07/09/2025
🐎 پاکستان میں گدھے کا گوشت سستا کیوں ہے؟ چینی طبّی صنعت کا اثر
پاکستان میں گدھے کے گوشت کی کم قیمت اور دستیابی نے کئی لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا کیے ہیں۔ یہ مسئلہ محض مقامی معاشیات تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے بین الاقوامی تجارت، ثقافتی عقائد، اور عالمی طلب و رسد کے پیچیدہ عوامل کارفرما ہیں۔ خاص طور پر چین کی گدھے کی کھالوں کی بڑھتی ہوئی مانگ نے پاکستان کے غریب طبقوں اور جانوروں کی بقا دونوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس مضمون میں ہم گدھے کے گوشت کی سستی کی وجوہات، چین کی برآمدات، اور اس کے معاشرتی و اقتصادی نتائج پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
🔍 1: گدھے کی کھال کی عالمی مانگ اور چینی صنعت
چین کی روایتی طبّی صنعت میں ای-جیاؤ (ejiao) نامی مادّہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے، جو گدھے کی کھالوں کو ابال کر تیار کیا جاتا ہے۔ اسے تھکاوٹ دور کرنے، قوت مدافعت بڑھانے، انیمیا (خون کی کمی) کے خلاف، اور حتیٰ کہ ٹیومر کی روک تھام کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے . چین میں ای-جیاؤ کی صنعت کا بازار 8 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، اور اس کی پیداوار میں گزشتہ پانچ سالوں میں 160% تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے . اس طرح ہر سال تقریباً 5.9 ملین گدھے کی کھالیں درکار ہوتی ہیں .
چین میں گدھوں کی آبادی میں 80% کی کمی واقع ہوئی ہے (1990 میں 11.1 ملین سے گر کر 2022 میں صرف 0.86 ملین رہ گئی) . اس کمی نے چینی صنعت کو افریقہ، جنوبی امریکہ اور ایشیا جیسے خطوں سے درآمدات پر مجبور کر دیا۔ فروری 2024 میں افریقی یونین نے گدھے کی کھالوں کی تجارت پر 15 سالہ پابندی عائد کردی، جس کے بعد چین کی توجہ کا مرکز پاکستان کی طرف منتقل ہو گیا .
📊 2: پاکستان میں گدھے کے گوشت کی سستی کی وجوہات
پاکستان میں گدھے کا گوشت相对 سستا ہے، جس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
✅ (ا) گدھے کی کھال کی برآمد سے پیدا ہونے والا اضافی گوشت
چینی کمپنیاں بنیادی طور پر گدھے کی کھال خریدتی ہیں، جو ای-جیاؤ کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ slaughtering کے بعد بچنے والا گوشت مقامی طور پر فروخت کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک بائی پرڈکٹ (by-product) ہے اور اس کی مانگ محدود ہے، اس لیے اس کی قیمت کم ہوتی ہے .
✅ (ب) مقامی ثقافتی و مذہبی عقائد
پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، جہاں گدھے کا گوشت حلال نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے مقامی آبادی میں اس کی مانگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ زیادہ تر صارفین غیر مسلم یا پھر وہ لوگ ہیں جو معاشی مجبوریوں کے تحت سستے گوشت کی طرف رجوع کرتے ہیں .
✅ (ج) غیر قانونی slaughtering اور سپلائی میں اضافہ
چینی مانگ کو پورا کرنے کے لیے پاکستان میں غیر قانونی slaughtering کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، اسلام آباد کے Tarnol علاقے میں ایک فارم ہاؤس سے 1,000 کلوگرام گدھے کا گوشت برآمد کیا گیا، جسے ایک غیر ملکی قومی کی قیادت میں بیرون ملک برآمد کیا جا رہا تھا . ایسے غیر قانونی operations سے مارکیٹ میں گوشت کی سپلائی بڑھ جاتی ہے، جس سے قیمتیں مزید گر جاتی ہیں۔
✅ (د) چینی سرمایہ کاری اور پاکستان میں slaughterhouses
چینی کمپنیوں نے پاکستان میں گدھے کی کھالوں کی پروسیسنگ کے لیے slaughterhouses قائم کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، گوادر میں ہانگینگ ٹریڈ کمپنی نے 7 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک جدید slaughterhouse قائم کیا ہے، جو سالانہ 300,000 کھالیں پروسیس کر سکتا ہے . اس طرح کے پراجیکٹس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گوشت کی مقامی فروخت بھی قیمتوں پر دباؤ ڈالتی ہے۔
Table: پاکستان میں گدھے کی آبادی اور تجارت کے اہم اعداد و شمار
اشاریہ عدد حوالہ
پاکستان میں گدھوں کی کل آبادی (2024-25) 6.047 ملین
گزشتہ ایک سال میں آبادی میں اضافہ 109,000
گوادر slaughterhouse کی سالانہ صلاحیت 300,000 کھالیں
پاکستان سے چین کو برآمد ہونے والی کھالیں (2023) 157,094
⚖️ 3: معاشی و معاشرتی اثرات
گدھے کی کھالوں کی تجارت کے پاکستان پر گہرے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
📈 مثبت اثرات:
· زرِمبادلہ کے حصول کا ذریعہ: گدھے کی کھالوں کی برآمد سے ملک کو قیمتی زرِمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
· روزگار کے مواقع: چینی سرمایہ کاری سے متعلقہ صنعتوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
📉 منفی اثرات:
· مقامی استعمال کنندگان پر مالی بوجھ: گدھے غریب ترین لوگوں کے لیے آمدن کے اہم ذریعے ہیں جو نقل و حمل اور مزدوری کے کام آتے ہیں۔ کھالوں کی مانگ کی وجہ سے گدھے کی قیمتیں 2 لاکھ سے 3 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہیں، جو کہ آٹھ سال پہلے صرف 30,000 روپے تھیں . اس طرح عام مزدور کے لیے گدھے خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔
· غیر قانونی تجارت اور صحت کے خطرات: غیر قانونی slaughtering نہ صرف جانوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا سبب بن رہی ہے بلکہ غیر معیاری گوشت کے ذریعے صحت عامہ کے لیے بھی خطرہ پیدا کر رہی ہے .
