23/04/2025
*کہاں سے لائیں وہ طالب علم؟*
(استاد کی عزت پر ایک جھنجھوڑ دینے والی تحریر)
کبھی علم دین کی حرمت یوں ہوتی تھی کہ شاگرد استاد کی سواری کے قریب بھی احترام سے دبے پاؤں گزرتے، نظریں جھک جاتی تھیں، زبان پر خاموشی اور دل میں تعظیم کا طوفان ہوتا۔ استاد کی جوتی تک مقدّس سمجھی جاتی، اور شاگرد اپنی قسمت پر ناز کرتا کہ اُسے ایک ایسے شخص سے نسبت حاصل ہے جس کے ذریعے اُسے دین کے انمول موتی میسر آ رہے ہیں۔
یاد آتا ہے ایک دن میں اپنے جامعہ میں انجانے میں کسی موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا، فوراً ایک بڑی جماعت کے طالب علم دوڑتے ہوئے آئے، کہنے لگے: "اللہ کے بندے! یہ موٹر سائیکل بڑے استاد صاحب کی ہے، کہیں بے ادبی نہ ہو جائے!"
کیا منظر تھا! دل جھوم اُٹھا، آنکھیں بھیگ گئیں۔ یہ وہ شاگرد تھے جنہوں نے ادب کے خمیر سے سیکھا، جنہیں معلوم تھا کہ علم صرف کتابوں سے نہیں، استاد کی نگاہ، دعا اور ادب سے منتقل ہوتا ہے۔
مگر افسوس!
آج کے دور میں نہ وہ طلب علم کی پیاس ہے، نہ وہ استاد کی توقیر۔
آج اگر استاد کی بات دل کو نہ بھائے، فوراً شکایت، بدتمیزی، اور یہاں تک کہ مطالبہ ہوتا ہے: "استاد کو تبدیل کیا جائے!"
ایک وقت تھا کہ علم کے متلاشی ہزاروں میل سفر کرتے، بیابانوں سے گزرتے، دنوں بھوکے رہتے، صرف اس امید پر کہ شاید ایک حدیث سننے کو مل جائے، شاید ایک فقہی مسئلہ سمجھ آجائے۔
مگر آج؟
آج استاد خود چل کر آتا ہے، لیکن شاگرد کہتا ہے: "ابھی وقت نہیں ہے، مصروف ہوں، نیند آ رہی ہے، دل نہیں چاہ رہا۔"
یہ علم نہیں، یہ علم کی توہین ہے!
یہ صرف بدنصیبی نہیں، یہ نحوست ہے۔
اور افسوس کہ یہ نحوست دینی علوم میں بھی بڑھتی جا رہی ہے، جہاں کبھی ادب، اخلاص، عاجزی اور قربانی کا چراغ جلتا تھا، آج وہاں ناشکری، شکایت، اور غرور کی آگ جلنے لگی ہے۔
میں خود ایک اکیڈمی چلاتا ہوں، میرے پاس جامعہ کے طلبہ بھی آتے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ طالب علم استاد کے خلاف شکایات کا انبار لگا دیتے ہیں، اور جب ان کی شکایت پر استاد صاحب کو بدل دیا جائے یا ان کلاس چینج کر دی جائے ، تو خوشی سے کہتے ہیں: "دیکھا؟ ہم نے یہ کر دیا!"
افسوس! ایسے طالب علم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
نہ علم اُن کے سینے میں اترتا ہے، نہ برکت اُن کے اعمال میں ہوتی ہے۔
ایسے لوگ دنیا میں دربدر پھرتے ہیں، اور آخرت میں بھی رسوائی ان کا مقدر بنتی ہے۔
میں نے خود جید اور سینئر اساتذہ کرام کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں... اُن کی بے توقیری پر جب ان کے دل سے آہ نکلتی ہے، تو سوچو! اُس طالب علم کے نصیب میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟
علم کا نور؟
یا استاد کی دعا؟
نہیں... کچھ بھی نہیں۔
رہ جاتی ہے صرف ایک محرومی، جو دنیا میں بھی اسے بے قرار رکھتی ہے، اور آخرت میں بھی اس کے لئے حسرت بن جاتی ہے۔
یاد رکھو!
ادب وہ سیڑھی ہے جس سے علم اوپر چڑھتا ہے،
استاد وہ دروازہ ہے جہاں سے حکمت کا نور داخل ہوتا ہے۔
جس نے اس دروازے کو ٹھوکر ماری، وہ محروم ہوا، ناکام ہوا، ذلیل ہوا۔
آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں ادب کو زندہ کریں۔
ہماری نسلوں کو یہ باور کروایا جائے کہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں!
اگر علم لینا ہے، تو پہلے جھکنا سیکھو۔
اگر کامیاب ہونا ہے، تو استاد کے قدموں میں بیٹھنا سیکھو۔
ورنہ یہ دنیا بھی تم پر تنگ ہو جائے گی، اور وہ دنیا بھی تمہارے لیے خسارے کا سودا بن جائے گی۔