
29/06/2025
رٹا بازی کی اجتماعی نفسیات : خود سیکھنے کے بجائے دوسروں کو الزام۔۔۔۔وحید مراد
جب بھی ہمارے ملک میں کوئی بڑا سانحہ یا حادثہ ہوتا ہے تو عوام کا سب سے پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے کہ یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ وفاقی وزراء بیان دیتے ہیں کہ یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی وہ کیوں سوئی رہی؟ صوبائی حکومت جواب دیتی ہے ہمارے پاس وسائل کی کمی تھی ،فوج اور وفاقی حکومت ہماری مدد کو کیوں نہیں آئی؟ یقیناً یہ سب ادارے اپنی جگہ ذمہ دار ہیں، ان کی کوتاہیاں بھی حقیقت ہیں۔ مگر کیا ہم بحیثیت قوم اپنی کوئی ذمہ داری نہیں رکھتے؟ کیا ہم بالکل بے قصور ہیں؟
اصل مسئلہ صرف حکومتوں اور اداروں کی ناکامی نہیں بلکہ رٹا بازی کی اجتماعی نفسیات ہے۔ یہ وہ ذہنیت ہے جو ہمیں صرف الزام دینا سکھاتی ہے،خود سیکھنے، بدلنے اوراپنی اصلاح کرنے کی ہمت نہیں دیتی۔ ہم نے بچپن سے ہی رٹے لگانے کی عادت اپنا رکھی ہے بغیر سمجھے، بغیر تحقیق کیے بس یاد کر لینا اور دہرا دینا۔ یہی روش اب ہماری اجتماعی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ ہر مشکل میں ہم خود کو نہیں دیکھتے بلکہ ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
بطور قوم ہمارا یہ طرز عمل بہت خطرناک ہے۔ ہم وارننگ کو مذاق سمجھتے ہیں، احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو بزدلی سمجھتے ہی اور خطرات کو تقدیر کا کھیل کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جب کوئی آفت آجاتی ہے تو ہجوم لگاتے ہیں، ویڈیوز بناتے ہیں اور مشکل میں پھنسےلوگوں کی مدد کرنے کے بجائے تماشا دیکھتے ہیں۔ یہ لاپرواہی محض ایک غلطی نہیں بلکہ گہری نفسیاتی بیماری ہے جس کی جڑ یں رٹےبازی کےکلچر میں پیوست ہیں۔
حال ہی میں سوات میں جو المناک سانحہ پیش آیا وہ اس ذہنیت کی واضح مثال ہے۔ بارشوں اور دریاؤں کی طغیانی کی وارننگ کئی دن پہلے دی جا چکی تھی۔ لیکن سیاح اور مقامی لوگ اپنی ضد اور لاپرواہی کے باعث خطرناک مقامات پر چلے گئے، دریا کے کنارے کیمپنگ اور پکنک کرتے رہے۔ حادثے کے وقت بھی جو لوگ محفوظ تھے انہوں نے فوری مدد کرنے کے بجائے ویڈیوز بنائیں، تماشہ دیکھتے رہے اور بعد میں سب نے حکومتوں اور اداروں کو برا بھلا کہا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران، وزراء، وزرائے اعلیٰ، سرکاری افسران حتیٰ کہ اعلیٰ فوجی حکام تک اسی رٹا بازی کی نفسیات کا شکار ہیں۔ ان کے پاس بھی رٹے رٹائے بیانات ہوتے ہیں: "ہم نے نوٹس لے لیا ہے،کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں،تحقیقات ہوں گی،ذمہ داروں کو نہیں چھوڑا جائے گا" لیکن نتیجہ صفر۔ عملی میدان میں نہ تیاری نظر آتی ہے، نہ بروقت اقدامات، نہ شفافیت۔
ان کے پاس نہ دور اندیشی ہے، نہ ہنگامی حالات کی تربیت، نہ عوامی شعور بیدار کرنے کا کوئی حقیقی منصوبہ۔ فوٹو سیشن، نمائشی بیانات اور سوشل میڈیا کی پوسٹس پر زور مگر زمینی حقیقت میں کوئی عملی تبدیلی نہیں آتی۔
ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر یہی رٹا بازی غالب ہے۔ امتحان میں نمبر کم آئیں تو استاد پر الزام، صحت خراب ہو تو ڈاکٹر پر الزام، کاروبار میں نقصان ہو تو حکومت پر الزام۔ اس رویے نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔
حقیقی تعلیم کا مقصد ذمہ داری قبول کرنا، خطرات کا ادراک کرنا اور عملی زندگی میں شعور اور بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ایک سچا سیکھنے والا شخص اپنے عمل کی ذمہ داری لیتا ہے، اپنی حفاظت کے لیے پیشگی تدابیر اختیار کرتا ہے اور دوسروں میں بھی شعور پیدا کرتا ہے۔ وہ الزام تراشی میں وقت ضائع نہیں کرتا بلکہ حل تلاش کرتا ہے اور خود مثال بنتا ہے۔
اب سوال یہ ہےکہ کب تک ہم اسی رٹا بازی میں پھنسے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنی ناکامیوں پر کوستے رہیں گے، اپنی غلطیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈالتے رہیں گے؟ کب ہم سچ میں سیکھنے والے، باشعور، اور ذمہ دار شہری بنیں گے؟
اگر ہم نے اب بھی اپنی سوچ اور رویہ نہ بدلا تو مستقبل میں ہمارے حصے میں صرف سانحات، ماتم اور الزام تراشی ہی رہ جائے گی۔ حکومتیں اور ادارے اپنی جگہ اہم ہیں مگر اصل طاقت قوم کی اجتماعی سوچ میں ہوتی ہے۔
آج وقت ہے کہ ہم رٹا بازی کی زنجیروں کو توڑ کر حقیقی علم، ذمہ داری اور شعور کو اپنا شعار بنائیں۔ یہی واحد راستہ ہے اور یہی ہماری بقا کی ضمانت ہے۔