MAI PAKISTANI HOON

MAI PAKISTANI HOON Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from MAI PAKISTANI HOON, Media/News Company, Kharian.

16/11/2023

میری بیگم برانڈڈ بریلوی ہے یعنی شُدھ بریلوی۔ میرے بچوں کو قرآن پڑھانے والے قاری صاحب برانڈڈ دیوبندی ہیں۔ میرے بہترین دوست برانڈڈ اہلحدیث ہیں۔ ان کے بیچ میرا خاندان تو برانڈڈ فقہ جعفریہ سے ہے مگر میں اَن برانڈڈ مسلم ہوں۔ خاندان کے لوگ مجھے “وہابی شیعہ” کہتے ہیں وجہ بس یہ کہ میں کئیں معاملات میں ان سے اختلاف رکھتا ہوں۔ میری بیگم مجھے کبھی کبھی غصے میں “غیر مقلد” کہہ دیتی ہے اور میرے غیر مقلد اہلحدیث دوست مجھے “لبرل” کہہ دیتے ہیں وجہ بس یہ کہ وہ مجھے “کھٹمل” ثابت نہیں کر پاتے تو جھنجھنا کر مجھے ایسا کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ میں نے ان کو کئی بار سمجھایا کہ بھائیو “لبرل” کا مطلب ہوتا ہے کہ مجھے کسی کے مذہب، مسلک و عقیدے سے کوئی مسئلہ نہیں اور کسی کو میرے سے نہیں ہونا چاہئے۔ مگر یہاں کون سمجھتا ہے۔ مذہبی لوگوں کے ہاں “لبرل” کا مطلب “ لا دین” لے لیا جاتا ہے۔

سال قبل ایک دن یوں ہُوا کہ گھر کی بیل بجی۔ اتوار کا دن تھا یا شاید کسی چھُٹی کا بہرحال میں گھر تھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو ایک پینتالیس پچاس سالہ شخص سائیکل سٹینڈ پر لگائے کھڑا تھا۔ اس نے مجھ سے سلام لینے کے بعد کہا کہ وہ ایک قاری ہے اور بچوں کو قرآن پڑھاتا ہے۔ کسی سبب آجکل مالی حالات اچھے نہیں چل رہے تو وہ گھر گھر جا کر معلوم کر رہا ہے شاید کسی نے بچوں کو گھر میں قرآن پڑھانا ہو۔

بندہ بھلا مانس تھا اور بچوں کو جو قاری صاحب پہلے قرآن پڑھانے آتے تھے وہ بیشمار چھٹیاں کرتے تھے۔ وہ مرضی کے مالک تھے۔ دل کیا تو آ گئے نہیں تو ہفتہ ہفتہ غائب۔ البتہ ماہانہ تنخواہ مکمل وصولتے تھے اور جب ان سے کہتا کہ قاری صاحب چلیں مانا کہ انسان کو کام ہوتے ہیں مگر اتنے کام ؟ کم از کم ہفتے میں چار دن تو آ جایا کریں۔ ہر بار وہ ایسے بچگانہ بہانے بنانے لگتے کہ مجھے ہنسی آ جاتی۔ میں نے سوچا کہ یہ بندہ جو دروازے پر کھڑا ہے یہ اس سے زیادہ ضرورتمند اور بہتر لگ رہا ہے۔ میں نے ان سے حامی بھر لی کہ کل سے آ جایا کریں۔ معاوضہ انہوں نے فی بچہ ڈھائی ہزار بتایا۔

جب وہ جانے لگا تو میں نے انہیں روکا اور کہا” قاری صاحب، ایک بات کا دھیان رکھئیے گا کہ آپ نے بچوں کو قرآن پڑھانا ہے اپنا مسلک یا عقیدہ نہیں۔ آپ کو قرآن واسطے رکھا ہے۔”۔ انہوں نے ہنس کے جواب دیا “ آپ بے فکر رہیں میرا یہ کام نہیں۔ میں قرآن ہی پڑھاتا ہوں بس۔”

