Draw It Easy

Draw It Easy "Welcome to Draw It Easy! I'm Hafiz Baidar Khan, a digital creator passionate about making learning fun for kids. Follow for simple and engaging art lessons.

I create easy, step-by-step drawing tutorials to help young learners explore their creativity. "Welcome to 'Draw It Easy', your go-to place for easy and fun step-by-step drawing tutorials! Whether you're a beginner or just love doodling, we make art simple and enjoyable. Follow us for creative ideas, quick sketches, and colorful inspirations!"

میری جان  پہلا دنگورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا پہلا دن تھا۔ طلبہ اور طالبات کے چہروں پر خوشی، تجسس اور کچھ حد تک گھبرا...
25/04/2025

میری جان

پہلا دن

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا پہلا دن تھا۔ طلبہ اور طالبات کے چہروں پر خوشی، تجسس اور کچھ حد تک گھبراہٹ تھی۔ علی، جو کہ خیبر پختونخوا کے ایک چھوٹے سے شہر سے آیا تھا، انجینئرنگ کے پہلے سال میں داخلہ لے چکا تھا۔ جبکہ زینب، لاہور کی رہائشی، ایم بی بی ایس کے سفر کا آغاز کر رہی تھی۔ دونوں کا خواب بڑا تھا، اور دل میں کچھ کر گزرنے کی لگن تھی۔

پہلے دن ہی ایک پروگرام میں ان کی ملاقات ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو رسمی انداز میں سلام کیا، اور یوں ایک تعارف کا آغاز ہوا۔ زینب کی نظریں کتابوں میں گم تھیں جبکہ علی، جو ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کو تیار رہتا، اس کے نوٹس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔

دوستی کی بنیاد

دن، ہفتے، اور مہینے گزرنے لگے۔ دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ بڑھا، پہلے تعلیمی باتوں پر، پھر زندگی کے خوابوں پر۔ زینب ڈاکٹر بن کر خواتین کی خدمت کرنا چاہتی تھی، اور علی انجینئر بن کر ملک کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کا خواب رکھتا تھا۔

ایک دن زینب نے علی سے کہا،
"تم اتنے پُرعزم کیوں ہو؟"

علی نے مسکرا کر جواب دیا،
"میری ماں نے مجھے کہا تھا، 'بیٹا، علم وہ خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔' میں چاہتا ہوں کہ میری کامیابی ان کا سر فخر سے بلند کرے۔"

زینب کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ "ہم سب کو تم جیسے بیٹے چاہیے۔"

دل کی بات

وقت گزرتا گیا، اور محبت آہستہ آہستہ دونوں کے دلوں میں جگہ بنانے لگی۔ مگر وہ دونوں اس رشتے کو عزت دینا چاہتے تھے، وقت سے پہلے اظہار کرنے کے حق میں نہیں تھے۔

ایک دن لائبریری میں زینب نے علی سے کہا،
"علی، کبھی کبھی لگتا ہے جیسے ہم ایک دوسرے کو بہت اچھے سے سمجھتے ہیں۔"

علی نے کچھ لمحے خاموشی سے گزارے، پھر کہا،
"زینب، میں تمہاری بہت عزت کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے خواب پورے کریں، اور جب وقت آئے، تب بات دل کی بھی کریں گے۔"

زینب نے اثبات میں سر ہلایا، "میری بھی یہی سوچ ہے۔"

امتحان اور محنت

یونیورسٹی کا ماحول کبھی آسان نہ تھا۔ دن رات کی محنت، امتحانات، اسائنمنٹس، اور پریشر… مگر دونوں ایک دوسرے کا حوصلہ بن گئے۔ جہاں علی زینب کو بایولوجی کے مشکل سوالات میں مدد دیتا، وہیں زینب اس کی ریاضی کی الجھنیں سلجھاتی۔

علی اکثر کہتا،
"کامیابی اکیلے کی نہیں ہوتی، جب ساتھ کوئی ایسا ہو جو خوابوں میں یقین رکھے، تو منزل قریب آ جاتی ہے۔"

وقت کا امتحان

ایک دن زینب کے گھر میں رشتے کی بات چلی۔ والدین نے اس کی مرضی پوچھی، تو اس نے ہمت کر کے علی کا ذکر کیا۔
"وہ بہت محنتی ہے، اور میری عزت کرتا ہے۔ ہم دونوں تعلیم مکمل ہونے تک کوئی فیصلہ نہیں کریں گے، مگر میں اس کی قدر کرتی ہوں۔"

والدین نے پہلے حیرت سے دیکھا، پھر باپ نے نرمی سے کہا،
"اگر وہ واقعی تمہارے خوابوں کی قدر کرتا ہے، تو ہم اس سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔"

دوسری طرف، علی بھی اپنے گھر والوں کو سب بتا چکا تھا۔ اور ان کے دل میں بھی زینب کے لیے احترام پیدا ہو چکا تھا۔

خوابوں کی تکمیل

وقت گزرا۔ علی نے انجینئرنگ میں ٹاپ کیا، اور زینب نے ایم بی بی ایس مکمل کر لیا۔ دونوں اپنے شعبے میں مقام بنا چکے تھے۔ اب وقت تھا کہ وہ ایک نئے سفر کا آغاز کریں۔

دونوں کے خاندان اکٹھے ہوئے۔ سادگی سے نکاح ہوا، اور دونوں نے اپنے نئے سفر کا آغاز "علم، محبت، اور عزت" کے ساتھ کیا۔

نئی زندگی

علی ایک انجینئرنگ فرم کا سربراہ بن چکا تھا، اور زینب نے اپنا کلینک کھول لیا تھا جہاں وہ غریب خواتین کا مفت علاج کرتی۔ دونوں نے مل کر ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا، جہاں گاؤں کے بچوں کو جدید تعلیم دی جاتی۔

علی نے ایک دن زینب سے کہا،
"تم میری کامیابی کی اصل وجہ ہو۔"

زینب نے مسکرا کر کہا،
"اور تم میری جان ہو، میری حوصلہ افزائی۔"

---

اختتامیہ:

"میری جان" صرف ایک محبت کی کہانی نہیں، بلکہ یہ ان خوابوں کی کہانی ہے جو دو لوگوں نے مل کر دیکھے، اور پورے کیے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ محبت صرف دل کی بات نہیں، بلکہ عمل، قربانی، محنت، اور وقت کا امتحان بھی ہے۔

---














مثالی دلہنخوابوں کی دنیاایک چھوٹے سے گاؤں "نورپور" میں، جہاں شام کے وقت آسمان نارنجی ہو جاتا تھا اور ہر گلی خوشبوؤں سے م...
23/04/2025

