Deen e Islam

Deen e Islam میرے سرکار نور مجسم سلطان دو جہاں سرور قونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایہ: �
تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سیکھایا ��

با پردہ اور بے پردہ
22/05/2025

با پردہ اور بے پردہ

15/02/2025

_*✍700 کروڑ روپے قذافی اسٹیڈیم پر لگا دیا گیا🖐️اسٹیڈیم پر لگے پیسوں😡*_
_*👆کے حوالے سےرہنماتحریک لبیک علامہ عاصم اشفاق صاحب کا دو ٹوک پیغام❤️🔥*_

وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَﭤ(4) ترجمۂ کنز الایماناور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔الم نشرح ایت نمبر 4قُلْ بِفَ...
08/09/2024

وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَﭤ(4)

ترجمۂ کنز الایمان

اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔
الم نشرح ایت نمبر 4

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(58)

ترجمۂ کنز الایمان

تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔

سورہ یونس ایت نمبر 58

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(107)

ترجمۂ کنز الایمان

اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔
سورہ انبیاء ایت نمبر 107 sahi muslim 1904
صحیح مسلم
کتاب: فضائل قرآن کا بیان
باب: قرآن مجید کا سات حرفوں (قرائتوں) میں نازل ہونے اور اس کے معنی کے بیان میں
حدیث نمبر: 1904

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ جَدِّهِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ کُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ رَجُلٌ يُصَلِّي فَقَرَأَ قِرَائَةً أَنْکَرْتُهَا عَلَيْهِ ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ قِرَائَةً سِوَی قَرَائَةِ صَاحِبِهِ فَلَمَّا قَضَيْنَا الصَّلَاةَ دَخَلْنَا جَمِيعًا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ هَذَا قَرَأَ قِرَائَةً أَنْکَرْتُهَا عَلَيْهِ وَدَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ سِوَی قِرَائَةِ صَاحِبِهِ فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَا فَحَسَّنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَأْنَهُمَا فَسَقَطَ فِي نَفْسِي مِنْ التَّکْذِيبِ وَلَا إِذْ کُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدْ غَشِيَنِي ضَرَبَ فِي صَدْرِي فَفِضْتُ عَرَقًا وَکَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَی اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَرَقًا فَقَالَ لِي يَا أُبَيُّ أُرْسِلَ إِلَيَّ أَنْ اقْرَأْ الْقُرْآنَ عَلَی حَرْفٍ فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَی أُمَّتِي فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّانِيَةَ اقْرَأْهُ عَلَی حَرْفَيْنِ فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَی أُمَّتِي فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّالِثَةَ اقْرَأْهُ عَلَی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَلَکَ بِکُلِّ رَدَّةٍ رَدَدْتُکَهَا مَسْأَلَةٌ تَسْأَلُنِيهَا فَقُلْتُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَةَ لِيَوْمٍ يَرْغَبُ إِلَيَّ الْخَلْقُ کُلُّهُمْ حَتَّی إِبْرَاهِيمُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:
محمد بن عبداللہ بن نمیر، اسماعیل بن ابی خالد، عبداللہ بن عیسیٰ بن عبدالرحمن بن ابی لیلی اپنے دادا سے، حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا اور وہ ایسی قرأت پڑھنے لگا کہ جو میرے علم میں نہیں تھی پھر ایک دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور وہ اس کے علاوہ کوئی اور قرأت پڑھنے لگا پھر جب ہم نے نماز پوری کرلی تو ہم سب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے میں نے عرض کیا کہ اس آدمی نے ایسی قرأت پڑھی کہ جس پر مجھے تعجب ہوا اور پھر ایک دوسرا آدمی آیا تو اس نے اس کے علاوہ کوئی اور قرأت پڑھی، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو حکم فرمایا تو انہوں نے پڑھا تو نبی ﷺ نے ان دونوں کے پڑھنے کو اچھا فرمایا اور میرے دل میں ایسی تکذیب سی آئی جو زمانہ جاہلیت میں تھی تو جب رسول اللہ ﷺ نے میری اس کیفیت کو دیکھا جو مجھ پر ظاہر ہو رہی تھی تو آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا گو یا کہ میں اللہ کی طرف دیکھ رہا ہوں پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے ابی پہلے مجھے حکم تھا کہ میں قرآن کو ایک حرف پر پڑھوں تو میں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرما دوسری مرتبہ مجھے دو حرفوں پر پڑھنے کا حکم ملا تو میں نے پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میری امت پر آسانی فرما تو تیسری مرتبہ مجھے سات حرفوں پر پڑھنے کا حکم ملا کہ آپ ﷺ نے جتنی مرتبہ امت کی آسانی کے لئے مجھ سے سوال کیا ہے اتنی ہی مرتبہ کے بدلہ میں مجھ سے مانگو، میں نے عرض کیا اے اللہ میری امت کی مغفرت فرما اے اللہ میری امت کی مغفرت فرما اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے محفوظ کرلی جس دن ساری مخلوق حتی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی میری طرف آئیں گے۔

