Misali Urdu Videos

Misali Urdu Videos Hi Friends I am RJ Rana Shakir. We Present daily New Videos For You and much more. Visit My YouTube Channel (Misali Shayari) Thanks

80 اور 90 کی دھائی میں پی ٹی وی پے چلنے والا پروگرام بولتے ھاتھ جو سماعت گویائی سے محروم افراد کے لیے پیش کیا جاتا تھا.ج...
24/10/2024

80 اور 90 کی دھائی میں پی ٹی وی پے چلنے والا پروگرام بولتے ھاتھ جو سماعت گویائی سے محروم افراد کے لیے پیش کیا جاتا تھا.جس میں سید افتخار احمد صاحب ھاتھ کے اشارے سے باتیں سمجھاتے تھے.ہم اپنے بچپن میں بڑی حیرت سے انہیں دیکھتے تھے کے یہ ہاتھوں سے کیا اشارے کر رہے ہیں.آج یوٹیوب پے یہ کلپ نظر آیا تو وہ ٹائم آنکھوں میں گھوم گیا.

#یادوکےجھروکے
یادوں کے جھروکے

1980s Ka Purana Bachpan | O vella phr ni ana | old Golden Jamana | Want Relive Yours 80s Childhood |https://youtu.be/hej...
22/10/2024

1980s Ka Purana Bachpan | O vella phr ni ana | old Golden Jamana | Want Relive Yours 80s Childhood |
https://youtu.be/hejRUaPCTQw

Mitti K Ghar aur Purane Log | 1980s O Daur bara Sohna c | Old Village Memories | 80s k Purani Yadenhttps://youtu.be/RP9E...
15/10/2024

Mitti K Ghar aur Purane Log | 1980s O Daur bara Sohna c | Old Village Memories | 80s k Purani Yaden
https://youtu.be/RP9EU7QsOjY

زندگی تیز، بہت تیز چلی ہو جیسے،2000 کے بعد پیدا ہونے والی نسل بدقسمتی سے اس لذت، سکون اور محبت سے محروم رہی جو نوے کی دہ...
14/10/2024

