Yaadgaar

Yaadgaar Understanding the actual theoretical Challenges with its Philosophy and the Rejection

Welcome to Tafheem, your go-to source for exploring the multifaceted concepts and news surrounding capitalist values, the repercussions of Western ideologies, and Islamic critiques on Western civilization and its philosophers. Our page delves deep into the inherent contradictions and crises within capitalist societies, offering insightful perspectives on how these values shape global economies and

cultural paradigms. We also highlight the adverse impacts of Western values, examining how they affect individual and societal well-being. Through a critical Islamic lens, we challenge the dominant narratives of Western civilization, drawing on historical and contemporary Islamic thought to provide a robust critique. Join us as we discuss influential Western philosophers and their ideologies, juxtaposing them with Islamic perspectives to foster a comprehensive understanding of the ongoing intellectual discourse. Stay informed and engaged with our regular updates, articles, and thought-provoking discussions aimed at fostering a well-rounded and critical view of these pivotal issues. Follow us to stay updated with the latest insights and engage in meaningful conversations that challenge the status quo and inspire intellectual growth.

سوشل میڈیا پر مردانہ حقوق کا شور- سلمان علی -- ایک دھوکہ:ایک اہم اور سنجیدہ موضوع سوشل میڈیا سے نکال کر لائے ہیں۔ لبرل ا...
06/01/2025

سوشل میڈیا پر مردانہ حقوق کا شور
- سلمان علی -

- ایک دھوکہ:
ایک اہم اور سنجیدہ موضوع سوشل میڈیا سے نکال کر لائے ہیں۔ لبرل ازم کی ہولناک شاخوں میں ایک فیمن ازم ہے۔ اس غلیظ فیمن ازم اور خواتین کے تحفظ کے نام پر چلائی گئی تحریکوں کے بارے میں اب سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تحریکیں خواتین کو مزید غیر محفوظ کررہی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے جواب میں اب ’مَردانہ حقوق‘ لانچ ہوگئے ہیں۔ بھارت ڈیڑھ ارب آبادی والا اہم ملک ہے۔ وہاں ہونے والا کوئی واقعہ معمولی نہیں۔ ہمارے ملک میں تو شادی بیاہ، خوشی غمی، سیاسی و مذہبی سمیت تہذیبی مظاہر بھارت سے ہی نقل شدہ نظر آتے ہیں، اس لیے اثرات کی منتقلی کی اہمیت کا انکار کوئی نہیں کرسکتا۔

اس ہفتے سوشل میڈیا پر بھارت میں مردانہ حقوق کا معاملہ اہم موضوع بن گیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا، ایک دہائی میں کئی بار سامنے آیا ہے۔ اس وقت فیمن ازم کی تیسری لہر یورپ و امریکا میں چھائی ہوئی ہے، جس میں عورت جنس کی قید سے آزاد ہوچکی ہے۔ وہاں اب پہلی دو لہریں وقت پورا کرکے بڑی حد تک ختم ہوچکیں۔ ہمارے برصغیر میں بدقسمتی سے فیمن ازم کی تینوں لہریں بیک وقت چل کر خوب ’رائتہ پھیلا‘رہی ہیں۔ یہاں آپ کو عورت مارچ، مورت مارچ، ٹرانس جینڈر، عورت حقوق، ویمن ایمپاورمنٹ، اسلامی فیمن ازم سمیت ہر ’مال‘ بآسانی ملے گا۔ بھارت میں خودکشی معمول ہے مگر حالیہ واقعے نے دوبارہ توجہ حاصل کرلی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ بھارت میں یہ بحث زندہ ہوچکی ہے کہ خواتین کے تحفظ کے نام پر بنائے گئے قوانین مردوں کے لیے خطرناک بن چکے ہیں۔

اتل سبھاش کیس:
9 دسمبر 2024ء کو بنگلورو کے 34 سالہ انجینئر اتُل سبھاش نے خودکشی کرلی۔ اُتل بہار سے تعلق رکھنے والا، مڈل کلاس گھرانے کا فرد تھا۔2019ء میں اُس نے رشتہ کرانے والی ویب سائٹ سے نکیتا سنگھانیا کو پسند کرکے شادی کی۔ نکیتا جون پور کی رہائشی تھی، یہ بنگلورو میں تھا۔ یہ دو الگ شہر ہیں۔ 2020ء میں اُن کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا۔ شادی کے بعد اتل کے سسرال کی جانب سے مستقل بہانوں سے رقوم کی ڈیمانڈ آنا شروع ہوگئیں۔ شروع میں تو وہ رشتے دار سمجھ کر دیتا رہا۔ اس دوران کورونا آیا، بچے کی پیدائش کے بعد اتل کی ساس اُس کے گھر رہنے آئی۔ یہاں اتل سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا گیا۔ اتل نے معذرت کی۔ مئی 2021ء میں اتل کی ساس اپنی بیٹی اور نواسے کو وہاں سے کورونا کا بہانہ کرکے جون پور لے گئی۔ اتل نے کچھ عرصے بعد جب بیوی بچے کی واپسی کی کوشش کی تو اُس کو حیران کن ردعمل ملا۔ یہاں سے شروع ہوتا ہے وہ سلسلہ جو دسمبر 2024ء میں اتل کی خودکشی پر ختم ہوا۔

اُس کی بیوی اور سسرال والوں نے اتل اور اس کے گھر والوں کے خلاف مقدمات کے ڈھیر لگادیے۔ اتل نے اپنی خودکشی سے قبل 90 منٹ کی ایک وڈیو بنائی اور 24 صفحات کا خط چھوڑ کر ہولناک حقیقت سے پردہ چاک کیا۔ ظاہر ہے کہ مرنے سے قبل انسان جھوٹ نہیں بولے گا، اُس کو یہی لگتا تھا کہ اب مجھے اپنی سچائی جان دے کر ہی بتانی پڑے گی۔ خودکشی کے نوٹ میں اتل سبھاش نے اپنی بیوی اور اس کے خاندان کو اپنی موت کا ذمہ دار قرار دیا۔ اُس کی بیوی نے اپنے بھائی اور ماں کی مدد سے پیسہ بٹورنے کی خاطر جھوٹے مقدمات کے ذریعے اُس پر جہیز مانگنے، گھریلو تشدد، قتل کی کوشش، اور مالی استحصال، غیر فطری جنسی تعلق جیسے الزامات ٹھونک دیے تھے۔ یہ سارے کیس الگ الگ کیے گئے۔ ایک کیس جھوٹا ثابت ہوتا تو دوسرا کرتے، پھر دوسرا ختم ہوتا تو تیسرا۔ ایک مقدمہ اُس کی بیوی نے یہ کیا کہ اتل نے مجھ سے 10لاکھ روپے بطور جہیز مانگے، جس پر میرے باپ کو دل کا دورہ پڑا اور وہ مرگیا۔ بھارت میں جہیز مانگنے پر سزا کا قانون ہے۔ کیس چلا تو معلوم ہوا کہ لڑکی کا باپ تو 2019ء میں ہی مر چکا تھا۔ پھر اُس کی بیوی نے گھریلو تشدد کا کیس 2022ء میں ڈال دیا، جبکہ وہ 2021ء میں ہی گھر چھوڑ چکی تھی۔ یہ کیس بھی دو سال تاریخ پر تاریخ کے بعد ختم ہوگیا، مگر کورٹ کے چکر لگا لگا کر، اپنی بے گناہی ثابت کرتے کرتے اتل آدھا ہوچکا تھا۔ طلاق اور جہیز کے بعد یہ تیسرا مقدمہ تھا۔ اتل اس دوران کورٹس میں 120 سماعتوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر، بنگلورو سے جون پور جاکر بھگتتا۔