sahi muslim 6800

صحیح مسلم
کتاب: علم کا بیان
باب: اچھے یا برے طریقہ کی ابتداء کرنے والے اور ہدایت یا گمراہی کی طرف بلانے والے کے بیان میں
حدیث نمبر: 6800

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُوسَی بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ وَأَبِي الضُّحَی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ الْعَبْسِيِّ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَائَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ الصُّوفُ فَرَأَی سُوئَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ فَحَثَّ النَّاسَ عَلَی الصَّدَقَةِ فَأَبْطَئُوا عَنْهُ حَتَّی رُئِيَ ذَلِکَ فِي وَجْهِهِ قَالَ ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَائَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ ثُمَّ جَائَ آخَرُ ثُمَّ تَتَابَعُوا حَتَّی عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ

ترجمہ:
زہیر بن حرب، جریر، بن عبد الحمید اعمش، موسیٰ بن عبداللہ بن یزید ابی ضحی عبدالرحمن بن ہلال عیسیٰ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی آدمی اونی کپڑے پہنے ہوئے حاضر ہوئے آپ نے ان کی بدحالی دیکھ کر ان کی حاجت و ضرورت کا اندازہ لگا لیا آپ ﷺ نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی پس لوگوں نے صدقہ میں کچھ دیر کی تو آپ ﷺ کے چہرہ اقدس پر کچھ ناراضگی کے آثار نموادر ہوئے پھر انصار میں سے ایک آدمی دراہم کی تھیلی لے کر حاضر ہوا پھر دوسرا آیا پھر صحابہ نے متواتر اتباع شروع کردی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ اقدس پر خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔

sahi muslim 2351
صحیح مسلم
کتاب: زکوۃ کا بیان
باب: صدقہ کی ترغیب اگرچہ ایک کھجور یا عمدہ کلام ہی ہو وہ دوزخ سے آڑ ہے کے بیان میں
حدیث نمبر: 2351

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی الْعَنَزِيُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِ النَّهَارِ قَالَ فَجَائَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوْ الْعَبَائِ مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ کُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَی بِهِمْ مِنْ الْفَاقَةِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّی ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ الَّذِي خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ إِنَّ اللَّهَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيبًا وَالْآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ حَتَّی قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ قَالَ فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ کَادَتْ کَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّی رَأَيْتُ کَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ حَتَّی رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ کَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ

