01/12/2025
آج کل پنجاب میں ہیلمٹ گردی ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر آپ اس مہم کو ٹریفک قوانین کی ستائیسویں ترمیم ہی سمجھیں۔
ہیلمٹ پہنیں کہ ہیلمٹ بہت ضروری ہے
لیکن پاکستان میں ایک عرصہ تک سوزکی کی اجارہ داری یوں رہی کہ لوگوں کے پاس اس کے علاوہ چھوٹی گاڑی خریدنے کا آپشن ہی نہ تھا۔ یعنی کمپنی نے حکومت کیساتھ مل کر مافیہ کا کام اسطرح کیا کہ ملک میں کسی اور کو چھوٹی گاڑی بنانے یا امپورٹ کا پرمٹ ہی نہ دیا گیا۔ اب بھی عوام کے پاس ایسا سستا آپشن کم ہے کہ ایسی محفوظ گاڑی خریدسکے جس میں ائربیگز اور معیاری سٹف کیساتھ سیفٹی فیچرز زیادہ ہوں۔ ابھی بھی کیری ڈبوں جیسی نئی گاڑیاں بک رہی ہیں جن میں ساتھ والی سیٹ پر ازرائیل صاحب سفر کرتے ہیں۔
یقین مانیں ٹویوٹا کی جن گاڑیوں کی پاکستان میں ہاٹ سیل ہے یوکے میں وہ ایک بھی نہیں ، کیونکہ روڈ سیفٹی ریکوائرمنٹ پر پورا نہیں اترتیں۔ تو آپ عوام کی حفاظت کیلیے ایسی تمام گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ پر پابندی کیوں نہیں لگا دیتے ؟
ہم مانتے ہیں ہیلمٹ بہت ضروری ہے
لیکن وطن عزیز میں ایسا ہی موٹرسائیکل کی ایجاد کیساتھ ہے۔ کچھ کمپنیاں تو نئے موٹرسائیکل بھی سائیڈ مرر کے بغیر بیچتی ہیں اور ٹائر اتنے پتلے، کہ سوار گھوڑے کے گیلے سے پھسل جائے۔ پائیدان اتنے یونیک ہیں کہ پچھلا سوار پائوں پہیے میں دے بیٹھتاہے، خاص کر بچے اور بیٹیاں۔ چادر، دوپٹے پہیمے میں آنے سے کتنی اموات ہو چکی ہیں لیکن کسی نے ڈیزائن نہیں بدلوایا۔ کیا سرکار اس ڈیزائن کو امپروو نہیں کروا سکتی؟
ہم مانتے ہیں ہیلمٹ بہت ضروری ہے
لیکن پیدل سڑک کراس کرنے کو اووربرج نہیں ہیں اگر ہیں تو اتنے اونچے کہ ہمارے 50 سال سے اوپر والے بزرگ ہفتہ پائے کھائیں تو شاید پھر بھی برج چڑھتے پائے کام نہ کریں۔ تو اگر شاپنگ مالز میں الیکٹرک لفٹس لگ سکتی ہیں تو سرکار کیوں نہیں ایسا کرتی؟ کہ ایسے اووربرج بنائے جہاں بزرگوں اور مفلوج شہریوں کیلیے لفٹ کا آپشن الگ ہو، بٹن دبایااور سڑک کراس۔ بیشتر سڑکیں ساٹھ ساٹھ فٹ چوڑی ہیں، دوطرفہ ہیں لیکن نقشہ میں کہیں بھی روڈ کراسنگ کیوں نہیں کھینچتے۔ اگر برج نہیں بنانے تو آپ مہذب ممالک کی طرح روڈ کراسنگ کیلئے ایسا لائٹ سسٹم انسٹال کیوں نہیں کرتے؟کہ جدھر سڑک کنارے کھڑا شہری بٹن دبائے اور ٹریفک لائٹ ریڈ ہو ہونے پرآسانی سے سڑک کراس کر لے۔
ایک دفعہ آندھی سے ایکسپریس وے فیصل آباد پر گٹ والا کے قریب شام کو درخت گر گیا جس سے آدھی سڑک بند ہو گئی۔ ہم ذرا ریلیکس بیٹھے تھے۔ دوست نے ہم سے کہا آصف سدھو! ذرا واپڈا سٹی چلیں۔ تو گزرتے، وہ گرا ہوا درخت دیکھا۔ واپس آکر جاب سے فارغ ہو کر دوبارہ اسی رستے گھر جا رہے تھے۔ تب اندھیرا ہو چکاتھا۔ جب درخت کے پاس پہنچے تو 1122 والے دو جوانوں کی میت پر سفید چادریں ڈال رہے تھے اور لوگ جمع تھے۔ کہتے اندھیرے میں درخت دکھائی نہ دینے سے حادثہ ہو گیا ہے۔
