Saqib Jamil

Saqib Jamil Welcome to My Official page

11/08/2024

کمفرٹ زون سے کیسے باہر نکلے ؟
اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا مشکل ہوسکتا ہے ، لیکن یہ ایک شخص کی حیثیت سے ترقی اور ترقی کا ایک بہت بڑا طریقہ ہے۔ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنے میں آپ کی مدد کے لئے کچھ اقدامات یہ ہیں:
1. اپنی حدود کی نشاندہی کریں: اس بات کو پہچانیں کہ آپ کو کس چیز سے تکلیف یا پریشانی محسوس ہوتی ہے۔
2. اہداف طے کریں: مخصوص ، قابل حصول اہداف کا انتخاب کریں جو آپ کو اپنے سکون زون سے آگے بڑھاتے ہیں۔
3. چھوٹا آغاز کریں: اپنے اہداف کی طرف چھوٹے چھوٹے اقدامات کریں ، آہستہ آہستہ چیلنج میں اضافہ کریں۔
4. اپنے خوف کا سامنا کریں: ان سے بچنے کے بجائے اپنے خوفوں کو تسلیم کریں اور ان کا مقابلہ کریں۔
5. حساب کتاب کے خطرات لیں: ممکنہ خطرات اور انعامات کا وزن کریں ، اور سوچ سمجھ کر چھلانگ لگائیں۔
6. حمایت حاصل کریں: اپنے آپ کو حوصلہ افزائی کرنے والے لوگوں کے ساتھ گھیر لیں جو آپ کی ترقی کی حمایت کرتے ہیں۔
7. خود کی دیکھ بھال پر عمل کریں: اپنے جسمانی ، جذباتی اور ذہنی تندرستی کا خیال رکھیں۔
8. غیر یقینی صورتحال کو گلے لگائیں: ترقی اور سیکھنے کے مواقع کے طور پر غیر یقینی صورتحال دیکھیں۔
9. پیشرفت اپنائیں: راستے میں اپنی چھوٹی جیت کو تسلیم کریں اور منائیں۔
10. صبر کرو: اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا ایک ایسا عمل ہے جس میں وقت ، کوشش اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مزید برآں ، کوشش کریں:
- نئی سرگرمیوں یا مشاغل کی کوشش کرنا۔
- نئے لوگوں سے ملنا یا نئے گروپس میں شامل ہونا۔
نئی جگہوں کا سفر کرنا۔
- کام یا اسکول میں نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا۔
- ایک نئی مہارت یا مضمون سیکھنا۔
یاد رکھیں ، ترقی آپ کے کمفرٹ زون سے باہر ہوتی ہے!

ابرار بھائی یقیناً ہمارے علاقے کیلیے آپکی خدمات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہے انشاء اللہ آپکی محنت ضرور رنگ لائی گی❤️❤️❤️Ibra...
14/06/2024

ابرار بھائی یقیناً ہمارے علاقے کیلیے آپکی خدمات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہے انشاء اللہ آپکی محنت ضرور رنگ لائی گی❤️❤️❤️
Ibrar Toofan Khattak

25/04/2024

*GREAT INFORMATION*

*ملازمت تلاش کرنے کی 10 ویب سائیٹس۔*
1. Linkedin. com
2. Indeed. com
3. Naukri
4. Monster
5. JobBait
6. Careercloud
7. Dice
8. CareerBuilder
9. Rozee. pk
10. Glassdoor

*10 اسکلز جو أج کل کے دور کی ڈیمانڈ ہیں* ۔
1. Machine Learning
2. Mobile Development
3. SEO/SEM Marketing
4. Web development
5. Data Engineering
6. UI/UX Design
7. Cyber-security
8. Graphic designing
9. Blockchain
10. Digital marketing

*11 ویب سائٹس جہاں آپ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں* ۔
1. Coursera
2. edX
3. Khan Academy
4. Udemy
5. iTunesU Free Courses
6. MIT OpenCourseWare
7. Stanford Online
8. Codecademy
9. ict it
10 ict iitk
11 NPTEL
12. 𝐓𝐡𝐞 𝐏𝐡𝐲𝐬𝐢𝐜𝐢𝐬𝐭 wahab zeb