زندگی تیز، بہت تیز چلی ہو جیسے،
2000 کے بعد پیدا ہونے والی نسل بدقسمتی سے اس لذت، سکون اور محبت سے محروم رہی جو نوے کی دہائی کی جنریشن کو ملی۔
ہم نے زندگی کے اصل رنگ اپنی آخری ہچکیاں لیتے ہوۓ دیکھے اور انہیں الوداع کیا۔
★ ہم نے مٹی کے چولہوں پر کڑتی ہوئی چائے کا بہترین ذائقہ لیا اور مٹی کے برتنوں میں بنتے سالنوں کی مہک سے خود کو لطف اندوز کیا۔
★ ہم نے سکول ڈیسک یا بنچ پر بیٹھ کر ساتھ والے بنچ پر اپنا بستہ رکھ کر کہا کہ یہ جگہ میرے دوست کی ہے یہاں وہ بیٹھے گا.
★ ہم نے نانی اور دادی سے وہ کہانیاں بھی سنی، جن کے حصار میں جوانی تک مبتلا رہے۔
★ ہم نے دو دو روپے جمع کر کے گیندیں خریدی۔ شام دیر تک کرکٹ کھیلا اور گھر لیٹ آنے پر مار بھی کھائی۔
آج محسوس ہوتا ہے کہ کرکٹ میچ کے دوران کوئی ایک بڑا آکر ضرور کہتا تھا کہ مجھے صرف دو گیندیں کھیلنی ہیں، اس کے بعد چلا جاؤں گا۔ اس وقت ہمیں بہت چڑ آتی تھی مگر آج سمجھ آتی ہے کہ وہ دو گیندیں کھیلنے والا کیوں ضد کیا کرتا تھا۔
★ ہم نے مہمانوں کی آمد پر گھر میں جشن کا سا ماحول دیکھا، اور ان کے الوداع ہونے پر ان کی طرف سے محبت کے طور پر ملے دس روپوں کو قارون کے خزانے کے برابر سمجھا۔
★ پھر مہمانوں کی پلیٹ میں بچے ہوئے بسکٹوں پر ہاتھ صاف کیا، جس کا بعض اوقات ازالہ بھی کرنا پڑا😄
★ کلاس روم سے استاد/استانی کے ساتھ کاپیاں اٹھا کر سٹاف روم تک لے جانا اپنے لیے ای اعزاز سمجھا۔
★ کلاس ٹیسٹ کے دوران ایک خالی پیج کے لیے کلاس میں بھیک تک مانگی۔😝
★ کبھی کبھار کسی کی کاپی ہاتھ لگی تو تین چار دن کے ٹیسٹوں کے لیے پیج نکال کر جیب میں ڈال دیے۔
★ ہم نے پڑوس کے گھروں میں سالن دیتے اور لیتے دیکھا۔
★ ہم نے پڑوسیوں کے آئے ہوئے مہمانوں کو اپنے گھر لے آنے کو اپنا اعزاز سمجھا۔
★ ہم صبح اسکول جانے سے پہلے مستنصر حسین تارڑ کا پروگرام دیکھا، جس میں کارٹون ختم ہوتے ہی اسکول کی طرف دوڑ لگائی۔
★ ہم نے ففٹی ففٹی، آغوش، جانگلوس، سورج کے ساتھ ساتھ، اندھیرا اجالا، باادب با ملاحظہ ہوشیار، عینک والا جن، دھواں، گیسٹ ہاوُس وغیرہ جیسے نایاب ڈرامے دیکھے۔۔۔
★ ہم نے پنک پینتھر، وڈی وڈ پیکر، سیسم اسٹریٹ، مینیمل، نائٹ رائیڈر، ائیر وولف، چپس جیسے پروگرام دیکھے۔۔۔
★ جمعے والے دن بیگ میں آدھی کتابوں کو رکھتے وقت کی خوشی محسوس کی۔
★ ہم نے آخری پیریڈ کے دوران چھٹی کے لیے بجتی ہوئی گھنٹی کے لیے وہ بے تابی کا مزہ لیا۔
★ نوے فیصد لوگوں نے ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی کلاس روم سے چاک چوری نہ کیا ہو۔
★ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ گھر جاتے راستے میں آنے والے کسی پھلدار پودے پر پتھر مار کر پھل نہ کھائے ہوں۔ یہ الگ بات تھی کہ اکثر اوقات پھلوں کے ساتھ مالکان کی طرف سے بہت کچھ سننے کو ملا، مگر ہم نے پرواہ نہیں کی اور درگزر فرمایا اور دوسرے دن پھر وہی روایت جاری رکھی۔😝
★ ہمارے سکول دور میں امیر وہی سمجھا جاتا تھا جس کے پاس جومیٹری بکس ہوتا تھا۔
★ پانی کے لیے ایک بوتل جو اکثر کاندھوں پر لٹکائی جاتی تھی اور جو ٹفن میں گھر سے کھانا لے آتا تھا۔ ہاں یہ الگ بات تھی کے ہمارے ہوتے ہوئے وہ کھانا اسے کبھی کبھار ہی نصیب ہوتا تھا😝
گلاب لمحوں کے مخمل پر کھیلتے بچپن،
پلٹ کے آ، میں تجھ سے شرارتیں مانگوں،
★ ٹیچر کی غیر حاضری کے لیے مانگی ہوئی دعا بہت کم ہی قبول ہوتی تھی، اکثر راہ سے واپس آجاتی تھی، ۔
★ فارغ پریڈ میں ہم اکثر اپنے اجداد کی بڑائی بیان کرتے ہوئے خود سے بنائے گئے قصے سنایا کرتے تھے۔
★ کبھی ہاتھوں کے ناخنوں کی وجہ سے اسمبلی میں مار نہیں کھائی، جیسے ہی چیکینگ شروع ہوتی دانتوں سے فوراً ناخنوں کا صفایا کر دیتے تھے۔😝
★ جوتوں کی پالش چیک ہوتی تو ایک جوتا دوسری ٹانگ کی پنڈلی کے پیچھے رگڑ کر صاف کر لیا کرتے تھے۔۔
★ ہماری امیدیں بھی بہت ٹوٹی ہیں۔۔ اکثر رات کو ہوتی بارش میں سکون سے سوتے تھے ک9 کل صبح بارش ہونے کی وجہ سے سکول نہیں جائیں گے مگر صبح اٹھتے ہی نکلی ہوئی دھوپ دیکھتے تھے اور ایسے دیکھتے جیسے کوئی معجزہ ہو گیا ہو۔😭😭 اس ٹوٹتی امید کا دکھ کسی ماتم کے دکھ سے کم نہیں ہوتا تھا۔
★ ہم راستے میں بیٹھتے تو بیگ جھولی میں رکھتے تھے، نیچے نہیں۔ ہم ڈرتے تھے کہ اس میں اسلامیات کی کتاب ہوتی ہے۔
★ ہم بازار میں کہیں اگر جاتے اور وہاں کسی ٹیچر پر نظر پڑھ جاتی تو واپس بھاگتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے تھے کہ بازار آئے کس لیے تھے۔
★ ہم نے گرمیوں کی دوپہر میں نیند نہ آنے کے باوجود بھی مجبوراً سونے کی اکٹینگ کی جو کسی بڑی اذیت سے کم نہ ہوتی تھی
★ہم نے احترام دیکھا، خلوص، محبت، بھائی چارہ اور ہمدردی دیکھی۔
★ ہم نے لوگوں کے لوگوں کے ساتھ دعوے اور رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔
★ ہم نے کچے گھروں پر گرتی ہوئی بارش کے پہلے قطروں سے مٹی کی اٹھتی ہوئی خوشبو کو محسوس کیا۔
★ ہم نے انسان کو انسان کے روپ میں دیکھا۔
★ ہم نے عشاء کے بعد فوراً سونے پر نیند کا مزہ چکھا اور فجر کے بعد پھوٹتی روشنی کا نور دیکھا۔
★★★ سچ پوچھو، تو ہم نے عام سے پتھر کو بھی کوہِ نور دیکھا۔۔
اس تحریر میں جو کمی رہ گئی ہو آپ اسے کمنٹس سیکشن میں اپنے الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں۔

