکھائیں گے:

مہنگی گاڑیاں (جو کسی دوست یا رینٹ کی ہوتی ہیں)

دبئی کی ویڈیوز (جو وزٹ ویزا پر لی گئی ہوتی ہیں)

بڑے بینک بیلنس (جو ایڈیٹنگ کا کمال ہوتا ہے)

اور کہیں گے:
"بس یہ کورس لو، اور تم بھی ہماری طرح بن جاؤ!"

لیکن میرے نوجوان بھائیو، یاد رکھو:
کامیابی کسی انسٹاگرام ریل سے نہیں ملتی،
یہ بازار کی خاک چھاننے، تجربے کی ٹھوکر کھانے، اور مسلسل جدوجہد سے ملتی ہے۔

اگر واقعی کچھ سیکھنا چاہتے ہو، تو یوٹیوب پر ہزاروں ویڈیوز موجود ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ماہرین وہاں مفت سکھا رہے ہیں۔
لیکن سیکھنا تبھی کام آئے گا جب عمل کرو گے، جب پریکٹس کرو گے، جب خود میدان میں اترو گے۔

تو اگلی بار جب کوئی آپ کو خواب بیچے، پوچھنا مت بھولنا: "اگر تم واقعی اتنے کامیاب ہو، تو یہ کورس بیچنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟"

یاد رکھو:
جو سچ میں کامیاب ہوتا ہے، وہ کم بولتا ہے اور زیادہ عمل کرتا ہے۔
اور جو بس بولتا ہے... وہ اکثر دوسروں کے خواب بیچ کر خود کا پیٹ بھرتا ہے۔

اصل راز؟
کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔
بس ایک سیدھا راستہ ہے — سیکھنا، سمجھنا، اور مسلسل محنت کرنا۔