مثالی دلہن

خوابوں کی دنیا

ایک چھوٹے سے گاؤں "نورپور" میں، جہاں شام کے وقت آسمان نارنجی ہو جاتا تھا اور ہر گلی خوشبوؤں سے مہکتی تھی، ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام تھا **عائشہ**۔
عائشہ نہایت سادہ، محنتی اور بااخلاق لڑکی تھی۔
اس کے خواب عام لڑکیوں جیسے نہیں تھے کہ بس شہزادیوں جیسے محل میں جائے۔
اس کا خواب تھا کہ جہاں بھی جائے، اپنی محنت، محبت، اور کردار سے ایک مثالی دلہن کہلائے۔

اس کی ماں ہمیشہ کہا کرتی:
"بیٹی، خوبصورتی وقتی ہے، مگر اچھا کردار ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔"

انوکھا رشتہ

ایک دن گاؤں میں خبر پھیلی کہ مشہور زمیندار **بدر منیر** اپنے بیٹے **فہد** کے لیے لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں۔
فہد تعلیم یافتہ اور بہت مہذب نوجوان تھا۔
بہت سی لڑکیاں خواب دیکھنے لگیں کہ فہد ان کا انتخاب کرے گا۔
مگر فہد نے سب سے الگ سوچ رکھی تھی۔
اس نے اپنے والدین سے کہا:
"میں دولت نہیں، دل کا سکون چاہتا ہوں۔ مجھے ایسی ساتھی چاہیے جو مشکل وقت میں بھی میرا ساتھ دے، نہ کہ صرف اچھے دنوں میں خوش ہو۔"

قسمت کا کھیل دیکھیں کہ ایک دن فہد نے کسی تقریب میں عائشہ کو دیکھا۔
عائشہ اپنے طور پر چھوٹے بچوں کو پڑھا رہی تھی، مسکرا رہی تھی، خدمت کر رہی تھی۔
فہد متاثر ہوا اور اپنے والدین کو کہا:
"یہی ہے میری مثالی دلہن!"

نئی زندگی کا آغاز

عائشہ اور فہد کا نکاح سادگی سے ہوا۔
کوئی شور شرابہ، کوئی فضول خرچی نہیں — صرف دعا، سچائی اور محبت کی خوشبو۔
عائشہ نے شادی کے بعد نئے گھر میں قدم رکھا تو پہلا جملہ بولا:
"یہ گھر اب میرا خاندان ہے، اس کی خوشی میری خوشی، اس کی تکلیف میری تکلیف۔"

شروع شروع میں سب کچھ بہت اچھا تھا۔
مگر زندگی ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔

پہلی آزمائش

چند مہینوں بعد فہد کے کاروبار میں بھاری نقصان ہو گیا۔
ایک دن سب کچھ تھا، اگلے دن بینک اکاؤنٹ خالی۔
دوستوں نے منہ موڑ لیا، رشتہ داروں نے طنز کیے۔

فہد راتوں کو جاگنے لگا۔
مایوسی نے اس کی آنکھوں کی چمک چھین لی تھی۔
مگر عائشہ نے ایک لمحے کے لیے بھی شکایت نہ کی۔
اس نے فہد کا ہاتھ تھاما اور کہا:

"مشکل وقت دوستوں کو نہیں، محبت کو آزماتا ہے۔
ہم دونوں مل کر یہ وقت بھی گزار لیں گے۔"

محنت کا سفر

عائشہ نے گھر کا خرچ بچانے کے لیے سلائی کا کام شروع کیا۔
فہد نے دوبارہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کیا۔
عائشہ ہر صبح فہد کو ہنس کر رخصت کرتی اور شام کو حوصلہ بڑھاتی۔

"آج کا دن کل سے بہتر ہوگا، ان شاء اللہ!"
یہ جملہ عائشہ ہر روز کہتی۔

رفتہ رفتہ فہد کا کام بہتر ہونے لگا۔
نیا اعتماد، نئی ہمت — اور سب سے بڑھ کر عائشہ کی بے لوث محبت نے فہد کو سنبھالا۔

کامیابی اور محبت

چند سالوں بعد فہد پھر سے کامیاب بزنس مین بن گیا۔
مگر اب وہ زیادہ خاکسار، زیادہ شکر گزار تھا۔
اس نے جب بھی کامیابی کی کہانی سنائی، کہا:
"اگر میری مثالی دلہن، عائشہ، میرے ساتھ نہ ہوتی، تو شاید میں کب کا ہار مان چکا ہوتا۔"

عائشہ نے ثابت کر دیا کہ خوبصورتی کپڑوں، زیورات یا محلوں میں نہیں،
بلکہ صبر، حوصلے، اور محبت بھرے دل میں ہوتی ہے۔

نسلوں کے لیے سبق

نورپور گاؤں میں آج بھی ماؤں نے بیٹیوں کو یہ کہانی سنانی شروع کر دی تھی:
"ایک عائشہ تھی، جو اپنے کردار سے مثالی دلہن بنی۔"

عائشہ اور فہد نے ایک اسکول کھولا جہاں ہر بچے کو سکھایا جاتا:
- عزت کردار سے ملتی ہے۔
- محبت قربانی مانگتی ہے۔
- محنت کے بغیر کامیابی کا خواب ادھورا ہے۔

---

کہانی کا سبق:

✅ حقیقی محبت دکھاوے سے نہیں، قربانی سے نکھرتی ہے۔
✅ زندگی کے امتحان میں صبر اور حوصلہ سب سے بڑے ہتھیار ہیں۔
✅ کامیاب ازدواجی زندگی محبت، محنت اور احترام پر قائم ہوتی ہے۔
✅ خوبصورتی وقتی ہے، کردار دائمی۔

---

پریشانیمشکل دنعاصم ایک عام سا نوجوان تھا، جو ایک چھوٹے سے شہر میں رہتا تھا۔  زندگی میں خواب بہت تھے، مگر حالات بہت تنگ۔ ...
23/04/2025

پریشانی

مشکل دن

عاصم ایک عام سا نوجوان تھا، جو ایک چھوٹے سے شہر میں رہتا تھا۔
زندگی میں خواب بہت تھے، مگر حالات بہت تنگ۔
گھر میں غربت تھی، والد صاحب بیمار اور والدہ سلائی کا کام کرتیں۔
عاصم صبح کالج جاتا، شام کو ایک ہوٹل میں برتن دھوتا، اور رات کو ماں کے ساتھ کپڑے سینے میں ہاتھ بٹاتا۔

ہر وقت ایک ہی جملہ اس کے دل میں گونجتا:
"کب بدلے گی یہ زندگی؟"

ایک دن، عاصم کی کالج کی فیس نہ بھرنے پر اسے کلاس سے نکال دیا گیا۔
ہوٹل کا مالک بھی بول پڑا:
"کام میں ذرا سی چوک ہو تو نکال دوں گا!"
گھر آ کر دیکھا تو والد کی طبیعت مزید بگڑ گئی تھی۔
ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے، اور عاصم کے پاس صرف خاموشی۔

پہلی ہمت

رات کے اندھیرے میں چھت پر بیٹھا عاصم آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ستارے چمک رہے تھے، مگر اس کا دل بجھا ہوا تھا۔
تب اس کے استاد، پروفیسر نعیم کا ایک قول یاد آیا:
"پریشانی زندگی کا حصہ ہے، ہار مان لینا زندگی کا خاتمہ ہے۔"