اتل کا باپ کہتا ہے کہ جو لڑکی خود نوکری کرکے لاکھ روپیہ کما رہی ہے وہ کیسے بچے کی پرورش کے نام پر شوہر سے پیسے مانگ سکتی ہے! کیونکہ بچے کا خرچ اس لیے دیا جاتا ہے کہ عورت گھر پر صرف بچے کی پرورش کرے گی۔ ستمبر 2024ء میں اس کی بیوی نے تشدد کا جعلی کیس کردیا۔ اتل کی برداشت ختم ہوچکی تھی، اُس کو باقاعدہ خودکشی کے لیے اکسایا گیا، جس میں کورٹ کی جج سے لے کر اُس کی بیوی بھی شامل تھی کہ اگر وہ اتنی رقم نہیں جمع کرسکتا تو زندہ ہی کیوں ہے؟ یہ رقم آخر میں 3 کروڑ برائے طلاق سیٹلمنٹ تک جا پہنچی تھی، یہ تمام جملے ریکارڈ پر لاکر اَتُل نے خودکشی کرلی۔

اُس کی بیوی نکیتا کو ہریانہ سے، ساس نِشا اور سالے انوراگ کو دیگر مقامات سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ انہیں عدالت میں پیش کرکے 14دنوں کی عدالتی حراست میں جیل بھیج دیا گیا۔ اتل نے اپنے سسرالیوں پر ہی نہیں بلکہ ججوں پر بھی سیٹلمنٹ کے نام پر رشوت مانگنے کا مدعا اُٹھایا۔

میڈیا کا ردعمل:
میڈیا کو خبر چاہیے، 90 منٹ کی وڈیو سوشل میڈیاپر وائرل ہوگئی۔ نجی زندگی میں جھانکنے کا مزہ سوشل میڈیا پر الگ ہی ہوتا ہے کیونکہ اب کسی کا کوئی نج نہیں رہا۔ اتل نے بھی سوشل میڈیا کی ابلاغی قوت کو پیش نظر رکھ کر یہ قدم اٹھایا اور اُس کو وہی نتائج ملے۔ اس میں نیا موضوع ’جھوٹے مقدمات پر مردوں کی خودکشی‘ ہے۔ بھارت میں متعلقہ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ دو چار نہیں بلکہ لاکھوں مرد ہیں جنہوں نے خودکشی کی ہے اور کئی نے وڈیوز بھی بنائی ہیں۔ متعدد نیوز چینلز نے اس واقعے کو مردوں کے حقوق کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ ’’MirrorNow‘‘ کی صحافی شریا دھونڈیال نے ’’دی اربن ڈیبیٹ‘‘ میں کہا کہ گھریلو تشدد اور جہیز کے خلاف قوانین مردوں کے خلاف تعصب پر مبنی ہیں۔ اسی طرح ’انڈیا ٹی وی‘ کے رجت شرما نے ان قوانین کو ’’ظالمانہ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ قوانین مردوں کو خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کررہے ہیں۔

قوانین پر رائے:
اتل کا بھائی کہتا ہے کہ اگر سسٹم نہیں بدلا گیا تو ایسا وقت آئے گا کہ لڑکا شادی کرنے سے ہی ڈرے گا۔ ہندو ایکٹ کے مطابق لڑکی کو بھی برابر کا حصہ باپ سے ملتا ہے لیکن کوئی لڑکی اپنے ساتھ یہ وراثت نہیں لاتی۔ لڑکی شادی کے باوجود 10افیئر بھی چلائے تو طلاق پر لڑکی ماہانہ خرچ کے نام پر بھاری رقم لیتی ہے۔ مرد ظالم ہے، ظلم کرے گا اس لیے ایسے قوانین بنائے گئے کہ خواتین کو بچایا جاسکے۔ لیکن صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ قوانین کا مستقل غلط استعمال ہورہا ہے۔ نتیجے میں مرد یہ بہتر سمجھتا ہے کہ موت کو گلے لگا لے۔ کورٹ جانے کے بعد جتنا چاہے کورٹ ’’صلح‘‘کی جانب مجبور کرے مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ جب عورت ایسے سنگین جھوٹے الزام شوہر پر لگاکر کورٹ میں گھسیٹے گی تو کیسے، کہاں سے صلح ہوگی؟

بھارت میں خواتین حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’’قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے، لیکن اصل میں تو قوانین خواتین کے تحفظ کے لیے ہیں‘‘۔ دیپکا نارائن بھردواج ایک خاتون صحافی اور فلم میکر ہیں۔ یہ بھارت میں مردانہ حقوق کی نمایاں آواز جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے بھارتی جہیز کے قانون 498Aپر 8 سال قبل ایک دستاویزی فلم بنائی ’’martyrs of marriage‘‘۔ اس فلم نے بھارتی مردوں پر جہیز کے قانون کی آڑ میں ہونے والے مظالم کے راز کھول دیے۔ اُنہوں نے مغرب سے درآمد شدہ ’’می ٹو‘‘ موومنٹ کے بھی راز فاش کیے اور جواب میں ’’مین ٹو‘‘ مہم چلائی۔ دیپکا نے بھارتی معاشرت میں میڈیا کے ذریعے پھیلتی لبرل اقدار کی وہ داستانیں بیان کیں جنہیں آپ اِن صفحات پر برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ بس یہ جان لیں کہ اُن کے مطابق بھارتی خواتین اپنی 1: مستقل بڑھتی ہوئی لامحدود خواہشات، 2: مرضی کی ہروقت خریداری، 3: محنت کے بغیر پُرتعیش زندگی کی خاطر ہر حد پار کررہی ہیں۔

مسئلہ کہاں ہے:
ہندو مذہب میں میاں بیوی کا رشتہ جسمانی، معاشرتی اور روحانی مانا جاتا ہے۔ ’’اردھ ناریشور‘‘ (آدھا مرد آدھی عورت) کہا جاتا ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں۔ ہندو دھرم کی کتاب ’’منوسمرتی‘‘ کے مطابق میاں بیوی کا رشتہ زندگی بھر کے لیے ہے۔ شوہر کو گھر کا سربراہ اور خاندان کی ذمہ داری اٹھانے والا قرار دیا جاتا ہے۔ بیوی کو ’’گھر کی دیوی‘‘کے طور پر شوہر کی معاون، وفادار، اور خاندان کی دیکھ بھال کرنے والی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دینِ اسلام میں بھی میاں بیوی کے حوالے سے جو احکامات ملتے ہیں وہ ’مجازی خدا، قوام، سجدے کی اجازت‘ جیسے اشاروں سے کافی ہیں سمجھانے و تذکیر کے لیے۔ جب مذہب کی ایسی تعلیمات ہیں، تو پھر وہ کون ہے جو اپنے عقیدے پر عمل سے یکسر روک دیتا ہے؟ ایسے کہ کسی رشتے کی کوئی قدر باقی نہیں رہتی۔ نہ ماں، نہ باپ، نہ بیٹا، نہ شوہر، کوئی نہیں۔