ہمارا جمعرات کون چرا کر لے گیا؟!وہ جمعرات جس میں خوشیاں اور تقریبات (شادیوں) کی بھرمار ہوتی تھی۔وہ جمعرات جب بچے آدھے دن...
08/10/2024

ہمارا جمعرات کون چرا کر لے گیا؟!

وہ جمعرات جس میں خوشیاں اور تقریبات (شادیوں) کی بھرمار ہوتی تھی۔
وہ جمعرات جب بچے آدھے دن کے بعد اسکول سے واپس آ کر اپنے بستے پھینک دیتے تھے اور کھیلنے نکل جاتے تھے۔
وہ جمعرات جس کی خوشبو صبح آنکھ کھلتے ہی محسوس ہوتی تھی۔
یہ وہ دن تھا جس کا آدھا حصہ چھٹی کا ہوتا تھا، اور ایک چینل پر رات دیر تک جاگنے کا مزہ ہوتا تھا۔

جمعرات وہ دن تھا جس کی شام میں ہم بہت لطف اٹھاتے تھے اور آدھی رات تک جاگتے رہتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ تمام دنوں کا ذائقہ ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ہمارے دنوں کا مزہ کس نے چرا لیا؟

کیا یہ وقت ہے؟ یا عمر؟ یا حالات اور ذمہ داریاں؟ یا پھر ٹیکنالوجی؟
یا شاید یہ زندگی کا فطری طرز ہے۔
— in Sahiwal.