اور سچ میں اس بندے نے ایسا ہی کیا۔بیگم نے شروع شروع میں مجھے سمجھانا چاہا کہ قاری کم از کم بریلوی تو ڈھونڈیں۔ یہ نجانے کیا پڑھائے گا ان کی عادت ہوتی ہے بچوں کو بہانے بہانے تبلیغ کرنے لگنا۔ مگر اس کے “خدشات” کچھ روز میں ہی دور ہو گئے اور وہ مطمئن ہو گئی۔ قاری صاحب کا نام عبدالکریم ہے۔ باقاعدگی سے آتے ہیں۔ بہت اچھی قرآت ہے۔ انتہائی بہترین پڑھاتے ہیں۔ دونوں بچوں سے گپ شپ بھی لگاتے ہیں مگر غیر مذہبی، سکول وغیرہ کے بارے یا پھر برائے امتحان انبیاء کے بارے پوچھتے ہیں۔ میں نے بھی ان کا عیدین وغیرہ پر ہر طرح سے خیال رکھا کیونکہ بندہ ہے ہی اچھا۔

ایک دن میں گھر میں داخل ہو رہا تھا اور وہ نکل رہے تھے۔ گیراج میں ملے اور بولے “ شاہ جی، بچوں کا تیسواں پارہ ہے۔ قرآن مجید اس ماہ کے آخر تک تمام ہو جائے گا۔اس کے بعد دوبارہ شروع کرنا ہے یا کیا کرنا ہے ؟۔”۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ اس واسطے پریشان ہے کہ کہیں اس کی چھٹی تو نہیں ہونے والی۔ بچے پہلے بھی دو بار ختم کر چکے یہ تیسری بار تھا۔ میں نے ہنس کے کہہ دیا “ اس کے بعد آپ ترجمے کے ساتھ پڑھانا شروع ہو جاؤ اور کیا۔”۔ بولا “ اچھا۔ کونسا ترجمہ ؟”۔

ہاں، یہ سوال پیچیدہ تھا کہ کونسا ترجمہ، کس کا ترجمہ۔ علامہ حلی والا، اعلیٰ حضرت والا، ڈاکٹر اسرار والا کہ فلاں والا یا ڈھینگ والا۔ میں نے کہا” عبدالکریم صاحب، جو آپ کو بہتر لگے پڑھا دیں۔ میں نے تو ترجمہ کیا نہیں نہ آپ نے کیا ہو گا ۔ کیا کریں پھر۔”۔ قاری اتنا سادہ بندہ ہے پہلے ہنسا پھر بولا “ آپ خود اپنا کوئی لا دیں میں وہی پڑھا دیتا ہوں۔”۔ میں نے پھر کہا “ اپنا لکھا ہوتا تو ضرور دے دیتا۔ آپ کو کہا ناں کہ جو آپ باقی بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ پڑھا دیں۔”

مجھے بالکل نہیں معلوم کہ وہ کیا پڑھانے لگا اور کس کا پڑھانے لگا۔ نہ مجھے اس بابت جاننے میں کوئی تجسس رہا ہے۔ البتہ بیگم کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے تو ٹھیک ہو گا۔ بچے جب بڑے ہو جائیں گے خود ہی اپنی راہ اختیار کر لیں گے اگر انہوں نے کسی برآنڈ کا حصہ بننا ہی ہے تو ان کی مرضی جس برآنڈ سے بھی مطمئن ہوں۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ان کو انسانیت اور دین کا بنیادی و ضروری پیغام سکھانا مجھ پر فرض ہے۔

میں نے ان کو جو عقیدہ تاحال پڑھایا اور سکھایا ہے وہ تو کچھ یوں ہے۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کئیوں کی نظر میں کچھ غلط ہو مگر میں تو اپنے رب کو اپنے عقیدے کا جوابدہ ہوں ناں سو یہی ہے جو ہے۔

"سب سے پہلے حمد اس رب کی جس کی قدرتوں کا کچھ شمار نہیں۔ جس نے لاکھوں کروڑوں کہکشائیں و دنیائیں بنائیں اور دس لاکھ مربع میل قطر کا سورج بنا کر اسے اس کائنات میں نقطے کی حیثیت بخشی۔