ترجمہ:
محمد بن مثنی عنزی، محمد بن جعفر، شعبہ، عون بن ابی جحیفہ، منذر بن جریر، حضرت جریر سے روایت ہے کہ ہم دن کے شروع میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے تو ایک قوم ننگے پاؤں ننگے بدن چمڑے کی عبائیں پہنے تلوراوں کو لٹکائے ہوئے حاضر ہوئی ان میں سے اکثر بلکہ سارے کے سارے قبیلہ مضر سے تھے تو رسول اللہ ﷺ کا چہرہ اقدس ان کے فاقہ کو دیکھ کر متغیر ہوگیا آپ ﷺ گھر تشریف لے گئے پھر تشریف لائے تو حضرت بلال ؓ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان اور اقامت کہی۔ پھر آپ نے خطبہ دیا فرمایا اے لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا ایک جان سے آیت کی تلاوت کی (يٰ اَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَا ءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَا ءَلُوْنَ بِه وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا) 4۔ النسآء: 1) تک اور وہ آیت جو سو رۃ حشر کی ہے (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ) 59۔ الحشر: 18) کی تلاوت کی اور فرمایا کہ آدمی اپنے دینار اور درہم اور اپنے کپڑے اور گندم کے صاع سے اور کھجور کے صاع سے صدقہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی ہو پھر انصار میں سے ایک آدمی تھیلی اتنی بھاری لے کر آیا کہ اس کا ہاتھ اٹھا نے سے عاجز ہو رہا تھا پھر لوگوں نے اس کی پیروی کی یہاں تک کی میں نے دو ڈھیر کپڑوں اور کھانے کے دیکھے اور رسول اللہ ﷺ کا چہرہ اقدس کندن کی طرح چمکتا ہوا نظر آ نے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں کسی اچھے طریقہ کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا اجر اور اس کے بعد عمل کرنے والوں کا ثواب ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کمی کی جائے اور جس اسلام میں کسی برے عمل کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا گناہ ہے اور ان کا کچھ گناہ جنہوں نے اس کے بعد عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کچھ کمی کی جائے۔

abu daud 4923
سنن ابوداؤد
کتاب: ادب کا بیان
باب: گانے باجے کا بیان
حدیث نمبر: 4923

حدیث نمبر: 4923
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ لَعِبَتْ الْحَبَشَةُ لَقُدُومِهِ فَرَحًا بِذَلِكَ لَعِبُوا بِحِرَابِهِمْ.

ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینے آئے تو حبشی آپ کی آمد پر خوش ہو کر خوب کھیلے اور اپنی برچھیاں لے کر کھیلے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ٤٧٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/١٦١) (صحیح الإسناد )

sunan darmi 93
سنن دارمی
کتاب: مقدمہ دارمی
باب: نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد اللہ نے آپ کو جو بزرگی عطا کی۔
حدیث نمبر: 93

أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ لَمَّا كَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ مِنْ الْمَسْجِدِ وَكَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلَّا بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ

ترجمہ:
سعید بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں واقعہ حرہ کے دوران نبی اکرم ﷺ کی مسجد میں تین دن تک اذان نہیں ہوئی اور نہ ہی اقامت کہی گئی اس دوران حضرت سعید بن مسیب مسجد میں ہی رہے انھیں نماز کے اوقات کا اس طرح سے پتہ چلتا تھا کہ نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک سے ہلکی سی آواز آیا کرتی تھی۔

sahi muslim 321

صحیح مسلم
کتاب: ایمان کا بیان
باب: اس بات کے بیان میں کہ اسلام اور حج اور ہجرت پہلے گناہوں کو مٹادیتے ہیں
حدیث نمبر: 321

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی الْعَنَزِيُّ وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ کُلُّهُمْ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا الضَّحَّاکُ يَعْنِي أَبَا عَاصِمٍ قَالَ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ قَالَ حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ فَبَکَی طَوِيلًا وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَی الْجِدَارِ فَجَعَلَ ابْنُهُ يَقُولُ يَا أَبَتَاهُ أَمَا بَشَّرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَذَا أَمَا بَشَّرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَذَا قَالَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ فَقَالَ إِنَّ أَفْضَلَ مَا نُعِدُّ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ إِنِّي کُنْتُ عَلَی أَطْبَاقٍ ثَلَاثٍ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَمَا أَحَدٌ أَشَدَّ بُغْضًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي وَلَا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَکُونَ قَدْ اسْتَمْکَنْتُ مِنْهُ فَقَتَلْتُهُ فَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَکُنْتُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلَمَّا جَعَلَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ فِي قَلْبِي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَمِينَکَ فَلْأُبَايِعْکَ فَبَسَطَ يَمِينَهُ قَالَ فَقَبَضْتُ يَدِي قَالَ مَا لَکَ يَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِي قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلِهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ وَمَا کُنْتُ أُطِيقُ أَنْ أَمْلَأَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَهُ وَلَوْ سُئِلْتُ أَنْ أَصِفَهُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّي لَمْ أَکُنْ أَمْلَأُ عَيْنَيَّ مِنْهُ وَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ وَلِينَا أَشْيَائَ مَا أَدْرِي مَا حَالِي فِيهَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِي نَائِحَةٌ وَلَا نَارٌ فَإِذَا دَفَنْتُمُونِي فَشُنُّوا عَلَيَّ التُّرَابَ شَنًّا ثُمَّ أَقِيمُوا حَوْلَ قَبْرِي قَدْرَ مَا تُنْحَرُ جَزُورٌ وَيُقْسَمُ لَحْمُهَا حَتَّی أَسْتَأْنِسَ بِکُمْ وَأَنْظُرَ مَاذَا أُرَاجِعُ بِهِ رُسُلَ رَبِّي