شاہد شاہ

06/04/2025

جب سے فیس بک پر واپسی ہوئی ہے تب سے فیس بک کی طرف سے مجھے دو تین طرح کے اشتہارات دکھائے جا رہے ہیں...
پہلا آن لائن کورس (منجن) بیچنے والوں کی...
دوسرا آن لائن جوئے کی (گیم کھیلو پیسا جیتو)...
تیسرا "Shopify" "Temu" "Ali Express" اور "Amazon" جیسے آن لائن پلیٹ فارم کی اور ساتھ ہی مختلف "Hosting provider" کی...
ان دنوں میں نے اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ میں سب سے زیادہ کام ہی "AI" اور مختلف آن لائن پلیٹ فارم پر کیا ہے... جس پر میں نے سب سے پہلے "Daraz" پر اپنا "Seller Account" بنا کر اسے ویریفائے کروا لیا... اب "Daraz" پر مجھے صرف اپنے پراڈکٹس لسٹ کرنے ہیں اور اس کی مارکیٹنگ کر کے کام شروع کر سکتا ہوں... سات ساتھ "Shopify" پر بھی اسٹور بنایا ہے لیکن وہ ٹرائل ورژن ہے... اسے بعد میں اپنے کزن سے ویریفائے کرواؤں گا جو اٹلی کا رہائشی ہے اور ان دنوں میرے ساتھ کراچی میں ہی ہے...
اب میرے موبائل اور لیپ ٹاپ میں موجود تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو معلوم ہو گیا ہے کہ میری "interest" کیا ہے... اب یہ پلیٹ فارمز میرے "Browser" کے سرچ ہسٹری اور "Cookies" کے مدد سے مجھے میرے مطابق اشتہارات دکھا رہے ہیں... ویسے فیس بک پر دکھائے جانے والے یہ تینوں اشتہارات کی کیٹیگری ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے لیکن ان سب میں ایک چیز کامن ہے وہ آن لائن پیسے کمانے کا ذریعہ...
پہلا اشتہار آن لائن کورس بیچنے والوں کی... کیونکہ ان لوگوں کے اشتہارات انہیں لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں جو آن لائن پیسے کمانے کا طریقہ انٹرنیٹ پر سرچ کرتے ہیں... پھر یہ لوگ انہیں ایمازون، شوپی فائی، یا کونٹینٹ کریٹر، بلاگرز سے پیسے کمائیں جیسے منجن بیچتے ہیں اور لوگوں کے لاکھوں روپے کھا جاتے ہیں...
دوسرا آن لائن گیم کے ایپلیکیشن کے ہیں جو کہ ایک "جوا" ہے... یہ بھی سیم انہیں لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں جو آن لائن پیسے کمانے کا طریقہ ڈھونتے ہیں تو انہیں یہ اشتہارات لالچ دکھا کر ایپلیکیشن اسٹال کرواتے ہیں اور پھر انہیں شروع میں گیم کھیلنے پر کچھ رقم جیت کی شکل میں ادا کرتے ہیں جس سے ان کا لالچ بڑھ جاتا ہے پھر آہستہ آہستہ یہ لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیتے... اسی لالچ کی وجہ سے لوگ لاکھوں روپے ڈبو دیتے ہیں حتی کہ ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کی جمع پونجی بھی کھو دیتے ہیں... جب تک ان ایپلیکیشن پر ایکشن لیا جاتا ہے تب تک یہ کروڑوں اربوں کما کر غائب ہو جاتے ہیں...
میری یہ نصیحت یاد رکھیں کہ یہ جو شروع کے دو آن لائن پیسے کمانے کے طریقے ہیں یہ مکمل طور پر فراڈ ہے... ان سے لازمی بچیں...
اب آتے ہیں تیسری کیٹیگری کے اشتہارات جو کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ہیں... یہ کمپنیاں سروسز فراہم کرتی ہیں ان کے اشتہارات صرف انہیں لوگوں کے لیے فائدے مند ہوتے ہیں جو آن لائن خریداری کرتے ہیں یا اس کام کام کے تکنیکی قابلیت رکھتے ہیں اور ان کے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ "Competition" ہوتے ہیں... مثال کے طور پر "shopify" اور "Temu" "Ali Express" یہ ساری آن لائن "Shopping" پلیٹ فارمز ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے پلیٹ فارم سے خریداری کرے اور انہیں فائدہ ہو... اسی طرح جو اپنا آن لائن اسٹور چلاتے ہیں انہیں ویبسائٹ کے لیے ہوسٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے تو ہوسٹنگ کمپنیاں اس طرح کے یوزر تلاش کرتے ہیں... ان کے علاوہ یہ جتنے بھی کورس بیچنے والے ہوتے ہیں ان کی باتوں میں مت آئیں... یہ اپنا کورس بیچ کر ہی آپ سے پیسہ کماتے ہیں... اگر یہ واقعی خود اتنا اچھا بزنس کر رہے ہوتے تو انہیں کیا ضرورت پڑ رہی ہے کہ یہ کورس بیچے... یاد رکھیں کوئی بھی اصل کاروباری شخصیت اپنے کاروبار کا "Secrets" نہیں بتاتا... اگر وہ اپنے کاروبار کا راز اتنے سستے داموں میں بیچ رہا ہے تو اس کا مطلب سادہ سا ہے کہ وہ آپ کو چونا لگا رہا ہے یعنی اس کا کورس ہی اس کا پراڈکٹ ہے اور آپ اس کے خریدار "کنزیومر"... دوسری اس طرح کے ایپلیکیشن سے بھی بالکل دور رہیں جو آن لاین گیم کھیل کر پیسے کمانے کی لالچ دیتے ہوں..
ایسے ایپلیکیشن کی "Development" ہی اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ ہر نئے یوزر کو پہلے چند ہزاروں روپے جیت کے نام پر دیتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ جب انسان کو اس کی عادت پڑ جاتی ہے تو پھر اپنے لوٹنے کا کام شروع کر دیتا ہے اور جب تک انسان ہوش کے ناخن لیتا ہے تب تک اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہوتا...

یہ باتیں میں اس لیے نہیں لکھ رہا کہ میں کوئی ماہر یا بڑا کاروباری بن چکا ہوں... بلکہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میں نے خود ان سب دھوکوں، لالچوں، اور دھندوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے وہ وقت بھی گزارا ہے جب اپنے چھوٹے سے کاروبار کے لیے سارا دن مارکیٹ میں دھکے کھاتا تھا، فشری میں مال چیک کرتا، پیکنگ کرتا، خود ڈلیور کرتا...