پھر درود اس نبی پر جس نے بادشاہوں کو فقیری اور فقیروں کو بادشاہت دے کر ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ اس نے عقلوں سے پتھر ہٹا کر اپنے پیٹ پر باندھ لیئے۔

پھر سلام روشنی کے ان میناروں پر جنہوں نے باطل کا ساتھ نہ دیا اور حق کی خاطر اپنی گردنیں کٹوا کر نیزوں پر بلند کروا لیں۔

پھر رحمت ان عظیم لوگوں پر جنہوں نے فضا میں اوزون ، مٹی میں تیل اور ایٹم میں الیکٹرون پروٹون دریافت کیئے۔

اور آخر میں شاباش ان بہادروں کو جنہوں نے ہزار رکاوٹوں کے باوجود ہر حال میں زندگی کا سفر جاری رکھا"

ہو سکتا ہے یہ آپ کو سمجھ نہ آیا ہو۔ مزید وضاحت ضروری ہو تو کئے دیتا ہوں۔

"میری وہی کتاب ہے جو لوح محفوظ سے صادق و امین قلب پر نازل ہوئی۔ جس کا لانے والا امین فرشتہ ہے۔ جس کو بھیجنے والا خالق مطلق ہے۔ جس کو سنانے والا رحمت للعالمین ہے۔

میرا وہی پیغمبر ہے جس نے دشمنیاں ختم کروا کے عرب و عجم کو ایک کر ڈالا۔ جس نے تلوار دفاع میں اٹھائی۔ جو فتح مکہ کے بعد فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل نہیں ہوا بلکہ سفید جھنڈا تھامے داخل ہوا۔ جس نے بدترین دشمن کو فی النار نہیں کیا بلکہ کھلی امان کا اعلان کیا۔

میرا وہی دین ہے جس نے فساد پھیلانے والوں پر کھُلی لعنت بھیجی۔ جو ظالموں کو عذاب کی وعید سناتا ہے۔ جس نے مظلوم کی آواز بلند کی۔"

باقی یوں ہے کہ آپ کالی، ہری، براؤن، سفید یا جس رنگ کی پگڑی پہنیں، جیسا مرضی برآنڈ فالو کریں، جو مرضی چاہیں مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ مجھے تب فرق پڑے گا جب کوئی بزور بازو یا ڈانگ کے زور پر اپنا مسلکی عقیدہ اُلٹی کرنے لگے۔یا جو مسلط ہونے پر تُلا ہو۔ یا جس نے “میرے سوا سب گمراہ ہیں” کا قاعدہ پڑھ رکھا ہو۔ یا جس کا منشور ہو “ مجھے اپنے سوا ساری دنیا کی اصلاح کرنی ہے”۔ یا جو متشدد ذہنیت کو جنت کا پروانہ سمجھتا ہو۔یا جو آن لائن فتویٰ بانٹتا ہو۔ یا جو کسی کو کسی بھی سبب “خارجی”، “رافضی”، “ناصبی” ،” مشرک” ، “ایجنٹ” وغیرہ وغیرہ کہتا ہو۔ یا جو لوگوں کے عقائد تولتا ہو۔

