
08/06/2025
"جب وقت پلٹ آیا: 1948 کی کھوئی پرواز کی حیران کن واپسی"
کبھی کبھی خبریں صرف سرخیاں نہیں ہوتیں، وہ دل کی دھڑکن بن جاتی ہیں۔
ایسی ہی ایک خبر 28 دسمبر 1998 کو فلوریڈا کے میامی ایئرپورٹ پر اُس وقت جنگل کی آگ کی طرح پھیلی، جب کنٹرول ٹاور کو ایک غیر معمولی سگنل موصول ہوا — ایک پرانا، طویل عرصے سے لاپتہ طیارہ، اچانک ایئر اسپیس میں نمودار ہو گیا تھا۔ پائلٹ کی آواز خاموش تھی، مگر طیارہ زمین پر اترنے کے لیے پوری تیاری میں تھا۔ وہ طیارہ کوئی عام جہاز نہ تھا... یہ تھا DC-3 فلائٹ، جو پچاس برس قبل برمودا ٹرائینگل میں لاپتہ ہو گئی تھی۔
جی ہاں!
29 دسمبر 1948 کو سان جوان، پورٹو ریکو سے روانہ ہونے والی یہ پرواز کبھی اپنی منزل، میامی، نہ پہنچ سکی۔ اُس وقت اس کے 32 مسافر اور عملہ اُس میں سوار تھا، جو ہوا میں تحلیل ہو گئے تھے۔ طیارہ، لوگ، سامان — سب کچھ وقت کے پردے میں گم ہو گیا۔ دنیا نے اسے "برمودا ٹرائینگل" کے خونی راز میں شمار کیا اور وقت گزر گیا۔
مگر 1998 کی اُس شام، وقت واپس پلٹ آیا۔
جب انجینئرز اور سیکورٹی اہلکاروں نے طیارے کا دروازہ کھولا، تو جو منظر اُن کے سامنے تھا، وہ سائنسی منطق سے بالاتر اور انسانی حواس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا —
مسافر اپنی نشستوں پر موجود تھے، مکمل طور پر محفوظ مگر ڈھانچوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ کوئی ہلچل، کوئی خوف، کوئی جدوجہد کا نشان نہیں تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ ایک پل میں سو گئے ہوں… ہمیشہ کے لیے۔
طیارہ حیرت انگیز طور پر نہایت صاف ستھرا اور محفوظ تھا۔ کاک پٹ کے آلات جوں کے توں، کھڑکیوں کے پردے، نشستوں پر رکھی ٹوکریاں، مسافروں کی جیبوں میں پڑے ٹکٹ — ہر چیز ویسے ہی موجود تھی جیسے وقت کا پہیہ کبھی چلا ہی نہ ہو۔
یہ واقعہ صرف ایک خبر نہیں، ایک سائنس اور فکشن کے درمیان جھولتی حقیقت بن گیا۔
کیا یہ وقت کا شگاف تھا؟ کیا واقعی خلا میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں وقت تھم جاتا ہے؟
یا کیا برمودا ٹرائینگل صرف ایک جغرافیائی نقطہ نہیں بلکہ کائنات کی کسی پوشیدہ طاقت کا دروازہ ہے؟
سائنس دان کچھ بول نہ سکے۔ نظریات کی فہرست طویل ہے —
وقت کی بتیسی (time slip)،
متوازی کائناتیں (parallel universes)،
مافوق الفطرت طاقتیں (supernatural forces)،
یا محض ایک بہت بڑی انسانی غلط فہمی۔
لیکن میرے لیے یہ کہانی کسی تھیوری سے بڑھ کر ہے۔
یہ ایک ماں کی ممتا کا نوحہ ہے، جو اپنے بیٹے کے نہ لوٹنے پر ہر سال دعاؤں کے چراغ جلاتی رہی۔
یہ ایک بیوی کی آخری خط پر لکھی ہوئی تحریر ہے، جو اب بھی اُس طیارے کی جیب میں رکھی ہو گی۔
یہ اُن 32 زندگیوں کا ثبوت ہے، جو وقت کی عدالت میں خاموشی سے قید ہو گئیں —
اور واپس آئیں… صرف ہڈیوں میں ڈھلی یاد بن کر۔
برمودا ٹرائینگل کے راز شاید کبھی نہ کھلیں۔
لیکن ایک بات طے ہے —
جب وقت پلٹتا ہے، تو صرف گھڑیاں نہیں چلتی... کہانیاں جاگتی ہیں۔۔۔۔۔