تب کہیں جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ پیسہ صرف سیکھنے سے نہیں، بلکہ سمجھنے سے آتا ہے۔
اور سمجھ صرف کورسز یا ویڈیوز سے نہیں، تجربے، مشاہدے اور غلطیوں سے آتی ہے۔

آج اگر میں ڈیجیٹل دنیا میں کچھ قدم رکھ پایا ہوں، تو صرف اس لیے کہ میں نے زمین کی مٹی سے سیکھا ہے، اور خوابوں کی دنیا میں قدم رکھ کر بھی حقیقت کو نہیں بھولا۔

میری نصیحت ان نوجوانوں کے لیے ہے جو صرف انٹرنیٹ پر کمائی کے خواب دیکھتے ہیں:
پہلے خواب نہ دیکھو، مشق کرو۔
پہلے خود کو آزماؤ، وقت دو، صبر کرو۔
اور سب سے بڑھ کر—اپنے دماغ اور نیت کو صاف رکھو۔

فراڈ اور سچ میں صرف ایک چیز کا فرق ہوتا ہے:
ایک وقتی فائدہ دیتا ہے، دوسرا دیرپا عزت۔
تمہیں فیصلہ کرنا ہے تم پیسے کے پیچھے بھاگنا چاہتے ہو یا اپنی شناخت کے پیچھے۔

یاد رکھو...
کامیابی شور سے نہیں، خاموشی سے ملتی ہے۔
دھوکہ ہمیشہ چمک میں لپٹا ہوتا ہے، اور سچائی اکثر سادگی میں چھپی ہوتی ہے۔

اگر تم واقعی آن لائن کچھ کرنا چاہتے ہو،
تو پہلے خود کو آفلائن مضبوط کرو۔

تو بات صرف اتنی سی ہے کہ آج کا ڈیجیٹل زمانہ ایک ایسی کھلی مارکیٹ بن چکا ہے جہاں ہر دوسرا شخص کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہے—خواہ وہ علم ہو یا لالچ۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ واقعی سکھا رہے ہیں، اور کچھ محض دکھا رہے ہیں۔

انٹرنیٹ واقعی ایک نعمت ہے اگر اسے سمجھ کر استعمال کیا جائے۔ لیکن اسی انٹرنیٹ نے لاکھوں کو برباد بھی کیا ہے کیونکہ انہوں نے سیکھنے سے پہلے کمانے کی دوڑ لگا دی۔

میرے لیے، یہ سب ایک لمبا اور مشکل سفر رہا—میں نے آن لائن سے نہیں، بلکہ بازار کی خاک چھان کر سیکھا۔
کبھی گرمیوں کی دوپہریں تھیں، کبھی سرد راتیں... کبھی گاہک کی سخت باتیں، تو کبھی نفع سے زیادہ نقصان۔
مگر انہی دنوں نے مجھے یہ سکھایا کہ اصل سیکھ وہی ہے جو پریکٹیکل ہو، جو نیندیں اڑائے، اور تھکن دے کر کچھ سمجھا جائے۔
پھر جب بازار نے مجھے کاروبار کی نبض سمجھا دی، تب جا کر میں نے آن لائن دنیا میں قدم رکھا، اور سمجھداری سے ہر پلیٹ فارم کو استعمال کیا۔

یاد رکھیے: فراڈ ہمیشہ چمکتے الفاظ میں لپٹا ہوتا ہے۔
اور کامیابی ہمیشہ خاموش محنت کے پیچھے چھپی ہوتی ہے۔

آن لائن دنیا کو اپنا دشمن نہ سمجھیں، مگر آنکھیں بند کر کے اس پر بھروسہ بھی نہ کریں۔
نہ ہر اشتہار سچ ہوتا ہے، نہ ہر پلیٹ فارم فراڈ... فرق صرف آپ کی پہچان اور سمجھ بوجھ کا ہوتا ہے۔