عاصم نے اپنے آپ سے وعدہ کیا:
"چاہے کچھ بھی ہو، میں ہار نہیں مانوں گا۔"

اگلے دن وہ اپنے شہر کے ایک چھوٹے بازار میں گیا اور ایک اسٹال پر کپڑے بیچنے کا کام مانگ لیا۔
مالک نے ہنستے ہوئے کہا:
"پڑھے لکھے لڑکے یہاں مزدوری کریں گے؟"
عاصم نے مسکرا کر جواب دیا:
"محنت کرنے میں کوئی شرم نہیں۔"

نئی شروعات

کچھ دنوں میں عاصم نے کپڑے بیچنے کا ہنر سیکھ لیا۔
وہ اتنا خوش اخلاق تھا کہ گاہک اسے پسند کرنے لگے۔
جہاں دوسرے دکاندار جھوٹ بولتے، عاصم سچ بولتا۔
جہاں دوسرے چیختے چلاتے، عاصم مسکرا کر بات کرتا۔

پیسے تھوڑے ہی تھے، مگر دل مطمئن تھا۔
اب وہ کالج کی فیس قسطوں میں جمع کرانے لگا تھا، والد کی دوائیں وقت پر آنے لگیں، اور ماں کے چہرے پر تھوڑی سی خوشی نظر آنے لگی۔

ایک اور آزمائش

زندگی کبھی سیدھی چلتی نہیں۔
ایک رات اسٹال پر آگ لگ گئی۔
ساری کمائی، سارے کپڑے جل کر راکھ ہو گئے۔
عاصم جیسے دوبارہ زمین پر آ گرا ہو۔

بازار کے دوسرے دکاندار ہنستے ہوئے کہتے:
"بس بیٹا، خواب دیکھنے بند کر دو۔ اپنی اوقات میں رہو۔"

عاصم کا دل بھی ٹوٹنے کے قریب تھا۔
لیکن اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا جو بستر پر لیٹے اسے امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
اور ماں جو ہر رات اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتی تھیں:
"بیٹا! اللہ بڑی آزمائش کے بعد بڑی خوشی دیتا ہے۔"

حوصلے کا سفر

عاصم نے پھر ہمت باندھی۔
اس نے کچھ چھوٹے موٹے قرضے لیے، اور ایک نئی راہ نکالی۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کپڑوں کی سلائی سیکھے گا اور آن لائن بھی بیچے گا۔

کئی راتیں جاگ کر اس نے سلائی کی تربیت حاصل کی۔
یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھیں، پرانے کپڑے پھاڑ کر مشق کی۔
رفتہ رفتہ اس کی مہارت بہتر ہوتی گئی۔

پھر اس نے انسٹاگرام پر ایک پیج بنایا: "**عاصم کلیکشنز**"۔
ابتداء میں کوئی آرڈر نہیں آیا۔
لیکن عاصم نے ہمت نہ چھوڑی۔
ہر دن نئی ڈیزائنز، نئے پوسٹس، نئی محنت۔

ایک دن ایک بڑے شہر سے ایک فیشن بلاگر نے اس کے کپڑوں کی تعریف کر دی۔
اور بس، پھر تو گویا قسمت بدلنے لگی۔
آرڈرز آنے لگے، کام بڑھنے لگا، عاصم نے اپنی چھوٹی سی ورکشاپ کھول لی۔

کامیابی کا میلہ

چند سالوں میں عاصم اپنے شہر کا ایک کامیاب بزنس مین بن گیا۔
کالج مکمل کیا، والد کا بہترین علاج کرایا، اور ماں کے لیے حج کا بندوبست کیا۔

ایک دن اس کے کالج میں اسے لیکچر کے لیے بلایا گیا۔
اس نے مائیک پکڑا اور کہا:

"پریشانی ہمیشہ دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔
کبھی خوفزدہ کرتی ہے، کبھی حوصلہ آزماتی ہے۔
مگر اگر ہم صبر، محنت اور ہمت سے کام لیں،
تو یہی پریشانیاں ہماری کامیابی کی سیڑھیاں بن جاتی ہیں۔
بس ایک بات یاد رکھنا:
'پریشانی سے بھاگو نہیں، اس کا سامنا کرو۔'"

ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

---

کہانی کا سبق:

✅ ہر مشکل وقت کے پیچھے کوئی حکمت ہوتی ہے۔
✅ صبر اور محنت سے بڑی سے بڑی پریشانی کو شکست دی جا سکتی ہے۔
✅ خواب دیکھنے والوں کو راستے میں ٹھوکریں ضرور ملتی ہیں، مگر جو گر کر اٹھتے ہیں، وہی اپنی تقدیر بدلتے ہیں۔
✅ کامیابی، پریشانی کے اندھیروں سے گزر کر حاصل ہوتی ہے۔

---

ریحان کی شادی  رشتہ طے ہونے کا حیران کن لمحہریحان اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا کہ ابو کا فون آیا:  "ریحان، بیٹا...
22/04/2025

ریحان کی شادی

رشتہ طے ہونے کا حیران کن لمحہ

ریحان اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا کہ ابو کا فون آیا:
"ریحان، بیٹا! آ جاؤ، ایک اچھی خبر ہے۔"

ریحان نے خوش ہو کر سوچا،
*"لگتا ہے ابو نے کوئی نئی گاڑی خرید لی ہے۔"*

مگر جب گھر پہنچا، تو اماں نے مسکراتے ہوئے بتایا،
"بیٹا! تمہاری شادی طے کر دی ہے۔"

ریحان نے حیرانی سے کہا:
"اماں! میں نے کون سا کرائم کر دیا تھا جو سزا اتنی بڑی ملی؟"

ابو نے ہنستے ہوئے کہا:
"کرائم نہیں کیا، بس اب وقت آ گیا ہے کہ تُو خود کرائم سنبھالے۔"

دلہن کی تلاش کا دلچسپ سفر

شادی سے پہلے "رسمی ملاقات" کے لئے دلہن دیکھنے جانا تھا۔ ریحان نے خاص طور پر بالوں میں جیل لگائی، نئی شرٹ پہنی اور خود کو آئینے میں دیکھ کر بولا:
"کیا بات ہے بھائی! خود کو دیکھ کر تو دلہن خود ہی ہاں کر دے گی۔"

جب لڑکی والوں کے گھر پہنچے تو اماں نے کان میں سرگوشی کی:
"بیٹا، بالکل شریف بن کر بیٹھنا۔ زیادہ ہنسنے کی ضرورت نہیں۔"

ریحان نے ناک پر ہاتھ رکھا اور سنجیدہ شکل بنا لی۔
مگر جب دلہن والے چائے لے کر آئے تو کپ تھما دیا گیا اور چائے کا پہلا گھونٹ ایسا گرم تھا کہ ریحان کی زبان جل گئی۔

ریحان کی حالت دیکھ کر لڑکی کے ابو نے پوچھا:
"بیٹا، سب خیریت؟"

ریحان نے مشکل سے کہا:
"چائے بہت... موٹیویشنل ہے!"

