Apna Khushab

Apna Khushab "اپنا خوشاب ایس ایم ایس اخبار"
۔۔۔
اپنے موبائل کے ٹیکسٹ ? https://www.facebook.com/groups/300278523423339/

الف اللہ چنبے دی بوٹی | حضرت سلطان باہو کا کلام نئی طرز میں گائیک کلاکار: حیدر علی ۔۔۔۔ طبلہ نواز: حسان احمد
23/02/2025

الف اللہ چنبے دی بوٹی | حضرت سلطان باہو کا کلام نئی طرز میں
گائیک کلاکار: حیدر علی ۔۔۔۔ طبلہ نواز: حسان احمد





The timeless Sufi Kalam of Hazrat Sultan Bahu – Alif Allah Chambay Di Booti – is presented in a fresh and unique style. This mystical poetry carries the mess...

بزم فکر اقبال انٹرنیشنل کے زیر اہتمام مطالعہ خطبات اقبال کورس،جس کا آغاز ماہ نومبر میں ہو رہا ہے،کا رجسٹریشن لنک پیش خدم...
26/10/2024

بزم فکر اقبال انٹرنیشنل کے زیر اہتمام مطالعہ خطبات اقبال کورس،جس کا آغاز ماہ نومبر میں ہو رہا ہے،کا رجسٹریشن لنک پیش خدمت ہے۔لنک کلک کرنے سے آپ گوگل فارم پر پہنچ جائیں گے۔گوگل فارم مکمل پُر کیجیے۔کورس میں شمولیت کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت کسی بھی مضمون میں بی۔ایس یا ایم۔اے کا جاری ہونا ہے۔کورس میں صرف رجسٹرڈ افراد شریک ہو سکیں گے۔رجسٹریشن کی آخری تاریخ 27 اکتوبر 2024ء ہے :

https://forms.gle/UuLHDvXttsGzso3z6

25/10/2024

حیوان، اشتہأ اور شہوت میں بے قابوُ ہوتاہے۔ انسان کو ایسی جبلتوں پر قابُو پانے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ ہم جب کسی دوسرے شخص کو بے قابُو ہوکر کھانا کھاتا دیکھتے ہیں تو ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ اِسی طرح جب ہم کسی شخص کو جنسی خواہش کے لیے دیوانہ ہوا دیکھتے ہیں تب بھی ہمیں برا لگتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے "انسان بھائی/بہن" کو اتنا کمزور نہیں دیکھنا چاہتے۔ نبی، ولی، اوتار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی نظروں میں اس لیے معتبر ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنی دونوں بڑی حیوانی جبلتوں شہوت اور اشتہأ پر قابُو پانے کی بہترین مثالیں چھوڑی ہوتی ہیں۔ ہر وہ شخص ہیرو جیسا محسوس ہوتاہے جسے اپنی ان دو خوفناک خواہشات پر قابُو ہو۔
ہم شادی بیاہ میں دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو کھاتے ہوئے حریص دکھائی دیتے ہیں وہ سب کو برے لگتے ہیں۔ اِسی طرح وہ لوگ جو جنس ِ مخالف کی موجودگی سے متاثر ہوکر مخصوص حرکات و سکنات پر اتر آتے ہیں، وہ بھی سب کو بہت برے لگتے ہیں۔ انسان دوسرے انسانوں کو کھانے کا حریص یا شہوت کے لیے وارفتہ دیکھے تو اُسے غصہ آتاہے۔ اسے دوسروں کی یہ کمزوری بہت بری لگتی ہے۔ فی الحقیقت اسے دوسروں میں اپنی فطرت کا عکس دکھائی دیتاہے۔ وہ بھی ایسا ہی کمزور ہے۔ انہی جبلتوں اور فطرتوں نے اسے بھی بے قابو کررکھا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ غیرت کیا ہے؟ حیا اور بے حیائی کے تصورات کہاں سے آئے؟ اشتہأ اور شہوت تو جبلت ہیں، ان جبلی خواہشات کی تکمیل کے لیے کی گئی حرکتیں کیوں مذموم سمجھی جاتی ہیں؟

ذرا غور سے دیکھیں تو یہ دونوں اخلاقیات کی بنیاد رکھنے والے عناصر ہیں۔ ذرا غور سے دیکھیں تو شہوت اور اشتہأ کی جبلت کو بُرا نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان کی تسکین کے حیوانی طریقۂ کار کو برا سمجھا جاتاہے۔ ہم فلموں میں، ناولوں اور کہانیوں میں ایک لڑکی اور لڑکے کا پیار دیکھتے ہیں تو ہمیں کبھی اُن پر غصہ نہیں آتا۔ لیکن اپنے گلی، محلے میں ایک لڑکی اور لڑکے کا پیار ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا۔ ہر قوم کے ہاں محبت کی داستانیں ہیں۔ لیلی مجنوں کے قصے کی طرح کے قصص پٹھانوں، پنجابیوں، بلوچوں، انگریزوں، فرانسیسیوں، جاپانیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کے ہاں پائے جاتے ہیں۔ اور ہرکہیں محبت کی ان داستانوں کو بہت اچھا سمجھا جاتاہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اِس لیے ہے کہ شہوت اور اشتہأ کی تکمیل کے دو طریقے ہیں۔ ایک انسانی اور دوسرا حیوانی۔ جب کوئی شخص کھانے پر ٹوٹ پڑتاہے، اپنے منہ سے چپڑ چپڑ کی آوازیں نکالتاہے، بوٹیوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتاہے۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کے چہرے پر ایک خاص قسم کے تاثرات (ایکسپریشنز) ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ تاثرات دوسروں کے لیے ناپسندیدہ ہیں۔ انہیں کراہت محسوس ہوتی ہے اور وہ ایسی حرکتوں کو مکروہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن وہی شخص اگر پہلے سے زیادہ کھانا بھی کھالے لیکن کھائے ایک خاص صبر کے ساتھ جو اس کے چہرے پر ایسے تاثرات ظاہر نہ ہونے دے تو وہ دیکھنے والے کو اچھا لگتاہے۔

فلمی ہیرو اور ہیروئن کا پیار جس میں دونوں کے چہروں پر ہوس کے تاثرات ظاہر نہیں ہوتے کسی کو برا نہیں لگتا۔ چنانچہ عام زندگی میں بھی اگر ایک جوڑے کے چہرے پر فلمی ہیرو اور ہیروئن جیسے ہوس سے پاک تاثرات ظاہر ہونگے تو لوگوں کو برا نہیں لگے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی فلم میں ہیرو کی بجائے ولن کے چہرے پر چاہے مصنوعی ہی سہی۔۔۔۔۔۔۔ ہوس کے تاثرات دکھائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ولن سے ناظرین کو نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔غرض باسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ اشتہأ اور شہوت کی تکمیل کے لیے جلد بازی اور بے صبری کراہت انگیز تاثرات کو جنم دیتی اور باقی انسانوں کی نظروں میں مکروہ قرار پاتی ہے۔

حکمأ کا کہنا ہے کہ اشتہأ پر قابُو پالینے سے شہوت پر قابُو پانا آسان ہوجاتاہے۔ یہ بات عام مشاہدے کے اعتبار سے بھی درست ہے۔ ایک شخص جو بھوک کے عالم میں کھانا کھاتے ہوئے صبر کا مظاہر کرسکتاہے وہ اپنی شہوت پر قابو پانے کا بھی دوسروں کی نسبت زیادہ اہل ہوتاہے۔ اور اگر یہ بات درست ہے تو ثابت ہوا کہ بنیادی طور پر قابُو صرف ایک ہی جبلت پر پانا ہوتاہے اور وہ ہے اشتہأ۔ یعنی آپ پیٹ کے لیے کس قدر گِر سکتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پر پیٹ کے بل رینگتے ہوئے کیڑوں مکوڑوں کی سطح تک؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا جنگل میں پیٹ کے لیے دوسروں جانوروں کو چیرتے پھاڑتے درندوں کے مقام تک؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔

تمام قضیات اور تصریحات سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ "صبر" (ٹیمپرامنٹ) ہی وہ مشکل ترین عمل ہے جو انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتا اور اسے صاحب ِ اختیار بناتاہے۔ کیونکہ اگر ہم اپنی خواہشات کے تابع ہوکر جیتے ہیں تو پھر ہم جانور اور بایں ہمہ پابند ِ تقدیر ہیں اور اگر ہم اپنی خواہشات پر قابو پاکر صبر سے جینا جانتے ہیں توپھر ہمارے پاس کم ازکم ایک اختیار آچکا ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی جبلی خواہشات کو اپنی مرضی سے روکنے کی صلاحیت کے حامل ہوچکے ہیں۔ اشتہأ پر قابُو سے شہوت پر قابُو کی صلاحیت نمو پاتی ہے اور شہوت پر قابُو پالینے سے غصہ، تجسس اور خوف پر قابُو پالینے کی صلاحیت خود بخود نمودار ہونے لگتی ہے۔

ادریس آزاد

27/08/2024

برادرِمکرم جناب ڈاکٹر عمار خان ناصر کا نہایت متوازن نکتۂ نظر
۔۔۔۔
گزشتہ فروری میں سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کے حوالے سے اپنا فیصلہ جاری کیا تو مذہبی طبقے کے لیے یہ ایک بم پھٹنے جیسی صورت حال تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مذہبی طبقے نے آج تک احمدیوں کے بارے میں کی گئی قانون سازی سے متعلق ریاستی اور عدالتی زاویہ نظر کو ٹھیک طور پر سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور عدلیہ کی مسلسل تصریحات کے باوجود اپنی من مانی قانونی تشریحات میں مصروف رہا۔ زیر بحث مقدمے میں نجی حدود میں مذہبی آزادیوں کے اصول کا اطلاق بظاہر ایک نئے معاملے (یعنی احمدی کمیونٹی کے پیروکاروں کے لیے مذہبی لٹریچر کی اشاعت اور فراہمی) پر کیا گیا، لیکن یہ اصول عدالتی وقانونی سطح پر پہلے دن سے طے کر دیا گیا تھا۔ بہرحال مذہبی طبقے کے لیے عموماً‌ اور دینی قیادت کے لیے خصوصاً‌ اس صورت حال کی نوعیت ناگہانی آفت کی تھی اور دینی وسیاسی قیادت کا جو ابتدائی اور فوری ردعمل سامنے آیا، وہ جارحانہ اور مقدمے کی تفصیلات سے بے خبری پر مبنی تھا۔

اس تناظر میں مذہبی طبقوں کے پاس اس کے سوا کوئی فوری آپشن نہیں تھا کہ وہ احتجاج اور مذمت اور سازشوں کی دہائی دینے کا راستہ اختیار کر کے اپنی ساکھ کو بچانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ مارچ میں مقدمے پر نظر ثانی کی درخواست دائر ہونے کے بعد نچلی سطح کی قیادت، خصوصاً‌ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما مولانا اللہ وسایا صاحب نے چیف جسٹس اور ان کے سیکرٹری ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کے خلاف ایک منفی پراپیگنڈا مہم شروع کر دی اور فتوے بازی کا معروف اور آزمودہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے عدالت پر دباو ڈالنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ تاہم یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی اور جولائی کے آخر میں نظر ثانی شدہ فیصلہ زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ مذہبی موقف کے خلاف آ گیا۔
اس مرحلے پر مختلف دیوبندی تنظیموں نے شخصی الزام تراشی اور فتوے بازی کا پہلے سے بڑھ کر سنگین اسلوب اختیار کیا اور بعض دیوبندی تنظیموں کے ذمہ داران کی طرف سے یہ سرٹیفکیٹ تک جاری کر دیا گیا کہ چیف جسٹس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم قرار پا چکے ہیں، جیسے یہ حضرات آپ کی طرف سے شفاعت کے امیدواروں کی اسکروٹنی پر مامور ہوں۔ نعوذ باللہ۔ تاہم صورت حال اس پہلو سے زیادہ سنگین ہو گئی کہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے تحریک لبیک پاکستان اور اس کے ہم نوا عناصر بھی شامل ہو گئے اور چیف جسٹس کے قتل وارتداد کے فتوے جاری کر کے سارے معاملے کو اس رخ پر آگے بڑھانے کی کوشش کی جس پر سلمان تاثیر اور آسیہ کیس کو بڑھایا گیا تھا۔

اس ساری صورت حال میں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کے سامنے تین بڑے چیلنج تھے جن سے اسے بیک وقت نبرد آزما ہونا تھا:

۱۔ عدالت کے سامنے مذہبی موقف کی ترجمانی،

۲۔ ذیلی تنظیمی جتھوں کی طرف سے گولہ باری کے ماحول میں ریاستی اداروں کے ساتھ افہام وتفہیم کا راستہ نکالنا، اور

۳۔ اس پورے معاملے کو تحریک لبیک جیسے عناصر کے ہاتھوں ہائی جیک ہونے سے بچانا۔

چنانچہ دیوبندی قیادت نے قومی سطح پر مذہبی نقطہ نظر کی ترجمانی کو تدریجاً‌ اپنے ہاتھ میں لیا، ایک نسبتاً‌ متوازن موقف پیش کرنے کا اہتمام کیا اور الزام تراشی اور بدزبانی کے اسلوب پر غیر ذمہ دار عناصر کو مناسب انداز میں سرزنش کی۔ اس ضمن میں والد گرامی مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے ۲۹ جون کو روزنامہ اسلام میں ’’ریاست مدینہ کے کلمہ گو غیر مسلم شہری“ کے عنوان سے ایک اہم تحریر شائع ہوئی جس میں سیرت نبوی سے استشہاد کرتے ہوئے مصلحت اور حکمت کے مختلف پہلو واضح کیے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ ملک کی دینی قیادت اور ریاستی اداروں کو مصلحت کے ان پہلووں کا لحاظ رکھتے ہوئے باہمی مشاورت سے اس بحران کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔ اسی بحث کے دوران میں والد گرامی کی طرف سے ’’ایک تلخ تجربہ اور مشاہدہ“ کے عنوان سے درج ذیل تحریر بھی سوشل میڈیا پر شائع ہوئی:

’’۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دور کی بات ہے جب میں گوجرانوالہ شہر کی کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا سیکرٹری جنرل تھا۔ کسی قصبہ میں تحریک ختم نبوت کے جلسہ کی اجازت لینے کے لیے ایک ذمہ دار دینی راہنما مجھے ساتھ لے کر اے سی گوجرانوالہ کے پاس گئے اور درخواست پیش کی۔ انھوں نے کچھ دیر تامل کا اظہار کیا تو درخواست دہندہ نے جھٹ سے کہہ دیا کہ آپ مرزائی تو نہیں ہیں؟ اے سی صاحب نے کہا، مولوی صاحب! مجھے یہ گالی نہ دو، میں اجازت دے دیتا ہوں۔ دفتر سے باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کام کیا ہے؟ بولے کہ اس کے بغیر اجازت نہیں ملنا تھی۔ اس وقت تو میں نے اس کو ذاتی اور انفرادی مزاج سمجھ کر نظر انداز کر دیا، مگر نصف صدی کے مسلسل تجربہ اور مشاہدہ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بعض حلقوں میں اس کی شاید باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ ’’فن “ اب ایک تن آور درخت کی صورت میں پوری قوم کے لیے مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کے حال پر رحم فرمائیں۔ آمین ثم آمین“

سپریم کورٹ کے فیصلے پر مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء نے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی قیادت میں اپنا تفصیلی موقف پیش کیا جو قانونی نکات اور مذہبی استدلالات، دونوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے آخر میں بھی جذباتی اور غیر ذمہ دار عناصر کو یہ نصیحت کی گئی کہ :

’’ہم بصد ادب علمائے کرام اور خطبائے عظام سے گزارش کرتے ہیں: ختم نبوت اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے، اس پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا عدالتی فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں متانت، وقار اور اسلامی اخلاقیات کا پاس رکھنا چاہیے۔ تہذیب سے گری ہوئی گفتگو اور گالی گلوچ سے حاملین دین کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اور یہ ہمارے عظیم ترین مقصد کے لیے نقصان دہ ہے۔“