پرانے گھر اور پرانیاں گلاں۔ 1950 کی دہائی میں ہمارا گھر کچا تھا، کچے آنگن میں کنواری مٹی کی روح پرور باس میں بسا ایک کنا...
06/10/2024

پرانے گھر اور پرانیاں گلاں۔
1950 کی دہائی میں ہمارا گھر کچا تھا، کچے آنگن میں کنواری مٹی کی روح پرور باس میں بسا ایک کنال سے کچھ زیادہ گھرتھا۔ گارے مٹی کے گھروں نے زمین پر ایک خاص رنگ پایا ہے۔
ایشین سٹائل گھر میں پیچھے 4 کمرے ایک ہی لائن میں بنے تھے اور سب کے سامنے ایک لمبا برآمدہ تھا۔ چھت پر دیار کی لکڑی کے بیم اور بالے اور چوکے اوپر مٹی کی لپائی جو ہر سال لپائی کرنی پڑتی تھی تاکہ چھت بارش میں ٹپ ٹپ نہ ٹپکے۔ کمروں کا سائز اتنا کہ پچھلی طرف تین چارپائیاں اور دو اگلی طرف ایک دروازہ دیار لکڑی کا ۔ دو لکڑی کی کھڑکیاں ہر کمرے میں اور کھڑکیوں کے اوپر روشندان تھے۔
کمروں اور برآمدے میں اینٹوں کا فرش تھا ۔ صحن کچا لیکن چٹی مٹی اور گوبر ملا کر گارے سے لپائی کی ہوئی جو ہر سال چھت کے ساتھ کرنی پڑتی تھی ۔ اگلی طرف کچھ حصہ کچا مویشی باندھنے کے لئیے۔ مال مویشی کے لئے الگ بڑا سا کمرہ تھا،
صحن کھلا تھا۔ نیم اور شہتوت کے درخت بھی تھے ۔ دو بیری کے درخت بھی تھے۔ ایک بہت بڑا کیکر کا درخت تھا صبح جب کلچیٹ آ کر بولتی تھی تو ہماری آنکھ کھل جاتی تھی۔۔
عید پر والد صاحب شہتوت کے ساتھ پینگ ڈال دیتے تھےسارے بہن بھائی جولے جولتے تھے۔
دو بڑے کمروں میں کانس تھی۔
اس زمانے میں گھروں کو برتنوں سے سجایا جاتا تھا پیتل تانبے لوہے چینی اور دیسی برتن کے علاوہ گھر میں جتنے بھی برتن ہوتے تھے ۔ کانس پر بڑے سلیقے, ترتیب اور خوبصورتی سے رکھے جاتے ۔ یہ برتن گھر کی بہت بڑی رونق اور زینت ہوتے تھی ۔ انہیں روزانہ جھاڑا جاتا اور ان کی چمک کا خاص خیال رکھا جاتا ۔۔ کہیں کہیں ان کانسوں پر ارائشی کپڑے ڈالے جاتے۔ جن پر سوئی اور رنگین دھاگوں سے پھول بوٹے اور پھولوں کی بیلیں ہاتھوں سے کڈھائی کر کے کانس پر برتنوں کے نیچے اور کچھ آگے پھول سرخ پیلے نیلے اور پتے سبز دھاگے سے کلڈھائی کر کے لٹکائی جاتی تھی ۔ اسکے نیچے کروشئیے سے چھالر بنا کر لٹکائی جاتی تھی کڈھائی کا سارا کام لکڑی کے فریم پر فٹ کر کے بنایا جاتا۔ آگے سامنے کروشئیے سے جھالر بنائی جاتی تھی۔
کوندر سے بنی پکھیوں پر بھی نیچے رنگین ساٹن کا کپڑا اور نیچیے کڈاھائی والی جھالر لگی ہوتی۔ کبھی گول شیشے بھی سوئی دھاگے سے جوڑ کر سجی سجائی رنگین پکھیاں کانس سے اوپر بڑی نفاست سے لٹکائی جاتیں۔
شادی میں بڑی فینسی گھڑولی استعمال ہوتی تھی۔ اسکی نیچے سر پر رکھنے کے لئے اینو بھی کلڈھائی والا۔ اور اون کے رنگ رنگ کے بھگے رنگین اونی دھاگو سے لٹکائے جاتے تھے۔ وہ بھی ڈیکوریشن کے لئے کانس سےاوپر لٹکائے جاتے تھے۔
جب کوئی مہمان آ جائے تو کسی چھوٹے بچے کو کہتے مہمان کو ہاتھ والی سجھی سجھائی پھولوں والی پکھی جھولیں۔ مہمان کا پسینہ سوکھ جاتا تو بچے سے پکھی خود لے لیتا۔
کمرے کے اندر جب کوئی مہمان داخل ہوتا تو ان برتنوں کی ترتیب اور تزئین میں کھو سا جاتا ۔ افسوس یہ ارٹ اور فن نئے دور کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ۔