# # # شادی کی خریداری کے تماشے

شادی کی خریداری پر ریحان مکمل بور ہو گیا تھا۔ ہر کپڑے کو دیکھ کر اماں بولتیں:
"یہ بہت ہلکا ہے، یہ بہت بھاری ہے، یہ بہت چمکیلا ہے، یہ بہت مدھم ہے۔"

ریحان نے تنگ آ کر کہا:
"اماں! کپڑا چاہیے یا خلائی راکٹ؟"

دوسری طرف بہنیں شور مچا رہی تھیں:
"دلہے کے جوتے ایسے ہونے چاہئیں کہ دلہن کے دل میں بجلی کوند جائے!"

ریحان نے سوچا،
*"بس کہیں ایسا نہ ہو کہ جوتے دیکھ کر بجلی کے جھٹکے لگ جائیں!"*

شادی کارڈ کی تباہی

کارڈ پر نام کی تصدیق کے لئے پرنٹر والے نے فون کیا:
"سر! دولہا کا نام 'ریحان' ہے یا 'ریحمان'؟"

ریحان بولا:
"ریحان!"

لیکن جب کارڈ آئے تو لکھا تھا:
**"ریحمان ولد رحمان"**

دوستوں نے کارڈ دیکھ کر کہا:
"واہ بھائی! تمہاری شادی تو رحمان رحیم کے نام پر ہو گئی!"

# # # مہندی کی رات کا قہقہہ

مہندی کی رات پر ریحان کو زبردستی ناچنے پر مجبور کیا گیا۔
ڈھول کی تھاپ پر ریحان ایسے ناچ رہا تھا جیسے
**"کنفیوزڈ کبوتر بارش میں پھسل رہا ہو!"**

دوستوں نے ویڈیو بنا کر وائرل کر دی اور کمنٹ آیا:
**"پاکستان کا پہلا نچتا ہوا دولہا جسے زمین کھینچ رہی ہو!"**

نکاح کا یادگار منظر

مولوی صاحب نے نکاح کے وقت پوچھا:
"بیٹا، حق مہر کتنا رکھیں؟"

ریحان کے ابو نے فخریہ کہا:
"دولہے نے خود کہا ہے کہ 50 ہزار روپے!"

ریحان نے آہستہ سے کہا:
"ابو! میں نے 500 روپے کہا تھا، وہ بھی قسطوں میں!"

مولوی صاحب نے ہنس کر کہا:
"بیٹا، شادی قسطوں پر نہیں ہوتی!"

دلہن کا پہلا ڈنڈا

شادی کی رات جب ریحان نے فلموں کی طرح شاعری کے ساتھ بیوی کو "سلام" کہا تو جواب میں دلہن نے تکیہ پھینک کر مارا اور بولی:
"سلام بعد میں، ابھی پنکھا بند کرو، بہت شور کر رہا ہے!"

ریحان نے سوچا:
*"یہ فلموں والے سین تو بس فلموں میں ہی اچھے لگتے ہیں!"*

# # # شادی کے بعد کی رومانوی حقیقت

شادی کے ایک ہفتے بعد بیوی نے کہا:
"ریحان جی، میری امی نے کہا ہے کہ مہینے میں دو بار میرے میکے لے جانا فرض ہے۔"

ریحان نے معصومیت سے پوچھا:
"صرف لے جانا فرض ہے یا واپس لانا بھی؟"

بیوی نے تیکھی نظروں سے گھورا، اور ریحان نے جلدی سے کہا:
"مطلب... لے جانا، لانا، اور سلامی دینا بھی فرض ہے!"

سب سے بڑا سبق

چند مہینے بعد ریحان کے دوستوں نے پوچھا:
"کیسا لگ رہا ہے شادی شدہ زندگی؟"

ریحان نے مسکراتے ہوئے کہا:
"یار! شادی ایک ایسا انسٹی ٹیوٹ ہے جہاں انسان 'ہنسی' میں داخل ہوتا ہے اور 'بردباری' میں فارغ التحصیل ہوتا ہے۔"

دوستوں نے پوچھا:
"اور بیوی کیسی ہے؟"

ریحان نے کہا:
"بیوی فرشتہ ہے... بس پر نکلنے میں دیر نہیں لگاتی!"

حتمی نصیحت

آخر میں ریحان نے سب کو ایک سنہری بات سکھائی:
> "زندگی میں ہر بڑے قدم سے پہلے ایک بار ضرور سوچو... مگر شادی سے پہلے دو بار سوچو، اور شادی کے بعد ہر بار ہنسو! کیونکہ جب تک ہنسو گے، تب تک جیتو گے!"

---

😄✨
🎉😂




















خود داری کا سفرلاہور کی مصروف سڑکوں پر جب شام کا وقت ہوتا تو ہر طرف روشنیوں کا سیلاب آ جاتا تھا۔ ریستورانوں میں گہما گہم...
17/04/2025

خود داری کا سفر

لاہور کی مصروف سڑکوں پر جب شام کا وقت ہوتا تو ہر طرف روشنیوں کا سیلاب آ جاتا تھا۔ ریستورانوں میں گہما گہمی، بازاروں میں رش، اور سڑکوں پر بے شمار گاڑیاں۔ لیکن ان روشنوں کے پیچھے کئی چہرے ایسے بھی ہوتے تھے جو اپنی زندگی کی اندھیری گلیوں سے لڑ رہے ہوتے تھے۔

انہی چہروں میں ایک چہرہ تھا — نایاب کا۔

نایاب ایک اٹھارہ سالہ لڑکی تھی۔ وہ ایف۔ایس۔سی (پری میڈیکل) کی طالبہ تھی اور ہمیشہ ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا کرتی تھی۔ مگر زندگی نے اس کے سامنے ایک ایسا امتحان رکھ دیا تھا جس کے آگے بڑے بڑے ہار مان جاتے۔

باپ کی بیماری اور مشکلات کا آغاز

نایاب کا تعلق ایک متوسط سے بھی نچلے طبقے کے خاندان سے تھا۔ اس کا باپ، منظور احمد، ایک چھوٹی سی مزدوری کرتا تھا۔ دن بھر کی سخت محنت کے بعد چند سو روپے کماتا، جس سے بمشکل گھر کا خرچ چلتا۔ مگر اچانک ایک دن منظور احمد شدید بیمار پڑ گیا۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ دل کی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے اور اب وہ مزدوری کے قابل نہیں رہا۔

گھر میں نہ کوئی بڑا بھائی تھا، نہ کوئی دوسرا سہارا۔ نایاب کی والدہ خود بھی کمزور اور بیماریوں کا شکار تھی۔ گھر کا خرچ، باپ کا علاج، اور نایاب کی تعلیم — سب کچھ ایک بڑے سوالیہ نشان کے نیچے آ گیا۔