ترجمہ:
محمد بن مثنی عنزی، ابومعن، اسحاق بن منصور، ابوعاصم، ابن مثنی، ضحاک، ابوعاصم، حیوہ بن شریح، یزید بن ابی حبیب، ابن شماسہ کہ ہم عمرو بن العاص ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے وہ بہت دیر تک روتے رہے اور چہرہ مبارک دیوار کی طرف پھیرلیا ان کے بیٹے ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابا جان کیوں رو رہے ہیں کیا اللہ کے رسول ﷺ نے آپ ﷺ کو یہ بشارت نہیں سنائی؟ حضرت عمرو بن العاص ؓ ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ ﷺ پر قابو پا کر آپ ﷺ کو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں؟ اور رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ ﷺ کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ ﷺ کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ ﷺ کی صورت مبارک کے متعلق پوچھتے تو میں بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میں آپ ﷺ کو بوجہ عظمت و جلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کردو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔

is hadees may akhir may lafz h mai dekh lun yani zinda h tw dekh lun🤍

mishkat ul masabeh 5862

مشکوٰۃ المصابیح
کتاب: فضائل اور خصائل کا بیان
باب: معراج کا بیان
حدیث نمبر: 5862

عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالك بن صعصعة أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدثهمْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ: «بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ - وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ - مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ» يَعْنِي مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ «فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ» - وَفِي رِوَايَةٍ: ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثمَّ ملئ إِيماناً وَحِكْمَة - ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ يُقَالُ لَهُ: الْبُرَاقُ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ. قَالَ: نَعَمْ. قيل: مرْحَبًا بِهِ فَنعم الْمَجِيء جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ: هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالح وَالنَّبِيّ الصَّالح ثمَّ صعد بِي حَتَّى السَّماءَ الثانيةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ. فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا خَالَةٍ. قَالَ: هَذَا يَحْيَى وَهَذَا عِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ. ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ: هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ. ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِدْرِيسُ فَقَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ: هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَهل أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ: هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالح فَلَمَّا جَاوَزت بَكَى قيل: مَا بيكيك؟ قَالَ: أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرَ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: هَذَا أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرد السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ [ص:1637] رُفِعْتُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبِقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ: هَذَا سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ: نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ. قُلْتُ: مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِيَ الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ: هِيَ الْفِطْرَةُ أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَاةُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ. قَالَ: إِنَّ أمتك لَا تستطع خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلى مُوسَى فَقَالَ مثله فَرَجَعت فَوضع عني عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنَى عَشْرًا فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ: سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ. قَالَ: فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ: أَمْضَيْتُ فريضتي وخففت عَن عبَادي . مُتَّفق عَلَيْهِ

