08/10/2025
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام:
- 8 اکتوبر 2025
“آج اورکزئی کے علاقے میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر نہایت افسردہ ہوں۔ ملٹری آپریشنز میں ہر طرف صرف پاکستانی ہی شہید ہو رہے ہیں، چاہے وہ عام شہری ہوں، پولیس والے ہوں یا فوجی۔ آج کی شہادتوں میں ایک کرنل اور میجر بھی شامل ہیں جو انتہائی افسوس کی بات ہے۔ تمام شہداء کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعاگو ہوں۔
ملک پر مسلط مافیا کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کی بدترین صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اس سال دہشتگردی کے ریکارڈ واقعات ہوئے ہیں جن میں جس بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اس کی مثال ملنا مشکل ہے، جبکہ سال کے اختتام میں ابھی دو مہینے باقی ہیں۔ میں پہلے بھی بارہا کہہ چکا ہوں کہ خیبرپختونخوا سمیت ملک میں دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے چار اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت ناگزیر ہے جن میں خیبرپختونخوا حکومت، قبائلی علاقوں کی عوام، افغان حکومت اور افغان عوام شامل ہیں۔ موجودہ رجیم نے جنگ و جدل کی جو پالیسی اپنائی ہوئی ہے، وہ حالات کے مزید بگاڑ کی وجہ بن رہی ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت کو بارہا ہدایات دیں کہ خیبر پختونخوا میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف شروع کیے گئے غیرضروری ملٹری آپریشنز کے خلاف کھڑی ہو، ہمارے دور میں ان تمام علاقوں میں امن قائم ہو چکا تھا، لیکن انتہائی دکھ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت میرے امن کے ویژن پر عملدرآمد میں کامیاب نہیں ہوسکی اور اپنے آپ کو وفاقی حکومت اور سیکیورٹی ایجینسیوں کی جنگی پالیسیوں سے ایسے دور نہیں رکھ سکی جس طرح ضرورت تھی۔ ایسے میں خیبرپختونخوا حکومت میں تبدیلی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ میں خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ کی ذمہ داریاں سہیل آفریدی کے سپرد کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔
ڈرون حملوں، جیٹ طیاروں اور مارٹر گولوں کے ذریعے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی پالیسی انتہائی بیوقوفانہ حکمت عملی ہے، جس کے باعث ملک دہشتگردی کے منحوس چکر سے کبھی نکل نہیں پایا۔ آج دہشتگردی کے واقعے میں ہونے والی شہادتوں کے بعد ہماری سیکیورٹی فورسز جواباً کاروائی کریں گی جس کے نتیجے میں دوسری جانب سے پھر ردعمل آئے گا اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
ہمارے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں دہشتگردی ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر تھی۔ باوجود اس کے کہ اس وقت افغانستان میں بھارت نواز اور پاکستان مخالف اشرف غنی کی حکومت تھی۔ ایسے میں، میں نے ذاتی حیثیت میں افغانستان کا دورہ کیا اور اشرف غنی کو بھی دوطرفہ تعلقات میں بہتری کیلئے پاکستان دورے کی دعوت دی۔ تعلقات بحالی کی عملی کوششوں اور موثر حکمت عملی کے باعث ملک میں بدامنی کے ایسے واقعات نہیں ہوئے جیسے آج ہورہے ہیں۔
دوسری جانب اقتدار پر قابض موجودہ حکمرانوں نے افغانستان میں نئی بننے والی حکومت سے تعلقات کی بہتری کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ بلکہ چالیس سال کی مہمان نوازی کے بعد جس طریقے سے افغان پناہ گزینوں کو بے عزت کر کے ملک بدر کیا گیا وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ بلاول بھٹو ایک سال سے زائد وزارتِ خارجہ کے منصب پر براجمان رہا اور تمام دنیا گھومنے کے باوجود، تاریخ کے اس انتہائی اہم موڑ پر ایک مرتبہ بھی کابل نہیں گیا اور نہ ہی افغان حکومت سے تعلقات کی بہتری کیلئے رابطہ کیا۔
دیرپا قیامِ امن کے لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کو بڑے تناظر میں دیکھا جائے، تمام فریقین مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے معاملات حل کریں۔ میں پُرامید ہوں کہ خیبرپختونخوا حکومت میں تبدیلی سے نئی شروعات ہوں گی۔ عوامی نمائندوں، جرگوں اور قبائل سے معاونت حاصل کی جائے گی، دہشتگردی کے مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے تمام فریقین بات چیت کے ذریعے معاملہ فہمی سے دیرپا حل دریافت کریں گے۔ مجھے پوری توقع ہے کہ میری ہدایات کے عین مطابق نئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی میرے ویژن، قبائلی روایات اور عوامی امنگوں کی روشنی میں وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا میں امن کے بہترین فارمولے پر عمل کروانے اور دیر پا امن کے قیام میں بہترین کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔”