31/10/2025
یتیم سے ڈپٹی کمشنر تک کا سفر
(ایک سچی جدوجہد کی کہانی — 1860ء کا ہندوستان)
باب اول: غم کی صبح
سال تھا 1860ء۔
برطانوی راج اپنے عروج پر تھا۔ ہندوستان کے ہر کونے میں انگریز افسروں کا راج، بڑے زمینداروں کا غرور، اور عام لوگوں کی خاموش زندگی جاری تھی۔
شمالی ہند کے ایک چھوٹے سے قصبے گورکھپور میں ایک غریب درزی عبدالرؤف اپنی بیوی زرینہ اور ننھے بیٹے نعیم کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔
عبدالرؤف کی چھوٹی سی دکان تھی، جہاں وہ دن رات محنت کرتا۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
ایک دن گاؤں میں وبا پھیل گئی — کالرا۔
کئی گھر اجڑ گئے، اور انہی میں ایک گھر عبدالرؤف کا بھی تھا۔
چند دنوں کے اندر وہ بیماری کا شکار ہو کر اس دارِ فانی سے رخصت ہو گیا۔
زرینہ نے شوہر کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کیا، اور ایک ہفتے کے اندر وہ بھی چل بسی۔
چھ سالہ نعیم — اب ایک یتیم تھا۔
نہ کوئی رشتہ دار، نہ کوئی سہارا۔
محلے والوں نے ترس کھا کر کچھ دنوں تک اس کی خبر گیری کی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔
نعیم اب گلیوں میں ننگے پاؤں بھٹکتا، کبھی بھوک سے بلکتا، کبھی مسجد کے دروازے پر سو جاتا۔
باب دوم: مسجد کا امام
ایک دن مسجد کے امام مولوی کریم الدین نے اسے دیکھا۔
نحیف و نزار بچہ، چہرے پر مٹی، آنکھوں میں خوف۔
مولوی صاحب کے دل میں درد جاگا۔
انہوں نے اسے بلایا، پانی پلایا، اور پوچھا:
"بیٹا، تمہارا نام کیا ہے؟"
"نعیم... نعیم عبدالرؤف..."
مولوی صاحب نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا:
"آج سے تم مسجد کے ساتھ رہو گے۔ میں تمہیں پڑھاؤں گا، کھانا بھی ملے گا۔ لیکن وعدہ کرو، تم محنت کرو گے۔"
نعیم نے اثبات میں سر ہلایا۔
یوں مسجد نعیم کا نیا گھر بن گئی۔
وہ صبح فجر کے بعد مسجد صاف کرتا، دوپہر میں قرآن پڑھتا، اور شام کو مولوی صاحب سے اردو اور فارسی سیکھتا۔
مولوی کریم الدین کو علم تھا کہ تعلیم ہی وہ چراغ ہے جو اندھیروں کو مٹا سکتا ہے۔
انہوں نے نعیم کے اندر وہی شمع روشن کر دی۔
باب سوم: علم کی روشنی
چند سالوں میں نعیم نے قرآن، فقہ، اردو، فارسی، اور ابتدائی انگریزی بھی سیکھ لی۔
مولوی صاحب کے ایک پرانے شاگرد استاد رام نرائن اسکول میں پڑھاتے تھے۔
انہوں نے نعیم کو اسکول میں داخل کروایا۔
وہ دن بھر پڑھتا اور رات مسجد میں چراغ کے نیچے مشق کرتا۔
غریبی کے باوجود اس کی آنکھوں میں خواب چمک رہے تھے۔
اس نے اپنی زندگی کا مقصد طے کر لیا تھا:
"میں افسر بنوں گا، تاکہ کوئی یتیم میری طرح بھوکا نہ سوئے۔"
وقت گزرا۔
نعیم نے ضلع کے امتحان میں پہلا نمبر حاصل کیا۔
انگریز ہیڈ ماسٹر مسٹر رچرڈ نے اس کی ذہانت دیکھی تو حیران رہ گیا۔
"یو آر اے رئیر بوائے، نعیم۔"
اور اس نے نعیم کو کالج اسکالرشپ کے لیے سفارش لکھ دی۔
باب چہارم: کلکتہ کا سفر
کلکتہ اُس وقت برطانوی راج کا دل تھا۔
نعیم پہلی بار گاؤں سے باہر نکلا، ٹرین دیکھی، بڑے بنگلے دیکھے، انگریزوں کو دیکھا۔
کالج میں وہ اکیلا ہندوستانی مسلمان طالب علم تھا۔
ابتدا میں اسے لہجے، لباس، اور غریبی پر طعنہ دیا جاتا۔
مگر نعیم نے برداشت کیا۔
وہ جانتا تھا کہ کامیابی شور نہیں کرتی — محنت کرتی ہے۔
چار سال کی انتھک محنت کے بعد اس نے کیمبرج بورڈ امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
اب انگریز حکومت نے اس کے لیے راستہ کھول دیا —
انڈین سول سروس (ICS) کا امتحان۔
باب پنجم: انگریزی امتحان اور جدوجہد
یہ وہ زمانہ تھا جب ICS میں شامل ہونا صرف بڑے زمینداروں یا انگریزوں کے بیٹوں کے لیے ممکن تھا۔
ایک یتیم، غریب، دیسی لڑکے کے لیے یہ خواب سے کم نہ تھا۔
لیکن نعیم نے کہا:
"اگر نیت سچی ہو تو آسمان بھی راستہ دیتا ہے۔"
اس نے دن رات پڑھائی شروع کی۔
فارسی، انگریزی، قانون، تاریخ، سب پر عبور حاصل کیا۔
آخرکار 1880ء میں امتحان کا نتیجہ آیا —
اور سب حیران رہ گئے!