قانون:
انسانوں کو جنس قرار دے کر، رشتوں سے کاٹ کر، صرف حقوق کے نام پر بننے والے قوانین کبھی بھی کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ یہ ایک لغو، خیالی، idealistتصور ہے کہ قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔ کہاں؟ کس ملک میں کون سے قانون کا غلط استعمال نہیں ہوتا؟ پاکستان ہو یا بھارت، برطانیہ ہو یا امریکا… قتل کے جھوٹے الزام سے لے کر ہر طرح کا الزام لگاکر مقدمہ بنانا کوئی حیرت یا اچنبھے کی بات نہیں۔ جدید لبرل ’قانون‘ سارا کا سارا طاقتور کے لیے ہوتا ہے، یہ اس ’قانون‘ کا اصل جوہر ہے۔

اس لیے ہم کہتے ہیں کہ وحی، مذہب، خالق کے احکامات کو چھوڑ کر انصاف کے اصول و پیمانے جب بھی، جہاں بھی بنائے گئے، ہمیشہ ناکام ہی رہے ہیں۔ اس حقیقت کو جتنا جلدی سمجھا جائے گا اُتنا ہی جلد افاقہ ہوگا۔ مگر اس کے لیے پہلے اپنے آپ کو ’’مجرد فرد‘‘کے خانے سے نکالنا ہوگا۔

دُنیا کے جس خطے میں مغربی عقائد کو جگہ دی گئی، وہاں خاندانوں کی تباہی ہولناک حد پر پہنچ رہی ہے۔ ہزاروں سال پر محیط معلوم انسانی تاریخ میں ایسی صورتِ حال کبھی پیش نہیں آئی۔ مال، سونے چاندی کی محبت ہمیشہ انسانوں میں رہی ہے، اس کی خاطر جنگ و جدال سب ملے گا، مگر خاندانوں کی ایسی تباہی کسی معاشرت میں نہیں ملے گی۔ کسی تاریخ دان کی کتاب پڑھ لیں، رشتوں کی معنویت ختم ہوجانے کا یہ منظر آپ کو کہیں کسی معاشرت میں نہیں ملے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے مال کی محبت کو اُس کے پُرتعیش استعمال کی ’’اندھی کھائی‘‘ فراہم کی ہے۔ خواہشات انسان پر غلبہ پاتی ہیں تو اُس کے نزدیک رشتہ نہیں خواہش پر عمل اہم ہوجاتا ہے۔ خواتین کو آزادی دینے یا empower کرنے کا مغربی عقیدہ جب برصغیر میں آیا تو یہی تباہی لایا۔ اس مضمون کی تیاری میں جتنے کیسز مزید دیکھنے، جاننے، سننے کو ملے وہ تحریر کردوں تو آپ کی روح تک کانپ اُٹھے گی، گوکہ وہ سب انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہماری معاشرت میں عورت کو رشتوں سے کاٹ کر الگ ’جینڈر‘ کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے۔ ایسا آزاد جینڈر جس پر کسی کا زور نہیں چل سکتا۔ وہ اپنی مرضی، اپنی خواہش کی تکمیل میں کسی کی پابند نہیں۔ کوئی خدا، کوئی کتاب، کوئی مذہب، کوئی شوہر، کوئی اولاد، کوئی باپ، بھائی، کوئی رشتہ نہیں ہوتا، سب ’سوشل کنٹریکٹ‘ ہیں۔ یہاں سے ہی ’میریٹل ریپ‘ کی ہولناک اصطلاح نکلتی ہے۔ عورت کا حق ہے کہ وہ آزاد ی سے ہر فیصلہ کرے۔ ابھی کراچی میں ہمارے ایک دین دار صحت مندگھرانے کا رشتہ ’میریٹل ریپ‘ کے گھنائونے الزام پر ختم ہوا۔ اب یہ صورتِ حال کراچی پہنچ چکی ہے، تو مردانہ حقوق کا کیا ہوگا؟ یوں ظلم کی نئی شکلیں سامنے آئیں گی اور سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا جو درحقیقت مذہب سے آزاد ہونے کا نتیجہ ہے۔

سوشل میڈیا پر مردانہ حقوق کا شور - سلمان علی - January 5, 2025 90 فيس بک پر شیئر کیجئیے ٹویٹر پر ٹویٹ کريں tweet ایک دھوکہ: ایک اہم اور سنجیدہ موضوع سوشل میڈیا سے نکال کر لائے ہیں۔ ...

سوشل میڈیا پھر جیت گیا- سلمان علی -October 27, 2024شیطان ایکشن میں:پنجاب کالج کیس کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ کراچ...
27/10/2024

سوشل میڈیا پھر جیت گیا
- سلمان علی -October 27, 2024

شیطان ایکشن میں:
پنجاب کالج کیس کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ کراچی کے علاقے الیون بی نارتھ کراچی میں واقع بلال مسجد کے بالکل پڑوس میں نئی تعمیر ہونے والی انڈس یونیورسٹی نے بھی توجہ حاصل کرلی۔ یہ ایس ٹی پلاٹ کہا جاتا ہے مگر یہاں عین رہائشی علاقے میں ایسی یونیورسٹی کا قیام بھی سوالیہ نشان ہے۔ بہرحال انہوں نے اپنے اس نئے کیمپس میں داخلوں کے نام پر ایک ’ویلکم پارٹی‘ رکھی۔ اس پارٹی میں جو کچھ ہوا، دو دن بعد وہ سوشل میڈیا پر ڈسکس ہونے لگا۔ تصاویر کیا تھیں بم کا گولہ تھیں۔ ایک تصویر پر لکھا ہوا تھا ’’شیطان تمہاری کارکردگی سے خوش ہے‘‘۔ اب یہ کیا کارکردگی ہوگی؟ یہ جاننے کے لیے میں نے ذرا سا سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ ’’شیطان اپنے پیروکاروں کو فحاشی کا حکم دیتا ہے‘‘۔ تو اُس ویلکم پارٹی کی مزید تصاویر ہی نہیں وڈیوز بھی چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ جو کچھ وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں وہاں کررہے تھے وہ سب خالص شیطان کے احکامات کی پیروی یعنی اُس کی پرستش ہی کہلائے گا۔ مجھے تو وہ فحاشی سے بھی آگے کا کوئی قدم لگ رہا تھا۔ امریکا میں واقع ’’شیطانی چرچ‘‘ ہی نہیں الیومناٹی سمیت دیگر تمام شیطانی علامات کو اسکرین پر چلایا جاتا رہا۔ موسیقی کی دھن پر جو کچھ وہاں ہورہا تھا، اہلِ علاقہ پر تو جو گزری وہ گزری، مگراب سوشل میڈیا کی وجہ سے مزید بھونچال آیا۔ لڑکے لڑکیاں اس شیطانی علامت کے سامنے کھڑے ہوکر تصاویر بناتے رہے۔

