13/10/2024
سنہری لائٹوں تَلے ،عوام کے جمگھٹے میں نمایاں نظر آنے والا پُر اَسرار چہرہ منظور پشتین کا ہے۔ کُرتا شلوار ہمیشہ پہنتے ہیں اور ساتھ ہی سر کے اوپر پیچھے کو ڈھلکتی سُرخ انقلابی ٹوپی۔کسی سے بات کرتے ہوئے آواز میں بَلا کی نرمی ہے اور مائیک کے سامنے درد بھرا گونج دار لہجہ ہے۔
خدا کی اُس کے گَلے میں عجیب قدرت ہے ، وہ بولتا ہے تو اِک روشنی سی ہوتی ہے
حالات سے لڑتے ہوئے برسوں ہو گئے مگر نصف صدی کے قصۂِ خوں آشام سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ اور نہ ہی یہ شخص ظلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیار ہے۔
کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ اس جنگ میں تمہارا کیا حال ہوا جو تم نے شروع تک نہیں کی۔؟ بموں ، گولیوں ، لینڈ مائنز ڈس پلیسمنٹ ، ماورائے عدالت قتل و غارت اور جبری گم شدگیوں نے اس قوم کو کتنا نقصان پہنچایا ؟
کسی میڈیا ہاؤس نے ان کو توجہ نہیں دی۔ اس نے ہمیشہ اپنی محفلیں آپ سجائیں ، بہت رکاوٹیں ڈالی گئیں ، لوگوں کو مار دیا گیا ، اٹھا لیا گیا مگر مزاحمت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس جرگے کے مناظر ہی دیکھ لیں۔ ریاست ایک خونی ملڑ کے ساتھ بھی کھڑی ہے مگر ان کے خلاف ہے۔ کالعدم قرار دیے جانے اور تین بندے مروانے کے بعد کی صورت حال خود دیکھ لیں۔ کیا زمانے کو گرویدہ بنایا ہے۔
ہماری ریاست کے حق میں یہ نہیں تھا کہ منظور پشتین کو شہرت ملے ۔ اس کی عزت اچھالی گئی ۔ باتیں اڑائی گئیں کہ یہ ایجنسی کا ہی بندہ ہے ورنہ اسے کیوں نہیں اٹھا لیتے یا اسے مار ہی کیوں دیتے ؟ یہ کیسے عجیب لوگ ہیں جنہیں موت ہی اس بات کا یقین دلاسکتی کہ یہ شخص حق پر تھا۔
مگر کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، عزتیں خدا ہی دیتا ہے۔ یہ شخص ڈٹا رہا ، اس نے عام پختون کے لیے آواز اٹھائی ، اُس ماں کے لیے آواز اٹھائی جس کا بچہ اب اُس کے پاس نہیں رہا ۔ اس پختون طالب علم کے لیے اٹھائی جسے آئے دن اٹھالیا جاتا ہے۔ اُس بچی کے سر پر ہاتھ رکھا جس کے باپ کو مالکوں نے مار دیا ہے۔
اِس مظلوم قوم کے لیے منظور نے پی ٹی ایم بنائی، اگر یہ پارٹی بھی نہ ہوتی تو یہ لوگ ناراضی کا اظہار کیسے کرتے ، اپنی پریشانیاں کسے جا کر بتاتے۔ کس کے گلے لگ لگ کر روتے؟
آج ایک شخص ہے ، ایک پارٹی ہے جس نے اپنے سینے پر زخم کھائے ہیں۔ لوگ اس سے بہت پیار کرتے ہیں ،اِس کے گلے لگ لگ کر روتے ہیں اور یہ احساسات ہیں جنہیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔ یہ لوگ مزاحمت کا استعارہ بنے ہیں ۔
اپنی آواز کہیں دور تک پہنچائی ہے اتنی دور کہ وہ آواز پھر برداشت نہیں ہوئی۔ منظور نے اپنے لوگوں کو کھویا ہے ، گیلامن وزیر جب شہید ہوا تو منظور کا لہجہ بھر آیا اور جب تین چار دن پہلے جرگے میں آنے والوں کا خون بہایا گیا ، تین لوگوں کو قتل کر دیا تو اُس مرد مجاہد کا حال پھر وہی تھا۔ وہ ٹوٹ چکا تھا۔
اُس نے پھر بھی اپنے لوگوں سے کہا ۔۔یارو۔۔ہم تو امن کے داعی ہیں نا۔ہم پُر امن رہیں گے اور یہ جرگہ کر کے رہیں گے۔ یہ جرگہ اسی صورت رک سکتا ہے جب یہ ہم سب کو قتل کر دیں گے۔
اگر چہ لوگ منظور کی امن والی باتوں سے تنگ آگئے ہیں۔ وہ اب چاہتے ہیں کہ انہیں مسلح ہونے کا حکم دے دیا جائے۔ اب وہ دشمن سمجھ کر مقابلہ کریں
مگر اُس مَنی ہائسٹ کے پروفیسر لیڈر کے دماغ میں کیا چل رہا ہے یہ صرف وہی جانتا ہے۔ وہ ماریو پوزو کے گاڈ فادر کی طرح اپنے پلان سے کسی کو آگاہ نہیں کرنا چاہتا۔
مگر اِس لیڈر کی بات سنی جانی چاہیے ، اس کو میڈیا پر بلایا جانا چاہیے اور چاہے ریاستی صحافی ہی اس پر تنقید کریں مگر دم ہے تو اس کے سامنے بات کی جائے ، وہ پاکستان کا دشمن نہیں ہے۔
بابر عارف