*10 ویب سائٹس جہاں آپ Excel فري سیکھ سکتے ہیں* ۔
1. Microsoft Excel Help Center
2. Excel Exposure
3. Chandoo
4. Excel Central
5. Contextures
6. Excel Hero b.
7. Mr. Excel
8. Improve Your Excel
9. Excel Easy
10. Excel Jet

*10 ویب سائٹس جہاں آپ سی وی مفت رییو کرا سکتے ہیں* ۔
1. Zety Resume Builder
2. Resumonk
3. Resume dot com
4. VisualCV
5. Cvmaker
6. ResumUP
7. Resume Genius
8. Resume builder
9. Resume Baking
10. Enhance

*10 ویب سا ئٹس جہاں آپ انٹرویو کی تیاری کر سکتے ہیں*
1. Ambitionbox
2. AceThelnterview
3. Geeksforgeeks
4. Leetcode
5. Gain
6. Careercup
7. Codercareer
8. interview
9. InterviewBest
10. Indiabix

*5 ویب سائٹس جہاں آپ مفت فری لانسنگ کی ملازمت کر سکتے ہیں* ۔
1. Fiverr. com
2. Upwork. con
3. Guru. com
4. worksheet com
5. Freelancer . com

14/04/2024

دہ ایران میزائلوں والہ ٹک ٹاک ہو ڈیرہ مزہ کئی

17/02/2024

کمشنر صاحب کا استعفیٰ تو بظاہر ایک اچھا اقدام لگ رہا ہے ،اسکے الزامات کو بھر پور طریقے سے کوریج بھی دی گئی اور عوام کو لگ رہا ہیں کہ اسکا ضمیر جاگ گیا ہے لیکن یہ ایمرجنسی لگانے کیلئے ایک ہموار راستہ ہے