اب جو ردعمل آیا تو یونیورسٹی انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھولے اور انہوں نے ایک معذرت اپنے فیس بک پیج پر ڈال دی۔ اس میں انہوں نے لاکھوں روپے کے خرچ سے ہونے والی پارٹی کو ’’حادثہ‘‘ قرار دیا۔

نیون لائٹ میں لکھی گئی تحریر کو اپنی انتظامی غلطی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ہماری نیت ایسی نہیں تھی۔ ہم نے تھرڈ پارٹی وینڈر سے کام کرایا تھا، وہ بھی اور ہم بھی اس کی ذمہ داری میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ہم تو بڑے مذہبی ہیں اور خیال رکھتے ہیں کہ ایسے حادثے نہ ہوں، ہم آئندہ اس کا خیال رکھیں گے۔ کہنے کو بات ختم ہوگئی، مگر یہ بات اتنی ہلکی نہیں ہے۔ وڈیوز تو سوشل میڈیا پر چلتی رہیں گی، ان کی معذرت کوئی نہیں دیکھ رہا۔ میں نے یونیورسٹی رابطہ کیا، دونوں کیمپس کا دورہ کیا۔ ان کے ڈپٹی رجسٹرار اور مارکیٹنگ منیجر سے ملاقات ہوئی، یونیورسٹی کے حالات دیکھے۔ ان سے وینڈر کا نام معلوم کیا جو کہ ڈی جے ہنی تھا۔ ڈی جے سے بات ہوئی تو انکشاف ہواکہ وہ تو یہ کام پارٹی کے آرڈر پرکرتا رہتا ہے، یہ تمام چیزیں اس کے پاس موجود ہیں اور لوگ شوق سے کرا رہے ہیں۔ اس نے کراچی کی مزید کئی نجی جامعات کے نام بھی لیے۔

اب اگر شیطان کا نام لے کر، اس کی علامتی تصاویر لگاکر یہ کام کراچی میں نوجوان لڑکے، لڑکیاں اپنا تن، من، دھن نچھاور کرکے انجام دے رہے ہیں تو اس کا مطلب کیا محض تفریح ہے؟یہ لوگ محسوس یا غیر محسوس طور پر شیطان کاگروہ نہیں بن رہے؟ کیا ان پارٹیوں میں لوگ یہاں سے نوجوانوں کو مختلف لالچ دے کر نہیں ’’گھیرتے‘‘ ہوں گے؟ پس خاموش تماشائی بننے والوں کو اُس عذابِ الٰہی کی دعوت ہے جس میں اللہ نے بستی کے سب سے بڑے عابد و زاہد پر پہلے الٹنے کا حکم دیا تھا۔ اتفاق سے یہ یونیورسٹی ایونٹ بھی بالکل مسجد کے برابر میں ہوا۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ایک ریاست بنا ہوا ہے، اس کا آئین ہے، قانون ہے، عدالتیں ہیں، تھانے ہیں، جیلیں ہیں۔ اگر سنگین جرائم کے بعد سب ایسی معذرتیں کرنا شروع کردیں توپھر ملک کیسے چلے گا!

انڈس یونیورسٹی بھی پاکستان کی دیگر نجی یونیورسٹیوں کی لسٹ میں شامل ایک نام ہے جہاں نوجوان نسل کو مخلوط،آزادانہ،لبرل،سیکولر اقدار کی طرف راغب کرنے کا مشن بخوبی انجام دیا جاتا ہے۔نئے داخلوں کے لیے یا پاس آئوٹ ہونے والوں کے لیے یا کسی اوربہانے سے یہاں ’ناچ گانے‘ کے ویسے ہی بے ہودہ ایونٹ منعقد ہوتے ہیں جو دیگر یونیورسٹیوں میں ہوتے ہیں۔ان میں سرکاری اورغیر سرکاری کی کوئی تفریق نہیں۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 31 کے مطابق ریاست کو اسلامی طرزِ زندگی کو فروغ دینے، اور فحاشی اور غیر اخلاقی حرکات کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ شیطان کی عبادت اسلامی طرزِ حیات تو ہو نہیں سکتی، لہٰذا یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ ملکی آئین توڑا گیا ہے۔ اب چلتے ہیں پینل کوڈ یعنی سزائوں کی کوڈنگ کی طرف۔واضح رہے کہ اس میں معذرت، معافی وغیرہ نہیں ہوتے۔

پاکستان پینل کوڈ (PPC) 1860، سیکشن 294 ۔ یہ دفعہ عوامی جگہوں پر فحاشی یا غیر اخلاقی سرگرمیوں پر پابندی لگاتی ہے، اور تعلیمی ادارے بھی عوامی مقامات میں شمار ہوسکتے ہیں اگر وہاں ایسی سرگرمیاں ہوں جو فحاشی کے زمرے میں آئیں۔ اس دفعہ کے تحت کوئی بھی عمل یا مواد جو عوامی ناراضی کا باعث ہو، قابلِ سزا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ شیطان کی عبادت تو عوامی خوشی کا باعث نہیں ہوسکتی۔

یہی نہیں تعلیمی اداروں کے داخلی قوانین سے لے کر پی ٹی اے تک بے شمار قوانین توڑے گئے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ قانون کب حرکت میں آئے گا؟ کیا والدین اپنی اولاد کو شیطان کا ایسا پیروکار بننے کے لیے بھیجتے ہیں؟ یہ ناچتے گاتے لڑکے لڑکیاں آپس میں کیا ہیں؟ کیا ان کے والدین اتنے آزاد ہوچکے ہیں؟ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کیا ہوا؟