ان اقدامات سے افہام وتفہیم کے ماحول میں ریاستی اداروں کے ساتھ نتیجہ خیز مکالمے کا امکان پیدا ہوا اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۲ اگست کو سپریم کورٹ میں فیصلے میں تصحیح کے حوالے سے وفاق کی درخواست کی سماعت کے موقع پر نمایاں ترین کردار مولانا فضل الرحمٰن اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا رہا۔ کسی قسم کی بدتمیزی یا تلخ کلامی سے کام لیے بغیر خوش اسلوبی سے دیوبندی قیادت نے عدالت کو اپنے نقطہ نظر کے حق میں قائل کر لیا اور عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں سابقہ فیصلوں کے متنازعہ پیراگراف حذف کرنے کا اعلان کر دیا۔

فیصلے کے بعدبہت سے قانون دان حضرات نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کئی تحفظات ظاہر کیے ہیں جو تکنیکی طور پر درست ہوں گے، لیکن اس کا ایک پہلو بلکہ بنیادی پہلو سیاسی بھی ہے۔ سیاسی زاویے سے دیکھا جائے ریاستی اداروں اور دیوبندی قیادت نے سمجھ داری اور سیاسی پختگی کے ساتھ صورت حال کو ایک بڑے خلفشار میں بدلنے سے بظاہر روک دیا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ دیوبندی قیادت کو جو تینوں چیلنجز درپیش تھے، وہ حالیہ قضیے کی حد تک ان سب سے بیک وقت نبردآزما ہونے میں کامیاب رہی ہے۔

جہاں تک فیصلے کے قانونی مضمرات کا تعلق ہے تو مختصر حکم نامے میں چونکہ ان پیراگرافس کی تعیین نہیں کی گئی جو سابقہ فیصلوں سے حذف کیے گئے ہیں، اس لیے سردست اس پر کوئی رائے زنی بھی نہیں کی جا سکتی۔ بعض چینلز پر جو متعین پیراگرافس ذکر کیے گئے ہیں، ان کا حکم نامے میں تصریحاً‌ کوئی ذکر نہیں اور اس کو فی الحال ایک قیاس ہی کہا جا سکتا ہے جو ممکن ہے، درست ہو۔ لیکن حقیقی صورت حال تفصیلی فیصلہ سامنے آنے پر ہی واضح ہوگی اور تبھی یہ دیکھا جا سکے گا کہ حذف شدہ پیراگرافس کے کے بعد قانون کی مجموعی تعبیر کیا بنتی ہے اور کیا وہ اعلیٰ عدلیہ کی اب تک کی تعبیر سے مختلف ہے یا اس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر عدالت میں موجود ذمہ دار علماء کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا گیا ہے تو مذہبی حلقوں کے اس بڑے اعتراض کا ازالہ یقیناً‌ کر دیا جائے گا کہ کچھ پیراگرافس سے قادیانیوں کو اپنے گھروں کے اندر مسلمانوں کو تبلیغ کی اجازت دینے کا تاثر ملتا ہے جو ظاہر ہے، قانون کے خلاف ہے۔

البتہ اس مرحلے پر اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کی توجہ بعض ضروری أمور کی طرف مبذول کروانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنی ایک تحریر میں دیوبندی قیادت کی ایک خوبی اور صلاحیت کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:

’’کسی بھی طبقے کے لیے، معاشرے میں قائدانہ نوعیت کا کوئی کردار ادا کرنے کے لیے جن فکری وعملی اور مزاجی خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، ان میں دوسرے طبقوں کے ساتھ ، اختلاف کے باوجود، کسی نہ کسی سطح پر تعلق کو قائم رکھنے اور باہمی تعامل کے لیے ممکنہ مشترک بنیادوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی خصوصیت غالباً‌ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دیوبندی مزاج میں یہ خصوصیت، جیسا کہ بیان کی گئی مثالوں سے واضح ہوتا ہے، بدرجہ اتم موجود ہے اور دیوبندی روایت کو مذہبی فکر وعمل کے میدان میں حاصل امتیاز کے ایک بنیادی سبب کا درجہ رکھتی ہے۔“ (ماہنامہ الشریعہ، جنوری ۲۰۱۹ء)

اس ضمن میں 74ء کے آئینی فیصلے کے تناظر میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے ایک مختصر خط کا حوالہ دینا یہاں برمحل ہوگا جو انھوں نے مولانا سمیع الحق مرحومؒ کے استفسار کے جواب میں لکھا تھا اور ماہنامہ ’’الحق “ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا۔ مولانا نے اس میں قادیانی مسئلے کے حوالے سے دینی طبقوں کو تین بنیادی مشورے دیے تھے:

آئینی فیصلے کی صورت میں جو قدم اٹھایا گیا ہے، وہ کافی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس معاملے میں ریاست پر غیر ضروری بوجھ ڈالتے چلے جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
ریاست کے کار پرداز طبقات کو دینی واعتقادی بنیاد پر طعن وتشنیع اور فتوے بازی کا نشانہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔
اس مسئلے کو ’’وجاہت “ کا مسئلہ بنانے کا راستہ اختیار نہ کیا جائے جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اسے مذہبی سیاست کا موضوع بنا کر اپنی طاقت بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔
خط کا متن حسب ذیل ہے:

’’برادرم مولانا سمیع الحق صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ موصول ہوا۔ مرزائیت کا اللہ تعالیٰ نے خاتمہ کر دیا ہے۔ اب ان کا معاملہ دوسرے کافروں کی طرح ہے۔ یہ سکھ، پارسی، عیسائی اور ہندو کی طرح ہو چکے ہیں۔ نکاح وغیرہ کے مسائل حل ہو گئے۔ ہمارےٹکٹ پر یہ ممبر نہیں بن سکیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ باقی مسائل کے بارہ میں ہم کو امید رکھنی چاہیے کہ حل ہو جائیں گے۔ میں اس بات کے سخت خلاف ہوں کہ بعض خود غرض اور اقتدار پسند افراد کہتے پھرتے تھے کہ حکومت مرزائی ہو گئی ہے، مرزائی نواز ہے، یہ ٹال رہی ہے۔ میرے بھائی! یہ کافی ہے۔ باقی میں سمجھتا ہوں، مرزائیت کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔ کم از کم اس مسئلے کو ہم اپنی وجاہت کا مسئلہ نہیں بنا سکتے۔ جیسے دینی ضرورت پیش آئے گی، کریں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشے۔ فقط (۱۸ ۔ اکتوبر ۱۹۷۴ء) “

یہ تینوں نصیحتیں بہت برمحل اور اہم تھیں، لیکن افسوس ہے کہ تینوں پر ہی دینی طبقات نے کوئی توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ صورت حال اس وجہ سے بھی بگڑتی چلی گئی ہے کہ اعلیٰ سطحی دینی قیادت کی توجہ مرکوز نہ رہنے سے ذیلی سطح کے تنظیمی اسٹرکچر اپنی حکمت عملی کے اہداف اور سرگرمیوں کا رخ متعین کرنے میں ایک طرح سے خود مختار ہوتے چلے گئے ہیں ۔

اس مقدمے کے مختلف مراحل پر میں تسلسل سے اس پہلو کی طرف ذمہ دار دینی قیادت کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ چنانچہ ۲۵ اپریل کو سوشل میڈیا پر اپنی تحریر میں عرض کیا کہ:

’’ختم نبوت اور توہین مذہب کے ایشوز بنیادی طور پر اکابر اور ذمہ دار اہل علم کی نگرانی اور گرفت سے نکل کر تنظیمی سطح کے مہم جوؤں کے ہاتھ میں آ گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل یہ ہو رہا ہے کہ اپنے طور پر کوئی نہ کوئی جتھہ کوئی قانونی یا عدالتی “کارنامہ” انجام دے کر داد سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور ذمہ دار فورمز یا شخصیات کو مجبوراً ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔

پچھلے سال قادیانیوں کو اپنے گھروں میں قرآن کے نسخے رکھنے سے روکنے کی کوشش کو عدالت عظمی نے غلط قرار دیا، وہ بھی ایسا ہی کیس تھا۔ ابھی جس کیس میں تفسیر صغیر کی تقسیم کو جرم قرار دلوانے کی کوشش کی گئی، اس کی نوعیت بھی یہی ہے۔ میں ذمہ داری سے بتا سکتا ہوں کہ جو جو اکابر اور بزرگان عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے نظر آئے، ان میں سے کوئی بھی اس مقدمے اور اس کی تفصیلات سے پہلے واقف نہیں تھا۔ … ذمہ دار قیادت سے گزارش ہے کہ وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں اور ایسے اقدامات پر مشاورت کا کوئی فورم بنا لیں تاکہ ہر چار چھ مہینے کے بعد پورے مذہبی طبقے کو کچھ افراد کی حماقتوں پر شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ “

سپریم کورٹ کی طرف سے نظر ثانی شدہ فیصلہ آنے سے پہلے، یکم جون کو سوشل میڈیا پر ایک تحریر میں، میں نے عرض کیا تھا کہ :

’’عدالتیں کئی دفعہ سیاسی صورت حال کو بھی مدنظر رکھتی ہیں۔ اس لیے کسی نہ کسی انداز کی فیس سیونگ ہمارے خیال میں مذہبی طبقوں کو دینی چاہیے تاکہ ہارجیت کی لڑائی میں مشغول ہو جانے کے بجائے انھیں ذرا توقف کر کے پوری صورت حال پر غور کرنے کا موقع مل سکے۔ مذہبی طبقوں میں صورت حال کا درست ادراک رکھنے والا عنصر بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے، لیکن جذباتیت اور تصادم کی فضا میں اس کے لیے کوئی کردار ادا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت اس بحران میں کچھ افاقہ ہونے پر نچلی سطح کی ’’نیم خود مختار“ تنظیموں کے لیے آئندہ کی حکمت عملی کا رخ طے کرنے اور کچھ قدغنین وغیرہ عائد کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر قیادت کو اس کی نزاکت یا سنگینی کا کچھ ادراک ہو تو امید ہے کہ اس نازک صورت حال سے، آگے بڑھنے کے کچھ مثبت راستے نکل آئیں گے۔ ان شاء اللہ“

ہمارے خیال میں مبارک ثانی کیس کے حالیہ تجربے کی روشنی میں اعلیٰ سطحی دینی قیادت کو اب سنجیدگی کے ساتھ اس پہلو کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

اس کے ساتھ مذہبی طبقات کے رویے اور طرز گفتگو میں اس امر واقعہ کا ادراک بھی جھلکنا چاہیے کہ ختم نبوت کے عقیدے پر تو تمام مسلمان متفق ہیں، لیکن منکرین ختم نبوت کے ساتھ سیاسی اور قانونی لحاظ سے کیا معاملہ کرنا ہے، اس میں ایک واضح اختلاف موجود ہے۔ مذہبی علماء یا تنظیمیں اس معاملے کی یک طرفہ طور پر اجارہ دار بن کر ریاست اور معاشرے پر اپنا موقف مسلط نہیں کر سکتیں۔ اس میں ریاست بھی فریق ہے، مذہبی علماء بھی ’’ایک “ فریق ہیں، معاشرے کے دیگر طبقات بھی فریق ہیں اور ملک کے شہری اور ایک اقلیتی گروہ ہونے کی حیثیت سے خود احمدی کمیونٹی بھی ایک فریق ہے۔ نزاع کے متوازن اور قابل عمل تصفیے میں ان سب فریقوں کے نقطہ نظر کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔

اس ضمن میں ہماری قومی تاریخ اور سیاست کا یہ سبق ہر وقت یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ خصوصاً‌ ۸۰ء کی دہائی سے مختلف اقسام کی سیاسی یا مذہبی ریڈیکلائزیشن کو فروغ دینا اور اس عمل کو اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے استعمال کرنا ہماری مقتدرہ کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ مذہبی دائرے میں سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، سب کے سب طبقے کسی نہ کسی حوالے سے اس عمل سے گزر چکے ہیں اور ابھی امکانات محدود نہیں ہوئے۔ اس سارے عمل کی قیمت معاشرے کو دینی پڑتی ہے اور بعض صورتوں میں خود مقتدرہ بھی اس کی زد میں آتی ہے، لیکن وہ بھی مقصد کے لحاظ سے سازگار ہوتی ہے، یعنی جب تک کسی قوت کو استعمال کیا جا سکے، استعمال کیا جائے اور جب وہ حد سے کچھ متجاوز ہونے لگے تو ریاست کے تحفظ کے لیے مقتدرہ ہی نجات دہندہ کے طور پر موجود ہو۔

اس کی جو قیمت بطور ایک تہذیبی قوت کے، مذہب کو ادا کرنی پڑے گی بلکہ یہ ادائیگی شروع ہو چکی ہے، وہ معاشرے کی سطح پر مذہب سے لاتعلقی یا الحاد اور ریاست کی سطح پر سیکولرائزیشن ہے۔ مذہب ایک غضب ناک قوت کی شکل میں متحرک ہو تو فہیم اور تعمیری سوچ رکھنے والے عناصر کے لیے اس میں کشش نہیں رہتی۔ جب ایک کے بعد دوسرا مذہبی طبقہ ریڈیکلائز ہو کر کسی نہ کسی عنوان سے اپنی من مانی ریاست اور معاشرے سے منوانے کو ریت بنا لے گا تو ریاست کی برداشت کا پیمانہ بھی آخر بھر جائے گا اور نتیجتاً سیکولرائزیشن کا بیانیہ قوت پکڑے گا۔

پروفیسر ڈاکٹر عمار خان ناصر

23/08/2024

پاکستانی شناخت کا مسئلہ (قسط نمبر3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری شناخت کا مسئلہ ابھی تک بُری طرح اُلجھا ہوا ہے۔اگریہ مسئلہ حل ہوچکاہوتا تو آج پاکستان اس قدر ظالمانہ قومی بے رُخی کا ہرگزشکارنہ ہوتا۔اور اس مسئلے میں موجود الجھاؤ (کنفیوژن) سے جتنا اِس قوم کا نقصان ہوا ہے، اس کا اندازہ لگانا ممکن ہےاور نہ ہی اس کے ازالے کا بظاہرکوئی امکان دکھائی دیتاہے۔بنگالیوں کی علیحدگی سے لے کر جہاد افغانستان تک ہم نے فقط اِسی ایک بنیادی مسئلے کی وجہ سے بہت بڑے بڑے نقصانات اُٹھائے۔ جہادِ افغانستان کے نتائج کو ہی دیکھ لیں توبخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ کس طرح مسلم قومی شناخت کاشکارہوکرہم اس خونریزی کا حصہ بن گئے تھے، جس نے پوری دنیا میں طاقت کے توازن کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔اورپھرجنگ کے اختتام پر ہم نے خود ہی اس مسلم قومی شناخت کو خدا حافظ کہہ دیا اور’’سب سے پہلےپاکستان‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ہم ستترسال سے کبھی مسلمان تو کبھی پاکستانی قومیت کے درمیان یوں لٹکتے رہے کہ ، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے، نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔

یہ سوال کہ آخر ہم اپنی شناخت کا مسئلہ آج تک حل کیوں نہیں کرپائے، سب سے اہم سوال ہے۔ہرکسی کی اپنی رائے ہے لیکن میری رائے پہلے بھی یہی تھی اور اب بھی یہی ہے کہ اپنی نسلوں کو اپنی حقیقی تاریخ سے دانستہ ناواقف رکھ کر ہم اس بحران کا شکار ہوئے ہیں۔میرے مربّی، مشفق اوربہت ہی محترم استاد، جنابِ جلیل عالی نے میرے کل کے مضمون پر صرف ایک شعر کا کمنٹ کیا کہ،