01/02/2024

تعلیم یافتہ نوجوان !! نشے نے کیا حال بنایا ہے 😭😭😭

28/01/2024

کامیابی کی خواہش اور تڑپ

طارق بن زیاد کی کہانی سے تو ہر پڑھا لکھا مسلمان واقف ہے ۔ جب وہ سپین کو فتح کرنے کے لیے سپین کے ساحل پر اترے تو انھوں نے سارے جہازوں کو جلانے کا حکم دیا۔ ان کے حکم پر سارے جہازوں کو جلا کر واپسی کا راستہ بند کر دیا گیا اور وہ کامیاب ہوئے ۔ جو فرد بھی اپنی کشتیاں جلانے پر آمادہ ہوگا وہ کامیاب ہو جائے گا۔ ایسی خواہش کو Burning desire کہتے ہیں۔ ہر کامیابی اور کامرانی کا آغاز ایک خواہش اور آرزو سے ہوتا ہے۔ لیکن صرف عام خواہش اور آرزو سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جب تک یہ خواہش بہت شدید اور بھڑکتی ہوئی نہ ہو۔ اس کی مثال اس فرد جیسی ہے جو کہ پانی میں ڈوب رہا ہو۔ اس وقت اس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوگی کہ وہ کسی طرح اپنی ناک پانی سے باہر نکالے اور سانس لے۔ یہ ایک ایسی خواہش ہے جس کے لیے آپ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوں گے ۔ یعنی وہ فرد جو اپنی کامیابی کے لیے ہر چیز داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو ، تو کامیابی اس کے قدم چومےگی۔ اگر آپ کو اپنے مقصد سے عشق ہے تو اس کا حصول کچھ بھی مشکل نہیں ۔ہر قسم کی کامیابی ، کامیابی کی شدید خواہش سے شروع ہوتی ہے کمزور خواہش کمزور نتائج پیدا کرتی ہے۔ جس طرح تھوڑی آگ کم گرمی اور حدت پیدا کرتی ہے۔ اور شدید خواہش بڑے نتائج پیدا کرتی ہے جس طرح زیادہ الاؤ شدید گرمی پیدا کرتا ہے۔جب آپ کسی چیز کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے آپ کے دل میں شدید خواہش اور تڑپ (Burning Desire) ہے تو تمام کائنات آپ کی خواہش کی تکمیل میں آپ کی مددگار ہو جاتی ہے۔ خواہش جتنی شدید ہو گی کامیابی اتنی ہی غیر معمولی ہوگی ۔ خواہش جتنی کمزور ہوگی کامیابی بھی اتنی ہی معمولی ہوگی ۔ یا د رکھیں کہ عظیم کامیابیاں صرف عظیم خواہش اور عمل ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔ مقصد کے حصول کی شدید خواہش ، تڑپ اور جوش و خروش کامیابی کا ایک لازمی جزو ہے، اس کے بغیر کسی کامیابی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بڑی کامیابیاں صرف وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن کے دلوں میں انھیں حاصل کرنے کی آگ لگی ہو ۔ جب آپ کے حاصل کرنے کے لیے جنونی، دیوانے اور پاگل ہو جائیں تو آپ اسے ضرور حاصل کر لیں گے۔ گہری لگن اور جوش (Enthusiasm) کے بغیر کوئی بھی بڑا مقصد اور گول حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آپ کو اپنے مقصد سے عشق ہے تو اس کا حصول کچھ بھی مشکل نہیں۔ خدا نے ہرفرد میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ ہر وہ چیز جسے وہ دل کی گہرائیوں سے حاصل کرنا چاہتا ہے، حاصل کر لیتا ہے۔ تحقیق (Research) سے ثابت ہو چکا ہے کہ کسی بڑے افسر کی ترقی کے لیے اہم ترین قابلیت یا شرط (Qualification) اس کی آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی خواہش ہے نہ کہ تعلیمی قابلیت ، پھر وہ جو نہی اس کے لیے کوشش کرتا ہے تو کامیاب ہو جاتا ہے۔ لہذا کامیابی کی بنیادی شرط علم ، ہنر یا ذہانت نہیں بلکہ کامیابی حاصل کرنے کی شدید خواہش اور تڑپ ہے۔ لوگ عموماً علم کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ علم اور ہنر تو فرد بعد میں بھی حاصل کر سکتا ہے ۔ بلکہ علم اور ہنر کو خریدا بھی جا سکتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایوب نامی ایک لڑکا رہتا تھا ، جس نے بمشکل میٹرک پاس کیا تھا ۔ مگر اس کے اندر کامیابی کی شدید خواہش تھی۔ اس کے سر پر باہر جانے اور کامیابی کا بھوت سوار تھا۔ آٹھ ، دس سال کی کوشش کے بعد وہ باہر چلا گیا اور کامیاب ہوا۔ اب وہ کروڑ پتی ہے ۔ بہت سے اہل علم اور ہنر مند اس کے ملازم ہیں۔ یعنی اس نے علم و ہنر حاصل کرنے کی بجائے خرید لیا۔ یعنی کسی فرد کی کامیابی کا فیصلہ اس کی قابلیت ، صلاحیت یا علم نہیں بلکہ خواہش کرتی ہے۔ تقریباً ہمیشہ کامیابی اور ناکامی میں بنیادی فرق خواہش کا ہوتا ہے۔ خواہش ایسی ہو جو فرد کو مقصد کےحصول کے لیے بے چین کر دے۔کسی بھی قسم کی کامیابی کے حصول کے لیے بنیادی فرق علم کا نہیں بلکہ کامیابی کی خواہش اور تڑپ کا ہے ۔ وہ فرد دنیا کا بہت بد قسمت انسان ہے جو کہ صاحب علم ، قابل، ذہین فطین اور اپنے کام میں ماہر ہے، مگر وہ آگے بڑھنے اور کامیابی کی خواہش اور تڑپ سے محروم ہے۔ ایسا فرد بھی بھی عظیم کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ۔ اگر کامیابی کی جدو جہد میں آپ سب کچھ کھو دیتے ہیں مگر آپ کا کامیابی کا جذبہ، جوش ، خواہش اور تڑپ باقی ہے تو آپ نے کچھ نہیں کھویا ، کیونکہ اس کی مدد سے آپ ایک بار پھر کامیاب ہو جائیں گے، اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدل دیں گے لیکن اگر آپ کی کامیابی کی خواہش سرد پڑ گئی یا ختم ہوگئی تو آپ نے سب کچھ کھو دیا ، آپ کنگال ہو گئے ۔ ایک چیمپٹن (Champion) اور عام فرد کے در میان بنیادی فرق کامیابی کی خواہش اور تڑپ ہوتا ہے۔ چیمپین کے اندر کامیابی کی خواہش عروج پر ہوتی ہے ۔ جب کہ عام آدمی اس سے محروم ہوتا ہے ۔ اگر آپ کے اندر کامیابی کی شدید خواہش اور تڑپ موجود ہے تو آپ خوش قسمت ہیں کیونکہ آپ کوئی بھی مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں یا تو آپ کا میابی کا راستہ پالیں گے یا پھر خود بنالیں گے۔ اگر آپ کی کامیابی کی خواہش Do or Die یا Swim or Sink کے درجے کی ہے تو پھر دنیا کی ہر کامیابی آپ کے قدموں تلے ہوگی ۔

