06/10/2024
پرانے گھر اور پرانیاں گلاں۔
1950 کی دہائی میں ہمارا گھر کچا تھا، کچے آنگن میں کنواری مٹی کی روح پرور باس میں بسا ایک کنال سے کچھ زیادہ گھرتھا۔ گارے مٹی کے گھروں نے زمین پر ایک خاص رنگ پایا ہے۔
ایشین سٹائل گھر میں پیچھے 4 کمرے ایک ہی لائن میں بنے تھے اور سب کے سامنے ایک لمبا برآمدہ تھا۔ چھت پر دیار کی لکڑی کے بیم اور بالے اور چوکے اوپر مٹی کی لپائی جو ہر سال لپائی کرنی پڑتی تھی تاکہ چھت بارش میں ٹپ ٹپ نہ ٹپکے۔ کمروں کا سائز اتنا کہ پچھلی طرف تین چارپائیاں اور دو اگلی طرف ایک دروازہ دیار لکڑی کا ۔ دو لکڑی کی کھڑکیاں ہر کمرے میں اور کھڑکیوں کے اوپر روشندان تھے۔
کمروں اور برآمدے میں اینٹوں کا فرش تھا ۔ صحن کچا لیکن چٹی مٹی اور گوبر ملا کر گارے سے لپائی کی ہوئی جو ہر سال چھت کے ساتھ کرنی پڑتی تھی ۔ اگلی طرف کچھ حصہ کچا مویشی باندھنے کے لئیے۔ مال مویشی کے لئے الگ بڑا سا کمرہ تھا،
صحن کھلا تھا۔ نیم اور شہتوت کے درخت بھی تھے ۔ دو بیری کے درخت بھی تھے۔ ایک بہت بڑا کیکر کا درخت تھا صبح جب کلچیٹ آ کر بولتی تھی تو ہماری آنکھ کھل جاتی تھی۔۔
عید پر والد صاحب شہتوت کے ساتھ پینگ ڈال دیتے تھےسارے بہن بھائی جولے جولتے تھے۔
دو بڑے کمروں میں کانس تھی۔
اس زمانے میں گھروں کو برتنوں سے سجایا جاتا تھا پیتل تانبے لوہے چینی اور دیسی برتن کے علاوہ گھر میں جتنے بھی برتن ہوتے تھے ۔ کانس پر بڑے سلیقے, ترتیب اور خوبصورتی سے رکھے جاتے ۔ یہ برتن گھر کی بہت بڑی رونق اور زینت ہوتے تھی ۔ انہیں روزانہ جھاڑا جاتا اور ان کی چمک کا خاص خیال رکھا جاتا ۔۔ کہیں کہیں ان کانسوں پر ارائشی کپڑے ڈالے جاتے۔ جن پر سوئی اور رنگین دھاگوں سے پھول بوٹے اور پھولوں کی بیلیں ہاتھوں سے کڈھائی کر کے کانس پر برتنوں کے نیچے اور کچھ آگے پھول سرخ پیلے نیلے اور پتے سبز دھاگے سے کلڈھائی کر کے لٹکائی جاتی تھی ۔ اسکے نیچے کروشئیے سے چھالر بنا کر لٹکائی جاتی تھی کڈھائی کا سارا کام لکڑی کے فریم پر فٹ کر کے بنایا جاتا۔ آگے سامنے کروشئیے سے جھالر بنائی جاتی تھی۔
کوندر سے بنی پکھیوں پر بھی نیچے رنگین ساٹن کا کپڑا اور نیچیے کڈاھائی والی جھالر لگی ہوتی۔ کبھی گول شیشے بھی سوئی دھاگے سے جوڑ کر سجی سجائی رنگین پکھیاں کانس سے اوپر بڑی نفاست سے لٹکائی جاتیں۔
شادی میں بڑی فینسی گھڑولی استعمال ہوتی تھی۔ اسکی نیچے سر پر رکھنے کے لئے اینو بھی کلڈھائی والا۔ اور اون کے رنگ رنگ کے بھگے رنگین اونی دھاگو سے لٹکائے جاتے تھے۔ وہ بھی ڈیکوریشن کے لئے کانس سےاوپر لٹکائے جاتے تھے۔
جب کوئی مہمان آ جائے تو کسی چھوٹے بچے کو کہتے مہمان کو ہاتھ والی سجھی سجھائی پھولوں والی پکھی جھولیں۔ مہمان کا پسینہ سوکھ جاتا تو بچے سے پکھی خود لے لیتا۔
کمرے کے اندر جب کوئی مہمان داخل ہوتا تو ان برتنوں کی ترتیب اور تزئین میں کھو سا جاتا ۔ افسوس یہ ارٹ اور فن نئے دور کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ۔
بجلی نہیں تھی نہ بجلی کے پنکھے۔ نہ دیگر مصنوعات ہوتی تھیں۔ ٹیلیویژن موبائل کچھ نہیں تھا۔ عورتیں گھر کی تزین و ارائیش میں مصروف رہتی تھیں۔ ناڑے بھی لکڑی کی بنی کرگاہ پر بناے جاتے تھے۔ شادی کے لئے خاص تیاری کی جاتی۔ دولہے اور دلہن کے لئے سرخ رنگ کے ناڑے بنائے جاتے تھے۔