ایک تاریخ حنوطی ہے عجائب گھر میں
ایک تاریخ لہو بیچ رواں رہتی ہے

اوراستادِ محترم نے یہ شعر میری تحریر میں موجود ان تاریخی اجزأ کی وجہ سے لکھا جن میں مَیں نے راجہ پورس، پانینی، پتن جلی وغیرہ کا ذکرکرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ اور اس طرح دیگر بہت سے نام اِس خطے کی اوّلین تاریخ کے نہایت اہم کردار ہیں، جن سے ہمیں ناآشنارکھاگیا۔عالی صاحب گزشتہ ساٹھ سال سے ہماری تہذیبی شناخت کے مسئلے پر نہ صرف لکھ اور بول رہے ہیں بلکہ اپنے نظریات میں نہایت واضح استدلال بھی رکھتے ہیں۔اس موضوع پر عالی صاحب کا مؤقف اُن کے اپنے الفاظ میں کچھ یوں ہے،

’’ توحید و رسالت کو مسلم قومیت کی بنیاد بنانے پر معترضین کی طرف سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر دنیا کے تمام مسلمان ایک قومیت سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر الگ الگ مسلم ریاستوں کے وجود کا کیا جواز ہے؟اس سوال کا افکارِ اقبال کی روشنی میں جواب یہ ہو گا کہ دنیا کی تمام مسلم ریاستوں کے عوام ایک اسلامی قومیت سے وابستہ ہوتے ہوئے اسلام اور مختلف خطوں کی مقامی روایات کے تال میل سے تشکیل پانے والی متنوع وحدتوں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں جن کے تشخص کا غالب داخلی و خارجی تہذیبی عنصر اسلام ہی رہتا ہے ۔‘‘

یوں گویا عالی صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان میں ہماری قومی شناخت، ’’پاکستانی مسلمان‘‘ کی شناخت ہے۔یعنی عالی صاحب کے نزدیک اِن دو اصطلاحات کو الگ الگ کرکے دیکھناہی غلط ہے۔ یوں کہناغلط ہے کہ یا تو ہم پاکستانی ہیں اور یا ہم مسلمان ہیں۔ صرف یہ کہنا درست ہے کہ ہم ’’پاکستانی مسلمان‘‘ ہیں اور یہی ہماری قومی شناخت ہے۔یہ ایک نہایت خوبصورت اور متوازن رائے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اِس رائے سے ہماری شناخت کے مسئلے کا بنیادی الجھاؤ سلجھ جاتاہے؟اورکیا بطور’’پاکستانی مسلمان‘‘ ہماری شناخت کا تعین ہوجانے کے بعد اِس خطے کی تاریخ کا مطالعہ غیرضروری ہوجاتاہے؟ عالی صاحب کا جواب یقیناً یہ ہوگا کہ، نہیں۔کیونکہ اِس شناخت میں لفظ ’’پاکستانی‘‘ بھی موجود ہے اور اس لیے اِس خطے کی تاریخ کا مطالعہ بھی ضرورہوناچاہیے۔اورمیری رائے میں یہی وہ کمی رہ گئی ہے جسے ہم پورا نہیں کرسکے۔ یعنی ہم نے ’’پاکستانی مسلمان‘‘ ہوتے ہوئے بھی اس خطے کی تاریخ کا مطالعہ غیر ضروری جانا اور اسے نظرانداز کردیا۔

پھر بات صرف تاریخ کے مطالعہ کی ہوتی تو ہم اس کی تھوڑی بہت گنجائش شاید پیدا کرلیتے ۔ بات صرف تاریخ کے مطالعہ پر موقوف نہیں ہے، بلکہ تاریخِ تمدن،زبان، ثقافت،رسم و رواج اورخاص طورپر معاشی وسائل کا وہ مطالعہ جو ایک پاکستانی کے لیے ضروری تھا، ہم اس سے بھی کلیتاً محروم رہ گئے۔میں صرف ایک مثال سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرونگا، کیونکہ مجھے اپنے آئندہ مضامین میں بہت سی مثالیں پیش کرنی ہیں اورمیں نہیں چاہتا کہ جس شے کا جو مقام ہے وہ ساری کی ساری وقت سے پہلے ہی درج کردوں۔صرف ایک مثال دیکھیے!

ہمیں اردولکھنا سکھایاگیا۔گورمکھی اور ہندی لکھنا نہیں سکھایا گیا۔گورمکھی میں پنجابی اورسرائیکی لکھی جاتی ہے اور ہندی میں ظاہر ہے ہندی لکھی جاتی ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ہندی اگر بہت گہری نہ ہو تو وہ اردو جیسی ہی ہوتی ہےاورہمیں خوب سمجھ آتی ہے۔۔ ہندوستان کی کل آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے، جبکہ ہماری آبادی چوبیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ہندوستان میں بڑے بڑے سائنسدان بھی پیدا ہوئے ہیں اور نہایت قابل مؤرخین،فلسفی، سماجیات کے ماہرین اور دیگر علوم کے نہایت قدآورعلمأبھی پیدا ہوئے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اب تک ہندوستان میں کتنی ایسی علمی کتابیں لکھی گئی ہوں گی جو ہم بالکل ہی نہیں پڑھ سکتےکیونکہ ہم ہندی رسم الخط میں لکھی ہوئی کوئی چیز نہیں پڑھ سکتے۔ہم دوریورپ سے آئی ہوئی، انگریزی کی کتابیں تو پڑھ سکتے ہیں لیکن گورمکھی اور ہندی میں لکھی ہوئی کتابیں بالکل نہیں پڑھ سکتے۔ذرا اندازہ لگا کر بتایے کہ گورمکھی یا ہندی لکھنا اوران رسوم الخط میں لکھا ہوا پڑھنا ، کتنا مشکل کام ہوگا۔ ہم ہندی میں لکھا ہوا پڑھتے تو لکھی ہوئی بات کو آسانی سے سمجھ لیتے اور کوئی علیحدہ بولی سیکھنا لازمی نہ ہوتا، اس لیے فقط تین سے چھ ماہ کے ایک چھوٹے سے کورس کے بعد ہم کتنی بڑی بڑی علمی کتابیں پڑھ سکتے تھے، اس پر ذرا غورفرمایےگااورآج ہمارا ذخیرۂ علم کتنا وسیع ہوتا ، اس پر بھی غورکیجیےگا۔سوال یہ ہے کہ کیا ہندی کا رسم الخط سیکھنا بھی غداری کی کوئی قسم تھی؟ اگر اہلِ پنجاب گورمکھی میں لکھی کتابیں پڑھ لیتے تو کیا ہمارے ایمان میں کچھ خلل آجاتا؟ رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تو جنگی قیدیوں کی سزائے موت محض اس وجہ سے ختم کردی تھی کہ وہ مدینہ کے ان پڑھ شہریوں کو لکھنا سکھاسکتےتھے، اور یہی ان کی معافی کی واحد شرط رکھی گئی تھی۔

یہ فقط ایک مثال ہے، اور آپ یقین کیجیے، میرا ذہن ایسی مثالوں سے سرتاسر بھرا ہواہے، جو میں آنے والے مضامین میں آپ کے سامنے پیش کرونگا۔اب اس مثال کا تعلق تو مطالعۂ تاریخ سے ہرگز نہیں ہے۔یہ تو ہمارے خطے کی اُن مہارتوں میں سے ایک مہارت کا ذکرہے جو صدیوں سے یہاں رائج ہیں اور ان کا سیکھنا ہمارے لیے گویا فرض ہونا چاہیے تھا۔