میڈیا ہتھیار ہے:
ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت یہ جملہ کئی میڈیا ماہرین نے بھی کہا ہے کہ ’میڈیا ایک خطرناک ہتھیار ہے‘۔ ہم نے بھی زمانۂ طالب علمی میں ایسا ہی کچھ پڑھا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہمارے اساتذہ نے اس کی یہ حقیقت بھی بتائی تھی کہ اس کی قدر خالص ’منفی‘ ہے، یہ قطعی ’نیوٹرل‘ نہیں ہوتا اس لیے اس کو خطرناک کے لاحقے کے ساتھ پکارا جاتا ہے۔ ہمارے ایک معززاستاد سلیم مغل تو صاف مثال دیتے ہوئے سمجھاتے تھے کہ سگریٹ نوشی مانندِ زہر نقصان پہنچاتی ہے، بالوں کے لیے تیل ہزارہا سال سے آزمودہ ہے، روزہ افطار کے وقت پانی یا دودھ مؤثر ترین مشروب ہے۔ یہ سب باتیں جاننے، ماننے، ایمان رکھنے کے باوجود آپ محض میڈیا کے اثر میں جاکر اپنے ایمان، یقین، تجربے، حتیٰ کہ اپنی صحت کے بھی برخلاف عمل کرتے ہیں، اور ایسا کرکے بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔ تیل کے بجائے کیمیکل زدہ شیمپو کا استعمال ہو، افطار کے وقت زہریلی کولڈ ڈرنک یا سگریٹ نوشی و دیگر… یہ سب آپ فخر سے انجام دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ کام کرنے کے لیے آپ کو کس نے مجبور کردیا۔ اخبار، ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا کے بعد تو صورتِ حال مزید بھیانک اور ہولناک ہوچکی ہے اور بہت آگے جاچکی ہے۔ بہرحال بطور ایک مسلمان صحافی ایک بنیادی،لازمی کام خبردار کرنا ہے، حق بات بتانا ہے، وہ ہم بتاتے رہیں گے۔ اب بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں کیس کوئی ایک نہیں، مستقل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان میں ہربار سوشل میڈیا اپنی ویسی ہی جیت کا اعلان کررہا ہے جیسا وہ پہلے کررہا تھا۔ جب یہ ہتھیار ہے تو ہتھیار کا کام ہے قابو کرنا، زیرکرنا، وہ یہ کام انجام دے رہا ہے۔

احسن العلوم:
اس ہفتے کراچی کے ایک معروف دینی مدرسے جامعہ عربیہ احسن العلوم کے درس حدیث کی دو منٹ کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر آئی اور اپنا کام کرگئی۔ وڈیو کے بارے میں بنیادی بات، اصل بات، اصل سوال، اصل حقیقت کو سمجھے بغیر لوگ وہی کام کرگئے جیسا وہ سگریٹ نوشی، شیمپو کے استعمال اور کولڈڈرنک پیتے ہوئے کرتے ہیں۔

وڈیو کوئی بھی ہو، یہ جان لیں کہ وہ کبھی بھی holistic یعنی ’کلیّت‘ میں کوئی بات بیان نہیں کرے گی۔ آسان لفظوں میں سمجھنے کے لیے ’’سیاق و سباق‘‘کہہ لیں، پس منظر کہہ لیں، سکے کا دوسرا رُخ کہہ لیں… یہ سب کوئی وڈیو بیان نہیں کرسکتی۔ پھر ایک کلپ ہو یعنی ٹکڑا ہو تو مزید محال ہوجاتا ہے۔

وڈیو میں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک استاد اپنے درس کے دوران ایک طالب علم کو عمامہ پہننے کا حکم دیتا ہے، پھر کسی قریبی طالب علم سے کہتا ہے کہ وہ اس کو تھپڑ مارے۔ وہ طالب علم شاید عمامہ پہننے کے حکم پر عمل نہیں کرتا تو وہ جلال میں آکر فون کرکے اپنے والد کی تدریسی روایت کا حوالہ دے کر جلاد نامی عہدے پر فائز کسی کو بلاتا ہے جو وڈیو میں بالکل نظر نہیں آرہا ہوتا۔ استاد طالب علم کو سزا کے طور پر دس ڈنڈے لگانے کا کہتا ہے۔ وہ استاد صاف کہتا ہے کہ میں کئی بار سمجھا چکا ہوں، تم لوگ باتوں سے نہیں سمجھتے، جملے کہتاہے کہ تم منکر سنتِ رسول ہو۔ شکر کرو کہ ہم نے کفر تک نہیں پہنچایا۔ وہ طالب علم بدتمیزی کا ردعمل دیتا ہے، جس پر وہ استاد کہتا ہے کہ اس کو انتظامیہ کے پاس لے جائو اور اگر ہاتھ لگائے تو بتانا۔ اس کے بعد دعا کا منظر ہے جس میں استاد صاف کہتا ہے کہ طالب علم نے جس طریقے سے بدتمیزی کی ہے اس کو اللہ ساری زندگی ذلیل کرے اور کتے سے بدتر زندگی کرے اور ایسے گندے لوگوں سے ہمیں محفوظ رکھے۔ اس دوران وہ طلبہ کو آمین کہنے کا بھی کہتا ہے، اور نہ کہنے پر بے غیرت بھی کہتا ہے۔

ہولسٹک ویو:
وڈیو سوشل میڈیا پر آئی اور تمام لبرل کے پیٹ میں مروڑ اُٹھی۔ ستم یہ ہوا کہ جو مذہبی اور دین دار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی وڈیو کو دیکھ کر ان کے ساتھ ہم آواز ہوگئے۔ ساری دینی تاریخ، واقعاتی حقیقت، سب کچھ بھلا بیٹھے۔ یہ تک بھول گئے کہ خود ان کے اپنے بچوں کے اسکولوں میں محض فیس کی ادائیگی نہ ہونے پر کیا کچھ ہوتا ہے، یونیفارم کی درست پابندی نہ ہونے پر کیا معمول ہے۔ فوجی بھرتی کے ٹیسٹ سمیت دسیوں معاملات ہیں جہاں جسمانی طور پر ایذا دینا معمول ہے۔

اس وڈیو کو دیکھ کر کبھی بھی یہ تاثر قائم نہیں ہوسکتا کہ اُس لڑکے کو ساڑھے سات سال سے یہی مدرسہ وقت پر کھانا دیتا رہا، آرام و رہائش الگ۔ اس وڈیو سے یہ بھی نہیں معلوم ہورہا کہ عمامہ پہننا مدرسے کی روایت کا کتنا اہم حصہ ہے (جیسا کہ اسکولوں میں یونیفارم سمجھ لیں، مگر ہم جانتے ہیں کہ یونیفارم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مطہرہ نہیں ہے۔ تاہم عمامہ کے بارے میں کسی کو ابہام نہیں ہوگا)۔ اس وڈیو کو دیکھ کر کوئی یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ استاد جس عمامے کا کہہ رہا ہے وہ اس شاگرد سے محض ایک گز کی دوری پر اس کی ٹیبل پر ہی تھا جسے وہ بار بار کہنے کے باوجود نہیں پہن رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ عمامہ کہیں دکان سے خرید کر لانا تھا۔ اس وڈیو میں باوجود اس کے کہ استاد کہہ رہا ہے کہ میں نے کئی بار سمجھایا ہے، کئی بار زبان سے سمجھایا ہے… مگر وہ جملہ کوئی نوٹ نہیں کرسکا،کیوں؟ جب ڈنڈے مارنے والا آیا تو شاگرد نے جس طرح کا عمل دیا وہ بھی وڈیو میں کسی کو نظر نہیں آرہا۔ یہ اور اس طرح کے کئی امور ہیں جو وڈیو میں ظاہر نہیں ہورہے، وڈیو کو کئی جگہ سے کاٹ کر جوڑ کر بنایا گیا ہے، یہ بات بھی شاید لوگ نہیں سمجھے۔ رہی بات دعا کی، تو کم علم لوگ شاید نہیں جانتے کہ وہ بھی کوئی خلافِ شرع عمل نہیں ہے۔ بہرحال ان سب کے باوجود سوشل میڈیا یوں جیت گیا کہ اگلے دن ہی معافی مانگ لی گئی اور بات اپنے تئیں ختم کردی گئی۔