29/07/2023

9 اپریل کی رات کو ہم لالک جان چوک پے تھے ، خان صاحب کے بارے میں فیصلہ ہوچکا تھا،ذلت کا شدید احساس تھا ، یوں لگا تھا جیسے ہمیں سر بازار ذلیل کردیا گیا ہو ، 2018 میں ، میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس بار اگر خان صاحب کی حکومت نہیں آئ تو میں ملک چھوڑ کر چلی جاؤں گی ، 2022 میں میرے پاس یہ آپشن ختم ہوچکا تھا ، خان کو اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا تھا ، ہمارے پاس واپسی کے دروازے بند ہوگئے تھے ، ریاست کا ہر پرزہ ہمارے خلاف تھا ، میں اس رات رونا چاہتی تھی ، چیخ چیخ کر ،
کم ظرف لوگوں نے خان کی زندگی کی طرف سے بھی ہمیں پریشانی میں مبتلا کیا تھا ، اپنی انا کی تسکین کے لئے خان کے بارے میں خبریں پھیلائ جارہی تھیں کہ خان صاحب کے منہ پے تھپڑ مارا گیا ہے ، اب وہ دو تین دن تک نظر نہیں آئیں گے،
یہ صورتحال تشویشناک تھی ،
جذبات ایک طرف رکھ کر پریکٹیکل ہو کر سوچا تو " ہیڈ لیس " مزاحمت ، اتنی خطرناک ہوتی ، جس کو لمبر ون بھی افورڈ نہیں کرسکتا تھا ، ہاوس اریسٹ کی خبروں کا پوسٹ مارٹم کیا تو لوجیکلی ، لمبر ون اور پی ڈی ایم زیادہ رسک پے نظر آئے ،
لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ انا کی تسکین کے لئے ملک کو دو ٹکڑے کر دینے والوں کے لئے خان صاحب کو ہمیشہ کے لئے ہٹا دینا مشکل نہیں ہے ،
اس رات پوری قوم روئ تھی ، اس رات کی تکلیف آج بھی سینے میں گڑی ہوئ ہے ،
10 اپریل کی صبح بہت بھاری تھی ، خان صاحب کا کوئ ٹوئیٹ نہیں تھا ، کوئ پیغام نہیں تھا ، خان صاحب کے قریبی لوگوں سے رابطہ کیا ، کوئ کال نہیں اٹھا رہا تھا ، دہشت بڑھتی جارہی تھی ، یوں لگتا تھا جیسے آکسیجن پے موجود مریض سے سانسیں کھینچ لی گئ ہوں ،
ایک منسٹر کے فوکل پرسن کو کال کی ، اس نے کال کاٹ کر " میٹنگ " کا میسج کیا ،
تشویش بڑھ رہی تھی ، دوست کو وائس میسج کیا کہ " بس خان کی خیریت بتادو "
میرا خیال ہے کہ اس وقت تک خان کے قریبی لوگوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اس وقت خان کا پبلک میں انا بہت ضروری ہے ،
میسج آیا کہ " فکر نا کریں ، خان از فائن الحمدللہ "
یوں لگا جیسے سب ٹھیک ہوگیا ہو ،
دوست کو وائس میسج کیا ، شائد میری آواز بھرا گئ تھی ، آواز میں آنسو سے گندھی ہوئ چیخیں تھیں، ، میں نے کہا " خان کو بتا دینا ہی از ناٹ الون ، وی آر ود ہم ، اللہ ود ہم "
دوست کا میسج آیا خان کی پکچر کے ساتھ ، " تمہارا میسج خان کو فارورڈ کردیا ہے ، "
10 اپریل کو مجھے لگا تھا شاید ہم اکیلے ہوں ، کوئ نا نکلے ، لیکن ہمارے پاس کھڑا ہونے ، مقابلہ کرنے اور آخری لمحے تک جدوجہد کرنے کے سوا کوئ آپشن نہیں تھا ، 9 اپریل کی رات ہم سوشل میڈیا کا محاذ سنبھال چکے تھے ، اب یہ فیلڈ کا میچ تھا ، ہم بھاگ نہیں سکتے تھے ، پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ خان کی محبت اور اپنی عزت کے لئے قوم کس طرح نکلی ہے ، بازی پلٹ چکے تھی ، اللہ گواہ ہے کہ اس کے بعد ہم میں سے کوئ پیچھے نہیں ہٹا ، بہادر لیڈر اپنے جیسے بہادر پیدا کرتا ہے ،خان نے ہم سب کو خان بنادیا تھا ، فوکسڈ ، ڈیڈیکیٹیڈ ، ڈسپلنڈ ، رمضان کے مہینے میں، شدید گرمیوں میں، برسات میں، یہ قوم ایک ڈسپنلڈ فوج کی طرح صف آرا ہوئ ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو گودون میں اٹھانے والی مائیں، باپ کے کاندھوں پے سوار بچے ، معذور بزرگ ، ہر کلاس ، ہر طبقے سے لوگ نکلے ، ہم نے اللہ کے بھروسے اور خان کی تربیت سے آدھی جنگ جیت لی ، ہم اس تاریخ کا حصہ بن گئے جس کو اب تک صرف کتابوں میں پڑھا جاتا تھا ،
با اختیار قوتوں کو اس شخص سے ڈرنا چاہیے جو اللہ کے بھروسے اپنی جنگ لڑتا ہے ،