کتاب: تعلیمی کامیابی
مصنف: پروفیسر ارشد جاوید

22/01/2024

پاکستان کے صحافی اور انگلش 😂😂😂😂

12/01/2024

نظریے کیساتھ ضرور ہوں لیکن ایسے نظریے کیساتھ قطعاً نہیں جو خود چوروں کیخلاف لڑ رہا ہو اور ٹکٹ چوروں کو دے۔

11/01/2024

ایک کامیاب سیاست دان:

89 سال قبل لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک نہایت غریب گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا ۔ چار بہن بھائیوں میں یہ سب سے چھوٹا تھا۔ پورا گاؤں ان پڑھ مگر اسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ اس کے گاؤں میں سکول نہ تھا ، لہذا یہ ڈیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے جاتا۔ راستے میں ایک برساتی نالہ تھا۔ اسے ہر روز اس نالے میں سے گزرنا پڑتا۔ چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ 8 میل دور دوسرے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا۔ اس نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ مزید تعلیم کے لیے لاہور آیا۔ یہاں اس نے سنٹرل ماڈل سکول میں ، جو کہ اس وقت لاہور کا نمبر 1 سکول تھا، داخلہ لیا۔ اس کا گاؤں شہر سے 13 کلومیٹر دور تھا ۔ غربت کی وجہ سے اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل تھی ، مگر اس نے مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے بلکہ ان کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ اکٹھا کر کے شہر میں بیچے گا اور اپنی تعلیم جاری رکھے گا۔ چنانچہ وہ صبح منہ اندھیرے اذان سے پہلے اٹھتا مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا ، ڈرم کو ریڑھے پر لاتا اور شہر پہنچتا۔ شہر میں وہ نواب مظفر قزلباش کی حویلی اور کچھ دکانداروں کو دودھ فروخت کرتا مسجد میں جا کر کپڑے بدلتا اور سکول چلا جاتا۔ کالج کے زمانے تک وہ اسی طرح دودھ بیچتا اور تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس نے غربت کے باوجود کبھی دودھ میں پانی نہ ملایا۔
بچپن میں اس کے پاس سکول کے جوتے نہ تھے ،سکول کے لیے بوٹ ضروری تھے ۔جیسے تیسے کر کے اس نے کچھ پیسے جمع کر کے بوٹ خرید لیے ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ گاؤں میں بھی بوٹ پہنتا تو وہ جلد گھس جاتے ، چنانچہ وہ گاؤں سے والد کی دیسی جوتی پہن کر آتا ، شہر میں جہاں دودھ کا برتن رکھتا وہاں اپنے بوٹ کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتا ، وہیں جوتے بدلتا اور سکول چلا جاتا۔ شام کو گاؤں واپس جا کر جوتے والد کو واپس کر دیتا ۔ بقول معروف کالم نگار جاوید چودھری والد سارا دن اور بیٹا ساری رات ننگے پاؤں پھرتا۔1935ء میں اس نے میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا ۔ وہ اب بھی اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے گاؤں سے ریڑھے پر دودھ لاتا اور شہر میں فروخت کرتا ۔ اس کام میں اس نے کبھی عار محسوس نہ کی ۔ فرسٹ ائیر میں اس کے پاس کوٹ نہ تھا ، کلاس میں کوٹ پہننا لازمی تھا۔ چنانچہ اسے کلاس سے نکال کر غیر حاضری لگا دی جاتی ۔ لگا تار غیر حاضری کی وجہ سے اس کا نام خارج ہو گیا۔ انجمن کو اس مسئلے کا علم ہوا تو اس نے اس ذہین طالب علم کی مدد کی ۔ اس نوجوان کو پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔1939 ء میں اس نے بی ۔ اے آنرز کیا۔ یہ اپنے علاقے میں واحد گریجویٹ تھا۔ اس دوران وہ جان چکا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی اہم کام آسانی سے سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔کامیابیوں اور بہترین کامیابیوں کے لیے ان تھک محنت اور تگ و دو لازمی عنصر ہے۔ معاشی دباؤ کے تحت بی۔ اے کے بعد اس نے باٹا پور میں کلرک کی نوکری کر لی۔ چونکہ اس کا مقصد اور گول لاء کرنا تھا لہذا کچھ عرصہ بعد کلرکی چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیا ۔ 1950ء سے با قاعدہ پریکٹس شروع کر دی۔ اس پر خدمت خلق اور آگے بڑھنے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ اسی جذبہ کے تحت پہلی بار 1965 ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا۔ پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑے اور مکان کے نعرے سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گیا ۔ 1970ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم ۔ این اے منتخب ہوا اور نواب مظفر علی قزلباش کے بھائی کو، جن کے گھر یہ دودھ بیچا کرتا تھا ، شکست دی۔ 1971ء میں ذو الفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک و پسماندہ علاقہ جات بنا۔1972 ء پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا ۔ وزارت اعلیٰ کے دوران میں اکثر رکشے پر سفر کرتا ۔ اپنے گورنر غلام مصطفیٰ کھر کے ساتھ نبھا نہ ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثال قائم کی ۔ 1973 میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے وفد کی قیادت کی ۔ 1975ء میں اسے وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور بنایا گیا ۔ 1976ء میں اسے وفاقی وزیر بلدیات و دیہی ترقی مقرر کیا گیا ۔ دو دفعہ سپیکر قومی اسمبلی بنا اور 4 سال تک انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کاریکٹر رہا۔ ایک مفلس ان پڑھ کسان کا بیٹا جس نے کامیابی کا لمبا اور مشکل سفر دودھ بیچنے سے شروع کیا اور آخر کار پاکستان کا وزیر اعظم بنا۔ یہ پاکستان کا منفر د وزیر اعظم تھا جو ساری عمر لاہور میں لکشمی مینشن میں کرائے پر رہا۔ جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا ، جس کا جنازہ اسی کرائے کے گھر سے اٹھا، جو لوٹ کھسوٹ سے دور رہا، جس کی بیوی اس کی وزارت عظمی کے دوران رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھاتی تھی ۔ اگر ملک معراج خالد غربت کے باوجود اتنی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں تو یقینا آپ
بھی عظیم کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں، مگر اس طرح کی کامیابیوں کے لیے حتمی گول ، کامیابی کی سچی لگن اور تڑپ ، ایمان داری اور مسلسل جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے۔
کتاب: تعلیمی کامیابی
مصنف: پروفیسر ارشد جاوید