ترجمہ:
قتادہ ؒ انس بن مالک ؓ سے اور انہوں نے مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے شب معراج کے متعلق انہیں بتایا کہ ’’میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا، اور بعض روایات میں ہے، میں حجر میں لیٹا ہوا تھا، کہ اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا تو اس نے میرا سینہ چاک کیا، میرے دل کو نکالا، پھر میرے پاس ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، میرے دل کو دھویا گیا، پھر اسے بھر دیا گیا، پھر اسے واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے:’’ پھر (میرے) پیٹ کو آب زم زم سے دھویا گیا، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا، پھر خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی سفید رنگ کی براق نامی ایک سواری میرے پاس لائی گئی، وہ اپنی انتہائے نظر تک اپنا قدم رکھتی تھی، مجھے اس پر سوار کیا گیا، جبریل ؑ مجھے ساتھ لے چلے، حتی کہ وہ آسمان دنیا پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، ان سے پوچھا گیا، آپ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: جبریل، پوچھا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: محمد (ﷺ)، پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، اور تشریف لانے والے کتنے ہی اچھے ہیں، دروازہ کھول دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو میں نے وہاں آدم ؑ کو دیکھا، جبریل ؑ نے بتایا: یہ آپ کے والد آدم ؑ ہیں، انہیں سلام کریں، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر انہوں نے فرمایا: صالح بیٹے! اور صالح نبی خوش آمدید، پھر جبریل ؑ مجھے اوپر لے گئے حتی کہ وہ دوسرے آسمان پر پہنچ گئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: جبریل ؑ، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمد! پوچھا گیا، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں، کہا گیا: خوش آمدید! آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں، دروازہ کھول دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو یحیی اور عیسیٰ ؑ سے ملاقات ہو گئی، اور وہ دونوں خالہ زاد تھے۔ فرمایا: یہ یحیی ؑ ہیں اور یہ عیسیٰ ؑ ہیں، ان دونوں کو سلام کریں، میں نے سلام کیا، تو ان دونوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بھائی! خوش آمدید، نبی صالح خوش آمدید، پھر مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، پوچھا گیا، کون ہے؟ فرمایا: جبریل، کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: محمد (ﷺ) پوچھا گیا، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، آنے والے کیا ہی اچھے ہیں، دروازہ کھول دیا گیا، جب میں ادھر پہنچا تو وہاں یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا، یہ یوسف ؑ ہیں، انہیں سلام کریں، میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا، حتیٰ کہ چوتھے آسمان پر پہنچے، پھر دروازہ کھولنے کے لیے درخواست کی، پوچھا کون ہے؟ کہا: جبریل، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا: محمد ﷺ، پوچھا گیا: کیا ان کی طرف بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں! کہا گیا: خوش آمدید، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں، جب میں وہاں پہنچا تو ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی، تو انہوں نے کہا، یہ ادریس ؑ ہیں، انہیں سلام کریں، میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا: صالح نبی خوش آمدید، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتیٰ کہ وہ پانچویں آسمان پر پہنچے اور انہوں نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو ان سے پوچھا گیا، آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا: محمد ﷺ، پوچھا گیا، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، پھر کہا گیا: خوش آمدید، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی فرمایا: یہ ہارون ؑ ہیں انہیں سلام کریں، پس میں نے انہیں سلام کیا، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بھائی، اور نبی صالح خوش آمدید، پھر وہ مجھے اور اوپر لے گئے، حتیٰ کہ ہم چھٹے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، انہوں نے پوچھا: کون ہیں؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: محمد ﷺ، پوچھا گیا، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں، کہا گیا، خوش آمدید، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں، دروازہ کھول دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں موسی ؑ تشریف فرما تھے، جبریل ؑ نے فرمایا: یہ موسیٰ ہیں، انہیں سلام کریں، میں نے انہیں سلام کیا، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید جب میں ان سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے، ان سے پوچھا گیا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوجوان میرے بعد مبعوث کیا گیا، اور اس کی امت کے جنت میں جانے والے افراد، میری امت کے جنت میں جانے والے افراد سے زیادہ ہوں گے، پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، جبریل ؑ نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی، تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا: محمد ﷺ، پوچھا گیا، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، کتنے ہی اچھے ہیں آنے والے؟ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ابراہیم ؑ تشریف فرما تھے، جبریل نے فرمایا، یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ ہیں، انہیں سلام کریں، چنانچہ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بیٹے اور صالح نبی خوش آمدید، پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا، اس کے میوے (بیر) حجر کے مٹکوں کی طرح تھے، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے، انہوں نے بتایا، یہ سدرۃ المنتہی ہے، وہاں چار نہریں تھیں: دو باطنی تھیں اور دو ظاہری تھیں میں نے کہا: جبریل! یہ دو چیزیں کیا ہیں، انہوں نے فرمایا: دو باطنی نہریں، یہ دو نہریں جنت میں بہتی ہیں، اور دو ظاہری نہریں، اور یہ نیل و فرات ہیں، پھر مجھے بیت المعمور کی طرف لے جایا گیا، پھر میرے پاس شراب، دودھ اور شہد کا برتن لایا گیا، میں نے دودھ والا برتن اٹھا لیا، انہوں نے فرمایا: یہ وہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے، پھر مجھ پر دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، میں واپس آیا اور موسی ؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا: آپ ﷺ کو کیا حکم ملا ہے؟ میں نے کہا: مجھے ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ کی امت ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی، اللہ کی قسم! میں آپ ﷺ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں، اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے، آپ اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں، میں دوبارہ گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں، پھر میں موسی ؑ کے پاس آیا، انہوں نے پھر وہی بات کی، میں پھر حاضر خدمت ہوا، اللہ تعالیٰ نے پھر دس نمازوں کی تخفیف فرما دی، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی، میں پھر حاضر خدمت ہوا، اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات دہرائی، میں پھر اللہ کے پاس گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں، اور مجھے ہر روز دس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر ویسے ہی فرمایا، میں پھر (رب کے حضور) گیا تو مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ کی امت ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی، کیونکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے، آپ اپنے رب کے پاس پھر جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں، آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے (تخفیفِ نماز کے لیے اتنی مرتبہ) سوال کیا ہے لہذا اب مجھے حیا آتی ہے، اب میں راضی ہوں اور تسلیم کرتا ہوں، فرمایا: جب میں وہاں سے چلا تو آواز دینے والے نے آواز دی، میں نے (پانچ نمازوں کا) اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف فرما دی۔‘‘ متفق علیہ۔