ایک سال پہلے کی تحریر

22/07/2023

قومی انتخابات اگر ہوئے تو بہت سنسنی خیز ہوں گے۔نگران سیٹ اپ کو طویل کھینچے جانے کا خدشہ ہے۔تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ عمران خان صاحب کا مستقبل بظاہر جیل ہی نظر آ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کسی صورت ان کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں اور آپ جانتے ہیں دُلہن وہی جو پِیا من بھائے۔ پِیا نئی سیج سجانے کی تیاریوں میں ہے۔ طلاق اس قدر برُے موڑ پر ہوئی ہے کہ حلالہ کی گنجائش بھی موجود نہیں رہی۔

نوازشریف کا دوبارہ وزیراعظم بننا بھی ایک سراب ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو وہ بھی قبول نہیں۔ شہباز شریف صاحب ہی ان کے من کو بھاتے ہیں ۔ اگر الیکشن ہو گئے تو شہباز شریف کو ہی مسندِ اقتدار پر بٹھایا جائے گا۔ جس طرح تحریک انصاف توڑی گئی ہے مستقبل میں نون لیگ شہباز و نواز میں تقسیم ہو گی۔ ہائی کمان کا جھکاؤ جس شخصیت کی جانب ہو گا وہی شہبازا جائے گا۔

پچھلے دو دہائیوں پر نظر دوڑائیں تو مشرف نے اپنا ڈنگ ٹپانے کو “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ دیا تھا۔پتہ نہیں اس کا مطلب کیا تھا جبکہ اسی دور میں پاکستانیوں کو سی آئی اے کے حوالے کیا جاتا رہا اور مشرف صاحب فخر سے کہتے رہے کہ ہاں میں نے کیا ہے۔ اس کے بعد “روشن پاکستان” کا نعرہ مارکیٹ میں پھینکا گیا۔ اس نعرے تلے کیانی صاحب نے کمان سنبھالی اور سوات تا فاٹا ملٹری آپریشن شروع ہوئے۔ بیرونی امداد کی راہیں ہموار ہوتی گئیں۔ ڈالرز آنے لگے۔

پھر راحیل شریف صاحب آئے تو معلوم ہوا کہ جنرل کیانی نے فاٹا میں آپریشن نہیں کیا تھا اس واسطے ابھی بھی خطرہ موجود ہے۔

جنرل باجوہ نے تحریک انصاف کو فرنٹ اینڈ پر رکھا۔ “نیا پاکستان” کا نعرہ شرمندہ تعبیر ہوا۔ اس نئے پاکستان میں سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا یہ نظام چلتا آ رہا تھا۔ ایک کرسی تھی اس پر چہرہ نیا تھا اور بھاگیں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ تھیں۔ انہوں نے جیسا چلانا چاہا “نیا پاکستان” چلتا رہا۔ اس زمانے میں اگر کوئی پاکستانی اندھیرے کمرے میں سیلفی لیتا تو عقب میں جنرل آصف غفور کی مسکراتی تصویر خود ہی آ جاتی۔ اور پھر وہی ہوا جو عمران خان سے قبل سب کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ بے بسی کا احساس جاگا تو پاور کی کھینچا تانی شروع ہوئی اور پھر اگلوں نے اپنی سجائی سیج اجاڑ دی۔

میں نہیں جانتا کہ موجودہ ہائی کمان کا “سبز انقلاب” کا نعرہ کیا رنگ دکھلائے گا مگر یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت اگلے چھ سال تک کی منصوبہ بندی تو کی ہو گی۔ اس کے بعد یہی شہباز شریف اپنے بھائی کے مافق رُلے گا۔ پھر نئی ہائی کمان، نیا نعرہ اور پرانا پاکستان۔