بہرحال میرا یہی خیال ہے کہ شناخت کا مسئلہ اس وقت تک حل ہو ہی نہیں سکتا جب تک ہمیں اورہماری آئندہ نسلوں کو یہ نہ بتایا جائے کہ وہ جس خطے میں مقیم ہیں اس کی آب و ہوا کے تقاضے کیا کیا ہیں؟ اور مجھے دور دور تک ایسی کوئی اُمید کی کرن نظر نہیں آتی کہ کبھی ہم اپنی مٹی سے باخبر ہونے کا کوئی ارادہ کرینگے۔ہمیں امریکہ کی تاریخ کاتو بخوبی علم ہے۔ یورپ کی تاریخ، عرب کی تاریخ، ایران اور افغانستان کی تاریخ اور پھر ان غیرممالک کے علوم وفنون وغیرہ سے ہم اچھی طرح سے واقف ہیں۔ لیکن ہمیں خود اپنی مٹی کی تاریخ کا مطلق علم نہیں۔ نہ ہی اپنے پڑوسیوں کا کچھ علم ہے۔ کتنے لوگ بنگلہ دیش کے بارے میں جانتے ہیں اور کتنے لوگ چینی علوم،زبان، روایات وغیرہ سے باخبر ہیں؟

کچھ لوگوں نے میرے گزشتہ مضمون پر لکھا کہ آپ کو قدم بقدم پیچھے جاتے ہوئے اتنا پیچھے جانا چاہیے کہ بالآخر ہم ’’دراوڑ‘‘ اقوام تک جاپہنچیں اور سندھ کی قدیم تہذیب کے کھنڈرات میں سے اپنے لیے کوئی شناخت ڈھونڈ لائیں۔میری رائے میں یہ دوسری انتہأ ہے۔ہم اتنا زیادہ پیچھے نہیں جاسکتے کیونکہ اتنا پیچھے جانا ہے تو پھر اس سے پیچھے جانے میں کون سی منطق مانع ہے؟آرکیالوجی کے مطابق تو یہاں کے باشندے فی الاصل افریقہ سے آئے ہوئے ہومواریکٹس ہیں۔عالی صاحب کا شعر جس میں ’’ایک تاریخ حنوطی ہے عجائب گھرمیں‘‘ کہا گیاہے، یقیناً اسی غلطی سے روکنے کے لیے بہت مناسب ہے۔ہم آریاؤں سے پہلے کے ہندوستان کو نہیں اپنا سکتے، کیونکہ ہماری جینیالوجی بھی اب وہ نہیں رہی۔اس سلسلے میں بھی میں صرف ایک مثال دے کر آگے بڑھناچاہتاہوں۔

پشتون قبائل آج ہمارے خطے کی ایک بڑی آبادی ہیں۔اوراس میں اب کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پشتون قبائل فی الاصل بنی اسرائیل کا ایک بچھڑا ہوا قافلہ تھے جو افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں آبسے۔ اب تو اس پر مبسوط کتابیں اور ڈاکومینٹریاں بھی دستیاب ہیں، تاہم یہ بات بہت پہلے بھی لوگ جانتے تھے۔ خود اقبال نے کئی جگہ لکھاہے کہ پشتون قبائل بنیادی طورپر بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ اقبال نے اپنے مضمون قومی زندگی میں جہاں یہودی قومیت کا اختصاص کے ساتھ تذکرہ کیا وہاں یہ جملہ بھی موجود ہے کہ،

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قوم(یعنی بنی اسرائیل ) کی ایک شاخ یعنی قومِ افاغنہ ایشیا کے ایک کوہستانی حصے میں آزاد حکومت کررہی ہے، تاہم قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر غور کرنے والےاس بات کو جانتے ہیں کہ اگر افغانوں نے موجودہ انقلاب کے مفہوم کو نہ سمجھااوراپنی آزاد حکومت سے تمدنی فوائد نہ اٹھائےتو یقیناً ان کا حال وہی ہوگا جو وسطِ ایشیا کی موجودہ قوموں کا ہورہاہے۔‘‘

اقبال نے اور کچھ مقامات پر بھی یہ لکھاہے لیکن میں اس سے زیادہ حوالے اس بات پر نہیں دینا چاہتا۔میرا مدعا صرف اتنا سا ہے کہ ہمیں ہزاروں سال پیچھے جاکراپنے لیے دراوڑشناخت نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔کیونکہ اس استدلال کی بنا پر تو پھر پختونخوا کے باشندوں کو بھی ہزاروں سال پیچھے جاکر اپنے لیے یہودی شناخت کو ڈھونڈنا چاہیے۔ شناخت کی تلاش کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔

چنانچہ گزشتہ دو مضامین میں مَیں نے جو مؤقف اختیار کیاتھا کہ ہم قدم بقدم پیچھے کا سفر کرتے جائیں گے اور ساتھ کے ساتھ ہم بغوردیکھتے جائیں گے کہ ہم لوگ جو اس وقت پاکستان میں آباد ہیں، تاریخی، جغرافیائی،ثقافتی اعتبارسے کون لوگ ہیں؟ اتنا تو اب سب کو ہی معلوم ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے ہم ہندوستانی مسلمان تھے۔اس پر اقبال اورقائداعظم پورے شرح صدر کے ساتھ مطمئن تھے کہ ہندوستانی مسلمان ہونا ایک الگ قومیت ہے۔ یہی بات ہی تو دوقومی نظریہ کی بنیاد بنی تھی۔لیکن پاکستان بن جانے کے بعد چونکہ اس مسئلے کو جان بوجھ کر الجھا دیا گیا تواس لیے ہم بُری طرح سے گمراہ ہوگئے۔ نہ ہی ہمیں اپنا آغازِ سفر یاد رہا اور نہ ہی ہم یہ جان سکے کہ ہماری منزل کون سی ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اس موضوع پر ازسرنو لکھنا شروع کیا ہے تاکہ ہم کم ازکم آنے والی نسلوں کے سامنے اصل صورتحال تو واضح کرسکیں۔

گزشتہ مضمون میں جب ہم ایک قدم پیچھے گئے تھے تو ہم نے دیکھا کہ اقبال اور مولانا مدنی کے درمیان قومیت کے مسئلے پر مباحثہ چل رہاتھا۔ جو اقبال کی وفات پر اچانک ختم ہوگیا۔اقبال کی وفات کے بعد مولانا مدنی نے البتہ ایک مبسوط تحریر ’’متحدہ قومیت اوراسلام‘‘ کے نام سے پیش کی، جو اب بھی کتابی شکل میں دستیاب ہے۔مولانا مدنی اورمولانا ابولکلام کے علاوہ دیگر بہت سے مذہبی رہنما بھی، بالخصوص جمعیت علمائے ہند کے سارے علمأ، اقبال کے مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔لیکن یہی علما اوران کے بہت سے شاگرد، جب پاکستان بن گیا تو یکایک ، کم ازکم پاکستان کی حدود کے اندر، اپنے مؤقف سے گویا دستبردار ہوگئے۔ وہ اِس طرح کہ پاکستان بن جانے کے بعد جن لوگوں نے اِس ملک کو اسلامی ریاست بنانے کے حق میں بڑی بڑی تحریکوں کا آغاز کیا وہ جمعیت علمائے اسلام کے لوگ تھے، اور جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت علمائے ہند کی پاکستانی شاخ تھی۔وہ اپنی تقریروں اور مضامین میں اسی اقبال کے اشعار کوٹ کرنے لگے جس اقبال سے انہیں نفرت تھی۔ اسی نظریۂ قومیت کو بار بار دہرانے لگے جس کے خلاف انہوں نے ہندوستان میں مسلم لیگ کے زعما کی ناک میں دم کررکھاتھا۔جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا مفتی محمود جومولانا فضل الرحمان کے والد تھے، تحریک نظامِ مصطفیٰ کے امیرتھے اور یہ تحریک پاکستان کو ایک اسلامی ریاست میں ڈھالنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگاچکی تھی۔اس سے قبل اگرچہ قراردادِ مقاصد پیش کی جاچکی تھی، اور پہلی اسمبلی نے اسے منظوربھی کیاتھا، لیکن پھر بھی وہ ہمارے آئین کا قابل نفاذ حصہ نہیں تھی، بلکہ صرف ایک قرارداد تھی۔ زیادہ سے زیادہ آئین کے دیباچے کا کام کرتی تھی۔ لیکن قراردادِ مقاصد کو قومی اتحاد یعنی مولانا مفتی محمود کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کے نتیجے میں بالآخر 2 مارچ 1985 کو جنرل ضیالحق کے ایک صدارتی آرڈینینس کے ذریعے آئین کا قابلِ نفاذ حصہ بنایاگیا، نہ کہ اسمبلی میں جمہوری طریقے سے۔یہ بھی یاد رہے کہ اس قومی اتحاد میں جماعتِ اسلامی بھی شامل تھی جس کے سربراہ میاں طفیل تھے۔آئین میں کی جانے والی اس ترمیم کو جو ضیالحق کے صدارتی آرڈینینس سے عمل میں لائی گئی، آٹھویں ترمیم بھی کہاجاتاہے۔