میری طرف سے یہ ایک چھوٹا سا پیغام ہے ان تمام نوجوانوں کے لیے جو آن لائن دنیا میں قسمت آزمانا چاہتے ہیں: پہلے بازار کی بولی سمجھو، محنت کے ذائقے کو چکھو، اور پھر آن لائن دنیا کو اپنی عقل سے استعمال کرو۔

شاہد شاہ

"سناٹے کے اس پار"عیدالفطر کی گہما گہمی گزر چکی تھی۔مہینوں کی عبادت، سحر و افطار کی مصروفیاں، اور عید کی چمک دمک. سب خواب...
05/04/2025

"سناٹے کے اس پار"

عیدالفطر کی گہما گہمی گزر چکی تھی۔
مہینوں کی عبادت، سحر و افطار کی مصروفیاں، اور عید کی چمک دمک. سب خواب سا لگنے لگا تھا۔ کچھ دن یوں گزرے جیسے کوئی بارات دل کے صحن سے گزر گئی ہو: خوشیوں سے بھرپور، مگر تھکا دینے والی۔ مہمان آئے، دعوتیں ہوئیں، قہقہے لگے، بچوں کی آوازیں گونجیں… لیکن کہیں اندر ایک خاموشی تھی جو ہر خوشی کے پیچھے دبکی بیٹھی رہی۔

شہر کراچی نے اپنی عجیب عید دکھائی۔
نہ پارک وہ پارک رہے، نہ ساحل وہ سہانا رہا۔
ہر جگہ بھیڑ، شور، ہارن، اور ایسی بے ترتیبی کہ دل کی دھڑکنیں بھی الجھنے لگیں۔
وہ "Seaview" جیسی جگہیں اب سکون کی بجائے بےچینی کا استعارہ بن چکی تھیں۔

کل جمعے کا دن تھا۔
نماز کے بعد جیسے دل میں کوئی دروازہ کھلا۔
میں نے گاڑی نکالی، بیوی اور بیٹے کو ساتھ لیا، اور رخ کیا شہر سے دور اُس جگہ کا جہاں میری چھوٹی بہن رہتی ہے. ایک ایسی جگہ جہاں نہ رش ہے، نہ شور، نہ بلندو بالا عمارتیں، نہ دھواں، نہ ہارن کی چیخ، نہ زندگی کی دوڑ۔

راستے میں جیسے جیسے شہر پیچھے چھوٹتا گیا، گرد و غبار اترتا گیا۔
فضا صاف ہوتی گئی، ہوا میں ایک نرماہٹ در آئی۔
ہر طرف ویرانی تھی، مگر وہ ویرانی اداسی کی نہیں، راحت کی تھی۔

جب پہنچے تو سامنے کھلے میدان تھے۔
کہیں کہیں پیڑ، کہیں سبزے کی جھلک، اور آسمان… ہاں وہ آسمان جو شہر میں نظر ہی نہیں آتا، یہاں مکمل وسعت سے ہمارے سروں پر جھکا ہوا تھا۔

ہر طرف ایک عجیب سی خاموشی تھی، جیسے وقت تھم گیا ہو۔
نہ گاڑیوں کی آواز، نہ لوگوں کا ہجوم، نہ چیختی دکانیں، نہ دوڑتی زندگی۔
بس پرندوں کی مدھم چہچہاہٹ…
ہوا کا ہلکا سا جھونکا…
اور شام کی جھکتی روشنی۔

میرا بیٹا کھلے میدان میں دوڑنے لگا،
بیوی نے خاموشی سے آسمان کو تکنا شروع کیا،
اور میں. میں اس لمحے کو محسوس کرنے لگا۔

دور درختوں پر بیٹھے پرندے گیت گا رہے تھے،
ہواؤں کے سنگ درخت جھوم رہے تھے،
اور سورج… وہ آہستہ آہستہ افق کی آغوش میں ڈوب رہا تھا،
جیسے تھک کر ماں کی گود میں سمٹ رہا ہو۔

رات ہونے لگی۔
آسمان تاروں سے بھر گیا۔
ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے آسمانی چادر پر چاندی کے ذرے بکھیر دیے ہوں۔