اب آپ میں سے کئی احباب پوچھنے آئیں گے کہ اگر انتخابات ہوئے تو ووٹ کس کو دیں۔ ووٹ آپ جسے چاہے دے دیں ۔ گھنٹہ فرق نہیں پڑنے کا۔ یس سر اور نو سر والے نظام میں کیا جمہوریت اور کیا ووٹ کی عزت۔

21/07/2023

پچھلے دنوں ایک رپورٹ آئی کہ 18 سال سے لیکر 45 سال کے ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 39 لاکھ ہے

اے اہل یوتھ!! پچھلے الیکشن یعنی 2018 میں ٹوٹل ووٹ جو کاسٹ ہوا وہ 5 کروڑ اکتیس لاکھ 23 ہزار سات سو تینتس تھا- اور یہاں ہمارے پاس جو 18 سال سے لیکر 45 سال کے ووٹرز کی ٹوٹل تعداد وہ 8 کروڑ سے زائد آرہی ہے-

اس وقت اگر میں کم سے کم بھی کیلکولیشن کروں تو اس 8 کروڑ کا 50 فیصد عمران خان کا ووٹ ہے- اور اگر تم پچاس فیصد حمایتی ووٹ کا ٹرن اور زیادہ رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو ہر قسم کی دھاندلی اور دھاندلہ بے معنی ہوجائے گی

لہذا اس دفعہ عوام کو ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے نکالنا ہی ہمارا مین مقصد ہونا چاہیے اس کے لیئے مخیر حضرات تعاون کریں اور جو لوگ ووٹ ڈالنے نہ جاسکتے ہوں ان کے لیئے کوئی ذریعہ کا ارینج کردیں لیکن یہ علاقائی سطح پر کریں- پر ووٹ کاسٹ لازمی کروایئں-

عمران خان گرفتار بھی ہوگا تو صرف عمران خان کے الفاظ کی ضرورت ہے کہ فلاں بندہ پی ٹی آئی کا ہے لہذا آپ کا کام اسی بلے کے نشان کو ووٹ دینا ہے- اس لیئے اپنے حلقہ احباب میں لوگوں کو ابھی سے قائل کرنا شروع کرو کہ چاہے آندھی آئے یا طوفان لیکن ووٹ ڈالنے لازمی جانا ہے- آپ کا ووٹ ہی ان کی موت ہے

‏عمران خان کے بارے میں کسی نےکہا تھا کہ اسے قدرت نے ایسے کپڑے عطا کئے ہیں کہ اس کے دشمن جتنی مرضی اسکی کردار کُشی کر لیں...
21/07/2023

‏عمران خان کے بارے میں کسی نےکہا تھا کہ اسے قدرت نے ایسے کپڑے عطا کئے ہیں کہ اس کے دشمن جتنی مرضی اسکی کردار کُشی کر لیں اسکے دامن پر داغ خود بخود دھلتے جاتے ہیں ۔ شائد اسے کینسر کے مریضوں کی دعائیں ہی کافی ہیں -

جاوید ہاشمی نے دغا دیا آج وہ کہیں کا نہیں رہا -
کوئی پارٹی اسے ٹکٹ دینے کو ہی تیار نہیں۔
حامد خان، عائشہ گلالئی، جسٹس وجیہہ الدین، عامر لیاقت حسین سے لے کر فیصل واوڈا تک اور اپنی پارٹی میں آکر پھر جانے والے کچھ لوگ جو اس سے ٹکرائے ماضی کا حصہ بن گئے -
ریحام خان نے کتاب لکھی لیکن خان نے اس کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا - وہ آج بھی زہر اگلتی پھرتی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں، یہاں تک کہ مریم صفدر بھی منہ لگانے کو تیار نہیں۔

پھر کہا گیا انویسٹر کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا لیکن اپنی ہی حکومت میں انہیں سائیڈ لائن کیا جو ریٹرن آن انویسٹمنٹ مانگ رہے تھے۔
پھر علیم خان اور جہانگیر ترین جو 2018 میں خود لوگوں کو ٹکٹ دیتے تھے
آج دوسروں کے آگے ٹکٹ کا کشکول لیے کھڑے ہیں-
پھر شوشہ اڑا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ اٹھایا تو اس کا ککھ نہیں رہے گا اور لندن بھاگ جائے گا۔