گھر کے کونے میں بیٹھ کر نایاب نے بہت رویا۔ مگر پھر ایک دن اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور خود سے وعدہ کیا:

"میں ہار نہیں مانوں گی۔ میرے والد کی عزت، میرے خواب، سب کچھ میرے حوصلے سے جڑے ہیں۔"

محنت کا سفر: پیٹرول پمپ کی نوکری

نایاب نے فیصلہ کیا کہ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی نوکری بھی کرے گی۔ لاہور میں لڑکیوں کے لیے کام ڈھونڈنا آسان نہ تھا، خاص طور پر جب تعلیم ابھی مکمل نہ ہوئی ہو۔ کئی جگہوں پر انٹرویو دیے مگر ہر جگہ یا تو تنخواہ بہت کم تھی یا کام کے حالات ناقابل برداشت۔

آخرکار ایک پیٹرول پمپ پر نوکری ملی۔
شام پانچ بجے سے رات دس بجے تک، نایاب گاڑیوں میں پیٹرول بھرا کرتی۔
لوگ حیرانی سے اسے دیکھتے — ایک دبلی پتلی، صاف ستھری وردی میں ملبوس لڑکی، جو نہایت خندہ پیشانی سے ہر گاڑی والے کا استقبال کرتی، پیٹرول بھرتی، اور رسید تھماتی۔

کئی بار کچھ لوگ طنزیہ ہنستے:
"ارے لڑکی، پڑھائی چھوڑی یا قسمت نے چھوڑ دیا؟"
کچھ لوگ ہمدردی سے دیکھتے، اور کچھ نظر انداز کر کے چلے جاتے۔

مگر نایاب نے اپنے دل میں طے کر لیا تھا:
"میری عزت میری محنت میں ہے، نہ کہ دوسروں کی نظر میں۔"

مشکل راستے اور مضبوط ارادے

رات دیر سے گھر واپس آ کر نایاب اپنے باپ کے پاس بیٹھتی، اس کی طبیعت کا حال پوچھتی، پھر اپنی کتابیں کھول کر اگلے دن کی تیاری میں لگ جاتی۔
نیند سے بھاری آنکھوں کے ساتھ، تھکن سے ٹوٹتے بدن کے ساتھ، مگر دل میں ایک عجیب سی روشنی تھی — امید کی روشنی۔

اس کے باپ نے ایک دن آنسو بھری آنکھوں سے کہا:

"بیٹی، میں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ میری بیٹی اس طرح مشقت کرے گی۔"

نایاب نے باپ کا ہاتھ تھام کر کہا:

"ابو، بیٹی ہونا بھی تو اللہ کی رحمت ہے۔ اگر بیٹا نہیں تو کیا؟ میں ہی آپ کا بیٹا بھی ہوں، بیٹی بھی۔"

باپ نے دعا دیتے ہوئے کہا:

"اللہ تمہیں کامیابی دے، بیٹا۔ تمہاری محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔"

کامیابی کی صبح

مہینے گزرتے گئے۔ نایاب دن میں کالج جاتی، شام میں کام کرتی، اور رات کو پڑھتی۔
پیٹرول پمپ کے مالک نے اس کی ایمانداری اور خوش اخلاقی سے متاثر ہو کر اسے ایک چھوٹا سا بونس بھی دینا شروع کر دیا تھا، جو اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔

جب ایف۔ایس۔سی کے نتائج کا اعلان ہوا تو نایاب نے پورے لاہور میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اس کی محنت، قربانی اور خود داری رنگ لے آئی تھی۔ میڈیا نے بھی اس کہانی کو اُٹھایا۔
ٹی وی چینلز، اخبارات، سب نے نایاب کی محنت اور عزم کی مثالیں دینا شروع کر دیں۔

"پیٹرول پمپ پر کام کرنے والی لڑکی، لاہور کی ٹاپر!"

یہ خبر ہر جگہ گونجنے لگی۔ نایاب کو کئی یونیورسٹیوں سے اسکالرشپ کی آفرز ملیں۔
لوگ جو پہلے طنزیہ ہنستے تھے، اب تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔

نیا سفر: میڈیکل کالج

نایاب نے لاہور کے ایک بہترین میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔
اب بھی وہ شام میں چھوٹے بچوں کو ٹیوشن دیتی تھی تاکہ اپنے چھوٹے موٹے اخراجات خود اٹھا سکے۔
اس کا خواب تھا کہ ایک دن ڈاکٹر بن کر اپنے والد کا بہترین علاج کروائے اور ان کا بوجھ ہمیشہ کے لیے ہلکا کرے۔

باپ کی آنکھوں میں اب فخر کے آنسو ہوتے تھے۔ وہ اکثر دعا کرتا:

"اللہ ہر باپ کو نایاب جیسی بیٹی عطا کرے۔"

زندگی کا پیغام

نایاب کی کہانی صرف اس کی نہیں، بلکہ ہر اس لڑکی کی کہانی ہے جو حالات سے ڈرنے کی بجائے ان کا مقابلہ کرتی ہے۔
جو عزت کے ساتھ جینا چاہتی ہے، اور جو یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ بیٹی ہونا کمزوری نہیں، طاقت ہے۔

نایاب نے یہ سکھایا کہ:

- محنت کبھی ضائع نہیں جاتی
- عزت محنت سے کمائی جاتی ہے، رحم سے نہیں
- مشکل حالات انسان کو توڑنے نہیں، سنوارنے آتے ہیں
- خواب دیکھنے والے وہی ہوتے ہیں جو ان کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں

آخری الفاظ

آج نایاب اپنے گاؤں، شہر، اور ملک کے ہزاروں بچوں کے لیے ایک مثال بن چکی ہے۔
وہ ہر اس شخص کو یہ پیغام دیتی ہے:

"کبھی خود پر شک نہ کرنا۔ اگر تم سچے دل سے محنت کرو گے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تمہاری منزل سے دور نہیں کر سکتی۔"

























باپ کا پسینہپشاور کی گلیوں میں زندگی ہمیشہ کی طرح رواں دواں تھی۔ بازاروں میں شور تھا، بچے کھیل کود میں مصروف تھے اور دکا...
17/04/2025

باپ کا پسینہ

پشاور کی گلیوں میں زندگی ہمیشہ کی طرح رواں دواں تھی۔ بازاروں میں شور تھا، بچے کھیل کود میں مصروف تھے اور دکانیں کھلی تھیں۔ مگر ایک دن، شہر کے ایک مشہور تعلیمی ادارے میں ایک خاص تقریب رکھی گئی، جس کا عنوان تھا:

"باپ کا پسینہ، ہماری کامیابی کا راز"