نواب لیاقت علی خان نے جب قراردادِ مقاصد دستورسازاسمبلی کےسامنے پیش کی تو اس پر بڑی بحث ہوئی تھی۔اردوڈائجسٹ کے مدیراعلیٰ الطاف حسن قریشی نے سردارعبدالرّب نشتر کی وفات کے موقعے پر لکھاکہ اس قرارداد کو پیش کرنے کے حوالے سے وزیراعظم لیاقت علی خان پر اپنے ساتھیوں کا بڑادباؤ تھا۔اکادمی ادبیات پاکستان کے ادبی جریدے ’’ادبیات‘‘ کے بانی ایڈیٹرفاروق عادل نے جب ایک موقع پر الطاف حسن قریشی سے سوال کیا کہ وہ کون لوگ تھے جو لیاقت علی خان پر دباؤ ڈال رہے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ،

’’دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جن کا تعلق مسلم لیگ کی جدوجہد سے نہیں تھا اور پاکستان بنتا دیکھ کر آخری مرحلے پر مسلم لیگ کا حصہ بنے۔ ان میں فیروز خان نون اور خان عبد القیوم خان جیسے راہنما شامل تھے۔ دوسرا طبقہ مغربی تعلیم یافتہ راہنماؤں پر مشتمل تھا۔ اس طبقے کی قیادت میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور ان کے ہم خیال راہنما کر رہے تھے۔‘‘

اس بات یہ عیاں ہوجاتاہے کہ وہ لوگ جن کا تعلق مسلم لیگ کی جدوجہد سے نہیں تھا، وہی پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔یہ بالکل ویسے ہے جیسے جماعتِ اسلامی، تحریکِ پاکستان کا حصہ تو نہیں تھی لیکن پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں ہمیشہ پیش پیش رہی۔خود بانی جماعتِ اسلامی، مولانا مودودی نے نومبر1963 کے ترجمان القران میں لکھا ہے کہ،

’’ہم کھُلے بندوں اعتراف کرتے ہیں کہ تقسیم ِ مُلک کی جنگ سے ہم غیر متعلق رہے۔ اِس کارکردگی کا سہرا صِرف مسلم لیگ کے سر باندھتے ہیں اور اِس مَیدان میں کسی بھی حِصّے کا اپنے آپ کو دعویدار نہیں سمجھتے“۔
حالانکہ1949 میں جب قراردادِ مقاصد منظورہوئی تو جماعتِ اسلامی نے ایک پمفلٹ شائع کرکے تقسیم کیا جس میں لکھاتھاکہ،

’’قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جب ہماری ریاست اپنی دستوری زبان سے اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے اور ریاست کا پبلک لا، جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے (اُن) اصولوں پر مبنی ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اور ریاست کا کام یہ ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق منظم کریں تو اس قرارداد کے بعد یہ ریاست اصولاً ایک اسلامی ریاست بن چکی ہے اور اس کے بعد وہ دستوری رکاوٹیں از خود ختم ہو چکی ہیں جو سابق کافرانہ نظام میں شریعت کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی تھیں‘‘۔

ان بیانات سے فقط یہ دکھانا مقصود ہے کہ وہ مذہبی طبقہ جو یا تو نظریۂ پاکستان کا مخالف تھا اور یا تحریکِ پاکستان کی جدوجہد سے لاتعلق تھا، پاکستان بن جانے کے بعد ، پاکستان کو ایک اسلامی ریاست میں بدلنے کے لیے متحرک ہوگیا تھا۔ورنہ اگر قائدِ اعظم کی آخری تقریریں دیکھیں تو بالکل واضح ہے کہ وہ پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی اقبال کا ایسا کوئی پیغام تھا۔

بہرحال یہ سب تو پاکستان بن جانے کے بعد ہوا اور ایسی تمام باتیں جو پاکستان بن جانے کے بعد ہوتی رہیں وقتاً فوقتاً ہمارے اِس سلسلۂ مضامین آتی ہی رہیں گی، لیکن سردست ہمارے سامنے اپنا اصل مدعا ہے۔کل ہم پاکستان بننے سے فوری پہلے کے ایام میں ہونے والی قومی شناخت کے مباحث کا ذکر کررہے تھے،سووہیں سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

حالیہ چودہ اگست پرعلامہ اقبال کا ایڈورڈ تھامپسن کو لکھا گیا خط انٹرنیٹ پر مشہورہوا، جس میں اقبال نے تھامپسن کو واضح الفاظ میں لکھاکہ منصوبۂ پاکستان، اُن کا منصوبہ نہیں ہے۔میں نےچند دن پہلے اس پر ایک پوسٹ بھی نشر کی تھی۔اب یہاں اس خط کا متن ایک بار پھر نقل کررہاہوں۔ اقبال نے لکھا،

’’مائی ڈیئر مسٹر تھامپسن!
میری کتاب پر آپ کا تبصرہ ابھی موصول ہوا ہے۔ یہ نہایت اعلیٰ پیرائے کا تبصرہ ہے اور میں ان تمام کلمات خیر کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں جو آپ نے میرے متعلق کہے ہیں۔ لیکن آپ سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے جس کی طرف آپ کو فوراً متنبہ کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ میرے خیال میں یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ آپ مجھے ’’منصوبۂ پاکستان‘‘ کا حامی قرار دیتے ہیں۔اب(بات یہ ہے کہ) پاکستان میرا منصوبہ نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبۂ صدارت میں جو تجویز پیش کی تھی وہ صرف ایک مسلم صوبہ کی تشکیل ہے۔ یعنی ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک ایسا صوبہ جس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہو۔ یہ نیا صوبہ میرے منصوبہ کے مطابق مجوزہ ہندوستانی فیڈریشن کا ایک حصہ ہوگا۔ جبکہ (اِس نئے) پاکستان کے منصوبے میں ایک جداگانہ وفاق کی تجویز رکھی گئی ہے، جو براہِ راست انگلستان سے مربوط ایک علیحدہ ریاست ہوگی۔ یہ منصوبہ کیمبرج میں پیدا ہوا اوراس کے خالق یہ سمجھتے ہیں کہ ہم راؤنڈٹیبلرز نے مسلم قوم کو ہندوستان کی نام نہاد قومیت کی بھینٹ چڑھادیاہے۔‘‘

اس خط میں اقبال جس خطبۂ صدارت کا ذکرکررہے ہیں وہ اقبال کا مشہورخطبۂ الہ آباد ہے۔ واقعتاً اقبال نے خطبۂ الہ آباد میں ایک مسلم صوبہ تشکیل دینے کی بات کی تھی۔یعنی ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک ایسا صوبہ جس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہو۔ اوریہ نیا صوبہ اقبال کے منصوبے کے مطابق ہندوستانی وفاق کا ہی حصہ ہوتا۔ لیکن تھامپسن کو لکھے گئے اس خط کے تین سال بعد اقبال جب قائدِ اعظم کو خطوط لکھ رہے تھے تو اس وقت اقبال نے نہایت واضح الفاظ میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کے مطالبے کی تجویز پیش کی تھی۔اقبال کے الفاظ تھے کہ،

’’ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حقِّ معاش محفوظ ہو جاتا ہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔‘‘

یہ خطوط جو اقبال نے قائدِ اعظم کو لکھے، اس خط ، یعنی تھامپسن کو لکھے گئے خط کے مندرجات کی ایک لحاظ سے نفی کررہے ہیں۔اس پر مستزاد یہ ہے کہ اقبال نے آزادریاست کے قیام کے حق میں اپنے الفاظ کے ساتھ اس جملے کا بھی اضافہ کیا کہ،