آج 13 پارٹیاں بشمول الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف ہو گئے لیکن اکیلا عمران خان ان سب پر بھاری پڑ رہا ہے-
کہا جاتا تھا کہ ایجنسیاں جلسے کراتی ہیں، حکومت ہے تو بڑے بڑے جلسے ہو رہے ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ، آج یہ بیانیہ بھی دفن ہو گیا۔

9 اپریل کو کہا “کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہو ؟”
10 اپریل کو کراچی سے لوئر دیر تک عوام کا جم غفیر نکل پڑا غرض یہ کہ جس نے یہ سمجھا ہمارے بغیر خان کچھ نہیں، آج وہ خود عوام میں نکلنے کے قابل نہیں رہے-

سادہ مزاج ہے، عام انسانوں کی طرح گناہ گار بھی ہے، غلطیاں بھی کرتا ہے، دھوکا بھی کھاتا ہے اور روایتی سیاستدانوں کی طرح عیّار بھی نہیں- کچھ بڑے بڑے وعدے بھی کر بیٹھا جو پورے نہ کرسکا لیکن اپنے ملک اور لوگوں کے لیے اپنی کوئی انا نہیں۔ بس ایک دُھن اس کے سر پر سوار ہے کہ اپنے لوگوں کو ان کے غصب شدہ حقوق دلاۓ اور پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر ایک مثالی ملک بناۓ-

الحمدللہ اب عمران خان اتنی بڑی سیاسی طاقت بن گیا ہے کہ 13 پارٹیاں الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر بھی الیکشن کروانے سے کترا رہی ہیں-
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ تم سب مل کر اور علیحدہ علیحدہ اپنی چال چلتے ہو اور ایک تدبیر اللہ رب ذوالجلال کی ہوتی ہے جو سب پر بھاری ہے -

21/07/2023

دلچسپ صورت ہے ۔

ایسٹبلشمنٹ دن بدن گرداب میں پھنستی جا رہی ہے۔

یاد رکھیں کہ اس وقت پاکستان میں صرف عمران خان اور اینٹی عمران خان ووٹ پایا جاتا ہے۔

عمران خان کا ووٹ اس عرصے میں نہیں ٹوٹا بلکہ ایسٹبلشمنٹ کی حرکتوں کی وجہ سے عمران خان کا خاموش حمایتی بھی عمران خان کے ساتھ ووٹر کی شکل میں آ کھڑا ہوا ہے۔

جہاں تک بات ہے اینٹی عمران خان ووٹ کی تو جھگڑا سارا اسی کا ہے۔ اس کے دعوے دار بہت ہیں اور ووٹ انتہائی کم ہے۔

پرویز خٹک اور استحکام پاکستان گروپ بنا تو دیا گیا ہے۔ اسٹبلشمٹ کا خیال تھا کہ یہ عمران خان کا ووٹ بینک متاثر کرے گا ۔لیکن ابھی تک کے سروے اور حالات بتاتے ہیں کہ یہ انہیں اُلٹا پڑ گیا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسٹبلشمنٹ خیبر پختون خواہ میں پرویز خٹک گروپ کے سر پر ہاتھ رکھتی ہے تو اینٹی عمران ووٹ کو قابو کرنے کے لیے انہیں مولانا فضل الرحمن کو مائنس کرنا پڑے گا۔

اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پرویز خٹک گروپ تاریخ کے صفحوں میں تاریخ کے طالب علموں کو ملے گا۔

یہی صورت حال پنجاب میں نون لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی کی ہے۔ اگر وہ ایک پر ہاتھ رکھتے ہیں تو دوسری خود بخود مائنس ہو جاتی ہے۔

اب صورت حال یہ ہےکہ

" انہوں نے ان چاروں کو راضی کرنا ہے ۔ "

اگر

وہ ان چاروں کو راضی کرنے کے چکر میں پڑتے ہیں تو عمران خان کا مقابلہ کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوگا۔

صورت حال بہت ابتر ہے۔

ان حالات میں ان کے پاس دو آپشن ہے کہ عمران خان کو نااہل کروا دیں اور اسے جیل میں ڈال دیں ،مگر تحریک انصاف تو الیکشن میں حصہ لے گی اور ضرور لے گئی اور دوسرا الیکشن ملتوی کر دیں۔

اب یہ دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان کو جیل میں ڈالنے سے اس کا ووٹر بزدل پڑے گا یا نہیں؟.

