27/08/2025
جب کسی ملک میں آبادی تیزی سے بڑھتی جائے مگر رہائش اور شہروں کی منصوبہ بندی اُس رفتار سے نہ ہو، جب بے ہنگم بستیوں کا پھیلاؤ جاری رہے، جب جنگلات کو کاٹ کر زمین کو ننگا کر دیا جائے، جب دریاؤں کے کنارے پر قبضے کر کے پانی کے قدرتی راستے بند کر دیے جائیں، اور جب موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو مسلسل نظر انداز کیا جائے تو پھر تباہ کن سیلاب، ہزاروں انسانی جانوں کا نقصان، کھڑی فصلوں کی بربادی اور بستیاں ڈوب جانا کوئی انہونی بات نہیں رہتی۔ یہ تو ایک ناگزیر حقیقت ہے!
📊 چند حقائق اور اعداد و شمار:
پاکستان دنیا کے اُن 10 ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرات کا شکار ہیں۔
صرف پچھلے 70 برسوں میں پاکستان میں جنگلات کی شرح 33 فیصد سے کم ہو کر محض 5 فیصد رہ گئی ہے۔
2022 کے سیلاب میں 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد براہ راست متاثر ہوئے اور تقریباً 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔
دریاؤں اور برساتی نالوں پر قبضوں اور غیر قانونی تعمیرات نے پانی کے قدرتی بہاؤ کو روک دیا جس نے تباہی کو کئی گنا بڑھا دیا۔
سوال یہ ہے کہ:
کیا ہم ہر بار اپنی غفلت اور بدانتظامی کا خمیازہ سیلاب، قحط اور تباہی کی صورت میں بھگتتے رہیں گے؟
یا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سنجیدہ شہری منصوبہ بندی، جنگلات کی بحالی، قدرتی وسائل کے تحفظ، ڈیموں اور نکاسیٔ آب کے جدید نظام پر عملی اقدامات کریں؟
اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو آنے والی نسلیں ہماری غفلت کی سزا بھگتیں گی۔
hashtag hashtag hashtag hashtag
hashtag hashtag hashtag hashtag
hashtag hashtag hashtag hashtag
hashtag hashtag hashtag hashtag
hashtag hashtag hashtag hashtag