06/01/2024

گول کا تعین:
ایک صاحب لاہور اسٹیشن پر اترتے ہیں اور ٹیکسی میں سوار ہو جاتے ہیں۔ ڈرائیور ان سے پوچھتا ہے کہ وہ کہاں جائیں گے ۔ انھوں نے فرمایا کہ مجھے علم نہیں ۔ اب وہ صاحب کہاں جائیں گے ۔ یا تو ڈرائیور سارا دن ان کو شہر میں گھماتا رہے گا یا پھر ان کو مینٹل ہسپتال لے جائے گا۔ دنیا میں 95 فی صد سے زیادہ لوگ ناکام ہیں ۔ مختلف ماہرین کی ریسرچ سے ثابت ہوا کہ ناکامی کی سب سے بڑی وجہ گول (Goal) کا نہ ہونا ہے۔ کامیاب لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا بننا اور کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ یعنی وہ جانتے ہیں کہ ان کی منزل کیا ہے ۔ دوسری طرف ناکام افراد کا کوئی مقصد اور گول نہیں ہوتا ۔ ان کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ان کی منزل کیا ہے؟ ظاہر ہے جب کسی فرد کو اپنی منزل ہی کا علم نہیں تو وہ وہاں پہنچے گا کیسے؟ جب کوئی فرد یہ ہی نہیں جانتا کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ کیا حاصل کرے گا ؟ کچھ بھی نہیں ۔ ہدف کا تعین کیے بغیر کوئی فرد نشانہ کیسے لگا سکتا ہے ۔ کامیابی حادثاتی طور پر شاید ہی کبھی حاصل ہو ۔ دنیا میں شاید ہی کوئی انسان گول کے تعین کے بغیر کامیاب ہوا ہو۔ دنیا کی تمام عظیم کامیابیوں کا آغاز ایک واضح اور حتمی (Definite) گول کے تعین سے ہوتا ہے۔ امریکہ کے ایک ارب پتی J. C.Penney نے، جس کے پورے ملک میں بہت بڑے بڑے سٹور ہیں ، ایک بار کہا تھا کہ آپ مجھے ایک ایسا کلرک دیں جس کا کوئی گول ہو تو میں آپ کو ایک ایسا شخص دوں گا جو ہر بار عظیم کامیابی حاصل کر کے تاریخ رقم کرے گا۔ دوسری طرف آپ مجھے ایک ایسا فرد دیں جس کا کوئی گول نہیں تو میں آپ کوصرف ایک کلرک دے سکوں گا۔نیو یارک میں ایک دلچسپ سروے کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اپنے گول بنائے تھے اور اس کے حصول کے لیے کوشش کی اور مستقل مزاج رہے، کوشش ترک نہ کی ، انھوں نے اپنے 95 فی صد گول حاصل کر لیے ۔ اس طرح ایک دوسری ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی کہ جب آپ گول سیٹ کر لیتے ہیں تو کامیابی کے امکانات 50 فی صد یا اس سے زیادہ ہو جاتے ہیں۔کوئی فرد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اسے اپنی منزل کا علم نہ ہو اور وہ ایک واضح اور حتمی گول نہ رکھتا ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ منزل کا تعین کیے بغیر اپنی کامیابی کا سفر شروع نہیں کر سکتے ۔ آپ اس صورت میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو علم نہ ہو کہ اس وقت آپ کہاں کھڑے ہیں ۔ گول کے بغیر زندگی کی دوڑ اس طرح سے ہے جس طرح خاتمے کی لائن (End line) کے بغیر دوڑنا ۔ اسی طرح گول طے کیے بغیر محنت کرنا اس طرح ہے جیسے رے ڈار کے بغیر بحری جہاز کا سفر ۔ ظاہر ہے کہ رے ڈار کے بغیر وہ کسی نہ کسی چٹان سے جاٹکرائے گا۔دنیا کے ہر کامیاب انسان کا کوئی حتمی اور واضح گول ضرور ہوتا ہے۔ یہ گول ہر لمحہ اس کے دل و دماغ پر سوار ہوتا ہے۔ اس کی تمام سوچیں اور سرگرمیاں اس کے گرد گھومتی ہیں ۔ یہ مقصد اس کے زندہ رہنے کا سبب ہوتا ہے۔ اپنے آپ سے سوال کریں کہ آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟ آپ کی منزل کیا ہے؟ آپ زندگی میں کیا کرنا ، بننا اور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو علم ہی نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو آپ کیا حاصل کریں گے؟ کچھ نہیں۔ اس سے بڑا پاگل پن کیا ہوگا کہ انسان کو اپنی منزل کا علم نہ ہو مگر وہ وہاں پہنچنے کی توقع رکھتا ہو۔ دنیا میں اس سے بڑا معجزہ کوئی دوسرا نہ ہو گا کہ فرد کو اپنی منزل کا علم نہ ہو اور نہ ہی اس کی طرف گامزن ہو اور پھر بھی وہ منزل تک پہنچ جائے ۔ اگر آپ واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آج ہی طے کریں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔انسانی ذہن مقصد ، گول اور نتائج کے حوالے سے سوچتا ہے اور کام کرتا ہے ۔ جب آپ شعوری طور پر گول کا تعین کر لیتے ہیں تو اس کے حصول کے لیے آپ اپنے لاشعور پر انحصار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جب آپ گول کا تعین کر لیتے ہیں ۔ تو آپ کے لاشعوری ذہن کا تخلیقی حصہ خود بخود اس کے حصول کے لیے دن رات کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے منزل تک پہنچنے کے راستے واضح اور آسان ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح کامیابی کا حصول جلد اور یقینی ہو جاتا ہے۔ جب آپ ایک دفعہ گول طے کر لیں تو آپ کا لاشعور آپ کو یقیناً منزل تک لے جائے گا اور جلد لے جائے گا ۔ گول طے کرنے سے لاشعور فرد کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اگر آپ واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ بھی کامیاب لوگوں کی طرح اپنے گول بنا ئیں-
کتاب: تعلیمی کامیابی
مصنف: پروفیسر ارشد جاوید