خیال یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان کو جیل میں ڈالا گیا تو عمران خان کا ووٹر ایک بڑی تعداد میں ،ناقابل یقین ٹرن آؤٹ کے ساتھ باہر نکلے گا اور ووٹ کاسٹ کرے گا۔

عالمی مبصرین کی موجودگی میں اور اس وقت جب پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ٹکی ہوئی ہوں گی۔ بڑے پیمانے پر الیکشن ڈے پر دھاندلی بھی ممکن نہیں۔

اگر عمران خان کو آزاد چھوڑتے ہیں تو اس نے الیکشن کمپین میں ان کا بیڑہ غرق کر دینا ہے۔

تجویز یہ بھی ہے کہ الیکشن کو ملتوی کر دیا جائے ۔

اس پر زرداری کی مخالفت موجود ہے۔

کل ملا کر یہ بری طرح پھنس چکے ہیں۔

صورت حال دلچسپ ہونے جا رہی ہے۔

پوپ کارن کا آرڈر دے دیں۔

سرکاری ہسپتال میں ایک بندے کو بلڈ دینے گیا۔فرصت ملنے پر ادھر موجود ٹک شاپ سے برگر اور جوس خریدا اور مزے سے وہیں کھڑے کھڑ...
23/05/2023

سرکاری ہسپتال میں ایک بندے کو بلڈ دینے گیا۔
فرصت ملنے پر ادھر موجود ٹک شاپ سے برگر اور جوس خریدا اور مزے سے وہیں کھڑے کھڑے کھانا پینا شروع کر دیا۔
عین اسی وقت میری نظر بنچ پر بیٹھے ایک معصوم بچے پر پڑی جو بڑی حسرت سے دیکھ رھا تھا۔
میں نے انسانی ہمدردی میں جلدی سے اس بچے کیلئے بھی برگر اور جوس خریدے جو بچے نے بلا تکلف لیکر جلدی جلدی کھانے لگا۔
بیچارہ پتہ نہیں کب سے بھوکا ھوگا۔
یہ سوچ کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا جس نے مجھے ایک بھوکے کو کھانا کھلانے کی توفیق بخشی۔
اتنی دیر میں بچے کی ماں، جو اس کی پرچی بنوانے کیلئے کھڑکی پر کھڑی تھی، واپس آئی اور بچے کو برگر کا آخری ٹکڑا کھاتے دیکھا۔
پھر اچانک پتہ نہیں اسے کیا ھوا کہ وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر، باقاعدہ قبلہ رخ ھوکر، اس شخص کو بددعائیں دینے لگی جس نے اس کے بچے کو یہ چیزیں لیکر دی تھیں۔
کہہ تو وہ بہت کچھ رھی تھی، مگر میں نے وھاں سے فرار ھوتے ھوئے جو چند باتیں سنیں وہ یہ تھیں:
انتہائی بیغیرت اور خبیث تھا وہ شخص جس نے میرے بچے کو برگر لے کے دیا۔

میں 25 کلومیٹر دور سے کرایہ لگا کر اس کے خالی پیٹ ٹیسٹ کروانے لائی تھی😆😝😜

22/05/2023

😁😁😁
ویسے چس کافی آرہی ہے یہ مفرور مفرور پھرتے ہوئے 😁

اگر بینرز یا اشتہارات لگا کر ہی مسائل حل ہوا کرتے تو قوم کا اہم ترین مسئلہ:” مردانہ کمزوری“کب کا حل ہو چکا ہوتا.
22/05/2023

اگر بینرز یا اشتہارات لگا کر ہی مسائل حل ہوا کرتے تو قوم کا اہم ترین مسئلہ:

” مردانہ کمزوری“

کب کا حل ہو چکا ہوتا.

Address

Kharian

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when MAI PAKISTANI HOON posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share