20/12/2025
برسوں پہلے ماما قدیر کے بیٹے جلیل کو لاپتہ کیا گیا اور بعد ازاں تشدد زدہ لاش واپس کی گئی۔ اپنے دل کے ٹکڑے جلیل کی لاش دفنانے کے بعد، لاپتہ افراد کے لیے انصاف کی جدوجہد میں ماما قدیر نے احتجاجی دھرنا شروع کیا، اس کے تنظیم وائس فار بلوچ میسنگ پرسنز کے اُس دھرنے کے آج 6036 دن مکمل ہو چکے ہیں، یعنی لگ بھگ سولہ سال۔
طویل علالت کے بعد آج ماما قدیر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ پی ٹی ایم ماما قدیر کے جدوجہد کو سلام پیش کرتی ہے اور بلوچ قوم، اس کے تنظیم وائس فار بلوچ میسنگ پرسنز کے کارکنان اور ماما کے عزیز و اقارب سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ماما قدیر کو جنت اور عزیز و اقارب کو صبر نصیب فرمائیں۔آمین
ماما قدیر جسمانی طور پر اب اس دنیا میں موجود نہیں رہے، مگر ان کی طویل جدوجہد اور سولہ سالہ مسلسل احتجاجی دھرنے نے محکوم قوموں کے سامنے ریاستِ پاکستان کی پنجاب استعمار شکل کو مزید آشکار کر دیا کہ کیا ریاستِ پاکستان، ریاستی قوانین کے عین مطابق پرامن سیاسی طریقے سے حقوق مانگنے پر، محکوم قوموں کو واقعی ان کے حقوق دے گی؟
ماما قدیر کی جدوجہد ہو یا دیگر قومی و سماجی تحریکوں کی جدوجہد، یہ سب استعمار کی حقیقت کو آشکار کر کے محکوم قوموں میں قومی شعور کو جنم دے رہی ہیں۔ انہی تجربات اور واقعات سے حاصل ہونے والا علم و شعور قوموں کی آئندہ مزاحمت میں صحیح اور غلط سمت کی پہچان فراہم کرتا ہے اور پھر یہی شعور استعماریت کو گرانے کی بنیاد بنتا ہے، جو ہر کامیاب انقلاب اور مزاحمت کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔
بے بسی کی حالت میں قوموں کی خاموشی، بے حسی کو جنم دیتی ہے، اور وہی بے حسی قوموں کو مستقل طور پر اپنی شناخت کھو دینے، غلام بننے اور ہمیشہ کے لیے ظلم و جبر کا شکار بننے کی طرف دھکیل دیتی ہے۔
مگر بے بسی کے عالم میں، قوموں کی اپنے درد و غم پر مزاحمتی حرکت اور اپنے لوگوں کی ترجمان آواز، قومی احساس کو زندہ رکھتی ہے، مظلوموں میں قوت و سکت پیدا کرتی ہے اور حقیقی پائیدار حل کی تلاش میں جدوجہد کی توفیق دیتی ہے۔ قومی ترجمانی کی صورت میں یہی آواز انقلابوں کی بنیاد بنتی ہے، قوموں کی شناخت کے دعوے اور غلامی سے نکلنے کی بحث کو زندہ رکھتی ہے، اپنے وطن کے باسیوں کو استعمار کے مفادات کے لیے استعمال ہونے سے بچا کر اپنے وطن کے لیے جدوجہد کرنے والا بناتی ہے۔اور یقیناً، سخت تجربات اور حالات سے تیار ہونے والی یہی ساخت کسی فیصلہ کن موڑ پر ایک کاری ضرب بن کر، اپنے وطن میں استعماریت کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے اور قوموں کے لیے ایک آزاد شناخت، خوشحال، باعزت اور باحفاظت زندگی کے آغاز کا سبب بنتی ہے۔
موجودہ دور میں اٹھنے والی محکوم قوموں کے تحریک ضرور کامیاب ہونگے البتہ شرط یہ ہے کہ اپنے قومی موقف، فکر اور جدوجہد میں مستقل مزاج رہے، کیونکہ وقت کے ساتھ اپنے موقف اور ہدف تبدیل کرنے والے، یا نتیجہ نہ دینے والے غلط اور مفاہمتی راستے کے انتخاب کر کے اُس پر ڈٹ جانے والے یا استعمار کے ساتھ کمپرومائز کرنے والے تنظیمیں کبھی بھی قوم کو غلامی سے نجات نہیں دے سکتے ہیں۔
محکوم و مستعمر قوموں کے قومی تنظیمیں اپنے وطن اور اپنے لوگوں کے خوشحال مستقبل کی خاطر انشاءاللہ ہر صورت میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