· آبادی پر دباؤ: اگرچہ پاکستان میں گدھوں کی آبادی اس وقت مستحکم ہے، ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر چین کی مانگ اسی طرح برقرار رہی تو مستقبل قریب میں گدھوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو سکتی ہے، جیسا کہ افریقہ کے ممالک میں دیکھا گیا .
💡 4: حکومتی ردعمل اور regulations
پاکستانی حکومت اس معاملے پر متضاد رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ ایک طرف تو اس نے چین کے ساتھ برآمدی پروٹوکولز پر دستخط کیے ہیں اور قانونی slaughterhouses کے قیام کی اجازت دی ہے تاکہ معیشت کو فائدہ ہو اور غیر قانونی تجارت پر قابو پایا جا سکے . دوسری طرف، بعض صوبائی حکومتیں، جیسے کہ خیبر پختونخوا، نے پرائیویٹ چینی کمپنیوں کے ایسے proposals مسترد کر دیے ہیں جن کا مقصد صرف گدھے خرید کر چین لے جانا تھا، کیونکہ اس سے مقامی آبادی متاثر ہوتی .
اسلام آباد فوڈ اتھارٹی (IFA) جیسے ادارے غیر قانونی slaughtering پر چھاپے مار رہے ہیں اور عوام میں آگاہی بڑھا رہے ہیں . نیز، یہ یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گدھے کے گوشت کو مقامی بازاروں میں بیف کے طور پر نہ بیجا جا سکے، کیونکہ یہ ایک حساس مذہبی اور ثقافتی مسئلہ ہے .
🧐 5: مستقبل کے امکانات اور سفارشات
مستقبل میں اس صنعت کے پائیدار ہونے کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ گدھے کم reproduction rate رکھتے ہیں (مادہ ایک وقت میں صرف ایک بچھڑا پیدا کرتی ہے اور حمل کا دورانیہ طویل ہوتا ہے)، اس لیے بڑے پیمانے پر فارمنگ کے باوجود مانگ کو پورا کرنا مشکل ہو سکتا ہے . ماہرین کے مطابق، اس بات کا خدشہ ہے کہ پاکستان انہی مسائل کا سامنا کر سکتا ہے جو افریقی ممالک نے کیے، جہاں گدھوں کی چوری اور تیزی سے کمی واقع ہوئی .
کچھ ممکنہ سفارشات میں شامل ہیں:
· پائیدار فارمنگ کو فروغ: گدھوں کی آبادی برقرار رکھنے کے لیے breeding centers قائم کیے جائیں۔
· سخت regulations: برآمدات اور slaughtering کے لیے واضح قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
· مقامی برادریوں کی حفاظت: غریب طبقے جو گدھوں پر انحصار کرتے ہیں، ان کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔
· متبادل ذرائع کی تحقیق: چین کی طبّی صنعت کے لیے ای-جیاؤ کے متبادل ذرائع دریافت کرنے پر کام کیا جائے۔
✅ اختتامیہ
پاکستان میں گدھے کے گوشت کی سستی کی بنیادی وجہ چین کی طبّی صنعت کے لیے گدھے کی کھالوں کی بھاری مانگ ہے، جس کے نتیجے میں گوشت ایک سستا بائی پرڈکٹ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ صورتحال ایک پیچیدہ بین الاقوامی معیشت، مقالی ثقافتی اقدار، اور معاشی مجبوریوں کا امتزاج ہے۔ اگرچہ اس تجارت سے ملک کو کچھ معاشی فائدہ ہو رہا ہے، لیکن اس کے طویل مدتی منفی اثرات جیسے کہ مقالی آبادی پر بوجھ، غیر قانونی سرگرمیاں، اور گدھوں کی آبادی کے خاتمے کا خطرہ، بھی قابل غور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پائیدار پالیسیاں اپراتے ہوئے بین الاقوامی تجارت اور مقالی مفادات کے درمیان توازن قائم کرے۔
Shopkeeper DukanDar