نعیم عبدالرؤف — ہندوستان سے پہلا یتیم مسلم نوجوان — جو ICS میں کامیاب ہوا۔
باب ششم: افسر کا دور
نعیم کو صوبہ اودھ میں اسسٹنٹ کمشنر مقرر کیا گیا۔
لوگ حیران تھے — ایک غریب لڑکا اب انگریزوں کے برابر کرسی پر بیٹھا تھا۔
لیکن نعیم میں غرور نہیں آیا۔
اس نے گاؤں کے اسکول کھولے، یتیم بچوں کے لیے فنڈ بنایا، اور غریبوں کو زمین کے کاغذ دلائے۔
ایک دن ایک بوڑھی عورت اس کے دفتر آئی۔
"بیٹا، میرا نام زرینہ بی بی ہے، میرا شوہر درزی تھا... گورکھپور میں رہتا تھا..."
نعیم چونک گیا۔
"امی؟"
وہ ماں نہیں تھی، مگر اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں نے اسے اپنی ماں یاد دلا دی۔
اس نے اس عورت کو گلے لگا لیا، اور کہا:
"اب کوئی ماں بے سہارا نہیں رہے گی۔"
باب ہفتم: ڈپٹی کمشنر نعیم
سال 1895ء۔
نعیم عبدالرؤف کو ڈپٹی کمشنر بنا دیا گیا۔
پورے صوبے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
لوگ کہتے تھے:
"یہ وہی یتیم لڑکا ہے جو کبھی مسجد کے صحن میں سوتا تھا!"
ڈپٹی کمشنر نعیم ہر فیصلے میں انصاف، انسانیت، اور رحم کا پہلو رکھتا۔
اس کے دور میں پہلی بار یتیم خانہ قائم ہوا۔
اس نے اپنے دفتر کے باہر ایک تختی لگوائی:
"یتیموں کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔"
باب آخر: خدمت کا انعام
زندگی کے آخری ایام میں، جب بالوں میں سفیدی آگئی، نعیم اکثر مسجد کے قریب بیٹھ کر بچوں کو قرآن پڑھتے دیکھتا۔
وہ مسکرا کر کہتا:
"میں بھی کبھی ایسا ہی بچہ تھا... لیکن علم نے مجھے عزت دی۔"
1905ء میں جب وہ انتقال کر گیا، تو پورے ضلع نے اس کے جنازے میں شرکت کی۔
مسلمان، ہندو، سکھ — سب کے سب۔
اس کی قبر پر ایک سنگِ مرمر کی تختی لگائی گئی:
"یہاں وہ انسان آرام کر رہا ہے جو یتیموں کے دلوں میں امید جگا گیا۔"
اختتامیہ پیغام
یہ کہانی صرف نعیم عبدالرؤف کی نہیں —
یہ ہر اُس انسان کی کہانی ہے جو حالات کے اندھیروں سے نکل کر روشنی تک پہنچتا ہے۔
یتیمی، غربت، محرومی — کچھ بھی انسان کے ارادے کو شکست نہیں دے سکتا،
اگر دل میں یقین ہو کہ "میں خود اپنی تقدیر لکھ سکتا ہوں۔"
#محنت
#حوصلہ
#کامیابی
#تعلیم
#عزم
#امید
#زندگی
#یتیم
#نیکی