تقریب میں شہر کے مختلف اسکولوں سے بچے، والدین، اساتذہ اور معزز مہمان مدعو تھے۔ ہال میں کرسیاں ترتیب سے لگی تھیں، اسٹیج پر سجاوٹ سادہ مگر خوبصورت تھی۔ ہال کی فضا میں ایک خاموشی سی چھائی ہوئی تھی، جیسے سب کچھ سننے کے لیے بے تاب ہوں۔

تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔ اس کے بعد اسکول کے پرنسپل صاحب نے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا:

"آج ہم آپ کو ایک ایسی ویڈیو دکھائیں گے جو ہمارے دلوں کو جھنجوڑ کر رکھ دے گی۔ یہ ویڈیو ہمارے والدین کی محنت اور قربانیوں کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔"

روشنی مدھم ہوئی اور بڑی اسکرین پر ایک ویڈیو چلنے لگی۔

ویڈیو کا منظر

ایک بوڑھا شخص، دھوپ میں پسینے سے شرابور، اینٹیں ڈھوتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی، ہاتھوں میں چھالے تھے، اور چہرے پر تھکن کے باوجود ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ کیمرہ قریب آیا تو اس شخص کی آنکھوں میں ایک چمک تھی — اپنے بچوں کے خواب پورے کرنے کی چمک۔

اس کے ساتھ ویڈیو میں اس کے بیٹے اور بیٹی کے خواب دکھائے جا رہے تھے۔ بیٹا انجینئر بننے کا خواہش مند تھا اور بیٹی ڈاکٹر۔ یہ مزدور باپ دن رات محنت کر رہا تھا تاکہ اپنے بچوں کی فیس ادا کر سکے، ان کے خوابوں کو حقیقت میں ڈھال سکے۔

ویڈیو میں پس منظر میں ایک نرم اور درد بھری آواز گونج رہی تھی:

"کبھی اپنے والد کے ہاتھوں کو غور سے دیکھنا، ان ہاتھوں میں چھپے خوابوں کو سمجھنا۔ وہ پسینہ جو تمہارے بہتر کل کے لیے بہتا ہے، وہی تمہاری کامیابی کی بنیاد ہے۔"

ہال کا منظر

ویڈیو ختم ہوتے ہی ہال میں سناٹا چھا گیا۔ بچوں کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ کئی بچوں نے اپنی آنکھیں صاف کیں مگر جذبات پر قابو نہ پا سکے۔ ایک بچی، جس کا نام سارہ تھا، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سارہ، جو ہمیشہ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے لیے ضد کیا کرتی تھی، اب اپنے باپ کی قربانیوں کو یاد کر کے شرمندہ ہو رہی تھی۔

ہال میں بیٹھے ہر بچے کو اپنے والد کا چہرہ یاد آ رہا تھا — وہ چہرہ جو ہر خواہش پوری کرنے کے لیے تھکن چھپا لیتا ہے، جو اپنی خوشیوں کو قربان کر کے بچوں کے خوابوں کو سنوارتا ہے۔

ایک بچے نے اپنے ساتھی سے دھیمی آواز میں کہا:

"ہم نے انجانے میں اپنے والدین سے کتنی نا جائز فرمائشیں کیں... اگر ہمیں پہلے یہ احساس ہوتا تو کبھی بھی ضد نہ کرتے۔"

دوسرا بچہ بولا:

"ہمیں آج ہی اپنے باپ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔"

عہد کا لمحہ

اسٹیج پر پرنسپل صاحب دوبارہ آئے۔ ان کی آنکھوں میں بھی نمی تھی۔ انہوں نے نرمی سے کہا:

"کیا آپ سب اپنے والدین سے دل سے معافی مانگنے کا عہد کرتے ہیں؟ کیا آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آج سے کوئی ناجائز فرمائش نہیں کریں گے؟"

پورا ہال یک زبان ہو کر بولا:
"ہم وعدہ کرتے ہیں!"

پھر بچوں نے اپنے دل کی گہرائی سے عہد کیا کہ وہ:

- والدین کی محنت کو سمجھیں گے
- غیر ضروری فرمائشیں چھوڑیں گے
- ان کی خدمت اور عزت کریں گے
- ان کے خوابوں کو اپنی محنت سے سچ کریں گے

سارہ کی کہانی

اس تقریب کے بعد سارہ سیدھا اپنے گھر گئی۔ دروازہ کھلتے ہی اس نے اپنے والد کو دیکھا، جو دفتر سے واپس آئے تھے اور تھکے تھکے لگ رہے تھے۔ سارہ نے دوڑ کر ان کے ہاتھ چوم لیے اور زاروقطار رونے لگی۔

والد حیران ہو کر بولے:
"بیٹا کیا ہوا؟"

سارہ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا:

"ابو جان! مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ کی محنت کی قدر نہ کی۔ آج مجھے احساس ہوا کہ آپ نے میرے لیے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب کبھی آپ کو دکھ نہیں دوں گی۔"

والد نے سارہ کو سینے سے لگا لیا اور کہا:

"بیٹا! یہ چند آنسو میرے تمام تھکن کو دور کر دیتے ہیں۔ بس تم خوش رہو اور محنت کرو، یہی میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔"

---

پوری بستی میں تبدیلی

اس تقریب کی خبر پھیلتے پھیلتے پورے علاقے میں مشہور ہو گئی۔ دوسرے اسکولوں نے بھی اسی طرز کی تقریبات منعقد کیں۔ بچوں میں والدین کی عزت کا جذبہ جاگ اٹھا۔ ہر گھر میں محبت کی خوشبو بکھرنے لگی۔ بازاروں میں بچے اپنے والدین کا ہاتھ تھامے احترام سے چلتے نظر آنے لگے۔

ہر بچہ اب اپنے باپ کی محنت کو، اپنی ماں کی دعاؤں کو اپنی کامیابی کا راز سمجھنے لگا تھا۔

آخری پیغام

وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ والدین کا سایہ ایک انمول نعمت ہے۔ جب وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں، ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔ کیونکہ وہ دن بھی آ سکتا ہے جب ہم ان کے ہاتھ چومنے کو ترسیں گے، جب ان کی دعاؤں کا سہارا چھن جائے گا۔

ہر بچہ، ہر نوجوان، ہر شخص اپنے دل میں یہ دعا کرے:

"یا اللہ! ہمیں اپنے والدین کی خدمت کا شرف عطا فرما۔ ہمیں ان کی خوشی کا سبب بنا۔ اور ہمیں کبھی ان کی قربانیوں کو بھلانے والا نہ بنا۔ آمین!"