اس ضمن میں دوسری سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جب تک علمائے کرام میڈیا کے ڈسکورس کا حصہ بنے رہیں گے،جو اُن کا نہیں ہے، جس کو انہوں نے سخت انکار کے بعد نامعلوم وجوہات پر اپنایا ہے، تو لازم ہے کہ اکابرین کے فتاویٰ کے مطابق زہریلے نتائج ہی برآمد ہوں گے۔ گزشتہ نصف صدی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یہ سارا میڈیا… سوشل ہو یا غیر سوشل… کسی بھی دین کے فروغ کے لیے نہیں بنا ہے۔ اس کو علمائے کرام کسی بھی نیت سے استعمال کریں گے وہ اسی طرح (سیکولر و مذہب دشمن عوام کے نزدیک) ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے، چاہے کتنے بڑے بڑے’’پھنے خان‘‘ کیوں نہ ہوں۔ میڈیا ڈسکورس میں جانے کے بعد سب کے کپڑے ایک ہی طرح سے اُترتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا تو اور زیادہ خطرناک ہے۔ سیکڑوں سالہ تہذیبی علمی روایت کو اس طرح میڈیا پر جب لایا جائے گا تو یہی نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ایک نہیں کئی مثالوں کے ڈھیر جمع ہوچکے ہیں جو یہی بتا رہے ہیں کہ جس مصلحت کے لیے تصویر اور وڈیو کی گنجائش نکالی گئی وہ انتہائی بھیانک صورت اختیار کرچکی ہے۔ عمامے کی اہمیت سے زیادہ موبائل، تصویرکشی کی حرمت پر ڈنڈے برسانے کی ضرورت ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ استعماریت کا غلبہ لوگوں کو تو دور کی بات، ہمارے علما کو بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ تو ترقی اور ہیومن رائٹس ڈسکورس کو دینی سمجھ کر دل سے قبول کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک جواب نہیں دے پاتے، منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اِس لیے اصل معاملہ وڈیو، تصویر کا ڈومین ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھے، جانے بغیر لٹی ہوئی عزت واپس نہیں آسکتی، بلکہ مزید لٹتی ہی رہے گی۔

مزید تفصیلات پہلے دوسرے کمنٹ میں

پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس :پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح ہے۔اِس سے مراد وہ خاص حالات بھی لیے جاتے ہیں کہ جن میں معر...
20/10/2024

پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس :
پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح ہے۔اِس سے مراد وہ خاص حالات بھی لیے جاتے ہیں کہ جن میں معروضی حقائق کی بجائے جذبات سیاسی فیصلوں کی تشکیل کا سبب بنتے ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ مہم کے دوران، غلط اور مبالغہ آمیز دعوے سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے، جیسے کہ یورپی یونین کو فنڈنگ کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ دعوے۔اسی طرح امریکی صدارتی انتخابات (2016) میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم میں سوشل میڈیا پر جعلی خبریں اور سازشی نظریات بڑے پیمانے پر پھیلائے گئے، جنہیں سچ مان کر ووٹرز نے قبول بھی کیا، بھارتی الیکشن میں مودی کی کامیابی کو بھی اسی تناظر میں استعمال کیا گیا۔ عمران خان پاکستان کے ضمن میں سوشل میڈیا کی پوسٹ ٹرتھ پالیٹکس کی انتہائی اہم مثال میں شامل ہیں۔ ویسے اگر کوئی سوال کرلے کہ ان مثالوں سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ ’جھوٹ پرکیسا عمل کرتے ہیں؟‘ تو یہ غلط نہ ہوگا۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ مغرب اصطلاحات کی ایسی خوش نما چادرچڑھاتا ہے کہ حقیقت ویسے ہی چھپ جاتی ہے، جیسے یہاں ’جھوٹ‘ کا نام ’پوسٹ ٹرتھ ‘ رکھ دیا گیا۔ جس کے بظاہر لفظی معانی ہیں ’’سچائی کے بعد‘‘۔ ویسے نظری اعتبار سے دیکھا جائے دیکھا جائے تو سچائی کے بعد جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ اس ہفتے لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں واقع پنجاب گروپ آف کالجز کے لڑکیوں کے کیمپس میں ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی کی خبر کو ایسے انداز سے پھیلایا گیا کہ پنجاب کا منظر ہی یک لخت تبدیل ہوگیا۔پاکستان ہی نہیں بھارتی و عالمی میڈیا پر یہ خبر ایسے نشر ہوئی کہ خود اْن اداروں پر سوال اْٹھتا ہے کہ کیسے ’مبینہ‘ کے نام پر ایک یکسر جھوٹا واقعہ رپورٹ کرتے رہے۔ کیا عوام نے بھی حقیقت اور حقائق کو مدنظر رکھنے کے بجائے جذبات کا اظہار ایک ایسی حد تک کیا جو سوشل میڈیا ڈسکورس میں آنے والی خبر کا لازمی نتیجہ کہلائے گا۔ ویسے ہم جانتے ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر ایسے ہی اظہار کرتے ہیں۔

پوسٹ ٹروتھیے :
معروف کالم نگارآصف محمود لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے پوسٹ ٹروتھیے جھوٹ اور دجال کے سفیر بن چکے ہیں۔ معاشرے کو ہمہ وقت ہیجان اور اضطراب سے دوچار کر کے رکھا ہوا ہے۔ پانچ دن ہو گئے یہ لوگ اب تک کیوں نہیں بتا رہے بچی کون تھی؟ نام کیا تھا؟ کلاس کون سی تھی؟ داخل کس اسپتال میں ہوئی؟‘‘ عاصم اللہ بخش کہتے ہیں کہ ’’جس میں 100 فیصد فیک نیوز کو بذریعہ سوشل میڈیا حقیقت ثابت کرنے اور اس کے نتیجہ میں سماجی اُبال اور اس سے کسی بڑی گڑبڑ جیسے کہ خانہ جنگی یا امن و امان کا مکمل بحران پیدا کردینے کے امکان کا جائزہ لینا مقصود ہے۔‘‘

ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر ’’سماجی تحرک‘‘ کے ’’خطرناک تجربے‘‘ سے گزارا گیا ہے کہ دیکھا جائے کہ لوگوں میں اب بھی ردِ عمل کی صلاحیت ہے کہ نہیں؟ مگر میں کہتا ہوں کہ اس کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ ’’ناموس رسالت‘‘ کے معاملے پر ابھی ہم نے اگست، ستمبر میں واقعات کی ایسی ترتیب دیکھ لی ہے جو مکمل سچائی پر مبنی تھی۔ ناموس رسالت تو واقعی بہت بڑا معاملہ ہے۔ ہم تو ابھی ایک صوبے میں ’قوم پرستی‘ کے عنوان سے بھی لوگوں کو نکلا ہوا دیکھ رہے ہیں۔تو اس ہولناک تجربے کی پریشانی کیسی ؟