بجلی نہیں تھی نہ بجلی کے پنکھے۔ نہ دیگر مصنوعات ہوتی تھیں۔ ٹیلیویژن موبائل کچھ نہیں تھا۔ عورتیں گھر کی تزین و ارائیش میں مصروف رہتی تھیں۔ ناڑے بھی لکڑی کی بنی کرگاہ پر بناے جاتے تھے۔ شادی کے لئے خاص تیاری کی جاتی۔ دولہے اور دلہن کے لئے سرخ رنگ کے ناڑے بنائے جاتے تھے۔
سرہانے اور تکیے کے کور پر کڈھائی کی جاتی تھی۔ پلنگ پر بچھانے والے چادروں پر بھی رنگین دھاگوں سے گل بوٹے بنائے جاتے تھے۔
مہمان کو سجھی سجھائی رنگین پایوں والی چارپائی پر بٹھا کر پیچھے پھولوں والا تکیہ رکھا جاتا۔ عورتیں رنگین پایوں والی سوتری سے بنی ہوئی پیڑیوں پر بیٹھ کر چلم گڑاکو کے مزے لیتی گپ شپ لگاتیں۔ مہمانوں کے سامنے تندور کی روٹیاں مکئی گندم یا باجرے کی مکھن سے چپڑ کر رکھی جاتیں۔ لسی ساگ اور سادہ خوراک کے لیے جو چھکور ہوتی وی بھی بڑی کڈھائی اور پھولوں کی کڈھائی سے مزین ہوتی۔ چائے کا رواج نہیں تھا۔ مٹی کی ٹاس میں لسی اور اس کے اوپر مکھن کا پیڑا پیش کیا جاتا تھا۔
چینی سٹیل, شیشہ , سلور ,پیتل اور لوہے کہ برتنوں کی جگہ اج کل عجیب قسم کے برتن اگئے ہیں ۔ زیادہ تر تو پلاسٹک ہی ہے اج سے 30, 40 سال پہلے پلاسٹک کے استعمال کو بہت مضر تصور کیا جاتا تھا۔
بچپن کے زمانے 50 & 60 کی دہائی میں ٹینٹ سروس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن جب بھی کوئی غمی یا خوشی ہوتی تو ہر گھر سے ایک چارپائی مہمانوں کے لئے آ جاتی۔😥
جانے کہاں گئے وہ دن جب سادگی تھی لیکن بھائی چارہ بھی تھا۔ مل کر کام کرنے والے لوگ خاک ہو گئے ۔😪
اب نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر ایک کو جلدی ہے۔ پتہ نہیں یہ دوڑ کب تک ہے۔ زندگی تو مختصر ہے۔ پھر بھی لوگ دوڑ رہے ہیں۔ پتہ نہیں کہاں جانا ہے ان کو۔🤔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور اس دوڑ سے بچائے۔ آمین 🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️
آجکل جو بھی برتن ہوتے ہیں وہ الماریوں میں پڑے ہوتے ہیں ۔ شاید کچھ وقت بعد برتنوں کا رواج ہی ختم ہو جائے شادی بیاہ اور دوسرے پروگرامات میں شادی ہال میں ہوتے ہیں۔ موت فوت پر پکی پکائی دیگیں ٹینٹ سروس والے کرسیوں سمیت سپلائی کرتے ہیں۔
اب تو بہت سی جگہوں پر گھڑوں کا پانی بھی مشکل ہو گیا ہے ۔ ورنہ پہلے تو گھڑوں کے لیے لکڑی کی گڑونجیاں بنوا کر گھڑوں کو رکھا جاتا تھا ۔ کھڑوں پر مٹی کے ٹاس پڑی ہوتی اسی میں پانی پیا جاتا تھا۔
گھر کے باہر بھی ایک مٹکا پڑا ہوتا تھا ۔ اس پر مٹی کا کٹورا پڑا ہوتا۔ ۔ ان کا پانی پی کر روح میں سرور بھر جاتا ۔
اہ میرے جیسے لوگ شاید پرانیت کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی چیزوں کو محبت و مروت کا دشمن سمجھ رہے ہیں۔
سال میں ایک دفعہ گھر میں چونا ہونا ہوتا تھا ۔ اس دن ہمارے گھر میں بڑی گہما گہمی ہوتی تھی ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھروں میں بیڈروم نہیں بلکہ کمرے ہوتے تھے اور ڈسٹمپر نہیں بلکہ گھروں میں چونا ہوتا تھا
کمروں سے بستر ، منجیاں اور کانس سے برتن نکال کر باہر ویہڑے میں رکھے جاتے
اگلے دن گھر میں چونے کے بڑے بڑے ٹکڑے ، کوچیاں، نیل اور پیپے پہنچ جاتے اور پھر کمرہ بہ کمرہ چونا شروع ہو جاتا
دن میں چونا لگانے والے کے لیئے کھانا بنتا ، عصر کے وقت چاۓ
“ برانڈے (برآمدے) وچ چونا کرانڑاں “
اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