بیوی بیٹے کو گود میں لیے بیٹھی تھی،
میں پاس بیٹھا خاموشی کو سنتا رہا۔
وہ خاموشی جو دعا بن کر دل پر اترتی ہے،
وہ سکون جو بازاروں میں نہیں، فطرت کی آغوش میں ملتا ہے۔

میں نے بیٹے سے کہا:
"بیٹا، یہی اصل پارک ہے… یہاں جھولے نہیں، مگر سکون جھولتا ہے۔"

اور دل نے گواہی دی:
زندگی کی اصل خوشی نہ شور میں ہے، نہ ہجوم میں.
بلکہ ان لمحوں میں ہے جہاں نہ کوئی دکھاوا ہو، نہ کوئی مقابلہ،
بس ایک خاموش سا لمحہ، جو روح کو چھو جائے۔

ہم وہ رات وہیں گزارنے لگے،
کسی دری، تھرماس یا چائے کی ضرورت نہ تھی…
صرف قدرت کافی تھی۔

اور میں سوچتا رہا:
عید کے دن جو عید نہ لگے،
وہ شاید صرف ایک اور دن ہوتا ہے۔
مگر جو دن دل کو سکون دے،
چاہے وہ عید کے بعد کا ہی کیوں نہ ہو.
وہی دن، وہی لمحہ، وہی جگہ… اصل عید ہے۔

شاہد شاہ

02/04/2025

ہوا میں ہلکی خنکی تھی، مغرب کے وقت آسمان پر نارنجی اور سرخ رنگ بکھرے ہوئے تھے، کہیں دور پرندے اپنے گھونسلوں کو لوٹ رہے تھے۔ پھولوں کی مہک، ہلکی چلتی ہوا کے ساتھ ایک مدھم سی موسیقی ترتیب دے رہی تھی۔ پارک میں ہلکی ہلکی روشنی تھی، جیسے قدرت نے دن اور رات کے سنگم پر کوئی خوابیدہ سا منظر بُن دیا ہو۔

اسی خوبصورت شام میں، میں اپنے بیٹے کے ساتھ پارک میں موجود تھا۔ وہ میری انگلی چھوڑ کر بھاگ رہا تھا، ہنستا، کھیلتا، خود جھولوں پر چڑھنے کی ضد کرتا، سلائیڈ پر خود سے چڑھ کر نیچے آتا۔ کل تک جو ہاتھ میری انگلی تھامے بغیر ایک قدم بھی نہ اٹھا سکتا تھا، آج میرے آگے آگے بھاگ رہا تھا۔

"بابا، دیکھو! میں خود جھولا جھول رہا ہوں!" وہ خوشی سے چیخا۔ میں مسکرا دیا، مگر دل میں ایک عجیب سی خلش تھی۔ وقت کتنی تیزی سے گزر رہا تھا۔ کل ہی کی تو بات لگتی تھی جب وہ میری گود میں سمٹا ہوا، معصوم سی مسکراہٹ بکھیرتا تھا۔

میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور اسے دیکھنے لگا۔ وہ بھاگتا، گر کر اٹھتا، دوبارہ دوڑتا۔ بچوں کی توتلی زبان میں اپنی خواہشات بیان کرتا، ضد کرتا، اور اپنی دنیا میں مست تھا۔ اس کے ہر انداز میں معصومیت تھی، لیکن ساتھ ہی ایک خاموش پیغام بھی کہ وہ بڑا ہو رہا ہے۔

مجھے یاد آیا، جب وہ پہلی بار میرے کندھے پر سر رکھ کر سویا تھا، جب پہلی بار اس نے میرے چہرے کو چھو کر مسکرانا سیکھا تھا، جب اس نے پہلی بار "بابا" کہا تھا۔ اور آج؟ آج وہ میری انگلی چھوڑ کر بھاگنے لگا تھا۔

یہی تو زندگی ہے۔ بچے بڑے ہو جاتے ہیں، دیکھتے دیکھتے۔ کل تک جو انگلی تھامے چلتے تھے، آج اپنی دنیا میں دوڑنے لگتے ہیں۔ مگر شاید، ایک باپ کی خوشی اور اداسی اسی لمحے میں چھپی ہوتی ہے۔ خوشی اس کی ترقی کی، اداسی اس کے بچپن کے بیت جانے کی۔

مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ وقت رک نہیں سکتا، بس ہمیں اس کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ ان کے بچپن کو جینا ہوتا ہے، کیونکہ کل کو یہی لمحات ہماری سب سے قیمتی یادیں بن جاتے ہیں۔

شاہد شاہ

**یہ عید تھی، اور ہماری شادی کی تیسری عید۔**دن کے اجالے مدھم ہو رہے تھے، شام کے سائے آہستہ آہستہ زمین پر اتر رہے تھے، او...
02/04/2025

**یہ عید تھی، اور ہماری شادی کی تیسری عید۔**

دن کے اجالے مدھم ہو رہے تھے، شام کے سائے آہستہ آہستہ زمین پر اتر رہے تھے، اور آسمان کی وسعتوں میں چمکتے ستارے کسی خاموش گواہ کی طرح جاگ رہے تھے۔ ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا، قہقہے تھے، رنگ تھے، چمک تھی،
عید کی رونق ہر طرف بکھری ہوئی تھی، جیسے درخت کی شاخوں پر پھول کھل اٹھے ہوں، جیسے بہتا دریا سورج کی روشنی سے سونے کا رنگ لے چکا ہو، جیسے ہوا کے جھونکے کسی گمشدہ خوشبو کو واپس لے آئے ہوں۔ میں نے اپنی بیوی اور بیٹے کی طرف دیکھا- یہ دونوں میری دنیا کی سب سے حسین حقیقت تھے۔ لیکن اس خوشی کے بیچ، کہیں ایک یاد تھی، ایک ادھوری خواہش، ایک حسرت جو میری ماں کی آنکھوں میں تھی مگر پوری نہ ہو سکی۔

میری ماں… وہ عظیم ہستی، جس نے اپنی ہر خوشی میری خوشی پر قربان کر دی، جس نے ہر تکلیف میرے راستے سے ہٹا دی، جس نے میری دنیا کو سنوارنے کے لیے خود کو مٹی بنا دیا۔ وہ ماں جس نے دن رات محنت کی، اپنی نیندیں قربان کیں، اپنے ہاتھوں کی مہندی کو جھاڑو اور برتن دھونے کی لکیروں میں بدل دیا، صرف اس لیے کہ اس کا بیٹا آرام سے سو سکے۔ وہ ماں جو ہر سردی میں خود ٹھنڈ برداشت کرتی رہی مگر میرے لیے گرم لحاف کا انتظام کیا، وہ ماں جس نے میرے کپڑوں کے لیے اپنے خواب ادھورے چھوڑ دیے، اور جس نے میرے مستقبل کی روشنی کے لیے اپنی خواہشات کی لو مدھم کر دی۔

میری ماں کی ایک ہی حسرت تھی، ایک ہی خواب، وہ چاہتی تھیں کہ میری شادی کریں، میری خوشیوں میں شریک ہوں، میری اولاد کو اپنی گود میں کھلائیں، ان کی معصوم مسکراہٹوں کو اپنی دعاؤں سے سیراب کرے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ خواب، جو ان کی آنکھوں میں برسوں سے پل رہا تھا، ان کی آخری سانسوں کے ساتھ ہی بکھر گیا۔ وہ حسرت، جو ان کے دل میں ایک امید کی طرح زندہ تھی، ان کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہو گئی۔