تو بتانا یہ تھا کہ پی ایچ اے اور کارپوریشنز کا کونسا کوئی ایمرجنسی نمبر اور رسپانس ٹیمیں ہیں۔ سال میں آٹھ مہینے گرم ہیں اور آندھیاں چلتی ہیں۔ بل بورڈز گرتے ہیں، درخت ٹوٹتے ہیں، ٹریفک سائن بورڈ سڑک پر اکھڑ جاتے ہیں اور مسافروں کے پاس رابطے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ جو گزرتے ہوئے ہیلپ لائن پر متعلقہ ادارے سے رابطہ کریں اور رسپانس ٹیمیں کٹر اور لوڈر وغیرہ کیساتھ موقع پرپہنچ جائیں۔
ہم مانتے ہیں ہیلمٹ بہت ضروری ہے
لیکن سڑکوں پر جگہ جگہ غیر قانونی سائیڈ کٹ ہیں کوئی کسی صاحب کے پٹرول پمپ کیلیے، تو کوئی کسی کے شاپنگ مال کیلیے رشوت لیکر بنانا پڑا، ہمیں ایک دفعہ اس پر رپورٹنگ کرنے کو سوجھی تو اکیلے کینال روڈ فیصل آباد پر 19 غیرقانونی سائیڈ کٹ تھے۔
وہ اب بھی ہیں اور آپ کہتے ہیں شہری رانگ سائیڈ سے نہ آئیں۔ کمال کرتے ہیں! آپ نے خود مسافروں کا رائیٹ سائیڈ پر چلنا مشکل بنا رکھا ہے۔
چالان اس وقت ہوتے ہیں جب ٹریفک کی مکمل سہولیات فراہم کر دی جائیں۔ روڈ مارکنگ، لائننگ، جدید ٹریفک لائٹس، پارکنگ سپاٹس، کہاں موٹرسائیکلز رکیں گی اور کس طرف ہیوی ٹریفک، محفوظ فٹ پاتھ، ریفلیکٹرز، سڑک کناروں پر کیٹ آئیز وغیرہ کل ملا کرکوئی 70 ذمہ داریاں ہونگی جو لازم ہیں اور آپ نے ایک بھی مکمل نہیں کی۔ اورمسجدوں میں اعلان کروا کر مہم چلاتے پھر رہے ہیں۔ آپ نے قانون پر عمل کروانے کیلیے مہم کا کوئی قانونی طریقہ کیوں نہیں اپنایا ؟ مندرجہ بالا کام شروع کرواتے تو مہم کتنی اچھی ہوتی اور روڈ یوزرز آگاہ ہو جاتے۔ لیکن آپ نے اس کام کیلئے مسجدوں میں اعلان کروانے کاعجیب اچھوتاآئیڈیا پسند کیا۔ ہم نے وہ اعلان سنا اور عش عش کر اٹھے کہ چیف ٹریفک آفیسر بھی تو بیوروکریٹ ہی ہوتے ہیں۔
ہیلمٹ بہت ضروری ہے
لیکن سڑک پر جدھر مرضی ہیوی ٹرالر، ٹرک اور ڈمپر کھڑے ہوتے ہیں گاڑی ان میں ٹکراتی ہے اور پوری فیملی اللہ کی سپرد ہو جاتی ہے۔ ہر سال سردیوں اور دھند میں ایسے کتنے حادثات ہو رہے ہیں تو یہاں آپ کی ڈیوٹی صرف اتنا کہ دینا ہے کہ بیک پر ریفلیکٹر لگائیں؟
آپ کی سرکاری مشینری ادھر پہنچے اور آدھ گھنٹے میں پارک شدہ گاڑی اٹھا کر سڑک سے نیچے رکھے، اس کے گرد ریفلیکٹر پٹی لگائے اور جب تک سڑک کلئیر نہ ہو سرکاری گاڑی کے اوپر وارننگ لائٹس آن رہیں، کونز لگا کر متبادل راستہ بنائیں۔
ایسے حادثہ میں جانحق ہونیوالوں کا قاتل کون ہے؟
مس مریم! ایک آپ ہی تو پڑھے لکھے ہیں۔
ہم مانتے ہیں ہیلمٹ بہت ضروری ہے
لیکن کیا زندہ رہنے کو صرف ہیلمٹ ہی ضروری ہے؟؟
مداری نامہ
منقول
Disclaimer: The following content is for the informational, awareness and journalistic purposes only..