ibne maja 1637

سنن ابن ماجہ
کتاب: جنازوں کا بیان
باب: رسول اللہ ﷺ کی وفات اور تدفین کا تذکرہ
حدیث نمبر: 1637

حدیث نمبر: 1637
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ وَبَعْدَ الْمَوْتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَبَعْدَ الْمَوْتِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ.

ترجمہ:
ابوالدرداء ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ جمعہ کے دن میرے اوپر کثرت سے درود بھیجو، اس لیے کہ جمعہ کے دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور جو کوئی مجھ پر درود بھیجے گا اس کا درود مجھ پر اس کے فارغ ہوتے ہی پیش کیا جائے گا میں نے عرض کیا: کیا مرنے کے بعد بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، مرنے کے بعد بھی، بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے، اللہ کے نبی زندہ ہیں ان کو روزی ملتی ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٠٩٤٧، ومصباح الزجاجة: ٥٩٦) (حسن) (سند میں زید بن ایمن اور عبادہ کے درمیان نیز عبادہ اور ابو الدرداء ؓ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن اکثر متن حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ١ / ٣٥، تراجع الألبانی: رقم: ٥٦٠ )
وضاحت: ١ ؎: یعنی جنت کے کھانے ان کو کھلائے جاتے ہیں جو روحانی ہیں، یہاں زندگی سے دنیوی زندگی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ دنیاوی زندگی قبر کے اندر قائم نہیں رہ سکتی، یہ برزخی زندگی ہے جس میں اور دنیاوی زندگی میں فرق ہے، مگر ہر حال میں نبی کریم ﷺ اپنی قبر شریف کے پاس درود وسلام سنتے ہیں، بلکہ یہ برزخی زندگی بہت باتوں میں دنیاوی زندگی سے زیادہ قوی اور بہتر ہے، صلے اللہ علیہ وسلم وآلہ و اصحابہ و بارک وسلم تسلیما کثیراً

ab sawal yh h qabar may sawalo k jawab kn deta h??? zinda yh murda✊

Address

Karachi

Telephone

+923192843285

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Deen e Islam posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share