**ماں کا آخری تحفہ**
ایک ماں اپنی اولاد کے لیے کیا کچھ نہیں کرتی! میری ماں نے اپنی ساری زندگی قربانی میں گزار دی، خود کو بھلا دیا، اپنے جذبات کو دبا دیا، صرف اس لیے کہ ان کے بچوں کے چہرے پر خوشی رہے. میری ماں میرے لیے ہمیشہ سے ایک سائبان تھیں، ایک ایسی ہستی، جو خود جلتی رہی مگر مجھے روشنی دیتی رہی۔ ان کی جدائی کے بعد، میرا گھر صرف ایک مکان بن کر رہ گیا۔ وہ چہرہ جو ہر وقت میری راہ دیکھتا تھا، وہ آنکھیں جو میری خوشیوں کی حفاظت کرتی تھیں، وہ ہاتھ جو میرے بالوں کو سہلاتے تھے، سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔
لیکن شاید ماں کی محبت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ اپنے جانے کے بعد بھی میرے لیے روشنی چھوڑ گئیں،
وہ لڑکی جسے انہوں نے اپنی زندگی میں میرے لیے پسند کیا تھا. وہ جسے میرا سہارا بنانا چاہتی تھیں. وہ جو ان کی آخری خواہش تھی، جو ایک ادھوری بات تھی، جو ایک نا مکمل باب تھا، وہ خود تو اسے مکمل نہ کر سکیں، مگر قدرت نے ان کی پسند کو میرا نصیب بنا دیا۔
زندگی کبھی کبھار عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ میں جب بھی اپنی بیوی کو دیکھتا ہوں، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری ماں جاتے جاتے بھی میرا سہارا ڈھونڈ گئی تھیں۔ یہ وہی لڑکی تھی جسے انہوں نے میرے لیے پسند کیا تھا، مگر وہ اپنی زندگی میں یہ بات مکمل نہ کر سکیں۔ میں نے جب اپنی ماں کی پسند کو اپنایا، تو لگا جیسے انہوں نے اپنی آخری دعا میرے لیے یہی مانگی تھی۔

جب میری بیوی میری زندگی میں آئی، تو میں صرف ایک بکھرا ہوا شخص تھا، ایک ایسا شخص جو اندر سے ٹوٹا ہوا تھا، جو زندگی کے ایک حصے میں رہ کر دوسرے حصے میں کھو چکا تھا۔ وہ صرف میری بیوی بن کر نہیں آئی، وہ میری ماں کی دعاؤں کا جواب بن کر آئی، وہ میری ٹوٹی ہوئی دنیا کو جوڑنے کے لیے آئی، وہ میرے اجڑے ہوئے دل میں محبت کی بہار لے کر آئی۔ جس نے میری دنیا میں آ کر میرے ہر زخم پر مرہم رکھا، میرے ٹوٹے ہوئے رشتے جوڑے، میرے گھر کو جنت بنایا۔ وہ خالی کمرہ، جہاں کبھی میری ماں کی پرچھائیاں بسی تھیں، اسے خوشبوؤں سے بھر دیا۔ اس نے میرے بھائیوں کو وہ پیار دیا جو وہ ماں کے بعد ترس رہے تھے۔ وہ میرے لیے صرف بیوی نہیں بنی، بلکہ وہ روشنی بن گئی جس نے میری زندگی کے اندھیروں کو مٹا دیا۔ اس نے میرے بھائیوں کو ماں کا سایہ دیا، وہ ان کی ماں بن گئی، ان کی ہر چھوٹی بڑی خواہش کو پورا کیا، ان کے لیے وہ تمام دعائیں مانگیں جو میری ماں مانگا کرتی تھیں۔ میرے بکھرے گھر کو سنوارا، میرے سونے آنگن میں محبت کی بہار لے آئی۔ وہ ویران گھر جو کسی ویرانے کی طرح لگتا تھا، وہ ہنسی، خوشبو اور محبت کا باغ بن گیا۔ جہاں پہلے خاموش دیواریں تھیں، وہاں اب محبت بھری سرگوشیاں ہیں۔ جہاں پہلے تنہائی کی چیخیں تھیں، وہاں اب قہقہے گونجتے ہیں۔

**میاں بیوی کا رشتہ**
میاں بیوی کا رشتہ شاید اس دنیا کا سب سے حسین رشتہ ہے۔ یہ دو اجنبیوں کو ایک ہی جان بنا دیتا ہے، یہ دو راستوں کو ایک ہی منزل پر لا کھڑا کرتا ہے، یہ دو لوگوں کو اس قدر قریب کر دیتا ہے کہ ان کی خوشیاں، ان کے دکھ، ان کے خواب، سب ایک ہو جاتے ہیں۔ میری بیوی میری زندگی میں صرف محبت بن کر نہیں آئی، بلکہ وہ میرے لیے ایک ایسا سہارا بن گئی، جس نے مجھے زندگی میں دوبارہ جینے کا ہنر سکھایا۔