02/01/2024

مقصد حیات

دنیا میں ہر کامیاب انسان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اس کی ساری زندگی اسی مقصد کے گرد گھومتی ہے۔ وہ ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا ہے۔ آپ کی زندگی کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے، بے مقصد زندگی موت ہے۔ بے مقصد زندگی صرف جانور بسر کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو مقصد حیات کا کوئی شعور نہیں ہوتا۔ کسی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے زندہ رہنے کا کیا مقصد ہے۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ آپ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کو پتہ ہی نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو پھر آپ حاصل کیا کریں گے۔ کچھ بھی نہیں ۔اپنے مقصد حیات کا تعین کرنے کے لیے اپنی اقدار (Values) کا جائزہ لیں۔اقدار سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو آپ اپنی زندگی میں اہمیت دیتے ہیں ۔ رات کو اکیلے بیٹھ جائیں ، اس دوران میں آپ کو کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ اپنی اقدار کو ایک کاغذ پر لکھ لیں ۔ ان سب کا جائزہ لیں اور پھر ان میں پانچ اہم ترین اقدار کو منتخب کریں اور ان کی روشنی میں اپنے مقصد حیات کا تعین کریں۔ تاہم ایک مسلمان کا مقصد خدا نے خود طے کر دیا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس کے لیے خدا نے ہمیں یہ دعا ربنا اتنا فى الدنيا حسنته وفي الآخرة حسنته وقنا عذاب النار سکھائی ہے "اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی ، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔“
مقصد کے حصول کے لیے کئی گول (Goals) ہو سکتے ہیں ۔ مثلاً خدمت خلق کئی طرح سے ہو سکتی ہے۔ ہسپتال ، ڈسپنسری یا سکول کا قیام ۔ اس طرح شہرت کئی طریقوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ تعلیم کے میدان میں خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ فری سکول شروع کر سکتے ہیں۔ غریب بچوں کو مفت کتب اور ان کی فیس مہیا کر سکتے ہیں، ان بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھا سکتے ہیں۔ گول کی مدد سے آپ اپنے مقاصد کو عملی صورت دیتے ہیں ۔ اکثر اوقات انسان ایک مقصد کے حصول کے لیے کئی گول سیٹ کرتا ہے ۔ مثلاً جنت کے حصول کے لیے کئی گول ہو سکتے ہیں ۔ مثلاً فرائض کی پابندی ، گناہوں سے بچنا، غریبوں کے لیے سکول یا ہسپتال بنانا ، غریب بچیوں کی شادی کا انتظام کرنا ، غریبوں کے لیےمالی امداد فراہم کرنا وغیرہ۔
کتاب: تعلیمی کامیابی
مصنف: پروفیسر ارشد جاوید

Address

Karak
27200

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Saqib Jamil posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Saqib Jamil:

Share