سرہانے اور تکیے کے کور پر کڈھائی کی جاتی تھی۔ پلنگ پر بچھانے والے چادروں پر بھی رنگین دھاگوں سے گل بوٹے بنائے جاتے تھے۔
مہمان کو سجھی سجھائی رنگین پایوں والی چارپائی پر بٹھا کر پیچھے پھولوں والا تکیہ رکھا جاتا۔ عورتیں رنگین پایوں والی سوتری سے بنی ہوئی پیڑیوں پر بیٹھ کر چلم گڑاکو کے مزے لیتی گپ شپ لگاتیں۔ مہمانوں کے سامنے تندور کی روٹیاں مکئی گندم یا باجرے کی مکھن سے چپڑ کر رکھی جاتیں۔ لسی ساگ اور سادہ خوراک کے لیے جو چھکور ہوتی وی بھی بڑی کڈھائی اور پھولوں کی کڈھائی سے مزین ہوتی۔ چائے کا رواج نہیں تھا۔ مٹی کی ٹاس میں لسی اور اس کے اوپر مکھن کا پیڑا پیش کیا جاتا تھا۔
چینی سٹیل, شیشہ , سلور ,پیتل اور لوہے کہ برتنوں کی جگہ اج کل عجیب قسم کے برتن اگئے ہیں ۔ زیادہ تر تو پلاسٹک ہی ہے اج سے 30, 40 سال پہلے پلاسٹک کے استعمال کو بہت مضر تصور کیا جاتا تھا۔
بچپن کے زمانے 50 & 60 کی دہائی میں ٹینٹ سروس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن جب بھی کوئی غمی یا خوشی ہوتی تو ہر گھر سے ایک چارپائی مہمانوں کے لئے آ جاتی۔😥
جانے کہاں گئے وہ دن جب سادگی تھی لیکن بھائی چارہ بھی تھا۔ مل کر کام کرنے والے لوگ خاک ہو گئے ۔😪
اب نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر ایک کو جلدی ہے۔ پتہ نہیں یہ دوڑ کب تک ہے۔ زندگی تو مختصر ہے۔ پھر بھی لوگ دوڑ رہے ہیں۔ پتہ نہیں کہاں جانا ہے ان کو۔🤔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور اس دوڑ سے بچائے۔ آمین 🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️🏃♂️
آجکل جو بھی برتن ہوتے ہیں وہ الماریوں میں پڑے ہوتے ہیں ۔ شاید کچھ وقت بعد برتنوں کا رواج ہی ختم ہو جائے شادی بیاہ اور دوسرے پروگرامات میں شادی ہال میں ہوتے ہیں۔ موت فوت پر پکی پکائی دیگیں ٹینٹ سروس والے کرسیوں سمیت سپلائی کرتے ہیں۔
اب تو بہت سی جگہوں پر گھڑوں کا پانی بھی مشکل ہو گیا ہے ۔ ورنہ پہلے تو گھڑوں کے لیے لکڑی کی گڑونجیاں بنوا کر گھڑوں کو رکھا جاتا تھا ۔ کھڑوں پر مٹی کے ٹاس پڑی ہوتی اسی میں پانی پیا جاتا تھا۔
گھر کے باہر بھی ایک مٹکا پڑا ہوتا تھا ۔ اس پر مٹی کا کٹورا پڑا ہوتا۔ ۔ ان کا پانی پی کر روح میں سرور بھر جاتا ۔
اہ میرے جیسے لوگ شاید پرانیت کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی چیزوں کو محبت و مروت کا دشمن سمجھ رہے ہیں۔
سال میں ایک دفعہ گھر میں چونا ہونا ہوتا تھا ۔ اس دن ہمارے گھر میں بڑی گہما گہمی ہوتی تھی ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھروں میں بیڈروم نہیں بلکہ کمرے ہوتے تھے اور ڈسٹمپر نہیں بلکہ گھروں میں چونا ہوتا تھا
کمروں سے بستر ، منجیاں اور کانس سے برتن نکال کر باہر ویہڑے میں رکھے جاتے
اگلے دن گھر میں چونے کے بڑے بڑے ٹکڑے ، کوچیاں، نیل اور پیپے پہنچ جاتے اور پھر کمرہ بہ کمرہ چونا شروع ہو جاتا
دن میں چونا لگانے والے کے لیئے کھانا بنتا ، عصر کے وقت چاۓ
“ برانڈے (برآمدے) وچ چونا کرانڑاں “
اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
🍁تحریر راجہ قدیر 🍁