پنجاب کالج جیسے بڑے گروپ کا اس کے لیے انتخاب، بہت منظم سوشل میڈیا مہم اور اس میں بڑھتی تیزی بہت اہم معاملہ ہے۔ پنجاب مردانہ و زنانہ پولیس ہی نہیں وزیر اعلیٰ کا بھی بہت واضح مؤقف سامنے آچکا ہے کہ ’’ایسا کوئی واقعہ نہ کسی نے رپورٹ کیا ہے۔ سینکڑوں طلبہ احتجاج کر رہے ہیں مگر کوئی ایک بھی اس اس واقعے کا گواہ، مدعی یا کوئی نشان یا کوئی سراغ دینے کو نہیں تیار۔ کسی ذریعے سے اس واقعے کی تصدیق ہی نہیں ہو رہی۔ یہ سراسر جھوٹ پر کھڑا واقعہ ہے۔ ‘‘

معاملہ پیچیدہ کیوں ہے؟
معاملہ پیچیدہ اس لیے ہے کہ عملاً ریاست کے لیے اس واقعے کو چھپانا بالکل ممکن ہے۔ رائج الوقت صحافتی طریقہ کار پر بھی یہ واقعہ فٹ نہیں بیٹھ رہا۔جو چیزیں وقوع کے نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں اُن کو میڈیا کی رسائی نہیں دی جا رہی۔ جب واقعہ ہوا ہی نہیں تو پھر کالج کیمپس کی رجسٹریشن بغیر تحقیق کیوں منسوخی کی گئی؟ سب حکومتی تسلیوں اور یقین دہانیوں کے باوجود احتجاج کا دائرہ پھیلتا ہوا لاہور سے اسلام آباد چلا گیا۔

طالبہ کے ساتھ زیادتی کو لے کر سوشل میڈیا پر ایسا ایسا مواد تشکیل دیا گیا کہ جس سے انتہائی عجیب صورت حال پیدا ہوگئی۔ یوٹیوبرز کی بھی خوب چاندی ہوگئی، دھڑا دھڑ تبصرے، تجزیے۔ یہ حقیقت ہے کہ کالج کا مالک میاں عامر محمود ایک بڑے میڈیا گروپ کا بھی مالک ہے‘ اس لیے میڈیا کی جانب داری کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے‘ مگر میڈیا کے درمیان مسابقت بھی حقیقت ہے۔ اگر کالج کی جگہ بحریہ ٹائون یا کے الیکٹرک ہوتا‘ یا یہ واقعہ امریکن، برطانوی، فرانسیسی ایمبیسی میں ہواہوتا تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ میڈیا ہی نہیں بلکہ پوری ریاست اس واقعے کو چھپانے کے لیے نکل آتا، مگر یہ تو محض پنجاب کالج ہے اور مبینہ ملزم ایک گارڈ اور وین ڈرائیور ہے۔ 9 ستمبر2020 کو لاہور موٹر وے پر ہی رات کو فرانسیسی نژاد پاکستانی خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ تو آپ کو یاد ہوگا؟ جس میں ملوث مجرموں کو حیرت انگیز طور پر سزائے موت دے دی گئی۔ یہی نہیں 7 سالہ ’زینب‘ کا کیس رپورٹ ہوا ہے، دسیوں اس سے زیادہ گھنائونے ہائی پروفائل کیسز رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایاز امیر کے بیٹے سمیت کئی کیسز ہیں۔ مگر یہ عجیب کیس ہے کہ نہ متاثرہ لڑکی اور نہ ہی اس کے کوئی گھر والے سامنے آئے ہیں۔

متاثرہ کی تلاش :
اس واقعے کو اب پورا ہفتہ بھر ہوچکا ہے مگر ابھی تک متاثرہ طالبہ، اس کے والدین یا کوئی اور شناخت سامنے ہی نہیں آرہی۔ لڑکی کی کسی قسم کی کوئی معلومات سامنے نہیں۔ جس گارڈ کو ملوث بتایا گیا، اُس کو بغیر کسی ایف آئی آر کے گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے ایک گارڈ واقعہ کے دن سے غائب تھا جسے پولیس سرگودھا سے پکڑ لائی۔ اس گارڈ نے بھی اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور اپنی چھٹی کو عمومی چھٹی قرار دیا ہے۔ کالج میں لگے کیمروں کے بارے میں طالبات کا بیان انتہائی حیران کن ہے کہ ’’انتظامیہ نے ڈیٹا ڈیلیٹ کردیا۔‘‘ وزیر تعلیم نے بھی میڈیا سے یہی کہا کہ
وڈیو ڈیلیٹ کی گئی ہے بعد میں وزیر اعلیٰ کے مؤقف کے بعد وہ بھی مکر گئے۔ دوسری جانب سی سی ٹی وی کیمروں کا ڈیٹا جو پولیس نے دیکھا ہے اُس میں پولیس کا کہنا یہ ہے کہ ایساکوئی نشان بھی نہیں ملا۔ اَب مزید حیران کن بات اس کیس کی یہ ہے کہ بڑے سے بڑے دھماکوں کی سی سی ٹی وی تصاویر میڈیا کو جاری کر دی جاتی ہیں مگر یہ سادہ سی فوٹیج ابھی تک جاری نہیں کی گئی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس واقعے کو انسٹاگرام اکائونٹ پر شیئر کرنے والے ضرور گرفتار ہوئے ہیں اور ان پر عوام کو بھڑکانے کا الزام لگایا گیا ہے جس کو گرفتار کیا ہے‘ اُس کی شناخت وزیر اعلیٰ نے اپنے سوشل میڈیا سے جاری کی، مگر پولیس کی تحقیقات کوئی بھی جاری نہیں کر رہا۔ اگر ایسی کوئی لڑکی نہیں ہے یا جس طالبہ کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے‘ اُس کو سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟جب کچھ ہوا ہی نہیں تو بدنامی کیسی؟

با اثرکون:
پولیس کہتی ہے کہ ہمارے پاس کوئی پرچہ کٹوانے نہیں آیا ، طلبہ کہتے ہیں کہ اُس کے گھر والوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ ’’کہیں رپورٹ نہ کرو۔‘‘ لڑکی کی مستقبل اور عزت کا معاملہ اُٹھا کر لڑکی کی شناخت چھپائی جا رہی ہے۔ عجیب عجیب وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال کر کہانیاں بنائی جا رہی ہیں، کوئی اپنی شناخت کے ساتھ سامنے آنے کو تیار نہیں۔ لوگ پُر تشدد مظاہرے کر رہے ہیں، ہر مائیک کو دیکھ کر چہرے پر ماسک سجا کر انٹرویو دے رہے ہیں مگر پرچہ کٹوانے نہیں آرہے۔لڑکی کا پوچھو تو کہتے ہیں کہ ’’لڑکی کی عزت کی خاطر‘‘ نہیں بتا رہے تو بھئی پھر معاملہ حل کیسے ہوگا؟