---






















#شکرگزاری


دھوکہ کبھی نہ دیناگاؤں **چمک پور** کی سرسبز وادیوں میں زندگی اپنی سادگی میں رواں دواں تھی۔ یہاں لوگ دن بھر کھیتوں میں کا...
17/04/2025

دھوکہ کبھی نہ دینا

گاؤں **چمک پور** کی سرسبز وادیوں میں زندگی اپنی سادگی میں رواں دواں تھی۔ یہاں لوگ دن بھر کھیتوں میں کام کرتے، شام کو چائے کے ہوٹل پر بیٹھ کر باتیں کرتے، اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔
چمک پور میں عزت اور امانت داری کی بہت اہمیت تھی۔ لوگ ایک دوسرے پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں کسی کو دھوکہ دیا جائے گا۔

مگر ہر کہانی میں ایک موڑ ہوتا ہے، اور چمک پور کی کہانی میں یہ موڑ **ندیم** کی آمد سے آیا۔

ندیم کی آمد

ندیم ایک نوجوان تھا جو کئی سال شہر میں گزارنے کے بعد واپس گاؤں آیا تھا۔
اس کا انداز شہری تھا: جینز، چشمہ، موبائل فون، اور بڑے بڑے خواب۔
وہ کہتا تھا،
_"میں گاؤں کو بدل دوں گا۔ یہاں ترقی لے کر آؤں گا۔"_

شروع میں سب لوگ خوش ہوئے۔ آخرکار ان کا اپنا بیٹا تعلیم حاصل کرکے واپس آیا تھا۔ ندیم نے جلد ہی گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان کھولی، جس میں موبائل فون، سم کارڈز اور کچھ برقی اشیاء بیچتا تھا۔

ندیم نے گاؤں والوں کا دل جیتنے کے لیے قرض پر مال دینا شروع کر دیا۔
"کوئی مسئلہ نہیں، جب پیسے ہوں دے دینا۔ ہم سب اپنے ہیں۔"
ایسے جملے اس کی زبان پر رہتے۔

رفتہ رفتہ ندیم کا اثر بڑھنے لگا۔ لوگ اس پر اندھا اعتبار کرنے لگے۔

پہلا دھوکہ

کچھ مہینوں بعد، ندیم نے ایک نیا منصوبہ پیش کیا:

_"میں شہر سے جدید بیج اور کھاد منگوا رہا ہوں۔ اگر آپ لوگ ابھی سرمایہ لگا دیں، تو فصل کے وقت دوگنا منافع کمائیں گے۔"_

ندیم نے ایسی چالاکی سے باتیں کیں کہ گاؤں کے معزز ترین افراد بھی متاثر ہو گئے۔
بڑوں نے مشورہ کیا، اور آخرکار سب نے اپنی جمع پونجی ندیم کے حوالے کر دی۔ کچھ نے زیور بیچے، کچھ نے زمین گروی رکھی۔

ندیم نے رسیدیں دیں، وعدے کیے، اور سب کو خوش کر دیا۔

مگر ہفتے بعد ہفتے گزر گئے، نہ بیج آیا، نہ کھاد، نہ ندیم۔
ایک صبح خبر آئی کہ ندیم راتوں رات شہر بھاگ گیا ہے!

گاؤں کا صدمہ

چمک پور کی فضاء سوگوار ہو گئی۔
جس پر سب نے بھروسہ کیا تھا، وہی سب کو دھوکہ دے کر چلا گیا تھا۔

بزرگ مسجد میں سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔ عورتیں اپنے زیورات یاد کر کے رو رہی تھیں۔ نوجوان حیران تھے کہ آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

**مولوی صاحب** نے جمعے کے خطبے میں کہا:

_"بیٹا ہو یا اجنبی، جب معاملہ مال کا ہو تو اعتبار سے پہلے تحقیق کرنا لازم ہے۔ دھوکہ دینا بہت بڑا گناہ ہے، اور دھوکہ کھانا بھی غفلت ہے۔"_

سبق آموز انجام

چند مہینے بعد، شہر سے ایک خبر آئی:
ندیم کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔
اس پر کئی مقدمے درج تھے — نہ صرف چمک پور میں، بلکہ اور بھی کئی گاؤں میں اسی نے یہی چالاکی کی تھی۔

چمک پور کے کچھ بزرگ شہر گئے اور مقدمہ دائر کیا۔
کئی ماہ کی جدوجہد کے بعد ندیم کو سزا ہوئی: پانچ سال قید۔

ندیم کو جب جج کے سامنے لایا گیا تو اس کی آنکھوں میں پچھتاوے کے آنسو تھے۔
اس نے کہا:

_"میری لالچ نے مجھے اندھا کر دیا۔ میں نے اپنی ماں جیسی گاؤں کی ماؤں کو دھوکہ دیا۔ اب میں ساری زندگی اس بوجھ تلے زندہ رہوں گا۔"_

گاؤں کی بحالی

چمک پور نے ندیم کے جانے کے بعد ایک عہد کیا:
- کوئی بھی کاروبار تحقیق کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔
- اعتماد ضرور، مگر احتیاط کے ساتھ۔
- نئی نسل کو تعلیم دی جائے گی تاکہ وہ دھوکہ اور فراڈ کو پہچان سکیں۔

رفتہ رفتہ گاؤں نے اپنے نقصان کو برداشت کیا، نئی محنت سے کھیتوں کو سنوارا، اور پھر سے اپنی سادہ مگر دیانت دار زندگی کی طرف لوٹ آیا۔

کہانی کا سبق:

"دھوکہ دینا انسان کو وقتی فائدہ دیتا ہے، مگر ہمیشہ کی بدنامی اور عذاب ساتھ لے کر آتا ہے۔"

"ایمانداری ہمیشہ دیر سے سہی، مگر کامیابی کا راستہ بنتی ہے۔"

"دھوکہ کھانے سے بہتر ہے کہ تحقیق اور عقل سے فیصلہ کیا جائے۔"

آخری پیغام:

دھوکہ دینا نہ صرف دنیا میں رسوائی لاتا ہے بلکہ آخرت میں بھی عذاب کا سبب بنتا ہے۔
ایمانداری، سچائی اور بھروسے کا دامن کبھی نہ چھوڑیں — چاہے کتنا ہی بڑا فائدہ سامنے کیوں نہ ہو۔




















روشنی کی پہلی کرنچھوٹے سے گاؤں **نورآباد** میں، جہاں سورج کی کرنیں تو ہر صبح زمین کو چھوتی تھیں، مگر علم کی روشنی اب تک ...
17/04/2025

روشنی کی پہلی کرن

چھوٹے سے گاؤں **نورآباد** میں، جہاں سورج کی کرنیں تو ہر صبح زمین کو چھوتی تھیں، مگر علم کی روشنی اب تک مکمل نہ پہنچ پائی تھی، ایک معمولی سا گھر تھا۔
اسی گھر میں رہتی تھی ایک نرم دل ماں **رابعہ بی بی**، ایک باشعور باپ **استاد یوسف**، اور ان کی اکلوتی بیٹی **آمنہ**۔

نورآباد میں صدیوں سے یہی روایت چلی آ رہی تھی کہ لڑکیاں صرف گھر کے کام کاج کے لیے ہوتی ہیں۔ تعلیم کا ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ مگر استاد یوسف ہمیشہ کچھ الگ سوچتے تھے۔ وہ مانتے تھے کہ تعلیم مرد و عورت دونوں کا حق ہے۔ اسی سوچ نے انہیں اپنی بیٹی آمنہ کے لیے خواب دیکھنے پر مجبور کیا تھا — ایسا خواب جو آج تک کسی نے نہیں دیکھا تھا:
**آمنہ کو ڈاکٹر بنانا!**