🍁تحریر راجہ قدیر 🍁

محبتوں کا دور پرانے لوگ پرانی یادیں
02/10/2024

محبتوں کا دور پرانے لوگ پرانی یادیں

کتنا سکون تھا اس دور میں  کس کس کو یاد ہے
02/10/2024

کتنا سکون تھا اس دور میں کس کس کو یاد ہے

یہ بھی اک دور تھا
01/10/2024

یہ بھی اک دور تھا

پِنڈ دے سکول وچ رول نمبر تے نام دیکوئی ایڈی اھمیت نئیں سی ھُندیسٹوڈنٹ اپنے ٹبّر توں پچھانے جاندے سن ماشٹر جی حاضری وی رو...
30/09/2024

پِنڈ دے سکول وچ
رول نمبر تے نام دی
کوئی ایڈی اھمیت نئیں سی ھُندی
سٹوڈنٹ اپنے ٹبّر توں پچھانے جاندے سن
ماشٹر جی حاضری وی رولنمبر وائز نئیں ٹَبّر وائز لاندے سن...
لمبڑاں دا اسلم...حاضر جناب
گُجراں دا صدیق...حاضر جناب
جٹّاں دا اشرف...لبیک سر
نائیاں دا مختار...پلیزنٹ سر
ملکاں دا مقصود...حاضر جی
ماشٹر بشیر صاحب تعلیم دے نال نال تربیت دا وی بڑا خیال رکھدے سن... اِک دن خورے دِل وچ کی آئی آکھن لگے سویرے ھر طالبعلم اک اک نیکی دا کم کر کے آئے گا...
اگلے دِن سکولے گئے تے لا لیا ساری جماعت نوں لائن وِچ...روزِ محشر دی ریہرسل ای لگ رھی سی عملاں دے نتارے شروع ھو گئے...
لمبڑاں دا اسلم کیہندا جناب میں سویرے نماز پڑھی جی...شاباش بہہ جا...
گُجراں دا صدیق کیہندا ماشٹر جی میں مسواک کیتی سُنت پوری کیتی جی...شاباش...
نائیاں دا مُختار آکھن لگا جناب میری بے بے بیمار اے جی میں سویرے اوھدیاں لتّاں گُھٹ کے آیاں جی...چل ٹھیک اے بہہ جا...
ملکاں دے مقصود نے سویرے راہ چوں پہاڑی کِکر دے چھاپے ھٹا کے نیکی کیتی سی...
اگلی وارر ارشد دی سی... ھاں وئی توں کی کیتا؟
ماشٹر جیہ سویرے مسیت والے کھوہ توں کُڑیاں پانی بھرن آئیاں سی
تے
"میں اوہناں نوں گھڑے چکائے سن😜😜😜
ایک فالو تو بنتا ھے پلیز فالو👈🏻مثالی شاعری

Address

Khanewal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Misali Urdu Videos posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Misali Urdu Videos:

Share

Category