جہاں تک یہ سوال ہے کہ کالج کی ساکھ خراب ہوگی اور داخلوں کا مسئلہ ہوگا تو یہ فی زمانہ کیسے کوئی بہت وزنی بات سمجھی جا سکتی ہے، وہ بھی ایک گارڈ کی قیمت پر اور ایسے وین ڈرائیور پر جو کالج کا ملازم ہی نہیں۔ دیکھاجائے تو پنجاب کالج کی اس جھوٹے الزام سے بھی اتنی بدنامی ہوچکی ہے کہ غیرت مند والدین وہی کریں گے جو ان کو کرنا ہے، باقی جس کو نہیں ماننا وہ نہیں ماننے والا۔

یہ تشدد کیوں محسوس نہیں ہوتا:
اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ کی جانب سے اِن پرتشدد مظاہروں میں ایک معصوم جان بھی چلی گئی۔گجرات میں تو یہ مظاہرے اِس حد تک گئے کہ پنجاب کالج کے مقامی کیمپس کے 50 سالہ گارڈ اظہر حسین کی جان بھی لے لی گئی۔ گجرات پولیس نے 185 افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا‘ 92 گرفتار کیے۔ وہاں ایک طالب علم بھی اِس وقت شدید زخمی حالت میں زیر علاج ہے۔ یہ طالب علم پولیس گرفتاری سے بچ کر بھاگ رہا تھا کہ ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ طلبہ اتنے زیادہ پُر تشدد کیسے ہوگئے؟ اَب تک لاہور میں 30 کے قریب گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ پنجاب کالج کیمپس و دیگر کی کروڑوں روپے کی املاک نذر آتش کی جا چکی ہیں۔ لالہ موسیٰ میں 200 افراد کے خلاف مقدمہ در ج ہوا ہے، 46 ناموں کے ساتھ جنہوں نے کھاریاں کیمپس پر حملہ کیا۔ منڈی بہاء الدین اور جہلم سمیت جہاں‘ جہاں پنجاب کالج کے کیمپس ہیں وہاں بھرپور حملے اور لوٹ مار کی گئی۔ دوسری طرف پنجاب کالج کے مختلف کیمپس (سرگودھا، سمندری) کے طلبہ بھی اپنے کالج کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنے نکل آئے۔ پنجاب حکومت نے جمعے کو اپنے نوٹیفیکیشن میں بغیر کوئی وجہ تحریر کیے صوبے بھر کے اسکولوں، کالجوں اور جامعات کو بند کرنے کا حکم دے کر مزید سوال اٹھا دیے۔274 افراد پر صرف ایک شالامار کالج مظاہر ے کا پرچہ کاٹا گیاہے۔ 4 پولیس والے طلبہ کے تشدد سے زخمی ہوئے۔ پنجاب کے شہروںمیں پھیلنے والا اس تشدد کو صوبائی حکومت نے سیاسی رنگ اور سیاسی بدلہ لینے کی سازش قراردیا ہے۔

یہ بات نوٹ کریں کہ یہ قطعاً کوئی مذہبی گروہ نہیں تھے‘ نہ یہ کسی مدرسے کے طلبہ تھے‘ نہ اِن کو کسی مذہبی جماعت نے اُکسایا تھا‘ نہ یہ کسی مذہبی جماعت کے زیر اثر تھے۔ اس کے باوجود سارے لنڈے کے لبرل، سیکولر مفکرین کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ یہ مظاہرے کسی بھی نہاد میں مذہبی نہیںہیں، اگر تو جھوٹی خبر پر ہیں تو بھی نہیں، بقول پنجاب حکومت اگر سیاسی ہیں تو بھی مذہبی دائرے میں نہیں آتے‘ جو مذہبی نہیں وہ لازمی سیکولر ہے۔ تو ان سب مظاہروں پر جو کہ پڑھے لکھے باشعور طلبہ کر رہے ہیں کہیں سے کوئی آواز کیوں سنائی نہیں دے رہی ؟ یعنی یہ طے ہوا کہ مذہب کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا ایک نہایت گندی و غلیظ عادت ہے ان سب کی۔

زیادتیوں پر زیادتیاں:
پنجاب کالج میں کچھ ہوا یا نہیں‘ جنسی ہیجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ یہ ہے سب سے بڑی حقیقت۔ سوشل میڈیا پر اس دورا ن اسکولوں، کالجوںاور یونیورسٹیوں کے مختلف فنکشن کی وہ شرم ناک وڈیوز شیئر کی جاتی رہیں جن میں مخلوط ڈانس اور انتہائی شرمناک حرکات پر مشتمل سرگرمیاں شامل تھیں۔ یہ بیانیہ دیاگیاکہ ان تعلیمی اداروں میں یہی کچھ جب کرایا جائے گا تو یہی نتائج ہوں گے۔ اس میں کوئی تجزیہ غلط نہیں۔ پاکستان کی کئی نجی جامعات ایسی سرگرمیوں کی تشہیر سے ہی ایسیا آزادانہ اختلاط والے ماحول کی وجہ سے ہی گاہگ (طلبہ) کو کھینچ کرلاتی ہیں۔ اس لیے یہ تعلیمی ادارے بہرحال منشیات سمیت تمام منکرات کا ایک ایسا گڑھ بن چکے ہیں کہ معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ’آزاد چائے والا‘ نے وڈیو بناکر سمجھایا کہ پاکستانی جامعات اس قابل نہیں کہ اپنی بیٹیوں کو بھیجا جائے۔ میڈیا کی زہر افشانی پر جتنی بات کریں کم ہے۔

اس کے ایک اور پہلو سے جواب کے لیے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی رپورٹ پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ اقوام متحدہ نے 18سال سے کم عمر 37 کروڑ خواتین و بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا تخمینہ پیش کردیا۔ دنیا بھر میں لبرل اقدار، مذہب بے زاری اور جنسی آوارگی کے یہ بھیانک نتائج ہیں جنہیں قابل قبول بنانے کی مہم جاری ہے۔ یہ ہے وہ ننگی تہذیب، لادین نظریات پر ترتیب دیے گئے معاشرے کا بھیانک چہرہ۔ اقوام متحدہ بھی صرف رپورٹ شائع کر سکتا ہے‘ دنیا کی کوئی طاقت نہیںجو ’تصورِ آزادی۔ تصورِ حقوق‘ کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈال سکے۔ پاکستان میں بھی زیادتیوں کا ایسا ہی شور مچا ہوا ہے۔ سب کو مریض سے مسئلہ ہے ‘ اصل مرض اور اُس کی وجوہات کو ختم کرنے کی طرف کوئی جانے کی ہمت نہیں کرتا۔

Address

Park Avenue, PECHS Block 6
Karachi
75550

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Yaadgaar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share