---

ماں کی خاموش دعائیں

رابعہ بی بی نے کبھی اسکول نہیں دیکھا تھا۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ علم میں طاقت ہے۔
ہر رات، جب آمنہ پڑھائی میں مصروف ہوتی، رابعہ بی بی مصلے پر بیٹھ کر خاموشی سے اللہ سے دعا کرتیں:

_"یا اللہ، میری بیٹی کو کامیاب کر دے۔ اسے اس راستے پر ثابت قدم رکھ، جس پر تو نے ہدایت دی ہے۔ اس کا راستہ آسان کر دے، یا رب۔"_

رابعہ بی بی کا دل جانتا تھا کہ یہ دعا، یہ آنسو، یہ محنت ایک دن رنگ لائیں گے۔

گاؤں کی مخالفت

جب آمنہ پہلی بار اسکول جانے لگی تو پورا گاؤں جیسے آگ بگولا ہو گیا۔

"لڑکیوں کو اسکول بھیجنا حرام ہے!"
"بے حیائی پھیلے گی!"
"استاد یوسف نے اپنی عزت مٹی میں ملا دی!"

ایسی آوازیں ہر روز رابعہ بی بی کے کانوں میں گونجتیں۔ کبھی کبھی دروازے پر پتھر بھی پھینکے جاتے۔
مگر یوسف صاحب اور رابعہ بی بی نے ہار نہیں مانی۔ وہ جانتے تھے کہ تبدیلی قربانی مانگتی ہے۔

آمنہ دن بہ دن علم کی سیڑھیاں چڑھتی رہی۔ اسکول میں وہ ہمیشہ پہلی آتی۔
جب آمنہ میٹرک میں نمایاں نمبروں سے پاس ہوئی تو پہلی بار نورآباد میں کسی نے اپنی بیٹی کی کامیابی کا جشن منایا۔

---

خواب کا پہلا زینہ: ایم ڈی کیٹ

اب آمنہ کا اگلا خواب تھا: **ایم ڈی کیٹ پاس کرنا** اور **ایم بی بی ایس** میں داخلہ لینا۔

مگر راستہ آسان نہ تھا۔ گاؤں میں کوئی اچھا ٹیوشن نہیں تھا۔ کتابیں بھی پرانی تھیں۔ انٹرنیٹ تو دور کی بات، بجلی بھی اکثر غائب رہتی۔
رابعہ بی بی نے اپنی پرانی چوڑیاں بیچ کر آمنہ کے لیے نئی کتابیں خریدیں۔ استاد یوسف نے اپنے شاگردوں سے مدد لی اور ایک چھوٹا سا کمرہ آمنہ کے لیے "سائنس روم" بنا دیا۔

رات گئے تک آمنہ پڑھتی، اور رابعہ بی بی اس کے قریب بیٹھی تسبیح پڑھتی رہتیں۔
اکثر رابعہ بی بی کی آنکھوں میں نیند تیرتی، مگر زبان پر دعا مسلسل رواں رہتی:

_"یا اللہ، میری آمنہ کو کامیاب فرما۔"_

آزمائش کا وقت

ایم ڈی کیٹ کے دن قریب آتے گئے۔ گاؤں میں کئی لوگوں نے طنز کرنا شروع کر دیا:

"ڈاکٹر بن کر کیا کرے گی؟ مریض کہاں ہیں یہاں؟"
"پہلے کبھی کوئی لڑکی کامیاب ہوئی ہے جو یہ ہوگی؟"

ایک دن آمنہ نے تھک کر کہا،
"اماں، اب مزید برداشت نہیں ہوتا۔ میں ہار گئی۔"

رابعہ بی بی نے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا:
"بیٹی، جب انسان سب کچھ ہارنے لگتا ہے، وہیں اللہ کامیابی قریب کر دیتا ہے۔ تمہاری ماں نے تمہارے لیے دن رات اللہ کو پکارا ہے۔ کیا تم اپنی ماں کی دعا کو یوں ہی ضائع کر دو گی؟"

آمنہ کی آنکھوں میں ایک نیا عزم چمکنے لگا۔
"نہیں اماں! میں ہار نہیں مانوں گی!"

فیصلہ کن دن

آخرکار وہ دن آ پہنچا جب آمنہ کو ایم ڈی کیٹ کا امتحان دینا تھا۔ استاد یوسف نے اپنی پرانی سائیکل نکالی۔
رابعہ بی بی نے آمنہ کے ہاتھ میں قرآن پکڑایا، ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:

_"اللہ تمہارا حافظ۔ تم علم کی پہلی روشنی ہو اس گاؤں کی۔"_

آمنہ نے امتحان دیا۔ سوالات سخت تھے، مگر آمنہ نے اپنی محنت اور ماں کی دعاؤں پر بھروسہ کیا۔

نتیجہ اور انقلاب

چند ہفتوں بعد، جب نتیجہ آیا، پورے نورآباد میں جیسے کہرام مچ گیا۔
**آمنہ نے ٹاپ کر لیا تھا!**
نہ صرف گاؤں میں، بلکہ ضلع میں بھی اس کا نام سب سے اوپر تھا۔

گاؤں والوں کی آنکھیں کھل گئیں۔
وہ جو کل تک مخالفت کرتے تھے، آج مٹھائیاں لے کر استاد یوسف کے گھر پہنچے۔
آمنہ اب نورآباد کی پہلی **ڈاکٹر** بننے جا رہی تھی۔

رابعہ بی بی نے شکرانے کے نفل ادا کیے۔
ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے۔

تبدیلی کا آغاز

آمنہ کی کامیابی نے نورآباد کی تقدیر بدل دی۔
اب گاؤں میں کئی ماؤں نے اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔
استاد یوسف نے گاؤں میں پہلا **لڑکیوں کا اسکول** قائم کیا۔

رابعہ بی بی اکثر شام کو صحن میں بیٹھ کر اپنی چھوٹی چھوٹی شاگردوں کو ہنستے کھیلتے دیکھتیں، اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتیں:

_"یا اللہ، جس روشنی کے لیے ہم نے قربانیاں دیں، آج وہ پورے گاؤں کو جگا رہی ہے۔"_

اختتامیہ:

آمنہ کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ:

- خواب دیکھنے کی کوئی قیمت نہیں، مگر انہیں پورا کرنے کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔
- ماؤں کی دعائیں ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہیں۔
- تعلیم کی روشنی ایک چراغ سے دوسرے چراغ کو جلانے کا سفر ہے۔

آج اگر نورآباد کی ہر بیٹی اسکول جا رہی ہے تو اس کی بنیاد ایک ماں کی دعا اور ایک باپ کی ہمت پر ہے۔




















Address

Karak

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Draw It Easy posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share