زندگی کے نشیب و فراز میں، جب میں کمزور پڑا، جب میں ہارنے لگا، جب میں اپنی ماں کی جدائی کے غم میں ڈوبنے لگا، تو اس نے میرا ہاتھ تھاما، مجھے حوصلہ دیا، مجھے یاد دلایا کہ میں اکیلا نہیں ہوں، کہ میں بکھر نہیں سکتا، کہ میں ہار نہیں سکتا۔

**ماں کی خوشبو**
آج، جب میں اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ عید منا رہا ہوں، تو میں جانتا ہوں کہ میری ماں جہاں بھی ہوں گی، خوش ہوں گی۔ وہ اپنے بیٹے کو یوں مسکراتے دیکھ کر سکون محسوس کر رہی ہوں گی، وہ دیکھ رہی ہوں گی کہ ان کا بیٹا، جسے وہ کبھی تنہا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھیں، آج تنہا نہیں ہے۔ انہیں اطمینان ہوگا کہ ان کے جانے کے بعد میں نے ان کی پسند کو اپنایا جس نے میری دنیا کو پھر سے جوڑ دیا۔
وہ دیکھ رہی ہوں گی کہ ان کی تربیت، ان کی محبت، ان کی دی ہوئی زندگی کی روشنی اب بھی قائم ہے۔

یہ دنیا ایک دریا کی طرح ہے، جو ہر چیز کو بہا لے جاتا ہے، مگر کچھ چیزیں اپنے نشان چھوڑ جاتی ہیں- جیسے درخت کی چھال پر کھدی ہوئی پرانی یادیں، جیسے سمندر کی لہروں میں چھپے ادھورے خواب، جیسے وہ خوشبو جو کسی کے جانے کے بعد بھی فضا میں بسی رہتی ہے۔ میری ماں کی محبت ایسی ہی تھی۔ وہ چلی گئیں، مگر ان کی محبت کا لمس آج بھی میری زندگی میں موجود ہے۔ میری بیوی کی صورت میں، میرے بیٹے کی معصوم مسکراہٹ میں، اس گھر کے ہر کونے میں، جہاں اب زندگی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ بکھری ہوئی ہے۔ ان کی قربانی میری زندگی کی ہر سانس میں ہے۔

محبت صرف پانے کا نام نہیں، محبت کبھی کبھی کسی کی آخری دعا کا پورا ہونے کا نام بھی ہوتا ہے۔
اب میں اپنی بیوی کے ساتھ کھڑا ہوں، اپنے بیٹے کو دیکھتا ہوں جو معصوم ہنسی ہنستا ہے، جو دنیا کی سچائیوں سے بے خبر ہے، جو اپنے چھوٹے ہاتھوں سے میری انگلی تھام کر چلتا ہے۔ میں اسے دیکھ کر سوچتا ہوں کہ جب وہ بڑا ہوگا، جب وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرے گا، تو میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ میں چاہوں گا کہ جو خالی پن میں نے جھیلا، وہ کبھی اس کے حصے میں نہ آئے۔

یہ عید محبت کا تہوار ہے، خوشیوں کو بانٹنے کا، اور سب سے بڑھ کر، ان رشتوں کی قدر کرنے کا جو وقت کے ساتھ بکھرنے لگتے ہیں۔

میری دعا ہے کہ ہر کسی کو ایسا پیار ملے جو زندگی کے زخموں کو بھر دے، جو ہر اندھیرے کو روشنی میں بدل دے، اور جو ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں ساتھ رہے۔

یہ عید میری شادی کی تیسری عید تھی، مگر میری ماں کی آخری دعا کی پہلی عید۔

شاہد شاہ

Address

Karachi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when SeaFood Babu posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to SeaFood Babu:

Share

Seafood Babu

We provide the highest quality seafood from the ocean to your door. Making it simple for you to get the best seafood you can find delivered directly to you.