’’ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔‘‘

یعنی اقبال کے ذہن میں سالہاسال سے آزاد ریاست کے قیام کا خیال موجود تھا۔اگر ایسا ہے توپھر تھامپسن کو لکھے گئے خط میں اقبال کا یہ کہنا کہ پاکستان کا منصوبہ میرا منصوبہ نہیں ہے، سمجھ سے باہر ہے۔البتہ تھامپسن کے خط میں اقبال نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان کا وہ منصوبہ جو کیمبرج میں تیار ہوا ہے، اس کے مطابق پاکستان کا مرکز انگلینڈ میں ہوگا۔شاید اس بنا پر اقبال نے اس منصوبے کو اپنا منصوبہ کہنے سے انکار کیا ہو۔ لیکن چونکہ بعد میں اقبال نے آزاد مسلم ریاست کے قیام کا واضح عندیہ دیا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قائدِ اعظم کے پاکستان کا منصوبہ اقبال کا منصوبہ نہیں تھا۔خود قائدِ اعظم نے بھی جب اقبال کے خطوط شائع کروائے تو ان کے دیباچے میں لکھا کہ،

’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ خطوط عظیم تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، خصوصاً وہ جومسلم انڈیا کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے نظریات کو واضح اور غیر مبہم طور پر بیان کرتے ہیں۔ ان کے نظریات بہت حد تک میرے اپنے نظریات سے ہم آہنگ تھے لہٰذا انڈیا جن مسائل سے گزر رہا تھا ان کا احتیاط سے جائزہ لینے اور ان کے مطالعے کے بعد آخر کار انھوں نے مجھے انہی نتائج تک پہنچنے میں راہنمائی کی اور وہی چلتے چلتے مسلم انڈیا کی متحدہ خواہش کی صورت میں 23مارچ1940 کی آل انڈیا مسلم لیگ کی قرار داد لاہور میں ظاہر ہوئے جسے مقبول طور پر ’’قرارداد پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ (ایم۔اے۔جناح)‘‘

نوٹ: یہاں میری طرف سے یہ عرض ضروری ہے کہ اُوپر اقبال کے خط کے اقتباس میں ’’ شریعت اسلام کے نفاذ اور ارتقاء‘‘ کے الفاظ سے اس غلطی فہمی کا احتمال ہے کہ اقبال بھی شاید اپنی مجوزہ آزاد ریاست کو ایک مذہبی ریاست ہی بنانا چاہتے تھے۔میری طرف سے یہ عرض ہے کہ اصل انگریزی خط میں ’’ڈیولپمنٹ اِن شریعہ‘‘ کے الفاظ ہیں، جو نہایت اہم ہیں اور اسی ڈیولپمنٹ اِن شریعہ کی تفصیل پر اقبال کی ایک پوری کتاب، ’’دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ اِن اسلام‘‘ موجود ہے۔ اِسی سلسلۂ مضامین میں سب سے اہم اور سب سے بنیادی چیز جو میں نے آپ لوگوں کے سامنے رکھنی ہے وہ ہے اقبال کا نظریۂ روحانی جمہوریت، جو اقبال کی ’’ڈیولپمنٹ اِن شریعہ‘‘ کی رُوح ہے۔ لیکن یہ سارا موضوع اس سے اگلے مضمون یا اُس سے اگلے مضمون میں آئےگا، تب تک اس نکتے پر صبر سے انتظارفرمایےگا۔

سو، جیسا کہ میں نے تھامپسن کو لکھے گئے اقبال کے خط سے متعلق اپنی گزشتہ پوسٹ میں لکھا تھا کہ دراصل اقبال کی وفات کے بعد قائدِ اعظم بالکل اکیلے ہوگئے تھے اور ان کے اطراف میں مسلم لیگ کے وہی لوگ جو نواب اور سردار تھے یا طبقۂ امرأ سے تھے اور غریبوں کے ہرگز نمائندہ نہیں تھے، بکثرت جمع ہوگئے تھے ۔ یہی وہ لوگ تھے جن سے اقبال ، قائدِ اعظم کو گاہے بگاہے منتبہ کرتے رہے تھے۔ مثلاً اسی خط میں جو میں نے اوپر دیا، اقبال کے مندرجہ ذیل الفاظ بھی موجود ہیں۔ ذرا ملاحظہ کیجیے!

’’ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانانِ ہند کی نازک صورت حال کا آپ کو پورا پورا احساس ہے۔ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی، جنھوں نے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو، ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی۔‘‘

یہاں ذراغورکیجیے! ’’مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑےگا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ’’بالائی طبقوں‘‘ کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی‘‘۔ یہی وہ بالائی طبقہ ہے جو بنگال میں تو کم، لیکن پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ یہ جاگیردار اورسردارلوگ تھے۔ عوام سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جب انگریز کی حکومت تھی تو ان میں سے زیادہ تر مخدوم ، سید، وڈیرے، نواب اورجاگیردار انگریز کے بہی خواہ اور نمک خوار تھے۔ چنانچہ یہ لوگ 1947 میں جب قائدِ اعظم کے چاروں طرف بکثرت جمع ہوگئے تو قائدِ اعظم کو بھی بہت جلد احساس ہوگیا کہ پاکستان کا پروگرام ہائی جیک ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے متعدد مواقع پر فوج کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کی ہدایت کی اور ان سرداروں کو موقع بموقع ڈانٹا اور غیر جمہوری حرکتوں سے منع کیا۔ الغرض قائد اعظم اِن نوابوں اور سرداروں سے قطعاً خوش نہیں تھے۔

میاں عبدالعزیز مالواڈہ علامہ اقبال اورقائدِ اعظم کےرفقأ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ایک موقع پر قائدِ اعظم نے میاں عبدالعزیز سے مخالطب ہوکر کہا، ’’میری جیب میں کھوٹے سکّے ہیں، میں اِن کا کیا کروں؟‘‘۔ یہ وہی کھوٹے سکّے ہیں جوپاکستان بننے کے بعدقائدِاعظم کے اردگرد جمع ہوگئے تھےاورجن کا میں نے اوپرذکرکیا۔یقیناً کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو قائدِ اعظم اور پاکستان کے آخرتک مخلص تھے، خصوصاً سردارعبدالرّب نشتراورنواب لیاقت علی خان یا محترمہ فاطمہ جناح وغیرہ، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ وہ لوگ جو نظریۂ پاکستان کے بنیادی طورپر مخالفین تھے، جیسا کہ دیوبندی علمأ یا وہ لوگ جو تحریکِ پاکستان سے لاتعلق تھے جیسا کہ مولانا مودودی اور اُن کی جماعتِ اسلامی، یا وہ لوگ جو پاکستان بنتا دیکھ کر اس تحریک میں نئے نئے شامل ہوئے تھے ، جیسا کہ فیروز خان نون، سردارعبدالقیوم خان وغیرہ، یہ لوگ نہ تو اصلی اقبالیَن تھے اور نہ ہی اصلی قائدیَن۔ اوریہی لوگ تھے جنہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد پورازورلگا کر اس مُلک کو ایک مذہبی ریاست میں تبدیل کیا۔

نوٹ: یہ سلسلۂ مضامین ابھی جاری ہے۔ زیادہ اہم باتیں ابھی شروع نہیں ہوپائیں۔بیہ تینوں مضامین جو اب تک میں نے پیش کیے، یہ تمہیدی مضامین ہی شمار کیے جائیں۔ بطورپاکستانی ہماری حقیقی قومی شناخت کیاہونی چاہیے، اس کے لیے ہمیں ابھی تھوڑا اورپیچھے کا سفر کرناہے۔ اُمید ہے آپ میرے ساتھ رہیں گے۔ انشااللہ۔باقی اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے!

بہت شکریہ

ادریس آزاد

Address

Media Market, Targhar Road
Khushab
41000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Apna Khushab posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Apna Khushab:

Share